Tag: ایوی ایشن انڈسٹری

  • ایوی ایشن انڈسٹری کو کس نے تباہ کیا؟ تحقیقات کی یقین دہانی

    ایوی ایشن انڈسٹری کو کس نے تباہ کیا؟ تحقیقات کی یقین دہانی

    کراچی: خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) نے ملک میں ایوی ایشن کی جانب سے جاری وائٹ پیپر کا نوٹس لے لیا۔

    تفصیلات کے مطابق ایس آئی ایف سی کے جوائنٹ سیکریٹری عطا عمر خلیل نے ایئر کرافٹ اونرز آپریٹرز ایسوسی ایشن سے رابطہ کیا ہے، ذرائع کا کہنا ہے کہ ایس آئی ایف سی کی جانب سے ایوی ایشن انڈسٹری کی تباہی کے ذمہ داروں پر جاری وائٹ پیپر پر ایکشن لینے کی یقین دہانی کرائی گئی۔

    ذرائع کے مطابق جاری ہونے والے وائٹ پیپر پر وزارت ہوا بازی سے جواب طلب کیا جائے گا، ایس آئی ایف سی نے کہا ہے کہ ایوی ایشن صنعت کی تباہی کے ذمہ داروں کے خلاف تحقیقات کر کے رپورٹ وزیر اعظم کو دی جائے گی۔

    ملک میں ایوی ایشن صنعت کی تباہی کا ذمہ دار کون؟ وائٹ پیپر جاری

    ذرائع کا کہنا ہے کہ ایس آئی ایف سی حکام اور ایئر کرافٹ اونرز اینڈ آپریٹرز ایسوسی ایشن کے درمیان یہ پہلا باضابطہ رابطہ ہے، ایس آئی ایف سی ملک میں معاشی استحکام کے لیے سب سے بڑا فورم ہے، جس میں وزیر اعظم اور آرمی چیف شامل ہیں۔

  • ایوی ایشن انڈسٹری کی تباہ کن صورت حال سے متعلق اہم اعلان

    ایوی ایشن انڈسٹری کی تباہ کن صورت حال سے متعلق اہم اعلان

    کراچی: ایئر کرافٹس اونرز اینڈ آپریٹرز ایسوسی ایشن نے ایوی ایشن انڈسٹری کی تباہ کن صورت حال سے متعلق وائٹ پیپر جاری کرنے کا اعلان کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ایئر کرافٹس اونرز اینڈ آپریٹرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ ملک میں ایوی ایشن انڈسٹری کی صورت حال تباہ کن ہو چکی ہے، انڈسٹری کو پہنچنے والے نقصانات سے متعلق جلد ایک وائٹ پیپر جاری کریں گے۔

    بانی ایئر کرافٹس اونرز اینڈ آپریٹرز ایسوسی ایشن عمران اسلم خان نے کہا کہ وائٹ پیپر میں ایوی ایشن انڈسٹری کو نقصانات کی وجوہ اور ذمہ داروں کا بھی بتائیں گے۔

  • سفر کے رجحان میں اضافے سے ایئر لائنز مشکلات کا شکار کیوں ہورہی ہیں؟

    سفر کے رجحان میں اضافے سے ایئر لائنز مشکلات کا شکار کیوں ہورہی ہیں؟

    کرونا وائرس کی وبا میں کمی کے بعد دنیا بھر میں سفر اور سیاحت کے رجحان میں ایک بار پھر اضافہ ہورہا ہے، لیکن ایئر لائنز کی مشکلات ابھی باقی ہیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق دنیا بھر میں سفری پابندیوں میں نرمی، وبا میں کمی اور لوگوں کی بڑی تعداد کو ویکسین لگ جانے کے بعد لوگ گرمیوں کی چھٹیاں منانے کے منصوبے بنا رہے ہیں، تاہم دو برس بند رہنے والی سفری صنعت کو ابھی بھی بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔

    کرونا کی وبا کے باعث دنیا میں بہت سی ایئر لائنز اور ایئر پورٹس کو مسافروں کی بڑھتی تعداد کی ضروریات پوری کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

    اٹلانٹک کے دونوں جانب موجود ممالک میں عملہ کم ہونے کی وجہ سے فلائٹس منسوخ ہو رہی ہیں اور اسٹاف کم ہونے کے باعث ایئرپورٹس پر لمبی لائنز لگی ہیں۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر کوئی سفر پر جانا چاہتا ہے، رواں ہفتے ڈیلٹا ایئر لائنز کے سی ای او ایڈ بیسٹین نے اعلان کیا کہ مارچ کا مہینہ کمپنی کی تاریخ میں سب سے بہتر رہا۔

    اب صورت حال یہ ہے کہ مانگ میں اضافے کے بعد ٹریول انڈسٹری کو اسٹاف کی کمی کا سامنا ہے۔

    امریکا میں گذشتہ برس سے اندرون ملک فضائی سفر بحال ہوچکا ہے، برطانیہ میں بڑے ایئر پورٹس پر افراتفری گزشتہ چند ہفتوں سے معمول کی خبر بن چکی ہے۔

    امریکا اور یورپ میں صورتحال پر نظر رکھنے والے کنزیومر ایڈووکیٹ کرسٹوفر ایلیٹ کا کہنا ہے کہ جو آگے ہونے والا ہے یہ اس کی ایک جھلک ہے، میرے خیال میں صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے۔

    انہوں نے مزید کہا کہ گرمیوں میں افراتفری ہوگی، ایئر لائنز کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ غور سے جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے سٹاف میں کمی کی اور اب فضائی سفر کی طلب میں اضافہ ہوا ہے تو ایئر لائنز مشکل میں آگئی ہیں۔

  • دنیا کی طویل ترین پرواز میں کتنے مسافر سوار تھے؟ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    دنیا کی طویل ترین پرواز میں کتنے مسافر سوار تھے؟ جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    سنگاپور: کرونا وائرس کی تیسری لہر نے ایک بار پھر صنعت ہوا بازی کو شدید طور پر متاثر کیا ہے، وبا کی سنگینی کا یہ عالم ہے کہ دنیا کی طویل ترین پرواز میں مسافر کم تھے اور عملے کے اراکین زیادہ۔

    تفصیلات کے مطابق سنگاپور سے نیویارک کے لیے اڑان بھرنے والی دنیا کی طویل ترین کمرشل پرواز میں صرف 11 مسافر سوار تھے، جب کہ ان کی خدمت پر 13 رکنی عملہ تعینات تھا۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق سنگاپور ایئر پورٹ سے نیویارک ایئر پورٹ کے لیے رات ایک بج کر 26 منٹ پر روانہ ہونے والی سنگاپور ایئر لائن کی کمرشل پرواز پر صرف گیارہ مسافر سوار تھے، یہ تجارتی پرواز ایس کیو 24، سترہ گھنٹے 31 منٹ کا مسلسل طویل ترین سفر طے کر کے اگلی صبح نیویارک پہنچی۔

    طیارے پر سوار ایک شہری نے اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر اس حوالے سے تصاویر بھی اپ لوڈ کیں، اور بتایا کہ طیارے کے عملے نے مسافروں کی تعداد کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔

    اس پرواز کے لیے 2 سال قبل اپریل 2018 میں پہلی اڑان بھرنے والی نئی ایئر بس اے 350 کا استعمال کیا گیا تھا، اس میں مسافروں کی تین کیٹگریز ہیں اور 350 مسافروں کی گنجائش ہے۔

    عملے کے ارکان میں 4 پائلٹس تھے جب کہ 9 کیبن کریو کے ارکان تھے، اس طیارے میں اکانومی کلاس ہی نہیں ہے، اور اس میں 67 بزس کلاس سیٹیں ہیں، اور 94 پریمیئم اکانومی سیٹیں ہیں۔

    گزشتہ برس مشرق وسطیٰ کی ایئر لائنز کو کتنے ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا؟

    سنگاپور ایوی ایشن حکام کے مطابق عام طور پر کم ترین تعداد میں مسافر ہونے پر پرواز منسوخ کر دی جاتی ہے، لیکن کرونا کے سنگین بحران کے باعث ایئر لائنز کو اپنی ساکھ بچانے کے لیے شدید نقصان پر بھی پروازیں چلانی پڑ رہی ہیں۔

    خیال رہے کہ کرونا وبا نے عالمی سطح پر ایوی ایشن انڈسٹری کو شدید طور سے متاثر کیا ہے، کرونا کی پہلی لہر میں صنعت ہوا بازی کو اربوں ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا، جب کہ 2020 میں کرونا وبا کے دوران صرف مشرق وسطیٰ کی ایئر لائنز کو 7.1 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا تھا۔

  • گزشتہ برس مشرق وسطیٰ کی ایئر لائنز کو کتنے ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا؟

    گزشتہ برس مشرق وسطیٰ کی ایئر لائنز کو کتنے ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا؟

    دبئی: فضائی ٹرانسپورٹ کی بین الاقوامی تنظیم نے کہا ہے کہ 2020 میں کرونا وبا کے دوران مشرق وسطیٰ کی ایئر لائنز کو 7.1 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا۔

    تفصیلات کے مطابق انٹر نیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (ایاٹا) نے مشرق وسطیٰ کی حکومتوں پر زور دیا ہے کہ وہ کرونا وبا کے بعد ہوا بازی انڈسٹری کے ری اسٹارٹ کا پلان ترتیب دیں۔

    ایاٹا نے ڈیٹا جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ گزشتہ برس مشرق وسطیٰ کے ایئر لائنز کو فی مسافر 68.47 ڈالرز کا نقصان ہوا، اور 2019 کے مقابلے میں اس دوران ایئر ٹریفک 20 فی صد سے بھی کم رہی، ایاٹا کے مطابق جنوری 2020 کے دوران ایئر ٹریفک جنوری 2019 کے مقابلے میں 82.3 فی صد کم رہی۔

    ایاٹا کا کہنا ہے کہ کرونا کی وبا نے ایوی ایشن انڈسٹری کو جس بحران سے دوچار کیا، اس نے 17 لاکھ ملازمتوں اور 105 بلین ڈالرز مجموعی قومی پیداوار کو خطرے میں ڈالا۔

    تنظیم کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ کے ایئر لائنز نے 2020 کے دوران 4.8 ارب ڈالر حکومتی امداد کی مد میں حاصل کی، اس کے باوجود کئی ایئر لائنز دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار رہیں۔

    ایاٹا کے ریجنل نائب صدر کامل الاعوادی کا کہنا تھا کہ حکومتی امداد نے ہوائی صنعت کو بڑی ناکامیوں سے بچایا لیکن حکومتوں کو مزید خرچ کرنے کے لیے تیار ہونا چاہیے۔

  • مئی کے اختتام تک دنیا کی بیشتر ایئر لائنز کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ

    مئی کے اختتام تک دنیا کی بیشتر ایئر لائنز کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ

    نیویارک: کرونا وائرس کے ایوی ایشن انڈسٹری پر اثرات کے سبب یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ مئی کے اختتام تک دنیا کی بیش تر ایئر لائنز دیوالیہ ہو جائیں گی۔

    تفصیلات کے مطابق ایک امریکی جریدے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کئی ایک ایئر لائنز تکنیکی طور پر دیوالیہ ہو چکی ہیں، ایئر لائنز کے مالی ذخائرمیں تیزی سے کمی آ رہی ہے، ایئر لاینز کے بیش تر طیارے گراؤنڈ ہو چکے اور نصف سے زیادہ پروازیں خالی جا رہی ہیں۔

    رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرونا کی وبا سے عالمی ہوابازی کی صنعت بند ہوتی جا رہی ہے، وائرس کو روکنے کے لیے سفری پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں، اکثر ایئر لائنز کو دیوالیہ ہونے سے بچنے کے لیے حکومتی معاونت کی ضرورت پڑے گی۔

    کرونا وائرس کا وار، ایئر لائنز انڈسٹری کو اربوں ڈالر کا نقصان

    اس سلسلے میں دنیا کی تین بڑی ایئر لائن کمپنیاں اپنی حکومتوں سے مدد کی اپیل کر چکی ہیں، چند یورپی ایئر لائنز کی جانب سے بھی فوری امداد کی اپیلیں کی جا چکی ہیں، امریکی ایئر لائنز نے 50 بلین ڈالرز کے بیل آؤٹ پیکج کی درخواست کی ہے، جب کہ ٹرمپ انتظامیہ ایئر لائنز کی امداد کرنے کے لیے تیار نظر آتی ہے۔ برطانوی ایئر لائنز نے وزیر اعظم کو خط لکھ کر کہا ہے کہ برطانوی ہوابازی صنعت کرونا وائرس کی وبا کے آگے نہیں ٹک سکے گی اگر ایمرجنسی مالی معاونت نہیں کی گئی۔

    دنیا کی بڑی ایئر لائنز پہلے ہی اپنے اکثر طیارے گراؤنڈ کر چکی ہیں، پروازوں میں بھی کمی آ چکی ہے، کئی ایئر لائنز کی جانب سے ملازمین کو کہا گیا ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر بغیر تنخوا چھٹیوں پر چلے جائیں، جب کہ سینئر ایگزیکٹوز تنخواہوں میں کٹوتی کر لیں۔

  • غیر منصفانہ کرائے: پاکستانی ایئر لائنز اور ایوی ایشن شدید متاثر

    غیر منصفانہ کرائے: پاکستانی ایئر لائنز اور ایوی ایشن شدید متاثر

    کراچی: پاکستان کی ایئر لائنز غیر منصفانہ کرایوں کے طریقہ کار کے باعث بری طرح متاثر ہیں جہاں مارکیٹ لیڈر اور قومی ایئر لائن کو ٹیکس سمیت دیگر واجبات کا نادہندہ ہونے کے باوجود سبسڈی اور رعایت فراہم کی جارہی ہے۔

    قومی ایئر لائن کو ملنے والی متعدد سہولیات کے باعث نجی ایئر لائنز اپنے منافع بخش سیکٹر کو بند کرنے پر مجبور ہیں جس کی وجہ سے پاکستانی مسافروں اور ایوی ایشن انڈسٹری پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

    نیشنل ایوی ایشن پالیسی کے مطابق ٹکٹ کی قیمت کی 40 فیصد رقم ٹیکس کی مد میں وصول کی جاتی ہے۔ حال ہی میں ہونے والی پی اے سی کی کارروائی کے مطابق پی آئی اے پرموجودہ واجبات کی کل رقم 5 ارب روپے ہے جو اسے ایف بی آر کو ادا کرنے ہیں۔

    قومی ایئر لائن اس وقت حکومت کو کسی بھی قسم کا ٹیکس ادا نہیں کر رہی اور دوسری جانب اپنے کرایوں کو اس حد تک کم کر رہی ہے کہ نجی ایئر لائنز معاشی وجوہات کی بنا پر اپنے آپریشنز بند کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔

    موجودہ صورتحال میں نجی ایئر لائنز کو ڈومیسٹک روٹس پر نقصان کا سامنا ہے جبکہ بین الاقوامی روٹس پر بھی بہت ہی کم منافع یا پھر بغیر کسی نفع نقصان کے طور پر اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔

    قومی ایئر لائن کی جانب سے غیر منصفانہ قیمتوں کے تعین کی وجہ سے نجی ایئر لائنز کو ٹکٹوں کی مد میں ہونے والی آمدنی کے تناسب میں مسلسل کمی کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے جبکہ ٹکٹوں پر ٹیکس مقرر کردہ رقم پر ہی عائد کیے جا رہے ہیں۔ لہٰذا حکومت کمپنی کی مجوزہ آمدنی میں کمی کے باوجود اربوں روپے ٹیکس کی مد میں کمارہی ہے۔

    اس طریقے کے اقدامات ایوی ایشن سیکٹر کے لیے نقصان کا باعث بن رہے ہیں جو معاشی اعتبار سے سود مند نہیں اور صارفین کے لیے مسابقتی قیمت اور انتخاب کے حوالے سے نقصان دہ ہیں۔

    ایک حالیہ واقعے پر نظر ڈالی جائے تو قومی ایئر لائن نے کوالالمپور اور مانچسٹر کی پروازوں کے لیے رعایتی کرایوں کی پیشکش کی جو آپریشنز کی لاگت سے بھی کم تھی جس کے باعث مقامی نجی ایئر لائن کو مجبوراً اس مارکیٹ میں اپنے آپریشنز کو بند کرنا پڑا۔ بعد ازاں فوراً ہی پی آئی اے نے کوالالمپور اور مانچسٹر کی پروازوں میں اضافہ کر کے کرایوں کو بھی دوگنا کر دیا۔

    قومی ایئر لائن کو ٹیکسز میں سبسڈی دینے کے علاوہ ترجیحی بنیادوں پر پارکنگ کی جگہ اور پروازوں کے لیے سلاٹ فراہم کی جارہی ہے تاہم یہ سبسڈیز حاصل کرنے کے باوجود قومی ایئر لائن کو بھاری نقصان کا سامنا ہے۔

    پی آئی اے کے مجموعی قرضے کا حجم 329 ارب روپے یا 3 ارب 16 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ ادارے کو سالانہ اربوں روپے کے نقصان کا سامنا ہے اور سال 2015 میں قومی ایئر لائن کو 32 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔

    دوسری جانب نجی ایئر لائنز حکومت کو انکم ٹیکس کی مد میں لاکھوں روپے ٹیکس ادا کر رہی ہیں اور حکومت ٹکٹ کی قیمت پر عائد 40 فیصد بالواسطہ ٹیکسز (FED) کی مد میں بھی ماہانہ اربوں روپے کما رہی ہے اور سول ایوی ایشن کو بھی اربوں روپے ادا کیے جارہے ہیں۔ جبکہ پی آئی اے سول ایوی ایشن کا 40 ارب روپے کا نادہندہ ہے۔

    اگر یہ ایئر لائنزاپنا بزنس بند کرنے پر مجبور ہوجائیں تو نیشنل ٹیکس ریوینیو اور ایوی ایشن انڈسٹری خصوصاً پاکستانی مسافروں پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

    اب وقت آگیا ہے کہ اعلیٰ حکام پاکستان کی ایوی ایشن انڈسٹری کے مستقبل کی خاطر قومی ایئر لائن کے احتساب میں اپنا کردار ادا کریں۔ قومی ایئر لائن کی کارکردگی افسوس ناک ہے جس کے باعث ایوی ایشن انڈسٹری زوال پذیر ہے جو پاکستانی مسافروں کے لیے نقصان کا باعث ہے۔

    دوسری جانب پی آئی اے کے ترجمان دانیال گیلانی کا کہنا ہے کہ نجی ایئر لائنز کاروبار میں قدم جمانے کے لیے پہلے خود کرایوں میں کمی کرتی ہیں جس کے بعد مسابقت کے رجحان کے باعث پی آئی اے کو بھی کرایوں میں کمی کا اعلان کرنا پڑتا ہے۔ لیکن بعد ازاں نجی ایئر لائنز کے لیے کرائے کم سطح پر رکھنے میں دققت پیش آتی ہے جس کے لیے پی آئی اے کو مورد الزام ٹھہرانا غلط ہے۔

    انہوں نے یہ بھی کہا کہ پی آئی اے کی جانب سے ٹکٹوں پر حاصل شدہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی باقاعدگی سے ادا کی جاتی ہے۔