Tag: اےآر وائی نیوز

  • ان غذاؤں سے اپنا بلڈ پریشر گھٹائیں

    ان غذاؤں سے اپنا بلڈ پریشر گھٹائیں

    بلند فشار خون یا ہائی بلڈ پریشر ایک ایسی بیماری ہے جو دیگر کئی امراض اور خطرات کو پیدا کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ یہ دماغ کی رگ پھٹنے یا دل کے دورے کا سبب بن سکتی ہے جس سے فوری طور پر موت واقع ہونے کا خدشہ ہوتا ہے۔

    تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ غذائیں ایسی ہیں جن کے باقاعدہ استعمال سے ہم اپنا بلڈ پریشر قابو میں رکھ سکتے ہیں۔ اگر آپ ہائی بلڈ پریشر کے مریض ہیں تو آپ کو ان غذاؤں کا باقاعدہ استعمال کرنا چاہیئے۔


    کیلا

    2

    ماہرین کا کہنا ہے کہ روزانہ 2 کیلے کھانا آپ کے بلڈ پریشر کو معمول کی سطح پر رکھتا ہے، جبکہ 3 کیلے فالج سے بھی حفاظت فراہم کرتے ہیں۔

    کیلوں میں پوٹاشیم کی بڑی مقدار موجود ہوتی ہے جو ان دونوں امراض سے حفاظت فراہم کرتی ہے۔

    علاوہ ازیں یہ آسانی سے ہضم ہونے والی غذا ہے جو دن کے کسی بھی حصے میں کھائی جاسکتی ہے۔


    تربوز

    watermelon

    تربوز میں موجود عناصر جسم کی مختلف رگوں کو آرام دہ حالت میں لاتے ہیں جس سے بلڈ پریشر نارمل رہتا ہے۔

    طبی ماہرین کی تجویز ہے کہ ناشتے میں تربوز کا استعمال دن بھر آپ کو مختلف اقسام کے تناؤ سے محفوظ رکھتا ہے۔


    خشک میوہ جات

    nuts

    خشک میوہ جات کی مناسب مقدار جسم میں شوگر اور فشار خون کی سطح کو معمول کے مطابق رکھتی ہے تاہم اس کا زیادہ استعمال صحت کے لیے سخت نقصان دہ ہے کیونکہ یہ چکنائی سے بھرپور ہوتے ہیں۔


    نارنگی

    oranges

    سردیوں کا خاص پھل نارنگی نہ صرف قوت مدافعت کو مضبوط اور کئی بیماریوں سے تحفظ فراہم کرتا ہے بلکہ یہ بلڈ پریشر کو بھی قابو میں رکھتا ہے۔

    مزید پڑھیں: سردیوں میں نارنگی کھانا بے شمار فوائد کا باعث


    دلیہ

    oatmeal

    ماہرین کے مطابق ناشتے میں دلیہ کھانا جسم میں خون کی سطح کو معمول پر رکھنے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے۔

    لیکن خیال رہے کہ اس کے لیے سادہ دلیہ استعمال کیا جائے، مختلف فلیورز کے دلیہ میں شوگر کی غیر ضروری مقدار شامل کی جاتی ہے جو جسم کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔


    ٹماٹر

    tomatoes

    کچے ٹماٹر کھانا نہ صرف بلڈ پریشر میں کمی کرتا ہے بلکہ یہ جلد کو بھی جوان اور خوبصورت رکھتا ہے اور جھریوں سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔


    گاجر

    carrot

    گاجر میں موجود پوٹاشیم اور اینٹی آکسیڈنٹس بلڈ پریشر کو معمول کی سطح پر لانے کا اہم ذریعہ ہیں۔ گاجر کا جوس ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کے لیے نہایت فائدہ مند ہے۔


    آلو

    potatoes

    زیادہ آلو کھانا ویسے تو موٹاپے کا سبب بنتا ہے لیکن یہ خون کے بہاؤ کو نارمل رکھتا ہے لہٰذا کبھی کبھار آلو کھا لینے میں کوئی حرج نہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ٹریفک حادثے کی صورت میں کیا کیا جائے؟

    ٹریفک حادثے کی صورت میں کیا کیا جائے؟

    آج کل ٹریفک حادثات روز کا معمول بن گئے ہیں۔ لوگوں کی جلد بازی اور ٹریفک اشاروں کو نظر انداز کردینا افسوس ناک حادثات کا سبب بنتا ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق کسی بھی حادثے کا شکار ہونے والے موٹر سائیکل سوار افراد کی 90 فیصد اموات ہیلمٹ نہ پہننے کے باعث ہوتی ہیں۔

    ایک مصروف سڑک پر ہونے والا معمولی حادثہ بھی نہایت بھیانک بن سکتا ہے کیونکہ پیچھے سے آنے والی گاڑیاں حادثے کا شکار افراد پر چڑھ کر یا اچانک بریک لگا کر دوسری گاڑیوں کے ٹکرانےکی وجہ سے حادثے کی شدت میں اضافہ کرسکتی ہیں۔

    یہاں ہم آپ کو بتا رہے ہیں کہ خدانخواستہ کسی حادثے کا شکار ہونے کی صورت میں آپ کو کیا اقدامات اٹھانے چاہیئں۔


    اپنے آپ کو چیک کریں

    اگر خدانخواستہ آپ کسی حادثے کا شکار ہوئے ہیں تو سب سے پہلے آپ اپنے کو چیک کریں کہ آپ کو کہاں چوٹ لگی ہے۔ بظاہر معمولی محسوس ہونے والی چوٹ یا دھکہ بعض اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے اور اس کی شدت 3 سے 4 گھنٹوں بعد ظاہر ہوتی ہے۔

    لہٰذا ایکسیڈنٹ میں لگنے والی کسی بھی چوٹ کو نظر انداز نہ کریں اور موقع پر موجود ایمبولینس کے تربیت یافتہ عملے کی مدد حاصل کریں۔

    جائے وقوع سے چلے جانے کے بعد بھی کسی ڈاکٹر کو دکھانا از حد ضروری ہے تاکہ اندرونی طور پر لگنے والی کسی چوٹ کے بارے میں فوری معلوم ہوسکے۔


    زخمیوں کی مدد کریں

    اگر خوش قسمتی سے آپ زخمی نہیں ہوئے اور آپ کو کسی مدد کی ضرورت نہیں، یا ایمبولینس کے عملے نے طبی امداد کے بعد آپ کو فارغ کردیا ہے تو اب آپ کا فرض ہے کہ آپ دوسرے زخمیوں کی مدد کریں۔

    آپ کی پہلی ترجیح وہ لوگ ہونے چاہیئں جن کا خون بہہ رہا ہو، وہ بے ہوشی کی حالت میں ہوں، یا بظاہر حواسوں میں نہ لگ رہے ہوں۔

    اس موقع پر ان افراد کو چھوڑ دیں جو مدد کے لیے چیخ رہے ہوں یا رو رہے ہوں، کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے حواسوں میں ہے۔ بے ہوش پڑے افراد کی جان بچانا اور ان کی سانس بحال کرنا زیادہ ضروری ہے۔


    مدد طلب کریں

    حادثے کی صورت میں اگر آپ صحیح سلامت ہیں تو اپنے حواس بحال رکھتے ہوئے امدادی اداروں یا ایمبولینس وغیرہ کو طلب کریں۔


    ایمبولینس آنے تک

    ایمبولینس کے آنے تک بے حس و حرکت پڑے افراد کی سانس بحال کرنے کی کوشش کریں۔ انہیں اپنے منہ کے ذریعے سانس دینے کی کوشش کریں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر شخص کو اپنی زندگی میں ابتدائی طبی امداد کی تربیت ضرور لینی چاہیئے تاکہ ایسے ہنگامی مواقعوں پر کسی کی جان بچائی جاسکے۔


    زخمیوں کو سہارا دیں

    ایکسیڈنٹ کے موقع پر امداد آنے تک اور اس کے بعد بھی زخمی افراد کی مدد کریں۔ اگر کسی کو قے محسوس ہو رہی ہے تو اسے کھلی ہوا میں لے جائیں۔ زخمیوں کو سہارا دے کر بیٹھنے میں مدد کریں۔

    زخمی افراد کو ایمبولینس تک لے جائیں۔ ایسے موقع پر ریسکیو اداروں کی بھی مدد کریں اور زخمیوں کو اٹھانے میں ان کا ہاتھ بٹائیں۔


    یاد رکھیں کسی انسان کو مشکل میں دیکھ کر اس کی مدد کرنا اور اس کی جان بچانا آپ کا فرض ہے۔ آج آپ کسی کی مدد کریں گے تو کل اس وقت کوئی آپ کی مدد کو بھی آئے گا جب آپ کو اس کی ضرورت ہوگی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • گل مکئی سے نوبل انعام کا سفر ۔ دنیا آج ملالہ کا عالمی دن منا رہی ہے

    گل مکئی سے نوبل انعام کا سفر ۔ دنیا آج ملالہ کا عالمی دن منا رہی ہے

    کراچی: قوم کی بیٹی، پاکستان کی پہچان اور دنیا کی سب سے کمسن نوبل انعام یافتہ شخصیت ملالہ یوسفزئی آج اپنی 21 ویں سالگرہ منا رہی ہیں۔ ملالہ سنہ 2012 میں طالبان کے قاتلانہ حملے میں شدید زخمی ہوگئیں تھیں۔

    گل مکئی کے نام سے ڈائری لکھ کر شہرت پانے والے ملالہ 12 جولائی 1997 کو پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخواہ کے ضلع سوات کے علاقے مینگورہ میں پیدا ہوئیں جہاں انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔

    ملالہ کا نام ملال سے نکلا ہے، اور وجہ تسمیہ میوند کی ملالہ تھی جو جنوبی افغانستان کی ایک مشہور پشتون شاعرہ اور جنگجو خاتون تھی۔


    کل رات میں نے فوجی ہیلی کاپٹروں اور طالبان سے متعلق بھیانک خواب دیکھا۔ وادی سوات میں فوجی آپریشن کے آغاز سے ہی مجھے ایسے خواب آ رہے ہیں۔ امی نے ناشتہ بنایا اور میں کھا کر اسکول چلی گئی۔ اسکول جاتے ہوئے مجھے ڈر لگ رہا تھا کیونکہ طالبان نے لڑکیوں کے اسکول جانے پر پابندی لگائی ہوئی ہے۔ 27 میں سے صرف 11 لڑکیاں ہی اسکول آئی تھیں کیونکہ انہیں طالبان سے خطرہ تھا۔ میری کئی سہیلیاں اپنے خاندان والوں کے ساتھ پشاور منتقل ہو گئی ہیں۔

    ملالہ کے بی بی سی کے لیے لکھے گیے پہلے بلاگ سے اقتباس


    سنہ 2010 میں 9 اکتوبر کو جب ملالہ گھر سے اسکول امتحان کو جانے کے لیے بس میں سوار ہوئی تو ایک مسلح طالبان نے اس پر حملہ کر دیا۔ نقاب پوش حملہ آور نے پہلے پوچھا کہ ’تم میں سے ملالہ کون ہے؟ جلدی بتاؤ ورنہ میں تم سب کو گولی مار دوں گا‘۔ جب ملالہ نے اپنا تعارف کروایا تو اس شخص نے گولی چلا دی۔

    ملالہ کو لگنے والی گولی کھوپڑی کی ہڈی سے ٹکرا کر گردن سے ہوتی ہوئی کندھے میں جا گھسی۔

    دیگر دو لڑکیاں بھی اس حملے میں زخمی ہوئیں جن کے نام کائنات ریاض اور شازیہ رمضان ہیں تاہم دونوں کی حالت خطرے سے باہر تھی اور انہوں نے حملے کے بارے میں رپورٹرز کو بتایا۔

    ملالہ پر قاتلانہ حملے سے متعلق تفصیلات دنیا بھر کے اخبارات اور میڈیا پر ظاہر ہوئیں اور عوام کی ہمدردیاں ملالہ کے ساتھ ہو گئیں۔ پاکستان بھر میں ملالہ پر حملے کی مذمت میں مظاہرے ہوئے۔ تعلیم کے حق کی قرارداد پر 20 لاکھ افراد نے دستخط کیے جس کے بعد پاکستان میں تعلیم کے حق کا پہلا بل منظور ہوا۔

    ملالہ کے والد نے بیان دیا، ’چاہے ملالہ بچے یا نہ، ہم اپنا ملک نہیں چھوڑیں گے۔ ہمارا نظریہ امن کا ہے۔ طالبان ہر آواز کو گولی سے نہیں دبا سکتے‘۔

    چھ روز بعد 15 اکتوبر کو اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی برائے عالمی خواندگی اور سابقہ برطانوی وزیر اعظم گورڈن براؤن نے اسپتال میں ملالہ کی عیادت کی اور ملالہ کے حق میں ایک قرارداد شروع کی جس کا عنوان تھا ’میں ملالہ ہوں‘۔ اہم مطالبہ یہ تھا کہ 2015 تک تمام بچوں کو اسکول کی سہولیات تک رسائی دی جائے۔

    اگلے برس 12 جولائی کو جب ملالہ کی 16ویں سالگرہ تھی تب ملالہ نے اقوام متحدہ سے عالمی خواندگی کے بارے میں خطاب کیا۔ اقوام متحدہ نے اس دن کو ملالہ ڈے یعنی یوم ملالہ قرار دے دیا۔ حملے کے بعد یہ ملالہ کی پہلی تقریر تھی۔

    دس اکتوبر 2014 کو ملالہ کو بچوں اور نوجوانوں کے حق تعلیم کے لیے جدوجہد پر نوبل انعام برائے امن دیا گیا۔ 17 سال کی عمر میں ملالہ یہ اعزاز پانے والی دنیا کی سب سے کم عمر شخصیت ہے۔

    اس اعزاز میں ان کے شریک بھارت سے کیلاش ستیارتھی تھے جو بھارت میں بچوں اور خصوصاً لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کام کررہے ہیں۔

    ڈاکٹر عبدالسلام کے بعد ملالہ نوبل انعام پانے والی دوسری جبکہ نوبل انعام برائے امن پانے والی پہلی پاکستانی بن گئی ہیں۔

    ملالہ یوسفزئی کو اب تک دنیا بھر سے 40 عالمی اعزازات مل چکے ہیں جو ان کی جرات و بہادری کا اعتراف ہیں۔

    اسے اقوام متحدہ اپنا خیر سگالی سفیر برائے امن بھی مقرر کرچکی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ایسی تصاویر جن کی حقیقت پر یقین کرنا مشکل ہوجائے گا

    ایسی تصاویر جن کی حقیقت پر یقین کرنا مشکل ہوجائے گا

    کہتے ہیں کہ ایک تصویر ایک ہزار الفاظ کے برابر اثر رکھتی ہے۔ جو بات آپ ہزار لفظوں میں بیان نہیں کرسکتے، وہ کیمرے سے کھینچی گئی ایک تصویر لمحوں میں بیان کردیتی ہے۔

    آج ہم آپ کو ایسی ہی کچھ حیران کن تصاویر دکھا رہے ہیں جنہیں پہلی نظر میں دیکھ کر آپ کو ان پر فوٹو شاپ کیے جانے کا گمان ہوگا۔

    لیکن جیسے جیسے آپ ان تصاویر پر غور کریں گے، ان تصاویر کی خوبصورتی اور معنویت آپ پر وا ہوتی چلی جائے گی اور آپ سوچنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ کارخانہ قدرت میں کیسے کیسے عجائبات موجود ہیں جن کا کم از کم ایک عدد زندگی میں مشاہدہ کرلینا تو ناممکن ہے۔


    غروب آفتاب اور گرہن کا بیک وقت رونما ہونا


    زمین سے خلا میں لانچ کی جانے والی شٹل کا منظر تو آپ نے دیکھا ہوگا، لیکن خلا سے یہ منظر کیسا دکھائی دیتا ہے؟ ذرا دیکھیں


    آسمان سے گرنے والے شہاب ثاقب کا ایک ٹکڑا


    اور یہ بھلا کیا ہورہا ہے؟

    ایک مشین کے ذریعے اینٹوں سے بنی ہوئی سڑک بچھائی جارہی ہے اور یہ طریقہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں عام ہوچکا ہے۔


    پرتگال میں ایک بازار کو دھوپ سے بچانے کے لیے رنگین چھتریوں سے سجا دیا گیا۔


    کیا یہ اڑن طشتری ہے؟

    جی نہیں کسی پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھا یہ شخص بادلوں کے بننے کا مشاہدہ کر رہا ہے۔


    تھائی لینڈ کے ایک متروک شدہ شاپنگ مال میں جب پانی بھر گیا تو وہاں مچھلیاں بھی پیدا ہوگئیں۔


    2 لیٹر کی پلاسٹک بوتل اپنی تیاری سے قبل کچھ اس حالت میں ہوتی ہے جو بعد ازاں بے شمار کیمیائی عوامل سے گزاری جاتی ہے۔


    کیا اس جانے پہچانے جانور کو پہچان سکتے ہیں؟

    یہ کچھ اور نہیں بلکہ ایک ننھی سی گلہری ہے جسے قدرت نے نہایت خوبصورت، بڑی اور نرم و ملائم سی دم عطا کی ہے۔


    سمندر میں تیرتا ہوا گھوڑا


    امریکی شہر مین ہٹن سنہ 1609 اور سنہ 2017 میں


    یہ گوبھی جیومیٹری کا شاہکار لگتی ہے۔


    اوپر وہ اندھیرا ہے جو ہم اور آپ روز دیکھتے ہیں۔

    لیکن نیچے کا منظر ایک بلی کی آنکھ کا ہے کہ وہ اندھیرے میں کس طرح دیکھتی ہے۔


    ایک سمندری کچھوا جیلی فش کی مدد سے حرکت کر رہا ہے۔


    اور یہ ہے دنیا کا گہرا ترین سوئمنگ پول


    پولینڈ کی ایک جھیل کا فضائی منظر، آس پاس خزاں کے باعث بھورے رنگوں میں تبدیل درخت جھیل کو گھیرے کھڑے ہیں۔


    کیا آپ ٹائم ٹریول پر یقین رکھتے ہیں؟

    پہلی تصویر 1970 کی ہے جس میں ایک مشہور برازیلین بزنس مین کچھ چارجنگ پر لگاتا دکھائی دے رہا ہے۔ خیال رہے کہ اس وقت کے موبائل فون کچھ اس شکل کے ہوتے تھے۔

    دوسری تصویر مشہور باکسر مائیک ٹائسن کی ایک فائٹ کی ہے اور پیچھے بیٹھا ایک مداح فلیش والے اسمارٹ فون سے ان کی تصویر کھینچتا دکھائی دے رہا ہے۔ سنہ 1995 میں کھینچی جانے والی اس تصویر کے وقت اسمارٹ فون ایجاد نہیں ہوئے تھے۔

    تصاویر بشکریہ: برائٹ سائیڈ


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • کیا مستقبل کی سڑکیں پلاسٹک سے تعمیر ہوں گی؟

    کیا مستقبل کی سڑکیں پلاسٹک سے تعمیر ہوں گی؟

    پلاسٹک ہمارے کرہ ارض کو جس قدر نقصان پہنچا رہا ہے بدقسمتی سے اسی قدر پلاسٹک بنایا بھی جارہا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج ہمارے شہر اور سمندر پلاسٹک کے کچرے سے آلودہ ترین ہوچکے ہیں۔

    ایک محتاط اندازے کے مطابق ہر سال دنیا بھر میں 26 کروڑ 90 لاکھ ٹن پلاسٹک کی اشیا بنائی جاتی ہیں جو عموماً ایک بار استعمال کے بعد پھینک دی جاتی ہیں۔

    دراصل پلاسٹک ایک ایسا مادہ ہے جسے ختم ہونے یا زمین کا حصہ بننے کے لیے ہزاروں سال درکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ماحول، صفائی اور جنگلی حیات کے لیے ایک بڑا خطرہ تصور کیا جاتا ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں

    دنیا بھر سے استعمال شدہ پلاسٹک کو ختم کرنے کے منصوبوں کے بارے میں سوچا جارہا ہے اور اس ضمن میں بھارت ایک نئے منصوبے کے ساتھ سامنے آیا ہے۔

    بھارت میں ضائع شدہ پلاسٹک سے سڑکیں بنائی جارہی ہیں۔

    اس منصوبے کے تحت کچرا اٹھانے والوں کو پلاسٹک جمع کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے جس سے شہروں کی صفائی میں مدد مل رہی ہے۔ اس کے بعد اس پلاسٹک کو پگھلا دیا جاتا ہے۔

    بعد ازاں اسے تعمیراتی کمپنیوں کو فراہم کردیا جاتا ہے جہاں پر اس میں مختلف اشیا بشمول تارکول کی آمیزش کر کے ایک نئی شکل میں ڈھالا جاتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سڑکیں عام سڑکوں کے مقابلے میں بارش اور ہیٹ ویو کے موقع پر زیادہ پائیدار ثابت ہوسکتی ہیں جب شدید گرمی کے موسم میں تارکول سے بنی سڑکیں پگھلنے لگتی ہیں۔

    بھارت میں اب تک اس مٹیریل سے 21 ہزار میل کی سڑکیں بنائی جا چکی ہیں اور سڑکوں کی تعمیر کے معاملے میں اب یہ بھارتی حکومت کی پہلی ترجیح بن چکی ہے۔

    یاد رہے کہ بھارت ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کے لیے نہایت مؤثر انداز میں کام کر رہا ہے اور  بھارت نے اپنی تمام ذرائع آمد و رفت کو سنہ 2030 تک بجلی پر منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔

    مزید پڑھیں: بھارت میں بجلی سے چلنے والے رکشے

    گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں نہ صرف بھارت کو دنیا کے آلودہ ترین ممالک میں سے ایک بنا چکا ہے بلکہ یہ ہر سال 12 لاکھ بھارتیوں کو مختلف جان لیوا امراض میں مبتلا کر کے انہیں ہلاک کردیتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • بدقسمت موجد جو اپنی ہی ایجاد کے ہاتھوں مارے گئے

    بدقسمت موجد جو اپنی ہی ایجاد کے ہاتھوں مارے گئے

    ایجادات اور تخلیق قدرت کی جانب سے عطا کی گئی ذہانت کے ساتھ ساتھ انتھک محنت، ریاضت اور بے شمار جاگتی راتوں اور بے آرام دنوں کے بعد سامنے آتی ہیں۔

    اگر یہ ایجاد نسل انسانی کے لیے فائدہ مند ہو تو نہ صرف اپنے موجد بلکہ دنیا کے ہر شخص کی زندگی بدل سکتی ہے۔ تاہم تخلیق کا یہ عمل کچھ لوگوں کے لیے موت کا پیغام بھی ثابت ہوتا ہے۔

    ایک تخلیق کار کو، چاہے وہ سائنس دان ہو، شاعر ہو، مصور یا مصنف، اپنی تخلیق بہت عزیز ہوتی ہے، لیکن دنیا میں ایسے بدقسمت موجد بھی گزرے ہیں جو اپنی ہی تخلیق کردہ ایجاد کے ہاتھوں موت سے ہمکنار ہوگئے۔


    ریڈیم

    ریڈیم میری کیوری نامی خاتون کی دریافت ہے جنہوں نے طویل عرصے تک اس پر تحقیق کی اور اس دریافت پر 2 بار نوبیل انعام کی حقدار ٹہریں۔

    تاہم سنہ 1934 میں وہ طویل عرصے تک تابکار شعاعوں کی زد میں رہنے کے باعث لیو کیمیا (ہڈیوں کے گودے کے کینسر) کا شکار ہو کر انتقال کر گئی تھیں۔


    ایرو ویگن

    ایرو ویگن نامی گاڑی کا موجد ویلیرین اباکووسکی سنہ 1921 میں اپنی ایجاد کردہ گاڑی کی پہلی آزمائش کے دوران ہلاک ہوگیا۔

    ایئر کرافٹ کے انجن پر چلنے والی یہ گاڑی پہلے تجربے کے دوران اس وقت الٹ گئی تھی جب وہ نہایت برق رفتاری سے دوڑ رہی تھی۔


    پیراشوٹ سوٹ

    ایک آسٹریلوی نزاد فرانسیسی موجد فرنز ریچلٹ نے سنہ 1912 میں پیرا شوٹ سوٹ ایجاد کیا تھا۔ اس کا مقصد ان پائلٹوں کی جان بچانا تھی جو طیارے کے کسی حادثے کا شکار ہونے کے بعد طیارے سے چھلانگ لگانا چاہتے ہوں۔

    پیراشوٹ سوٹ مکمل ہونے کے بعد اس کی آزمائش کے لیے ایفل ٹاور کا انتخاب کیا گیا۔ اس موقع پر میڈیا کو بھی دعوت دی گئی۔

    تاہم بدقسمتی سے پہلی آزمائشی اڑان ہی بری طرح ناکامی سے دو چار ہوئی اور سوٹ کا موجد اپنے بنائے ہوئے سوٹ میں پھنس کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔


    ٹائی ٹینک

    سنہ 1912 میں گلیشیئر سے ٹکرا کر ایک خوفناک حادثے کا شکار ہونے والے جہاز ٹائی ٹینک کا موجد بھی اس حادثے میں اپنی جان گنوا بیٹھا تھا۔

    جہاز کا چیف ڈیزائنر تھامس اینڈریوز جونیئر اس وقت پانی میں ڈوب گیا جب وہ لائف بوٹ میں بیٹھنے کے لیے لوگوں کی مدد کر رہا تھا۔

    مزید پڑھیں: کیا ٹائی ٹینک واقعی برفانی تودے سے ٹکرایا تھا؟


    جدید پرنٹنگ مشین

    جدید پرنٹنگ کا بانی ولیم بلاک سنہ 1867 میں اپنی ہی بنائی ہوئی پرنٹنگ مشین میں آ کر اپنی ٹانگ کٹوا بیٹھا۔

    روٹری پرنٹنگ پریس نامی اس مشین میں تصاویر کو گردش کرتے سلنڈر کے ذریعے پرنٹ کیا جاتا ہے۔

    حادثے کے وقت ولیم نے چرخی کو چلانے کے لیے اس پر اپنی ٹانگ سے زور آزمائی کی جس پر اچانک مشین چل پڑی اور ولیم کی ٹانگ برق رفتاری سے گھومتی چرخی میں آکر کٹ گئی۔

    نو دن تک اسپتال میں زیر علاج رہنے کے بعد اس کی ٹانگ کا انفیکشن پورے جسم میں پھیل گیا جس کے بعد اس کی موت واقع ہوگئی۔


    پانچ تکلیفیں ۔ موت کا طریقہ

    ایک چینی شخص لی سی کی جانب سے قیدیوں کو سزا دینے کے لیے ایجاد کیا جانے والا یہ طریقہ انتہائی تکلیف دہ اور اذیت ناک تھا۔

    اس طریقے میں مجرم کے جسم کو گودا جاتا، اس کی ناک اور دونوں پاؤں کاٹ دیے جاتے، بعد ازاں اسے جنسی اعضا سے بھی محروم کردیا جاتا جس کے بعد مجرم اذیت ناک تکالیف کی تاب نہ لا کر خود ہی ہلاک ہوجاتا۔

    تاہم 208 قبل مسیح میں اس وقت کے قن خانوادے کے ایک بادشاہ کی حکم عدولی کے جرم میں موجد کو بھی اسی کے ایجاد کردہ طریقے کا حقدار قرار دیا گیا اور ہزاروں لوگوں کی اذیت ناک موت کا سبب بننے والا یہ شخص خود بھی اسی طریقے سے موت کا شکار ہوگیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • گوشت کھانے سے قبل اس کے خطرناک نقصانات جانیں

    گوشت کھانے سے قبل اس کے خطرناک نقصانات جانیں

    ہم میں سے اکثر افراد گوشت کھانے کے نہایت شوقین ہوتے ہیں اور ان کا کھانا گوشت کے بغیر ادھورا ہوتا ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں گوشت کھانا آپ کو بے شمار خطرناک ترین نقصانات پہنچاتا ہے؟

    گو کہ گوشت میں شامل غذائی اجزا جسم کے لیے ضروری ہوتے ہیں تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اجزا دوسری متبادل غذاؤں جیسے مچھلی، انڈوں یا خشک میوہ جات سے بھی حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق گوشت کو اپنی غذا کا لازمی حصہ بنانے سے قبل ان کے خطرناک نقصانات کے بارے میں جاننا ضروری ہے۔


    مصنوعی طریقہ نشونما

    آج کل غذاؤں میں بڑے پیمانے پر کی جانے والی ملاوٹ سے جانور بھی محفوظ نہیں ہیں۔

    گوشت کی فراہمی کا ذریعہ مختلف جانوروں جیسے گائے، بکریوں اور مرغیوں وغیرہ کو صحت مند دکھانے اور ان کی جلدی نشونما کے لیے انہیں مختلف انجیکشنز اور دوائیں دی جاتی ہیں۔

    یہ دوائیں ان جانوروں کے گوشت میں شامل ہو کر لامحالہ ہماری غذا کا بھی حصہ بنتی ہیں جو مختلف اقسام کے کینسر، امراض قلب اور فالج وغیرہ کا سبب بن سکتی ہیں۔

    اسی طرح پولٹری کی صنعت میں انڈوں سے جلدی چوزے نکالنے کے لیے انہیں مصنوعی حرارت دے کر یا انکیوبیٹر کے ذریعے باہر نکالا جاتا ہے جس سے وہ اپنے مقررہ وقت سے قبل نشونما پا کر انڈے سے باہر نکل آتے ہیں۔

    ماہرین کے مطابق اس طریقہ استعمال سے وجود میں آنے والے چوزے اور مرغیاں خود بھی بیمار ہوتی ہیں اور ان کا گوشت انسانی صحت کے لیے بھی سخت نقصان دہ ہوتا ہے۔

    پاکستان میں مرغیوں کو پانی سے بھرے انجکشن لگانے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جس سے مرغیاں بظاہر موٹی اور صحت مند لگتی ہیں۔


    مرغی خریدتے ہوئے دھیان رکھیں

    جب بھی آپ مرغی خریدنے جائیں تو خاص طور پر دھیان رکھیں کہ بظاہر موٹی تازی نظر آنے والی مرغی اگر سست دکھائی دے، یا کھڑے ہوتے ہوئے اس کے پنجے کمزوری کے باعث کانپتے ہوئے نظر آئیں تو ایسی مرغی ہرگز نہ خریدیں کیونکہ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس مرغی کو دواؤں اور انجکشنز کے ذریعے مصنوعی طریقے سے موٹا کیا گیا ہے۔


    قدرتی گوشت بھی نقصان دہ

    مذکورہ بالا خطرات کے علاوہ صاف ستھرا اور قدرتی گوشت بھی انسانی صحت کے لیے مضر ہے۔ سرخ گوشت (گائے، بکرے کا گوشت) کا بہت زیادہ استعمال بے شمار بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے۔


    کینسر کا امکان

    گوشت پر کی جانے والی مختلف تحقیقوں میں اس بات کی کئی بار تصدیق کی جاچکی ہے کہ بہت زیادہ گوشت کھانا لازمی طور پر کینسر کا باعث بن سکتا ہے۔

    تحقیق کے مطابق ہفتے میں 3 یا 3 سے زائد بار گوشت کھانے والے افراد میں مختلف کینسر بشمول بریسٹ کینسر کا امکان دوگنا بڑھ جاتا ہے۔

    ماہرین کے مطابق گوشت میں شامل ہارمونز ہمارے جسم میں موجود ان ہارمونز کی طاقت میں اضافہ کردیتے ہیں جو مختلف اقسام کے کینسر یا ٹیومرز کے خلیات کو نمو دینے میں مدد کرتے ہیں۔

    دوران خون میں رکاوٹ

    سرخ گوشت خون کی شریانوں کو سخت کر دیتا ہے جس سے دوران خون میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ یہ عمل فالج، دل کے دورے یا دماغ کی شریان پھٹنے کا سبب بن سکتا ہے۔

    زندگی کا دورانیہ مختصر

    ہارورڈ اسکول آف پبلک ہیلتھ میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق باقاعدگی سے گوشت کھانے والے افراد کی زندگی کا دورانیہ ان افراد کی نسبت مختصر ہوجاتا ہے جو گوشت کا کم استعمال کرتے ہیں۔

    دماغی امراض میں اضافہ

    گوشت میں چونکہ آئرن کی مقدار زیادہ ہوتی ہے لہٰذا آئرن کی زیادتی آپ میں مختلف دماغی امراض خصوصاً الزائمر کا خطرہ بڑھا دیتی ہے۔

    ہضم کرنے میں مشکل

    گوشت کے سخت ریشوں کو ہضم کرنے کے لیے ہمارے نظام ہاضمہ کو زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے جس کے باعث ہاضمے کے مسائل بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ یہ سینے اور معدے کی جلن اور بھاری پن کا باعث بھی بن سکتا ہے۔

    امراض قلب کا باعث

    گوشت کھانے سے شریانوں کے سخت ہونے اور خون کے گاڑھا ہونے کے باعث دل کو خون پمپ کرنے کے لیے زیادہ قوت صرف کرنی پڑتی ہے جس سے وہ دباؤ کا شکار ہوتا ہے۔ یہ امر دل کے اچانک دورے سمیت مختلف امراض قلب کا امکان پیدا کرسکتا ہے۔

    فوڈ پوائزن

    سبزیاں کبھی بھی کسی شخص کو فوڈ پوائزن کا شکار نہیں کرسکتیں۔ اس کے برعکس درست طریقے سے صاف نہ کیا گیا گوشت یا گوشت کی چند دن پرانی ڈش فوری طور پر فوڈ پوائزن کا شکار بنا سکتی ہے۔

    وزن میں اضافہ

    ہفتے میں 2 سے 3 بار گوشت کھاتے ہوئے وزن کو معمول کے مطابق رکھنا ناممکن ہے۔ گوشت آپ کی وزن کم کرنے کی تمام کوششوں کو بھی ناکام بنا سکتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سال کا طویل ترین دن سب سے طویل القامت جانور کے نام

    سال کا طویل ترین دن سب سے طویل القامت جانور کے نام

    آج دنیا بھر میں تیزی سے معدومی کی طرف بڑھتے زرافوں کے تحفظ کے حوالے سے عالمی دن منایا جارہا ہے۔ سنہ 1980 سے اب تک اس معصوم جانور کی آبادی میں 40 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے۔

    اس دن کو منانے کا آغاز عالمی فاؤنڈیشن برائے تحفظ زرافہ جی سی ایف نے کیا جس کے تحت ہر سال، سال کے سب سے لمبے دن یعنی 21 جون کو زمین کے سب سے طویل القامت جانور کا دن منایا جاتا ہے۔

    زمین پر پایا جانے والا سب سے طویل القامت جاندار زرافہ ایک بے ضرر جانور ہے جو افریقہ کے جنگلات میں پایا جاتا ہے۔

    عالمی ادارہ برائے تحفظ فطرت آئی یو سی این نے زرافے کو معدومی کے خطرے کا شکار جانوروں کی فہرست میں شامل کردیا ہے۔


    زرافے کی گردن لمبی کیوں ہوتی ہے؟

    کیا آپ جانتے ہیں کہ زرافے کی گردن لمبی کیوں ہوتی ہے؟

    ایک عام خیال ہے کہ زرافہ دراصل اپنی غذائی عادات کے باعث اس قد تک پہنچا۔

    درختوں کی اونچی شاخوں سے پتے کھانے کے لیے زرافے نے خود کو اونچا کرنا شروع کیا اور ہر نسل پچھلی نسل سے لمبی ہوتی گئی۔ یوں زرافہ دنیا کا لمبا ترین جانور بن گیا۔ لیکن سائنسدانوں کے مطابق ممکنہ طور پر یہ نظریہ غلط ہے۔

    کچھ عرصہ قبل جاری کی جانے والی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ زرافے کی گردن ممکنہ طور پر جنسی وجوہات کے باعث لمبی ہوئی۔

    تحقیقاتی رپورٹ میں یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ ممکن ہے زرافے مادہ زرافوں کے حصول کے لیے آپس میں لڑتے ہوں، لڑنے کے دوران وہ اپنی گردنیں آپس میں بھڑاتے ہوں اور اسی وجہ سے ان کی گردنیں لمبی ہوگئیں۔

    رپورٹ میں 1968 میں شائع ہونے والی ایک اور تحقیق کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ نر زرافوں کے سینے سے اوپر کے حصہ کی عجیب ساخت ان کے کسی خاص قسم کی لڑائی میں ملوث ہونے کی نشاندہی کرتی ہے۔

    سائنسدانوں نے اس بات کی تصدیق تو نہیں کی کہ زرافوں کی آپس کی لڑائی صرف مادہ کے حصول کے لیے ہی ہوتی تھی، تاہم وہ اس بات پر متفق ہیں کہ ان کے بیچ کوئی وجہ تنازعہ تھا جس کے باعث یہ آپس میں لڑتے تھے۔

    مکمل رپورٹ یہاں پڑھیں


    معدومی کی طرف گامزن

    آئی یو سی این کے مطابق لگ بھگ 35 سال قبل دنیا بھر میں زرافوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زائد تھی تاہم اب یہ تعداد گھٹ کر صرف 98 ہزار رہ گئی ہے۔

    کچھ عرصہ قبل زرافوں کے تحفظ کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی گئی جس میں بتایا گیا کہ زرافوں کی آبادی میں سب سے زیادہ کمی افریقہ کے صحرائی علاقوں سے ہوئی اور بدقسمتی سے یہ اتنی خاموشی سے ہوئی کہ کسی کی نظروں میں نہ آسکی۔

    رپورٹ کے مطابق ان جانوروں کی معدومی کی دو بڑی وجوہات ہیں۔

    ایک تو ان کی پناہ گاہوں کو انسانوں کی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے زرعی زمینوں میں تبدیل کردینا جس کے باعث یہ اپنے فطری گھر سے محروم ہوجاتے ہیں، دوسرا ان کے گوشت کے لیے کیا جانے والا ان کا شکار، جس کی شرح جنوبی سوڈان میں سب سے زیادہ ہے۔

    آئی یو سی این کی سرخ فہرست کے نگران کریگ ہلٹن کا کہنا ہے کہ تنازعوں اور خانہ جنگیوں سے انسانوں کے ساتھ اس علاقے کا ماحول اور وہاں کی جنگلی حیات بھی متاثر ہوتی ہے اور بدقسمتی سے براعظم افریقہ کا بڑا حصہ ان کا شکار ہے۔

    مزید پڑھیں: سفید رنگ کا حیرت انگیز زرافہ

    علاوہ ازیں موسموں میں تبدیلی یعنی کلائمٹ چینج اور قحط، خشک سالی وغیرہ بھی زرافوں سمیت دیگر جانوروں کی معدومی کی وجہ ہیں۔

    اقوام متحدہ نے منتبہ کیا ہے کہ انسانوں کی وجہ سے دنیا کی جنگلی حیات شدید خطرات کا شکار ہے جس میں سب سے بڑا خطرہ ان کی پناہ گاہوں سے محرومی ہے۔ مختلف جنگلی حیات کی پناہ گاہیں آہستہ آہستہ انسانوں کے زیر استعمال آرہی ہیں۔

    عالمی ادارے کے مطابق مندرجہ بالا تمام عوامل مل کر ہماری زمین پر ایک اور عظیم معدومی کو جنم دے سکتے ہیں جو اس سے قبل آخری بار اس وقت رونما ہوئی جب ساڑھے 6 کروڑ سال پہلے زمین سے ڈائنو سارز کا خاتمہ ہوا۔

    یاد رہے کہ ہماری کائنات میں اس سے قبل 5 عظیم معدومیاں وقوع پذیر ہو چکی ہیں جن میں زمین سے 70 فیصد سے زائد زندگی کا خاتمہ ہوجاتا تھا۔ اس کے بعد زندگی نئے سرے سے جنم لیتی تھی اور اس کا ارتقا ہوتا تھا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سندھ میں کوئی کام ٹھیک ہو بھی رہا ہے؟ چیف جسٹس

    سندھ میں کوئی کام ٹھیک ہو بھی رہا ہے؟ چیف جسٹس

    کراچی: وزرا کے زیر استعمال لگژری گاڑیوں سے متعلق ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران گاڑیوں کے استعمال سے متعلق نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں وزرا کے زیر استعمال لگژری گاڑیوں سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت ہوئی۔ لگژری گاڑیوں سے متعلق تمام صوبوں کی درخواستیں اسلام آباد میں یکجا کردی گئیں۔

    چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ تمام صوبوں کا معاملہ اسلام آباد میں سنیں گے۔ انہوں نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے استفسار کیا کہ بتایا جائے کتنی گاڑیاں تحویل میں لیں؟

    ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے بتایا کہ 149 لگژری گاڑیاں تحویل میں لے لی ہیں۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ یہ گاڑیاں کہاں کھڑی ہیں اور کیسے استعمال کی جائیں گی۔

    مزید پڑھیں: جو عدالت کو گالیاں دیتے ہیں انہیں ہی سیکیورٹی دے دی، چیف جسٹس

    ایڈوکیٹ جنرل نے بتایا کہ ایک پول بنایا گیا ہے استعمال کا طریقہ بھی طے کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے لگژری گاڑیوں کے استعمال سے متعلق نوٹیفکیشن بھی پیش کیا۔

    نوٹیفکیشن کے مطابق فیلڈ ورک اور خصوصی مقاصد کے لیے لگژری گاڑیاں استعمال کی جائیں گی۔ فیلڈ ورک اور خصوصی مقاصد کے استعمال کے لیے فی دن 25 ہزار ادا کرنا ہوں گے۔

    چیف جسٹس نے کہا کہ مطلب ہے اب سندھ حکومت نے گاڑیاں کرائے پر دینا شروع کر دیں، ’سندھ میں کوئی کام ٹھیک ہو بھی رہا ہے۔ بدنیتی کی بنیاد پر کام کیا جارہا ہے‘۔

    انہوں نے کہا کہ نوٹیفکیشن کے تحت وزرا پھر سارا دن یہ گاڑیاں استعمال کر سکیں گے۔ ورزا کو پجارو سے کم گاڑی پسند ہی نہیں آتیں۔

    چیف جسٹس نے لگژری گاڑیوں کے استعمال سے متعلق مذکورہ نوٹیفکیشن کالعدم قرار دیتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 28 جون تک ملتوی کردی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • الٹے قدموں کی دوڑ کے فوائد جانتے ہیں؟

    الٹے قدموں کی دوڑ کے فوائد جانتے ہیں؟

    ورزش کے لیے چہل قدمی کرنا اور دوڑ لگانا سب سے آسان طریقہ ہے، لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ سیدھا دوڑنے کے بجائے الٹے قدموں سے دوڑنا زیادہ فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے؟

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک عام طریقہ کار کے مطابق سیدھا دوڑنے کے بجائے الٹے قدموں سے دوڑنا ٹانگوں کے پٹھوں اور عضلات کو زیادہ فعال کرتا ہے۔

    یہ طریقہ ان لوگوں کے لیے بہترین ہے جو اپنا وزن کم کرنا چاہتے ہیں کیونکہ الٹے قدموں سے دوڑنے سے زیادہ کیلوریز ضائع کی جاسکتی ہیں۔

    الٹے قدموں سے دوڑنا جاپان میں نہایت عام ہے جہاں صبح اور شام کے وقت اکثر افراد الٹے قدموں سے جاگنگ کرتے دکھائی دیں گے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ الٹا دوڑنا آپ کے جسمانی پوسچر میں بہتری کرتا ہے جس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ آپ کو کمر اور گردن کے درد سے نجات ملتی ہے۔

    مزید پڑھیں: کمر درد سے نجات دلانے والی آسان ورزشیں

    علاوہ ازیں یہ ذہنی ارتکاز کو بھی بہتر بنا سکتا ہے کیونکہ الٹا دوڑتے ہوئے آپ کی توجہ دوڑنے پر مرکوز رہے گی۔

    ماہرین کے مطابق یوں تو دونوں طرح سے دوڑنا جسمانی صحت کے لیے مفید ہے تاہم فوری نتائج حاصل کرنے کے لیے الٹا دوڑنا زیادہ بہتر ہے۔

    اور ہاں یاد رکھیں، کہ اگر آپ الٹا دوڑنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو ایک نظر اپنے آس پاس کے ماحول پر ضرور ڈال لیں۔ ایسا نہ ہو الٹا دوڑتے ہوئے آپ کسی گاڑی سے ٹکرا جائیں یا کسی کھلے مین ہول میں جا گریں۔

    یہ ورزش صرف وہیں کریں جہاں اس قسم کا کوئی خطرہ موجود نہ ہو ورنہ آپ کو فائدے کے بجائے نقصان بھی اٹھانا پڑ سکتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔