Tag: ایچ آئی وی

  • سینٹرل جیل کے 16 قیدیوں میں ایچ آئی وی کی تصدیق

    سینٹرل جیل کے 16 قیدیوں میں ایچ آئی وی کی تصدیق

    پشاور : سپرنٹنڈنٹ جیل نے 16 قیدیوں میں ایچ آئی وی کی تصدیق کردی، متاثرہ قیدی منشیات کےعادی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق پشاور سینٹرل جیل کے16قیدیوں میں ایچ آئی وی کی تصدیق ہوگئی۔

    سپرنٹنڈنٹ جیل وسیم خان نے بتایا کہ وائرس کی تصدیق قیدیوں کی بلڈ اسکریننگ کےدوران ہوئی، 549 قیدیوں کی جدید آلات کےذریعے بلڈ اسکریننگ کی گئی۔

    وسیم خان کا کہنا تھا کہ متاثرہ قیدی منشیات کےعادی ہیں، ان کودوسرے قیدیوں سےالگ رکھا گیاہے۔

    سینٹرل جیل میں اس وقت 3400 قیدی ہیں تاہم متاثرہ قیدیوں کا علاج اور کونسلنگ کی جارہی ہے۔

    ایچ آئی وی کیا ہے؟

    ایچ آئی وی ایک ایسا وائرس ہے جو جسم کے مدافعتی نظام کو متاثر کرتا ہے اور علاج نہ کئے جانے پر ایڈز میں تبدیل ہو سکتا ہے ۔

    فی الحال اس کا کوئی مؤثر علاج موجود نہیں ہے، جن کو ایچ آئی وی ہو جاتا ہے تو انہیں یہ بیماری اندگی بھر رہتی ہے لیکن مناسب طبی دیکھ بھال کے ساتھ اسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

    اس بیماری سے متاثر ہونے والے لوگ اگر اس کا مناسب علاج کرواتے ہیں تو وہ لمبی صحت مند زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھیوں کی بھی حفاظت کر سکتے ہیں۔

  • ایڈز کے خلاف جنگ میں ملی سائنسدانوں کو بڑی کامیابی

    ایڈز کے خلاف جنگ میں ملی سائنسدانوں کو بڑی کامیابی

    ایڈز کے خلاف جنگ میں سائنسدانوں نے اہم سنگ میل حاصل کرلیا ہے۔

    برطانوی دوا ساز کمپنی نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی جانب سے تیار کی گئی ایچ آئی وی ویکسین کی آزمائش کے پہلے مرحلے کے نتائج حوصلہ افزا سامنے آئے ہیں۔

    گلیکسو اسمتھ کلائن نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کی ایچ آئی وی ویکسین کی آزمائش کے ابتدائی نتائج حوصلہ کن آئے ہیں اور رضاکاروں نے دیگر ادویات کے مقابلے انجکشن کے استعمال کو ترجیح دی۔

    رپورٹ کے مطابق کمپنی نے ویکسین کی آزمائش کے لیے 670 رضاکاروں پر ایک سال تک آزمائش کی اور تمام رضاکاروں کو ہر دو ماہ بعد ویکسین کا ایک ڈوز دیا گیا۔

    جن رضاکاروں پر تحقیق کی گئی تھی وہ تمام ایچ آئی وی کے مریض تھے اور ایک سال بعد ان کے مرض کا جائزہ لیا گیا، جس سے معلوم ہوا کہ ان کی بیماری کی شرح میں اضافہ نہیں ہوا۔

    کمپنی کے مطابق جن رضاکاروں نے تحقیق میں حصہ لیا، انہوں نے ایچ آئی وی کی دیگر ادویات کے مقابلے ویکسین کو ترجیح دی اور بتایا کہ انجکشن لگوانا آسان ہے۔

    رضاکاروں نے بتایا کہ ایچ آئی وی سے تحفظ کے لیے وہ یومیہ گولیاں لیتے ہیں جو کہ مشکل کام ہے، کیوں کہ بعض اوقات وہ گولی لینا بھول جاتے ہیں، اس لیے ہر دو ماہ بعد ویکسین لگوانا آسان کام ہے۔

    کمپنی نے اپنے بیان میں ویکسین کی آزمائش کے پہلے مرحلے کے نتائج کو حوصلہ بخش قرار دیتے ہوئے امید ظاہر کی کہ اس کا دوسرا مرحلہ بھی کامیاب جائے گا۔

    ویکسین کی آزمائش کے دوسرے مرحلے میں زیادہ افراد پر تجربہ کیا جائے گا، جس کے بعد اس کا تیسرا اور آخری مرحلہ شروع کیا جائے گا۔

    ماہرین کو امید ہے کہ مذکورہ ویکسین کے باقی آزمائشی مراحل بھی کامیاب جائیں گے اور دنیا میں جلد ایچ آئی وی سے تحفظ کی پہلی ویکسین دستیاب ہوگی۔

    واضح رہے کہ اس سے قبل رواں سال جنوری میں امریکی دوا ساز کمپنی ’جانسن ایںڈ جانسن‘ کی ایچ آئی وی سے تحفظ کی ویکسین کی آزمائش ناکام ہوگئی تھی جبکہ فروری دو ہزار بیس میں بھی ایڈز کی ویکسین کی آزمائش ناکامی سے دوچارہوچکی ہے۔

    خیال رہے کہ ایچ آئی وی وائرس کی پہچان 1980 کے بعد ہوئی تھی، اس وائرس سے متاثرہ افراد ایڈز کا شکار بن جاتے ہیں۔

    اس وائرس یا مرض سے بچاؤ کے لیے اب تک کوئی بھی ویکسین دستیاب نہیں ہے تاہم امریکی سائنسدانوں نے دنیا کے دیگر ممالک کے ماہرین کے اشتراک سے 1997 میں ویکسین تیار کرلی تھی۔

    1997 میں تیار کی جانے والی ویکسین پر مزید کئی سال تحقیق کرنے کے بعد سائسندانوں نے اسے مکمل تیار کرنے کا دعویٰ کیا تھا اور 2016 میں اس کی آزمائش شروع کی گئی تھی مگر اس کی آزمائش بھی ناکام گئی تھی۔

  • منکی پاکس سے متاثرہ شخص کی ناک گلنا شروع ہوگئی

    منکی پاکس سے متاثرہ شخص کی ناک گلنا شروع ہوگئی

    جرمنی میں منکی پاکس سے متاثرہ ایک شخص کی ناک گلنا شروع ہوگئی، مذکورہ شخص ایچ آئی وی کا بھی شکار ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق جرمنی میں منکی پاکس سے متاثرہ شخص کی ناک گلنا شروع ہوگئی، ماہرین کے مطابق یہ اپنی نوعیت کا واحد کیس ہے۔

    یہ کیس اس وقت سامنے آیا ہے جب 40 سالہ متاثرہ شخص ناک پر سرخ نشانات کی شکایت لے کر ڈاکٹرز کے پاس پہنچا لیکن اسے سن برن قرار دے کر واپس بھیج دیا گیا، بعد ازاں اس کی حالت تشویش ناک ہوگئی۔

    مریض کی حالت بگڑنے پر ڈاکٹروں نے اس کا معائنہ کیا، معائنے میں منکی پاکس کے علاوہ ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی جس کی وجہ سے اس کی ناک میں نیکروسس ہو گیا تھا جس میں اعضا گلنا شروع ہو جاتے ہیں۔

    متاثر شخص کی تصاویر نے دنیا بھر کے ڈاکٹروں کو حیران و پریشان کردیا ہے، اس شخص کی شناخت ظاہر نہ کرتے ہوئے مذکورہ کیس انفیکشن جرنل میں شائع کیا گیا۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق نیکروسس کی وجہ سے اس شخص کی ناک تین دن میں سرخ سے سیاہ ہوگئی۔

    متاثرہ مریض کو انفیکشن کے علاج کے لیے ادویات دی گئیں جس سے زخم تو سوکھ گئے اور تکلیف میں جزوی طور پر بہتری آئی لیکن تکلیف ختم نہیں ہوئی۔

    ماہرین کے مطابق انفیکشن کی وجہ سے اس شخص کے جسم کے ٹشوز ختم ہو رہے ہیں اور اب متاثر شخص کی ناک کی جگہ اب سیاہ کھرنڈ ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ جلد ہی اس کے مکمل جسم پر سفید پس والے دانے نمودار ہوجائیں گے جن کا ٹھیک ہونا مشکل ہے۔

    انفیکشن جرنل میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ایچ آئی وی کے باعث مریض کا مدافعتی نظام کمزور ہوکر ختم ہو چکا ہے جس کے باعث اس کا کیس تشویش ناک حد تک بڑھ کر نیکروسس میں تبدیل ہوگیا ہے۔

    ماہرین صحت کے مطابق یہ کیس اپنی نوعیت کا واحد کیس ہے جو ایچ آئی وی کے لاعلاج ہونے کے باعث شدت اختیار کرگیا ہے۔

    جولائی 2022 میں، عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے منکی پاکس کو عالمی صحت کی ایمرجنسی قرار دیا تھا جو جسمانی رابطے سے پھیلتا ہے۔

  • دنیائے صحت کی بڑی خبر: پہلی خاتون ایچ آئی وی سے صحت یاب ہو گئیں

    دنیائے صحت کی بڑی خبر: پہلی خاتون ایچ آئی وی سے صحت یاب ہو گئیں

    شکاگو: اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ کے بعد دنیا کی پہلی خاتون ایچ آئی وی سے صحت یاب ہو گئی ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق محققین کی جانب سے اسٹیم سیل کا نیا طریقہ استعمال کرنے کے بعد ایک خاتون ایچ آئی وی سے صحت یاب ہونے والی تیسری شخصیت بن گئی۔

    محققین نے منگل کو رپورٹ کیا کہ مخلوط نسل کی درمیانی عمر کی امریکی خاتون، جو لیوکیمیا (خون کے کینسر) میں مبتلا تھیں، کو ایک ڈونر سے اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ ملنے کے بعد، ایچ آئی وی سے صحت یاب ہو گئی ہیں، وہ دنیا کی پہلی خاتون اور اب تک کی تیسری شخصیت ہیں، جنھیں ایچ آئی وی سے نجات مل گئی ہے۔

    اسٹیم سیل عطیہ کرنے والے ڈونر کے بارے میں بتایا گیا کہ ان کے اندر قدرتی طور پر ایڈز کا سبب بننے والے وائرس کے خلاف قوت مدافعت موجود تھی۔

    خاتون میں ایچ آئی وی وائرس کی تشخیص 2013 میں ہوئی تھی، اس سے قبل ٹموتھی رے براؤن اور ایڈم کاسٹیلیجو نامی دو مرد بھی بون میرو یا بالغ اسٹیم سیل ٹرانسپلانٹ کے ذریعے ایچ آئی وی سے صحت یاب ہو چکے ہیں۔

    خاتون کو خون کے سرطان کے ساتھ ساتھ ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی تھی، اور انھیں کینسر کے علاج میں مدد کے لیے آنول نال کا خون بھی دیا گیا تھا۔ آنول نال کا خون ایک ایسے ڈونر کا تھا جس کا خون جزوی طور پر ہی میچ ہو رہا تھا، اس خاتون کو ایک رشتہ دار کا بھی خون چڑھایا گیا تھا، تاکہ ان کے جسم کو ٹرانسپلانٹ کے عمل کے دوران "عارضی مدافعتی دفاع” حاصل ہو۔

    خاتون کو جب سے شدید مائیولائیڈ لیوکیمیا (ہڈی کے گودے میں خون بنانے والے خلیات میں بننے والا کینسر) کے علاج کے لیے آنول نال کا خون دیا گیا تھا، تب سے (14 ماہ) وہ ایچ آئی وی وائرس سے نجات پا چکی ہیں، اور انھیں اینٹی ریٹرو وائرل علاج کی ضرورت بھی نہیں پڑی۔

    دوسری طرف دونوں مرد، جو ایچ آئی وی سے ٹھیک ہونے والے پہلے دو مریض تھے، وائرس کے علاج کے لیے بون میرو ٹرانسپلانٹ سے گزارے گئے تھے، جب کہ خاتون کا کیس ایچ آئی وی کے خلاف جنگ میں ایک نئے طریقے کی نشان دہی کرتا ہے۔

    براؤن اور کاسٹیلیجو دونوں نے ایسے ڈونرز سے بون میرو ٹرانسپلانٹ حاصل کیے تھے، جن کے گودے میں ایچ آئی وی کو روکنے والی میوٹیشن موجود تھی، اس قسم کی میوٹیشن نایاب ہے اور اکثر شمالی یورپی نسل کے ڈونرز ہی میں پائی جاتی ہے۔

    اگرچہ بون میرو ٹرانسپلانٹ دونوں کیسز میں کامیاب ثابت ہوا تھا، لیکن اس کے مضمرات بھی ہوتے ہیں، جیسا کہ براؤن تقریباً اس طریقہ کار کے بعد موت کے منہ میں پہنچ گیا تھا، اور کاسٹیلیجو کا وزن شدید طور پر کم ہو گیا تھا، سماعت میں کمی پیدا ہوئی اور انفیکشنز کا سامنا کرنا پڑا۔

    جب کہ اسٹیم سیلز کے ذریعے ٹھیک ہونے والی خاتون 17 دن بعد ہی اسپتال سے ڈسچارج ہو گئی تھیں، خاتون کے اندر اُس قسم کی بیماری بھی ظاہر نہیں ہوئی جسے graft versus host disease (GvHD) کہا جاتا ہے، اس میں عطیہ شدہ خلیات جسم کو غیر سمجھ کر حملہ آور ہوتے ہیں اور تباہی مچاتے ہیں، دونوں مرد اس کا شکار ہوئے تھے۔

    رپورٹ کے مطابق خاتون نے 2017 میں اپنا ٹرانسپلانٹ کروایا تھا، اور 3 سال بعد ایچ آئی وی کی دوا لینا چھوڑ دی۔ واضح رہے کہ یہ خاتون امریکا میں ایچ آئی وی کے 25 مثبت مریضوں میں سے ایک تھیں، جن کا ٹرانسپلانٹ ہو چکا ہے اور جن کی نگرانی کی جا رہی ہے۔

    یہ پچیس افراد وہ ہیں جنھیں ایچ آئی وی وائرس کے ساتھ ساتھ کینسر اور اسی طرح کی دیگر سنگین بیماریاں لاحق ہیں، جن کے علاج کے لیے انھیں آنول نال کے خون سے لیے گئے اسٹیم سیلز ٹرانسپلانٹ کیے گئے ہیں۔

    یہ مریض علاج کے لیے سب سے پہلے کیموتھراپی سے گزرتے ہیں تاکہ کینسرزدہ مدافعتی خلیات کو ختم کیا جا سکے، اس کے بعد ڈاکٹر ان میں ایک مخصوص جینیاتی تغیر کے حامل افراد سے اسٹیم سیلز لے کر پیوند کاری کرتے ہیں، اس جینیاتی تغیر (جینیٹک میوٹیشن) کی وجہ سے ان ڈونرز میں اُن ریسپٹرز کی کمی ہوتی ہے، جنھیں وائرس خلیات کو متاثر کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔

    سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ ٹرانسپلانٹ کے بعد یہ افراد پھر ایچ آئی وی کے خلاف مدافعتی نظام تیار کرتے ہیں۔ خاتون کا کیس یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے ڈاکٹر یوون برائسن اور جان ہاپکنز یونیورسٹی کے ڈاکٹر ڈیبورا پرساؤڈ کی سربراہی میں ہونے والی بڑی تحقیق کا ایک حصہ ہے۔

  • ایچ آئی وی ایڈز کی نئی قسم دریافت

    ایچ آئی وی ایڈز کی نئی قسم دریافت

    مغربی یورپی ملک نیدر لینڈز یا ہالینڈ میں کی جانے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ وہاں کئی دہائیوں سے ایچ آئی وی کی ایک متعدی قسم پھیل رہی تھی۔

    رپورٹ میں بتایا کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کی جانب سے یورپ میں ایچ آئی وی وائرس پر کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا کہ نیدر لینڈز میں مہلک وائرس کی ایک متعددی قسم کئی دہائیاں قبل ہی پھیلنا شروع ہوئی۔

    ماہرین نے مختلف یورپی ممالک کے ایچ آئی وی وائرس کے شکار مریضوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا تو انہیں 17 ایسے کیسز ملے جو کہ باقی ایچ آئی وی مریضوں سے مختلف تھے۔

    مذکورہ 17 میں سے دو مریضوں کا تعلق یورپ کے مختلف ممالک سے تھا جبکہ بقیہ 15 مریض نیدر لینڈز کے تھے اور ان میں ایچ آئی وی کی ایک ہی قسم کی تشخیص ہوئی تھی۔

    سائنس دانوں نے بعد ازاں نیدر لینڈز کے تمام ایچ آئی وی مریضوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا تو انہیں 109 مریض ایسے ملے جو ایک ہی طرح کے متعددی وائرس کا شکار ہوئے تھے۔

    ماہرین کو معلوم ہوا کہ 109 افراد 1990 سے سال 2000 کے درمیان ایچ آئی وی کی امریکا اور یورپ میں پائی جانے والی عام قسم بی کی ذیلی قسم جسے سائنسدانوں نے وی بی کا نام دیا ہے، سے متاثر ہوئے۔

    ڈیٹا سے معلوم ہوا کہ ایچ آئی وی کی مذکورہ قسم سے متاثر ہونے والے افراد کا مدافعتی نظام دیگر اقسام کے مقابلے زیادہ کمزور پڑ جاتا ہے، تاہم ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ مذکورہ قسم کا ایچ آئی وی کا عام ادویات سے بھی علاج ممکن ہے۔

    ماہرین نے بتایا کہ ڈیٹا سے معلوم ہوتا ہے کہ نیدر لینڈز میں دریافت ہونے والی ایچ آئی وی کی نئی قسم 2010 کے بعد کم متعدی ہونا شروع ہوئی اور اب وہ پہلے جیسی خطرناک نہیں رہی۔

    سائنسدانوں نے یہ بھی واضح کیا کہ ایچ آئی وی کی نئی قسم کا دریافت ہونا خطرے کی بات نہیں، دنیا بھر میں مذکورہ مرض کی بھی کئی قسمیں ہیں اور ہر خطے میں الگ قسم پائی جاتی ہے۔

    یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ دنیا میں پہلی بار ایچ آئی وی جسے (ہیومن امیونیو ڈیفی شنسی وائرس) کہتے ہیں، اسے 1980 کی دہائی میں جنوبی افریقہ میں دریافت کیا گیا تھا۔

    اس سے قبل بھی مذکورہ وائرس دنیا میں موجود تھا مگر میڈیکل سائنس کے فقدان کی وجہ سے اس کی تشخیص نہیں ہو سکی تھی۔

    مذکورہ وائرس خطرناک موذی مرض ایڈز یعنی (اکوائرڈ امیونٹی ڈیفی شنسی سنڈروم) کا سبب بنتا ہے، جس میں 10 سال کے اندر ہی انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

    عام طور پر ایچ آئی وی کی تشخیص کے بعد ادویات سے مریض کا وائرس ایڈز میں تبدیل نہیں ہوتا، تاہم بعض اوقات احتیاط نہ کرنے اور مکمل علاج نہ کروانے پر ایچ آئی وی کا مریض ایڈز کا شکار بن جاتا ہے۔

    ایچ آئی وی وائرس اور ایڈز کو عام طور پر لوگ ایک ہی چیز سمجھ لیتے ہیں، تاہم حقیقت میں ایچ آئی وی میں مبتلا ہونا ایڈز کا مریض بن جانا نہیں ہوتا۔

  • رتوڈیرو: ایچ آئی وی ایڈز کے کیسز کی تعداد 1038 ہو گئی: محکمہ صحت

    رتوڈیرو: ایچ آئی وی ایڈز کے کیسز کی تعداد 1038 ہو گئی: محکمہ صحت

    کراچی: محکمہ صحت سندھ نے لاڑکانہ کے علاقے رتو ڈیرو اور اطراف کے علاقوں میں ایڈز کیسز کے سرکاری اعداد و شمار کر دیے۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ کے محکمہ صحت نے ایچ آئی وی ایڈز کے کیسز سے متعلق اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ لاڑکانہ میں ایچ آئی وی ایڈز کے کیسز کی تعداد ایک ہزار 38 ہو گئی ہے۔

    محکمہ صحت کا کہنا ہے کہ ایچ آئی وی پازیٹو کیسز میں بچوں کی تعداد بڑھ کر 833 ہو گئی ہے، جاری رپورٹ کے مطابق اس سلسلے میں 34 ہزار 299 افراد کی اسکریننگ کی گئی ہے۔

    یاد رہے عالمی ادارۂ صحت ڈبلیو ایچ او کے ماہرین نے تحصیل اسپتال رتوڈیرو کا دورہ کیا تھا، عالمی ماہرین نے بلڈ اسکریننگ کے عمل پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے گرمی میں اسکریننگ کٹس کو فریج یا آئس باکس میں رکھنے کی ہدایات دی تھیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  2018 میں 22ہزار افراد ایڈز کا شکار ہوئے ، رپورٹ میں انکشاف

    خیال رہے کچھ عرصہ قبل میڈیا پر انکشاف ہوا تھا کہ لاڑکانہ میں ایڈز پھیلانے کی وجہ خود ایڈز میں مبتلا ایک ظالم ڈاکٹر ہے، جس نے اپنا متاثرہ انجکشن لگا کر متعدد افراد کو ایڈز میں مبتلا کیا، جس پر سندھ ہیلتھ کمیشن نے ڈاکٹر کے خلاف مقدمہ درج کر لیا تھا اور ڈاکٹر کے ذہنی معائنے کے لیے میڈیکل بورڈ بنانے کی بھی ہدایت کی تھی۔

    بعد ازاں وزارتِ قومی صحت کو ارسال کردہ نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام کی جانب سے ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ایچ آئی وی ایڈز کا شکار ہونے والے بچے تھیلیسمیا کے مرض میں بھی مبتلا ہیں۔

  • سندھ میں ایچ آئی وی ایڈز کی وبائی صورت حال پر وفاقی حکومت کا عالمی اداروں سے مشاورت کا فیصلہ

    سندھ میں ایچ آئی وی ایڈز کی وبائی صورت حال پر وفاقی حکومت کا عالمی اداروں سے مشاورت کا فیصلہ

    اسلام آباد: سندھ میں ایچ آئی وی ایڈز کی وبائی صورت حال کے پیشِ نظر وفاقی حکومت نے عالمی اداروں کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ذرایع نے کہا ہے کہ سندھ کے تعلقے رتو ڈیرو میں ایچ آئی وی ایڈز کے بے تحاشا کیسز پر حکومت عالمی اداروں کو اعتماد میں لے گی، اس سلسلے میں وفاقی حکومت نے 9 جولائی کو اعلیٰ سطح اجلاس طلب کر لیا ہے۔

    ذرایع وزارتِ صحت نے بتایا کہ اجلاس وزیرِ اعظم کے معاون ظفر مرزا کی زیرِ صدارت منعقد ہوگا، جس میں ڈبلیو ایچ او، یونیسف اور یو این ایڈز پاکستان کے سربراہان شریک ہوں گے۔

    اجلاس میں ایف ای ایل ٹی پی کے ریزیڈنٹ ایڈوائزر بھی شریک ہوں گے، سندھ کی صوبائی وزیرِ صحت عذرا پیچوہو بھی اجلاس میں شرکت کریں گی۔

    یہ بھی پڑھیں:  لاڑکانہ میں مجموعی طور پر 26 ہزار 8 سو 72 افراد کی اسکریننگ کا عمل مکمل

    ذرایع کے مطابق اجلاس میں رتوڈیرو میں ایڈز کی وبائی صورت حال پر غور کیا جائے گا، سربراہ قومی ایڈز پروگرام ڈاکٹر بصیر اچکزئی اجلاس میں بریفنگ دیں گے اور رتو ڈیرو میں ایڈز پر قابو پانے کے حوالے سے بھی حکمت عملی پر غور ہوگا۔

    بتایا گیا ہے کہ عالمی اداروں کی مشاورت سے آیندہ کی حکمت عملی مرتب کی جائے گی، پاکستان عالمی اداروں کو انسدادِ ایڈز سے متعلق اقدامات سے آگاہ کرے گا۔

    یاد رہے کہ مئی میں عالمی ادارۂ صحت کی ٹیم لاڑکانہ کے تعلقے رتوڈیرو میں ایچ آئی وی ایڈز کے پھیلاؤ پر تحقیقات کے لیے آئی تھی، اس سے قبل وفاقی حکومت کی جانب سے ٹیم کو بریفنگ بھی دی گئی تھی۔

  • امریکی سائنسدان چوہے سے ایچ آئی وی کا خاتمہ کرنے میں کامیاب

    امریکی سائنسدان چوہے سے ایچ آئی وی کا خاتمہ کرنے میں کامیاب

    واشنگٹن : سائنسدانوں نے پہلی بار ادویات اور جین ایدیٹنگ کی مدد سے لیبارٹری کے چوہے کے پورے جینوم میں ایچ آئی وی کو ختم کرنے میں کامیابی حاصل کرلی۔

    تفصیلات کے مطابق جینوم میں ایچ آئی وی کو ختم کرنے میں کامیابی سے سائنسدانوں کو توقع ہے کہ اس 2 نکاتی طریقہ کار کی مدد سے اس لاعلاج مرض کے شکار انسانوں کے لیے پہلی بار علاج تشکیل دیا جائے گا اور انسانوں پر اس کی آزمائش اگلے سال سے شروع ہوگی۔

    خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ اب تک صرف 2 افراد کے ایچ آئی وی کا علاج ہوسکتا ہے جو کہ دونوں بلڈ کینسر کا شکار تھے اور ایک خطرنک بون میرو ٹرانسپلانٹ کے عمل سے گزر کر دونوں بیماریوں سے نجات پانے میں کامیاب ہوئے۔مگر یہ طریقہ کار ہر ایک پر کام نہیں کرتا بلکہ کچھ کے لیے جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ مریض ایچ آئی وی اور کینسر دونوں بیماریوں کا شکار ہوں۔

    امریکا کی نبراسکا یونیورسٹی کے ماہرین نے ایچ آئی وی سے نجات دلانے والے نئے طریقہ کار کو دریافت کرنے میں کامیابی حاصل کی جو کہ 5 سال سے اس پر کام کررہے تھے۔

    اس طریقہ کار میں انہوں نے آہستی سے اثر کرنے والی ادویات اور جین ایڈیٹنگ کرسپر کاس 9 کا استعمال کیا اور اس کے نتیجے میں لیبارٹری کے ایک تہائی چوہوں کے مکمل جینوم سے ایچ آئی وی کو ختم کرنے میں کامیاب رہے۔

    محققین کا کہنا تھا کہ اس کامیابی پر ہمیں یقین ہی نہیں آیا، پہلے تو ہمیں لگا کہ یہ اتفاق ہے یا گرافس میں کوئی گڑبڑ ہے، مگر کئی بار اس عمل کو دہرانے کے بعد ہمیں یقین آیا ہے کہ ہم نے بہت بڑی کامیابی حاصل کرلی ہے۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ طبی جریدوں نے بھی ہم پر یقین نہیں کیا اور کئی بار ہمارے مقالے کو مسترد کیا گیا اور ہم بڑی مشکل سے یقین دلانے میں کامیاب ہوئے کہ ایچ آئی وی کا علاج اب ممکن ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ ایچ آئی وی سے نجات اس لیے لگ بھگ ناممکن ہوتی ہے کیونکہ یہ وائرس جینوم کو متاثر کرتا ہے اور خود کو خفیہ مقامات پر چھپا کر کسی بھی وقت دوبارہ سر اٹھالیتا ہے۔

    رپورٹس کے مطابق ویسے اس وقت ایسی انتہائی موثر ادویات موجود ہیں جو اس وائرس کو دبا دیتی ہیں اور مریض میں یہ وائرس ایڈز کی شکل اختیار نہیں کرپاتا جس سے صحت مند اور لمبی زندگی گزارنا ممکن ہوجاتی ہے، تاہم یہ ادویات ایچ آئی وی کو ختم کرنے میں ناکام رہتی ہیں۔

    اب محققین اس نئے طریقہ کار کو بندروں پر آزمائیں گے اور توقع ہے کہ اگلے سال موسم گرما میں انسانوں پر اس کا ٹیسٹ شروع ہوگا۔محققین کا کہنا تھا کہ ابھی اسے مکمل علاج قرار نہیں دیا جاسکتا ہے مگر ان کا کہنا تھا کہ کم از کم یہ ضرور ثابت ہوتا ہے کہ ایچ آئی وی کا مکمل علاج ممکن ہے۔

  • لاڑکانہ میں ایچ آئی وی ایڈز کے مزید 7 نئے کیسز سامنے آگئے

    لاڑکانہ میں ایچ آئی وی ایڈز کے مزید 7 نئے کیسز سامنے آگئے

    لاڑکانہ: صوبہ سندھ کے شہر لاڑکانہ میں ایچ آئی وی ایڈز کے مزید 7 نئے کیسز سامنے آگئے جس کے بعد رتو ڈیرو میں ایچ آئی وی ایڈز کے مریضوں کی تعداد 785 ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق ایڈز سے شدید متاثر شہر لاڑکانہ میں ایچ آئی وی ایڈز کے مزید 7 نئے کیسز سامنے آگئے۔ مذکورہ مریض اسکریننگ کے بعد سامنے آئے ہیں۔

    لاڑکانہ میں مجموعی طور پر 26 ہزار 8 سو 72 افراد کی اسکریننگ کا عمل مکمل ہوچکا ہے جس کے بعد ایچ آئی وی ایڈز کے مریضوں کی تعداد 785 ہوگئی۔ ایچ آئی وی ایڈز متاثرین میں صرف بچوں کی تعداد 646 ہے۔

    عالمی ادارہ صحت کے مطابق لاڑکانہ کے شہر رتو ڈیرو میں بچوں میں ایچ آئی وی کا سب سے بڑا آﺅٹ بریک سامنے آیا ہے جبکہ ابھی لاڑکانہ کے مزید تین تعلقے باقی ہیں جہاں اسکریننگ کا عمل شروع نہیں کیا گیا۔

    قومی ادارہ صحت برائے اطفال (این آئی سی ایچ) کے سربراہ و ماہرین صحت نے بتایا کہ رتو ڈیرو کی آبادی 3 لاکھ 31 ہزار ہے، ابھی تک 7 فیصد آبادی کے ایچ آئی وی ٹیسٹ کیے گئے ہیں۔

    انہوں نے اس خدشے کا اظہار بھی کیا کہ یہ صورتحال سندھ کے دیگر اضلاع میں بھی ہوگی کیونکہ اندرون سندھ میں غیر ضروری انجکشن لگوانے کا رواج اور رجحان پایا جاتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ 37 سالہ تاریخ میں افریقہ، انڈیا ،تھائی لینڈ سمیت دیگر ممالک میں بچوں میں ایچ آئی وی کا اتنا بڑا آﺅٹ بریک نہیں ہوا جو رتو ڈیرو میں سامنے آرہا ہے۔

  • ایچ آئی وی کیسز: عالمی ادارۂ صحت کی ٹیم کراچی پہنچ گئی

    ایچ آئی وی کیسز: عالمی ادارۂ صحت کی ٹیم کراچی پہنچ گئی

    کراچی: عالمی ادارۂ صحت کی ٹیم کراچی پہنچ گئی ہے، ماہرین کی ٹیم لاڑکانہ کے تعلقے رتوڈیرو میں ایچ آئی وی کے پھیلاؤ پر تحقیقات کرے گی۔

    تفصیلات کے مطابق ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ٹیم سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں ایچ آئی وی کے پھیلاؤ پر تحقیقات کرنے کے لیے کراچی پہنچ گئی ہے۔

    ڈی جی ہیلتھ مسعود سولنگی نے کراچی ایئر پورٹ پر وفد کا استقبال کیا، ڈبلیو ایچ او کا وفد کراچی میں محکمۂ صحت سمیت دیگر حکام سے مشاورت بھی کرے گا۔

    رتوڈیرو میں اب تک 700 افراد میں ایچ آئی وی وائرس کی تصدیق ہو چکی ہے، انچارج سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کا کہنا ہے ان افراد میں 576 بچے اور 124 بڑے شامل ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں:  رتوڈیرو: 700 افراد میں ایچ آئی وی کی تشخیص ہوئی: ڈاکٹر سکندر میمن

    ڈاکٹر سکندر میمن کا کہنا تھا کہ اس معاملے کی تہہ تک جانے کے لیے متاثرہ افراد کا ڈی این اے بھی کرایا جا سکتا ہے۔

    واضح رہے کہ عالمی ادارہ صحت نے سندھ کے علاقے رتو ڈیرو میں ایچ آئی وی کی وبائی صورت حال کے پیش نظر پاکستان کی تعاون کی درخواست قبول کی تھی۔

    ادھر سندھ کے ضلع شکارپور میں بھی ایچ آئی وی کیسز میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، آج ایچ آئی وی وائرس سے متاثرہ مریضوں کی تعداد 36 ہو گئی ہے۔