Tag: ای بائیکس

  • سندھ میں خواتین ورکرز کے ساتھ اور کس کو ای بائیکس ملیں گی؟

    سندھ میں خواتین ورکرز کے ساتھ اور کس کو ای بائیکس ملیں گی؟

    کراچی (10 اگست 2025): ورکرز ویلفیئر بورڈ سندھ نے خواتین کے ساتھ ساتھ اقلیتی محنت کشوں کو بھی ای بائیکس دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سیکریٹری رفیق قریشی نے کہا ہے کہ سندھ کی اقلیتی برادری کے لیے بڑی خوش خبری ہے، محکمہ ورکرز ویلفیئر بورڈ سندھ نے خواتین کے ساتھ اقلیتی برادری کے صنعتی محنت کشوں کو بھی الیکٹرک بائیکس دینے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

    سیکریٹری محنت رفیق قریشی نے کہا بورڈ کی منظوری سے ایس ای سی پی کی منظور شدہ شریعہ کمپلائنٹ سکوک بانڈز میں 3 ارب روپے کی سرمایہ کاری کرنے جا رہے ہیں تاکہ محنت کشوں کو مزید سہولیات فراہم کی جا سکیں۔ حادثاتی ہیلتھ انشورنس اسکیم میں محنت کشوں کو سالانہ 7 لاکھ روپے کی ہیلتھ انشورنس کے ساتھ ملک کے 270 اسپتالوں میں علاج میسر ہوگا۔

    فلیٹس کی بجائے ورکرز کے لیے مکمل سولرائزڈ گھر تعمیر کیے جائیں گے، ورکرز ویلفیئر بورڈ کے ماتحت اسکولوں کو بھی سولرائز کیا جا رہا ہے، سال میں 2 باربچوں کو اسکول یونیفارم دیا جائے گا۔

    سیکریٹری محنت رفیق قریشی نے مزید کہا کہ ورکرز ویلفیئر بورڈ کے تمام شعبوں کو ڈیجیٹلائز کر رہے ہیں، تاکہ محنت کشوں کو منصفانہ طور پر سہولیات فراہم کر سکیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی ہدایت پر ڈیتھ گرانٹ کی رقم 7 سے 10 لاکھ اور شادی گرانٹ کی رقم 3 سے 5 لاکھ روپے کر رہے ہیں۔

    انھوں نے کہا یہ اقدامات ورکرز ویلفیئر بورڈ سندھ کی جانب سے محنت کشوں کے حقوق اور فلاح و بہبود کے لیے ایک نئی امید اور روشن مستقبل کی ضمانت ہیں، جو نہ صرف محنت کش طبقے کے معیارِ زندگی کو بہتر بنائیں گے بلکہ تعلیم، رہائش، صحت اور توانائی کے شعبوں میں پائیدار ترقی کی راہ بھی ہموار کریں گے۔

  • سندھ میں کن خواتین کو مفت الیکٹرک بائیکس دی جائیں گی؟

    سندھ میں کن خواتین کو مفت الیکٹرک بائیکس دی جائیں گی؟

    کراچی (05 اگست 2025): ورکرز ویلفیئر بورڈ نے رواں مالی سال کا بجٹ منظور کر لیا، جس میں محنت کشوں کے لیے 7 لاکھ کی حادثاتی ہیلتھ انشورنس، 270 اسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت، اور خواتین کے لیے مفت الیکٹرک بائیکس کی فراہمی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر محنت و افرادی قوت و چیئرمین ورکرز ویلفیئر بورڈ سندھ شاہد تھہیم کی زیر صدارت ورکرز ویلفیئر بورڈ کا 33 واں اجلاس منعقد ہوا، جس میں سیکریٹری محنت رفیق قریشی، کمشنر سندھ ریونیو بورڈ، آجر و اجیر نمائندوں، فنانس ڈیپارٹمنٹ کے نمائندے اور دیگر اعلیٰ سرکاری حکام نے شرکت کی۔

    سیکریٹری رفیق قریشی نے بریفنگ میں بتایا کہ گزشتہ بجٹ میں کئی اہم اہداف مکمل کیے گئے ہیں، 10 ہزار صنعتی خواتین ورکرز کو ای بائیکس کی فراہمی سے متعلق اسکیم بھی منظور کر لی گئی ہے، حادثاتی ہیلتھ انشورنس اسکیم کا اجرا کر دیا گیا، اور لیبر کالونیوں اور تعلیمی اداروں کی بحالی، اور صنعتی کارکنوں میں سلائی مشینوں کی تقسیم سے متعلق اسکیم بھی منظور کر لی گئی۔

    نئے بجٹ میں ایکسیڈینٹل ہیلتھ انشورنس اسکیم بھی متعارف کروائی گئی ہے، جس میں محنت کشوں کو سالانہ 7 لاکھ روپے تک کی ہیلتھ انشورنس حاصل ہوگی، جس سے پورے ملک میں 270 اسپتالوں میں علاج ممکن ہوگا۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی ہدایت کے مطابق ڈیتھ گرانٹ کی رقم 7 سے 10 لاکھ روپے اور شادی گرانٹ کی رقم بھی 3 سے 5 لاکھ روپے کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔


    اسکیم کے تحت طلبہ و طالبات کو الیکٹرانک بائیکس اور پنک اسکوٹیز ملیں گی


    گورننگ باڈی نے فیصلہ کیا کہ اب فلیٹس کی بجائے ورکرز کے لیے مکمل سولرائزڈ گھر تعمیر کیے جائیں گے، ہاؤس لون اور کار لون ایک بار جب کہ بائیک لون دو بار حاصل کیے جا سکیں گے، شرط یہ ہے کہ پہلے یہ سہولت استعمال نہ کی ہو، جب کہ ہر پہلو ڈیجیٹلائزڈ ہوگا۔

    ہر مزدور اور اُس کے اہل خانہ کا ڈیٹا نادرا اور ای او بی آئی سے منسلک ہو کرڈیجیٹائز ہوگا، ورکرز ویلفئیر بورڈ ایس ای سی پی کی منظور شدہ شریعہ کمپلائنٹ سکوک بانڈز میں 3 ارب روپے کی سرمایہ کاری کرے گا، اجلاس میں یہ بھی طے پایا کہ ورکرز ویلفیئر بورڈ کے ملازمین کے لیے صحت کی سہولیات پر اخراجات کے لیے باقاعدہ معیار مقرر کیا جائے کیوں کہ موجودہ نظام کے اخراجات کی کوئی حد مقرر نہیں، سندھ حکومت کی پالیسی کے تحت سب کے لیے یکساں ہیلتھ انشورنس کا نظام بنایا جائے گا۔

    موجودہ بجٹ میں اسکولوں کی سولرائزیشن کا منصوبہ بھی شامل کیا گیا ہے اور ہر سال بچوں کو 2 مرتبہ یونیفارم دیے جائیں گے، اور تمام تعلیمی اداروں کو ڈیجیٹلائز کیا جائے گا۔

    کمشنر سندھ ریونیو بورڈ نے انکشاف کیا کہ 53 برسوں میں ایف بی آر نے مزدوروں کے فنڈز کی مد میں مجموعی طور پر 350 ارب روپے جمع کیے، جب کہ سندھ کو صرف 22.5 ارب روپے فراہم کیے گئے، ہم نے ڈیجیٹلائزیشن سے 87 بلین جمع کیے ہیں۔ اجلاس میں وزیر اعلیٰ سندھ کا وزیر اعظم کو ارسال کیا گیا باضابطہ خط بھی اجلاس میں پیش کیا گیا جس میں اس غیر منصفانہ تقسیم پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔

  • الیکٹرک گاڑیاں عام شہریوں کی دسترس میں ہیں؟ اخراجات کیا ہوں گے؟

    الیکٹرک گاڑیاں عام شہریوں کی دسترس میں ہیں؟ اخراجات کیا ہوں گے؟

    دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی الیکٹرک گاڑیوں کی طلب میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے، کیا ایک عام پیٹرول گاڑی کے مقابلے میں یہ گاڑیاں فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہیں؟

    الیکٹرک گاڑیوں کے بارے میں بہت سے خدشات بھی پائے جاتے ہیں کہ ان کی بیٹریوں کی تبدیلی کے اخراجات کیا ہوں گے اس کی کارکرگی کیسی ہوگی اور ملک میں ان کا کیا مستقبل ہے؟

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں گاڑیوں کے ماہر سنیل منج نے ملک میں الیکٹرک گاڑیوں کی کامیابی اور اخراجات سے متعلق ناظرین کو تفصیلات سے آگاہ کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ یہ نئی ٹیکنالوجی ہے اور جو بھی نئی ٹیکنالوجی متعارف کرائی جاتی ہے وہ شروع میں مہنگی ہی ہوتی ہے، انہوں نے بتایا کہ ملک میں دس بلین کے قریب موٹر سائیکلیں ہیں اسی حساب سے ان میں پیٹرول بھی بہت زیادہ استعمال ہورہا ہے۔

    سنیل منچ کا کہنا تھا کہ اگر کچھ رقم خرچ کرکے ان موٹر سائیکلوں کے انجنوں کو الیکٹرک کِٹس میں تبدیل کرلیا جائے تو بہت فائدہ ہوگا اور اس سے پیٹرول کی کھپت پر بہت بڑی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔

    الیکٹرک گاڑیوں کی مینٹننس کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ان گاڑیوں میں وہ مسائل نہیں ہوتے جو دیگر عام گاڑیوں میں ہوتے ہیں کیونکہ ان میں نہ تو پیٹرول یا پانی ڈلتا ہے اور نہ ہی موبل آئل استعمال ہوتا ہے۔

    پاکستان میں الیکٹرک کاروں کی قیمت کی بات کی جائے تو ظاہر ہے یہ الیکٹرک گاڑیاں سستی نہیں ہیں اور اس بات پر بھی غور کرنا ضروری ہے کہ پاکستان میں کتنے لوگ ان گاڑیوں کو خرید سکتے ہیں۔

    فی الحال زیادہ تر  الیکٹرک گاڑیاں مکمل طور پر بیرون ملک سے اسمبل ہوکر پاکستان آتی ہیں، جس کی وجہ سے ان پر زیادہ درآمدی ڈیوٹی لاگو ہوتی ہے۔ حکومتی مراعات کے باوجود یہ کاریں اب بھی مکمل طور پر ’بلڈ اپ‘ ہیں اور زیادہ تر خریداروں کی پہنچ سے دور ہیں۔

    وطن عزیز میں الیکٹرک گاڑیوں کے فروغ میں ایک بڑا چیلنج انفراسٹرکچر کی کمی بھی ہے۔ ان گاڑیوں کے لیے چارجنگ اسٹیشنز کی کمی اور بجلی کی قلت جیسے مسائل اس ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں جن پر قابو پانا بہت ضروری ہے۔