Tag: اے آئی

  • آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا نفاذ، اب گھوسٹ ملازمین نہیں بچ سکیں گے

    آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا نفاذ، اب گھوسٹ ملازمین نہیں بچ سکیں گے

    کوئٹہ: بلوچستان میں گھوسٹ ملازمین کے محاسبے کے لیے آرٹیفیشل انٹیلیجنس (اے آئی) ٹیکنالوجی متعارف کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    بلوچستان کے وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی کی زیر صدارت اصلاحاتی کمیٹی کا پہلا اجلاس آج پیر کو منعقد ہوا، جس میں وزیر اعلیٰ نے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ کو اے آئی پائلٹ پروجیکٹ تیار کرنے کی ہدایت کی، اجلاس میں سی ایم ڈی یو فعال کرنے کے لیے نجی شعبے سے ماہرین کی خدمات حاصل کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔

    وزیر اعلیٰ بلوچستان نے اجلاس میں کہا اے آئی نظام کا نفاذ مرحلہ وار پورے صوبے میں کیا جائے گا، اور اس کا آغاز بی ایم سی، سول سنڈیمن اسپتال اور جامعہ بلوچستان سے ہوگا۔

    انھوں نے کہا گورننس کی کمزوریوں کے باعث عوام مشکلات سے دوچار ہیں، نوجوان لاکھوں روپے میں نوکری خریدے گا تو نظام پر اعتماد کیسے برقرار رہے گا، آج کیے گئے بڑے فیصلوں کے نتائج آئندہ دہائی تک آنا شروع ہو جائیں گے۔

    سرفراز بگٹی کا کہنا تھا کہ پینشن بل اور غیر ضروری اخراجات پر قابو نہ پایا گیا تو آئندہ وسائل نہیں ہوں گے۔

  • آرٹیفشل انٹیلیجنس نے کس طرح لاش کی شناخت اور قاتل کو پکڑنے میں مدد کی؟

    آرٹیفشل انٹیلیجنس نے کس طرح لاش کی شناخت اور قاتل کو پکڑنے میں مدد کی؟

    نئی دہلی: پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرنے والی جدید ترین ٹیکنالوجی اے آئی (آرٹیفشل انٹیلیجنس) کی مدد سے دہلی پولیس نے نہ صرف لاش کی شناخت کی بلکہ قاتل کو بھی پکڑ لیا۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق شمالی دہلی پولیس نے بدھ کے روز ایک قتل کا معمہ حل کرنے کے لیے مصنوعی ذہانت (AI) کا استعمال کیا، اے آئی نے نہ صرف متاثرہ کی شناخت میں بلکہ قتل کے ملزم کو گرفتار کرنے میں پولیس کی مدد بھی کی۔

    اس قتل کا معمہ 10 جنوری کو اس وقت شروع ہوا جب مشرقی دہلی کی گیتا کالونی میں ایک فلائی اوور کے نیچے سے ایک نوجوان کی لاش ملی، پوسٹ مارٹم سے معلوم ہوا کہ نوجوان کو گلا دبا کر مارا گیا ہے، تاہم پولیس مقتول کی لاش کی شناخت کرنے میں ناکام رہی کیوں کہ لاش کے پاس کوئی ثبوت یا شناختی دستاویز نہیں ملی، اور چہرہ بھی اس حالت میں نہیں تھا کہ تصویر سے آسانی سے پہچانا جا سکے۔

    آخر کار دہلی پولیس نے قتل کا معمہ حل کرنے کے لیے نئی جدید ٹیکنالوجی یعنی مصنوعی ذہانت سے مدد لینے کا فیصلہ کر لیا۔ دراصل اخبارات میں جب شناخت کے لیے لاش کی تصاویر شائع کی جاتی ہیں، تو عام طور سے وہ واضح نہیں ہوتیں اور اس لیے اس کی پہچان بھی مشکل ہوتی ہے۔ تاہم اس کیس میں پولیس نے اے آئی کی مدد سے متوفی کا چہرہ اس حد تک واضح کیا کہ اسے بہ آسانی پہچانا جا سکے، آرٹیفشل انٹیلیجنس کی مدد سے چہرہ حتی الامکان اس طرح واضح کیا گیا، جس سے یہ اندازہ ہو سکتا تھا کہ وہ کھلی آنکھوں کے ساتھ اور نارمل حالت میں کیسے نظر آتا ہوگا۔

    یوں پولیس نے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے متوفی کے پوسٹر بنائے اور انھیں دہلی کے مختلف علاقوں میں دیواروں پر چسپاں کر دیا، اور انھیں تھانوں میں اور واٹس ایپ گروپس پر بھی شیئر کیا گیا، پولیس والوں نے کُل پانچ سو پوسٹر چھاپے، دہلی پولیس نے کوتوالی پولیس اسٹیشن میں قتل کا مقدمہ بھی درج کر لیا تھا۔

    پولیس کی یہ کوشش اس وقت رنگ لائی جب چاؤلہ تھانے کے باہر پوسٹرز چسپاں ہونے کے بعد ایک کال آئی، کال کرنے والے نے دہلی پولیس کو اطلاع دی کہ تصویر اس کے بڑے بھائی ہتیش سے ملتی ہے، اس طرح مرنے والی کی شناخت ہو گئی، جب پولیس نے مزید تفتیش کی تو پتا چلا کہ ہتیش کا 3 نوجوانوں سے جھگڑا ہوا تھا، جنھوں نے بعد میں اسے گلا دبا کر قتل کر دیا۔

    پولیس نے جائے وقوعہ کا جائزہ لینے اور اضافی شواہد اکٹھے کرنے کے بعد تینوں ملزمان کو گرفتار کر لیا، یہ بھی انکشاف ہوا کہ شواہد چھپانے میں ایک خاتون نے ملزمان کی مدد کی تھی، اس اطلاع کے بعد پولیس نے فوری طور پر خاتون کو بھی گرفتار کر لیا۔

  • اے آئی کی مدد سے تھرڈ ورلڈ کنٹری میں ادویاتی تحقیق میں بہتری آئی، نگراں وزیر صحت

    اے آئی کی مدد سے تھرڈ ورلڈ کنٹری میں ادویاتی تحقیق میں بہتری آئی، نگراں وزیر صحت

    کراچی: نگراں وزیر صحت سندھ ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے کہا ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی مدد سے تھرڈ ورلڈ کنٹری میں تحقیقی شعبہ بالخصوص ادویاتی تحقیق میں بہت بہتری اور تیزی آئی ہے، مصنوعی زہانت اے آئی سے بہت کچھ بدل رہا ہے۔

    انھوں نے یہ گفتگو گزشتہ روز بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم جامعہ کراچی میں آٹھویں بین الاقوامی مالیکیولر ادویات اور منشیات کی تحقیق کی افتتاحی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کی، اس تقریب میں 30 سے زائد ممالک کے طلبہ اور ریسرچرز بھی موجود تھے۔

    انھوں نے کہا ادویات کی ریسرچ پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے، ہم گیسٹروانٹرولوجی میں انڈو اسکوپی پر بھی کام کر رہے ہیں، بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم جامعہ کراچی کے کے لیے جو کچھ ہو سکا کریں گے۔

    انھوں نے کہا کہ ڈی این اے ہیلتھ سے متعلق اور مالیکیولر میڈیسن سے متعلق بین الاقوامی محققین کا کام قابل تعریف ہے، ہمیں اپنے ریسرچ سینٹرز کو بین الاقوامی طرز پر لانےکے لیے بین الاقوامی محققین کی ضرورت ہے۔

    ڈاکٹر سعد خالد نیاز نے کہا کہ انھیں تقریب میں شرکت کرکے انتہائی خوشی ہوئی ہے، بین الاقوامی محققین کو پاکستان مدعو کرنا تحقیقی کام میں مثبت کردار ادا کرتا ہے، بین الاقوامی محققین سے مل کر خوشی ہوتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ڈاکٹر عطا الرحمٰن کی علمی و تحقیقی خدمات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں اور ان کا مجھے سر کہہ کر مخاطب کرنا میرے لیے باعث شرم ہے۔

    تقریب سے شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر خالد عراقی، پروفیسر ڈاکٹر عطاالرحمن، نادرہ پنجوانی، عزیز لطیف جمال، پروفیسر ڈاکٹر محمد اقبال چوہدری، پروفیسر ڈاکٹر عصمت سلیم اور ڈائریکٹر آئی سی سی بی ایس پروفیسر فرزانہ شاہین نے بھی خطاب کیا۔

  • ’اے آئی‘ وائس اسکینڈل نے خاتون کو کنگال کردیا

    ’اے آئی‘ وائس اسکینڈل نے خاتون کو کنگال کردیا

    مصنوعی ذہانت نے آج کے دور میں ہر ایک کی زندگی آسان کی ہوئی ہے  لیکن وہیں کطھ لوگ اس کا غلط استعمال کررہے ہیں جس نے کئی لوگوں کی زندگی کو خطرے میں  ڈال دیا ہے۔

    مصنوعی ذہانت کے استعمال سے پڑوسی ملک بھارت سے کبھی فلمی ستاروں کی ڈیپ فیک ویڈیوز گردش کرتی دکھائی دے رہی ہیں تو کبھی کوئی شہری اے آئی وائس اسکینڈل میں لاکھوں کا نقصان اٹھا رہے ہیں اگر اس ٹیکنالوجی کا بروقت صحیح استعمال نہیں کرایا گیا تو  آنے والے وقت میں کئی لوگ اس سے متاثر ہوسکتے ہیں۔

    بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق بھارت ڈیپ فیک ویڈیوز کے بعد اب اے آئی وائس اسکینڈل سامنے آیا ہے جس کا شکار ایک خاتون لاکھوں روپوں سے محروم ہوگئی۔

    ملزم نے خاتون کو ہوبہو اسکے بھتیجے کی آواز  کا جھانسا دے کر لاکھوں روپے بٹورلیے گئے، انڈیا ٹوڈے کی رپورٹ کے مطابق 59 سالہ خاتون کو کینیڈا میں مقیم اپنے بھتیجے کی جعلی کال موصول ہوتی ہے جو اپنی مالی پریشانی کی روداد سناتا ہے اور مالی مدد کرنے کی درخواست کرتا ہے۔

    متاثرہ خاتون نے بتایا کہ موصول ہونے والی کال کی آواز بالکل میرے  بھتیجے کی طرح تھی اور اسکا بالکل وہی پنجابی لہجہ تھا  جو ہم گھر میں بولتے ہیں، اس نے مجھے رات گئے فون کیا اور کہا کہ اس کا حادثہ ہو گیا  ہے اور پولیس اسے جیل لے کر جارہی ہے، بعد ازاں  اس نے مجھ سے رقم منتقل کرنے اور اس بات کو خفیہ رکھنے کی درخواست کی۔

    خاتون کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے، جب مجھے  کال کی دھوکہ دہی کا احساس ہوا میں  اس سے پہلے ہی متعین اکاؤنٹ میں  1.4 لاکھ روپے کی رقم منتقل کرچکی تھی۔

    اگرچہ سائبر کرائم پولیس اسٹیشنوں میں مصنوعی ذہانت  سے متعلقہ کیس رپورٹ نہیں کی جا سکتی ہے شہریوں کو چاہیے کہ اس طرح کے ٹھگ سے بچنے کے لیے پہلے تصدیق ضرور کریں۔

  • کیا آرٹیفشل انٹیلیجنس کو کام غلط کرنے کی تربیت دی جا سکتی ہے؟

    کیا آرٹیفشل انٹیلیجنس کو کام غلط کرنے کی تربیت دی جا سکتی ہے؟

    کیا آرٹیفشل انٹیلیجنس کو کام غلط کرنے کی تربیت دی جا سکتی ہے؟ یہ حیرت انگیز سوال اس وقت اٹھا جب ایک خاتون نے اپنی AI کی نوکری سے ہاتھ دھوئے، اور سوشل میڈیا پر صارفین نے انھیں عجیب و غریب مشورے دیے، جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ ’’آپ اے آئی کو کام غلط کرنے کی تربیت دینا شروع کریں۔‘‘

    دراصل ایملی نامی ایک ٹک ٹاکر نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں بتایا کہ وہ اے آئی کی نوکری کر رہی تھیں لیکن باس نے انھیں ملازمت سے برخاست کر دیا، ایملی کا کہنا تھا کہ انھیں اس لیے نوکری سے نکالا گیا کیوں کہ اب ان کا کام خود اے آئی سے سستے میں لیا جانے لگا ہے۔

    ایملی ایک کاپی رائٹر ہیں، وہ اے آئی پر تحریریں لکھا کرتی تھیں، لیکن ٹیکنالوجی کے ماہرین نے آرٹیفشل انٹیلی جنس کو اس حد تک جدید کر دیا ہے کہ اب ایسی تحریریں اے آئی سافٹ ویئر خود تیار کرنے کے قابل ہو گیا ہے۔

    ایملی نے سوشل میڈیا پر اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر یہ حال رہا تو مستقبل میں نوکری تلاش کرنے کے امکانات ہی ختم ہو جائیں گے، انھوں نے بتایا کہ نوکری چلی جانے کے بعد انھوں نے ایک نئی جاب کے لیے درخواست دی، یعنی وہ اب AI کو تربیت دینے کی نوکری حاصل کرنا چاہتی تھیں، ان کے باس کو اے آئی سافٹ ویئر کو کاپی رائٹنگ کرنے کی تربیت دینے والے کی ضرورت تھی، تاہم انھیں اس کی نوکری بھی نہ مل سکی۔

    سوشل میڈیا پر ان کی کہانی جان کر ایک صارف نے مشورہ دیا کہ خود کو ایک اے آئی کنسلٹنٹ کے طور پر مارکیٹ کریں، جو اے آئی کو لکھنے کی تربیت دیتا ہے۔ تاہم ایک صارف نے عجیب و غریب مشورہ دیا کہ ’’انتقامی طور پر آپ اے آئی کو کام غلط کرنے کی تربیت دینا شروع کر دیں۔‘‘

  • ٹین ایئرزچیلنج: بے ضررمذاق یا پھرڈیٹا وارکی جانب پیش رفت

    ٹین ایئرزچیلنج: بے ضررمذاق یا پھرڈیٹا وارکی جانب پیش رفت

    فیس بک کے صارفین میں گزشتہ ایک ہفتے سے ’’ٹین ایئرز چیلنج ‘‘ کافی مقبول ہورہا ہے ، فیس بک نے اسے بے ضرر قرار دیا ہے لیکن ٹیکنالوجی کے ماہرین کو بہرحال اس پر تحفظات ہیں، آئیے دیکھتے ہیں کہ کس طرح چہرے کی شناخت کی یہ مہم مستقبل میں انسانی زندگیوں پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔

     یہ ٹین ایئرز چیلنج ہے کیا؟، فیس بک کا کہنا ہے کہ اس کے کسی صارف نے اپنی 10 سال پرانی تصویر ، 2019 کی تصویر کے ساتھ ملا کر سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ایک مقبول ٹرینڈ بن گیا، اب تک دنیا بھر سے پچاس لاکھ سے زائد افراد اس ہیش ٹیگ کے ساتھ اپنی تصاویر اپ لوڈ کرچکے ہیں اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔

    ڈیٹا پر تحقیق کرنے والے ماہرین کا موقف ہے کہ یہ در اصل فیس بک کی جانب سے صارفین کے چہرے کا ڈیٹا جمع کرنے کی مہم ہے تاکہ وہ اپنے خطرناک حد تک سمجھ دار آرٹی فیشل انٹیلی جنس ( اے آئی ) سسٹم کو دنیا بھر میں پھیلے اپنے کروڑوں صارفین کے چہرے شناخت کرنے کے لیے اعلیٰ سطحی تربیت دے سکے۔ یاد رہے کہ فیس بک پہلے ہی چہرے کی پہچان کرنے والی ٹیکنالوجی پر کام کررہا ہے اور حالیہ کچھ برسوں میں دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی فیس بک صارف کسی ایسے صارف کی تصویر اپ لوڈ کرتا ہے جو آپس میں کوئی ربط نہیں رکھتے ، تب بھی فیس بک کا الگوریتھم چہرہ پہچان کر تصویرمیں موجود صارف کو ٹیگ کردیتا ہے، تاہم یہ الگوریتھم فی الحال زیادہ پرانی تصاویر کو شناخت نہیں کرپا رہا تھا۔

    اس حوالے سے فیس بک کا موقف یہ ہے کہ چہرہ پہچانے والی ٹیکنالوجی کا کنٹرول صارف کے اپنے ہاتھ میں ہے اور وہ جب چاہے اسے بند کرسکتا ہے ۔ ساتھ ہی ساتھ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ صارفین جو پرانی تصاویر اپ لوڈ کررہے ہیں ،ان میں سے زیادہ تر فیس بک پر پہلے سے موجود ہیں اور فیس بک اپنے شرائط و ضوابط کے مطابق ان تک رسائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔

    فیس بک کے اس موقف پر ڈیٹا پر تحقیق کرنے والے ماہرین نے موقف اختیار کیا ہے کہ بے شک وہ تصاویر پہلے سے سوشل میڈیا پر موجود ہیں لیکن فی الحال فیس بک یہ نہیں جانتا کہ جس وقت وہ تصاویر اپ لوڈ کی گئیں، آیا وہ تازہ تصاویر تھیں یا پھر ماضی کی تصاویر کو اسکین کرکے یا کسی اور میڈیم سے انٹر نیٹ پر اپ لوڈ کیا گیا ہے۔ اس چیلنج کی مدد سے فیس بک کے لیے اپنے الگوریتھم کو یہ سکھانا انتہائی آسان ہوگیا ہے کہ اس کا صارف دس سال پہلے کیسا دکھائی دیتا تھا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ بات صرف یہیں تک محدود نہیں ہے کہ صارفین دس سال پہلے کیسے دکھائی دیتے تھے ، بلکہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ کا اے آئی سسٹم صارف کے چہرے میں گزشتہ دس سال میں آنے والی تبدیلیوں کا پیٹرن سمجھے گا اور اس کے بعد آنے والی کئی دہائیوں تک صارفین کو پہچان لینے کی صلاحیت حاصل کرلے گا۔

    خیبر پختونخواہ پولیس اب جدید ترین ’فورجی ہیلمٹ‘ استعمال کرے گی

    اس کو مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، ایک صارف جس نے آج یہ چیلنج قبول کیا اور اپنی تصاویر اپ لوڈ کردیں، فیس بک کے الگوریتھم نے اس شخص کے چہرے میں گزشتہ دس سالوں میں آنے والے تغیر کے پیٹرن کو سمجھ لیا۔ اب یہ شخص اگر آئندہ بیس سال کے لیے انٹرنیٹ کے خیر آباد کہہ دے اور اس کے بعد آکر کسی نئی شناخت کے ذریعے سوشل میڈیا کی دنیا میں داخل ہونے کی کوشش کرے تو یہ الگوریتھم اسے پہچان لے گااور اس کی ماضی کی شناخت نکال کر سامنے لے آئے گا۔

    [bs-quote quote=” آپ کا اسمارٹ فون ہر لمحہ آپ کو دیکھ رہا ہے اور آپ کے گر دو پیش کی ساری آوازیں سن رہا ہے” style=”style-5″ align=”left”][/bs-quote]

    یہاں سمجھنے کی بات یہ ہے کہ آخر یہ سب ہو کیوں رہا ہے؟۔ فیس بک اور اسی نوعیت کی دوسری ٹیک کمپنیز ماضی میں ڈیٹا فروخت کرنے کے الزامات کا سامنا کرچکی ہیں جیسے گوگل اور امیزون وغیرہ ۔ ایک عام صارف کے لیے شاید یہ بات اتنی اہمیت کی حامل نہ ہو کہ کوئی تجارتی کمپنی اسے اس کے چہرے اور دیگر عادات کے ساتھ پہچانتی ہے لیکن وہ صارفین جو قانون سے واقفیت رکھتے ہیں ، اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ یہ شخص کی ذاتی زندگی میں مداخلت ہے۔ آج کی دنیا میں سب سے قیمتی شے ڈیٹا ہے، جو کہ مارکیٹ میں فروخت ہورہا ہے، تجارتی کمپنیاں اپنی تشہیری مہم کو دن بہ دن فوکس کرتی جارہی ہیں ، اسے مثال سے سمجھیں، آپ کپڑوں کے کسی برانڈ پر اپنا کریڈٹ کارڈ یا ڈیبٹ کار ڈ استعمال کرتے ہیں اور اگلے دن سے آپ کے پاس اسی برانڈ کے متوازی برانڈ کے میسجز، ای میلز اور سوشل میڈیا اشتہارات آنا شروع ہوجاتے ہیں۔

    گو کہ فیس بک کا دعویٰ ہے کہ وہ ٹین ایئرز چیلنج کے نتیجے میں حاصل ہونے والے ڈیٹا کو کسی بھی کمپنی یا ادارے کو فروخت کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا لیکن یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ اگر کل کو وہ ایسا کرنا چاہیں تو اس وقت دنیا کے قوانین میں موجود کوئی بھی قانون انہیں ایسا کرنے سے نہیں روک سکتا ۔

    گزشتہ دنوں امیزوں کو اپنے صارفین کا ڈیٹا قانون نافذ کرنے والے اداروں کو فروخت کرنے پرشدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا، اوراسے شخص کی آزادی کے منافی قرار دیا گیا تھا، تاہم قانونی طور پر وہ ایسا کرنے کے لیے آزاد ہیں۔

    اس ٹیکنالوجی کا فائدہ کیا ہے؟


    گزشتہ دنوں ہم نے خبروں میں دیکھا کہ پولیس اب اسمارٹ گوگل گلاس استعمال کیا کرے گی بلکہ چین میں اس ٹیکنالوجی کا استعمال شروع بھی ہوچکا ہے ۔ یعنی سڑک پر موجود تمام پولیس اہلکاروں کی آنکھ پر ایک چشمہ موجود ہے اور وہ وہاں موجود جس شخص پر نظر ڈالتے ہیں اس کا ماضی ان کے سامنے آجاتاہے۔ اگر کوئی شخص کسی مجرمانہ سرگرمیوں میں مطلوب ہے تو اسی وقت پولیس اہلکار کو الرٹ ملتا ہے اور وہ اس شخص کو دبوچ سکتا ہے۔ چین وہ ملک ہے جہاں دنیا بھر میں سب سے زیادہ سرویلنس کیمرے نصب ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وہاں ایک اور مشق بھی کی جارہی ہے کہ اگر کوئی شخص غلط طریقے سے سڑک عبور کرتا ہے ، یا ڈرائیونگ کرتا ہے تو سی سی ٹی وی کیمرے ، جو کہ ایک انتہائی اعلیٰ سطحی آرٹی فیشل انٹیلی جنس سسٹم سے منسلک ہیں اس شخص کی شناخت وہاں قرب و جوار میں موجود اسکرینوں پر نشر کرنا شروع کردیتا ہے ۔ اس مشق کے سبب شہریوں پر قانون کی پاسداری کے لیے معاشرتی دباؤ بڑھ رہا ہے۔

     

    ایک اور فائدہ اس کا تجارتی دنیا کو حاصل ہوا ہے ، جس کی مثال امیزون گو نامی سپر اسٹور ہیں، ایک صارف سپر اسٹور میں داخل ہوتا ہے تو وہاں نصب کیمرہ اس کی شناخت کرتا ہے اس کے بعد دیگر کیمرے دیکھتے ہیں کہ صارف نے کونسا سامان لیا اور صارف سامان اٹھا کر بغیر کسی جھنجھٹ کے باہر آجاتا ہے ، فوراً ہی اسے موبائل فون پر بل کی رقم موصول ہوجاتی ہے جسے وہ چند بٹن دبا کر اپنے کریڈٹ کارڈ سے ادا کردیتا ہے۔ اس ڈیٹا کی مدد سے سپر اسٹورز کو شاپ لفٹرز سے چھٹکارہ پانے میں بھی سہولت مل رہی ہے ، کوئی ایسا شخص جو ماضی میں اس قسم کے مجرمانہ ریکارڈ کا حامل ہے ، جیسے ہی کسی اسٹور میں داخل ہوتا ہے ، اس کی شناخت ہوجاتی ہے اور اس کی نگرانی کرنے میں آسانی ہوجاتی ہے۔

    ترقی یافتہ ممالک میں شہری ہر وقت ایسی ٹیکنالوجی کے حصار میں رہتے ہیں جس سے پولیسنگ کا نظام بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے، کہا جاتا ہے کہ امریکا میں ہر شخص ایک دن میں کم از کم 75 بارایسے کیمروں کی زد میں آتا ہے، اور ہر بار میں ا س شخص کا ڈیٹا اپ ڈیٹ کیا جارہا ہے جس سے حکومت کو اپنے شہریوں پر قانون کا اطلاق کرنے میں مدد مل رہی ہے۔

    گزشتہ سال اس کی ایک مثال ہم نے پاکستان میں بھی دیکھی کہ ولی خان یونی ورسٹی کے طالب علم مشعال خان کے قتل کے بعد واقعے کی ویڈیو میں سے ڈیٹا نکال کر ملزمان کو شناخت کیا گیا اور اس کے بعد انہیں گرفتارکیا گیا۔ چند روز قبل کراچی میں بھی ایک منفرد واقعہ پیش آیا جب موبال چھیننے والے دو ملزمان نے چھینے گئے موبائل سے تصاویرکھینچیں اوروہ جی میل پراپ لوڈ ہوگئیں، جہاں سے انہیں پولیس نے حاصل کرکے نیشنل ڈیٹا بیس کے ذریعے انہیں ڈھونڈا اورگرفتارکیا۔

    چہرے کی شناخت کا نقصان


    ہرنئی شے اپنے اندر جہاں خواص رکھتی ہے وہیں ا س کے کچھ نقصانات بھی ہوتے ہیں، جہاں اس سسٹم سے حکومت کو پولیسنگ کا نظام بہتر کرنے میں مدد ملے گی ، وہیں یہ نظام شخص کی انفرادی آزادی یا آزادی اظہارِ رائے پر بھی قدغن لگانے میں مدد گار ثابت ہوگا۔ اب اگر کوئی شخص حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف کی صورت میں کسی احتجاج میں شریک ہوتا ہے تو حکومت اپنے اس مخالف کو لمحوں میں شناخت کرلے گی، جس کے بعد اسے مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

    کیونکہ ڈیٹا جمع کرنے کا بنیادی مقصد تجارتی کمپنیوں کو فروخت کرنا ہے جس سے وہ اپنی تشہیری مہم ترتیب دے سکیں، تو اب صارفین ہر وقت اشتہاری یلغار کی زد میں ہوں گے ، جو کہ آپ کی ذاتی پسند نا پسند تک کو جان کر آپ تک رسائی کررہی ہوگی ، ایسی صورتحال میں فرد وقتی طور پر فیصلہ کرنے کا اختیار کھو بیٹھتا ہے اور ایک مخصوص نفسیاتی کیفیت کے تحت کمپنیوں کے داؤ میں آکر معاشی نقصان اٹھاتا ہے۔

    چہرے کی شناخت کا سب سے بڑا نقصان بارہا سائنس فکشن فلموں میں دکھایا جاچکاہے۔ آرٹی فیشل انٹیلی جنس جس تیزی سے خود کی تربیت کررہی ہے اور انسانوں کی زندگیوں میں دخل اندازی کررہی ہے، مستقبل میں انسان ہمہ وقت اس خطرے سے دوچاررہیں گے کہ یہ نظام ہماری ہر عادت سے واقف ہیں اور اگر کبھی یہ نظام انسانوں کی مخالفت پر اتر آتا ہے تو اس کرہ ارض پرانسانوں کے پاس ایسی کوئی جگہ نہیں ہوگی جہاں وہ ان نظام سے چھپ کر اس کے خلاف صف آرا ہوسکیں۔

    پاکستان میں کیونکہ ٹیکنالوجی پہلے آتی ہے اور اس کے اچھے برے استعمال کی تمیز بعد میں، توسوشل میڈیا صارفین کی بہتری کے لیے ضروری ہے کہ وہ ٹیکنالوجی کے استعمال میں احتیاط سے کام لیا کریں اور کسی بھی نئی چیز کے پیچھے آنکھ بند کرنے کے بجائے چند لمحے گوگل پر اس کے بارے میں معلومات حاصل کرلیا کریں کہ اس میں انہی کی بھلائی ہے ، بصورت دیگر یہ بات تو آپ جانتے ہی ہیں کہ آپ کا اسمارٹ فون ہر لمحہ آپ کو دیکھ رہا ہے اور آپ کے گر دو پیش کی ساری آوازیں سن رہا ہے۔