کراچی: قومی اسمبلی کے رکن فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ سندھ حکومت اپنی گاڑیاں بچانے کے لیے اب قانون بنانے جا رہی ہے، سانحہ ماڈل ٹاؤن اور بلدیہ ٹاؤن ہوا مگر کارروائی منطقی انجام تک نہ پہنچی۔
انھوں نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام پاور پلے میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکس دینے کا مطلب یہ ہے کہ عوام کو ملک میں اونر شپ دی جا رہی ہے، حکومت مسائل کے حل کے لیے مثبت اقدامات کرے گی تو سب خود ہی آگے آئیں گے۔
فیصل واوڈا نے آئی ایم ایف سے قرضے کے حوالے سے کہا ’میری ذاتی رائے ہے کہ حکومت کو ضرورت پڑے تو آئی ایم ایف جا سکتی ہے تاہم اطلاع کے مطابق حکومت آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائے گی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف سے قرضے ذاتی خرچ کے لیے نہیں لیے جائیں گے بلکہ عوام کے مسائل حل کیے جائیں گے، ماضی میں حکمران کسی ملک کے پاس گئے تو وہ کشکول لے کر گئے، پی ٹی آئی کی حکومت عالمی سطح پر لین دین کی سیاست نہیں کرے گی، امریکی وزیرِ خارجہ پاکستان آئے تو برابری کی سطح پر بات ہوئی۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ان کی حکومت پانی کے سنگین مسئلے کو اجاگر کر رہی ہے، پانی کے مسائل حل کرنے کے لیے قانون بنانے کی تجویز اچھی ہے، عوام کو پہلے بنیادی سہولتوں کی فراہمی ترجیح ہونی چاہیے، پانی کے سنگین بحران کی وجہ سے مستقبل میں خانہ جنگی کا خدشہ ہے۔
فیصل واوڈا کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آخری ڈیم 1969 میں بنا تھا اس کے بعد کچھ نہیں ہوا، ملک کا حلیہ بگاڑنے والوں کا یہ کہنا کہ پاکستان ٹھیک ہو جائے یہ تبدیلی ہی ہے، حکومت اب جاگ گئی ہے اور ترجیحی بنیاد پر مسائل کے حل کے لیے کام کر رہی ہے۔
واضح رہے کہ سندھ کابینہ کا ہنگامی اجلاس کل طلب کیا گیا ہے جس کے ایجنڈے میں وزرا کی لگژری گاڑیوں کا استعمال بھی شامل ہے، سپریم کورٹ نے لگژری گاڑیوں کے استعمال سے منع کردیا تھا۔
لاہور: پاکستان پیپلز پارٹی کے صدارتی امیدوار چوہدری اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ صدارتی الیکشن سے متعلق فضل الرحمان کا روّیہ غیر مناسب ہے، مولانا رشتہ کرانے گئے تھے خود نکاح پڑھوا کر آ گئے۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام پاور پلے میں کیا، اعتزاز احسن نے کہا ’مولانا فضل الرحمان کے حق میں دست بردار ہونا ناممکن ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمان اور ہماری سوچ میں بہت فرق ہے، ن لیگ کا مزاج مولانا صاحب کے مزاج سے مطابقت رکھتا ہے۔ مولانا کے لیے صدارتی عہدہ غیر موزوں ہے، صدر کے اختیارات اب بہت کم ہوگئے ہیں۔
[bs-quote quote=”مولانا فضل الرحمان اور مسلم لیگ ن ہم مزاج ہیں۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]
اعتزاز احسن نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ ان کے بہت اچھے تعلقات ہیں، کہا ’میری ذات کے خلاف ن لیگ کی جانب سے ردِ عمل آنا شروع ہو گیا ہے۔‘
پی پی کے صدارتی امیدوار نے پرویز رشید پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کی سوچ جاگیر دارانہ ہے، انھوں نے کہا تھا ’اڈیالہ جیل جا کر نواز شریف سے معافی مانگیں۔‘
اعتزاز احسن نے کہا کہ نواز شریف سے کہا تھا پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلا لیں، ایک تھیٹر باہر لگا ہے ایک تھیٹر اندر لگا لیں، کیوں کہ 2014 کا دھرنا بہت جارحانہ تھا، لیکن انھوں نے نہیں مانا۔
بیرسٹر اعتزاز کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کے 2 امیدوار کھڑے ہونے سے پی ٹی آئی کو فائدہ ہو گیا، ن لیگ کا رویہ اس ضمن میں اچھا نہیں رہا۔
واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے صدارتی انتخاب کے لیے امیدواروں کی حتمی فہرست آج جاری کردی ہے، اعتراز احسن، ڈاکٹرعارف علوی، امیر مقام اور مولانا فضل الرحمان میدان میں ہیں۔
لاہور: سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ منی لانڈرنگ کیس کی ایف آئی آر میں آصف زرداری اور فریال تالپور ملزمان نہیں ہیں۔
وہ اے آر وائی نیوز کے پروگرام پاور پلے میں گفتگو کر رہے تھے، انھوں نے کہا ’منی لانڈرنگ کا کیس 2015 میں شروع ہوا جب کہ آصف زرداری نے 2008 میں زرداری گروپ سے استعفیٰ دے دیا تھا۔‘
سردار لطیف احمد خان کھوسہ کا کہنا تھا کہ مقدمے میں آصف زرداری کا انور مجید کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے، انھوں نے خود کہا ہے کہ صدر بننے سے پہلے وہ کمپنی سے مستعفی ہو گئے تھے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا ’ایف آئی اے سے کہا ہمیں سوال نامہ دیں، ایف آئی اے والوں نے کہا سوال نامہ بنا کر بھیج دیں گے، جب سوال نامہ ملے گا تو ہم سوالوں کا جواب دے دیں گے، فی الوقت ایک طرح سے تو ایف آئی اے والوں نے آصف زرداری کو استثنیٰ دے دیا ہے، فریال تالپور نے کہا اب جو بھی پوچھنا ہے مجھ سے پوچھیے گا۔‘
لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس آنی چاہیے، ملک سے پیسہ باہر جانے سے ہی معیشت خراب ہوئی ہے، اس سلسلے میں بیرون ممالک کے ساتھ دو طرفہ معاہدے اور منی لانڈرنگ کو روکنے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔
پی پی رہنما نے کہا کہ مفرور ملزم اسحاق ڈار لندن میں آزاد گھوم رہا ہے، نواز شریف کے بچے بھی لندن کے انہیں فلیٹس میں رہتے ہیں جن پر کیس چلا، انھیں پاکستان واپس کیوں نہیں لایا جاتا، المیہ یہی ہے کہ باتیں تو بہت کی جاتی ہیں لیکن عمل درآمد نہیں کیا جاتا۔
لاہور: تحریکِ انصاف کے رکن قومی اسمبلی فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے پاس کرپشن اور شارٹ کٹ کا کوئی راستہ نہیں ہے، زندگی بھر بغیر کسی کرسی کے کام کیا ہے۔
وہ اے آر وائی نیوز کے پروگرام آف دی ریکارڈ میں گفتگو کر رہے تھے، انھوں نے کہا کہ عمران خان نے جو باتیں کی ہیں ان پر عمل در آمد شروع ہو چکا ہے، لیکن لوگ اس طرح بات کر رہے ہیں جیسے ہماری حکومت کو 4 سال ہو گئے ہوں۔
پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ آج تک کبھی کسی نے وزیرِ اعظم ہاؤس کے اخراجات نہیں بتائے، پی ٹی آئی کی حکومت کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ خیال رہے کہ وزیرِ اعظم نے قوم سے خطاب میں پی ایم ہاؤس کے اخراجات کا تفصیلی ذکر کیا۔
فیصل واوڈا نے انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے کہا ’سیاسی جماعتوں سے کہا ہے کہ قانونی طریقے کے مطابق حلقے کھلوا سکتے ہیں، چاہیں جتنے حلقے کھلوا لیں ہم پھر بھی اپنا کام کرتے رہیں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کو بھی قانونی طریقے سے اپنا مقدمہ لڑنے کا حق ہے، ہم نے کہیں بھی حلقے کھلوانے کے معاملے پر اسٹے آرڈر نہیں لیا۔
فیصل واوڈا نے مزید کہا ’پی ٹی آئی کی حکومت میں تمام ادارے اپنا اپنا کام کریں گے، تنقید اور حمایت کرنے والے تمام لوگوں کی عزت کریں گے۔‘
واضح رہے کہ عمران خان نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں واضح عندیہ دیا ہے کہ کرپشن اور کرپٹ لوگوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا، کرپشن کے خاتمے کے لیے متعلقہ اداروں کے ساتھ بھی ہر ممکنہ تعاون کیا جائے گا۔
سندھ حکومت ہر سال اربوں روپے کا بجٹ پیش کرتی ہے، اس بجٹ میں مخصوص رقم صحت کے شعبے کے لیے مختص کی جاتی ہے تاکہ شہریوں کو علاج معالجے کی مفت سہولیات میسر ہو سکیں، لیکن سرکاری اسپتالوں کی حالت زار کیا ہے، آئیے اس رپورٹ میں دیکھتے ہیں۔
سندھ کے طبی مراکز میں کرپشن عروج پر ہے، بچوں کی ویکسی نیشنز تک نہیں چھوڑی جاتیں اور وہ اسپتال کے ملازمین باہر فروخت کردیتے ہیں، اے آر وائی ٹیم نے اس پر اسٹنگ آپریشن کر کے یہ ویکسی نیشن خریدیں اور چوروں کو بے نقاب کیا۔
قدرتی وسائل سے مالامال صوبہ سندھ جس کی زمین میں معدنی ذخائر کے مجموعے کا تخمینہ کھربوں روپے سے بھی زائد ہے، بندرگاہوں، صنعتوں، اور دیگر کاروباری مراکز سے ملک کو کروڑوں روپے کی محصولات موصول ہوتی ہیں، وہیں دوسری طرف اس صوبے کے عوام غربت اور کسمپرسی کی اس آخری سطح سے بھی نیچے جا رہے ہیں جہاں عوام کو مفت سرکاری علاج کی سہولت بھی دستیاب نہیں ہے۔
صوبائی حکومت شعبہ صحت پر کتنا پیسا لگا رہی ہے، سرکاری کھاتے میں ہیلتھ یونٹس اور مضافاتی اسپتالوں کا نظام کس طرز کا ظاہر کیا گیا ہے، اور دیہی مراکز صحت ضلعی اسپتالوں کی حقیقی صورت حال کیا ہے، یہ آپ ہماری اس ویڈیو رپورٹ میں دیکھ سکتے ہیں۔
سندھ کے تیسرے بڑے شہر سکھر کے سرکاری اسپتالوں کی حالت زار نہایت مخدوش ہے، ان دنوں سکھر سول اسپتال کی بازگشت سپریم کورٹ میں بھی ہے، سپریم کورٹ نے اس کی حالت پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے اور حکومت اور اسپتال انتظامیہ کو پابند کیا ہے کہ اسپتال کی حالت کو بہتر بنایا جائے۔
ذمہ دار کون کی ٹیم سکھر سول اسپتال پہنچی تو وہاں ایمرجنسی میں اے سی ٹوٹا ہوا تھا، مریضوں کو لٹانے کے لیے کوئی سہولت دستیاب نہیں تھی، اس کے برعکس اسپتال کے ایم ایس کے کمرے میں وزیر اعلیٰ آفس طرز کا اعلیٰ فرنیچر موجود تھا، اے سی لگا تھا، جب کہ اسپتال میں طبی ساز و سامان سب خراب پڑا ہوا تھا۔
خیال رہے کہ جب چیف جسٹس نے سکھر اسپتال کا دورہ کیا تو ان کا بھی کہنا تھا کہ اسپتال میں ڈاکٹرز نہیں، پیرا میڈیکل اسٹاف نہیں، وینٹی لیٹرز نہیں۔ اسپتال میں جگہ جگہ گندگی پڑی تھی، دیواروں کا پلستر اکھڑا ہوا تھا، انھوں نے اس پر سخت برہمی کا اظہار کیا۔ چیف جسٹس کے نوٹس کے بعد اسپتال کی حالت زار بدلنے کی کوششیں شروع کی گئیں۔
اسی طرح بدین کا سب سے بڑا سرکاری اسپتال 14 سال سے زیر تعمیر ہے، اس کی تعمیر کا ابتدائی بجٹ تیس کروڑ روپے تھا، جس کے خرچ ہونے کے بعد اب اسپتال کی تعمیر رک چکی ہے، اور اب اس کا تخمینہ ایک ارب دس کروڑ تک پہنچ چکا ہے، یہ اسپتال اب انڈس اسپتال کی زیر نگرانی دوبارہ بن رہا ہے۔
مفت سرکاری علاج
امیر صوبے کی غریب عوام مفت سرکاری علاج سے بھی محروم ہے، دنیا کے دیگر 115 ممالک کی بہ نسبت پاکستان کے تمام صوبائی اور وفاقی آئین میں مفت سرکاری علاج کا وجود ہی نہیں ہے۔ ہر الیکشن میں غریب عوام کو مفت سرکاری علاج کی فراہمی کے دعوے کیے جاتے ہیں، لیکن قیام پاکستان سے لے کر آج تک سیاسی جماعتوں نے 72 برسوں میں ایسا کوئی قانون ہی نہیں بنایا، جس میں واضح طور پر مفت سرکاری علاج کو شہریوں کا بنیادی انسانی حق تسلیم کیا گیا ہو۔
دوسری طرف ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی طرف سے اقوام متحدہ کے کسی خصوصی پروگرام یا وباؤں کے پھوٹ پڑنے پر ہیلتھ سے متعلق اپنے قوانین میں ترامیم کرتی رہتی ہے۔
گزشتہ 72 برسوں میں سندھ کی صوبائی حکومتیں سرکاری سطح پر چھوٹے بڑے طبی ادارے قائم کرتی رہی ہے، سندھ کی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق صوبے بھر میں پرائمری ہیلتھ کیئر یونٹس کی تعداد ایک ہزار 782 ہے، جن میں 125 دیہی ہیلتھ سینٹرز، 757 بیسک ہیلتھ یونٹس، 792 ڈسپنسریاں، 67 مدر اینڈ چائلڈ ہیلتھ سینٹرز، تین سب ہیلتھ سینٹرز یا کلینکس، ایک ہومیو پیتھک ڈسپنسری، ایک اربن ہیلتھ سینٹر، اور 36 یونانی دواخانے شامل ہیں۔
سیکنڈری ہیلتھ کیئر یونٹس کی تعداد 90 ہے، جن میں 14 ضلعی اسپتال، 79 تعلقہ ہیڈکوارٹر اسپتال، اور 27 بڑے یا اسپیشلائزڈ اسپتال شامل ہیں۔ ہر سال بجٹ میں ان اسپتالوں کے لیے بھاری رقم مختص کی جاتی ہے، بجت 2018-19 میں صحت کے لیے 96 ارب 38 کروڑ مختص کیے گئے۔
کیوں؟
صوبے کے 1782 ہیلتھ کیئر کیئر یونٹس این جی اوز کو دیے گئے، صوبائی محکمہ صحت کی تحویل میں صرف 655 طبی مراکز رہ گئے ہیں دوسری طرف چند ایک کے علاوہ کہیں بھی این جی اوز عملا فعال نہیں۔ ۔ سوال یہ ہے کہ اگر 1127 طبی مراکز این جی اوز کے حوالے ہیں تو بجٹ کم کیوں نہیں ہوا؟ ہر سال بجٹ میں پندرہ بیس کروڑ کا اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟
ٹنڈو محمد خان کے طبی مراکز پر سالانہ 49 کروڑ سے زائد خرچ ہوتے ہیں، کھنڈر نما اسپتال میں سات روز سے بجلی غائب، ادویات ناکارہ ہوچکی ہیں۔ تعلقہ ہیڈ کوارٹر اسپتال کوٹ ڈیجی میں اسپتال کا ایک بھی اسٹاف موجود نہ تھا۔ جب کہ سابق صوبائی وزیر دعویٰ کر رہے ہیں کہ تمام ملازمین اپنی ڈیوٹیاں دے رہے ہیں۔
سندھ حکومت نے 2016 میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ نظام متعارف کرایا، اس نظام کا مقصد تعلیم و صحت کے شعبوں میں جدت اور بہتری لانا تھا لیکن یہ منصوبہ بھی بدترین کرپشن اور بد انتظامی کا شکار ہوگیا۔
کراچی: متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ سندھ میں نیا صوبہ بنانے کے لیے کراچی میں 50 لاکھ لوگوں کے دستخط کرائیں گے، ملک میں نئے انتظامی یونٹس بننے چاہئیں۔
وہ اے آر وائی نیوز کے پروگرام الیونتھ آور میں گفتگو کر رہے تھے، انھوں نے کہا کہ نئے انتظامی یونٹس ہمارا مستقل نعرہ ہے، عوامی اور سیاسی تحریکیں ہی آئین میں ترامیم کا سبب بنتی ہیں، نئے صوبے کا مطالبہ جرم یا خواہش نہیں یہ وقت کی ضرورت ہے۔
فاروق ستار نے ٹی وی انٹرویو میں کہا ’ایم کیو ایم کی نشستیں کم کرانے کے لیے سازش کی گئی، صرف کراچی نہیں پورے پاکستان میں الیکشن میں دھاندلی ہوئی، لیکن پروپیگنڈے کے باوجود ایم کیو ایم نے نشستیں حاصل کیں۔‘
انھوں نے تسلیم کیا کہ ایم کیو ایم خود بھی اندر سے مسائل کا شکار رہی ہے، 2018 کے الیکشن میں ایم کیو ایم میں پرانا نظم وضبط نہیں تھا، بانی ایم کیو ایم کے بغیر الیکشن لڑنے کا سیاسی طور پر نقصان ہوا، پی ایس پی کی وجہ سے بھی ہمارا ووٹ خراب ہوا، اسے ایک پلان کا حصہ سمجھا جا سکتا ہے، پی ایس پی کو لاکر ووٹر کو مایوس کیا گیا کہ وہ کسی اور کو ووٹ دے۔
نیوز اینکر وسیم بادامی کے سوال کا جواب دیتے ہوئے انتخابات میں دھاندلی کے حوالے سے فاروق ستار نے کہا کہ ہمیں مردم شماری، حلقہ بندیوں اور بلدیاتی اختیارات سے محروم کیا گیا، پریذائیڈنگ افسران جس دن بولیں گے سب سامنے آ جائے گا، ہمیں پریذائیڈنگ افسروں نے بہت سی باتیں بتائی ہیں، پولنگ اسٹیشنز پر شام 7 بجے کے بعد کیمرے بند ہونے کی تحقیقات ہونی چاہیے۔
انھوں نے کہا ’الیکشن نتائج میں تاخیر کے دوران انجینئرنگ کی گئی، الیکشن کے نتائج سے متعلق فارم 45 کہیں بھی فراہم نہیں کیا گیا، ہم بیلٹ پیپرز کا آڈٹ کرانے کا مطالبہ بھی کر چکے ہیں، الیکشن نتائج میں تاخیر کے معاملے پر بھی کمیشن بنا کر تحقیقات کی جانی چاہیئں، جہاں سے ایم کیو ایم جیتی وہاں سے پولنگ ایجنٹس کو نہیں نکالا گیا، 10،10 پولنگ اسٹیشنز کا نتیجہ ایک ہی رائٹنگ میں درج ہے، یہ کیسے ممکن ہے؟‘
فاروق ستار نے مزید کہا کہ وفاق میں ہم پی ٹی آئی کے اتحادی ہیں، عمران خان نے کہا حلقے کھولنے کو تیار ہیں تو کمیشن بنا دیا جائے، 2013 الیکشن میں صرف 4 حلقے کھلوانے کے لیے کمیشن بنا، اکثریتی جماعت کو ایم کیو ایم پورا موقع دیتی ہے، وفاق میں ابھی تک اپوزیشن صحیح معنوں میں متحد نظر نہیں آتی، نواز شریف اور مریم نواز کے آنے سے ن لیگ کا گرتا مینڈیٹ تھوڑا اٹھا تھا۔
لاہور: تحریکِ انصاف، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی خواتین رہنماؤں کا کہنا ہے کہ خواتین کو معاشرے میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کسی بھی خاتون کا الیکشن میں حصہ لینا بہت مشکل کام ہے۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے اے آر وائی نیوز کے پروگرام ’سوال یہ ہے‘ میں کیا، بنوں، کے پی سے تحریک انصاف کی رکن اسمبلی زرتاج گل وزیر کا کہنا تھا کہ خواتین کے لیے انتخابات ایک مشکل ٹاسک ہے۔
زرتاج گل نے کہا کہ انتخابات میں ٹکٹ کا حصول بھی ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے، ٹکٹ مل جائے تو حلقے کے عوام حوصلہ افزائی کرتے ہیں، عوام کی طرف سے خواتین امیدواروں کا پرتپاک استقبال کیا جاتا ہے۔
مسلم لیگ ن کی رہنما عظمیٰ بخاری نے کہا ’معاشرے میں کام کرنے والی خاتون کو پسند نہیں کیا جاتا، خواتین کی جماعتوں سے وابستگی کے بغیر الیکشن میں کام یابی ممکن نہیں ہو سکتی۔‘
عظمیٰ بخاری کا کہنا تھا کہ خواتین کو جماعتوں کے اندر بھی بہت سی مشکلات کا سامنا رہتا ہے، مخصوص نشستوں پر کام یاب ہونے والی خواتین پر تنقید کی جاتی ہے۔
پیپلز پارٹی کی طرف سے سینیٹر سحر کامران نے بھی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ’خواتین کے ساتھ سلوک کے لیے معاشرے میں تربیت کی ضرورت ہے۔‘
سحر کامران کا کہنا تھا کہ معاشرے کی خواتین سے متعلق سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے، میں طویل عرصے تک پی ایس ایف کراچی کی صدر بھی رہ چکی ہوں، خواتین سے متعلق معاشرے کی سوچ سے بہ خوبی واقف ہوں۔
پی پی سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ مخصوص نشستوں پر منتخب ہونے والی خواتین کا معیار متعین ہونا چاہیے، تاکہ ہر چیز واضح ہو۔