Tag: ایٹم بم

  • پُر فضا جزیرے پر ’ایٹم بم‘ مارے جانے کی ہولناک ویڈیو وائرل

    پُر فضا جزیرے پر ’ایٹم بم‘ مارے جانے کی ہولناک ویڈیو وائرل

    انٹرنیٹ پر ایک ہولناک ویڈیو زیر گردش ہے، جس میں ایک پُر فضا جزیرے پر ورچوئل ’ایٹم بم‘ مارے جانے کا منظر دکھایا گیا ہے۔

    ورچوئل رئیلٹی میں کیا گیا ایٹمی دھماکا دکھانے والی اس خوف ناک ویڈیو نے انٹرنیٹ صارفین کو دنگ کر دیا، یہ ویڈیو بتاتی ہے کہ ورچوئل رئیلٹی میں ہمیں ایسی چیزیں دکھانے کی طاقت ہے جس کا ہم کسی بھی صورت میں حقیقت میں تجربہ نہیں کریں گے۔

    اگرچہ یہ ویڈیو ورچوئل رئیلٹی پر مبنی ہے، تاہم بہت سے صارفین کے لیے اسے دیکھنا آسان ثابت نہیں ہوا، اسے دیکھ کر دل پر دہشت طاری ہو جاتی ہے، کہ ایک ایٹمی دھماکا کتنی بربادی لا سکتا ہے۔

    ایک منٹ اور 52 سیکنڈ طویل اس ویڈیو نے انٹرنیٹ کو ہلا کر رکھ دیا ہے، ویڈیو کے ساتھ ایک کیپشن لکھا گیا ہے: ’’ایک ورچوئل رئیلٹی ماحول میں جوہری دھماکا۔‘‘

    ویڈیو میں ایک ورچوئل رئیلٹی ماحول دکھایا گیا ہے، جس میں جوہری بم کے دھماکے سے عین قبل ایک خوش گوار دن پر ایک ساحل کا منظر دکھایا گیا ہے، جیسے ہی دھماکا ہوتا ہے، اسکرین پر سفیدی سی چھا جاتی ہے۔

    توقع کے عین مطابق آس پاس کی سب جگہ سیکنڈوں میں تباہ ہو جاتی ہے، اور ایسا لگتا ہے جیسے ریت کا طوفان اس علاقے سے ٹکرا گیا ہو، پودے اور دیگر نباتات جڑوں سے اکھڑتی نظر آتی ہیں اور جلد ہی دھوئیں اور گرد و غبار کے ایک بڑا بادل آسمان کو لپیٹ میں لے لیتا ہے۔

    ویڈیو کے آخر میں، ہوا میں معلق دھول کے بادل کے ساتھ آسمان تھوڑا سا جامنی رنگ کا ہو جاتا ہے۔

    یہ ویڈیو ایک ماہ قبل یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پوسٹ کی گئی تھی، یہ اب ایک بار پھر وائرل ہو گئی ہے۔ ایک صارف نے لکھا ایسا ہونے کے بارے میں سوچنا بھی خوف طاری کر دیتا ہے۔

  • ہیرو شیما: دنیا کے پہلے ایٹمی حملے کے 75 سال

    ہیرو شیما: دنیا کے پہلے ایٹمی حملے کے 75 سال

    جاپان کے شہر ہیرو شیما پر امریکی ایٹمی حملے کو 75 برس بیت گئے، رواں برس کرونا وائرس کی وجہ سے تقریب میں بہت کم افراد نے شرکت کی۔

    آج سے 75 برس قبل 6 اگست 1945 کی صبح امریکا نے ہیرو شیما پر ایٹم بم گرایا تھا جس کے نتیجے میں 1 لاکھ 40 ہزار افراد لقمہ اجل بنے تھے اور ہزاروں افراد معذور و زخمی ہوگئے تھے۔

    6 اگست کی صبح جاپان اور اس زندگی سے بھرپور شہر کے کسی باسی کو اس تباہی کا ادراک نہ تھا جو امریکی ہوائی جہاز کے ذریعے ایٹم بم کی صورت اس شہر پر منڈلا رہی تھی۔

    جاپان کے مقامی وقت کے مطابق صبح کے 8 بج کر 16 منٹ پر امریکی بی 29 بمبار طیارے نے لٹل بوائے ہیرو شیما پر گرا دیا۔ لٹل بوائے اس پہلے ایٹم بم کا کوڈ نام تھا۔

    ہیرو شیما پر قیامت ڈھانے والا ایٹم بم

    بم گرائے جاتے ہی لمحے بھر میں 80 ہزار افراد موت کی نیند سوگئے، 35 ہزار زخمی ہوئے اور سال کے اختتام تک مزید 80 ہزار لوگ تابکاری کا شکار ہو کر موت کی آغوش میں چلے گئے۔

    اس واقعے کے ٹھیک 6 دن بعد یعنی 15 اگست 1945 کو جاپانی افواج نے ہتھیار ڈال دیے اور دنیا کی تاریخ کی ہولناک ترین جنگ یعنی جنگ عظیم دوئم اپنے منطقی انجام کو پہنچی۔

    ہیرو شیما کے واقعے کے 3 دن بعد امریکہ نے ناگا ساکی پر بھی حملہ کیا، 9 اگست 1945 کو بی 29 طیارے کے ذریعے ناگا ساکی پر ایٹم بم گرایا گیا جس کا کوڈ نام ’فیٹ مین‘ رکھا گیا تھا۔

    جاپانی اعداد و شمار کے مطابق اس حملے میں لگ بھگ 70 ہزار افراد ہلاک ہوئے جن میں 23 سے 28 ہزار افراد جاپانی امدادی کارکن تھے جبکہ ایک بڑی تعداد جبری مشقت کرنے والے کورین نژاد افراد کی بھی تھی۔

    جاپان میں وہ افراد جن کے پاس ایٹمی حملوں میں بچ جانے کا سرٹیفیکٹ تھا انہیں ہباکشا کہا جاتا ہے، صرف ناگا ساکی میں ان کی تعداد 1 لاکھ 74 ہزار 80 بتائی جاتی ہے اور ان کی اوسط عمر 80 برس ہے۔

    ہیرو شیما میں 3 لاکھ 3 ہزار 195 افراد کو ہباکشا کا درجہ حاصل تھا اور ان کی تعداد بھی انتہائی تیزی سے کم ہو رہی ہے، یعنی اب اس واقعے کے عینی شاہد انتہائی قلیل تعداد میں رہ گئے ہیں۔

    ہیرو شیما کی تباہی کی یاد عالمی طور پر منائی جاتی ہے۔ اس روز خصوصی ریلی کے شرکا پیس میموریل تک جاتے ہیں اور مرحومین کی یاد میں پھول رکھے جاتے ہیں۔ آج کے دن کو ایٹمی عدم پھیلاؤ کے عالمی دن کے طور پر بھی منایا جاتا ہے۔

  • ہارا کیرے: سرسبز جزیرے پر باعزت موت!

    ہارا کیرے: سرسبز جزیرے پر باعزت موت!

    دوسری جنگِ عظیم کے دوران جب امریکی فوج نے جاپان کی سَرزمین پر اترنے کا فیصلہ کیا تو اوکیناوا ان کا انتخاب تھا۔

    یہ ایک جزیرہ ہے جس پر قبضہ کرکے اتحادی افواج منصوبہ بندی کے تحت جاپان کو بھرپور نقصان پہنچانا چاہتی تھیں۔ اس جزیرے پر قدم رکھنے سے پہلے امریکی فوج کی جانب سے وہاں‌ بے دریغ بم باری کی گئی۔

     

     

    ایک خوف ناک اور انتہائی ہلاکت خیز معرکہ سَر پر تھا۔ امریکا نے اس مشن کو ‘‘آئس برگ’’ کا نام دیا تھا۔ ایک لاکھ 83 ہزار امریکی فوجیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے جاپان کے 77 ہزار جوان مورچہ بند تھے۔

     

     

    اس جزیرے پر جاپانی فوج کی قیادت لیفٹیننٹ جنرل میتسورو اوشی جیما کر رہے تھے۔ یکم اپریل 1945 کو امریکی فوجی جزیرے پر اُترے تو کسی کو مزاحم نہ پایا۔ دراصل جاپانی فوج نے دفاعی حکمتِ عملی اختیار کی تھی اور خندق میں‌ امریکیوں‌ کی پیش قدمی کا انتظار کررہے تھے۔ اطلاع تھی کہ ساحل پر موجود امریکی بحریہ پر حملہ کرنے کے بعد خشکی پر موجود فوج کے مقابلے کا حکم دیا جائے گا۔

     

     

    ان دنوں موسم خراب تھا، ہر طرف بادل اور کہرا تھا جس کی وجہ سے دور تک کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ جاپانی فوج نے ساحل پر حملہ کیا تو اتحادی فضائیہ نے انھیں شدید نقصان پہنچایا اور چاروں سمت سے جزیرے کی طرف بڑھتے ہوئے شمالی اوکیناوا کے کئى حصوں پر قبضہ کرلیا۔ جاپانی افواج کی جانب سے سخت مزاحمت اور بھرپور دفاع کیا جارہا تھا۔

     

     

    ہفتے مہینوں میں ڈھل رہے تھے۔ ہر طرف لاشیں، فوجی ساز و سامان، تباہ شدہ جہازوں کا ملبا بکھرا ہوا تھا۔ جاپانی فوج نے حکمتِ عملی کے تحت پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا اور یہ کام اس منظم انداز سے کیا کہ کئی دن تک امریکی اسے سمجھنے میں ناکام رہے۔ تاہم اتحادی افواج اور امریکی حملوں نے جاپانی جنرل کو ایک اہم فیصلہ کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔

    اٹھارہ جون کی شام جنرل اوشی جیما نے جاپانی فوج کے نائب چیف کو الوداعی پیغام بھیجا جس کے اختتام پر چند اشعار بھی رقم کیے۔ ان کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ جزیر ے کی سرسبز و شاداب گھاس جو خزاں کے انتظار میں سو کھی ہے، وہ بہار میں دوبارہ معززینِ وطن کے لیے ہری ہوگی۔

     

     

    اس کمانڈر نے ہتھیار نہ ڈالتے ہوئے آخری دَم تک لڑنے کا حکم دیا جس کا مطلب تھا کہ یا تو جوان لڑیں یا پھر خودکُشی کرلیں۔ یہ حکم 19 جون کو دیا گیا تھا، اور چند روز بعد یعنی جون کی بائیس تاریخ کو لیفٹیننٹ جنرل اوشی جیما نے خود کُشی کرلی۔

    یہ ہارا کیرے تھا، یعنی وہ موت جسے باعزت تصور کیا جاتا ہے۔

  • بھارتی وزیر دفاع کا ’ایٹمی حملے کی پالیسی‘میں تبدیلی کا عندیہ

    بھارتی وزیر دفاع کا ’ایٹمی حملے کی پالیسی‘میں تبدیلی کا عندیہ

    نئی دہلی: بھارتی وزیردفاع راج ناتھ نے مسئلہ کشمیر پر ایک اور گیدر بھبکی لگاتے ہوئے ہندوستان کی ایٹمی پالیسی میں تبدیلی کا عندیہ دے دیا ہے، ان کا بیان مسئلہ کشمیر کے ایٹمی  جنگ کا فلیش پوائنٹ  ہونے کے پاکستانی موقف کی تصدیق ہے۔

    تفصیلات کےمطابق بھارتی وزیردفاع راج ناتھ نے اپنے ٹویٹرپیغام میں کہا ہے کہ انڈیا آج تک ایٹمی حملے میں پہل نہ کرنے کی پالیسی پرعمل پیرا ہے لیکن مستقبل میں یہ پالیسی تبدیل بھی ہوسکتی ہے۔

    بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ کا یہ ٹویٹ ایسے موقع پر سامنے آیا ہے جب پاکستان کی درخواست پر آج شام سلامتی کونسل کا مسئلہ کشمیر کو لے کر ہنگامی اجلاس منعقد ہونے جارہا ہے، ان کے اس بیان سے پاکستان کی جانب سے کشمیر کو نیوکلیئر جنگ کا فلیش پوائنٹ قراردینے کے موقف کی تصدیق ہوگئی ہے۔

    بھارت کے وزیر دفاع کی جانب سے کیے گئے ٹویٹ کو بھارتی میڈیا میں نیوکلیئرپالیسی میں تبدیلی کاعندیہ قرار دیا جارہا ہے، یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بھارتی وزیردفاع کااشتعال انگیزبیان خطےکوایٹمی جنگ کی طرف دھکیل رہاہے۔

    ایٹمی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارتی وزیر دفاع کا بیان اشتعال انگیز اور ان کے بیان سے بھارت کی انتہاپسندسوچ ظاہر ہوتی ہے ، ساتھ ہی ساتھ ایٹمی جنگ کےخطرےکی طرف بھی اشارہ ہورہا ہے۔

    یاد رہے کہ بھارت نے سنہ 1974میں پہلی بار’’سمائلنگ بدھا‘‘کےنام سے ایٹمی دھماکہ کرکے جنوبی ایشیا میں ایٹمی ہتھیاروں کی دوڑ شروع کرتے ہوئے دنیا کے امن کو خطرے میں ڈال دیا تھا۔

    بھارت کواس عمل سےبازرکھنے کے لیے اسی سال یعنی سنہ 1974 میں نیوکلیئرسپلائرزگروپ کاقیام عملا میں لایا گیا تاہم بھارت نے اپنی ہٹ دھرمی جاری رکھی اور سنہ 1998میں ایک پھرایٹمی دھماکےکیے۔

    یہ دھماکےایسےوقت کیےگئے تھے جب این پی ٹی اورسی ٹی بی ٹی کے لیے زوردیاجارہاتھا، لیکن بھارت نےعالمی قوانین کی دھجیاں اڑاتےہوئےاقوام عالم کی ایک نہ سنی اور ایٹمی تجربات جاری رکھے۔

    پاکستان اوربھارت کے درمیان مسئلہ کشمیرپرتین بڑی جنگیں ہونے کے سبب اس صورتحال میں پاکستان پرلازم ہوگیا تھاکہ اپنے دفاع کو یقینی بنانے کے لیے ایٹمی قوت حاصل کرے اور اس کا اعلان بھی کرے ، سو 28 مئی 1998 کو پاکستان نے چاغی میں دھماکے کرکے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا جواب دیا۔

    یاد رہے کہ بھارت کی موجودہ حکومت کی جانب سے اکثر اشاروں کنایوں میں ایٹمی پالیسی میں تبدیلی کا تذکرہ کیا جاتا رہا ہے تاہم بھارتی وزیردفاع کے منصب پر فائز راج ناتھ کا سلامتی کونسل کے اجلاس کے موقع پر یہ ٹویٹ اشارہ کررہا ہے کہ بھارت عالمی طاقتوں کو دھمکا رہا ہے کہ اس کے خلاف کسی کارروائی کی صورت میں وہ ایٹم بم کے استعمال سے گریز نہیں کرے گا۔

  • کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم ہیں؟

    کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم ہیں؟

    نیویارک: عالمی ادارے نے دنیا بھر میں موجود ایٹم بموں کی تفصیلات جاری کردیں، رواں سال دنیا بھر میں ایٹم بموں کی تعداد 13 ہزار 865 تک پہنچ گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی ادارے سٹاک ہوم انٹرنیشنل ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے دنیا بھر میں موجود ایٹم بموں کی تفصیلات جاری کردیں، جاری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ رواں سال دنیا بھر میں ایٹم بموں کی تعداد 13 ہزار 865 تک جا پہنچی ہے۔

    رپورٹ کے مطابق کل ایٹم بموں کی تعداد میں امریکا اور روس جوہری بموں کی تعداد کے اعتبار سے سر فہرست ہیں، امریکا کے پاس 6450 اور روس کے پاس 6490 ایٹم بم ہیں۔

    اس کے بعد برطانیہ کے پاس 215، چین کے پاس 280، بھارت کے پاس 140، پاکستان کے پاس 150، رواں برس اسرائیل کی جانب سے 10 مزید ایٹم بم تیار کئے جانے کے بعد اس کے پاس ایٹم بموں کی تعداد 90 تک پہنچ گئی ہے۔

    شمالی کوریا کے پاس 30 جوہری بم موجود ہیں ہیں۔ عالمی ادارے کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کے پاس جوہری اور ہائیڈروجن بموں کی تعداد میں قابل ذکر اضافہ ہوا ہے۔ ان ایٹم بموں کو جنگی طیاروں، میزائلوں اور آبدوزوں کے ذریعے داغا جا سکتا ہے۔

    صہیونی ریاست کے ’جریکو ‘ دیسی ساختہ میزائل خاص طور پر جوہری وار ہیڈ لے جانے کے لئے تیار کیے گئے ہیں جو بین البراعظمی سطح پر مار کر سکتے ہیں۔

    پاک بھارت کشیدگی: دنیا ایک بارپھرایٹمی تصادم کے دہانے پر

    یہ اعداد و شمار ایک ایسے وقت میں جاری کیے گئے ہیں جب امریکا اور اس کے حواری ایران کو جوہری ہتھیاروں کی تیاری اور ان کے حصول سے روکنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔

    ایران کے ایٹمی پروگرام کو روکنے کے لئے 2015ء میں ایک معاہدہ طے پایا تھا تاہم اب امریکا کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ معاہدہ خطرے میں ہے۔

  • جاپان کے شہر ہیرو شیما پر ایٹمی حملے کو 73 برس بیت گئے

    جاپان کے شہر ہیرو شیما پر ایٹمی حملے کو 73 برس بیت گئے

    ٹوکیو: جاپان کے شہرہیرو شیما پر امریکی ایٹمی حملے کو 73 برس بیت گئے۔ آج جوہری تجربات کی روک تھام کا عالمی دن بھی منایا جارہا ہے۔

    آج سے 73 برس قبل 6 اگست 1945 کی صبح امریکا نے ہیرو شیما پر ایٹم بم گرایا تھا جس کے نتیجے میں 1 لاکھ 40 ہزار افراد لقمہ اجل بنے تھے اور ہزاروں افراد معذور و زخمی ہوگئے تھے۔

    6 اگست کی صبح جاپان اور اس زندگی سے بھرپور شہر کے کسی باسی کو اس تباہی کا ادراک نہ تھا جو امریکی ہوائی جہاز کے ذریعے ایٹم بم کی صورت اس شہر پر منڈلا رہی تھی۔

    جاپان کے مقامی وقت کے مطابق صبح کے 8 بج کر 16 منٹ پر امریکی بی 29 بمبار طیارے نے ’لٹل بوائے‘ کو ہیرو شیما پر گرا دیا۔ لٹل بوائے اس پہلے ایٹم بم کا کوڈ نام تھا۔

    بم گرائے جانے کے بعد لمحے بھر میں 80 ہزار انسان موت کی نیند سوگئے، 35 ہزار زخمی ہوئے اور سال کے اختتام تک مزید 80 ہزار لوگ تابکاری کا شکار ہو کر موت کی آغوش میں چلے گئے۔

    ہیرو شیما کی تباہی کی یاد عالمی طور پر منائی جاتی ہے۔ اس روز خصوصی ریلی کے شرکا پیس میموریل تک جاتے ہیں اور مرحومین کی یاد میں پھول رکھے جاتے ہیں۔

    سنہ 1945 میں امریکا کی جانب سے ایٹمی حملوں کے 3 دن بعد جاپان نے ہار تسلیم کرلی اور 15 اگست کو باضابطہ طور پر سرنڈر معاہدے پر دستخط کردیے تھے۔

  • پانچ معمولی غلطیاں، جنھوں نے تاریخ کا رخ بدل دیا

    پانچ معمولی غلطیاں، جنھوں نے تاریخ کا رخ بدل دیا

    کیا آپ کو لگتا ہے کہ ایک معمولی غلطی، جیسے کوئی چابی کھو جانا، کسی لفظ کا غلط ترجمہ یا ڈرائیونگ کے دوران ایک غلط موڑ تاریخ کا دھارا بدل سکتا ہے؟

    شاید آپ کا جواب نفی میں ہو۔ اس نوع کی غلطیاں تو ہم روز ہی کرتے ہیں۔ بھلا یہ اتنی خطرناک اور اثر انگیز کیسے ہوسکتی ہیں؟ مگر سچ یہی ہے جناب۔ انسانی تاریخ پر چند معمولی غلطیوں نے ان مٹ نقوش چھوڑے۔ یہاں ایسی ہی پانچ غلطیوں کا جائزہ لیا جارہا ہے۔

    ٭ کیوں ہوا ہیروشیما پر ایٹمی حملہ؟

    ہیروشیما پر گرایا جانے والا ایٹم بم انسانی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ ہے، جس نے نہ صرف ہزاروں زندگیاں نگل لیں، بلکہ کئی نسلوں کو متاثر کیا۔ حیرت انگیز امر یہ ہے کہ یہ حملہ فقط غلط فہمی کی وجہ سے رونما ہوا۔

    قصہ کچھ یوں ہے کہ دوسری جنگ عظیم میں اتحادی فوج کی جانب سے محوری قوتوں (جرمنی، جاپان، اٹلی) سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ کیا۔

    اس کے جواب میں جاپانی وزیر اعظم کانتروسوزوکی نے جاپانی زبان کا لفظ Mokusatsu استعمال کیا، جس کے معنی تھے :” میں اس پر غور کروں گا۔

      المیہ یہ رہا کہ اس لفظ کا ایک معنی خاموشی سے قتل کرنا یا رعونت سے نظرانداز کرنا بھی تھا۔ اتحادی فوج میں تعینات مترجم کی غلطی کے باعث امریکا اسے دھمکی سمجھا ، جس کے نتیجے میں امریکا نے جاپان پر ایٹم بم داغ دیا۔

    ٭ جب روس نے خزانہ کوڑیوں کے مول بیچ دیا


    گو سرد جنگ کی وجہ سے روس اور امریکا کو ایک دوسرے کا دشمن تصور کیا جاتا ہے، مگر ان کے درمیان کاروباری معاہدوں کی تاریخ بھی موجود ہے۔ اور ایک معاہدہ تو ایسا ہے، جس پر روس کو بعد میں بہت پچھتانا پڑا۔ الاسکا کی فروخت ایسا ہی معاملہ تھا۔ کینیڈا کے شمال مغرب میں موجود یہ ریاست 19 ویں صدی میں روس کا حصہ ہوا کرتی تھی۔

    سلطنت سے دور اور بے آباد ہونے کی وجہ سے یہ خطہ روسی خزانے پر بوجھ تھا، مگر اس زمانے میں پے در پے جنگوں کی وجہ سے روس شدید مالی مسائل سے دوچار تھا۔ سو اس نے فقط 7 ملین کے عوض اسے امریکا کو فروخت کر دیا۔

    یہ فیصلہ بعد میں غلط ثابت ہوا، کیوں کہ امریکی ماہرین اور سائنس دانوں کو جلد احساس ہوگیا کہ الاسکا معدنی ذخائر سے مالامال ہے۔ آج ان ذخائر کی مالیت کئی بلین ڈالرز میں ہے۔

    ٭مریخ کے پراسرار باشندے


    خلائی مخلوق کا تصور صدیوں پرانا ہے، مگر یہ تصور کہ ہمارے قریبی سیارے مریخ پر بھی خلائی مخلوق کا بسیرا ہے، دراصل اطالوی ہیئت داں کے الفاظ کی غلط تفہیم سے پیدا ہوا۔ 1877 میں مریخ پر تحقیق کرنے والے ایک اطالوی ہیئت داں نے سیارے کی سطح پر نظر آنے والی لکیروں کے لیے جو لفظ استعمال کیا تھا، وہ کینال یعنی انگریزی لفظ نہروں کے قریب تر تھا۔ امریکی ماہرفلکیات نے برسوں بعد جب اس کی تحریر پڑھی، تو وہ سمجھا، محقق اس طرز کی نہروں کا تذکرہ کر رہا ہے، جیسی نہریں انسان زمین پر کھودتے ہیں۔ اسی سے اس خیال نے جنم لیا کہ ضرور مریخ پر بھی کوئی مخلوق آباد ہوگی اور پھر یہ تصور پوری دنیا میں پھیل گیا۔

    یہ بھی پڑھیں: اسکول میں دوبارہ پراسرار مخلوق کی موجودگی؟ ویڈیو وائرل

    ٭چابی، جو ٹائی ٹینک کو بچا سکتی تھی


    عشرے گزر جانے کے باوجود ٹائی ٹینک کی غرقابی آج بھی موضوع بحث ہے۔ یوں تو اس کے کئی اسباب ہیں، مگر اس کا بڑا سبب ایک اعلیٰ عہدے دار کی معمولی غلطی تھی۔ وہ افسر، جس کے پاس کیبنٹ کی چابیاں تھیں، جہاں دوربین رکھی جاتی تھیں، اُسے آخری وقت میں، نامعلوم وجوہات کے باعث عملے سے الگ کر دیا گیا۔ شومئی قسمت وہ شخص اپنی جگہ آنے والے افسر کو اس الماری کی چابی فراہم کرنا بھول گیا اور ٹائی ٹینک اپنے سفر پر روانہ ہوگیا۔ دوربین نہ ہونے کے باعث عرشے پر تعینات افسر وہ برفانی تودا نہیں دیکھ سکا۔ اس کا نتیجہ ایک ہولناک حادثہ کی صورت نکلا۔

    ٭ جنگ کے دنوں میں بیوی کی سال گرہ


    دوسری جنگ عظیم کے دوران 6 جون 1944 کو(جسے ڈی ڈے کہا جاتا ہے) اتحادی فوج نے شمال مغربی یورپ کو نازی فوج سے آزاد کروانے کے لیے نارمنڈی کے ساحل پر اپنی فوج اتاری۔ بہ ظاہر جرمن فوج پوری طرح تیار تھی۔ بس، ان کا کمانڈر غائب تھا۔ وہ اپنی بیوی کی سال گرہ کی وجہ سے چھٹی پر تھا۔ اس کی عدم موجودگی اتحادی فوج کے حق میں گئی، جس نے فرنچ ساحل پر قبضہ کر لیا اور اسی سے ان واقعات کا سلسلہ شروع ہوا، جو جرمنی کی شکست پر منتج ہوا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • کیا ہوگا اگر زمین پر 100 ایٹم بم ایک ساتھ پھٹ جائیں؟

    کیا ہوگا اگر زمین پر 100 ایٹم بم ایک ساتھ پھٹ جائیں؟

    کیا آپ جانتے ہیں دنیا بھر میں اس وقت 16 ہزار سے زائد فعال جوہری میزائل موجود ہیں جو لمحوں میں کسی شہر کو مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کرسکتے ہیں۔

    اور اگر ان میں سے صرف 100 میزائل ایک ساتھ چل پڑیں تو زمین کا کیا حشر ہوگا؟ آئیں جانتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: اگر انسان زمین سے غائب ہوجائیں تو کیا ہوگا؟


    پہلا ہفتہ

    ہمارے ماحول میں 5 میگا ٹن سیاہ کاربن پھیل جائے گا۔

    یہ کاربن فضا سے سورج کی شدید حرارت اپنے اندر جذب کرتا ہوا زمین پر آئے گا اور زمین اور آسمان کا مشاہداتی رابطہ منقطع ہوجائے گا۔


    دوسرا ہفتہ

    سیاہ کاربن کی وجہ سے زمین گہرے اندھیرے میں ڈوب جائے گی کیونکہ کاربن سورج کی روشنی کو بھی زمین پر پہنچنے سے روک دے گا۔

    بموں میں موجود کیمیائی اجزا ہمارے سروں کے اوپر قائم اوزون تہہ، جو ہمیں سورج کی تابکار شعاعوں سے بچاتی ہے، کو بالکل کھا جائے گی۔

    اس کے بعد سورج اور خلا سے زمین پر آنے والی تابکار شعاعوں میں 80 سے 120 فیصد اضافہ ہوجائے گا۔


    دو ماہ بعد

    دو ماہ بعد زمین کا درجہ حرارت اس قدر کم ہوجائے گا کہ ہر جگہ کا درجہ حرارت اوسطاً منفی 25 ڈگری سینٹی گریڈ رہے گا جو گرم علاقوں کے لوگوں کے لیے ناقابل برداشت ہوگا۔

    درجہ حرارت میں اس قدر کمی کی وجہ سے بارشوں کی مقدار بھی بے حد کم ہوجائے گی۔

    زمین سے ہر قسم کی نباتات (پودے اور درخت) ختم ہوجائیں گے اور ان کے ڈی این اے بھی مرنا شروع ہوجائیں گے جس کے بعد اگلے کئی عشروں تک مزید کسی نباتات کی افزائش کا امکان بھی ختم ہوجائے گا۔


    دو سال بعد

    زمین سے ہر طرح کے پودے ختم ہوجانے کے بعد صرف 2 سال کے اندر 2 ارب افراد غذائی قلت، بھوک اور پھر موت کا شکار ہوجائیں گے۔

    زمین کا زیادہ تر حصہ نہایت سرد اور ناقابل رہائش ہوگا۔


    پانچ سال بعد

    زمین کی فضا کے اوپر قائم اوزون تہہ خود بخود رفو ہونا شروع ہوجائے گی مگر اب جو اوزون تہہ ہمارے پاس ہوگی وہ پہلی والی اوزون تہہ سے 25 فیصد پتلی ہوگی۔

    ان عظیم دھماکوں میں زندہ بچ جانے والے افراد بڑی تعداد میں جلد کے جان لیوا کینسر کا شکار ہوجائیں گے۔


    دس سال بعد

    اوزون کی رفو گری کا عمل جاری رہے گا اور اس کی موٹائی میں کچھ اضافہ ہوجائے گا اور یہ پرانی تہہ سے صرف 8 فیصد پتلی رہ جائے گی۔


    بیس سال بعد

    زمین کا درجہ حرارت گرم ہونا شروع ہوگا تاہم ابھی بھی یہ موجودہ درجہ حرارت کے مقابلے میں بے حد سرد ہوگا۔

    بیس سال بعد پودے بھی اگنا شروع ہوجائیں گے تاہم ان کی افزائش کی رفتار نہایت سست ہوگی اور ایک معمولی پودے کی افزائش میں 5 سال کا طویل عرصہ لگے گا۔


    تیس سال بعد

    زمین پر اب بارشیں بھی کچھ معمول کے مطابق ہونے لگیں گی۔


    پچاس سال بعد

    اب فطرت دوبارہ زمین پر اگنا شروع ہوگی اور جا بجا خود رو پھول پودے اگ آئیں گے۔

    تاہم 50 سال بعد بھی زمین کے کچھ علاقے تابکاری کی زد میں ہوں گے اور وہاں رہائش رکھنا ناممکن ہوگا۔


    یہ تمام خوفناک صورتحال صرف 100 ایٹم بم پھٹنے کی صورت میں ہوگا۔

    اور ایک بار پھر آپ کو یاد دلاتے چلیں کہ اس وقت زمین پر 16 ہزار سے زائد فعال ایٹمی یا جوہری بم، میزائل اور دیگر اسلحہ موجود ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • ایران معاہدے کے بعد ایک ایٹم بم جتنی یورنیم استعمال کرسکے گا، براک اوباما

    ایران معاہدے کے بعد ایک ایٹم بم جتنی یورنیم استعمال کرسکے گا، براک اوباما

    برسلز  : امریکی صدربراک اوباما نے کہا ہے کہ ایران دس ایٹم بم بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن معاہدے کے بعد ایران ایک ایٹم بم بنانے کے لئے درکارسینٹری فیوجز تیارکرسکتا ہے۔

    ایران اورچھ عالمی طاقتوں کے درمیان معاہدے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدربراک اوباما کا کہنا تھا ایران کے پاس دس اٹیم تیارکرنے کی صلاحیت ہے لیکن معاہدے کے بعد ایک ایٹم بم جتنی یورنیم استعمال کرسکے گا۔

    ایران پرپابندی پندرہ سال رہے گی۔  صدراوباما نے کہا کہ معاہدے کے تحت ایران کو اٹھانوے فیصد افزودہ یورینیم ختم کرنا ہوگی۔

    انہوں نے کہا کہ اٹیمی معائنہ کارکبھی بھی کسی بھی وقت ایران کی ایٹمی تنصیبات کا معائنہ کرسکیں گے۔  امریکی صدر نے واضح کیا کہ اگر ایران نے معاہدے پرمکمل عملدرآمدکیا تو ایران پرعائد عالمی پابندیاں ختم کردی جائیں گی۔

    امریکی صدر کا کہنا تھا معاہدے کی کامیابی میں حائل تمام رکاوٹوں کو دورکیا جائے گا۔