Tag: اے آر وائی نیوز کی معطلی کا حکم نہیں دیا، لاہور ہائی کورٹ

  • مریم نوازچیئرپرسن وزیراعظم یوتھ لون سےمستعفی

    مریم نوازچیئرپرسن وزیراعظم یوتھ لون سےمستعفی

    اسلام آباد: چیئرپرسن وزیراعظم یوتھ لون پروگرام مریم نواز نے اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہونے کا فیصلہ کیا ہے، ذرائع کے مطابق مریم نواز نے اپنے استعفے کے سلسلے میں وزیراعظم سے مشاورت بھی کی تھی، مریم نواز کا استعفیٰ وزیراعظم ہائوس کو مل گیا ہے۔

    مریم نواز نے کہا کہ ان کیلئے عہدے معنی نہیں رکھتے، ہم عوام کی خدمت کرتے رہیں گے، میرے لئے یہی اعزاز کافی ہے کہ میں نواز شریف اور اس قوم کی بیٹی ہوں، ان کا کہنا تھا کہ اب احتجاج کا زمانہ گیا، ملک ترقی کی نئی منازل طے کرے گا۔

    واضح رہے کہ لاہور ہائيکورٹ میں مريم نواز کو یوتھ لون پروگرام کی سربراہی سے ہٹانے کیلئےدرخواست دائر کی گئی تھی، جس پر عدالت نے گزشتہ روز فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے انہیں عہدہ چھوڑنے کیلئے جمعہ تک مہلت دی تھی۔

    سماعت کے دوران جسٹس منصور نے ریمارکس دیئے تھے کہ کیا عہدہ خاندانی افراد میں ہی رہنا ضروری ہے، کیا میں اپنے باورچی کو فوکل پرسن قرار دیکر عہدے پر لگا سکتا ہوں؟، کل وزیراعظم کسی ان پڑھ شخص کو اس عہدے پر تعینات کردیں تو کیا ہوگا؟۔

  • چیئرپرسن یوتھ لون اسکیم کیس، مریم نواز کا تعلیمی ریکارڈ طلب

    چیئرپرسن یوتھ لون اسکیم کیس، مریم نواز کا تعلیمی ریکارڈ طلب

    لاہور: چیئرپرسن یوتھ لون اسکیم کیس میں لاہور ہائی کورٹ نے مریم نواز کا تعلیمی ریکارڈ طلب کرلیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہورہائی کورٹ نے چیئرپرسن یوتھ لون اسکیم تعیناتی کیس کی سماعت  آج ہوئی جس میں عدالت نے مریم نواز کی تعلیمی قابلیت کا ریکارڈ طلب کر لیا ہے۔ جسٹس سید منصور علی شاہ نے کیس کی سماعت کی۔

    فاضل جج نے استفسار کیا کہ بتایا جائے حکومت مریم نواز کو تبدیل کرنے پر غور کر رہی ہے یا نہیں، اگر حکومت غور نہیں کر رہی تو عدالت خود فیصلہ کرے گی۔ عدالت کا ریمارکس میں مزید کہنا تھا کہ کیا حکومت کسی کو بھی کوئی عہدہ دے سکتی ہے، اور کیا وزیراعظم کسی ان پڑھ کو بھی بڑا عہدہ دے سکتے ہیں۔

    عدالتی سماعت کے موقع پر درخواست گزاروں نے موقف اختیار کیا کہ وفاقی حکومت نے سیاسی بنیادوں پر میرٹ کے برعکس مریم نواز کو اہم عہدے پر تعینات کر دیا۔ وفاقی حکومت نے مریم نواز کی تعیناتی کا نوٹیفیکشن جاری کیا مگر غیر قانونی طور پر مریم صفدر اس عہدے پر براجمان ہیں۔

    سرکاری وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہ وزیر اعظم نے اپنے صوابدیدی اختیار کے تحت اعزازی عہدے پر مریم نواز کی تعیناتی کی۔ سرکاری وکیل نے مزید کہا کہ اعزازی عہدے کے لئے قواعد کی ضرورت نہیں ہوتی جبکہ یوتھ لون سکیم فنڈز کی تقسیم مریم نواز کا اختیار نہیں۔ سرکاری وکیل نے انٹرنیٹ سے حاصل کی گئیں مریم نواز کی تعلیمی اسناد کی کاپیاں فراہم کیں۔ جس پر عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ صوابدیدی اختیار کا مطلب یہ نہیں کہ گھر کے باورچی کو بھی عہدہ دیا جاسکتا ہے۔

    عدالت نے قرار دیا کہ اگر حکومت تعیناتی پر نظر ثانی نہیں کرتی تو عدالت اپنا فیصلہ سنائے گی۔ عدالت نے مریم نواز کی تعلیمی اسناد کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت سہہ پہر تک ملتوی کر دی۔

  • اے آر وائی نیوز کی معطلی کا حکم نہیں دیا، لاہور ہائی کورٹ

    اے آر وائی نیوز کی معطلی کا حکم نہیں دیا، لاہور ہائی کورٹ

    لاہور: لاہور ہائی کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے اے آر اوئی کیس کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں کہا کہ عدالت کی جانب سے اے آر وائی نیوز کے لائسنس کو معطل کر نے کے احکامات جاری نہیں کیئے گئے ہے اور پیمرا عدالتی حکم کو توڑ مروڑ کر پیش نہ کرے۔

    تفصیلات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ کے پانچ رکنی بینچ جس میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس کاظم رضا شمسی، جسٹس سید افتخار حسین شاہ، جسٹس شہزادہ مظہر اور جسٹس سہیل اقبال بھٹی مشتمل تھے نے اے آر وائی کیس کی سماعت کی۔ اے آر وائی نیوز کے سی ای او سلمان اقبال اور سنیئر اینکر پرسن مبشر لقمان عدالت میں پیش ہوئے جبکہ اس موقع پر پی ایف یو جے اور پی یو جے کے رہنماؤں سمیت ملک بھر سے آئے ہوئے صحافی نمائندے بھی موجود تھے۔

    عدالت نے اے آر وائی نیوز کے لائسنس کی معطلی پر پیمرا کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ پیمرا نے عدالتی احکامات کی غلط تشریح کی ہے، عدالت نے مزید کہا کہ اے آر وائی نیوز کے لائسنس کی معطلی کا کوئی حکم جاری نہیں کیا تھا۔ عدالت نے کہا کہ پیمرا نے عدالتی احکامات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا ہے اور پیمرا عدالت کے کندھوں پر بندوق نہ رکھے۔ عدالت کی جانب سے ریمارکس دیئے گئے کہ عدالت غیر جانبدار ہے اور کسی ادارے کو تنگ یا افراد کا رزق بند کرنے کا حکم نہیں دے سکتی۔ ریمارکس میں مزید کہا گیا کہ آج جو حکم جاری کیا جائے گا اس میں اے آر وائی نیوز کے لائسنس کی معطلی کے حوالے سے تمام وضاحت موجود ہو گی۔

    اے آر وائی نیوز کے وکیل ڈاکٹر باسط نے بیان دیا کہ عدالتی نوٹس نہ ملنے کے باوجود اے آر وائی نیوز کے سی ای او پیرس سے صرف عدالت میں پیش ہونے کیلئے آئے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اے آر وائی نیوز عدالتوں کا مکمل احترام کرتا ہے۔ جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ سی ای او اے آر وائی کا بیرون ملک سے آ کر عدالت میں پیش ہونا قابل تعریف ہے، اگر ان کی جانب سے تحریری جواب آ جاتا تو عدالت اسے قبول کر لیتی۔

    اے آر وائی نیوز کے وکیل نے مزید کہا کہ عدلیہ کی بحالی اور جمہوریت کیلئے اے آر وائی نیوز نے بھرپور کردار ادا کیا، جس کی اسے قیمت بھی ادا کرنا پڑی۔ انھوں نے عدالت سے استدعا ہے کہ اے آر وائی نیوز کو ابھی تک نوٹس موصول نہیں ہوئے، جواب کیلئے مہلت دی جائے۔ جس پر عدالت نے سماعت 24 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔

    لاہور ہائی کورٹ میں اے آر وائی نیوز سے متعلق کیس کی سماعت کے موقع پر سی ای او سلمان اقبال بنفس نفیس پیش ہوئے۔ عدالت نے کہا کہ بیٹے کی طبعیت ناسازی کے باوجود سلمان اقبال کا ذاتی طور پر عدالت میں پیش ہونا قابل تحسین ہے۔ اس موقع پر سلمان اقبال نے کہا کہ اے آر وائی گروپ نے ہمیشہ عدالتوں کا احترام کیا ہے۔ اے آر وائی کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ ہمیشہ حب الوطنی سے سرشار رہے ہیں۔

    واضح رہے کہ گزشتہ روز پیمرا نے ایک یکطرفہ فیصلے سناتے ہو ئے اے آر وائی کا لائسنس پندرہ روز کے لئے معطل کردیا تھا جس پر ملک بھر کی صحافی اور دیگر تیظیموں کی جانب سے سخت رد عمل آیا تھا۔