Tag: اےآروائی نیوز

  • غیبت سے بچانے والا جملہ

    غیبت سے بچانے والا جملہ

    دوسروں کے پیٹھ پیچھے گفتگو کرنا اور غیبت کرنا آج کل کا ایک عام چلن ہے۔ بعض لوگ اس میں بہت دلچسپی لیتے ہیں لیکن بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس قسم کی گفتگو سے بچنا چاہتے ہیں۔

    ایک حالیہ سروے کے مطابق ہماری گفتگو کا 80 فیصد حصہ دوسروں کے بارے میں گفتگو پر مشتمل ہوتا ہے۔


    لوگ غیبت کیوں کرتے ہیں؟

    ماہرین سماجیات کے مطابق غیبت کرنے کی مندرجہ ذیل وجوہات ہوسکتی ہیں۔

    جب ایک جیسی ذہنیت کے دو یا دو سے زائد افراد مل بیٹھتے ہیں تو وہ اس شخص کی برائی کرتے ہیں جسے وہ مشترکہ طور پر ناپسند کرتے ہیں۔

    لوگ جب کسی کی خفیہ معلومات کو آگے پھیلاتے ہیں تو انہیں ایک پرجوش کیفیت محسوس ہوتی ہے کہ وہ ایک ایسا راز جانتے ہیں جو کسی اور کو نہیں معلوم۔

    کسی دوسرے کی ناکامیوں اور غلطیوں کے بارے میں گفتگو کرنا بعض لوگوں کو خوشی فراہم کرتا ہے۔ ایسے لوگ کسی کی کامیابیوں یا اچھے کاموں کے بارے میں گفتگو نہیں کرتے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ بری عادت ہمارے معاشرے میں بری طرح سرائیت کر چکی ہے اور ہم چاہ کر بھی اس سے بچ نہیں سکتے، لیکن ایک جملہ ایسا ہے جو اس ناخوشگوار گفتگو سے بچا سکتا ہے۔


    آپ یہ سب مجھے کیوں بتا رہے ہیں؟

    جب بھی کوئی شخص آپ کو غیر ضروری اور منفی گفتگو میں شامل کر کے آپ کا وقت ضائع کرنے کی کوشش کرے آپ اسے کہیں، ’آپ مجھے یہ سب کیوں بتا رہے ہیں؟‘ یہ جملہ فوراً انہیں روک دے گا اور وہ آپ سے کسی کی غیبت کرنے سے گریز کریں گے۔

    یہ جملہ آپ کی عدم دلچسپی کو بھی ظاہر کرے گا جو غیبت کرنے والے شخص کے لیے ناپسندیدہ چیز ہے۔ وہ ان لوگوں سے غیبت کرنا پسند کرتا ہے جو اس کی بات کو شوق سے سن کر اپنے تاثرات دیں۔

    مزید پڑھیں: زندگی کو تبدیل کرنے والی 5 عادات

    ماہرین کا کہنا ہے کہ کسی کے بارے میں گفتگو کرنا بری بات نہیں۔ لیکن کسی کے بارے میں گمراہ کن اور غلط معلومات پھیلانا، اس کی خامیوں کو ایک سے دوسرے شخص تک پھیلانا، اور اس کی غلطی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا غلط ہے اور پرسکون زندگی سے بچنے کے لیے اس سے گریز کرنا ضروری ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • صلاحیتوں کو کھا جانے والے احساس کمتری سے بچنا بہت آسان

    صلاحیتوں کو کھا جانے والے احساس کمتری سے بچنا بہت آسان

    احساس کمتری خود کو کسی سے کم تر سمجھنے، کسی محرومی کا شکار ہونے، اور خود ترسی میں مبتلا ہونے کا نام ہے۔ یہ کیفیت زندگی میں پیش آنے والے مختلف حالات سے تعلق رکھتی ہے۔

    کچھ افراد کا ناخوشگوار یا محرومیوں بھرا بچپن انہیں احساس کمتری کا شکار کردیتا ہے، جبکہ کچھ زندگی میں کوئی بڑا مالی یا جذباتی نقصان اٹھانے کے بعد اس کیفیت کا شکار ہوجاتے ہیں کہ وہ اس کے ذمہ دار تھے یا وہ اسی نقصان کے مستحق تھے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ خود ترسی اور احساس کمتری آپ کی دماغی کارکردگی اور صلاحیتوں کو بری طرح متاثر کرتا ہے۔

    مزید پڑھیں: فوری طور پر ترک کردینے والی 5 عادات

    یہ دراصل کسی شخص کو ہمیشہ منفی پہلو کی طرف متوجہ رکھتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے اندر یا اپنے ارد گرد موجود مثبت چیزوں کو دیکھنے سے محروم رہ جاتا ہے۔

    آج ہم آپ کو اسی احساس کمتری سے نمٹنے کے لیے کچھ تجاویز بتا رہے ہیں جنہیں اپنا کر وقتی طور پر حاوی ہونے والے محرومی کے احساس سے تو نمٹا جاسکتا ہے، تاہم اگر آپ بچپن سے اس کا شکار ہیں تب آپ کو اس لیے طویل المدتی حکمت عملی اور مثبت طرز عمل اپنانے کی ضرورت ہوگی۔


    اپنی پیٹھ تھپکیں

    احساس کمتری کا شکار افراد کے لیے اپنی تعریف کرنا سب سے زیادہ ضروری عمل ہے کیونکہ ان کی زندگی میں اسی چیز کی کمی ہوتی ہے۔

    دن کے اختتام پر اپنے دن بھر کے معمولات پر نظر ڈالیں اور ان کاموں کی تعریف کریں جن کی وجہ سے دوسرے آپ سے خوش ہوئے۔

    یاد رکھیں کہ بعض دفعہ آپ ذاتی یا عملی زندگی میں ایسے افراد سے بھی گھرے ہوتے ہیں جو آپ سے حسد کرتے ہیں، ایسے لوگ آپ کے اچھے کاموں اور کامیابی پر بھی ہمیشہ تنقید کرتے رہیں گے لہٰذا آپ کو خود اپنے اچھے کاموں کو محسوس کرنا اور ان پر اپنی پیٹھ تھپکنی ہے۔

    اپنے آپ کو بہتر سمجھیں لیکن خیال رکھیں کہ آپ کا یہ احساس، احساس برتری میں تبدیل نہ ہو جو احساس کمتری سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔


    سوشل میڈیا کا عمل دخل کم

    متعدد تحقیقات میں یہ بات ثابت کی جاچکی ہے کہ سوشل میڈیا کا بہت زیادہ استعمال لوگوں کو احساس کمتری میں مبتلا کرنے کا سبب بنتا ہے۔

    اس کی وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر دوسروں کی ذاتی زندگی میں جھانکتے ہوئے لوگ اپنی زندگی کا اس سے موازنہ کرتے ہیں جس کے بعد انہیں اپنی زندگی کی نادیدہ محرومیوں کا احساس ہوتا ہے۔

    یہ بھی یاد رکھیں کہ سوشل میڈیا پر نظر آنے والی ہر اچھی شے واقعی اچھی نہیں ہوتی۔ خصوصاً یہاں دکھائی دینے والے خوبصورت چہرے فوٹو شاپ اور فلٹرز کا کمال ہوتے ہیں جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے۔

    اسی طرح اپنی زندگی کو خوش باش اور بہترین پیش کرنے والے افراد بھی بعض اوقات حقیقت میں نہایت پریشان اور ناخوش ہوتے ہیں لہٰذا کبھی بھی کسی کی زندگی کا اپنی زندگی سے تقابل نہ کریں۔

    مزید پڑھیں: سوشل میڈیا رشتوں کے لیے زہر قاتل


    مشغلہ تلاش کریں

    اگر آپ ایک لگی بندھی گھر سے دفتر، اور دفتر سے گھر کی زندگی کے عادی ہیں تو اس معمول میں تبدیلی لائیں۔ اپنی پسندیدہ سرگرمیوں اور مشغلوں کو اپنائیں۔

    مختلف کھیل، تخلیقی کام، کھانا پکانا، گھر سجانا، باغبانی، رضا کارانہ خدمات یا ایسے کام جن کی طرف آپ کا رجحان ہو، اپنی زندگی کا حصہ بنائیں۔

    اپنے ہم مشغلہ افراد سے ملیں۔ ان لوگوں سے گفت و شنید اور میل جول سے آپ کے خیالات میں نیا پن پیدا ہوگا جبکہ آپ کو آگے بڑھنے کے مواقع بھی میسر آئیں گے۔


    غلطیوں سے سیکھیں

    دنیا کا ہر شخص غلطی کرتا ہے لیکن اس غلطی سے سبق سیکھ کر دوبارہ نہ دہرانے کی صلاحیت چند لوگوں میں ہوتی ہے۔ دنیا کی تمام عظیم شخصیات اگر ابتدائی زندگی میں غلطیاں نہ کرتیں اور اس سے سبق نہ سیکھتیں تو وہ کبھی عظمت کے درجے پر فائز نہ ہوتیں۔

    غلطیاں کرنا آپ کی صلاحیتوں اور کارکردگی کو بہتر بنانے کا موقع دیتا ہے۔ اپنی غلطی کو کھلے دل سے تسلیم کریں، اگر ممکن ہو تو اسے درست کریں ورنہ اسے ایک سبق کے طور پر یاد رکھیں۔

    یاد رکھیں غلطی تسلیم نہ کرنا شخصیت کی خامی ہے، لیکن غلطی کو تسلیم کرکے طویل وقت تک اپنے آپ کو اس کے لیے مورد الزام ٹہراتے رہنا بہترین شخصیت کو بھی تباہ کرسکتا ہے۔


    مثبت انداز فکر

    مثبت رخ پر سوچنا زندگی کے بہت سے مسائل کو کم کر سکتا ہے۔ ہر نقصان اور ہر برائی سے کوئی بہتری تلاش کرنے کی کوشش کریں۔

    اپنی ناقابل تلافی غلطیوں اور کوتاہیوں کو بھی اس لیے بہتر جانیں کہ وہ آپ کو اچھا انسان بننے اور بہتر زندگی کی طرف جانے میں مدد دیتی ہیں۔

    یاد رکھیں احساس کمتری کسی شخص کی صلاحیتوں کو ضائع کرنے والا احساس ہے جس سے جلد سے جلد چھٹکارہ حاصل کرنا ضروری ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کارکردگی میں اضافے کے لیے 3 دن کا ویک اینڈ ضروری

    کارکردگی میں اضافے کے لیے 3 دن کا ویک اینڈ ضروری

    ویک اینڈ کا آغاز ہونے جارہا ہے اور ایک طویل تھکا دینے والے ہفتے کے بعد چھٹی کا دن گزارنے کے لیے یقیناً آپ کے ذہن میں بے شمار منصوبے ہوں گے۔

    ہوسکتا ہے چھٹی کے دن کاموں کی ایک لمبی فہرست آپ کا انتظار کر رہی ہو، یا پھر آپ کو دوستوں اور خاندان کے ساتھ کسی تفریحی مقام پر جانا ہو، یا پھر ہوسکتا ہے چھٹی کا پورا دن آپ نے آرام کرنے کا سوچا ہو۔

    جو بھی ہو، ہفتہ وار تعطیل کا دن قریب آتے ہی سکون اور خوشی کا احساس بڑھ جاتا ہے۔

    مزید پڑھیں: تعطیلات کے دوران موت کا خطرہ

    لیکن کیا آپ جانتے ہیں سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ہر شخص کو ہفتے میں کم از کم 3 دن کا ویک اینڈ دیا جانا چاہیئے؟

    ان کا خیال ہے کہ 3 دن کا ویک اینڈ آپ کے کام کی استعداد اور کارکردگی میں اضافہ کرسکتا ہے۔

    کے اینڈرس ایرکسن نامی ماہر نفسیات کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ کسی شخص کی بہترین صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ اس سے دن میں صرف 4 سے 5 گھنٹے کام لیا جائے۔

    ان کا کہنا ہے کہ کام کے 8 گھنٹوں میں سے بیشتر وقت لوگ سوشل میڈیا پر بے مقصد اسکرولنگ کرنے میں گزار دیتے ہیں۔

    اس کی جگہ اگر انہیں 4 یا 5 گھنٹے اس طرح کام کرنے کا کہا جائے جس کے دوران وہ بیرونی دنیا سے مکمل طور پر کٹے رہیں، تو زیادہ بہتر اور معیاری نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

    مزید پڑھیں: کام کے جنونی افراد دفاتر کے لیے نقصان دہ

    کے اینڈرس ایرکسن کے علاوہ بھی دیگر کئی ماہرین طب و سائنس کا کہنا ہے کہ ہفتے کے آغاز کے بعد ابتدا کے 4 دن ہماری توانائی برقرار رہتی ہے اور ہم بڑے بڑے ٹاسک سر انجام دے سکتے ہیں۔

    اس کے بعد ہم تھکن اور بوریت کا شکار ہوجاتے ہیں اور ہماری کارکردگی میں کمی آنے لگتی ہے۔

    کچھ اسی طرح کی تحقیقوں کو مدنظر رکھتے ہوئے سنہ 2008 میں امریکی ریاست اوٹاہ کے گورنر نے بھی ایسا منصوبہ تشکیل دیا تھا جس کے تحت ملازمین ہفتے میں صرف 4 دن کام کریں گے، لیکن ان 4 دنوں میں وہ 10 گھنٹے اپنے دفاتر میں گزاریں گے۔

    اس رواج کا آغاز ہونے کے بعد مجموعی طور پر نہ صرف بجلی اور توانائی کے استعمال میں کمی دیکھی گئی، بلکہ ملازمین کی کارکردگی اور ان کے کام کے معیار میں بھی اضافہ دیکھا گیا۔

    مزید پڑھیں: ماحول دوست دفاتر سے ملازمین کی تخلیقی صلاحیت میں اضافہ

    اسی طرح کولو راڈو میں بھی ایک اسکول نے چوتھی اور پانچویں جماعت کے طالب علموں کے لیے اوقات کار میں کمی کردی جس کے بعد طلبا کی ذہنی استعداد میں اضافہ دیکھا گیا۔ طلبا نے خاص طور پر سائنس اور ریاضی کے مضامین میں بہترین کارکردگی کا مظاہر کیا۔

    لیکن ایک منٹ۔۔ پاکستان میں چونکہ 3 دن کے ویک اینڈ کا کوئی تصور نہیں، لہٰذا ہم اور آپ اپنے ایک یا 2 دن کے ویک اینڈ کو ہی غنیمت سممجھتے ہوئے اسے بہتر طور پر گزارنے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • زیادتی کا شکار آصفہ بانو کی وکیل جرات کی مثال بن گئیں

    زیادتی کا شکار آصفہ بانو کی وکیل جرات کی مثال بن گئیں

    سرینگر: مقبوضہ کشمیر میں بھارتی پولیس کے ہاتھوں زیادتی کا شکار بننے والی 8 سالہ معصوم بچی آصفہ بانو کی وکیل دپیکا سنگھ ملک بھر میں جرات اور ہمت کی مثال بن گئی۔ ہالی ووڈ اداکارہ ایما واٹسن بھی وکیل کی حمایت میں بول اٹھیں۔

    بھارتی وکیل دپیکا سنگھ کو مظلوم کشمیری بچی کا کیس لڑنے پر انتہا پسند ہندوؤں کی جانب سے قتل اور زیادتی کا نشانہ بنا دینے کی دھمکیاں بھی مل رہی ہیں تاہم وہ حوصلے کے ساتھ محاذ پر ڈٹی ہوئی ہیں۔

    حال ہی میں ان کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر بے حد وائرل ہوگئی اور لوگوں نے انہیں عزم و استقامت کی عظیم مثال قرار دیا۔

    وائرل ہونے والی تصویر میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دپیکا بنا کسی خوف کے نہایت پراعتماد انداز سے عدالت سے باہر نکل رہی ہیں۔ ان کے ساتھ کچھ مرد وکلا بھی ہیں جو ان کا ساتھ دینے کے لیے پر عزم دکھائی دے رہے ہیں۔

    سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر صارفین نے دپیکا کو ان کی بہادری پر خراج تحسین پیش کیا۔

    ٹویٹر پر ایک صارف کا کہنا تھا، ’ہمیں کتنی بار ایسی تصویر دیکھنے کو ملتی ہے جس میں ایک بااعتماد پروفیشنل خاتون موجود ہے اور اس کے ساتھی مرد اسے گھور نہیں رہے‘۔

    ایک شخص نے لکھا، ’دپیکا ایک تنہا جنگجو ہیں جو دھمکیوں اور سماجی بائیکاٹ کے باوجود آصفہ بانو کا کیس لڑ رہی ہیں‘۔

    ہالی ووڈ اداکارہ ایما واٹسن نے بھی ان کی تصویر ٹویٹ کرتے ہوئے ان کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔

    خیال رہے کہ مقبوضہ کشمیر کی 8 سالہ آصفہ بانو رواں برس 7 جنوری کو مویشی چرانے گھر سے باہر گئی تھی جس کے بعد اسے 7 ہندو پولیس اہلکاروں نے اغوا کیا اور مندر میں قید کر کے چار روز تک زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد بے دردی سے قتل کر کے جھاڑیوں میں پھینک دیا تھا۔

    آصفہ بانو کی لاش 17 جنوری کو مندر سے برآمد ہوئی۔ واقعے کے بعد رسمی کارروائی کے طور پر چند پولیس اہلکاروں کو گرفتار کیا گیا تاہم کچھ عرصے بعد ہی انہیں رہا کردیا گیا جس کے بعد یہ واقعہ منظر عام پر آگیا اور بھارت بھر میں اس کے خلاف مظاہرے پھوٹ پڑے۔

    مزید پڑھیں: خواتین یاد رکھیں، بھارت آپ کا مقبرہ بھی بن سکتا ہے

    آصفہ کے بہیمانہ قتل اور ملزمان کی رہائی کے خلاف بھارت اور کشمیر میں احتجاج شروع ہوگیا۔ کئی بالی ووڈ اداکاروں نے بھی ننھی آصفہ کو انصاف دینے اور ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔

    آصفہ بانو کا کیس بھارتی وکیل دپیکا سنگھ لڑ رہی ہیں جنہیں نہ صرف سنگین دھمکیاں دی جارہی ہیں بلکہ ان کا سماجی بائیکاٹ بھی کردیا گیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ان نشانات کی مدد سے پلاسٹک کی تباہ کاری کو جانیں

    ان نشانات کی مدد سے پلاسٹک کی تباہ کاری کو جانیں

    ہم اپنی روز مرہ زندگی میں پلاسٹک کی بوتلوں میں پانی پینے کے عادی ہیں۔ گھر سے باہر نکلتے ہوئے پانی رکھنے کا سب سے بہترین ذریعہ پلاسٹک کی بوتلوں کو سمجھا جاتا ہے۔

    لیکن بہت کم لوگوں کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ ان بوتلوں میں پانی پینا دراصل زہر پینے کے مترادف ہے۔ آپ بازار سے جو پانی کی بوتل خرید رہے ہیں، آپ کو نہیں علم کہ وہ کتنی پرانی ہے۔ زیادہ پرانی بوتلوں میں پلاسٹک کے ننھے ذرات جھڑ کر پانی میں شامل ہوجاتے ہیں جو لا محالہ ہمارے جسم میں جاتے ہیں۔

    یہ خدشہ اس وقت اور بھی بڑھ جاتا ہے جب یہ بوتلیں دھوپ یا تیز روشنی میں رکھی ہوں۔ اس صورت میں پلاسٹک کی نہایت معمولی مقدار پگھل کر پانی میں شامل ہوجاتی ہے۔ گو کہ یہ مقدار انتہائی معمولی ہوتی ہے لیکن یہ جسم میں جا کر خطرناک بیماریاں پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔

    مزید پڑھیں: ایسا پلاسٹک جو کھایا جاسکتا ہے

    اسی طرح ماہرین کا کہنا ہے کہ جب آپ کوئی پلاسٹک کی بوتل لیں تو اسے دبا کر دیکھیں۔ اگر اس میں سے کڑکڑاہٹ کی آواز آئے تو یہ اس بات کی واضح علامت ہے کہ بوتل کا پلاسٹک ٹوٹ پھوٹ رہا ہے اور اس کے ذرات پانی میں شامل ہورہے ہیں۔

    یوں تو ہر قسم کا پلاسٹک ہی تمام جانداروں کے لیے نقصان دہ ہے، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ اقسام کے پلاسٹک میں شامل کیمیائی اجزا نہایت خطرناک ہوتے ہیں اور انہیں ہرگز استعمال نہیں کرنا چاہیئے۔

    دراصل پلاسٹک کی بوتلوں پر کچھ مخصوص نشانات بنے ہوتے ہیں جو مختلف علامتوں کے ذریعے یہ بتاتے ہیں کہ اس پلاسٹک کو کن اجزا سے بنایا گیا ہے۔ ویسے تو تمام ہی قسم کی پلاسٹک صحت کے لیے زہر قاتل ہے لیکن کچھ پلاسٹک کم نقصان دہ اور کچھ بہت زیادہ نقصان دہ ہیں۔
    symbols

    آئیے آپ بھی ان نشانات سے آگاہی حاصل کریں تاکہ اگلی بار پلاسٹک کی بوتل خریدنے سے پہلے آپ کو علم ہوسکے کہ کہیں آپ زہر تو نہیں خرید رہے۔


    پی ای ٹی یا پی ای ٹی ای

    یہ نشان عموماً پلاسٹک کی بوتلوں پر لکھا جانے والا نہایت عام نشان ہے کیونکہ پلاسٹک کی زیادہ تر اقسام (خصوصاً عام استعمال والی پلاسٹک) کو ایک ہی اجزا سے تیار کیا جاتا ہے۔

    p3

    یہ بوتلیں ایک ہی بار استعمال کے لیے موزوں ہوتی ہیں، اس کے بعد ان کا استعمال ترک کردینا چاہیئے۔ یہ پلاسٹک جراثیم کی افزائش کے لیے موزوں ماحول فراہم کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں اس پلاسٹک میں شامل اجزا جسم میں جا کر ہارمونز کا نظام تباہ کرنے کا سبب بن سکتے ہیں۔


    ایچ ڈی پی یا ایچ ڈی پی ای

    ماہرین پلاسٹک کی اس قسم کو محفوظ ترین قسم قرار دیتے ہیں۔ یہ عموماً سخت پلاسٹک ہوتا ہے جس سے برتن، مختلف تیلوں کی بوتلیں، کھلونے وغیرہ بنائے جاتے ہیں۔

    یہ پلاسٹک کسی قسم کے اجزا خارج نہیں کرتے تاہم اس مٹیریل سے بنی بہت زیادہ پرانی بوتلوں کا استعمال بھی محفوظ نہیں۔


    پی وی سی یا 3 وی

    یہ وہ پلاسٹک ہوتا ہے جو عموماً موڑا جا سکتا ہے اور اسے مختلف اشیا کو لپیٹنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ دو نہایت زہریلے اجزا کو خارج کرتا ہے جو جسم کے ہارمونز کو شدید متاثر کرتا ہے۔

    pvc-2

    pvc

    ماہرین کی تجویز ہے کہ اس پلاسٹک کے استعمال سے گریز کیا جائے۔


    ایل ڈی پی ای

    یہ پلاسٹک بوتلیں بنانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا۔ یہ کیمیائی اجزا خارج نہیں کرتا تاہم پھر بھی اسے استعمال کے لیے بالکل محفوظ قرار نہیں دیا جاسکتا۔

    ایک اور سفید رنگ کا نیم شفاف پلاسٹک (پولی پروپلین) دواؤں کی بوتل یا فلیورڈ دہی کے کپ بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ سخت اور وزن میں ہلکا ہوتا ہے۔ یہ قسم نسبتاً محفوظ کہی جاسکتی ہے کیونکہ یہ درجہ حرات کے خلاف مزاحمت کرتا ہے اور گرم ہونے پر پگھلتا نہیں۔

    اسی کیمیائی طریقے سے بنائی جانے والی پلاسٹک کی ایک اور قسم جسے پولی سٹرین کہا جاتا ہے، وزن میں ہلکی اور نہایت ارزاں ہوتی ہے۔

    ldpe-2

    ldpe

    اس سے وہ اشیا بنائی جاتی ہیں، جن میں آپ کو کسی ریستوران سے ’ٹیک اوے‘ کھانا دیا جاتا ہے۔ جیسے ڈسپوزایبل کپ، کھانے کے کنٹینر، یا چمچے وغیرہ۔ یہ تیز درجہ حرات پر پگھلنے لگتے ہیں لہٰذا یہ صرف ایک بار استعمال کے لیے ہی بہتر ہیں۔


    پی سی یا نان لیبلڈ پلاسٹک

    یہ پلاسٹک کی سب سے خطرناک قسم ہوتی ہے جو عموماً کھیلوں میں استعمال کی جانے والی پانی کی بوتلوں میں استعمال ہوتی ہے۔

    p4

    یہ قسم ری سائیکلنگ یا ری یوزنگ (دوبارہ استعمال) کے لیے بھی استعمال نہیں کی جاسکتی۔

    مضمون بشکریہ: برائٹ سائیڈ

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔ 

  • عمران خان نے اپنا راز خود بتا دیا ہے: خورشید شاہ

    عمران خان نے اپنا راز خود بتا دیا ہے: خورشید شاہ

    اسلام آباد: قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ عمران خان اپنا راز خود بتا گئے، انہوں نے اشارہ دے دیا آزاد گروپ کی مدد سے حکومت بنائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان بادشاہ آدمی ہیں خود اپنا راز بتا گئے، عمران خان پورس کے ہاتھی کی طرح خود کو لتاڑ گئے۔

    خورشید شاہ نے کہا کہ عمران خان خود عندیہ دے رہے ہیں کوئی آزاد گروپ آئے گا۔ وہ اشارہ دے گئے کہ آزاد گروپ کی مدد سے حکومت بنائیں گے۔ ’اسی لیے کہتے ہیں بے وقوف دوست سے دانا دشمن بہتر ہے‘۔

    انہوں نے کہا کہ نواز شریف کے بقول 2018 کے الیکشن خلائی مخلوق کروا رہی ہے۔ 2013 میں خلائی مخلوق نے آر اوز کی شکل میں الیکشن کروائے۔

    خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ لیکشن میں دھاندلی ملک اور اداروں کے لیے ٹھیک نہیں ہوگی۔ دھاندلی سے ملک کو بہت نقصان پہنچے گا، کوئی چاہتا ہے دھاندلی سے کسی کو جتوا دے تو بہت خطرناک ہوگا۔

    انہوں نے مزید کہا کہ سابق صدر پرویز مشرف نے انٹرویو میں کہا کہ عمران خان نے 100 سیٹیں مانگیں، ’سیٹیں مانگنا ہیں تو عوام سے مانگو‘۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ایون فیلڈ ریفرنس: تفتیشی افسر عمران ڈوگر پر جرح

    ایون فیلڈ ریفرنس: تفتیشی افسر عمران ڈوگر پر جرح

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس پر سماعت جاری ہے۔ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث تفتیشی افسر عمران ڈوگر پر جرح کر رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ سماعت کے دوران سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز عدالت میں پیش ہوئے۔

    سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے تفتیشی افسر عمران ڈوگر پر جرح کو ایک بار پھر سے شروع کیا۔

    تفتیشی افسر عمران ڈوگر نے کہا کہ ایم ایل ایز میں نیلسن، نیسکول کے مالک کی معلومات مانگی گئی تھیں۔ نیلسن اور نیسکول سے متعلق بھی تحقیقات کی گئی ہیں۔ لندن سے دستاویزات عثمان احمد نے دیں۔ عثمان احمد کا بیان ریکارڈ نہیں کیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ یو کے اتھارٹی سے خط و کتابت میں دستاویزات آئیں۔ عثمان احمد یو کے اتھارٹی میں پاکستان کے نمائندے ہیں۔ دستاویزات کو پڑھ کر ان کی فہرست ترتیب دی. دستاویزات 27 مئی 2017 کو ایم ایل اے کے جواب میں آئیں تھی۔

    مزید پڑھیں: نواز شریف لندن فلیٹس کے مالک ہیں، گواہ نیب

    انہوں نے بتایا کہ اصل بینفشل آنر اور پتہ وغیرہ ایم ایل اے میں پوچھا گیا تھا۔ تحقیق میں سامنے آیا نیلسن اور نیسکول آف شور کمپنیاں ہیں۔ نواز شریف نیلسن اور نیسکول کے بے نامی دار مالک ہیں۔

    سماعت کے دوران خواجہ حارث اور پراسیکیوٹر افضل قریشی میں تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ سوال پوچھنا میرا استحقاق ہے، جو سوال ہو اس کا جواب دیا جائے جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ گواہ نے آپ کے سوال کا جواب دے دیا ہے، آپ کی مرضی کا جواب نہیں آئے گا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ جو میں نے پوچھا وہ ریکارڈ پر آنا چاہیئے جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ خواجہ حارث گواہ کے جواب کو تبدیل کر کے نہ لکھوائیں، جو جواب گواہ نے دیا ہے وہی ریکارڈ کا حصہ ہوگا۔

    تفتیشی افسر عمران ڈوگر نے مزید بتایا کہ ایم ایل اے کا جواب یو کے اتھارٹی سے موصول ہوا۔ ایف آئی اے بی وی آئی کے خطوط میں نواز شریف کے بچوں کا نام آیا۔ مجاز اتھارٹی سے اجازت لے کر دستاویزات پیش کرنے کا فیصلہ کیا۔

    انہوں نے مزید کہا کہ تفتیشی رپورٹ میں لکھا جواب ضمنی ریفرنس سے دائر کیا جائے گا۔ 27 مئی 2017 کے ایم ایل اے میں کونسل ٹیکس اسٹیٹمنٹ مانگی گئی تھی۔

    خواجہ حارث نے دریافت کیا کہ ایک کے علاوہ کسی گواہ نے لندن فلیٹس کی ملکیت کا بتایا؟ جس پر عمران ڈوگر نے کہا کہ ایک شخص کے علاوہ اور بھی 3 لوگوں نے ملکیت سے متعلق بتایا جن میں مظہر رضا، سدرہ منصور اور محمد رشید شامل ہیں۔

    عمران ڈوگر نے بتایا کہ 6 ستمبر 2017 کو محمد رشید دستاویز کے ساتھ شامل تفتیش ہوئے۔ محمد رشید کی دستاویزات نقول پر مشتمل تھیں کورنگ لیٹر اصل تھا۔ کورنگ لیٹر ایڈیشنل ڈائریکٹر نیب لاہور خاور الیاس کے نام کا تھا۔ مریم نواز اور حسین نواز حدیبیہ پیپر مل کے ڈائریکٹر شیئرز ہولڈر تھے۔ حسن نواز صرف شیئرز ہولڈر تھے۔

    انہوں نے کہا کہ مریم، حسن اور حسین نے نہیں کہا کہ جرمی فری مین دستاویز کو نہیں مانتے۔ جرمی فری مین، فری مین بکس کو شامل تفتیش نہیں کیا۔ نیب میں ملزمان نے جرمی فری مین سرٹیفائیڈ دستاویز پر انحصار نہیں کیا۔

    ان کا کہنا تھا کہ جرمی فری مین نے کنفرم کیا 2 ڈکلیئریشن پر حسین نے اس کے سامنے دستخط کیے۔ جب لندن گیا تو علم میں تھا دستاویز پر وکیل جیری فری مین کے دستخط ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ عدالت میں چیلنج

    پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ عدالت میں چیلنج

    لاہور: پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کو لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا جس میں وفاقی حکومت، اوگرا اور دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور ہائیکورٹ میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کو چیلنج کردیا گیا۔

    درخواست جوڈیشل ایکٹو ازم کی جانب سے دائر کی گئی ہے جس میں وفاقی حکومت، اوگرا اور دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

    درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ پوری دنیا میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق حکومتی بیان بے بنیاد ہے۔ دنیا میں اتنا اضافہ نہیں ہوا جتنا پاکستان میں کیا گیا۔

    درخواست گزار کے مطابق پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ حکومت کے اضافی سیلز ٹیکس کی وجہ سے ہوا۔ قیمتوں میں اضافے سے ملک بھر میں مہنگائی میں مزید اضافہ ہوگا۔

    درخواست میں مزید کہا گیا کہ حکومت پہلے ہی پیٹرولیم مصنوعات پر 15 فیصد سے زائد ٹیکس وصول کر رہی ہے جو غیر قانونی ہے۔ اس پر اضافہ آئین اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے لہٰذا عدالت پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھانے کے اقدام کو کالعدم قرار دے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • موڈیز کی بجٹ 19-2018 پر تنقید

    موڈیز کی بجٹ 19-2018 پر تنقید

    عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز نے آئندہ مالی سال 19-2018 کے بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپر ٹیکس کا آئندہ مالی سال میں جاری رہنا کریڈٹ نیگیٹو ہے۔

    تفصیلات کے مطابق عالمی ریٹنگ ایجنسی موڈیز کا کہنا ہے کہ سنہ 2021 تک سپر ٹیکس مکمل طور پر ختم ہو جائے گا۔ 2021 میں بینک کی کارکردگی میں بہتری متوقع ہے۔

    موڈیز کے مطابق سپر ٹیکس بینکوں کے منافع پر منفی اثرات مرتب کر رہا ہے۔ بینکوں پر ٹیکسوں کی شرح 39 فیصد ہے۔ سپر ٹیکس کے خاتمے سے بینکوں پر ٹیکس کی شرح 35 فیصد ہوجائے گی۔

    موڈیز نے بجٹ 19-2018 پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ سپر ٹیکس کا آئندہ مالی سال میں جاری رہنا کریڈٹ نیگیٹو ہے۔ بینکوں کی جانب سے حکومتی سیکیورٹیز میں سرمایہ کاری بڑھے گی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • شکیل آفریدی کے معاملے پر کوئی ڈیل نہیں ہو رہی: دفتر خارجہ

    شکیل آفریدی کے معاملے پر کوئی ڈیل نہیں ہو رہی: دفتر خارجہ

    اسلام آباد: ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ شکیل آفریدی کے معاملے پر کوئی ڈیل نہیں ہو رہی، حسین حقانی سے تبادلے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مسئلہ کشمیر کا واحد حل مذاکرات ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر فیصل نے ہفتہ وار بریفنگ کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر پر او آئی سی کے کانٹیکٹ گروپ کا ہنگامی اجلاس جدہ میں ہوا۔ سیکریٹری خارجہ نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم پر بریفنگ دی۔ اجلاس میں بھارتی جارحانہ عزائم سے متعلق بھی آگاہ کیا گیا۔

    ترجمان کا کہنا تھا کہ سیکریٹری خارجہ نے کشمیر کی حمایت پر او آئی سی کا شکریہ ادا کیا۔ سیکریٹری خارجہ نے واضح کیا کہ مسئلے کا واحد حل مذاکرات ہیں۔ اجلاس میں حریت کانفرنس کے غلام محمد صفی نے یادداشت پیش کی۔

    ان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ بھارت نے رواں ہفتےمزید 4 کشمیریوں کو شہید کیا۔ صرف اپریل میں 760 کشمیری گولیوں اور پیلٹ گن سے زخمی ہوئے، کشمیری قیادت کو بھی مسلسل نظر بند رکھا گیا ہے۔

    ڈاکٹر فیصل نے کہا کہ پاکستان شمالی اور جنوبی کوریا میں تاریخی مذاکرات کا خیر مقدم کرتا ہے۔ پاکستان افغانستان میں دہشت گرد حملوں کی مذمت کرتا ہے۔

    ترجمان کا کہنا تھا کہ شکیل آفریدی کے معاملے پر کوئی ڈیل نہیں کی جارہی۔ ’ڈیل ہی نہیں تو حسین حقانی کے ساتھ تبادلے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘۔

    انہوں نے کہا کہ امریکی سفارت کار کی گاڑی کی ٹکر ایک حادثہ ہے۔ امریکی سفارت کار کو تھانے لے جا کر تصدیق اور کارروائی کی گئی۔

    ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ پاک افغان سرحد پر نقل و حرکت دہشت گردوں کو مواقع فراہم کرتی ہے۔ افغان مہاجرین کی موجودگی سے دہشت گردوں کو چھپنے کا موقع ملتا ہے۔ افغان مہاجرین کی واپسی عالمی برادری کی بھی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ پاکستان اپنے حصے کا کام بارڈر مینجمنٹ نظام وضع کر کے کر رہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ افغان سرحد پر پاکستان کی حدود میں دہشت گرد موجود نہیں۔ پاکستان اسی وجہ سے بہتر سرحدی انتظام پر زور دیتا ہے۔

    بھارتی قیدی کو رہا کرنے کے حوالے سے ترجمان نے کہا کہ بھارتی قیدی جتندر کو خون کی بیماری اور ذہنی توازن خراب ہے۔ عموماً بھارت بھی ہمارے قیدیوں کو واپس بھیج دیتا ہے۔ ’بھارت میں قید 46 قیدیوں کی جلد رہائی کی امید ہے‘۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔