Tag: ایڈیشنل رجسٹرار

  • ایڈیشنل رجسٹرار  نذر عباس کی انٹرا کورٹ اپیل واپس لینے کی استدعا

    ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کی انٹرا کورٹ اپیل واپس لینے کی استدعا

    اسلام آباد : ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس نے انٹراکورٹ اپیل واپس لینے کی استدعا کردی اور عدالت کو بتایا کہ توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں ایڈیشنل رجسٹرار کی توہین عدالت کارروائی کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت ہوئی۔

    جسٹس جمال مندوخیل کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ نے سماعت کی، دوران سماعت نذر عباس نے انٹراکورٹ اپیل واپس لینے کی استدعا کردی۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے آپ اپنا دعویٰ واپس لے سکتے ہیں درخواست نہیں، درخواست اب ہمارے سامنے لگ چکی ہے۔

    جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا آپ اپنی اپیل کیوں واپس لینا چاہتے ہیں؟ نذرعباس کے وکیل نے بتایا کہ توہین عدالت کا نوٹس واپس لے لیا گیا ہے۔

    جس پر جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ ایسا تھا تو آپ پہلے بتا دیتے، جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کیا توہین عدالت کارروائی ختم ہونے کا آرڈر آچکاہے؟

    نذر عباس کے وکیل نے جسٹس منصور کا فیصلہ پڑھ کر سنایا، جس کے بعد سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس میں اپیل نمٹا دی ، عدالت نے کہا انٹرا کورٹ اپیل واپس لینے پرنمٹائی جاتی ہے، وجوہات الگ سے جاری کی جائیں گی۔

    جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس شاہد وحید نے الگ وجوہات کے نکتے پر فیصلے سے اختلاف کیا اور کہا الگ سے وجوہات دینے کی ضرورت نہیں۔

    جسٹس جمال مندوخیل نے کہا جس علاقہ سےتعلق رکھتا ہوں وہاں روایات کاخیال رکھا جاتا ہے، بدقسمتی سے اس مرتبہ روایات کابھی خیال نہیں رکھا گیا، ہم آرڈر کریں اور فل کورٹ نہ بنے تو ایک اورتوہین عدالت شروع ہوجائے گی۔

  • ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس، سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلہ سنا دیا

    ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس، سپریم کورٹ نے محفوظ فیصلہ سنا دیا

    سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار کے خلاف توہین عدالت کیس کا محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے فل کورٹ کی تشکیل کیلیے معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت کیس میں محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اس معاملے پر فل کورٹ کی تشکیل پر معاملہ غور کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی کو بھجوا دیا ہے جب کہ ایڈیشننل رجسٹرار نذر عباس کو جاری شوکاز نوٹس بھی واپس لے لیا ہے۔

    یہ فیصلہ جسٹس منصور علی شاہ نے پڑھ کر سنایا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ پریکٹس پروسیجر کمیٹی کے پاس اختیار نہیں کہ جوڈیشل آرڈر کے بعد کیس کو واپس لے سکیں۔ انتظامی سطح پر جوڈیشل احکامات کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا، جب کہ ججز آئینی کمیٹی کو بھی اختیارنہیں تھا کہ جوڈیشل آرڈر کی موجودگی میں انتظامی آرڈر سے کیس واپس لے۔

    فیصلے میں کہا گیا کہ بادی النظر میں توہین عدالت کی کارروائی ججز کمیٹیوں کیخلاف ہوتی ہے لیکن ججز کمیٹیوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں کی جا رہی۔ ججز کمیٹیوں کے پاس اختیار نہیں کہ زیر سماعت مقدمہ بینچ سے واپس لیں۔

    فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ اس معاملے میں ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کی کوئی غلطی نہیں اور نہ ہی انہوں نے جان بوجھ کر کیس فکس کرنے میں غفلت برتی اور ان کا کیس فکس نہ کرنے پر کوئی ذاتی مفاد بھی نہیں تھا۔

    عدالت نے کہا کہ نذر عباس کے اقدام میں کوئی بدنیتی ظاہر نہیں ہو رہی اور ان کا یہ اقدام توہین عدالت کے زمرے میں نہیں آتا۔ اس لیے ایڈیشنل رجسٹرار کی وضاحت قبول کر کے توہین عدالت کی کارروائی ختم کرتے ہیں۔

    فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجرکمیٹی نے کیس واپس لیا، جو اسکا اختیار ہی نہیں تھا۔ ججز آئینی کمیٹی نے بھی جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز کیا۔ ججز کمیٹیوں نے جوڈیشل آرڈر نظر انداز کیا یا نہیں، یہ معاملہ فل کورٹ ہی طے کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے 14 رکنی بنچ کا ایک فیصلہ بھی موجود ہے۔ چیف جسٹس پاکستان فل کورٹ تشکیل دے کر معاملے کو دیکھیں۔

    سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا کہ فل کورٹ آئین کے آرٹیکل 175 کی شق 6 کے تحت اس معاملے کو دیکھے اور کسٹمز ایکٹ سے متعلق کیس غلط انداز میں ہم سے لیا گیا۔ کسٹمز کیس واپس اسی بنچ کے سامنے مقرر کیا جائے جس 3 رکنی بنچ نے پہلے سنا تھا۔

    سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ دائرہ اختیار سے متعلق مرکزی کیس فروری کے پہلے ہفتے میں مقرر کیا جائے۔ ریگولر اور آئینی بینچز کی کمیٹی کے پاس جوڈیشل آرڈر ختم کرنے کا دائرہ اختیار نہیں تھا۔

    فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کمیٹی کو فل کورٹ کی تشکیل کا معاملہ نہیں بھیج رہے کیونکہ فل کورٹ تشکیل کا اختیار چیف جسٹس کے پاس ہے۔

    واضح رہے کہ اس معاملے پر گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار جوڈیشل نذر عباس کو عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ سپریم کورٹ کے جاری اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ نذر عباس سنگین غلطی کے مرتکب ہوئے۔ رجسٹرار سپریم کورٹ کو اس معاملے کی جانچ پڑتال کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔

    سپریم کورٹ کے جاری اعلامیہ میں مزید کہا گیا تھا کہ نذر عباس نے آئینی بینچ کا مقدمہ غلطی سے ریگولر بینچ میں سماعت کیلیے مقرر کیا۔ اس عمل سے سپریم کورٹ اور فریقین کے وقت اور وسائل کا ضیاع ہوا۔ نذر عباس کو جسٹس منصورعلی شاہ کے بینچ نے توہین عدالت کا نوٹس جاری کر رکھا ہے اور انہیں ذاتی حیثیت میں عدالت میں پیش ہونے کا حکم بھی دے چکی ہے۔

    اعلامیہ کے مطابق کسٹم ایکٹ سے متعلق کیس کو آئینی بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کیا جانا تھا، لیکن اس کو سپریم کورٹ کے معمول کے بینچ کے سامنے کیس لگا دیا گیا۔

    اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ جوڈیشل برانچ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے تحت معمول کی کمیٹی سے رجوع کیا اور کمیٹی نے 17 جنوری کو چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں اجلاس منعقد کیا۔ اس کمیٹی نے مشاہدہ کیا کہ آئین کے مطابق یہ مقدمات آئینی بینچ کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں اور کمیٹی نے مقدمات معمول کے بینچ سے لے کر آئینی بینچ کمیٹی کے سامنے مقرر کرنے کی ہدایت کی۔

    اعلامیہ میں یہ بھی کہا گیا کہ آئندہ آرٹیکل 191 اے کے تحت آنے والے مقدمات کو آئینی بینچ کمیٹی کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ ریگولر ججز کمیٹی نے رجسٹرار کو ہدایت دی کہ تمام زیر التوا مقدمات کی جانچ پڑتال تیز کریں جب کہ کمیٹی نے نئے داخل مقدمات کی مکمل چھان بین کی بھی ہدایت کی تھی۔

    اعلامیے کے مطابق آئینی بینچ کمیٹی نے بھی 17 جنوری کو اجلاس کیا اور 26 ویں ترمیم اور قوانین کی آئینی حیثیت چیلنج کرنے والے تمام مقدمات سماعت کیلیے مقرر کیے۔ 8 رکنی آئینی بنچ نے 26 ویں ترمیم کیخلاف 27 جنوری کو سماعت کرے گا۔

    اعلامیہ میں بتایا گیا تھا کہ جسٹس منصور کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ایڈیشنل رجسٹرارکیخلاف توہین عدالت کی سماعت کی۔ تاہم ایڈیشنل رجسٹرار کی بیماری کی رخصت کے باعث رجسٹرار سپریم کورٹ عدالت پیش ہوئے اور عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ مقدمات کی شیڈولنگ میں غلطی ہوئی تھی اور اس کی جانچ کر رہے ہیں۔

    رجسٹرار کا کہنا تھا کہ مقدمات کو معمول کے بینچ سے ہٹانے کا فیصلہ ایڈیشنل رجسٹرار کی بدنیتی نہیں تھی۔ معمول کی کمیٹی کی ہدایات کی تعمیل میں یہ اقدام کیا گیا تھا۔

    گزشتہ جمعرات کو ایڈیشنل رجسٹرار توہین عدالت شوکاز نوٹس کیس کی جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں دو رکنی بینچ نے سماعت کی تھی اور عدالتی معاون حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے عدالت کو آگاہ کیا تھا کہ انتظامی آرڈر سے عدالتی حکم نامہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔ بعد ازاں عدالت نے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

    دوسری جانب ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس نے شوکاز نوٹس کا جواب جمع کرایا تھا جس میں نوٹس واپس لینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا گیا تھا  کہ عدالتی حکم کی نافرمانی نہیں کی۔ عدالتی آرڈر پر بینچ بنانے کے معاملے پر نوٹ بنا کر پریکٹس پروسیجر کمیٹی کو بھجوا دیا تھا۔

    دوسری جانب انٹرا کورٹ اپیل پر جسٹس جمال مندوخیل کی سربراہی میں 6 رکنی لارجر بینچ آج ایک بجے سماعت کرے گا۔

    https://urdu.arynews.tv/justice-mansoor-raises-objections-on-intra-court-appeal-bench/

  • ایڈیشنل رجسٹرار کیخلاف توہین عدالت کیس: جسٹس منصور علی شاہ کا  بینچ کے 2 ججز پر اعتراض

    ایڈیشنل رجسٹرار کیخلاف توہین عدالت کیس: جسٹس منصور علی شاہ کا بینچ کے 2 ججز پر اعتراض

    اسلام آباد : سپریم کورٹ کے ایڈیشنل رجسٹرار کیخلاف توہین عدالت کیس میں جسٹس منصور علی شاہ نے انٹراکورٹ اپیل کے بینچ میں شامل 2 ججز پر اعتراض کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے ایڈیشنل رجسٹرارکیخلاف توہین عدالت کیس میں انٹراکورٹ اپیل کے بینچ پر اعتراض اٹھادیا۔

    اس سلسلے میں جسٹس منصور علی  نے ججز کمیٹی کو خط لکھا ، جس میں جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر کی شمولیت پر اعتراض اٹھایا۔

    جسٹس منصور نے کہا کہ 23 جنوری کو جوڈیشل کمیشن اجلاس ہوا، اجلاس کےبعدچیف جسٹس نےچیمبرمیں کمیٹی کاغیررسمی اجلاس بلایا، اجلاس میں تجویزدی سنیارٹی کےاعتبارسے5رکنی بینچ انٹراکورٹ اپیل پربنایاجائے۔

    خط میں کہا گیا کہ "تجویز دی تھی بینچ میں ان ججز کو شامل نہ کیاجائےجوکمیٹی کےرکن بھی ہیں، چیف جسٹس نے کہا وہ 4 رکنی بینچ بنانا پسند کریں گے، پھر رات 9 بجکر33منٹ پر میرے سیکریٹری کا واٹس ایپ میسج آیا، سیکرٹری نے مجھ سے 6 رکنی بینچ کی منظوری کا پوچھا۔”

    جسٹس منصور نے خط میں لکھا "میں نےسیکرٹری کوبتایا مجھےاس پراعتراض ہےصبح جواب دوں گا، رات 10 بجکر 28 منٹ پر سیکریٹری نے بتایا 6 رکنی بینچ بن گیا ہے اور روسٹربھی جاری کر دیا گیا ہے۔”

    خط میں لکھا کہا "میرابینچ پر 2ممبران کی حدتک اعتراض ہے، بینچزاختیارات کا کیس ہم سے واپس لینے کا فیصلہ دونوں کمیٹیوں نے کیا، کمیٹیوں میں شامل ججز کے فیصلے پر ہی سوالات ہیں۔”

    ان کا کہنا تھا کہ کمیٹی میں شامل ارکان اپنے کئے پر خود جج نہیں بن سکتے، میرے اعتراضات کو ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے.