Tag: این میری شمل

  • این میری شمل: ایک جرمن مستشرق کا تذکرہ

    این میری شمل: ایک جرمن مستشرق کا تذکرہ

    جرمن مستشرق این میری شمل نے اردو کے علمی و ادبی سرمائے کو اپنی علمی استعداد اور بصیرت کی بنیاد پر ترجمہ کرکے شعر و ادب کی ترویج اور ترقی میں اپنا کردار ادا کیا اور پاکستان میں مشہور ہوئیں۔

    جرمن اسکالر ڈاکٹر این میری شمل نے کئی اردو ادبا اور شعرا کی تخلیقات کو جرمن زبان میں‌ منتقل کیا۔ این میری شمل کے علاوہ بھی مشرقی علوم و فنون میں دل چسپی رکھنے والے کئی غیرملکی محققین نے بالخصوص ہندوستان میں اردو زبان سیکھنے کے بعد یہاں کے قدیم اور جدید تہذیبی اور ادبی سرمائے اور مشاہیر کی زندگی کے اوراق کو اپنی مادری زبان میں‌ ترجمہ کیا ہے۔ این میری شمل نے بھی شاعرِ مشرق علّامہ اقبال کے علاوہ غالب اور کئی مشاہیرِ ادب کی تخلیقات پر تحقیق کام کیا اور اس مقصد کے لیے پاکستان بھی آتی جاتی رہیں۔ آج اس جرمن مستشرق کا یومِ وفات ہے۔

    ڈاکٹر این میری شمل 1922ء میں جرمنی میں پیدا ہوئیں۔ 19 سال کی عمر میں انھوں نے ‘مملوک خاندان کے مصر میں خلیفہ اور قاضی کا مقام’ کے عنوان سے مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ این میری شمل نے شاعرِ مشرق علاّمہ اقبال کی کتاب جاوید نامہ کا منظوم ترجمہ بھی کیا۔ وہ جرمن اور انگریزی زبان کے علاوہ عربی، فارسی اور اردو زبانوں پر عبور رکھتی تھیں۔

    انھوں نے پاکستان کے ممتاز ادیب اور مؤرخ و محقق پیر علی محمد راشدی، پیر حسامُ الدّین راشدی، غلام ربانی آگرو اور جمال ابڑو کی تصانیف کو بھی جرمن زبان میں منتقل کیا تھا۔

    وہ کئی کتابوں‌ کی مصنّف تھیں۔ مسلم ممالک کی تاریخ اور تہذیب سے لے کر شعر و سخن تک این میری شمل کی کاوشوں سے جرمن زبان میں‌ کئی کتابیں منتقل ہوئیں اور یہ کام ان کی لگن و محنت کا نتیجہ تھا‌۔ تاہم ان پر تنقید بھی جاتی ہے جس کی وجہ اہلِ زبان نہ ہونے کے سبب ان کی تحریروں میں‌ اغلاط یا کمی بیشی ہے، اس کے باوجود ان کے کام کو اہمیت دی گئی ہے۔ وہ پاکستان کی مقامی زبانوں‌ سے بھی خاصی واقف تھیں‌ جن میں‌ سندھی، پنجابی اور دیگر زبانیں شامل ہیں۔ تصوف اور اسلامی تعلیمات میں ان کی دل چسپی بہت زیادہ تھی اور انھوں نے مسلمان صوفی شعرا اور علما کی کتب کا بھی مطالعہ کیا۔

    این میری شمل نے متعدد مرتبہ پاکستان کا دورہ کیا اور علمی و ادبی سرگرمیوں میں وقت گزرا۔ وہ 1992ء میں ہارورڈ یونیورسٹی سے ریٹائر ہوئی تھیں۔ انھوں نے کئی کتابیں ایسے موضوعات پر لکھیں جن پر خود مسلمان اسکالروں نے بہت زیادہ نہیں لکھا تھا۔

    26 جنوری 2003ء کو این میری شمل انتقال کرگئی تھیں۔ انھیں متعدد ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔ پاکستان کے شہر لاہور میں ایک شاہ راہ بھی ان سے موسوم ہے۔

  • ممتاز مستشرق اور اردو زبان و ادب کی دلدادہ این میری شمل کا تذکرہ

    ممتاز مستشرق اور اردو زبان و ادب کی دلدادہ این میری شمل کا تذکرہ

    ممتاز مستشرق، ماہرِ اقبالیات اور جرمن اسکالر ڈاکٹر این میری شمل کو برصغیر پاک و ہند میں اردو زبان سے ان کی محبّت اور شعر و ادب سے لگاؤ کی وجہ سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ انھوں نے مضمون نگاری کے ساتھ اردو زبان کے کئی ادبا اور شعرا کی تخلیقات کا جرمن میں ترجمہ کیا۔

    ڈاکٹر این میری شمل کا تعلق جرمنی سے تھا۔ وہ 1922ء میں پیدا ہوئی تھیں۔ 19 سال کی عمر میں انھوں نے ‘مملوک خاندان کے مصر میں خلیفہ اور قاضی کا مقام’ کے عنوان سے مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ این میری شمل نے شاعرِ مشرق علاّمہ اقبال کی کتاب جاوید نامہ کا منظوم ترجمہ بھی کیا۔ وہ جرمن اور انگریزی زبان کے علاوہ عربی، فارسی اور اردو زبانوں پر عبور رکھتی تھیں۔

    اس جرمن مستشرق نے پاکستان کے ممتاز ادیب اور مؤرخ و محقق پیر علی محمد راشدی، پیر حسامُ الدّین راشدی، غلام ربانی آگرو اور جمال ابڑو کی تصانیف کو بھی جرمن زبان میں منتقل کیا تھا۔

    وہ کئی کتابوں‌ کی مصنّف تھیں۔ مسلم ممالک کی تاریخ اور تہذیب سے لے کر شعر و سخن تک این میری شمل کی کاوشوں سے جرمن زبان میں‌ کئی کتابیں منتقل ہوئیں اور یہ کام ان کی لگن و محنت کا نتیجہ تھا‌۔ تاہم ان پر تنقید بھی جاتی ہے جس کی وجہ اہلِ زبان نہ ہونے کے سبب ان کی تحریروں میں‌ اغلاط یا کمی بیشی ہے، اس کے باوجود ان کے کام کو اہمیت دی گئی ہے وہ پاکستان کی مقامی زبانوں‌ سے بھی واقف تھیں‌ جن میں‌ سندھی، پنجابی اور دیگر زبانیں شامل ہیں۔ تصوف اور اسلامی تعلیمات میں ان کی دل چسپی بہت زیادہ تھی اور انھوں نے مسلمان صوفی شعرا اور علما کی کتب کا بھی مطالعہ کیا۔

    وہ متعدد بار پاکستان آئیں جہاں علمی و ادبی سرگرمیوں میں وقت گزارا۔ ڈاکٹر شمل 1992ء میں ہارورڈ یونیورسٹی سے ریٹائر ہوئی تھیں۔ انھوں نے کئی کتابیں ایسے موضوعات پر لکھیں جن پر خود مسلمان اسکالروں نے بہت زیادہ نہیں لکھا تھا۔

    ان کی زندگی کا سفر 26 جنوری 2003ء کو تمام ہوا۔ جہانِ ادب اور سرکاری سطح پر بھی علمی و ادبی کاوشوں کے اعتراف میں انھیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔ لاہور میں ایک شاہ راہ بھی ان کے نام سے موسوم ہے۔