Tag: اےآر وائی نیوز

  • مشہور ترک مٹھائی بکلاوا کھانا چاہیں گے؟

    مشہور ترک مٹھائی بکلاوا کھانا چاہیں گے؟

    بکلاوا مشرق وسطیٰ اور ترکی میں کھائی جانے والی مشہور مٹھائی ہے۔ تہہ در تہہ بنائی جانے والی اس مٹھائی کو شہد کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔

    آج ہم آپ کو اسے بنانے کی ترکیب بتا رہے ہیں جس کے بعد آپ باآسانی اسے گھر پر بھی تیار کرسکیں گے۔


    اجزا

    پف پیسٹری: آدھا کلو

    مکھن پگھلا ہوا: 100 گرام

    تیل: 1 چوتھائی کپ

    پستے باریک کٹے ہوئے: آدھا پاؤ

    چینی: 1 پاؤ

    پانی: آدھا کپ

    لیموں کا رس: 1 کھانے کا چمچ

    شہد: 2 کھانے کے چمچ


    ترکیب

    پہلے مکھن اور تیل کو اچھی طرح ایک ساتھ ملالیں۔

    اب پف پیسٹری کو چار حصوں میں کاٹ کر اسے بیلنا شروع کر دیں۔

    تیل اور مکھن کے مکسچر سے ایک اوون پروف ڈش کو گریس کر لیں۔

    پف پسٹری کی پہلی تہہ اس میں بچھا دیں۔

    برش کی مدد سے اس کے اوپر مکھن اور تیل کی پالش کریں۔

    پھر تھوڑے سے باریک کٹے پستے پھیلائیں۔

    اب اس پر دوسری پف پیسٹری کی تہہ رکھیں اور باقی سارا عمل دہرائیں۔

    اس طرح 4 تہیں لگالیں۔

    جب تمام تہیں مکمل ہو جائیں تو اس پر چھری کی مدد سے ڈائمنڈ کی شکل میں کٹ لگائیں۔

    اب اسے اوون میں 200 ڈگری پر 30 سے 35 منٹ تک بیک کر لیں یہاں تک کہ سنہرا رنگ آجائے۔

    ایک کڑاہی میں چینی، آدھا کپ پانی، لیموں کا رس اور شہد شامل کر کے ہلکی آنچ پر پکالیں۔

    سیرپ اچھی طرح گاڑھا ہو جائے تو اسے پیالے میں نکال کر ایک طرف رکھ دیں۔

    بکلاوا تیار ہو جائے تو اسے اوون سے نکال لیں اور اس پر تیار سیرپ پھیلا کر ڈالیں۔

    تھوڑا ٹھنڈا ہونے کے بعد ڈائمنڈ کی شکل میں کاٹ کے سرو کریں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • سفارتی طور پر پاکستان کو ناکام بنانے کے دعوے ناکام رہے: وزیر خارجہ

    سفارتی طور پر پاکستان کو ناکام بنانے کے دعوے ناکام رہے: وزیر خارجہ

    اسلام آباد: وزیر خارجہ خرم دستگیر کا کہنا ہے کہ یورپ نے پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ دیا۔ سفارتی طور پر پاکستان کو ناکام بنانے کے دعوے ناکام رہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر خارجہ خرم دستگیر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ عالمی تعلقات میں تیزی سے تبدیلی آرہی ہے۔ ہم نے 5 سال میں کئی چیلنجز کا سامنا کیا۔

    انہوں نے کہا کہ حکومت نے خارجہ پالیسی میں اہم اقدامات کیے۔ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ضروری اقدامات کیے، چین سے 5 سال میں تعلقات مزید مضبوط کیے، روس کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کیے۔

    وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ یورپ نے پاکستان کو جی ایس پی پلس کا درجہ دیا۔ سفارتی طور پر پاکستان کو ناکام بنانے کے دعوے ناکام رہے۔ حکومت نے کشمیری عوام کا کیس ہر فورم پر اٹھایا۔ افغان مہاجرین کی باعزت واپسی چاہتے ہیں، افغانستان کے مسئلے کا واحد حل بات چیت ہے۔

    انہوں نے کہا کہ افغانستان اور امریکا سے بہتر تعلقات چاہتے ہیں۔ ہم کبھی بھی تنہائی کا شکار نہیں رہے۔ خارجہ پالیسی کی از سر نو پیمانہ بندی کی ہے۔ چین کے ساتھ تعلقات کا کوئی نعم البدل نہیں۔

    خرم دستگیر کا کہنا تھا کہ اپنی جغرافیائی حیثیت کو معاشی طور پر استعمال کیا ہے۔ 5 سال میں وسط ایشیائی ممالک سے تعلقات کو فروغ دیا۔ پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کا باضابطہ رکن بنا۔ پاکستان نے روس کے ساتھ تعلقات کو بھی بہتر کیا۔ مشرق وسطیٰ کی کشیدہ صورتحال کے باوجود توازن قائم رکھا۔

    وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان کے یورپ سے تعلقات بھی بہتر ہوئے۔ جی ایس پی پلس سے پاکستان کی برآمدات میں 37 فیصد اضافہ ہوا۔

    انہوں نے کہا کہ افغانستان اہم ہمسایہ ہے، مشترکہ ثقافت، مذہب، روایات موجود ہیں۔ افغان طالبان کو غیر مشروط مذاکرات کی پیشکش کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ امریکا کی افغانستان اور جنوبی ایشیا پر نئی پالیسی سے اہداف پر انتشار پیدا ہوا ہے۔

    وزیر خارجہ کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی قیادت نے ہر فورم پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کیا۔ پاکستان بھارتی مظالم کو دنیا میں اجاگر کرتا رہے گا، بھارت نے کشمیر سے توجہ ہٹانے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے اپنائے۔ ایل او سی اور ورکنگ باؤنڈری پر فائرنگ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ بھارت نے خود ہی دہشت گرد حملے پلان کیے۔ بھارت نے سارک سربراہ کانفرنس ملتوی کروائی، پاکستان مستحکم اور پر امن افغانستان کا خواہاں ہے۔ پاکستان نے افغان مفاہمتی عمل کو سپورٹ کیا۔ افغانستان بارڈر مینجمنٹ پر توجہ دے۔ افغان عوام کے لیے 40 لاکھ ٹن گندم تحفے میں دی۔

    خرم دستگیر کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان نے افغان اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کی ہے۔ پاکستان کے امریکا کے ساتھ تاریخی تعلقات ہیں۔ ’دونوں ممالک کشیدگی کے بجائے باہمی تعاون چاہتے ہیں‘۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • برفانی سمندر بھی پلاسٹک کے کچرے سے آلودہ

    برفانی سمندر بھی پلاسٹک کے کچرے سے آلودہ

    پلاسٹک کا کچرا ہمارے ماحول کو تباہ کرنے والا سب سے خطرناک عنصر ہے جس میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ دنیا بھر کے سمندروں میں بھی پلاسٹک کی تعداد میں خوفناک اضافہ ہورہا ہے اور برف سے ڈھکا سمندر بھی اس سے محفوظ نہیں۔

    کچھ عرصہ قبل کی جانے والی ایک تحقیق میں ماہرین نے قطب شمالی کے سمندر کی برف میں بھی پلاسٹک کا کچرا جما ہوا پایا جس کے بعد برفانی سمندر میں پائی جانے والی آبی حیات کی زندگی کے حوالے سے تشویش میں اضافہ ہوگیا ہے۔

    تحقیق میں شامل ماہرین نے آرکٹک سمندر کے 5 مختلف مقامات کا تجزیہ کیا۔ نتیجے کے مطابق اوسطاً ایک لیٹر کی برف میں مختلف جسامت کے 12 ہزار پلاسٹک کے ٹکڑے موجود تھے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ ان اشیا میں مختلف پیکنگ کی تھیلیاں، نائیلون، بحری جہازوں سے جھڑنے والا پینٹ اور پولیسٹر وغیرہ شامل ہیں۔ آرکٹک کے سمندر میں پلاسٹک کی یہ مقدار اس سے قبل پائے جانے والے پلاسٹک کی مقدار سے کہیں زیادہ ہے۔

    عالمی اقتصادی فورم کے مطابق دنیا بھر کے سمندروں میں 5 کھرب پلاسٹک کی اشیا موجود ہیں۔ ان سب کا اگر وزن کیا جائے تو یہ 2 لاکھ 68 ہزار ٹن بنتا ہے۔

    پلاسٹک کے اس تمام کچرے کو اگر ایک قطار میں رکھا جائے تو یہ پوری دنیا کے گرد 425 تہیں بنا سکتا ہے۔

    ایک تحقیق کے مطابق سب سے زیادہ پلاسٹک کے ٹکڑے شمالی بحر اوقیانوس میں موجود ہیں جن کی تعداد 2 کھرب ہے۔

    خیال رہے کہ پلاسٹک ایک تباہ کن عنصر اس لیے ہے کیونکہ دیگر اشیا کے برعکس یہ زمین میں تلف نہیں ہوسکتا۔ ایسا کوئی خورد بینی جاندار نہیں جو اسے کھا کر اسے زمین کا حصہ بناسکے۔

    ماہرین کے مطابق پلاسٹک کو زمین میں تلف ہونے کے لیے 1 سے 2 ہزار سال کا عرصہ درکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا پھینکا جانے والا پلاسٹک کا کچرا طویل عرصے تک جوں کا توں رہتا ہے اور ہمارے شہروں کی گندگی اور کچرے میں اضافہ کرتا ہے۔

    پلاسٹک کی تباہ کاری کے بارے میں مزید مضامین پڑھیں


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • اسکاٹ لینڈ میں جھیل کا ڈی این اے ٹیسٹ کیوں کیا جارہا ہے؟

    اسکاٹ لینڈ میں جھیل کا ڈی این اے ٹیسٹ کیوں کیا جارہا ہے؟

    اسکاٹ لینڈ میں واقع ایک جھیل لاک نیس کا ڈی این اے ٹیسٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ اس کے اندر کئی بار دیکھی جانے والی ایک پراسرار عفریت کی حقیقت معلوم کی جاسکے۔

    37 کلومیٹر رقبے پر محیط اس جھیل میں سینکڑوں افراد نے لمبی گردن والی ایک پراسرار مخلوق کو دیکھنے کا دعویٰ کیا ہے تاہم اب تک اس کا کوئی سائنسی ثبوت نہیں مل سکا ہے۔

    جھیل کی اس مخلوق کو جھیل کی مناسبت سے ’نیسی‘ کا نام دیا گیا ہے۔

    نیسی کی تصویر جو بعد ازاں جعلی نکلی

    اب ماہرین نے اس مخلوق کے بارے میں مصدقہ معلومات جاننے کے لیے فیصلہ کیا ہے کہ جھیل کے 300 مقامات پر ڈی این اے نمونے لیے جائیں گے۔

    مذکورہ مصوبے کی نگرانی یونیورسٹی آف اوٹاگو نیوزی لینڈ کے پروفیسر نیل گیمل کریں گے۔

    پروفیسر کے مطابق جھیل کے 300 مقامات اور مختلف گہرائیوں میں موجود جلد، پروں، ان کے چھلکوں اور پیشاب وغیرہ کے ڈی این معلوم کر کے ان کا موازنہ موجودہ ڈیٹا بیس سے کیا جائے گا اور اگر کوئی نیا ڈی این اے ہاتھ لگا تو اس بنا پر کسی نئی مخلوق کے ڈی این اے ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

    پروفیسر کا کہنا ہے کہ گو کہ وہ اس عفریت کی موجودگی پر یقین نہیں رکھتے تاہم وہ اس کے بارے میں تحقیق ضرور کرنا چاہتے ہیں۔

    مقامی افراد کا ماننا ہے کہ یہ مخلوق کوئی خلائی مخلوق بھی ہوسکتی ہے جس کا ڈی این اے کسی صورت معلوم نہیں کیا جاسکتا۔ یہ بھی مشہور ہے کہ نیسی نامی یہ مخلوق جھیل کے اندر موجود غار میں رہتی ہے اور کبھی کبھی سطح پر آتی ہے۔

    بعض افراد کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ مخلوق ڈائنو سار کی ایک قسم پلیسیو سار ہے جس کے بارے میں کہا جاتا کہ پانی میں رہنے والا یہ جاندار اب تک زندہ ہے۔

    پلیسیو سار

    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • فلم ’سنجو‘ میں انوشکا شرما کا منفرد روپ

    فلم ’سنجو‘ میں انوشکا شرما کا منفرد روپ

    ممبئی: معروف بالی ووڈ اداکار سنجے دت کی زندگی پر مبنی فلم ’سنجو‘ کا ایک اور پوسٹر جاری کردیا گیا جس میں انوشکا شرما نہایت مختلف اور منفرد روپ میں نظر آرہی ہیں۔

    فلم سنجو کے ہدایت کار راج کمار ہیرانی کی جانب سے جاری کردہ پوسٹر میں یہ نہیں بتایا گیا کہ انوشکا شرما کس کا کردار نبھائیں گی تاہم ان کا کردار مختصر ہوگا۔

    سنجے دت کی زندگی پر بننے والی فلم میں رنبیر کپور مرکزی کردار ادا کر رہے ہیں جن کا گیٹ اپ سنجے دت سے اس قدر مماثلت رکھتا ہے کہ لوگوں کے لیے فرق کرنا مشکل ہے کہ اصل سنجے دت کون سا ہے۔

    فلم کے ہدایت کار کے مطابق فلم کا ٹریلر آج ریلیز کیا جائے گا۔ اس سے قبل فلم کا ٹیزر ٹریلر ریلیز کیا گیا تھا جس نے آتے ہی مقبولیت کے ریکارڈ قائم کردیے تھے۔

    فلم کی دیگر کاسٹ میں پاریش راول، منیشا کوئرالا، سونم کپور اور دیا مرزا شامل ہیں۔ فلم رواں برس 29 جون کو سنیما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کی جائے گی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • زرد غذائیں آپ کو خوش رکھنے کا سبب

    زرد غذائیں آپ کو خوش رکھنے کا سبب

    آپ زرد رنگ کو کس بات کی علامت سمجھتے ہیں؟ اگر آپ شعر و ادب پڑھنے کے شوقین ہوں گے تو شاید آپ بھی زرد رنگ کو اداسی اور بربادی کی علامت سمجھتے ہوں۔

    لیکن سائنس دانوں نے انکشاف کیا ہے کہ زرد یا پیلا رنگ دراصل خوشی اور اطمینان کا سبب بنتا ہے۔

    مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے طبی و سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ پیلا رنگ ہمارے دماغ میں خوشی کی لہریں پیدا کرتا ہے۔ یہ دماغ کے اس حصہ پر اثر انداز ہوتا ہے جہاں سے جسم کو خوشگوار کیفیات میں مبتلا کرنے والے کیمیائی عناصر خارج ہوتے ہیں۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ زرد رنگ ہمارے جسم میں خوشگوار کیفیت پیدا کرنے والے ہارمونز کی تشکیل کا سبب بھی بنتا ہے۔

    مزید پڑھیں: سبزیاں اور پھل کھائیں، خوش رہیں

    ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ پیلا رنگ کھانے پینے، خاص طور پر پھلوں میں استعمال کیا جائے تو یہ جسم پر نہایت خوشگوار طبی اثرات مرتب کرتا ہے۔

    سائنسی تحقیق کے علاہ ماہرین نے مختلف سروے بھی کیے جس میں انہوں نے لوگوں سے پوچھا کہ کس رنگ کا کھانا دیکھ کر وہ خوش ہوتے ہیں۔

    سروے کے نتائج کے مطابق 1000 افراد میں سے 70 فیصد لوگوں نے زرد کھانے کو دیکھ کر خوشگوار کیفیات میں مبتلا ہونے کی تصدیق کی۔

    mango

    ماہرین کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ زرد رنگ کے (نمکین) کھانے عموماً کم نمک مرچ والے ہوتے ہیں جو طبیعت پر گراں نہیں گزرتے۔

    food-2

    اس کے برعکس سبز اور سرخ رنگ کے کھانے دیکھتے ہی ایسے کھانوں کا خیال آتا ہے جو مرچ مصالحہ سے بھرپور اور مرغن ہوں۔

    مرغن اور تیز مرچ کے کھانے نہ صرف نظام ہاضمہ پر بوجھ بنتے ہیں جبکہ دماغ میں بوجھل اور منفی جذباتی کیفیات جیسے غصہ، تناؤ اور چڑچڑاہٹ پیدا کرنے کا سبب بھی بنتے ہیں۔

    food-3

    ماہرین نے یہ بھی بتایا کہ اگر آپ کا فریج زرد رنگ کے پھلوں جیسے آم، کیلا، اور پائن ایپل وغیرہ سے بھرا ہوگا تو فریج کھولتے ہی آپ کو ایک سکون اور خوشی کا احساس ہوگا، بہ نسبت اس کے کہ فریج کھولتے ہی آپ کا سامنا جنک فوڈ سے ہو۔

    banana

    تو پھر کیا خیال ہے، آپ اب کس رنگ کو فوقیت دیں گے؟


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ایل پی جی کی ملکی پیداوار میں 100 فیصد اضافہ ہوا: وزیر اعظم

    ایل پی جی کی ملکی پیداوار میں 100 فیصد اضافہ ہوا: وزیر اعظم

    اسلام آباد: وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں 116 معدنی ذخائر دریافت ہوئے۔ 445 تیل کے نئے کنویں کھودے گئے۔ کنوؤں کی کھدائی میں کامیابی کی شرح 50 فیصد رہی جبکہ ایل پی جی کی ملکی پیداوار میں 100 فیصد اضافہ ہوا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے نیوز کانفرنس کی جس میں آئل اور گیس کے شعبے کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔

    وزیر اعظم نے کہا کہ موجودہ حکومت کے دور میں 116 معدنی ذخائر دریافت ہوئے۔ پاکستان میں جتنی گیس استعمال ہوئی اتنے ہی ذخائر دریافت کیے۔ 445 تیل کے نئے کنویں کھودے گئے۔

    انہوں نے کہا کہ 46 نئے لائسنس اور 31 نئی لیز دی گئیں۔ 5 سالوں میں 20 لاکھ گیس صارفین کا اضافہ کیا گیا۔ سنہ 2013 میں 70 لاکھ اور 2018 میں 90 لاکھ صارفین ہیں۔

    وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ آج سی این جی دستیاب ہے، گیس اسٹیشن پر کوئی لائن نہیں۔ 25 ہزار کی ڈسٹری بیوشن پائپ لائن ڈالی گئی۔ گرمیوں میں بھی صارفین کو گیس نہیں ملتی تھی، آج وافر مقدار میں مل رہی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ گیس کی ڈیمانڈ 8 ملین مکعب روزانہ ہے، تاپی منصوبے پر تیزی سے کام جاری ہے، 2020 میں مکمل ہوگا۔ مکوڑی اور گمبٹ میں گیس پلانٹ فعال ہیں۔ کنوؤں کی کھدائی میں کامیابی کی شرح 50 فیصد رہی جبکہ ایل پی جی کی ملکی پیداوار میں 100 فیصد اضافہ ہوا۔

    وزیر اعظم نے کہا کہ ایک بھی گیس کنکشن سفارش پر نہیں دیا گیا۔ ’کوئی بھی مجھ پر الزام لگائے جواب دینے کے لیے تیار ہوں، الزام لگانے والا ہرجانے کے لیے تیار رہے، نہیں دینا چاہتا تو الگ بات ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ایل پی جی کوٹے سے متعلق پرانے اسکینڈل نہیں کھولنا چاہتا۔ گیس سے سستا ایندھن آج بھی کوئی نہیں۔ کھاد کے کارخانوں کو گیس میسر نہ تھی، آج فراہم کی جا رہی ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • حکومت کی خواہش ہے الیکشن وقت پر ہوں: وزیر اعظم

    حکومت کی خواہش ہے الیکشن وقت پر ہوں: وزیر اعظم

    اسلام آباد: وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ حکومت کی خواہش ہے الیکشن وقت پر ہوں۔ بلوچستان حکومت یا سینیٹ انتخابات جیسے معاملات نہیں ہونے چاہئیں۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے پہلے دن سے ہی آزادی صحافت کا فیصلہ کیا۔ منفی خبریں چھپتی ہیں تو ان کا اثر بھی ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ میڈیا کا ایک اہم کردار ہوتا ہے، تنقید سے فائدہ بھی ہوتا ہے۔ ’صحافی بتائیں ہم نے ذمہ داری پوری کی ہے یا نہیں۔ طے کیا گیا تھا صحافیوں کے لیے کوئی سیکرٹ فنڈ نہیں رکھا جائے گا‘۔

    وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ایوارڈز صحافی برادری کی کامیابیوں کو سامنے لاتے ہیں۔ حقائق پر مبنی رپورٹنگ ملک کے لیے بہت اہم ہے۔ میڈیا تنقید ضرور کرے لیکن حکومت کے اچھے کام بھی سامنے لائے۔

    انہوں نے کہا کہ تجویز ہے ایک ایسا میکینزم ہو جو غلط خبر کو کاؤنٹر کرے۔ ہماری کوشش رہی صحافت پر کسی قسم کا دباؤ نہ ڈالا جائے۔ تجویز تھی سوشل میڈیا پر سنسر شپ لاگو کریں لیکن یہ وقتی ہوتی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ فخر ہے ہم نے کبھی میڈیا پر سنسر شپ کی حمایت نہیں کی۔ سنسر شپ سے وقتی طور پر چیزوں کو پیچھے دھکیلا جا سکتا ہے۔ ’سنسر شپ کسی صورت ملک کے مفاد میں نہیں، میڈیا خود جھوٹی خبر کی تردید شائع کرے‘۔

    وزیر اعظم نے مزید کہا کہ 5 سال میں بڑے نشیب و فراز آئے لیکن حکومت نے کام جاری رکھا، چیلنجز کے باوجود وہ کام کیے جو 65 سال سے نہیں ہوئے تھے۔ ’لواری ٹنل کی مثال ہمیشہ دیتا ہوں، لواری ٹنل کا افتتاح بھٹو نے کیا، منصوبہ نواز شریف نے مکمل کیا‘۔

    انہوں نے کہا کہ حکومت کی خواہش ہے الیکشن وقت پر ہوں۔ بلوچستان حکومت یا سینیٹ انتخابات جیسے معاملات نہیں ہونے چاہئیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • اپنی تخلیقی صلاحیت کو مہمیز کریں

    اپنی تخلیقی صلاحیت کو مہمیز کریں

    کیا آپ آئزک اسیموو کو جانتے ہیں؟ آئزک اسیموو ایک امریکی مصنف اور پروفیسر ہیں جنہوں نے سائنس فکشن پر بے شمار کتابیں لکھی ہیں۔ ان کی کتابوں کی تعداد 500 سے زائد ہے، جی ہاں 500۔

    آئزک کی تحریروں کی تعداد اس قدر ہے کہ اگر آپ ان کی تحاریر کا شمار کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو 25 سال تک ہر دو ہفتے بعد ایک مکمل ناول لکھنا ہوگا۔ آئزک نے اپنی خود نوشت سوانح حیات بھی لکھی جس کا نام ہے، ’اچھی زندگی گزری‘۔

    شاید یہ ہمارے لیے ایک حیرت انگیز بات ہو کیونکہ ہم میں سے بہت سے افراد کتاب لکھنا چاہتے ہیں لیکن ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ ایسا کون سا موضوع اور کون سا خیال چنیں جسے پھیلا کر ایک کتاب کی شکل دی جاسکے۔

    کچھ باعلم افراد اپنی زندگی میں ایک، 2 یا 5 کتابیں بھی لکھ لیتے ہیں لیکن 500 کتابیں لکھنے کا خیال ان کے لیے بھی کافی مشکل ہوگا۔

    لیکن فکر نہ کریں، آئزک نے اپنی سوانح میں ان رازوں سے آگاہی دی ہے جن کے ذریعہ وہ اتنی بڑی تعداد میں کتابیں لکھنے میں کامیاب ہوئے۔ آئزک کا کہنا ہے کہ کوئی بھی تخلیقی کام، شاعری، مصوری، قلم کاری یا موسیقی تخلیق کرتے ہوئے تخلیق کار یکساں کیفیات و مراحل سے گزرتے ہیں۔

    آئیے آپ بھی وہ راز جانیں جنہوں نے آئزک کو ایک بڑا مصنف بنایا۔


    سیکھنا مت چھوڑیں

    آئزک اسیموو ویسے تو ایک سائنس فکشن رائٹر کے طور پر مشہور ہیں۔ انہوں نے کولمبیا یونیورسٹی سے کیمسٹری میں پی ایچ ڈی کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے طبیعات، قدیم تاریخ، حتیٰ کہ انجیل پر بھی ایک کتاب لکھ ڈالی۔

    تو آخر انہوں نے اتنے متنوع موضوعات پر کتابیں کیسے لکھ لیں؟

    اس بارے میں وہ بتاتے ہیں، ’مختلف موضوعات پر کتابیں میں نے اس بنیادی معلومات کی بنا پر نہیں لکھیں جو میں نے اسکول میں حاصل کیں۔ میں ان تمام موضوعات پر ساری زندگی پڑھتا رہا‘۔

    آئزک کی لائبریری میں ہر موضوع پر کتابیں موجود ہیں۔ وہ تاریخی، خلائی اور سائنسی میدان میں ہونے والی اصلاحات، تحقیقات اور نئی دریافتوں سے خود کو آگاہ رکھتے تھے اور مستقل مطالعہ کرتے رہتے تھے۔


    جمود سے مت لڑیں

    آئزک کہتے ہیں کہ ہر عام انسان کی طرح اکثر اوقات وہ بھی جمود کا شکار ہوگئے اور کئی بار لکھنے کے دوران وہ خود کو بالکل خالی الدماغ محسوس کرنے لگے۔

    ان کا کہنا ہے کہ یہ کوئی پریشانی کی بات نہیں۔ کوئی موضوع آپ کا کتنا ہی پسندیدہ کیوں نہ ہو، آپ اسے لکھنے کے دوران بھی جمود کا شکار ہوسکتے ہیں اور آپ کو یوں لگتا ہے جیسے آپ کے خیالات ختم ہوگئے ہیں۔

    اس صورتحال پر قابو پانے کے لیے آئزک نہایت شاندار تجویز دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ایسے موقع پر وہ مذکورہ کام کو ادھورا چھوڑ کر دوسرے کاموں میں مصروف ہوجاتے تھے۔ کسی دوسرے موضوع پر لکھنا، یا مطالعہ یا کوئی بالکل متضاد کام۔

    تھوڑا عرصہ گزرنے کے بعد ان کے جمود کی کیفیت ختم ہوجاتی تھی اور جب وہ اس ادھورے کام کو مکمل کرنے کے لیے واپس پلٹتے تھے تو اس بار ان کا دماغ توانائی اور نئے خیالات سے بھرپور ہوتا تھا۔


    رد کیے جانے کا خوف

    آئزک کا کہنا ہے کہ کسی بھی تخلیق کار، مصور، شاعر، قلم کار، مصنف حتیٰ کہ اپنے کاروبار میں نئے نئے آئیڈیاز کو عملی جامہ پہنانے والا بزنس مین بھی اس خوف کا شکار ہوتا ہے کہ جب اس کا آئیڈیا حقیقت کا روپ دھارے گا تو کیا لوگ اسے قبول کریں گے؟

    لکھنے والے افراد اکثر اس تذبذب کا شکار ہوتے ہیں کہ آیا جو انہوں نے لکھا وہ پڑھے جانے کے قابل بھی ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ پڑھنے والے کو یہ سب بے ربط اور غیر منطقی لگے۔

    آئزک کے مطابق یہ خوف ایک مثبت شے ہے، کیونکہ اس خوف کی وجہ سے تخلیق کار اپنی تخلیق کی نوک پلک بار بار درست کرتا ہے اور اسے بہتر سے بہترین بنانے کی کوشش کرتا ہے۔

    لیکن وہ کہتے ہیں کہ اس خوف کو اس قدر حاوی نہ کیا جائے کہ تخلیق کار کا تخلیقی خیال اس کے اندر ہی گھٹ کر مر جائے اور صرف اس خوف کی وجہ سے دنیا کے سامنے نہ آسکے کہ یہ پسندیدگی کا درجہ نہیں پاسکے گی۔


    معیار کو پست کریں

    اپنی سوانح میں آئزک لکھتے ہیں کہ کہ یہ ناممکن ہے کہ کوئی مصور اپنی پہلی ہی کوشش میں مونا لیزا جیسی شہرہ آفاق پینٹنگ تخلیق کر ڈالے۔ ان کا ماننا ہے کہ جب آپ اپنے تخلیقی کام کا آغاز کریں تو اسے شاہکار کی صورت پیش کرنے کا خیال دل سے نکال دیں اور اپنے معیارات کو نیچے لے آئیں۔

    وہ کہتے ہیں کہ اپنی ابتدائی تخلیق کو سادہ لیکن اچھا پیش کریں۔ جب تک آپ کو تجربہ نہ ہوجائے اسے بہت شاندار یا شاہکار بنانے سے گریز کریں۔ یہ امر آپ کی تخلیق (شاعری، مصوری، ناول) کو بگاڑ دے گا۔

    مثال کے طور پر اگر آپ کوئی مضمون لکھ رہے ہیں تو اس میں دنیا جہاں کی معلومات دینے کے بجائے صرف وہ معلومات شامل کریں جن کے بارے میں آپ 100 فیصد پریقین ہوں اور وہ ہر حال میں درست ہوں۔ اس مضمون کے پھیلاؤ کو کم کریں اور کسی ایک موضوع تک محدود کریں تاکہ آپ پوری طرح اس کا حاطہ کرسکیں۔

    یاد رکھیں کہ ایک تخلیق کار کبھی اپنی تخلیق سے نفرت نہیں کرسکتا۔ آپ کی ابتدائی تخلیق ہوسکتا ہے کہ آپ کے ہم پیشہ کسی تجربہ کار شخص کے لیے خاص نہ ہو، لیکن وہ ان افراد کے لیے ضرور دلچسپی کا باعث ہوگی جو اس موضوع کے بارے میں بہت کم یا بالکل معلومات نہیں رکھتے۔


    خیال کو طاری کرلیں

    آئزک اسیموو سے ایک بار کسی نے پوچھا، ’تم اپنی کتاب کے لیے اتنے سارے آئیڈیاز کیسے سوچ لیتے ہو‘؟

    آئزک کا جواب تھا، ’میں سوچتا رہتا ہوں، سوچتا رہتا ہوں اور ایک خیال، ایک آئیڈیے سے نئے آئیڈیاز نکلتے جاتے ہیں‘۔

    وہ بتاتے ہیں کہ تنہا راتوں میں، میں ایک خیال پر سوچتا رہتا ہوں۔ اس میں موجود خوشی کے واقعات پر خوش ہوتا ہوں، اور اداس واقعات پر روتا ہوں۔ اس طرح ایک خیال سے کئی خیالات وجود میں آجاتے ہیں۔

    تو پھر کیا خیال ہے آپ کا؟ آئزک اسیموو کے یہ راز آپ کی تخلیقی صلاحیت کو مہیز کرنے میں کتنے کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں؟


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • آج میزائل اور ٹینک قوموں کے لیے بوجھ ہیں: احسن اقبال

    آج میزائل اور ٹینک قوموں کے لیے بوجھ ہیں: احسن اقبال

    اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا ہے کہ ایک وقت تھا ٹینک اور میزائل دفاع کے لیے ضروری تھے۔ آج میزائل اور ٹینک قوموں کے لیے بوجھ ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ڈوبتی معیشت کو سہارا دے کر ملکی سمت درست کی۔ 10 ہزار میگا واٹ بجلی 4 سال میں سسٹم میں شامل کی۔

    انہوں نے کہا کہ موٹر ویز سمیت سڑکوں کا جال بچھایا۔ ایک وقت تھا ٹینک اور میزائل دفاع کے لیے ضروری تھے۔ آج میزائل اور ٹینک قوموں کے لیے بوجھ ہیں۔

    احسن اقبال نے کہا کہ لگن اور توانائی ہو تو آگے بڑھنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کر کے امن قائم کیا۔ ٹیکنالوجی کے شعبے میں حکومت نے نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔ روابط بڑھانے سے روزگار اور تجارت میں اضافہ ہوتا ہے۔

    وزیر داخلہ نے کہا کہ وژن 2025 سے جلد پاکستان دنیا کی 25 معیشتوں میں شامل ہوگا۔ ملکی ترقی ٹی 20 نہیں ٹیسٹ میچ ہے۔ ترقی کے لیے مستقل مزاجی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ 70 سال سے اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے کام نہیں ہوا، ٹیکنالوجی کے شعبے میں حکومت نے نمایاں کام کیا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔