Tag: اےآروائی نیوز

  • پتوں سے بنائے گئے ماحول دوست برتن

    پتوں سے بنائے گئے ماحول دوست برتن

    پتوں میں کھانا کھانے کا رواج نئی بات نہیں۔ قدیم دور کا انسان پتوں ہی کی مدد سے کھانا تناول کیا کرتا تھا۔ اب اسی خیال کو جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے نئے انداز میں پیش کیا جارہا ہے۔

    جرمنی کی لیف ری پبلک نامی ایک کمپنی ایسے برتن بنا رہی جنہیں بنانے کے لیے پتوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔

    برتنوں کے لیے ان پتوں کو حاصل کرنے کے لیے ایک بھی درخت نہیں کاٹا جاتا۔ اسی طرح یہ برتن پھینکے جانے کے بعد بہت کم وقت میں زمین کا حصہ بن جاتے ہیں۔

    زمین میں تلف ہونے کے لیے انہیں 28 دن درکار ہیں۔ یوں یہ ہماری زمین پر آلودگی یا کچرا پھیلانے کا سبب بھی نہیں بنتے۔

    عام دھاتوں یا پلاسٹک سے بنائے جانے والے برتنوں کے برعکس اس میں کوئی کیمیکل یا مصنوعی رنگ بھی استعمال نہیں کیے جاتے یوں یہ مضر صحت اجزا سے محفوظ ہیں۔

    پتوں کو پلیٹ یا مختلف برتنوں کی شکل میں ڈھالنے کے لیے ان پر عام دھاگوں سے سلائی کی جاتی ہے۔ یہ دھاگے اور پتے زمین میں تلف ہو کر اس کی زرخیزی میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • اپنی تخلیقی صلاحیت کو مہمیز کریں

    اپنی تخلیقی صلاحیت کو مہمیز کریں

    کیا آپ آئزک اسیموو کو جانتے ہیں؟ آئزک اسیموو ایک امریکی مصنف اور پروفیسر ہیں جنہوں نے سائنس فکشن پر بے شمار کتابیں لکھی ہیں۔ ان کی کتابوں کی تعداد 500 سے زائد ہے، جی ہاں 500۔

    آئزک کی تحریروں کی تعداد اس قدر ہے کہ اگر آپ ان کی تحاریر کا شمار کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو 25 سال تک ہر دو ہفتے بعد ایک مکمل ناول لکھنا ہوگا۔ آئزک نے اپنی خود نوشت سوانح حیات بھی لکھی جس کا نام ہے، ’اچھی زندگی گزری‘۔

    شاید یہ ہمارے لیے ایک حیرت انگیز بات ہو کیونکہ ہم میں سے بہت سے افراد کتاب لکھنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ ایسا کون سا موضوع اور کون سا خیال چنیں جسے پھیلا کر ایک کتاب کی شکل دی جاسکے۔

    کچھ باعلم افراد اپنی زندگی میں ایک، 2 یا 5 کتابیں بھی لکھ لیتے ہیں لیکن 500 کتابیں لکھنے کا خیال ان کے لیے بھی کافی مشکل ہوگا۔

    لیکن فکر نہ کریں، آئزک نے اپنی سوانح میں ان رازوں سے آگاہی دی ہے جن کے ذریعہ وہ اتنی بڑی تعداد میں کتابیں لکھنے میں کامیاب ہوئے۔ آئزک کا کہنا ہے کہ کوئی بھی تخلیقی کام، شاعری، مصوری، قلم کاری یا موسیقی تخلیق کرتے ہوئے تخلیق کار یکساں کیفیات و مراحل سے گزرتے ہیں۔

    آئیے آپ بھی وہ راز جانیں جنہوں نے آئزک کو ایک بڑا مصنف بنایا۔


    سیکھنا مت چھوڑیں

    آئزک اسیموو ویسے تو ایک سائنس فکشن رائٹر کے طور پر مشہور ہیں۔ انہوں نے کولمبیا یونیورسٹی سے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے طبیعات، قدیم تاریخ، حتیٰ کہ انجیل پر بھی ایک کتاب لکھ ڈالی۔

    تو آخر انہوں نے اتنے متنوع موضوعات پر کتابیں کیسے لکھ لیں؟

    اس بارے میں وہ بتاتے ہیں، ’مختلف موضوعات پر کتابیں میں نے اس بنیادی معلومات کی بنا پر نہیں لکھیں جو میں نے اسکول میں حاصل کیں۔ میں ان تمام موضوعات پر ساری زندگی پڑھتا رہا‘۔

    آئزک کی لائبریری میں ہر موضوع پر کتابیں موجود ہیں۔ وہ تاریخی، خلائی اور سائنسی میدان میں ہونے والی اصلاحات، تحقیقات اور نئی دریافتوں سے خود کو آگاہ رکھتے تھے اور مستقل مطالعہ کرتے رہتے تھے۔


    جمود سے مت لڑیں

    آئزک کہتے ہیں کہ ہر عام انسان کی طرح اکثر اوقات وہ بھی جمود کا شکار ہوگئے اور کئی بار لکھنے کے دوران وہ خود کو بالکل خالی الدماغ محسوس کرنے لگے۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں۔ کوئی موضوع آپ کا کتنا ہی پسندیدہ کیوں نہ ہو، آپ اسے لکھنے کے دوران بھی جمود کا شکار ہوسکتے ہیں اور آپ کو یوں لگتا ہے جیسے آپ کے خیالات ختم ہوگئے ہیں۔

    اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے آئزک نہایت شاندار تجویز دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ایسے موقع پر وہ مذکورہ کام کو ادھورا چھوڑ کر دوسرے کاموں میں مصروف ہوجاتے تھے۔ کسی دوسرے موضوع پر لکھنا، یا مطالعہ یا کوئی بالکل متضاد کام۔

    تھوڑا عرصہ گزرنے کے بعد ان کے جمود کی کیفیت ختم ہوجاتی تھی اور جب وہ اس ادھورے کام کو مکمل کرنے کے لیے واپس پلٹتے تھے تو اس بار ان کا دماغ توانائی اور نئے خیالات سے بھرپور ہوتا تھا۔


    رد کیے جانے کا خوف

    آئزک کا کہنا ہے کہ کسی بھی تخلیق کار، مصور، شاعر، قلم کار، مصنف حتیٰ کہ اپنے کاروبار میں نئے نئے آئیڈیاز کو عملی جامہ پہنانے والا بزنس مین بھی اس خوف کا شکار ہوتا ہے کہ جب اس کا آئیڈیا حقیقت کا روپ دھارے گا تو کیا لوگ اسے قبول کریں گے؟

    لکھنے والے افراد اکثر اس تذبذب کا شکار ہوتے ہیں کہ آیا جو انہوں نے لکھا وہ پڑھے جانے کے قابل بھی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ پڑھنے والے کو یہ سب بے ربط اور غیر منطقی لگے۔

    آئزک کے مطابق یہ خوف ایک مثبت شے ہے، کیونکہ اس خوف کی وجہ سے تخلیق کار اپنی تخلیق کی نوک پلک بار بار درست کرتا ہے اور اسے بہتر سے بہترین بنانے کی کوشش کرتا ہے۔

    لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس خوف کو اس قدر حاوی نہ کیا جائے کہ تخلیق کار کا تخلیقی خیال اس کے اندر ہی گھٹ کر مر جائے اور صرف اس خوف کی وجہ سے دنیا کے سامنے نہ آسکے کہ یہ پسندیدگی کا درجہ نہیں پاسکے گی۔


    معیار کو پست کریں

    اپنی سوانح میں آئزک لکھتے ہیں کہ کہ یہ ناممکن ہے کہ کوئی مصور اپنی پہلی ہی کوشش میں مونا لیزا جیسی شہرہ آفاق پینٹنگ تخلیق کر ڈالے۔ ان کا ماننا ہے کہ جب آپ اپنے تخلیقی کام کا آغاز کریں تو اسے شاہکار کی صورت پیش کرنے کا خیال دل سے نکال دیں اور اپنے معیارات کو نیچے لے آئیں۔

    وہ کہتے ہیں کہ اپنی ابتدائی تخلیق کو سادہ لیکن اچھا پیش کریں۔ جب تک آپ کو تجربہ نہ ہوجائے اسے بہت شاندار یا شاہکار بنانے سے گریز کریں۔ یہ امر آپ کی تخلیق (شاعری، مصوری، ناول) کو بگاڑ دے گا۔

    مثال کے طور پر اگر آپ کوئی مضمون لکھ رہے ہیں تو اس میں دنیا جہاں کی معلومات دینے کے بجائے صرف وہ معلومات شامل کریں جن کے بارے میں آپ 100 فیصد پریقین ہوں اور وہ ہر حال میں درست ہوں۔ اس مضمون کے پھیلاؤ کو کم کریں اور کسی ایک موضوع تک محدود کریں تاکہ آپ پوری طرح اس کا حاطہ کرسکیں۔

    یاد رکھیں کہ ایک تخلیق کار کبھی اپنی تخلیق سے نفرت نہیں کرسکتا۔ آپ کی ابتدائی تخلیق ہوسکتا ہے کہ آپ کے ہم پیشہ کسی تجربہ کار شخص کے لیے خاص نہ ہو، لیکن وہ ان افراد کے لیے ضرور دلچسپی کا باعث ہوگی جو اس موضوع کے بارے میں بہت کم یا بالکل معلومات نہیں رکھتے۔


    خیال کو طاری کرلیں

    آئزک اسیموو سے ایک بار کسی نے پوچھا، ’تم اپنی کتاب کے لیے اتنے سارے آئیڈیاز کیسے سوچ لیتے ہو‘؟

    آئزک کا جواب تھا، ’میں سوچتا رہتا ہوں، سوچتا رہتا ہوں اور ایک خیال، ایک آئیڈیے سے نئے آئیڈیاز نکلتے جاتے ہیں‘۔

    وہ بتاتے ہیں کہ تنہا راتوں میں، میں ایک خیال پر سوچتا رہتا ہوں۔ اس میں موجود خوشی کے واقعات پر خوش ہوتا ہوں، اور اداس واقعات پر روتا ہوں۔ اس طرح ایک خیال سے کئی خیالات وجود میں آجاتے ہیں۔

    تو پھر کیا خیال ہے آپ کا؟ آئزک اسیموو کے یہ راز آپ کی تخلیقی صلاحیت کو مہیز کرنے میں کتنے کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں؟


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • وائی فائی خاموش قاتل ثابت ہوسکتا ہے

    وائی فائی خاموش قاتل ثابت ہوسکتا ہے

    آج کل گھروں میں وائی فائی کی موجودگی ایک عام بات ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ وائی فائی ہمارے لیے ایک خاموش قاتل ثابت ہوسکتا ہے جو ہمیں سنگین طبی مسائل میں مبتلا کرسکتا ہے۔

    آئیں دیکھتے ہیں ہمارے گھروں میں موجود وائی فائی ہم پر کیا اثرات مرتب کر رہا ہے۔

    وائی فائی کی نان تھرمل ریڈیو فریکوئنسی ریڈی ایشن خلیوں کی افزائش پر برا اثر ڈالتی ہے۔ اس سے بچے اور وہ نوجوان متاثر ہوتے ہیں جن کا جسم افزائش کے مرحلے میں ہوتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق وائی فائی کی تابکاری بڑھتے ہوئے بچوں کی جسمانی و دماغی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے۔

    وائی فائی سے خارج ہونے والے فریکوئنسی نیند پر برا اثر ڈالتی ہیں۔ ہم میں سے اکثر افراد نیند نہ آنے، بے آرام نیند آنے اور نیند پوری نہ ہونے کی شکایت کرتے ہیں۔ اس کا ذمہ دار  ہمارے گھر میں لگا وائی فائی ہی ہے۔

    وائی فائی کی تابکاری مردوں میں بانجھ پن جبکہ خواتین میں ابنارمل حمل کا خطرہ بڑھا سکتی ہے۔

    وائی فائی اور موبائل سے خارج ہونے والی تابکاری کا سب سے خطرناک اثر دماغ پر پڑتا ہے۔ یہ تابکار شعاعیں سب سے پہلے دماغ کی کارکردگی کو کم کر کے مختلف دماغی مسائل پیدا کرتی ہیں۔

    آہستہ آہستہ یہ دماغ کو کینسر کا آسان ہدف بنا دیتی ہیں جس کے بعد دماغی کینسر کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔


    خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے

    وائی فائی سے مکمل طور پر گریز تو ممکن نہیں البتہ کچھ اقدامات کر کے ان سے ہونے والے خطرات میں کمی کی جاسکتی ہے۔

    وائی فائی کے راؤٹر کو ایسی جگہ رکھنے سے گریز کریں جہاں آپ کے دن کا بیشتر حصہ گزرتا ہو جیسے کچن یا بیڈ روم۔

    موبائل اور ٹی وی کے استعمال کی طرح وائی فائی کا بھی ایک وقت مقرر کریں اور ضرورت کے وقت ہی راؤٹر کو آن کریں۔ اس کے علاوہ اپنا وائی فائی بند رکھیں۔

    رات سونے سے قبل تمام وائی فائی ڈیوائسز کو ڈس کنیکٹ کردیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • جسم کو نقصان پہنچانے والے 5 غلط تصورات

    جسم کو نقصان پہنچانے والے 5 غلط تصورات

    زمانہ قدیم سے ہماری صحت اور جسم کے حوالے سے کچھ ایسے تصورات قائم ہیں جنہیں درست سمجھا جاتا ہے۔ ان میں سے کئی سائنسدانوں نے اپنی تحقیق سے درست ثابت کر دیے ہیں۔

    لیکن کچھ وہم یا تصورات ایسے بھی ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ غلط ثابت ہوتے گئے۔ ان میں سے بعض ہمارے لیے نقصان دہ بھی ہیں لیکن یہ ہمارے بڑوں کے زمانے سے اب تک مستعمل ہیں۔

    مزید پڑھیں: دماغی امراض کے بارے میں 7 مفروضات اور ان کی حقیقت

    آج ہم آپ کو صحت اور غذاؤں کے حوالے سے کچھ ایسے ہی غلط تصورات کے بارے میں بتا رہے ہیں جو ہمارے جسم کو فائدہ پہنچانے کے بجائے نقصان پہنچا رہے ہیں۔


    آٹھ گھنٹے کی نیند ضروری

    کہا جاتا ہے کہ ہر شخص کے لیے آٹھ گھنٹے کی نیند ضروری ہے لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ ہر شخص کی نیند کی ضرورت مختلف ہوتی ہے۔

    کچھ افراد کی نیند کم وقت میں پوری ہوجاتی ہے جبکہ کچھ افراد کو 8 گھنٹوں سے بھی زائد نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔


    براؤن شوگر زیادہ صحت بخش

    آپ نے شوگر کے اکثر مریضوں کو براؤن شوگر استعمال کرتے دیکھا ہوگا۔ یہ عام چینی سے کم میٹھی تو ضرور ہوتی ہے مگر نہ تو یہ صحت بخش ہوتی ہے نہ ہی عام چینی سے کم نقصان دہ۔

    دونوں اقسام کی چینی جسم پر یکساں اثرات مرتب کرتی ہے۔


    وٹامن کی زیادہ گولیاں فائدہ مند

    عموماً خیال کیا جاتا ہے کہ جتنی زیادہ وٹامن کی گولیاں کھائی جائیں گی جسم اتنا ہی توانا اور طاقت ور ہوگا لیکن یہ تصور سراسر غلط ہے۔

    دن میں وٹامن کی صرف ایک گولی ہی جسم کو فائدہ پہنچا سکتی ہے، اس سے زیادہ مقدار جسم کے لیے نقصان دہ ہے۔


    اینٹی بائیوٹکس وائرس کے خاتمے میں معاون

    یہ خیال بالکل غلط ہے کہ اینٹی بائیوٹکس، وائرس کو ختم کر سکتی ہیں۔ یہ دوا صرف بیکٹریا کو ختم کر سکتی ہیں۔ ہمارے کئی امراض بشمول نزلہ اور زکام وائرس کا شاخسانہ ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان بیماریوں میں اینٹی بائیوٹکس سے آرام نہیں آتا۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ایسا ہی ہے جیسے آپ سر درد سے چھٹکارے کے لیے سر پر بینڈیج لگا لیں۔


    دماغ کے بائیں اور دائیں حصہ کا کام مختلف

    کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ دماغ کا دایاں حصہ تخلیقی خیالات جنم دیتا ہے جو بعض اوقات تصورات اور غیر حقیقی خیالات پر مبنی ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس دماغ کا دایاں حصہ عقل مندانہ خیالات کو جنم دیتا ہے۔

    موجودہ دور کے ماہرین نے اس خیال کو بالکل غلط قرار دے دیا ہے۔

    مضمون بشکریہ: برائٹ سائیڈ


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • نیویارک اسٹاک ایکسچینج کی 226 سالہ تاریخ میں پہلی خاتون صدر

    نیویارک اسٹاک ایکسچینج کی 226 سالہ تاریخ میں پہلی خاتون صدر

    واشنگٹن: نیویارک اسٹاک ایکسچینج کی 226 سالہ تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون کو صدر منتخب کرلیا گیا۔ اسٹیسی کوننگھم کل سے اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں گی۔

    اسٹیسی انجینیئرنگ کی طالبہ رہی ہیں تاہم زمانہ طالب علمی میں ایک انٹرن شپ کے لیے انہوں نے نیویارک اسٹاک ایکسچینج میں کام کیا اور یہیں سے اس شعبے میں ان کی دلچسپی کا آغاز ہوا۔

    وہ ادارے میں چیف آپریٹنگ آفیسر کی حیثیت سے کام کر رہی تھیں تاہم اب انہیں ادارے کے سڑسٹھویں صدر کے عہدے کے لیے منتخب کرلیا گیا ہے۔

    اسٹیسی کے صدر منتخب ہونے کے بعد امریکا کی 2 بڑی اسٹاک ایکسچینجز کی سربراہی اب خواتین کے ہاتھ میں ہے۔ نیویارک اسٹاک ایکسچینج کے بعد امریکا کی دوسری بڑی مالیاتی کمپنی نسدق کی سربراہی بھی ایک خاتون کر رہی ہیں۔

    ایڈینا فریڈ مین کو گزشتہ برس جولائی میں نسدق کے چیف ایگزیکٹو کے عہدے پر تعینات کیا گیا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • مزیدار کریمی مشروم چکن تیار کریں

    مزیدار کریمی مشروم چکن تیار کریں

    چکن کے بے شمار لذیذ پکوان تیار کیے جاتے ہیں جو روایتی اور علاقائی سے لے کر مغربی تک ہوسکتے ہیں۔ آج ہم آپ کو مزیدار کریمی مشروم چکن بنانے کی ترکیب بتارہے ہیں۔


    اجزا

    چکن بریسٹ کیوبز: 2 عدد

    تازہ پسی کالی مرچ: آدھا چائے کا چمچ

    نمک: ایک چوتھائی چائے کا چمچ

    تیل: 1 کھانے کا چمچ

    کٹی پیاز: 1 عدد

    کٹے مشروم: 1 کپ

    چکن کی یخنی: ایک چوتھائی کپ

    کریم: 2 کھانے کے چمچ

    کٹی ہوئی ہری پیاز: کھانے کے چمچ


    ترکیب

    ایک باﺅل میں 2 عدد چکن بریسٹ کیوبز، تازہ پسی کالی مرچ اور نمک اچھی طرح ملا کر ایک طرف رکھ دیں۔

    ایک پین میں 1 کھانے کا چمچ تیل گرم کر کے چکن کیوبز پکا کر براﺅن کریں اور ایک طرف رکھ دیں۔

    پین میں 1 عدد کٹی ہوئی پیاز پکائیں اور چمچ چلاتے رہیں۔

    اب اس میں 1 کپ کٹے مشروم شامل کریں۔

    پھر اس میں چکن کی یخنی شامل کر کے پکائیں۔

    جب یخنی آدھی رہ جائے تو اس میں 2 کھانے کے چمچ کریم اور 2 کھانے کے چمچ کٹی ہری پیاز شامل کردیں۔

    اب چکن کو واپس پین میں ڈال کر سوس اچھی طرح کوٹ کریں اور مزید 1 منٹ تک پکائیں۔

    مزیدار کریمی مشروم چکن تیار ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پختونخواہ میں ترقی کا کوئی قابل ذکر کارنامہ نہیں: نواز شریف

    پختونخواہ میں ترقی کا کوئی قابل ذکر کارنامہ نہیں: نواز شریف

    اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخواہ میں لوگ گتھم گتھا رہے، ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگاتے رہے۔ ترقی کا وہاں کوئی قابل ذکر کارنامہ نہیں، صرف جھوٹ، دھرنے اور الزام ہے۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے موقع پر میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ دنیا میرے بیانیہ کو قبول کر رہی ہے، چشتیاں جلسے میں لوگ نعرے لگا رہے تھے ووٹ کو عزت دو۔

    انہوں نے نعیم الحق کے دانیال عزیز کو تھپڑ مارنے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کا کلچر یہی ہے، اس کلچر کے ذمے دار عمران خان ہیں۔ انہوں نے ہی اس کلچر کی بنیاد رکھی۔

    نواز شریف نے کہا کہ خیبر پختونخواہ میں لوگ گتھم گتھا رہے، ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگاتے رہے۔ ’ترقی کا وہاں کوئی قابل ذکر کارنامہ نہیں، صرف جھوٹ، دھرنے اور الزام ہے، امپائر کی انگلی اور اس کے پیچھے ناچنا ہے‘۔

    سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ 4 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا وعدہ کیا تھا وہ کہاں ہے؟ ایک ارب درخت، 360 ڈیم کہاں ہیں۔ ہم نیا پختونخواہ دیکھنے کے لیے جانے کو تیار ہیں۔

    نواز شریف نے کہا کہ ’پنجاب آئیں ہم نیا پنجاب دکھانے کو تیار ہیں، یو این ڈی پی کے مطابق پختونخواہ سے زیادہ جنوبی پنجاب میں خوشحالی ہے‘۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • افریقی خانہ جنگیوں سے گوریلا بھی غیر محفوظ

    افریقی خانہ جنگیوں سے گوریلا بھی غیر محفوظ

    دنیا میں بدلتے موسموں کی وجہ سے تقریباً تمام جانداروں کو خطرات لاحق ہیں اور انہی میں سے ایک جانور گوریلا بھی ہے جس کی نسل کو معدومی کا شدید خطرہ لاحق ہے۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این کے مطابق افریقی جنگلی حیات کا اہم حصہ گوریلا کی آبادی میں پچھلی 2 دہائیوں میں خطرناک حد تک کمی آگئی ہے جس کے بعد آئی یو سی این نے اسے خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست سے نکال کر شدید خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست میں ڈال دیا ہے۔ یہ درجہ معدومی سے قبل کا آخری درجہ ہے۔

    gorilla-3

    ڈبلیو ڈبلیو ایف کے مطابق گوریلا کی ایک نسل گروئر گوریلا کی آبادی میں 77 فیصد کمی آ چکی ہے اور سنہ 1995 سے اب تک ان کی تعداد 7 ہزار سے گھٹ کر 3 ہزار 800 ہوگئی ہے۔

    صرف براعظم افریقہ میں پایا جانے والا گوریلا مغربی افریقہ کے متعدد ممالک کے جنگلات میں رہتا ہے اور ماہرین کے مطابق گوریلاؤں کی آبادی میں کمی کی سب سے بڑی وجہ ان افریقی ممالک میں ہونے والی خانہ جنگیاں ہیں جن کے باعث گوریلا کے زیر رہائش جنگلات کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

    اور صرف ایک گوریلا ہی نہیں، ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جاری کردہ رپورٹس کے مطابق پچھلے 14 سالوں میں افریقی جانوروں کی آبادی میں 24 فیصد کمی آچکی ہے جس کی سب سے بڑی وجہ ان کا بے دریغ شکار ہے۔

    مزید پڑھیں: افریقی ہاتھیوں کی آبادی میں خطرناک کمی

    دوسری جانب گوریلا کی ایک اور قسم پہاڑی گوریلا کی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ماحولیات یو این ای پی کے مطابق ان گوریلاؤں کے تحفظ کے لیے خصوصی اقدامات کیے جارہے ہیں جو بار آور ہو رہے ہیں۔

    یو این ای پی کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مختلف افریقی ممالک میں پہاڑی گوریلاؤں کی تعداد 300 سے بڑھ کر 880 ہوگئی ہے۔

    نارویجیئن سیاستدان اور یو این ای پی کے سربراہ ایرک سولہیئم کا کہنا ہے کہ گوریلا انسانوں سے بے حد مماثلت رکھتے ہیں اور ان کا ڈی این اے 99 فیصد انسانوں سے مشابہہ ہوتا ہے۔ ’انسانوں سے اس قدر مشابہت بندر سمیت کسی اور جانور میں نہیں‘۔

    gorilla-2

    افریقی حکام کا کہنا ہے کہ ان گوریلاؤں کا تحفظ افریقہ کی سیاحت میں اضافے کا باعث بھی بن رہا ہے جو دنیا بھر میں اپنے فطری حسن اور متنوع جنگلی حیات کی وجہ سے ہی مشہور ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • قاہرہ کی سڑکوں پر رقصاں خواتین بیلے ڈانسرز

    قاہرہ کی سڑکوں پر رقصاں خواتین بیلے ڈانسرز

    کیا آپ نے کبھی بیلے ڈانسرز کو سڑک پر رقص کرتے دیکھا ہے؟

    مغربی ممالک میں تو شاید یہ ایک عام بات ہو لیکن ایشیائی خصوصاً مسلمان ممالک میں یہ ایک نہایت ہی حیرت انگیز اور غیر معمولی بات ہے۔ سڑک پر رقاصوں اور خصوصاً خواتین رقاصاؤں کا رقص بہت سوں کو ناگوار گزر سکتا ہے۔

    مصر کے دارالحکومت میں بھی ایک فوٹو گرافر اور چند بیلے ڈانسرز نے قاہرہ کی سڑکوں پر رقص کر کے لوگوں کو ناک بھوں چڑھانے پر مجبور کردیا۔ بیلے ڈانس رقص کی ایسی قسم ہے جس میں رقاص اپنے پاؤں کی انگلیوں کے سہارے رقص کے مختلف مراحل سر انجام دیتا ہے۔

    cairo-9

    cairo-3

    محمد طاہر نامی یہ فوٹوگرافر اس سے قبل بہت سے ممالک میں سڑک پر بیلے ڈانس کے مظاہرے اور ان کی تصویر کشی و عکس بندی دیکھ چکا تھا اور وہ مصر میں بھی ایسا ہی فوٹو پروجیکٹ شروع کرنا چاہتا تھا۔

    جب اس نے چند بیلے ڈانسرز کی مدد سے اس پر کام شروع کیا تو بہت جلد اس کی تصاویر خواتین کی خود مختاری کی علامت بن گئیں۔ اس کی یہ تصاویر سڑکوں پر خواتین کی چھیڑ چھاڑ اور ہراسمنٹ کے خلاف ایک استعارے کے طور پر لی جانے لگیں۔

    cairo-10

    cairo-4

    Happiest of birthdays to our beautiful ballerina @haniahindy ❤️

    A post shared by Ballerinas of Cairo (@ballerinasofcairo) on

    محمد طاہر نے نہ صرف ان رقاصاؤں کی رقص کرتے ہوئے تصویر کشی کی، بلکہ پس منظر میں ان افراد کو بھی عکس بند کرلیا جو ان ڈانسرز کو حیرت، ناگواری، یا تعجب سے دیکھ رہے ہیں۔

    cairo-5

    cairo-6

    قاہرہ شہر کی اندرونی گلیوں میں عکس بند کی جانے والی ان تصاویر کے پس منظر میں قاہرہ کی قدیم اور روایتی مضبوط دیواریں، گلیاں، گھر اور دیگر تاریخی تعمیرات اور ان کے سامنے بیلے ڈانس کا مظاہرہ، دیکھنے والوں کو مبہوت کردیتا ہے۔

    cairo-7

    cairo-2

    cairo-8

    cairo-11

     


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • گوشت کھانے کا خطرناک نقصان

    گوشت کھانے کا خطرناک نقصان

    کیا آپ بہت زیادہ گوشت کھانے کے عادی ہیں اور گوشت کے بنا آپ کو کھانا ادھورا لگتا ہے؟ تو پھر آپ اپنے پھیپھڑوں کے لیے کینسر کو دعوت دے رہے ہیں۔

    امریکی ریاست ٹینسی کی ونڈر بلٹ یونیورسٹی میڈیکل سینٹر میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق سیچوریٹڈ چکنائی یا چربی کا باقاعدہ استعمال پھیپھڑوں کے کینسر میں 14 فیصد اضافہ کرسکتا ہے۔

    یہ چکنائی مختلف اقسام کے گوشت اور مکھن وغیرہ میں پائی جاتی ہے۔

    ماہرین کے مطابق یہ خطرہ ان افراد میں مزید بڑھ جاتا ہے جو تمباکو نوشی کے عادی ہوتے ہیں۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ گو کہ چکنائی جسم کے لیے بے حد ضروری ہے تاہم اس کی بہت زیادہ مقدار جسم کو امراض قلب سمیت بہت سی بیماریوں میں مبتلا کرسکتی ہے۔

    ماہرین نے تجویز دی کہ ان بیماریوں سے بچنے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ متوازن غذا کو اپنایا جائے اور صرف گوشت پر انحصار کرنے کے بجائے سبزیوں، پھلوں، دالوں اور مچھلی وغیرہ کو اپنی غذا کا حصہ بنایا جائے۔

    تحقیق میں شامل ایک پروفیسر کے مطابق ایسا نہیں کہ آپ گوشت سے بالکل دور ہوجائیں اور اسے کھانا چھوڑ دیں، تاہم گوشت کا استعمال ہفتے میں صرف ایک بار بہتر ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔