Tag: ایون فیلڈ ریفرنس

  • ایون فیلڈ ریفرنس: نیب پراسیکیوٹر کے حتمی دلائل مکمل

    ایون فیلڈ ریفرنس: نیب پراسیکیوٹر کے حتمی دلائل مکمل

    اسلام آباد: شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس میں ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب سردار مظفر نے اپنے حتمی دلائل مکمل کرلیے۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر  نے کی۔

    سابق وزیراعظم میاں نوازشریف احتساب عدالت میں پیشی کے بعد عدالت سے روانہ ہوگئے جبکہ نیب پراسیکیوٹر نے حتمی دلائل کا سلسلہ جاری رکھا۔

    نیب پراسیکیوٹرنے سماعت کے آغاز پرکہا کہ کیلبری فونٹ2007 سے پہلےکمرشل استعمال کے لیے نہیں تھا، ریڈلے رپورٹ کے مطابق دستاویزات میں جعلسازی پائی گئی۔

    سردارمظفر نے کہا کہ ریکارڈ پرنہیں اخترریاض یا واجدضیاء کی نوازشریف سے دشمنی ہو، اخترریاض راجہ اور واجد ضیاء کی رشتہ داری ہونا مسئلہ نہیں ہے۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ نوازشریف نے قوم سے خطاب کیا تھا جس میں کہا تھا کرپشن کے پیسے سے جائیداد بنانے والا اپنے نام پرنہیں رکھتا، ان کے قوم سے خطاب کو بطورثبوت پیش کیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ ہماراکیس بھی یہی ہے نوازشریف نے بچوں کے نام جائیداد بنائی، پبلک آفس ہولڈرکرپشن سے جائیداد بناتا ہے تواپنے نام پرنہیں رکھتا۔

    سردار مظفر نے کہا کہ نوازشریف کے لندن فلیٹس کے اصل مالک ہونے کے شواہد پیش کیے۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ ملزمان نے لندن فلیٹس تسلیم کیے ایک مؤقف بھی اپنایا، منی ٹریل سے متعلق ملزمان کا مؤقف درست ثابت نہیں ہوا، دستاویزی شواہد سے ملزمان کے مؤقف کوغلط ثابت کیا۔

    انہوں نے کہا کہ استغاثہ نے ذمہ داری پوری کردی، اب بارثبوت ملزمان پرہے، کوئین بینچ لندن کا 1999 کا فیصلہ تسلیم شدہ ہے، التوفیق کیس میں پارک لین اپارٹمنٹس کواٹیچ کیا گیا۔

    سردار مظفر نے کہا کہ التوفیق سیٹلمنٹ فریقین کی رضامندی سے طے پائی جبکہ کوئین بینچ کے فیصلے سے بھی ثابت ہے فلیٹس ملزمان کے تھے، کوئی اوراصل ٹرسٹ ڈیڈ موجود تھی توعدالت میں پیش ہوتی۔

    ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ دستاویزکودستاویزکے ذریعے مسترد کیا جاتا ہے، جب تک کوئی شواہد نہیں دیں گے ان کی بات نہیں سنی جاسکتی۔

    انہوں نے کہا کہ ایون فیلڈ پر1999میں بھی ان کا قبضہ تھا، انہوں نے سیٹلمنٹ بھی ثابت نہیں کی ، میں نے اپنے دلائل دستاویزات کی بنیاد پردیے۔

    سردار مظفر نے کہا کہ کرپشن کا ملبہ بیوی بچوں کے نام رکھا جاتا ہے، چوری کے پیسے سے بنی جائیداد کوئی اپنے نام نہیں رکھتا۔

    نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے کہا کہ ریڈلے کے بیان پر بطور پراسیکیوشن موجودگی ضروری تھی۔ انہیں جب معلوم ہوا عدالتی حکم ہے تو اعتراض واپس لینا پڑا۔ فلیٹس آف شور کمپنیوں کے ذریعے بنائے گئے۔

    انہوں نے کہا کہ طارق شفیع کو استغاثہ نے شامل تفتیش ہونے کو کہا۔ ملزمان نے بھی طارق شفیع کو پیش نہیں کیا۔ اس کا مطلب ہے طارق شفیع کا مؤقف درست نہیں تھا۔ ثابت کرنا پڑتا اس لیے انہوں نے طارق شفیع کو پیش نہ کیا۔

    سردار مظفر کے دلائل کے بعد احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس پر سماعت منگل تک جبکہ العزیزیہ اسٹیل ریفرنس پر سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

    العزیزیہ اسٹیل ریفرنس میں پیر کو نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث اور مریم نواز کے وکیل امجد پرویز واجد ضیا پر جرح کریں گے۔ جرح مکمل ہونے پر نواز شریف 342 کے تحت بیان قلم بند کروائیں گے۔

    ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث حتمی دلائل دیں گے۔

    نواز شریف، مریم نواز کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد

    خیال رہے کہ گزشتہ روز ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران نوازشریف کمرہ عدالت میں موجود تھے جبکہ ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر مسلسل دوسری سماعت پرغیرحاضر تھے۔

    مسلم لیگ ن کے قائد اور ان کی بیٹی مریم نوازکی جانب سے گزشتہ روز حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ کلثوم نواز کی عیادت کے لیے لندن جانا ہے اس لیے 11 سے 15 جون تک حاضری سے استثنیٰ دیا جائے۔

    نوازشریف اور مریم نواز کی جانب سے درخواست کے ساتھ کلثوم نوازکی نئی میڈیکل رپورٹ بھی منسلک کی گئی تھی۔

    نیب پراسیکیوٹر نے استثنیٰ کی درخواست کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس پر 11 جون کو بحث کرلی جائے، کیس حتمی مراحل میں ہے اور ملزمان کی جانب سے درخوست آگئی ہے۔

    احتساب عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد سابق وزیراعظم اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی استثنیٰ کی درخواست مسترد کردی تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ایون فیلڈ ریفرنس: نواز شریف، مریم نواز کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد

    ایون فیلڈ ریفرنس: نواز شریف، مریم نواز کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران نے نواز شریف اور مریم نواز کی عدالت میں حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کردی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ کیس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔

    سماعت کے دوران سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کی جانب سے حاضری سے استثنیٰ کی درخواستیں دائر کی گئیں۔ درخواستیں 11 سے 15 جون تک حاضری سے استثنیٰ کی ہیں۔

    درخواست کے ساتھ نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز کی نئی میڈیکل رپورٹ بھی منسلک کی گئی ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ کلثوم نواز کی عیادت کے لیے حاضری سے استثنیٰ دیا جائے۔

    پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ استثنیٰ کی درخواست پر 11 جون کو بحث کرلی جائے۔ جج محمد بشیر نے کہا کہ نواز شریف 5 سے 10 منٹ بیٹھ کر جا سکتے ہیں جس کے بعد نواز شریف احتساب عدالت سے روانہ ہوگئے۔

    سماعت میں ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر نے اپنے دلائل کو جاری رکھا۔ سردار مظفر کا کہنا تھا کہ نواز شریف لندن فلیٹ کے اصل مالک ہیں، آف شور کمپنی کے ذریعے اصل ملکیت چھپائی۔ حمد بن جاسم سے حسین نواز کو بیئرر شیئرز کی منتقلی کا ریکارڈ نہیں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سنہ 1993 سے 96 تک حسین نواز طالب علم تھے۔ حسین نواز کے اس وقت کوئی ذرائع آمدن نہیں تھے۔ حسین نواز 1993 سے ان فلیٹس کے قبضے کو تسلیم کر چکے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ فلیٹس کے اس وقت گراؤنڈ رینٹ اور سروسز رینٹ ادا کرتے رہے ہیں۔ مالک نہیں تھے تو انہیں گراؤنڈ رینٹ دینے کی ضرورت نہیں تھی، گراؤنڈ رینٹ ہمیشہ مالک ادا کرتا ہے۔ 2006 میں بیئرر شیئرز چھپانا ممکن نہیں تھا۔

    اپراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ قطری شہزادے کا بیان غیر متعلقہ ہے اہم مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے پھر بھی قطری شہزادے کا بیان ریکارڈ کرنے کی کوشش کی۔

    انہوں نے کہا کہ 24 مئی 2017 کو قطری شہزادے کو بیان ریکارڈ کرنے کے لیے بلایا۔ انہیں طلبی کے نوٹس موصول ہوئے مگر وہ پیش نہیں ہوئے۔ 11 جولائی 2017 کو ان کا دوسرا جواب آیا، تب بھی انہوں نے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہونے سے اجتناب کیا۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ قطری شہزادے سے کہا گیا کہ یہاں نہیں آتے تو ہم پاکستانی سفارتخانے دوحہ آجاتے ہیں تاہم انہوں نے شرائط رکھیں کہ سفارتخانے یا عدالت میں پیش نہیں ہوں گا۔

    سردار مظفر نے کہا کہ رابرٹ ریڈلے نے بطور گواہ اپنی رپورٹ کو درست قرار دیا۔ ریڈلے کے مقابلے میں کسی فرانزک ماہر کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔ مریم نواز نے جے آئی ٹی میں ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپی پیش کی، مریم نواز نے کہا یہ اصل ہے تاہم اس ٹرسٹ ڈیڈ کے حوالے سے دو رائے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ گواہوں کے مطابق دستاویزات میں جعلسازی کی گئی۔ جیرمی کو معلوم تھا ایمانداری سے جواب دیا تو خود بھی ملزم بنے گا۔ جیرمی فری مین نے کہا کہ مزید سوالات کے جواب نہیں دوں گا۔ جیرمی نے جواب دیے نہ ہی ان کے دفاع میں پیش ہوا۔

    سردار مظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسٹیفن مورلے نے دستاویزات نہیں دیکھیں، عمومی رائے دی۔ گلٹ کوپر نے دستاویزات کے جائزے کے بعد رپورٹ تیار کی۔ رپورٹ انتہائی اہم ہے۔ گلٹ کوپر کی ایکسپرٹ رپورٹ عمران خان نے فراہم کی۔

    انہوں نے کہا کہ سامبا بینک کا خط مریم کو فلیٹس کی بینیفشل مالک ہونے سے جوڑتا ہے۔ مریم نواز سامبا بینک کی کسٹمر رہی ہیں۔

    سردار مظفر کا کہنا تھا کہ کیس ہے نواز شریف بے نامی دار کے ذریعے لندن فلیٹس کے مالک ہیں۔ حسین نواز نے انٹرویو میں کہا کہ شرعی طور پر جائیداد والد کی ہے۔ کیلبری فونٹ تجارتی استعمال میں نہیں تھا، ریڈلے نے واضح کہا کہ کیلبری فونٹ تجارتی استعمال میں نہیں تھا۔

    پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ 22 جون 2012 کو موزیک فونسیکا کے مطابق مریم نواز بینیفشل آنر ہیں۔ دستاویزات سے حسین نواز کا 2006 کا مؤقف مسترد ہوجاتا ہے۔ ٹرسٹ ڈیڈ کے تحت حسین کے انتقال کی صورت میں مریم کو جائیداد کی تقسیم کا اختیار ہوگا۔ ٹرسٹ ڈیڈ کا متن ایک طرح وصیت نامے سے ملتا جلتا ہے۔ اسٹیفن مورلے نے ٹرسٹ ڈیڈ دیکھے بغیر اپنی قانونی رائے دی۔

    نیب پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ شواہد سے لندن فلیٹس کی ملکیت اور تحویل ثابت کردی۔ نواز شریف نے تقاریر و خطاب میں کہا جائیداد کاریکارڈ موجود ہے۔ نواز شریف کی تقاریر میں قطری خطوط کا ذکر ہی نہیں تھا۔ فلیٹس خریدتے وقت حسن اور حسین نواز کا ذریعہ آمدن نہ تھا۔ دونوں نواز شریف کے زیر کفالت تھے۔

    انہوں نے کہا کہ ملزمان کے انٹرویوز کو بطور شواہد عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا گیا۔ ملزمان نے عدالت میں جو دفاع پیش کیا وہ جھوٹا ثابت ہوا۔ دستاویزی شواہد سے ملزمان کے مؤقف کو غلط ثابت کردیا۔

    سردار مظفر نے کہا کہ ملزمان کے وکیل حتمی بحث سے بھاگ رہے ہیں۔ کیس کے اس مرحلے پر ملزمان استثنیٰ لے کر فرار ہونا چاہتے ہیں۔ کیس میں نامزد 2 ملزمان پہلے ہی مفرور ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ حسن اور حسین نواز دونوں ہی پیش نہیں ہو رہے۔ اس مرحلے پر ملزمان کو باہر جانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

    بعد ازاں عدالت نے نواز شریف اور مریم نواز کی عدالت میں حاضری سے استثنیٰ کی درخواست مسترد کردی۔ ایون فیلڈ ریفرنس پر مزید سماعت کل صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی گئی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ایون فیلڈ ریفرنس: کیپٹن صفدر کا بیان قلمبند، سماعت 5 جون تک ملتوی

    ایون فیلڈ ریفرنس: کیپٹن صفدر کا بیان قلمبند، سماعت 5 جون تک ملتوی

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران سابق وزیر اعظم نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر نے اپنا بیان قلمبند کروا دیا۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ کیس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔

    سماعت میں کیپٹن صفدر احتساب عدالت پہنچے جبکہ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز  عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔

    عدالت میں نواز شریف اور مریم نواز کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پیش کی گئی۔ درخواست میں کہا گیا کہ نواز شریف اور مریم نواز مصروفیات کے باعث پیش نہیں ہوسکتے۔

    احتساب عدالت کے جج نے کہا کہ اس درخواست پر بعد میں بحث کریں گے۔

    نیب پراسیکیوٹر سردار مطفر نے نواز شریف اور مریم نواز کی عدم حاضری پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ بتایا جائے ملزمان کہاں ہیں؟ وکیل صفائی نے ملزمان کے استثنیٰ کی درخواست بھی نہیں دی۔

    انہوں نے کہا کہ ملزمان کی حاضری ہر صورت ہونی چاہیئے تھی جس پر مریم نواز کے وکیل نے کہا کہ آپ ہم سے نہیں عدالت سے پوچھیں، ہم نے استثنیٰ کی درخواست عدالت میں جمع کروا دی ہے۔

    دوسری جانب کیپٹن ریٹائرڈ صفدر  نے اپنا بیان ریکارڈ کروا دیا۔ گزشتہ روز انہوں نے 128 میں سے 80 سوالات کے جواب دیے تھے، مزید 48 سوالوں کے جوابات آج قلمبند کروا دیے گئے۔

    اپنے بیان میں کیپٹن صفدر کا کہنا تھا کہ واجد ضیا کی جانب سے پیش 12 جون کا خط مجھ سے متعلق نہیں۔ فرد جرم قوانین کے مطابق تصدیق شدہ نہیں۔ موزیک فونسیکا کا خط بھی مجھ سےمتعلق نہیں، خط کو شہادت کے طور پر قبول کرنا شفاف ٹرائل کے خلاف ہوگا۔

    کیپٹن صفدر سے دریافت کیا گیا کہ واجد ضیاکے کیپٹل ایف زیڈ ای سے متعلق سرٹیفکیٹ پر کیا کہیں گے جس پر انہوں نے کہا کہ سرٹیفکیٹ مجھ سے متعلق نہیں، جافزا کے فارم 9 کی کاپی بھی مجھ سے متعلق نہیں، جبکہ واجد ضیا کے پیش اسکرین شاٹس بھی مجھ سے متعلق نہیں۔

    وکیل امجد پرویز نے کہا کہ کیپٹن صفدر کا بہت سی چیزوں سے تعلق ہی نہیں، بہت سی چیزیں ان کی شادی سے قبل کی ہیں۔

    کیپٹن صفدر نے مزید کہا کہ گلف اسٹیل کے 25 فیصد شیئرز کی فروخت میں فریق نہیں رہا، شامل نہ ہونے کی وجہ سے ان معاملات کا ذاتی طور پر علم نہیں۔ طارق شفیع کا 12 ملین درہم دینے کا سوال بھی مجھ سے متعلق نہیں۔

    عدالت نے کیپٹن صفدر سے سوال کیا کہ کیا مریم نواز ایون فیلڈ کی بینفشل آنر ہیں جس پر انہوں نے جواب دیا کہ مریم نواز کا ایون فیلڈ سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں۔

    کیپٹن صفدر نے مزید کہا کہ میں کبھی بھی لندن فلیٹ کا مالک نہیں رہا۔ حسن اور حسین نواز میرے برادر ان لا ہیں جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ شکر ہے کچھ تو مانے ہیں۔

    انہوں  نے کہا کہ حسن اور حسین نواز کا مفرور ہونا میرے خلاف استعمال نہیں کیا جا سکتا، وہ دونوں اپنے کیے کے خود ذمے دار ہیں۔

    کیپٹن صفدر کا مزید کہنا تھا کہ نواز شریف نے صدارتی اختیار کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ اس وقت کے چیف جسٹس مرحوم نسیم نے نواز شریف حکومت کو بحال کیا۔ سال 1993 میں سیاسی انتقام کا دور شروع ہوا۔ اس وقت کے اپوزیشن لیڈر نواز شریف پر مقدمات کا سلسلہ شروع ہوا۔

    انہوں نے کہا کہ چوہدری الطاف اور منظور وٹو کی زیر نگرانی مجھے جھوٹے مقدمے کا سامنا رہا۔ اس وقت سول سروس اکیڈمی میں ڈسٹرکٹ مینجمنٹ تربیت لے رہا تھا، میری گرفتاری کے لیے اس وقت اکیڈمی کی دیواریں پھلانگی گئیں۔

    انہوں نے کہا کہ اصل میں وہ مقدمہ اپوزیشن لیڈر نواز شریف پر دباؤ کی کوشش تھی، وہ مقدمہ سیاسی انتقام کی ابتدا تھی۔

    کیپٹن صفدر کا بیان قلمبند کرنے کے بعد احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کی مزید سماعت 5 جون  تک ملتوی کردی گئی، 5 جون کو وکلا حتمی دلائل دیں گے۔

    مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ واجد ضیا کو کل العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس میں طلب کرلیا گیا۔ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کل واجد ضیا پر جرح کریں گے۔

    اس سے قبل گزشتہ روز اپنے بیان میں کیپٹن صفدر نے کہا تھا کہ گلف اسٹیل سے میرا تعلق نہیں رہا، یہ معاملہ میری شادی سے پہلے کی بات ہے۔

    انہوں نے کہا تھا کہ 1980 کا معاہدہ نہ میں نے فائل کیا نہ ہی میرا کوئی تعلق ہے، حدیبیہ پیپر سے میرا کوئی تعلق نہیں اور جس متفرق درخواست میں یہ معاملہ تھا اس میں فریق نہیں ہوں۔

    کیپٹن صفدر نے کہا تھا کہ کوئین بنچ لندن کا فیصلہ میرے متعلق نہیں، ایون فیلڈ سے بھی میرا تعلق نہیں ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ایون فیلڈ ریفرنس: کیپٹن صفدر اپنا بیان ریکارڈ کرارہے ہیں

    ایون فیلڈ ریفرنس: کیپٹن صفدر اپنا بیان ریکارڈ کرارہے ہیں

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم نوازشریف کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران اپنا بیان قلمبند کروا رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرکررہے ہیں۔

    مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر احتساب عدالت میں موجود ہیں۔

    احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کا بیان قلمبند کیا جا رہا ہے۔

    عدالت میں سماعت کے آغاز پر کیپٹن ریٹائرڈ صفدر نے بتایا کہ ان کی عمر55 سال ہے اور وہ گزشتہ دس سال سے ایم این اے ہیں۔

    نیب پراسیکیوٹرنے کیپٹن صفدرکا بیان ان کے وکیل کی جانب سے لکھوانے پراعتراض کرتے ہوئے کہا کہ آپ سب کےجواب توایک ہی سانچے جیسے ہیں۔

    سردار مظفر نے کہا کہ سوال ملزم سے کیا جائے اورجواب وکیل دے،تینوں ملزمان کےجوابات ایک جیسے ہیں،عدالت کا وقت بچایا جائے۔

    کیپٹن صفدر کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ جب سوال ایک جیسے ہوں گے توجواب بھی ایک جیسے ہی آئیں گے، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہم کسی گواہ سے ملیں تو انہیں اعتراض ہوتا ہے۔

    سردار مظفر نے کہا کہ یہ ملزم کا بیان لکھ بھی لائیں توکوئی مسئلہ نہیں ہے جبکہ گواہ کوملنا بہت بڑا گناہ ہے، ملزمان کے ایک جیسے بیان پرہمیں فائدہ ہے۔

    امجد پرویز نے کہا کہ یہ بحث کی باتیں ہیں، آج میرے موکل کا بیان مکمل نہیں ہوگا، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اتنا فیئرٹرائل کبھی نہیں ہوا۔

    امجد پرویز نے کہا کہ تاریخ گواہ ہے کہ یہ کیا ہے، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ لگتا ہے کیپٹن(ر) صفدرصاحب، آپ سوال پڑھ کرہی نہیں آئے۔

    کیپٹن صفدر نے جواب دیا کہ سوال ہی نہیں پوری تراویح بھی پڑھی ہیں، اب تک 55 سوالات پڑھ چکا ہوں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سوال کیپٹن (ر) صفدرسے ہے جواب ان کے وکیل امجد پرویزدے رہے ہیں، کیپٹن صفدر نے کہا کہ جےآئی ٹی میں 5 گھنٹے کی ریکارڈنگ کی گئی۔

    سابق وزیراعظم کے داماد نے کہا کہ جےآئی ٹی میں باقاعدہ آڈیو ریکارڈنگ کا ریکارڈ موجود ہے، جےآئی ٹی میں اتنا سخت ماحول تھا جیسے جنگی قیدی بیٹھے ہوں۔

    احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کہا کہ انویسٹی گیشن کا اپنا طریقہ ہوتا ہے ہم اس پرابھی بات نہیں کررہے۔ امجد پرویز نے کیپٹن صفدر کو ہدایت کی کہ وہ براہ راست نیب پراسیکیوٹر سے بات نہ کریں۔

    کیپٹن صفدر نے کہا کہ گلف اسٹیل سے میرا تعلق نہیں رہا جس پر معزز جج نے سوال کہ آپ کوگلف اسٹیل کا معلوم ہی نہیں؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ وہ میری شادی سے پہلے کی بات ہے۔

    سابق وزیراعظم کے داماد نے عدالت کو بتایا کہ جب حسین نوازجے آئی ٹی میں پیش ہوا میں اس وقت عمرے پرتھا۔

    انہوں نے کہا کہ 1980کا معاہدہ نہ میں نے فائل کیا نہ ہی میرا کوئی تعلق ہے، حدیبیہ پیپرسے میرا کوئی تعلق نہیں اور جس متفرق درخواست میں یہ معاملہ تھا اس میں فریق نہیں ہوں۔

    کیپٹن صفدر نے کہا کہ کوئین بنچ لندن کا فیصلہ میرے متعلق نہیں، ایون فیلڈ سے میرا تعلق نہیں ہے جس پر احتساب عدالت کے جج نے کہا کہ کچھ توتعلق ہے۔

    انہوں نے کہا کہ مجھے نیب سے طلبی کا نوٹس نہیں ملا، ان کے وکیل نے کہا کہ نوٹس جاری کیا گیا لیکن تعمیل نہیں کرائی گئی، نوٹس جاری ہوتا ہےاورٹی وی پرچلتا ہے۔

    احتساب عدالت کےجج محمد بشیر نے کہا کہ بیان آج مکمل کرلیں جس پرکیپٹن صفدر کے وکیل نے جواب دیا کہ کل صبح 10بجے تک بیان مکمل کردیں گے۔

    کیپٹن صفدر نے بتایا کہ طارق شفیع اورموسیٰ غنی نہ اس کیس میں ملزم ہیں نہ ہی گواہ، عمرے پرجانا چاہتے ہیں مگریہاں عدالتی کارروائی کی سمجھ نہیں آرہی۔

    امجد پرویز نے کہا کہ میری پوری فیملی عمرے پرجانا چاہ رہی ہے، ایک نوٹس میرے متعلق ہو، دوسرا وکیل کیسےعدالتی ریکارڈ پرلاسکتا ہے۔

    سابق وزیراعظم کے داماد نے کہا کہ عدالت میں بیان کے لیے ساری رات تیاری کی، اسسٹنٹ سے سی آرپی سی سے متعلق بنیادی باتوں کا مطالعہ کیا۔

    کیپٹن صفدر نے کہا کہ جےآئی ٹی میں کہا پاناما 58 ٹوبی ہے، مقصدنوازشریف کونکالنا ہے، جے آئی ٹی کوکہا مرضی کا جواب دے کروعدہ معاف گواہ نہیں بنوں گا۔

    عدالت کی جانب سے سوال کیا گیا کہ نوازشریف کی قومی اسمبلی کی تقریرپرکیا کہیں گے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ تقرریوں سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔

    معزز جج نے سوال کیا کہ کیا آپ قومی اسمبلی میں نہیں تھے جس پر ان کے وکیل نے جواب دیا کہ لازمی نہیں میرے موکل اسمبلی گئے ہوں۔

    کیپٹن صفدر نے کہا کہ مجھےکسی تقریرکا لفظ با لفظ یاد نہیں، مشکل سے اپنی تقاریرکے مسودے ٹھیک کرلیتا ہوں، باقی تقاریرمیں دلچسپی نہیں ہوتی۔

    میں معصوم اور بے گناہ ہوں، مریم نواز کا بیان

    خیال رہے کہ گزشتہ سماعت پرسابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز نے اپنا بیان قلمبند کراتے ہوئے احتساب عدالت کی جانب سے پوچھے گئے تمام 128 سوالات کے جوابات دیے تھے۔

    مریم نواز کا کہنا تھا کہ وہ کبھی بھی لندن فلیٹس کی مالک نہیں رہی اور نہ وہ نیلسن اور نیسکول کی بینیفیشل آنر ہیں اور ان کمپنیوں سے کبھی کوئی مالی فائدہ لیا نہ کوئی نفع۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • میں معصوم اور بے گناہ ہوں، مریم نواز کا بیان

    میں معصوم اور بے گناہ ہوں، مریم نواز کا بیان

    اسلام آباد: سابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت میں  128 سوالات کےجوابات ریکارڈ کرا دیے اور کہا کہ میں معصوم اور بے گناہ ہوں, میراقصور یہ نہیں میں نے کوئی کرپشن یا چوری کی، میرا واحد قصور نوازشریف کی بیٹی ہونا ہے۔

    تفصیلات کےمطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی، مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر احتساب عدالت میں موجود ہیں۔

    احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز نے 128 سوالات کے جوابات ریکارڈ کرادیئے۔

    مریم نواز نے سماعت کے آغاز پرعدالت کوبتایا کہ واجد ضیاء کا 3 جولائی2017 کا خط عدالتی ریکارڈ کاحصہ نہیں بن سکتا، خط مبینہ طورپرڈائریکٹر فنانشل ایجنسی نے جےآئی ٹی کوبھیجا۔

    انہوں نے کہا کہ خط براہ راست جے آئی ٹی کوبھیجا گیا جو قانون کے مطابق نہیں ہے، خط میں درج دستاویزات پیش نہیں کی گئیں، جس طرح خط پیش کیا گیا اس کی ساکھ پرسنجیدہ شکوک پیدا ہوتے ہیں۔

    سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ خط لکھنے والے کوپیش کیے بغیرمجھے میری جرح کے حق سے محروم کیا گیا، جرح سے محروم اس لیے کیا گیا تا کہ خط کے متن کی تصدیق نہ کرسکوں۔

    مریم نواز نے کہا کہ خط پرانحصارشفاف ٹرائل کے خلاف ہوگا، خط کے متن کے ساتھ دستاویزات منسلک نہیں کی گئیں، خط کے متن سے ہمیشہ انکار کیا ہے، میں کبھی لندن فلیٹس یا ان کمپنیوں کی بینیفشل مالک نہیں رہی، کمپنیوں سے کبھی کوئی مالی فائدہ لیا نہ کوئی اور نفع لیا۔

    سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ نجی فرم کے خط میں کوئی حقیقت نہیں ہے، موزیک فونسیکا کا 22 جون 2012 کا خط پرائمری دستاویز نہیں، دستاویز مروجہ قوانین کے مطابق تصدیق شدہ بھی نہیں ہے، خط لکھنے والے کوعدالت میں پیش نہ کرکے جرح کے حق سے محروم کیا گیا۔

    مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ شفاف تفتیش بھی شفاف ٹرائل کا حصہ ہے جس پرنیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ انہیں دفاع کے گواہ کے طورپربلا لیں۔ امجد پرویز نے کہا کہ دیکھنا پڑے گا غیر ملکی گواہ کو بلایا بھی جا سکتا ہے یا نہیں۔

    سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ استغاثہ کی طرف سے پیش دستاویزات قابل قبول شہادت نہیں ہے، فرد جرم کے مطابق یہ مکمل طور پر غیر متعلقہ دستاویزات ہیں، کیپٹل ایف زیڈ ای کی دستاویزمجھ سے متعلق نہیں، دستاویزات مذموم مقاصد کے تحت پیش کی گئیں۔

    احتساب عدالت نے مریم نوازسے گلف اسٹیل کے 25 فیصدشیئرز، التوفیق کیس سمجھوتہ، 12 ملین سیٹلمنٹ پرسوال کیا جس انہوں نے جواب دیا کہ میں اس معاملے میں کبھی شامل نہیں رہی، 1980کے معاہدے سے بھی میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ اہالی اسٹیل مل کی مشینری کی سعودیہ منتقلی کا سوال مجھ سے متعلق نہیں ہے۔

    مریم نواز نے کہا کہ لیٹرآف کریڈٹ کے مطابق مشینری شارجہ سے سعودی عرب منتقل ہوئی، جے آئی ٹی نے دبئی حکام کوجان بوجھ کرمعاملے پرگمراہ کیا، 12ملین طارق شفیع کی جانب سے الثانی کودینے میں شامل نہیں رہی، جب کی بات ہو رہی ہے میری عمر6 سال تھی، یو اے ای سے موصول ایم ایل اے قابل اعتباردستاویزنہیں جبکہ گلف اسٹیل کے واجبات سے متعلق ذاتی طور پرعلم نہیں ہے۔

    عدالت نے مریم نوازسے 5 نومبر2016 اور 22 دسمبر کے قطری خطوط کومن گھڑت کہنے پرسوال کیا جس پر انہوں نے جواب دیا کہ واجد ضیاء نے بطور تفتیشی افسر رائے دی جو قابل قبول شہادت نہیں ہے، واجد ضیاء نے اپنی رائے کے حق میں دستاویز بھی پیش نہیں کی، انہوں نے جو رائے دی اور نتیجہ اخذ کیا وہ قابل قبول شہادت نہیں ہے۔

    مریم نواز نے کہا کہ ورک شیٹ کی تیاری سے میرا کوئی لینا دینا نہیں اور تردید کرتی ہوں جعلی دستاویزات میں نے یا کسی اورنے جمع کرائیں، واجد ضیاء نے الزام تعصب اوربدنیتی کی وجہ سے لگایا، واجد ضیاء ہمارے خلاف متعصب ہیں، کوئی ثبوت نہیں قطری شہزادہ میری ہدایت پرشامل تفتیش نہ ہوا، ثابت ہو چکا جے آئی ٹی نے جان کرحماد بن جاسم کا بیان ریکارڈ نہ کیا۔

    انہوں نے عدالت کو بتایا کہ واجدضیاء نے کہا جےآئی ٹی نے سوالنامہ نہ بھیجنے کا فیصلہ کیا، انہوں نے تسلیم کیا جیرمی فری مین کو سوال نامہ بھیجا گیا، ثابت ہو چکا کہ واجد ضیاء قابل اعتبار گواہ نہیں ہیں، وہ مجھے ملوث کرنے کے لیےجھوٹ بول سکتے ہیں، درست ہے میں نے ٹرسٹ ڈیڈ کی اصل نوٹرائز اور مصدقہ کاپی جمع کرائی جبکہ تفتیشی افسرنہ بتاسکے، رپورٹ میں صفحہ 240 سے 290 تک کس نے شامل کیے۔

    انہوں نے عدالت کو بتایا کہ درست نہیں دستاویز مجھے نیلسن اور نیسکول کی بینیفشل مالک کہتی ہیں، بی وی آئی حکام کو دفتر خارجہ کے ذریعے ایم ایل اے نہیں بھیجا گیا، بی وی آئی حکام کا جواب بھی دفتر خارجہ کے ذریعے موصول نہیں ہوا، بی وی آئی حکام سے خط و کتابت مشکوک ہے، میری موزیک فونیسکا سے کبھی کوئی خط وکتابت نہیں ہوئی اور نہ ایون فیلڈ پراپرٹیز چلانے والی کسی کمپنی کی بینیفشل اونر ہوں۔

    وکیل نے کہاکہ بی وی آئی میں سولیسٹرکو انگیج کیا گیامگر معلومات کو خفیہ رکھا گیا، 1990 میں آپکی اتنی آمدن نہیں تھی کہ آپ یہ جائیداد بناتیں، جس پر مریم نواز نے کہا کہ میں جے آئی ٹی کی دستاویزات کو اون ہی نہیں کرتی، چارٹ پر واجدضیا اور جے آئی ٹی ارکان کے دستخط نہیں، میں کبھی بھی لندن فلیٹس کی مالک نہیں رہی، لندن فلیٹس 90کی دہائی کے آغاز میں نہیں خریدے گئے۔

    سماعت کے دوران وکیل نے سوال کیا کہ کہتےہیں حسین نوازکی بھی اتنی آمدن نہیں تھی،کیا کہتی ہیں، جس کے جواب میں مریم نواز نے کہا کہ یہ چارٹ مجھ سےمتعلق نہیں، حسین نواز نےفلیٹس 90کی دہائی کے آغاز میں نہیں خریدے، جےآئی ٹی،تفتیشی افسرنےمنروامینجمنٹ کوشامل تفتیش نہ کیا ، مقصد میرے حق میں آنیوالے حقائق کو چھپانا تھا، استغاثہ بری طرح کیس ثابت کرنے میں ناکام ہوچکا ہے۔

    ایون فیلڈریفرنس پر سماعت میں مریم نواز سے سوال کیا گیا کہ آپ کے خلاف یہ مقدمہ کیوں بنایا گیا ؟ جس پر ان کا کہنا تھا کہ میں جانتی ہوں مجھے مقدمے میں کیوں الجھایا گیا، کیوں واٹس ایپ والی جےآئی ٹی کے سامنے بلا جواز  پیش ہونا پڑا،جانتی ہوں مجھے70سے زائد پیشیاں کیوں بھگتنا پڑیں، پیشیاں جاری ہیں،کینسر زدہ ماں سے ملنے نہیں دیا گیا۔

    مریم نواز کا کہنا تھا کہ مجھےبدعنوانی کی وجہ سے کیس میں ملوث نہیں کیا گیا، پہلی بار نوازشریف آمر کو قانون کے کٹہرے میں لائے، میرا قصور  یہ نہیں میں نے کوئی کرپشن یا چوری کی، میرا واحد قصور نوازشریف کی بیٹی ہونا ہے، ہمارا ایمان ہے سب سے بڑی عدالت اللہ کی ہے، مجھے الجھانے کی بڑی وجہ میرے والد کے اعصاب پر دباؤ ڈالنا ہے۔

    نواز شریف کی بیٹی کا بیان میں کہنا تھا کہ  منصوبہ سازجانتے ہیں باپ بیٹی کارشتہ کتنا نازک ہوتاہے، نواز شریف نے لالچ اور دھمکیوں کو ٹھکرا کر ایٹمی دھماکے کیے، نواز شریف نے پوری جرات سےمشرف کے ظلم سہے،   منصوبہ بنا نوازشریف کی بیٹی پر مقدمے بناؤ،اس کوجے آئی ٹی میں لاؤ،  نواز شریف کی بیٹی کو عدالتوں میں گھسیٹو  پھر نواز شریف جھکے گا۔

    مریم نواز نے اپنی صفائی میں کوئی گواہ پیش نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا کہ نیب کی ناکامی کے بعد صفائی میں گواہ پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔

    عدالت نے مریم نوازسےآخری سوال کیا کہ اپنی صفائی میں مزیدکچھ کہنا چاہتی ہیں، تو مریم نواز کا کہنا تھا کہ میں معصوم اور بے گناہ ہوں ، پاکستان میں کسی خاتون نے اتنی پیشیاں نہیں بھگتنا پڑیں، میرا قصور ہے اپنے باپ کے بیانیے کے ساتھ کھڑی ہوں۔

    مریم نواز نے مزید کہا کہ منصوبہ ساز جانتے ہیں بیٹی کوکٹہرے میں دیکھے گا تو اعصاب جواب دیں جائیں گے، ایسا سوچنے والے نوازشریف کو نہیں جانتے، میرا  باپ 70سال کی بیماریوں کےخلاف علم جہاد لیکر نکلا ہے، نواز شریف عوام کی حاکمیت کا جھنڈا لے کر نکلاہے۔

    نواز شریف کی بیٹی نے اپنے بیان میں کہا کہ نوازشریف ووٹ کوعزت دو کا پرچم لے کر نکلا ہے،  نوازشریف کرسی اقتدار کے لیے نہیں نکلا، نوازشریف بڑے انقلاب و تبدیلی کے لیے نکلا ہے،  ووٹ پر یقین رکھنے والا ہر شخص نواز شریف کے ساتھ ہے،  اس جہاد میں نوازشریف کے ساتھ کھڑی ہوں۔

    انکا مزید کہنا تھا کہ اس پاکستان کی بیٹی ہوں جسے دنیا میں تماشہ بنادیا گیا، سب انتقام کی بھینٹ چڑھ گیا،بیٹیاں سانجھی نہ رہیں، آج دستور ہے بیٹی کو  باپ کی بڑی کمزوری بنا کر استعمال کرو، منصوبہ بنانے والو! نواز شریف کی کمزوری نہیں طاقت ہوں، میں نوازشریف اور پاکستان کی بیٹی ہوں۔

    بعد ازاں احتساب عدالت میں سماعت کل تک ملتوی کردی، کل کیپٹن (ر)صفدراپنا بیان قلمبند کرائیں گے۔

    رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ فرانزک سائنس کےمعیارپرپورا نہیں اترتی‘ مریم نواز

    خیال رہے کہ گزشتہ سماعت پرسابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز کا کہنا تھا کہ رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ حقائق کے منافی ہے جس پرانحصار نہیں کیا جا سکتا۔

    مریم نواز کا کہنا تھا کہ ٹرسٹ ڈیڈ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی تھی اور سپریم کورٹ کی طرف سے دیے گئے سوالات میں ٹرسٹ کا سوال نہیں تھا۔

    سابق وزیراعظم کی صاحبزادی کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی نے اپنے طورپرہی اس معاملے میں کارروائی آگے بڑھائی جس نے بدنیتی کی بنیاد پرنام نہاد آٹی ٹی ماہر سے رائے مانگی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ فرانزک سائنس کےمعیار پرپورا نہیں اترتی‘ مریم نواز

    رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ فرانزک سائنس کےمعیار پرپورا نہیں اترتی‘ مریم نواز

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم کی صاحبزادی مریم نواز ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران مسلسل دوسرے روز اپنا بیان ریکارڈ کرا رہی تھیں۔

    تفصیلات کےمطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرکررہے تھے۔

    مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر احتساب عدالت میں موجود ہیں۔

    احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز کا بیان آج مسلسل دوسرے روز قلمبند کیا جا رہا ہے۔

    مریم نواز نے سماعت کے آغاز پرعدالت کوبتایا کہ لندن فلیٹس حسین نوازکی ملکیت ہیں، نیلسن اورنیسکول کمپنی کے بینیفشل مالک بھی حسین نوازتھے، دونوں کمپنیوں کا ٹرسٹ ڈیڈ کے ذریعے ٹرسٹی بنایا گیا۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کی صاحبزادی نے کہا کہ حسین نوازکےانٹرویوکی سی ڈی، ٹرانسکرپٹ قانون کےمطابق نہیں ہے۔

    انہوں نے عدالت کو بتایا کہ میں نے جے آئی ٹی میں دونوں ڈکلیئریشن پیش کیے، دونوں ڈکلیئریشن نوٹری پبلک سے تصدیق شدہ تھے۔

    مریم نواز نے کہا کہ واجد ضیاء نے جان بوجھ کربدنیتی پرمبنی اورمن گھڑت بیان دیا، واجد ضیاء نے کہا کہ میں نے ٹرسٹ ڈیڈ کی دوبارہ تصدیق کی۔

    سابق وزیراعظم کی بیٹی نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں یہ بات نہیں لکھی کہ مجھے کنفرنٹ کردیا گیا جبکہ عدالت نے مجھے اورشوہرکوشامل تفتیش ہونے کا حکم نہیں دیا تھا۔

    انہوں نے عدالت کو بتایا کہ جےآئی ٹی نےعدالتی ہدایت نہ ہونے پربھی ماہرین کی رائے لی، رابرٹ ریڈلے کی خدمات جی آئی ٹی براہ راست لے سکتی تھی لیکن ان کی خدمات راجہ اختر کے ذریعے لی گئیں۔

    مریم نواز نے کہا کہ خدمات اخترراجہ کے ذریعے لینے کا مقصدرپورٹ پر اثراندازہونا تھا، مقصد مطلب کی رپورٹ لے کرمجھے اورشوہرکوکیس میں ملوث کرنا تھا۔

    سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ ریڈلے کی رپورٹ اسکین کاپی کے ذریعے تیارکی گئی جو قابل قبول نہیں ہے، رپورٹ فرانزک سائنس کے معیارپرپورانہیں اترتی۔

    انہوں نے کہا کہ واجد ضیاء نے ریڈلے رپورٹ کی مجھ سے دوبارہ تصدیق نہیں کرائی جبکہ رپورٹ اس وقت جے آئی ٹی کی پاس موجود تھی۔

    مریم نواز نے کہا کہ نہیں جانتی کب، کن شرائط پرڈکلیئریشن کے سیٹس ریڈلے لیبارٹری کو ملے، نہیں جاتنی، کس شخص نے تصدیقی سرٹیفکیٹ لندن میں پہنچائے۔

    سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ نہیں پتہ کس نے رپورٹ جے آئی ٹی کو دینے کے لیے ریڈلے سے وصول کی جبکہ ٹرسٹ ڈیڈ کی ریڈلے کوترسیل، جےآئی ٹی کو رپورٹ وصولی معمہ ہے۔

    انہوں نے کہا کہ رپورٹ ہفتے کے روزتیارہوئی اورہفتے کولندن میں کام نہیں کیا جاتا، ونڈووسٹا بیٹا ورژن اپریل 2005ء میں دستیاب تھا، اکتوبر 2005ء میں مزید ورژن سامنے آئے۔

    مریم نواز نے کہا کہ رابرٹ ریڈلے نے خود کہا کہ انہوں نے کیلبری فونٹ کوڈاؤن لوڈ کیا، ریڈلے نے تسلیم کیا کیلبری کے خالق کوفونٹ ڈیزائن کرنے پرایوارڈ ملا۔

    سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ ریڈلے کی سافٹ وئیراورکمپیوٹرسائنس میں کوئی کوالی فکیشن نہیں، رابرٹ ریڈلے خود فونٹ کی شناخت کا ماہر نہیں، ریڈلے نے کن معلومات پر رپورٹ تیار کیں، ان ذرائع کا ذکر نہیں ہے۔

    انہوں نے عدالت کو بتایا کہ :رابرٹ ریڈلے نے کسی کتاب، آرٹیکل کا ذکربھی نہیں کیا، رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ انحصار کرنے کے قابل نہیں ہے۔

    مریم نواز نے کہا کہ ریڈلے مقدمے میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لینے والے گواہ ثابت ہوئے جبکہ رپورٹ غیر ضروری جلد بازی میں تیار کی گئی۔

    سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ غیر ضروری جلد بازی کرنا عالمی معیار کے مطابق نہیں ہے، رپورٹ تعصب پر مبنی اور یکطرفہ تھی۔

    انہوں نے عدالت کو بتایا کہ قطری خطوط، منی ٹریل کی ورک شیٹ پرسوال میرے متعلق نہیں، قطری خطوط، ورک شیٹ سے متعلق متفرق درخواستوں میں فریق نہیں ہوں۔

    مریم نواز نے کہا کہ قطری خاندان سے کاروبار، ٹرانزیکشن سے میرا کوئی تعلق نہیں رہا جبکہ استغاثہ کے شواہد سے بھی میرا کاروبارسے کوئی تعلق ظاہرنہیں ہوتا۔

    سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ قطری شہزادے نے جے آئی ٹی میں شامل تفتیش ہونے سے انکار نہیں کیا، وہ اپنے محل میں بیان قلمبند کرانے کے لیے تیار تھا۔

    مریم نواز کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ میرا توکیس یہی ہے کہ میری مؤکل کا کردارصرف ٹرسٹی کا تھا، باقی جو جس نے پیش کیا ہے وہ اس کا جواب دے گا۔

    انہوں نے عدالت کوبتایا کہ ریڈلے رپورٹ کی کوئی اہمیت نہیں وہ ڈکلیئریشن سے تیارہوئی، عدالت کی جانب سے سوال کیا گیا کہ رابرٹ ریڈلے کی دوسری رپورٹ سے متعلق کیا کہیں گی؟۔

    سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے جواب دیا کہ 8 جولائی کی خود ساختہ رپورٹ قابل اعتبار نہیں جبکہ رپورٹ کی تیاری میں کئی کوتاہیاں ہیں معیار پرپورا نہیں اترتی۔

    مریم نواز نے کہا کہ اختر ریاض راجہ نے ڈکلئیریشن ای میل کے ذریعے بھجوائی تھی جبکہ دستاویزات کا فرانزک معائنے کا فوٹو کاپی سے کوئی تصورنہیں۔

    انہوں نے عدالت کو بتایا کہ رابرٹ ریڈلےنے فرانزک معائنے سے معذرت نہیں کی، رابرٹ ریڈلے نے فوٹو کاپی سے ہی معائنہ کیا جس سے اس کی بدنیتی ظاہرہوتی ہے۔

    احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اسفسار کیا کہ یہ جواب کافی طویل نہیں ہو گیا؟ جس پرمریم نواز کے وکیل نے جواب دیا کہ ان کی موکل کو صرف بیان میں بولنے کا موقع ملتا ہے، باقی تو صرف ہم نے ہی بولنا ہوتا ہے۔

    مریم نواز نے کہا کہ ریڈلے نے رپورٹ میں لکھا ٹرسٹ ڈیڈ کیلبری فونٹ میں تیار ہوا، لکھا 2007 سے پہلے کیلبری فونٹ کمرشل استعمال میں نہیں تھا۔

    سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ رابرٹ ریڈلے کی رائے بدنیتی پر مبنی تھی، ریڈلے نے دوران جرح اعتراف کیا کیلبری فونٹ 2005 میں تھا۔

    مریم نواز نے کہا کہ رابرٹ ریڈلے نے خود بھی فونٹ پہلے ڈاؤن لوڈ کررکھا تھا، کہا کمرشل استعمال سے پہلے فونٹ ڈاؤن لوڈ کر کے استعمال کیا جاسکتا تھا۔

    انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ٹرسٹ ڈیڈ کومیری موجودگی میں سیل نہیں کیا گیا، ہوسکتا ہے ٹرسٹ ڈیڈ کی پن اخترراجہ اور جےآئی ٹی نے خود ہٹائی ہو۔

    سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ اخترراجہ کیس میں ضرورت سے زیادہ دلچسپی لینے والے گواہ تھے، ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپی جیرمی فری مین کے دفتر میں موجود تھی۔

    مریم نواز نے کہا کہ اخترراجہ یا نیب افسرنے جیرمی فری مین سے کاپی لینے کی کوشش نہیں کی۔

    انہوں نے کہا کہ پوچھےگئے ٹرانزیکشن، دیگرمعاملات سے متعلق علم نہیں، تسلیم شدہ ہے کہ مجھے 2006ء میں ٹرسٹی بنایا گیا۔

    سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ گلف اسٹیل سے معاہدے دیکھے مگرٹرانزیکشن کا حصہ نہیں رہی، اس لیے اس سے متعلق مجھے کوئی علم نہیں ہے۔

    عدالت کی جانب سے سوال کیا گیا کہ دسمبر 2016 کے قطری خط سے متعلق کیا کہتی ہیں؟ جس پرمریم نواز نے جواب دیا کہ قطری شہزادے نے اپنے خط کے متن کی تصدیق کی ، قطری شہزادے نے جےآئی ٹی کے ہر خط کا جواب دیا۔

    مریم نواز نے کہا کہ قطری شہزادے نے اپنے سپریم کورٹ میں دیے ہرخط کی تصدیق کی، میں ان متفرق درخواستوں میں فریق نہیں تھی، فریق نہیں تھی اس لیے یہ سوال مجھ سے متعلق نہیں ہے۔

    سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ قطر سے کسی قسم کی ٹرانزیکشن ودیگرمعاملات میں شامل نہیں تھی، حدیبیہ ملز ،التوفیق میں کمپرومائز سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔

    انہوں نے عدالت کو بتایا کہ دستاویز فوٹو کاپی پر مشتمل ہے اس لیے قابل قبول شہادت نہیں، ان کارپوریشن سرٹیفکیٹ سے میرا کوئی تعلق نہیں، ان کارپوریشن سرٹیفکیٹ کی کاپی قابل قبول شہادت نہیں ہے۔

    مریم نواز نے کہا کہ جب جمع کرائیں گئیں، میرے وکیل نےاعتراض اٹھایا، اس سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے۔

    سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ کومبر گروپ ڈکلیئریشن غلطی سے متفرق درخواست کے ساتھ لگا، نیلسن اور نیسکول کی ڈکلیئریشن متعلقہ تھیں۔

    انہوں نے کہا کہ اس کی کاپی اگلے دن متفرق درخواست کے ساتھ پیش کی تھی، اسٹیفن موورلے نے قانونی سوال کا جواب دیا، تصدیق کی برطانوی قانون میں ٹرسٹ ڈیڈ کورجسٹرڈ کرانا لازم نہیں ہے۔

    مریم نواز نے کہا کہ نیب اورجے آئی ٹی نے اسٹیفن موورلے کو شامل تفتیش نہیں کیا، نیب نے لندن جا کر بھی اسٹیفن موورلے کو شامل تفتیش نہیں کیا۔

    سابق وزیر اعظم کی صاحبزادی نے احتساب عالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ دو ماہرین کی رائے قابل قبول نہیں ہے، یہ رائے دلچسپی رکھنے والے فریق نے سپریم کورٹ میں جمع کروائی تھی، پیش کردہ رائے کے متن کے مطابق یہ یک طرفہ ورژن ہے، رائے دستاویزکی فوٹو کاپی پربنی، دلچسپی رکھنے والی پارٹی نے دی۔

    ان کا کہنا تھا کہ یو اے ای کی وزارت انصاف نے خط ایم ایل اے کے جواب میں بھیجا تھا، اس ایم ایل اے کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا، یو اے ای کے وزارت انصاف کی جانب سے آنے والے خط سے میرا کوئی تعلق نہیں، 28 جولائی2017 کا خط عربی میں ہے جس کو میں سمجھ نہیں سکتی ہوں۔

    انہوں نے کہا کہ خط مبینہ طور پر بھجوائی گئی ایم ایل اے کے جواب میں موصول ہوا، یہ ایم ایل اے کبھی ریکارڈ پر ہی نہیں لایا گیا، فنانشل انویسٹی گیشن ایجنسی کو لکھا خط عدالت میں کب پیش کیا گیا، خط نیلسن، نیسکول سے متعلق تھا، فوٹو کاپی سے تصدیق کرایا گیا۔

    مریم نواز کا کہنا تھا کہ سامبا فنانشل گروپ کا منروا گروپ کو خط بھی قابل قبول شہادت نہیں، سامبا گروپ کا منروا گروپ کو خط بھی فوٹو کاپی کی مصدقہ نقل ہے۔

    ڈان لیکس کی وجہ سےسول ملٹری تناؤمیں اضافہ ہوا‘ مریم نواز

    خیال رہے کہ گزشتہ روز مسلم لیگ ن کے قائد کی بیٹی مریم نواز نے ایون فیلڈ ریفرنس میں عدالت کی جانب سے پوچھے گئے 128 سوالات میں سے 46 کے جواب دیے تھے۔

    مریم نواز کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کے جمع کردہ شواہد کی روشنی میں ریفرنس دائر کرنے کا کہا اور یہ نہیں کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ کو بطور شواہد ریفرنس کا حصہ بنایا جائے۔

    ایون فیلڈ ریفرنس: نواز شریف نے آخری 4 سوالوں کے جواب دے دیے

    یاد رہے کہ اس سے قبل سابق وزیراعظم نوازشریف نے مسلسل تین سماعتوں کے دوران 128 سوالات کے جواب دیے تھے۔

    پاناما کیس: وزیراعظم نوازشریف نا اہل قرار

    سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق گزشتہ سال 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے تھے۔

    قومی احتساب بیورو کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پرفرد جرم عائد کی گئی ہے۔

    العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نوازشریف اور ان کے دونوں صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ نیب کی جانب سے رواں سال احتساب عدالت میں تین ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئے ہیں جن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس میں نوازشریف کو براہ راست ملزم قرار دیا گیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کوئی قانون پرویزمشرف کےخلاف ٹرائل کونہیں روک سکتا‘ نوازشریف

    کوئی قانون پرویزمشرف کےخلاف ٹرائل کونہیں روک سکتا‘ نوازشریف

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم نوازشریف کا کہنا ہے کہ پرویزمشرف کا ٹرائل ایک نہ ایک دن مکمل ہونا ہے، مشرف کی اس مقدمےسے جان نہیں چھوٹ سکتی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پرصحافیوں سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے نوازشریف نے کہا کہ عمران خان نے پارلیمنٹ کے لیے لعنت کا لفظ استعمال کیا ، جس کو لعنت بھیجی اس کی مراعات کا پورا فائدہ حاصل کیا۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ پرویزمشرف کا ٹرائل ایک نہ ایک دن مکمل ہونا ہے، مشرف کی اس مقدمے سے جان نہیں چھوٹ سکتی، ایسا کوئی قانون نہیں جواس کیس کوروک سکے، غداری کامقدمہ ہے، واپس نہیں ہو سکتا۔

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ یہ ایک کھلا کیس ہے، اسی لیے موصوف پاکستان نہیں آرہے جبکہ ایک وزیراعظم 70 پیشیاں بھگت رہا ہے اور ڈکٹیٹرمفرور ہے۔

    نوازشریف نے کہا کہ پرویز مشرف مُکے دکھاتا تھا اور انہوں نے 12 مئی 2007ء کو کراچی میں آزمائی گئی طاقت کا مظاہرہ کیا اور پارلیمنٹ آئے تو مُکا لہرایا تھا وہ مُکا کہاں گیا؟۔

    سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا کہ باہربزدلی سے بیٹھےہیں، اس سے بہترہے مُکا اپنے منہ پرمارتے۔

    باپ کے سامنے بیٹی کٹہرے میں مقدمہ بھگت رہی ہے‘ نوازشریف

    یاد رہے کہ گزشتہ روز مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کا کہنا تھا کہ ایک باپ کے سامنے بیٹی کٹہرے میں مقدمہ بھگت رہی ہے، بیٹی کا دور دورتک اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں ، جنہوں نے یہ روایات قائم کی، یہ سودا بہت مہنگا پڑے گا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • ایون فیلڈ ریفرنس: نواز شریف نے آخری 4 سوالوں کے جواب دے دیے

    ایون فیلڈ ریفرنس: نواز شریف نے آخری 4 سوالوں کے جواب دے دیے

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران سابق وزیر اعظم نواز شریف نے آخری 4 سوالوں کے جواب دے دیے۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے آخری 4 سوالات کے جوابات دے دیے۔

    نواز شریف کا کہنا تھا کہ میں نے سر جھکا کر سرکاری نوکری کرنے سے انکار کیا، مشرف کا کیس روکنے کے لیے کوئی دباؤ قبول نہیں کیا اور مشرف کے خلاف واضح اور دو ٹوک مؤقف اختیار کیا۔

    انہوں نے کہا کہ عمر بھر کے لیے نا اہلی، سیاست سے آؤٹ کرنا واحد حل سمجھا گیا، مجھے مشورہ نما دھمکیاں دی گئیں، میرا نام پاناما پیپرز میں نہیں تھا۔ سبق سکھانے کے لیے قید کیا گیا کال کوٹھڑیوں میں ڈالا گیا۔

    نواز شریف نے کہا کہ مشرف سے پوچھا جائے افواج کو ذاتی مقاصد کے لیے کیوں استعمال کیا، زرداری اور ایک اہم رہنما میرے پاس آئے۔ دونوں نے مشرف کے غیر آئینی اقدام کی پارلیمنٹ سے توثیق کی بات کی۔ میں نے واضح کیا کہ اقدام آئینی قرار دینے کے بجائے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیئے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ دھرنوں کے ذریعے لشکر کشی کی گئی، پیغام دیا گیا وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہو یا طویل چھٹی پر باہر چلے جاؤ۔ ماتحت اداروں کے ملازم کا وزیر اعظم کو ایسا پیغام افسوس ناک ہے۔ آمریتوں نے پاکستان کے وجود پر گہرے زخم لگائے، آمروں کو بھی سزا ملنی چاہیئے۔

    انہوں نے کہا کہ مسلح افواج کو عزت و احترام سے دیکھتا ہوں۔ فوج کی کمزوری کا مطلب ملک کے دفاع کی کمزوری ہے۔ دفاع وطن ناقابل تسخیر بنانے میں چند گھنٹے تاخیر نہیں کی۔

    نواز شریف کا مزید کہنا تھا کہ مجھے بے دخل اور نا اہل قرار دینے والوں کو تسکین مل گئی ہوگی۔ سسیلین مافیا، گاڈ فادر، وطن دشمن اور غدار کہنے سے فرق نہیں پڑتا۔ میں پاکستان کا بیٹاہوں اس کا ایک ایک ذرہ جان سے پیارا ہے۔ کسی سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینا توہین سمجھتا ہوں۔

    انہوں نے کہا کہ داخلہ اور خارجہ پالیسی منتخب نمائندوں کے ہاتھ میں ہونی چاہیئے۔ 20 سال پہلے بھی وہی قصور تھا جو آج ہے۔ اس وقت بھی پاناما کا وجود تھا نہ آج ہے۔ جمہوریت کا تختہ الٹنے والوں پر بھی سوال اٹھنا چاہیئے۔

    نواز شریف نے مزید کہا کہ ایٹمی دھماکے نہ کرتا تو خطے میں سخت عدم استحکام ہوتا۔ عالمی طاقتوں کی جانب سے 5 ارب ڈالر کا لالچ دیا گیا۔ پاکستان کی سر بلندی وقار اور عزت اربوں ڈالر سے زیادہ عزیز تھی۔ اکتوبر 1999 میں مشرف نے اقتدار پر قبضہ جما لیا۔ 3 نومبر 2007 کو مشرف نے آئین توڑا۔ ملک میں ایمرجنسی نافذ کروائی اور 60 ججوں کو گھروں میں قید کیا۔

    انہوں نے کہا کہ ن لیگ نے مشرف کے غیر آئینی اقدام پر واضح مؤقف اختیار کیا۔ حکومت ملتے ہی مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ دائر کیا۔ مجھے مشورہ دیا گیا کہ ایسا نہ کیا جائے۔

    ان کا کہنا تھا کہ دیکھنا ہوگا 28 جولائی 2017 کے فیصلے نے ملک کو کیا دیا۔ سیاسی عدم استحکام اور بے یقینی کی صورتحال کو ہوا دی گئی، فیصلے سے عدلیہ اور نظام قانون کو کیا ملا؟ سینیٹ میں امیدواروں کو شیر کے نشان کے بجائے بے چہرہ کیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ ریفرنس میں 70 سے زائد پیشیاں بھگت چکا ہوں، جس پٹیشن کو 2 بار ناکارہ اور فضول قرار دیا گیا اسے کیسے معتبر کر دیا گیا۔ کیا جے آئی ٹی کے لیے واٹس ایپ کال، مخصوص افراد کا تقرر نہیں کیا گیا۔ کیا ماضی میں سپریم کورٹ کے کسی جج نے جے آئی ٹی کی نگرانی کی۔ جو جج میرے خلاف فیصلہ دے چکا اسے ہی نگران جج بنا دیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ عدالت اس پر غور کرے کہ پر اسرار کہانی کیا کہہ رہی ہے۔ مائنس ون کا اصول طے پا جائے تو اقامے جیسا بہانہ کافی ہوتا ہے۔ میرا گناہ صرف یہ ہے کہ پاکستان کی بھاری اکثریت مجھے چاہتی ہے۔ آئین کے تحت حاکمیت رہنی چاہیئے میں بھی اسی راستے کا سپاہی ہوں۔ ’عوام پر اپنی مرضی مسلط نہ کریں، ادارے طے شدہ حدود میں رہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ خطرناک قیدیوں کی طرح مجھے زنجیروں سے طیارےکی سیٹ پر باندھا گیا۔ میرا طیارہ واپس پاکستان آیا تو ہوائی اڈے سے ہی واپس کر دیا گیا۔

    اس سے قبل سماعت کے دوران نواز شریف کی جانب سے عدالت میں متفرق درخواست بھی دائر کی گئی جس میں کہا گیا کہ ریفرنسز میں گواہوں کے بعد نواز شریف کا بیان ریکارڈ کیا جائے۔

    درخواست پر ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر نے اعتراض کیا جس کے بعد عدالت نے درخواست مسترد کردی۔

    علاوہ ازیں نواز شریف نے اپنے دفاع میں گواہ لانے سے بھی انکار کردیا۔ انہوں نے کہا کہ استغاثہ میرے خلاف جرم ثابت کرنے میں ناکام رہا۔ میں اپنے حق میں گواہ کیوں لاؤں؟ نیب پراسیکیوشن میرے خلاف کچھ ثابت نہ کر سکی۔

    نواز شریف کا بیان ریکارڈ کرنے کے بعد ایون فیلڈ ریفرنس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔ کل نواز شریف کی صاحبزادی اور داماد مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کا بیان قلمبند کیا جائے گا۔

    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • نوازشریف کا قطری شہزادے سے کاروباری معاملات سے متعلق اظہارلاعلمی

    نوازشریف کا قطری شہزادے سے کاروباری معاملات سے متعلق اظہارلاعلمی

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت جاری ہے جبکہ سابق وزیراعظم نوازشریف آج بھی اپنا بیان ریکارڈ کرا رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرکررہے ہیں۔

    سابق وزیراعظم میاں نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر احتساب عدالت میں موجود ہیں۔

    احتساب عدالت میں آج بھی مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف کا بیان قلمبند کیا جا رہا ہے۔

    نوازشریف کا بیان قلمبند کیا جا رہا ہے

    مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف نے سماعت کے آغاز پرعدالت کوبتایا کہ اخترراجہ ، واجد ضیاء کے کزن ہیں اور ان کا عدالت میں دیا گیا بیان جانبدار تھا۔

    نوازشریف نے کہا کہ جیرمی فری مین کے 5 جنوری2017 کے خط میں ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق ہوئی، انہوں نے نے کومبر گروپ اورنیلسن نیسکول ٹرسٹ کی تصدیق کی۔

    انہوں نے کہا کہ جیرمی فری مین کے پاس ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپی آفس میں موجود تھی جبکہ اخترراجہ، جےآئی ٹی اور تفتیشی افسرنے کاپی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ اخترراجہ کومعلوم ہونا چاہیے کاپی پرفرانزک معائنے کا تصورنہیں، اخترراجہ نے دستاویز خودساختہ فرانزک ماہرکوای میل سے بھجوائیں۔

    نوازشریف نے کہا کہ حقیقت ہے کہ فرانزک ماہر نے فوٹو کاپی پرمعائنے پرہچکچاہٹ ظاہرکی۔

    خواجہ حارث اور نیب پراسیکیوٹرمیں تلخ کلامی

    احتساب عدالت میں سماعت کے دوران نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث اور پراسیکیوٹرنیب سردار مظفرکے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ ملزم کا نہیں وکیل کا بیان قلم بند ہو رہا ہے، لکھا ہوا ہی پڑھنا ہے توعدالت کویو ایس بی میں جوابات دے دیں۔

    سردار مظفرنے کہا کہ 342 کے بیان کا یہ مقصد نہیں ہوتا، عدالت سوال کرے نوازشریف جواب دیں جس پرمعزز جج محمد بشیر نے نوازشریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس کو تسلیم کرتے ہیں؟۔

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ میں اس بیان کو تسلیم کرتا ہوں، میں نے وکیل کے ساتھ مل کریہ بیان تیار کیا ہے، اگر اعتراض کرنا تھا تو پہلے دن کرتے۔

    نوازشریف نے کہا کہ اگر زیادہ دیر کچھ پڑھوں تومیرے گلے میں مسئلہ ہوتا ہے جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ خواجہ حارث جواب پڑھ کرسنا سکتے ہیں، ہونا یہ چاہیے کہ عدالت سوال پوچھے۔

    سردار مظفر نے کہا کہ نوازشریف کو وکیل کی معاونت چاہیے ہوتوبتا دیں، یہ کوئی طریقہ نہیں یہ کل سے پیرا بہ پیرا لکھے جواب دے رہے ہیں۔

    معزز جج محمد بشیر نے سوال کیا کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں وہ بتائیں؟ جس پرنیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ میرا اعتراض عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا لیا جائے۔

    نیب پراسیکیوٹرسردارمظفرکے اعتراض کے بعد سابق وزیراعظم نوازشریف نے خود بیان پڑھنا شروع کردیا۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ قطر سے متعلق کسی ٹرانزیکشن کا حصہ نہیں رہا اور سپریم کورٹ میں جمع ورک شیٹ کی تیاری میں شامل نہیں تھا۔

    انہوں نے عدالت کو بتایا کہ 22 دسمبر 2016 کا قطری شہزادے کا خط اورورک شیٹ تسلیم شدہ ہے جبکہ کیس سے متعلق قطری شہزادے سے کسی خط وکتابت میں شامل نہیں رہا۔

    نوازشریف نے کہا کہ قطری شہزادے نے کبھی کارروائی میں شامل ہونے سے انکارنہیں کیا، انہوں نے سپریم کورٹ میں پیش کیے گئے خطوط کی تصدیق کی۔

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ قطری شہزادے کی آمادگی کے باوجود بیان لینے کی کوشش نہیں ہوئی، انہوں نے بتایا کہ حدیبیہ پیپرزمل اورالتوفیق کے درمیان کسی سیٹلمنٹ کاحصہ نہیں رہا۔

    نواز شریف کے بیان سے پہلے خواجہ حارث نوازشریف کا بیان پڑھ کرلکھواتے رہے جبکہ بیان لکھوانے کےدوران نواز شریف قائد اعظم کی تصویردیکھتے رہے۔

    خواجہ حارث کے بیان لکھوانے پرڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے اعتراض کیا جس پرنوازشریف نے معززجج سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میں لکھواؤں یاخواجہ صاحب ہی لکھوائیں ؟۔

    احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کہا کہ آپ چاہیں تو لکھوا سکتے ہیں جس کے بعد نواز شریف نے بیان خود لکھوانا شروع کردیا۔

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ اختر راجہ نے رابرٹ ریڈلے کی نیب ٹیم سے ملاقات طے کرائی، ملاقات خاص طور پرکیلبری فونٹ سے متعلق تھی۔

    نوازشریف نے عدالت کو بتایا کہ اختر راجہ کے 2 ٹرسٹ ڈیڈ ای میل سے بھیجنے کے مذموم مقاصد تھے جبکہ رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف نے کہا کہ رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ ای میل اورٹرسٹ ڈیڈ کی فوٹو کاپیوں پرتیار ہوئی۔

    نوازشریف نے کہا کہ ہمیشہ کہا دبئی اسٹیل مل کے قیام کے وقت کے سرمائے کا مجھےعلم نہیں، گلف اسٹیل سے متعلق معاہدوں کودیکھا ہے لیکن گلف اسٹیل سے متعلق معاہدوں میں کبھی حصہ نہیں رہا۔

    سابق وزیراعظم نے بتایا کہ رجسٹرآف ٹائٹل کی کاپیزسے استغاثہ کا میرے خلاف کیس نہیں بنتا جبکہ ایون فیلڈ پراپرٹیز کی رجسٹری سے متعلق کاپیاں میں نے داخل نہیں کی۔

    انہوں نے کہا کہ کومبرسے متعلق ٹرسٹ ڈیڈ سے میرا کوئی تعلق نہیں اور نیلسن، نیسکول کی ٹرسٹ ڈیڈ کی تیاری اورجاری کرنے میں شامل نہیں رہا۔

    نوازشریف نے کہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کی ایکسپرٹ رائے قابل قبول شہادت نہیں ہے جبکہ اس گواہ کواستغاثہ کوپیش کرناچاہیے تھا تاکہ جرح ہو پاتی۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ فنانشل انویسٹی گیشن ایجنسی کا خط مجھ سے متعلق نہیں، خط میں کسی بھی معاملے اور ٹرانزیکشن میں شامل نہیں رہا۔

    نوازشریف نے کہا کہ ایف آئی اے، بی وی آئی کا خط قابل قبول شہادت نہیں، ایف آئی اے، بی وی آئی کے خط کوتصدیق کرا کرپیش کیا گیا جبکہ اس فوٹوکاپی کوعدالتی ریکارڈ کاحصہ نہیں بنایا جاسکتا۔

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ ایف آئی اے، بی وی آئی کےنیلسن، نیسکول کوخطوط مجھ سے متعلق نہیں جبکہ سامبا بینک کا منروا کولکھا گیاخط بھی مجھ سےمتعلق نہیں ہے۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ شیزی نقوی کے خط کا متن میرے مؤقف کی تصدیق کرتا ہے، خط کے مطابق حدیبیہ پیپر ملزکے قرض کے حصول سے میرا تعلق نہیں ہے۔

    انہوں نے کہا کہ شیزی نقوی کا خط تصدیق ہے حدیبیہ ملزکی سیٹلمنٹ کا حصہ نہیں رہا۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف نے قطری شہزادے سے کاروباری معاملات سے متعلق لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا ٹرانزیکشن ہوئی خاندان اورقطری شہزادے بہترجانتے ہوں گے۔

    انہوں نے کہا کہ میں کبھی ان معاملات میں ملوث نہیں رہا جبکہ نیلسن اورنیسکول کے کسی معاملے سے بھی میرا کوئی تعلق نہیں۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کا بیان مکمل ہونے کے بعد ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اپنا بیان ریکارڈ کرائیں گے۔

    احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نامزد ملزمان سے الگ الگ سوالات کے جواب طلب کررکھے ہیں۔

    ایسےشواہد پیش نہیں کیےگئے جن سےمیرا لندن فلیٹس سےتعلق ظاہرہو‘ نواز شریف

    خیال رہے کہ گزشتہ روز عدالت میں سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نوازشریف نے 128 سوالات میں سے 55 سوالوں کے جوابات دیے۔

    مسلم لیگ ن کے قائد کا کہنا تھا کہ ایون فیلڈ جائیداد کا حقیقی یا بینیفشرمالک نہیں رہا اورجائیداد خریدنے کے لیے کوئی فنڈ فراہم نہیں کیے۔

    لندن فلیٹس کی منی ٹریل سے متعلق سوال کے جواب میں نوازشریف کا کہنا تھا کہ یہ سوال حسن اور حسین سے متعلق ہیں اور دونوں عدالت میں موجود نہیں ہیں۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا کہ ایسے شواہد پیش نہیں کیے گئے جن سے میرا لندن فلیٹس سے تعلق ظاہرہو۔

    پاناما کیس: وزیراعظم نوازشریف نا اہل قرار

    یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق گزشتہ سال 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے تھے۔

    قومی احتساب بیورو کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پرفرد جرم عائد کی گئی ہے۔

    العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نوازشریف اور ان کے دونوں صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ رواں سال نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں تین ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئے ہیں جن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس میں نوازشریف کو براہ راست ملزم قرار دیا گیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ایسےشواہد پیش نہیں کیےگئے جن سےمیرا لندن فلیٹس سےتعلق ظاہرہو‘ نواز شریف

    ایسےشواہد پیش نہیں کیےگئے جن سےمیرا لندن فلیٹس سےتعلق ظاہرہو‘ نواز شریف

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم میاں نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف آج احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت ہوئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف کل ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرکررہے ہیں۔

    احتساب عدالت میں مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کا بیان کرمنل پروسیجر کوڈ کے سیکشن 342 کے تحت قلمبند کیا گیا۔ نوازشریف سے 128 سوالات پوچھے جائیں گے، تاہم نواز شریف نے آج 55 سوالوں کے جوابات دیے۔ عدالت نے کیس کی سماعت کل 9 بجے تک ملتوی کردی۔

    نوازشریف کا بیان قلمبند کیا گیا

    عدالت میں سماعت کے آغاز پر معززجج محمد بشیر نے سوال کیا کہ آپ کی عمر کتنی ہے جس پر سابق وزیراعظم نوازشریف نے جواب دیا کہ میری عمر68 سال ہے۔

    نوازشریف نے عدالت کو بتایا کہ میں وزیراعلیٰ پنجاب، وزیراعظم پاکستان رہ چکا ہوں۔ انہوں نے جےآئی ٹی سے متعلق سوالوں کا جواب نوازشریف نے پڑھ کرسنایا۔

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ جےآئی ٹی سپریم کورٹ کی معاونت کے لیے تشکیل دی گئی تھی، ان ریفرنسز میں جے آئی ٹی غیرمتعلقہ ہے۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ مجھے جے آئی ٹی کے قابل ممبران پراعتراض تھا، یہ اعتراض پہلے بھی ریکارڈ کرایا، آئین کا آرٹیکل 10 اے مجھے یہ حق دیتا ہے۔

    نوازشریف نے کہا کہ جے آئی ٹی ممبربلال رسول سابق گورنرپنجاب میاں اظہر کے بھانجے ہیں جبکہ حماد اظہرکی عمران خان کے ساتھ 24ستمبر2017 کو بنی گالا میں تصاویرلی گئیں۔

    انہوں نے کہا کہ بلال رسول خود ن لیگ حکومت پرتنقیدی بیانات دے چکے ہیں اور ان کی اہلیہ بھی تحریک انصاف کی سرگرم کارکن ہیں۔

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ جے آئی ٹی ممبر عامر عزیز بھی جانبدار ہیں، سرکاری ملازم ہوتے ہوئے سیاسی جماعت سے وابستگی ہے۔

    نوازشریف نے کہا کہ عامرعزیز، شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنس5 کی تحقیقات میں شامل رہے جو شریف خاندان کے خلاف مشرف دور میں بنایا گیا۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف احتساب عدالت میں تحریری بیان سے پڑھ کر بیان ریکارڈ کرا رہے ہیں۔

    انہوں نے عدالت کو بتایا کہ بلال رسول کی اہلیہ سوشل میڈیا پرپی ٹی آئی کی سرگرم رکن ہیں اور خاوند کے جےآئی ٹی رکن بننے تک وہ پی ٹی آئی کی سپورٹرتھیں۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ عامرعزیز نےمشرف دور میں حدیبیہ پیپرملز کی تحقیقات کی، وہ 2000ء میں شریف خاندان کے خلاف ریفرنس میں تفتیشی افسرتھے۔

    نوازشریف نے کہا کہ سال 2000 میں عامرعزیز بطورڈائریکٹر بینکنگ کام کررہے تھے اور انہیں پرویز مشرف نے ڈیپوٹیشن پرنیب میں تعینات کیا۔

    سابق وزیراعظم نے عدالت کو بتایا کہ مجھے اپنے خلاف پیش کیے گئے شواہد کی مکمل سمجھ آگئی۔

    انہوں نے جے آئی ٹی کی تشکیل پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ آئی ایس آئی ، ایم آئی کے نمائندوں کا جے آئی ٹی میں شامل ہونا درست نہیں تھا۔

    نوازشریف نے کہا کہ 70سال کے سول ملٹری جھگڑے کا بھی جے آئی ٹی کی کارروائی پراثرہوا جبکہ بریگیڈیئر نعمان، کامران کی تعیناتی مناسب نہیں تھی۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ عرفان منگی کی تعیناتی کا کیس تاحال سپریم کورٹ میں ہے، انہیں بھی جے آئی ٹی میں شامل کیا گیا۔

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ بریگیڈیئرنعمان سعید ڈان لیکس جے آئی ٹی میں بھی شامل تھے اور میری معلومات کے مطابق نعمان سعید بطورسورس کام کررہے تھے۔

    نوازشریف نے عدالت کو بتایا کہ جی آئی ٹی نے 10 والیم تیار کیے جو غیر متعلقہ تھے، جےآئی ٹی کی 10والیم پرمشتمل خودساختہ رپورٹ غیرمتعلقہ تھی۔

    انہوں نے کہا کہ خودساختہ رپورٹ سپریم کورٹ میں دائردرخواستیں نمٹانے کے لیے تھی، ان درخواستوں کو بطور شواہد پیش نہیں کیا جا سکتا۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ جےآئی ٹی تفتیشی رپورٹ ہے، ناقابل قبول شہادت ہے۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جےآئی ٹی کے جمع شواہد کے تحت ریفرنس دائرکرنے کا کہا، سپریم کورٹ نے نہیں کہا رپورٹ کوبطورشواہد ریفرنس کا حصہ بنایا جائے۔

    نوازشریف نے کہا کہ جے آئی ٹی نے شاید مختلف محکموں سے مخصوص دستاویزات اکٹھی کیں، یہ تفتیش یکطرفہ تھی۔

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ اختیارات سے متعلق نوٹی فکیشن جے آئی ٹی کی درخواست پرجاری ہوا، جےآئی ٹی سپریم کورٹ کی معاونت کے لیے تھی، اس ریفرنس کے لیے نہیں۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نے عدالت کو بتایا کہ ایون فیلڈ جائیداد کا حقیقی یا بینیفشرمالک نہیں رہا اورجائیداد خریدنے کے لیے کوئی فنڈ فراہم نہیں کیے۔

    نوازشریف نے لند فلیٹس کی منی ٹریل سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ یہ سوال حسن اور حسین سے متعلق ہیں اور دونوں عدالت میں موجود نہیں ہیں۔

    انہوں نے عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا کہ ایسے شواہد پیش نہیں کیے گئے جن سے میر الندن فلیٹس سے تعلق ظاہرہو۔

    عدالت میں گزشتہ سماعت کے آغاز پرنوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا تھا کہ کچھ سوالات ایسے ہیں جن کی سمجھ نہیں آرہی، چاہتے ہیں ملزمان کا بیان بعد میں ریکارڈ کیا جائے۔

    خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ملزمان کے بیانات اگلے ہفتے ریکارڈ کیے جائیں جس پر نیب پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفرنے مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو سوال انہیں سمجھ آرہے ہیں ان کاجواب دے دیں، جوسمجھ نہیں آرہے اس کا جواب بعد میں دیں۔

    سردار مظفرکا کہنا تھا کہ گزشتہ سماعت پربجلی نہیں تھی، پھربھی عدالت نےسوالنامہ بنایا، عدالت نے پنکھے اورلائٹیں بند کیں تا کہ کمپیوٹر چل جائے۔

    نیب پراسیکیوٹرکا کہنا تھا کہ پورا دن لگا کرسوالنامہ تیارہوا، اب یہ مزید وقت مانگ رہے ہیں، ہم توسوالنامہ بھی دینے کوتیار نہ تھے، عدالت نے ان کی سہولت کے لیے سوالنامہ تک انہیں دے دیا۔

    سردار مظفر کا کہنا تھا کہ خواجہ صاحب عدالت کا وقت ضائع کر رہے ہیں، ہم تعاون کر رہے ہیں لیکن خواجہ حارث تعاون نہیں کر رہے۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کے وکیل نے ملزمان کو دیے گئے سوالنامے پراعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ کچھ سوالات درست کرنے ہیں، سمجھ نہیں آرہے۔

    احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ریمارکس دیے تھے کہ پیرکو آخری موقع ہے، ملزمان کے بیانات قلمبند کیے جائیں گے۔

    ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرس میں ملزمان کے بیان کے لیے عدالتی سوالنامہ تیار کیا گیا ہے اور سوالنامے کی کاپی ملزمان کے وکلا کے حوالے کردی گئی ہے، ملزمان اس سوالنامے کی روشنی میں اپنا بیان ریکاڑد کرائیں گے۔

    احتساب عدالت نے کارروائی کو کرمنل پروسیجر کوڈ کے سیکشن 342 کے تحت آغاز کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں ملزمان کو استغاثہ کے گواہان سے جرح کے بعد حتمی فیصلہ دیے جانے سے قبل آخری مرتبہ اپنے دفاع کا اختیار دیا جاتا ہے۔

    ایون فیلڈ ریفرنس : شریف خاندان کےخلاف واجد ضیاء کا بیان قلمبند

    خیال رہے کہ پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس میں نیب کے گواہ تھے اور انہوں نے اپنا بیان قلمبند کرایا تھا۔

    پاناما کیس: وزیراعظم نوازشریف نا اہل قرار

    یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق گزشتہ سال 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے تھے۔

    قومی احتساب بیورو کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پرفرد جرم عائد کی گئی ہے۔

    العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نوازشریف اور ان کے دونوں صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ رواں سال نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں تین ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئے ہیں جن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس میں نوازشریف کو براہ راست ملزم قرار دیا گیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔