Tag: اے حمید

  • اے حمید: جن کی فینٹسی حقیقت سے کہیں زیادہ خوب صورت ہوتی تھی

    اے حمید: جن کی فینٹسی حقیقت سے کہیں زیادہ خوب صورت ہوتی تھی

    منیر نیازی اور اے حمید میں بہت سی باتیں ایک ہی رنگ میں تھیِں۔ دونوں خوبرو، خوش لباس اور دونوں حسن و جمال کے عاشق اور دونوں کو خوشبو پسند۔ منیر صاحب شاعر تھے اور حمید صاحب نثر میں شاعری کرتے تھے۔

    میں نے منیر صاحب کو بھی اکثر یہ کہتے سنا ہے کہ بس اتنی خوب صورتی کافی ہے۔ لفظ ’کافی‘ میں ایک تشنگی ہے، یہی ایک ادھوری جگہ ہے جہاں ہمارے خواب جنم لیتے ہیں۔ انسان سے اگر اس کا تخیل چھین لیا جائے تو اس کے پاس خواب دیکھنے کو کچھ نہیں رہتا، اور یہ خواب ہی ہیں جو ہمیں زندہ رکھتے ہیں۔ ہم پر امکانات کا در وا کرتے ہیں اور ہمیں ایک ان دیکھی دنیا کا نظارہ کرواتے ہیں اور اسی لیے حمید صاحب کو محلوں سے زیادہ ان کے خواب عزیز تھے۔ انہوں نے دنیا کی بدصورتی میں زندگی بسر کرنے کے لیے ایک خوب صورت جواز پیدا کیا تھا، محبت، فطرت اور انسانیت دوستی کا خواب، وہ ’خوابوں کے صورت گر‘ تھے۔ سفاک حقیقت کے درمیان تاریکی میں جہاں کہیں انہیں کسی کرن کی جھلک دکھائی دیتی تو وہ اس سے ایک روشن صبح کے پر بنا لیتے۔ ان کی تحریروں میں قدیم شاعروں، دیوی دیوتاؤں رشیوں اور دشت نوردوں کے نوحے ان کی نغمہ گری اور ان کے خوابوں کی تاثیر ہم پر ایک سحر طاری کرتی ہیں۔

    ان کی فینٹسی حقیقت سے کہیں زیادہ خوب صورت ہوتی تھی۔ بہت سالوں بعد میں جب میں نے ٹی وی پر اسکرپٹ پروڈیوسر کی ملازمت شروع کی تو تقریباً روز ہی میری حمید صاحب سے ملاقات رہتی۔ ان کے ساتھ ہمیشہ ان کا قریبی دوست نواز ہوتا جو پنجابی کا بڑا اعلی لکھاری تھا۔ ’شام رنگی کڑٰی‘ اس کی کہانیوں کا مجموعہ تھا۔ میرے کالج کا دوست اور ٹی وی پروڈیوسر نصیر ملکی بھی زیادہ وقت میرے ہی کمرے میں رہتا۔ اس کی بھی ان سے بہت گہری دوستی تھی۔ حمید صاحب ریڈیو اور ٹی وی کے لیے لکھتے تھے، اس لیے ان کا ہفتے میں تین چار مرتبہ ریڈیو اور ٹی وی کا چکر لگتا رہتا۔ حمید صاحب آتے تو اکثر ان کے ہاتھ میں کوئی پھول ہوتا اور آنکھیں کسی غائب کے نظارے سے مست رہتی۔ گم صم اور رومانٹک۔ اُن کو چائے سے بہت محبت تھی۔ کہتے تھے، ’سرمد یار چاء وچ وی جان ہوندی اے۔‘ چائے آتی تو وہ کسی کو ہاتھ نہ لگانے دیتے۔ ان کے لیے چائے دانی ٹی کوزی میں ایک ڈھکی چھپی محبوبہ تھی۔ چائے دم پر آنے تک وہ بھی چپ چاپ کوئی دم پڑھتے رہتے۔ پھر آہستہ سے ٹی کوزی اُتاری جاتی جیسے کوئی اپنی محبوبہ کو بے حجاب کر رہا ہو۔ چائے حمید صاحب کو اور حمید صاحب چائے کو اپنی خوشبو سے سیڈوس کرتے یعنی رجھاتے رہتے۔ حمید صاحب کے ہاتھ نہایت لاڈ سے چائے دانی کو اپنی آغوش میں تھام کر اُسے پیالی میں عریاں کرتے، آہستہ بہت آہستہ۔ چائے بھی جھک کر کہتی اور ذرا آہستہ!

    جیسے وہ اپنی چائے ہلکی ہلکی چسکیاں لے کر پیتے، ویسے ہی وہ اپنی کہانی بیان کرتے ٹھہر ٹھہر کر۔ وہ کسی تجربے یا واقعے کو ہلکے شرابی کی طرح غٹاغٹ نہ پی جاتے بلکہ اہلِ ظرف کی طرح دیر تک شیشے میں تندیٔ صہبا کا ارغوانی دیدار کرتے اور پھر مزے لے لے کر پیتے۔

    (پاکستان کے معروف فکشن رائٹر، ڈرامہ اور سفرنامہ نویس اے حمید سے متعلق سرمد صہبائی کی یادوں سے ایک جھلک، سرمد صہبائی شاعر، ڈراما نگار اور ہدایت کار کے طور پر پہچانے جاتے ہیں)

  • اوّلین محبت کی تلاش…

    اوّلین محبت کی تلاش…

    اے حمید اپنی یادوں میں لکھتے ہیں، ”امرتسر میرا وطن ہے، میں وہاں پیدا ہوا تھا۔ لیکن میں جب بھی بھاگ کر کسی دوسرے ملک کے، شہروں میں جہاں جہاں بھی آوارہ گردی کرتا رہا لاہور کی یاد میرے دل کے ساتھ لگی رہی، امرتسر کا صرف کمپنی باغ اور وہ لڑکی یاد آتی جس سے مجھے بچپن ہی سے پیار ہو گیا تھا۔

    یہ اردو کے مشہور ناول نگار اور ڈرامہ نویس اے حمید کا تذکرہ ہے اور اسے ہم تک سرمد صہبائی نے پہنچایا ہے جو ایک ادیب، ڈرامہ، فلم اور تھیٹر کے ہدایت کار ہیں۔ اے حمید اور کئی دوسرے مشاہیر سے سرمد صہبائی کی دوستی اور رفاقت رہی اور اس تحریر میں انھوں نے اے حمید کی یاد تازہ کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    ستمبر کی ایک سہ پہر میرے دفتر کا دروازہ کھلتا ہے….

    حمید صاحب اندر داخل ہوتے ہیں اور کھڑے کھڑے کہتے ہیں۔ ’اٹھ یار سرمد اج میں تینوں اک چیز دکھانی اے، چل اٹھ!‘ (اٹھو یار سرمد، میں آج تمہیں ایک چیز دکھانی ہے)۔ میں ان کے ساتھ چل پڑتا ہوں، ایمپریس روڈ سے کچھ دور سڑک کے دائیں طرف ایک کچی گلی آتی ہے، ہم اس گلی میں داخل ہو رہے ہیں۔ تھوڑی دور جا کر حمید صاحب ایک جگہ کھڑے ہوگئے ہیں، وہ بڑی محویت سے ایک بوسیدہ پرانے مکان کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ سوچتا ہوں حمید صاحب کے قدم خود بخود اس کے سامنے کیوں رک گئے ہیں۔

    ’حمید صاحب؟‘ میں ان کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتا ہوں!

    ’یار سرمد اوہ ساہمنے تینوں باری نظر ارہی اے،‘ (یار سرمد وہ سامنے تمہیں کھڑکی نظر آ رہی ہے؟) وہ مجھے بغیر دیکھے کہتے ہیں جیسے اپنے آپ سے بات کر رہے ہوں۔ میں ایک چھوٹی سی پرانی کھڑکی دیکھتا ہوں جس پر بہت خوبصورت رنگین شیشے جڑے ہوئے ہیں۔ ’یار ایہہ باریاں پتہ نییں ہن کتھے چلی گیاں نیں۔ ‘ (یار یہ کھڑکیاں نہ جانے اب کہاں چلی گئی ہیں) وہ یک دم بہت اداس سے ہو گئے ہیں۔ پتہ نہیں اس کھڑکی کے پار کون رہتا ہے۔ مجھے منیر نیازی کی نظم یاد آتی ہے، لگتا ہے حمید صاحب نے یہ کھڑکی منیر نیازی کو بھی دکھائی ہوگی اور منیر صاحب نے شاید اسی کھڑکی کو دیکھ کر اے حمید سے کہا ہو گا۔

    اک اوجھل بے کلی رہنے دو
    اک رنگیں ان بنی دنیا پر
    اک کھڑکی ان کھلی رہنے دو

    یہ اوجھل بے کلی اور رنگین ان بنی دنیا کا نظارہ ہے۔ حمید صاحب اس کھڑکی کو دیکھتے چلے جا رہے ہیں جیسے جاگتے میں کوئی خواب دیکھ رہے ہوں، شاید اس کھڑکی کے پیچھے وہی لڑکی کھڑی ہے جو ان کو انارکلی کے جھروکے سے جھانکتی تھی۔ شاید وہ اپنی اوّلین محبت کو تلاش کر رہے ہوں۔ اوّلین محبت کی سرشاری، جیسے دنیا ابھی ابھی پیدا ہوئی ہو، جیسے روز آفرینش حوا اور آدم نے پہلی بار ایک دوسرے کی طرف دیکھا ہو۔

  • اے حمید کے رقص اور خواب کا قصّہ

    اے حمید کے رقص اور خواب کا قصّہ

    اے حمید صاحب اسلام آباد آئے تو میں شام کو انہیں اپنے ایک دوست کے گھر پارٹی میں لے گیا۔ میری ان سے کئی سالوں کے بعد ملاقات ہو رہی تھی اس لیے کہ جب سے میری ٹرانسفر پنڈی/ اسلام آباد کر دی گئی تھی میرا لاہور آنا جانا بہت کم ہو گیا تھا۔

    اس شام حمید صاحب اپنے کارڈرائے کے ہلکے براؤن سوٹ میں تھے، اور ان سے ایوننگ ان پیرس کی خوشبو آرہی تھی۔ پارٹی میرے ایک دوست کے گھر میں تھی۔ دروازے کے باہر سیڑھیوں پر دیے جل رہے تھے، اندر مدھم روشنیوں میں خوش لباس مہمان خوش گپیاں کر رہے تھے۔ بیک گراؤنڈ میں ہلکی سی جاز کی موسیقی چل رہی تھی۔ ایک طرف بار تھی جہاں ہر قسم کے ولایتی مشروبات رکھے تھے، میں نے حمید صاحب کو اپنے دوستوں سے ملایا اور انہیں ان کی پسند کا مشروب پیش کیا، کچھ دیر بعد رقص کی موسیقی شروع ہو گئی۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں اس رومانٹک ماحول میں رقص کرنے لگے، ان میں کئی غیرملکی جوڑے بھی شامل تھے۔ میں نے اپنی ایک جرمن خاتون دوست کو حمید صاحب سے ملوایا اور سے کہا تم حمید صاحب کے ساتھ رقص کرو۔ حمید صاحب بہت دیر تک شرماتے اور جھجکتے رہے لیکن پھر میرے اور خاتون کے اصرار پر اس کے ساتھ ڈانس فلور پر چلے گئے۔ میں انہیں رقص کرتے ہوئے دیکھتا رہا، وہ آنکھیں بند کیے موسیقی کی دھن پر ہلکے ہلکے جھوم رہے تھے جیسے کوئی بچہ نیند میں خواب دیکھ رہا ہو۔ جب وہ واپس آئے تو میں نے کہا ’حمید صاحب یہ کیا؟ صرف ایک ڈانس؟ آپ تو آج ساری رات رقص کریں اور جی بھر کر پیئیں اور پلائیں۔ سرگوشی میں کہنے لگے، ‘بس سرمد یار میرے لیے اینی خوبصورتی کافی اے ’ (بس سرمد یار میرے لیے اتنی خوبصورتی کافی ہے)۔

    مجھے یک دم ان سے اپنی پہلی ملاقات یاد آگئی۔ میں جب دسویں جماعت میں پڑھتا تھا تو گرمیوں کی چھٹیوں میں اپنے بڑے بھائی جاوید کے گھر واہ کینٹ چلا جاتا تھا۔ واہ کینٹ ایک بہت خوبصورت اور صاف ستھرا شہر تھا، آبادی کم تھی، آسمان بغیر کسی آلودگی کے نیلا دکھائی دیتا تھا اور رات کو ستارے پوری آب و تاب سے چمکتے تھے۔ ماحول بڑا رومانٹک تھا۔ بھائی جان کے گھرمیں بہت سی کتابیں تھیں، منٹو، بیدی، کرشن چندر اور اے حمید کی لکھی ہوئیں، میں ان سے سب سے تقریباً نا آشنا تھا۔ اس لیے کہ ہمارے اپنے گھر میں ان میں سے کسی کی بھی کوئی کتاب نہیں تھی۔ منٹو صاحب نے اپنی کتاب ’اوپر نیچے اور درمیان‘ بھائی جان کو تحفے میں دی تھی۔ اس پر منٹو صاحب نے لکھا تھا، ’پیارے جاوید میں تو نہ اوپر ہوں نہ نیچے اور نہ درمیان تم جہاں کہیں بھی ہو خوش رہو‘۔ میں نے ان ادیبوں کو پڑھنا شروع کر دیا، لیکن میرے لیے یہ سب ذرا زیادہ ہی بالغ تھے، سوائے اے حمید کے۔ میں ان کی کوئی بھی کتاب پڑھتا تو مجھ پرایک عجیب سی کیفیت طاری ہونا شروع ہوجاتی، ایسی منظر نگاری، ایسا رومانس اور پھر میرے لڑکپن کا زمانہ۔ حمید صاحب کی تحریروں نے مجھ پر جادو سا کر دیا تھا۔ اسی زمانے میں جب میں اپنے ایک دوست کے ساتھ مری گیا تو مجھے ساتھ والے بنگلے میں رہنے والی لڑکی سے عشق ہو گیا، یہ میرا اوّلین عشق تھا۔ میں نے اسے جو پہلا خط لکھا اس میں اے حمید کے رومانوی افسانوں کی بازگشت تھی۔

    جب میں لاہور واپس آیا تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ میری حمید صاحب سے ملاقات ہو جائے گی۔ جالی صاحب ایک مصور تھے جو ادبی کتابوں اور رسائل کے ٹائٹل بناتے تھے، انہوں نے اے حمید کی کچھ کتابوں کے بھی ٹائٹل بنائے تھے۔ میری ان سے جانے کب اور کیسے دوستی ہو گئی تھی۔ میں جب بھی انار کلی سے گزرتا ان کے دفتر ضرور جاتا۔ ایک دن دیکھا کہ ان کے دفتر میں حمید صاحب بیٹھے ہیں۔ مجھے ان دنوں اپنے پسندیدہ شاعروں ادیبوں سے آٹو گراف لینے کا شوق تھا چنانچہ میں نے حمید صاحب سے بھی اس کی فرمایش کی۔ انہوں نے میری آٹو گراف پر لکھا۔ ’جھونپڑیوں میں رہ کر محلوں کے خواب دیکھنا بہتر ہے اس سے کہ آدمی محلوں میں رہے اور اس کے پاس خواب دیکھنے کو کچھ نہ ہو۔‘ حمید صاحب اسلام آباد کی پارٹی میں اس رات شاید مجھے یہی کہنا چاہتے تھے کہ اگر وہ ساری رات رقص کرتے رہے اور پیتے پلاتے رہے تو ان کے پاس خواب دیکھنے کو باقی کچھ نہیں بچے گا۔

    (شاعر، ڈراما نگار اور ہدایت کار سرمد صہبائی کی یادوں سے چند پارے)

  • اے حمید: اردو ادب کا ایک مقبول نام

    اے حمید: اردو ادب کا ایک مقبول نام

    پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے اے حمید نے بچّوں کے لیے سلسلہ وار ڈرامہ ‘عینک والا جن’ تحریر کیا اور خوب شہرت پائی۔ یہ اپنے وقت کا وہ مقبول کھیل تھا جسے بچوں ہی نہیں بڑوں نے بھی پسند کیا۔ یہ اے حمید کا ایک حوالہ ہے۔ وہ پاکستان کے ایک بڑے ادیب تھے جنھوں‌ نے نثر کی مختلف اصناف کو اپنایا اور شہرت پائی۔

    اے حمید نے کہانی، ناول اور ڈرامے لکھنے کے لیے اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور مطالعے کے ساتھ مختلف ممالک کی سیر و سیاحت کے دوران سامنے آنے والے واقعات سے بھی بہت کچھ سمیٹا اور انھیں اپنے خوب صورت انداز میں اپنی تخلیقات میں سمویا۔ آج اس معروف قلم کار کی برسی ہے۔معروف ادیب اے حمید نے شاعری اور اردو نثر کی تاریخ بھی مرتب کی تھی جس سے ادب کے طالب علم آج تک استفادہ کرتے ہیں۔ وہ 2011ء میں‌ وفات پاگئے تھے۔

    اے حمید کی تاریخِ پیدائش 25 اگست 1928ء ہے۔ ان کا وطن امرتسر تھا۔ ان کا نام عبدالحمید رکھا گیا جو اے حمید مشہور ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد اے حمید نے ہجرت کی اور پاکستان میں ریڈیو سے بطور اسٹاف آرٹسٹ عملی زندگی شروع کی۔ ان کے فرائض میں ریڈیو فیچر، تمثیلچےاور نشری تقاریر لکھنا شامل تھا۔

    اے حمید کی ابتدائی دور کی کہانیوں پر رومانوی اثر نظر آتا ہے۔ 60 کی دہائی میں ان کی کہانیوں کو مقبولیت حاصل ہوئی اور نوجوانوں میں پسند کیے گئے۔ ان کی کہانیاں بچوں اور نوجوانوں میں تجسس اور جستجو پیدا کرنے کا سبب بنیں، وہ جاسوسی اور دہشت ناک کہانیوں کی صورت میں نوجوانوں کو معیاری ادب پڑھنے کا موقع دیتے رہے۔

    قیامِ پاکستان کے بعد اپنا ادبی سفر کیسے شروع کیا۔ اے حمید کی زبانی جانیے۔

    "یہ قیامِ پاکستان سے چند برس پہلے کا زمانہ تھا۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد میں حسبِ عادت خانہ بدوشوں والی زندگی بسر کر رہا تھا۔ صبح امرتسر تو شام لاہور میں ہوتی تھی۔”

    "والد صاحب مجھے کسی جگہ مستقل ملازمت دلوانے کی فکر میں رہتے تھے۔ میں ان سے خوف زدہ بھی تھا۔ وہ پہلوان ٹائپ آدمی تھے اور ان کو میرے مستقبل کی فکر بھی تھی جو بڑی جائز بات تھی۔ میری حالت یہ تھی کہ کسی جگہ ٹک کر کام کرنا میرے مزاج کے بالکل خلاف بات تھی۔”

    "ان کی ڈانٹ ڈپٹ بلکہ مار پیٹ سے تنگ آکر میں کلکتہ اور بمبئی کی طرف بھی بھاگ جایا کرتا تھا، کبھی ان کے قابو آ جاتا تو کسی جگہ مہینہ ڈیڑھ مہینے کے لیے نوکری بھی کر لیتا تھا۔ چنانچہ جب میں نے پہلی بار عرب ہوٹل کو دیکھا تو اس زمانے میں اسلامیہ کالج کی لائبریری میں بطور کیئرٹیکر ملازم تھا۔ یہ ملازمت بھی میں نے جھوٹ بول کر حاصل کی تھی۔”

    "لائبریری کا لائبریرین ایک دُبلا پتلا، گورے رنگ کا کم سخن، بڑی ذہین آنکھوں والا دانشور قسم کا نوجوان جہانگیر تھا۔ پورا نام مجھے یاد نہیں رہا۔ یہ نوکری میں نے اس لیے بھی کر لی کہ چاروں طرف کتابوں کی الماریاں لگی تھیں۔ لائبریری میں بڑی خاموشی رہتی اور بڑا ادبی قسم کا ماحول تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نیا نیا رنگون کی آوارہ گردیوں سے واپس آیا تھا۔ جہانگیر صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کیا مجھے لائبریری میں کام کرنے کا پہلے کوئی تجربہ ہے؟ میں نے جھوٹ بولتے ہوئے بڑے اعتماد سے کہا… ’’جی ہاں! میں رنگون ریڈیو اسٹیشن کی لائبریری میں اسسٹنٹ لائبریرین تھا۔ حالانکہ مجھے لائبریری کے ٹیکنیکل کام کی بالکل سمجھ نہیں تھی۔ جہانگیر صاحب نے کچھ کتابیں میرے سامنے رکھ دیں اور کہا…
    ’’ان کی کیٹے لاگنگ کر دو۔‘‘”

    "میری بلا جانے کہ کیٹے لاگنگ کیسے کی جاتی ہے۔ میں کتابیں سامنے رکھ کر یونہی ان کے اوراق الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ جہانگیر صاحب میرے پاس ہی بیٹھے تھے۔ سمجھ گئے کہ میں اس میدان میں بالکل اناڑی ہوں۔ میں نے انہیں صاف صاف کہہ دیا کہ مجھے یہ کام بالکل نہیں آتا لیکن اگر آپ نے مجھے نوکری نہ دی تو والد صاحب مجھے بہت ماریں گے۔ مسٹر جہانگیر بڑے شریف النفس اور درد مند انسان تھے۔ انہوں نے مجھے کیئرٹیکر کی نوکری دے دی۔ میرا کام کتابوں کو اٹھا کر الماری میں رکھنا اور نکالنا تھا۔ مجھے لائبریری کا ماحول اور اسلامیہ کالج کے لمبے خاموش ٹھنڈے برآمدوں میں چلنا پھرنا بڑا اچھا لگتا تھا لیکن یہ نوکری بھی میں نے دو مہینے کے بعد چھوڑ دی۔”

    "پاکستان بنا تو ہم بھی امرتسر کے مسلمانوں کے ساتھ ہجرت کر کے لاہور آ گئے۔ میں نے افسانے لکھنے شروع کردیے تھے اور لاہور کے ادبی حلقوں میں میرا ایک مقام بن گیا تھا۔ اپنے دوستوں احمد راہی اور عارف عبدالمتین کے ساتھ میں بھی کبھی کبھی عبدالمجید بھٹی صاحب سے ملنے عرب ہوٹل یا ان کی رہائش گاہ پر جاتا۔ بھٹی صاحب کی وضع داری اور مہمان نوازی میں ذرہ برابر فرق نہیں پڑا تھا۔ کبھی وہ ہمیں ساتھ لے کر نیچے عرب ہوٹل میں آ جاتے اور پرانے دنوں کو یاد کرتے جب عرب ہوٹل کی ادبی محفلیں اپنے عروج پر تھیں۔”

    "پاکستان بن جانے کے بعد لاہور میں کافی ہاؤس اور پاک ٹی ہاؤس وجود میں آ چکے تھے اور یہ دو ریستوران ادیبوں، صحافیوں اور دانشوروں کے نئے ٹھکانے بن گئے تھے۔ لاہور کو شروع ہی سے ادبی اور ثقافتی اعتبار سے تاریخی حیثیت حاصل رہی تھی۔ چنانچہ قیام پاکستان کے بعد دیکھتے دیکھتے پرانے ریستورانوں کے علاوہ کئی نئے ریستوران کھل گئے جہاں روز و شب ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کی مجلسیں گرم رہنے لگیں۔ میں اس حقیقت کا عینی شاہد ہوں کہ اس زمانے میں لاہور کا کوئی چائے خانہ کوئی ریستوران ایسا نہ تھا جہاں کوئی نہ کوئی ادیب شاعر یا نامور صحافی نہ بیٹھتا ہو۔ مولانا چراغ حسن حسرت، عبداللہ بٹ، ریاض قادر اور دوسرے لوگ کافی ہاؤس میں بھی بیٹھے تھے اور میٹرو ہوٹل میں بھی اپنی محفلیں جماتے تھے۔ میٹرو ہوٹل اس جگہ واقع تھا جہاں آج کل واپڈا ہاؤس ہے۔ چیئرنگ کراس سے لے کر ٹولنٹن مارکیٹ تک مال روڈ پر آمنے سامنے کتنے ہی چھوٹے بڑے ریستوران تھے ان میں سے کسی کی چائے، کسی کے سینڈوچ اور کسی کی پیسٹری مشہور تھی۔ مال روڈ پر بھٹی فوٹو گرافر کے ساتھ والے شیزان ریسٹوران کی بیکری خاص طور پر لیمن ٹاٹ، چکن سینڈوچز اور فروٹ کیک کی بڑی شہرت تھی۔ جب کہ شاہ دین بلڈنگ والے اور ینگز ریستوران کی چائے کے فلیور کا جواب نہیں تھا۔ یہ بھی ایک عجیب پراسرار، پرسکون، خاموش کلاسیکل ریستوران تھا جس کے فرش پر قالین بچھے تھے۔ گول میزوں پر تانبے کا پترا چڑھا تھا۔ تانبے کے بڑے گلدانوں میں یوکلپٹس کی ٹہنیاں بھی ہوتی تھیں۔ بہت کم لوگ وہاں بیٹھے دکھائی دیتے تھے۔ فضا میں چائے کے فلیور کے ساتھ یوکلپٹس کے پتوں کی دھیمی دھیمی مہک پھیلی ہوتی تھی۔ بڑی رومانٹک خاموشی ہر وقت ماحول پر طاری رہتی تھی۔”

    1980ء میں‌ اے حمید نے ملازمت سے استعفیٰ دیا اور امریکا کے مشہور نشریاتی ادارے میں پروڈیوسر کی حیثیت سے کام شروع کیا، لیکن ڈیڑھ برس بعد ہی لاہور لوٹ آئے اور یہاں فری لانس رائٹر کے طور پر کام کرنے لگے۔

    ایک جگہ اے حمید لکھتے ہیں، ’’یادوں کے قافلے کبھی ایک ساتھ سفر نہیں کرتے۔ ان کی کوئی خاص سمت نہیں ہوتی، کوئی طے شدہ راستہ نہیں ہوتا، کوئی منزل نہیں ہوتی۔ کہیں سے کوئی پرانی خوشبو آتی ہے، کچھ روشن اور دھندلی شکلیں سامنے آجاتی ہیں۔ جس طرح پھول مرجھا جاتا ہے مگر اس کی خوشبو کبھی مرجھاتی نہیں۔ یہ یادیں بھی زندہ ہیں۔‘‘

    انھوں نے فکشن لکھا اور خاکے اور یادوں پر مشتمل کتابیں‌ بھی یادگار چھوڑیں۔ اے حمید کی چند مقبولِ عام کتابوں میں پازیب، شہکار، تتلی، بہرام، بگولے، دیکھو شہر لاہور، جنوبی ہند کے جنگلوں میں، گنگا کے پجاری ناگ، ویران حویلی کا آسیب، اداس جنگل کی خوشبو اور دیگر شامل ہیں۔

  • شاہدرے کی ایک شام

    شاہدرے کی ایک شام

    بھاٹی دروازے کے باہر میں شاہدرہ جانے والی بس کا انتظار کر رہا تھا۔ رسالہ ’آثار قدیمہ‘ کے ایڈیٹر کا خرید کر دیا ہوا بلیک اینڈ وائٹ سگرٹوں کا ڈبہ میرے لمبے کوٹ کی جیب میں تھا اور ایک سگریٹ میرے داہنے ہاتھ کی انگلیوں میں سلگ رہا تھا۔

    میں شاہدرے مچھلیاں پکڑنے یا مقبرے کی دیواروں پر اپنا نام لکھنے نہیں بلکہ نور جہاں پر ایک افسانہ لکھنے جا رہا تھا جسے ’آثار قدیمہ‘ کے پہلے شمارہ میں چھپنا تھا۔ ایڈیٹر نے سگرٹوں کا ڈبہ تھماتے ہوئے تاکید کی تھی کہ افسانہ کافی سنسنی خیز ہونا چاہیے اور میرے اندر سنسنی ڈوڑ گئی تھی۔

    بس کا دور دور تک نشان نہ تھا اور قریب قریب سبھی لوگ انتظار سے تنگ آ چکے تھے۔ چند ایک دیہاتی عورتیں زمین پر بیٹھ گئی تھیں اور پوٹلی میں سے گڑ اور روٹی نکال کر وہیں کھانے لگی تھیں۔ بھرپور جاڑے کا یہ بڑا ہی چمکیلا دن تھا۔ دھوپ ڈھل رہی تھی اور اس کی نارنجی چمک میں بازار میں ہر شے نکھر رہی تھی۔ چوک میں لوگوں کا ہجوم تھا اور ان کے چہرے دھوپ میں روغنی معلوم ہو رہے تھے۔ عجیب عجیب چہرے، میلے میلے اور صاف صاف کپڑوں والے لوگ، تانگوں، سائیکلوں، موٹروں اور چھکڑوں سے بچتے بچاتے منہ اٹھائے چلے جا رہے تھے۔ سامنے والے سینما گھر کے باہر کافی بھیڑ تھی۔ اور کیوں نہ ہو ماسٹر بھگوان کا تیار کردہ لڑائی مارکٹائی سے بھرپور فلم ’’جادو رتن عرف بھوتنی کا‘‘ چل رہا تھا۔ کوچوان تانگوں میں گلہ پھاڑ پھاڑ کر موری دروازے، شاہ علی دروازے اور موچی دروازے جانے والی سواریوں کو پکار رہے تھے۔ سپاہی انہیں ایک جگہ رکنے نہ دیتا تھا۔ مگر وہ بھی ہٹ کے پکے تھے۔ چوک کا پورا چکر کاٹتے اور پھر اسی جگہ آن کھڑے ہوتے۔

    عورتیں۔۔۔ بوڑھی عورتیں، ادھیڑ عمر کی عورتیں، نوجوان لڑکیاں، کوئی کھلے منہ، کوئی خالی گرم شال لیے اور کوئی برقعہ اوڑھے بھاٹی دروازے میں داخل ہو رہی تھیں اور باہر نکل رہی تھیں۔ اچانک میری نظر ایک لڑکی پر پڑی جو سیاہ برقع اوڑھے ناپ تول کر قدم اٹھاتی دروازے سے باہر نکل رہی تھی۔ مجھے یوں محسوس ہوا جیسے یہ چال میری جانی پہچانی ہو۔ جیسے اس لڑکی کو میں نے پہلے بھی کہیں دیکھا ہو۔ دبلے پتلے جسم والی وہ لڑکی اب سڑک سے ہٹ کر ٹکسالی دروازے کو جانے والے باغ میں ہولی تھی۔ گھاس کے ہریالے خطوں کے درمیان سرخ روش پر اس کے چھوٹے چھوٹے قدم بڑے ربط اور سلیقے سے اٹھ رہے تھے اور سفید سینڈل پر مرغابیوں کا گمان ہو رہا تھا۔

    مجھے اپنے آپ فہمیدہ یاد آ گئی۔ وہ بھی سفید سینڈل بڑے شوق سے پہنتی ہے، اور ان کا گھر بھی بھاٹی دروازے کے اندر ہے۔ وہ بھی ہلکے نیلے رنگ کا ریشمی برقع اوڑھتی ہے۔ دبلے پتلے سپید جسم کی فہمیدہ۔۔۔ اس لڑکی کی چال فہمیدہ سے کتنی ملتی جلتی تھی۔ کہیں یہ فہمیدہ ہی نہ ہو! میں نے سگریٹ پھینکتے ہوئے باغ میں نگاہ دوڑائی۔ روش پر سفیدے اور کروٹین کے درختوں کا سایہ تھا اور اس لڑکی کا برقع ہلکی سرد ہوا میں لہرا رہا تھا اور چپ چاپ چلی جا رہی تھی۔ کہیں یہ فہمیدہ ہی نہ ہو؟ میں سوچ رہا تھا اور وہ لڑکی میری نگاہوں سے دور ہوئی جا رہی تھی۔ وقت اور زندگی کا ریلا اسے مجھ سے دور۔۔۔ اور دور لیے جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ اس کا دبلا پتلا جسم کارپوریشن کی گندگی اٹھانے والی موٹر کے عقب میں چھپ گیا اور شاہدرہ جانے والی بس چپکے سے میرے بالکل قریب آن کھڑی ہوئی۔

    ’’عورتیں پہلے، عورتیں پہلے سائبان۔‘‘بس کنڈکٹر چیختا رہا مگر نقارخانے میں طوطی کون سنتا ہے۔ طوطی چلاتی رہی اور ’سائبان‘ سب سے پہلے سوار ہوئے اور عورتیں سب سے آخر میں۔ عورتیں ہر جگہ پیچھے رہتی ہیں۔ میدان جنگ میں مردوں کی مرہم پٹی کرتے ہوئے، انارکلی میں مردوں کے ساتھ چلتے ہوئے اور ڈولی میں بیٹھ کر سسرال جاتے ہوئے۔ انہیں بسوں میں بھی سب سے آخر میں سوار ہونا چاہیے۔ گھرر، گھرر، جیسے موٹر کے انجن نے میری تائید کی اور بس چل پڑی۔ ٹکسالی دروازے کے قریب پہنچ کر میں نے باغ میں اس لڑکی کو دور دور تک دیکھا مگر اس کا کہیں نشان نہ ملا۔ وہ کہیں گم ہو چکی تھی۔ یہ خیال کہ وہ لڑکی فہمیدہ ہی تھی، میرے ذہن میں اپنے پاؤں جما رہا تھا اور جب میں شاہدرہ موڑ پر اتر کر نور جہاں کے مقبرے کی طرف روانہ ہوا تو مجھے پورا یقین ہو چکا تھا کہ وہ لڑکی فہمیدہ ہی تھی۔

    نور جہاں کا مقبرہ اجاڑ اور مرجھائے ہوئے درختوں کے درمیان کسی پرانے اور زنگ آلود آبخورے کی طرح پڑا تھا۔ دیواروں کا سیمنٹ اور چونا اکھڑ چکا تھا اور محرابوں پر گلے سڑے پتوں والی بیلوں کی مردہ شاخیں ہوا میں ہل رہی تھیں۔ مقبرے کے اندر سردی اور تاریکی تھی۔ قبروں کے تعویز منجمد فریا دیں تھیں اور ان لوگوں کی یاد دلا رہے تھے جنہیں وطن سے ہزار میل دور کسی ویرانے میں موت نےآن لیا ہو۔ دیواروں پر بڑے بڑے دردناک شعر لکھے تھے۔ میں نے بھی کوئلے سے ایک سوگوار شعر لکھا اور سگریٹ سلگا کر مقبرہ جہانگیر کی طرف چل پڑا۔ ریلوے لائن عبور کرتے ہی مجھے شاہدرہ چاردیواری کے اندر کھجور، پوکلپٹس اور جامن کے درخت نظر آئے جن کی پھنگیں دھوپ کی مدھم ہوتی کرنوں میں ایک خیال سا معلوم ہو رہی تھیں، اور جن کے عقب میں سردیوں کی شام کا آسمان نکھر کر گہرا نیلا اور بے حد وسیع ہو گیا تھا۔ مجھے یوں محسوس ہوا گویا کسی نے میرے ہاتھ سے تارا مارکہ بیڑی لے کر مجھے بلیک اینڈ وائٹ کا سگریٹ تھما دیا ہو۔ بلیک اینڈ وائٹ۔۔۔ مجھے رسالہ ’آثار قدیمہ‘ کے ایڈیٹر کا خیال آگیا۔

    ’افسانہ سنسنی خیز ہو۔‘ اور میرے جسم میں ایک بار پھر سنسنی دوڑ گئی۔

    اگر پکنک یا کسی خوبصورت لڑکی کے ساتھ سیر کا لطف اٹھانا ہو تو مقبرہ جہانگیر سے بڑھ کر لاہور بھر میں کوئی جگہ اتنی موزوں نہیں۔ لارنس باغ یا شملہ پہاڑی تو کرکٹ میچ دیکھنے یا ٹانگیں توڑوانے کے لیے ہیں۔ لارنس باغ میں سیر کرتے ہوئے آپ کو گھاس کے ہرے بھرے قطعے ضرور ملیں گے مگر ساتھ ہی ہر قطعہ کے باہر گھاس سے بچ کر چلیں، کے بورڈ بھی نظر آئیں گے اور آپ کو محسوس ہوگا آپ اسلحہ تیار کرنے والے کارخانے میں گھوم رہے ہیں، جہاں ذرا سی بے احتیاطی کا مطلب ایک آدھ دھماکہ اور پھر موت ہے۔۔۔ لیکن مقبرہ جہانگیر کی چاردیواری کے اندر صاف ستھری چمکیلی روشیں ہیں، جن کے بیچوں بیچ چھوٹے چھوٹے خوبصورت فواروں کی قطاریں ہیں اور جہاں دو رویہ سرو کے سرسبز درخت کھڑے ہیں۔ جہاں ترشی ہوئی گھاس کے نرم نرم خطوں میں اگے ہوئے سایہ دار درختوں میں رنگین پرندوں کے گھونسلے ہیں۔

    مقبرہ کی نیم تاریک، سنگین اور ٹھنڈی غلام گردشوں کی فضا میں دھیمی دھیمی رومانوی کیفیت رچی رہتی ہے۔ وہاں کئی ایسے مقام ہیں جہاں پہنچ کر آپ اپنی ساتھی لڑکی سے بلاجھجک اظہار عشق کر سکتے ہیں۔ اور اس لڑکی کا مزاج سرد تر ہو تو آپ اس کے ہونٹ بھی چوم سکتے ہیں۔ آپ کو کوئی نہ دیکھ سکے گا۔ لارنس اور شملہ پہاڑی میں یہ بات کہاں۔ شملہ پہاڑی کے پاس ہی ریڈیو اسٹیشن ہے۔ وہاں نہ صرف آپ کو دیکھا جا سکتا ہے بلکہ شہر بھر میں نشر بھی کیا جا سکتا ہے اور لارنس میں آپ کو سائیکل بھی باہر ہی چھوڑنا پڑتی ہے۔ اور ہو سکتا ہے کچھ عرصہ بعد آپ کو جوتے بھی باہر اتارنے پڑیں اور پھر یہ بھی ممکن ہے کہ ایک وقت آئے جب سائیکلوں کے ساتھ عورتوں کو بھی اسٹینڈ پر تالا لگا کر چھوڑنا پڑے LOCK YOUR CYCLES کے ساتھ ساتھ LOCK YOUR WOMEN کا بورڈ بھی دکھائی دینے لگے۔

    کہاں لارنس باغ اور کہاں شاہدرہ باغ۔۔۔ کہاں راجہ بھوج اور کہاں۔۔۔ مگر یہ گنگو تیلی کی کہانی نہیں ہے۔ یہ اصل میں راجہ بھوج کے باغ ہی کی داستان ہے۔ شاہدرہ باغ جہانگیر کے لیے بنوایا گیا تھا اور میں اس باغ میں ایک حوض کے کنارے کھڑا تھا۔ حوض میں پانی کا رنگ گدلا ہو رہا تھا اور اس کی تہ میں اگی ہوئی کائی کارنگ سیاہ پڑ چکا تھا۔ پاس ہی ایک پتلی سی روش پر، چھوٹی سی ریشمی گلہری بڑی پھرتی سے اِدھر اُھر اچک رہی تھی۔ آس پاس کھجور، املتاس اور جامن کی چھدری چھاؤں۔ گھاس کارنگ گہرا سبز ہو رہا تھا۔ فضا میں مختلف قسم کے پودوں کی خوشبو اور پرسکوں مرطوب خنکی سی پھیل رہی تھی۔ بائیں طرف ذرا ہٹ کر ایک دو گنجان درخت تھے، جن کے سایوں میں سنگین بنچ پڑے تھے۔

    میں مقبرے کی پچھلی طرف آ گیا۔ یہاں نسبتاً زیادہ سکون اور خاموشی تھی۔ سامنے فصیل ہری بھری بیلوں میں چھپی ہوئی تھی اور پرانے کنوئیں کے منڈیر پر بھنگ کی جھاڑیاں اگ رہی تھیں۔ تقریباً نصف گھنٹے تک میں نے مقبرے کا طواف کیا۔ مرمریں برآمدوں کی خنک تاریکی میں ٹہلا، باریک جالی دار جھروکوں سے لگ کر شہنشاہ کے مزار کو دیکھتا رہا۔ ایک آدمی قبر کے سرہانے دوزانو ہوکر بیٹھا تھا اور قرآن پاک کی تلاوت کر رہا تھا۔ تلاوت ختم کر کے اس نے دعا مانگی، تعویز کو بڑی عقیدت سے بوسہ دیا اور احتیاط سے جیسے اسے کسی کے جاگ اٹھنے کا احتمال ہو، الٹے پاؤں باہر نکل گیا۔ مجھے خواہ مخواہ گمان ہونے لگا کہ میں جہاں گیر کے مزار پر نہیں بلکہ داتا گنج بخش کے دربار میں کھڑا ہوں۔

    میں مقبرے سے نکل کر پھر باغ میں آ گیا اور ایک جگہ گھاس پر بیٹھ گیا دھوپ۔۔۔ سنہری دھوپ درختوں کے آخری کناروں کو چھو رہی تھی اور سائے لمبے اور گہرے ہو چکے تھے۔ بلیک اینڈ وائٹ کا دسواں یا گیارہواں سگریٹ سلگاتے ہوئے خودبخود نور جہاں پر مضمون لکھنے کا خیال آ گیا۔ نور جہاں پر کیا لکھوں؟ میں دیر تک سوچتا رہا۔ نور جہاں مرزا غیاث بیگ کی لڑکی تھی۔ جنگل میں پیدا ہوئی۔ اکبر کے محل میں آئی۔ شہزادہ سلیم نے کبوتر پکڑائے۔ ایک کبوتر اڑ گیا۔ واپس آکر شہزادے نے حیرانگی سے پوچھا، ’’دوسرا کبوتر کیا ہوا؟‘‘ نور جہاں نے بھولپن سے کہا، ’’اڑ گیا صاحبِ عالم۔‘‘

    ’’وہ کیسے؟‘‘

    ’’یوں صاحبِ عالم۔‘‘ اور نور جہاں نے دوسرا کبوتر بھی چھوڑ دیا۔ اور کبوتروں سے محبت کرنے والے شہزادے کو کنیز کی یہ ادا بھا گئی۔ (جیسا کہ فلم پکار میں بھی دکھایا گیا تھا) وہ اس پر عاشق ہو گیا۔ کیونکہ عام طور پر شہزادے بہت جلد عاشق ہو جایا کرتے تھے۔ پھر اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ ہندوستان کا شہنشاہ بن کر اسے اپنی ملکہ بنائے گا۔ مگر جب وہ شہنشاہ بنا تو نور جہاں علی قلی خاں۔۔۔ اس کی سپاہ کے بہادر جرنیل کی بیوی بن چکی تھی۔ علی قلی خاں بنگال کی مہم پر گیا اور بدقسمتی سے وہاں باغیوں کی سرکوبی کرتے ہوئے مارا گیا۔ نور جہاں بیوہ ہو گئی اور بعد ازاں ملکہ بن کر جہاں گیر کے حرم میں آ گئی۔ بس یہ ہے نور جہاں کی کہانی۔ اس سے زیادہ اس موضوع پر کیا لکھا جا سکتا ہے۔ میں سوچ رہا تھا اور سگریٹ کا نیلا دھواں پتلی سی منحنی لکیر کی شکل میں اوپر اٹھ رہا تھا۔ میں نے کئی بار نورجہاں کے متعلق کوئی سنسنی خیز بات سوچنے کی کوشش کی مگر ہر بار ناکام رہا۔ در اصل مجھے رہ رہ کر اس لڑکی کا خیال آ رہا تھا جو بھاٹی دروازے سے نکل کر ٹکسالی دروازے کی طرف باغ میں گھوم گئی تھی اور جس کے متعلق مجھے یقین تھا کہ وہ فہمیدہ تھی۔

    میں سوچتا نور جہاں جہاں گیر کی بیوی تھی اور جہاں گیر ہندوستان کا شہنشاہ تھا اور اس کے بعد میرا خیال فہمیدہ کی سمت چلا جاتا۔ فہمیدہ جو کبھی میری محبوبہ تھی اور اب خواجہ غلام نبی کی بیوی ہے اور خواجہ غلام نبی محکمہ انہار کے دفتر میں ہیڈ کلرک ہے۔ میں شہزادہ سلیم کو نور جہاں کی کبوتر چھوڑنے والی ادا پر مسحور ہوتے دیکھتا اور میرے ذہن میں وہ شام گھوم جاتی جب ہمارے گھر کے نچلے کمرے میں فہمیدہ میری آپا کے ساتھ بیٹھی اپنی دادی کے تتلا تتلا کر بولنے کی نقل اتار رہی تھی۔ وہ ایک آنکھ بند کیے، چھوٹا سا منہ کھولے رک رک کر بول رہی تھی اور میں دروازے والی چق کے ساتھ لگا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ اس کی صورت کتنی مضحکہ خیز مگر کس قدر دل آویز تھی۔ پھر وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی اور مجھے یوں محسوس ہوا تھا گویا رقاصہ گھنگھرو باندھے بھاگ کر میرے پیچھے سے گزر گئی ہو۔ اس کی ہنسی میں ترنم اور نکھار تھا۔ فہمیدہ کی یہ ادا مجھے بھا گئی اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ تعلیم ختم کر کے جب میں کلرک بنوں گا، تو اسے اپنی بیوی بنا لوں گا۔

    ایک ہفتہ گزر گیا۔ فہمیدہ ہمارے ہاں نہ آئی۔ اسے دوبارہ دیکھنے اور اس کی مترنم آواز سننے اور اس کی خوبصورت سیاہ آنکھیں دیکھنے کی آرزو ایک پُر بہار پھول کی مانند میرے دل میں خاموشی سے مہک رہی تھی۔ ایک دن اتفاق سے میرے سوا گھر میں کوئی نہ تھا۔ میں نچلے کمرے میں سماوار میں چائے کے لیے کوئلے سلگا رہا تھا۔ میرا سرکھپ گیا تھا مگر کوئلے سلگنے کا نام نہ لیتے تھے۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ میں آنکھیں ملتے ہوئے اٹھا۔ دروازہ کھولا تو ڈیوڑھی میں فہمیدہ کھڑی تھی۔ وہی خوبصورت سیاہ چمکیلی آنکھیں، گول ماتھا، نیم وا ہونٹ۔۔۔

    ’’باجی۔ باجی کہاں ہے؟‘‘اس نے قدرے گھبراہٹ میں پوچھا۔

    ’’باجی۔۔۔ باجی اوپر ہے۔ تم بیٹھو میں انہیں بلائے دیتا ہوں۔‘‘ میں نے جلدی سے پنڈلیوں تک چڑھے ہوئے پائنچے ٹھیک کیے اور اوپر چلا آیا۔ اوپر مکان ساں ساں کر رہا تھا۔ اب کیا ہو؟ میں نے گھبرائے ہوئے بلے کی طرح کمروں کا چکر کاٹا اور پھر نیچے اتر آیا۔

    ’’وہ۔۔۔ وہ باجی ذرا نہا رہی ہے۔ کہتی ہے ابھی آتی ہوں۔‘‘ فہمیدہ کچھ بھی نہ بولی۔ وہ نقاب الٹے، میز کے پاس بت بنی بیٹھی تھی۔ میں سماوار کو دروازے کی طرف لے آیا۔

    ’’کوئلے ذرا گیلے ہیں۔ دھواں تو نہیں لگ رہا؟‘‘ بت خاموش رہا۔ اس کے سر کے اوپر دیوار سے لگا کلاک برابر حرکت کر رہا تھا۔ ٹک۔۔۔ ٹک۔۔۔ ٹک۔ میں نے کہا، ’’کمرہ ٹھنڈا ہے۔ سماوار قریب لے آؤں؟‘‘ کلاک چلتا رہا۔ بت کچھ نہ بولا۔ میں نے کہا، ’’تم چائے پیو گی؟‘‘ ٹک۔۔۔ ٹک۔۔۔ ٹک۔

    ’’تم بولتی کیوں نہیں؟‘‘ ٹک۔۔۔ ٹک۔۔۔ ٹک۔ میں بت کی طرف لپکا۔ بت اٹھ کھڑا ہوا۔

    ’’میں اب جاتی ہوں۔‘‘ میں نے جلدی سے اس کے گول گول شانوں پر ہاتھ رکھ دیے۔

    ’’بیٹھو فہمیدہ۔۔۔ باجی ابھی آ جائے گی۔‘‘ لیکن فہمیدہ میری گرفت سے نکلنے کی کوشش کرنے لگی اور میری گرفت زیادہ مضبوط ہو گئی۔ اس کا بدن سرد پڑ رہا تھا، یا میرا؟ میرے ہاتھ کانپ رہے تھے یا اس کے۔۔۔ میں تمیز نہیں کر سکتا تھا۔ ایک کپکپی تھی جو بیک وقت ہم دونوں پر طاری تھی۔ ایک گداز اور میٹھا اضطرار تھا جس کی رَو میں ہمارے جسم ہم آہنگ ہوکر لرز رہے تھے۔ فہمیدہ نے کچھ کہنا چاہا مگر اس کی آواز تھرتھرانے لگی جیسے وہ اپنی دادی کی نقل اتار رہی ہو۔ اس کا دل گویا اس کے حلق میں اٹک گیا ہو اور اس کی آواز رک گئی ہو۔ اور ہم یوں ایک دوسرے سے مل گئے تھے، جیسے دو ٹہنیاں اتفاقاً ایک دوسری سے الجھ گئی ہوں۔ فہمیدہ کا سنہری رنگ اڑ رہا تھا۔ چمکیلی سیاہ آنکھیں ڈر سے سہمی ہوئی تھیں۔ اس کے ہاتھ سرد تھے اور ہونٹ کھلے تھے، پنکھڑیوں کی طرح۔۔۔ یہ پنکھڑیاں ان پھولوں کی تھیں جن کی خوشبو اچھوتی تھی اور جن کی تازگی بے داغ اور ان مول تھی اور جن کا بیج قدرت بلند پہاڑیوں کی چوٹیوں پر اپنے ہاتھ سے بکھیرتی ہے اور جن کی خوشبو جنگلوں کو مہکا دیتی ہے۔

    جب فہمیدہ چلی گئی تو سماوار میں کوئلے دہک رہے تھے۔

    اس کے بعد فہمیدہ اکثر ہمارے گھر آنے لگی۔ اسی کمرے، اسی کرسی پر بیٹھ کر اس نے روتے ہوئے، ہنستے ہوئے، مجھ سے وعدے کیے کہ وہ مجھے کبھی نہیں چھوڑے گی اور زندگی کے ہر در میں میرا ساتھ دے گی اور میرے شانہ بشانہ ہو کر چلے گی۔ لیکن جب میں تعلیم پانے کے بعد کلرک بنا تو فہمیدہ کسی اور کی ہو چکی تھی۔ ہمارا قافلہ محبت کی شاداب وادیوں کو عبور کر کے جب کارواں سرائے کے قریب پہنچا تو فہمیدہ اسی بھیڑ میں کہیں گم ہو گئی۔ شہزادہ سلیم نے مہرالنسا سے محبت کی اور جب وہ شہنشاہ بنا تو اس نے علی قلی خاں کی بیوہ، نور جہاں سے شادی رچا لی۔ میں نے فہمیدہ سے محبت کی اور اسے زندگی کے بھرے میلے میں کھو بیٹھا۔

    وہ مجھ سے چھین لی گئی۔ اسے ایک علی قلی خاں بیاہ کر لے گیا۔ میں اس علی قلی خاں کو جانتا ہوں۔ اس کا اصلی نام خواجہ غلام نبی ہے اور وہ محکمہ انہار کے دفتر میں ہیڈ کلرک ہے۔ میں تعلیم ختم کرنے کے بعد جہاں گیر نہیں بن سکا۔ کاش میں جہاں گیر ہوتا۔ اور خواجہ غلام نبی اپنے علی قلی خاں کو کسی خوفناک مہم پر بھیج سکتا۔ جہاں سے وہ عمر بھر واپس لوٹ کر نہ آتا۔ اس کی خبر تک نہ ملتی اور میں اس کی چہیتی بیوی، اپنی نور جہاں۔۔۔ اپنی فہمیدہ کو گھر بیاہ لاتا۔

    میں جہانگیر نہیں ہوں مگر خواجہ غلام نبی علی قلی خان ضرور ہے۔ کیونکہ میری نور جہاں اس کے پاس ہے۔ میری فہمیدہ اس کے قبضے میں ہے۔ شاید اب وہ بھی مجھے بھلا بیٹھی ہو۔ شاید اس کے دل سے میری یاد کی آخری لکیر بھی محو ہوگئی ہو لیکن میں اسے نہیں بھلا سکتا۔ میں اس شام کو نہیں بھول سکتا، جب وہ آپا کے پاس نچلے کمرے میں بیٹھی اپنی دادی کی نقل اتار رہی تھی۔ جہاں گیر کو شاید زندگی کے آخری لمحات تک وہ منظر نہ بھولا ہوگا، جب نورجہاں نے معصومیت اور بھولپن سے دوسرا کبوتر بھی ہاتھ سے چھوڑ دیا تھا۔ اور پھر وہ سنہری لمحات، وہ پھر کبھی واپس نہ آنے والے روشن اور چمکیلے لمحات۔۔۔ جب پہلی بار میں نے جنگلی پھولوں کی مہک سونگھی تھی اور ریشمی پلکوں کی سکون بحش حرارت کو محسوس کیا تھا۔ کہاں کھو گئے وہ لمحات!

    میری نور جہاں اس دنیا میں زندہ ہے۔ لیکن نہیں وہ مر چکی ہے اور اس کا مزار بھاٹی دروازے کے اندر ہے، جس کے باہر کھڑے ہوکر میں نے بس کا انتظار کیا تھا اور جہاں سے ایک دبلے پتلے جسم، ہلکے نیلے برقعے اور سفید سینڈل والی لڑکی ٹکسالی دروازے کی طرف گھوم گئی تھی اور جسے کارپوریشن کے گندگی اٹھانے والے ٹرک نے اپنی اوٹ میں لے لیا تھا۔ وہ ضرور فہمیدہ ہی تھی، نور جہاں ہی تھی!

    مجھے شاہدرہ آنے کی بجائے بھاٹی دروازے کے اندر جانا چاہئے تھا۔ اس نور جہاں کے مزار پر جس کا سلیم جہاں گیر نہ بن سکا۔ ہندوستان کا شہنشاہ نہ بن سکا۔ جہاں گیر کی نور جہاں مرنے کے باوجود زندہ ہے مگر میری نورجہاں زندہ ہوتے ہوئے بھی مردہ ہے۔ ایک لاش ہے۔۔۔ اور ایسی کتنی ہی لاشوں، کتنی ہی نور جہانوں کے مزار ہیں جو شہر کے اندر، شہر کے باہر تنگ و تاریک گلیوں کے تعفن میں ویران پڑے ہیں، جن کی قبروں پر کوئی چراغ نہیں جل رہا، کوئی پھول نہیں مہک رہا اور جن پر ایک افسانہ کیا ہزاروں ناول لکھے جا سکتے ہیں۔ میں نے غلطی کی جو شاہدرہ آ گیا۔ مجھے شہر کی گلیوں میں گھومنا چاہیے تھا۔

    دن ڈھل چکا تھا۔ شام کے مرطوب سائے مجھے گھیر رہے تھے۔ جامن اور املتاس کے درختوں میں چوڑیوں کی چہکاریں گونج رہی تھیں۔ سردی بڑھ رہی تھی۔ میں آہستہ سے اٹھا۔ کوٹ کے کالر چڑھائے اور باغ کے بڑے دروازے کی طرف ہو لیا۔ بلیک اینڈ وائٹ کا سگریٹ سلگاتے ہوئے مجھے پھر رسالہ ’آثار قدیمہ‘ کے ایڈیٹر کا خیال آ گیا، جس نے مجھے یہاں سگریٹوں کا ڈبہ دے کر نور جہاں پر افسانہ لکھنے بھیجا تھا۔ ڈبے میں اب صرف تین چار سگریٹ ہی باقی تھے۔ میں نے سوچا گھر جاکر نور جہاں پر کچھ نہ کچھ ضرور گھسیٹ ڈالنا چاہیے۔

    لیکن جب میں مقبرے کی چاردیواری سے باہر نکلا تو میری نگاہ ریلوے لائن عبور کرتے ہوئے خود بخود نور جہاں کے مزار کی طرف اٹھ گئی اور میں نے ایمان داری سے محسوس کیا کہ میں نورجہاں کے بارے میں کچھ نہ لکھ سکوں گا، چاہے رسالہ ’آثار قدیمہ‘ کا ایڈیٹر میرے کوٹ کی ساری جیبیں سگریٹوں سے بھر دے۔

    (معاشی ناآسودگی کے باعث محبت میں ناکامی کا المیہ بیان کرتا یہ افسانہ اے حمید کے قلم سے نکلا ہے جو اردو کے مقبول قلم کار تھے)

  • جب والد کی مار پیٹ سے خوف زدہ اے حمید کو جھوٹ بولنا پڑا!

    جب والد کی مار پیٹ سے خوف زدہ اے حمید کو جھوٹ بولنا پڑا!

    یہ اردو کے مقبول ناول نگار اور ڈرامہ نویس اے حمید کی زندگی کا ایک دل چسپ باب ہے جس میں وہ بتاتے ہیں‌ کہ والد ان کے مستقبل کے لیے فکر مند تھے اور اکثر ڈانٹ ڈپٹ بلکہ مار پیٹ تک نوبت آجاتی تھی۔ اے حمید نے جھوٹ بول کر کس طرح ایک معمولی نوکری حاصل کی اور قیامِ پاکستان کے بعد اپنا ادبی سفر کیسے شروع کیا۔ اے حمید کی زبانی جانیے۔

    "یہ قیامِ پاکستان سے چند برس پہلے کا زمانہ تھا۔ میٹرک پاس کرنے کے بعد میں حسبِ عادت خانہ بدوشوں والی زندگی بسر کر رہا تھا۔ صبح امرتسر تو شام لاہور میں ہوتی تھی۔”

    "والد صاحب مجھے کسی جگہ مستقل ملازمت دلوانے کی فکر میں رہتے تھے۔ میں ان سے خوف زدہ بھی تھا۔ وہ پہلوان ٹائپ آدمی تھے اور ان کو میرے مستقبل کی فکر بھی تھی جو بڑی جائز بات تھی۔ میری حالت یہ تھی کہ کسی جگہ ٹک کر کام کرنا میرے مزاج کے بالکل خلاف بات تھی۔”

    "ان کی ڈانٹ ڈپٹ بلکہ مار پیٹ سے تنگ آکر میں کلکتہ اور بمبئی کی طرف بھی بھاگ جایا کرتا تھا، کبھی ان کے قابو آ جاتا تو کسی جگہ مہینہ ڈیڑھ مہینے کے لیے نوکری بھی کر لیتا تھا۔ چنانچہ جب میں نے پہلی بار عرب ہوٹل کو دیکھا تو اس زمانے میں اسلامیہ کالج کی لائبریری میں بطور کیئرٹیکر ملازم تھا۔ یہ ملازمت بھی میں نے جھوٹ بول کر حاصل کی تھی۔”

    "لائبریری کا لائبریرین ایک دُبلا پتلا، گورے رنگ کا کم سخن، بڑی ذہین آنکھوں والا دانشور قسم کا نوجوان جہانگیر تھا۔ پورا نام مجھے یاد نہیں رہا۔ یہ نوکری میں نے اس لیے بھی کر لی کہ چاروں طرف کتابوں کی الماریاں لگی تھیں۔ لائبریری میں بڑی خاموشی رہتی اور بڑا ادبی قسم کا ماحول تھا۔ مجھے یاد ہے کہ میں نیا نیا رنگون کی آوارہ گردیوں سے واپس آیا تھا۔ جہانگیر صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ کیا مجھے لائبریری میں کام کرنے کا پہلے کوئی تجربہ ہے؟ میں نے جھوٹ بولتے ہوئے بڑے اعتماد سے کہا… ’’جی ہاں! میں رنگون ریڈیو اسٹیشن کی لائبریری میں اسسٹنٹ لائبریرین تھا۔ حالانکہ مجھے لائبریری کے ٹیکنیکل کام کی بالکل سمجھ نہیں تھی۔ جہانگیر صاحب نے کچھ کتابیں میرے سامنے رکھ دیں اور کہا…
    ’’ان کی کیٹے لاگنگ کر دو۔‘‘”

    "میری بلا جانے کہ کیٹے لاگنگ کیسے کی جاتی ہے۔ میں کتابیں سامنے رکھ کر یونہی ان کے اوراق الٹ پلٹ کر دیکھنے لگا۔ جہانگیر صاحب میرے پاس ہی بیٹھے تھے۔ سمجھ گئے کہ میں اس میدان میں بالکل اناڑی ہوں۔ میں نے انہیں صاف صاف کہہ دیا کہ مجھے یہ کام بالکل نہیں آتا لیکن اگر آپ نے مجھے نوکری نہ دی تو والد صاحب مجھے بہت ماریں گے۔ مسٹر جہانگیر بڑے شریف النفس اور درد مند انسان تھے۔ انہوں نے مجھے کیئرٹیکر کی نوکری دے دی۔ میرا کام کتابوں کو اٹھا کر الماری میں رکھنا اور نکالنا تھا۔ مجھے لائبریری کا ماحول اور اسلامیہ کالج کے لمبے خاموش ٹھنڈے برآمدوں میں چلنا پھرنا بڑا اچھا لگتا تھا لیکن یہ نوکری بھی میں نے دو مہینے کے بعد چھوڑ دی۔”

    "پاکستان بنا تو ہم بھی امرتسر کے مسلمانوں کے ساتھ ہجرت کر کے لاہور آ گئے۔ میں نے افسانے لکھنے شروع کردیے تھے اور لاہور کے ادبی حلقوں میں میرا ایک مقام بن گیا تھا۔ اپنے دوستوں احمد راہی اور عارف عبدالمتین کے ساتھ میں بھی کبھی کبھی عبدالمجید بھٹی صاحب سے ملنے عرب ہوٹل یا ان کی رہائش گاہ پر جاتا۔ بھٹی صاحب کی وضع داری اور مہمان نوازی میں ذرہ برابر فرق نہیں پڑا تھا۔ کبھی وہ ہمیں ساتھ لے کر نیچے عرب ہوٹل میں آ جاتے اور پرانے دنوں کو یاد کرتے جب عرب ہوٹل کی ادبی محفلیں اپنے عروج پر تھیں۔”

    "پاکستان بن جانے کے بعد لاہور میں کافی ہاؤس اور پاک ٹی ہاؤس وجود میں آ چکے تھے اور یہ دو ریستوران ادیبوں، صحافیوں اور دانشوروں کے نئے ٹھکانے بن گئے تھے۔ لاہور کو شروع ہی سے ادبی اور ثقافتی اعتبار سے تاریخی حیثیت حاصل رہی تھی۔ چنانچہ قیام پاکستان کے بعد دیکھتے دیکھتے پرانے ریستورانوں کے علاوہ کئی نئے ریستوران کھل گئے جہاں روز و شب ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کی مجلسیں گرم رہنے لگیں۔ میں اس حقیقت کا عینی شاہد ہوں کہ اس زمانے میں لاہور کا کوئی چائے خانہ کوئی ریستوران ایسا نہ تھا جہاں کوئی نہ کوئی ادیب شاعر یا نامور صحافی نہ بیٹھتا ہو۔ مولانا چراغ حسن حسرت، عبداللہ بٹ، ریاض قادر اور دوسرے لوگ کافی ہاؤس میں بھی بیٹھے تھے اور میٹرو ہوٹل میں بھی اپنی محفلیں جماتے تھے۔ میٹرو ہوٹل اس جگہ واقع تھا جہاں آج کل واپڈا ہاؤس ہے۔ چیئرنگ کراس سے لے کر ٹولنٹن مارکیٹ تک مال روڈ پر آمنے سامنے کتنے ہی چھوٹے بڑے ریستوران تھے ان میں سے کسی کی چائے، کسی کے سینڈوچ اور کسی کی پیسٹری مشہور تھی۔ مال روڈ پر بھٹی فوٹو گرافر کے ساتھ والے شیزان ریسٹوران کی بیکری خاص طور پر لیمن ٹاٹ، چکن سینڈوچز اور فروٹ کیک کی بڑی شہرت تھی۔ جب کہ شاہ دین بلڈنگ والے اور ینگز ریستوران کی چائے کے فلیور کا جواب نہیں تھا۔ یہ بھی ایک عجیب پراسرار، پرسکون، خاموش کلاسیکل ریستوران تھا جس کے فرش پر قالین بچھے تھے۔ گول میزوں پر تانبے کا پترا چڑھا تھا۔ تانبے کے بڑے گلدانوں میں یوکلپٹس کی ٹہنیاں بھی ہوتی تھیں۔ بہت کم لوگ وہاں بیٹھے دکھائی دیتے تھے۔ فضا میں چائے کے فلیور کے ساتھ یوکلپٹس کے پتوں کی دھیمی دھیمی مہک پھیلی ہوتی تھی۔ بڑی رومانٹک خاموشی ہر وقت ماحول پر طاری رہتی تھی۔”

  • اے حمید کی عیّاشی اور مرزا ادیب کی شرافت

    اے حمید کی عیّاشی اور مرزا ادیب کی شرافت

    اے حمید کی کہانیاں ماضی پرستی کے ساتھ اس رومانوی فضا کو جنم دیتی ہیں جس میں اُن کی کتاب کا قاری دیوانہ وار اور بصد شوق صفحے الٹتا چلا جاتا ہے۔ اے حمید اردو کے مقبول ترین کہانی کاروں میں سے ایک تھے جنھوں نے افسانہ نگاری، ناول اور ڈرامہ نویسی میں بڑا نام پایا۔ یہاں ہم ان کی کتاب یادوں کے گلاب سے ایک پارہ نقل کررہے ہیں جو آپ کی دل چسپی کا باعث بنے گا اور اے حمید کی ایک حرکت پر حیرانی بھی ہو گی۔

    “ریگل سنیما میں فلم مادام بواری لگی۔ میں نے اور احمد راہی نے فلم دیکھنے اور اس کے بعد شیزان میں بیٹھ کر چائے اور کریون اے کے سگرٹ پینے کا پروگرام بنایا۔ اتفاق سے اس روز ہماری جیبیں بالکل خالی تھیں۔ ہم فوراً ادبِ لطیف کے دفتر پہنچے۔ ان دنوں ادبِ لطیف کو مرزا ادیب ایڈٹ کیا کرتے تھے۔ ہم نے جاتے ہی مرزا ادیب سے کہا: مرزا صاحب! ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس سال کے بہترین ادب کا انتخاب ہم کریں گے۔

    مرزا ادیب بڑے شریف آدمی ہیں، بہت خوش ہوئے، بولے: “یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ احمد راہی صاحب حصّۂ نظم مرتب کر لیں گے اور آپ افسانوی ادب کا انتخاب کرلیں۔“

    ہم نے کہا: “ تو ایسا کریں کہ ہمیں پچھلے سال کے جس قدر انڈیا اور پاکستان کے ادبی رسالے دفتر میں موجود ہیں، دے دیجیے تاکہ ہم انہیں پڑھنا شروع کر دیں۔“
    میرزا صاحب خوش ہوکر بولے: “ ضرور، ضرور۔ “ اس کے آدھے گھنٹے بعد جب ہم ادبِ لطیف کے دفتر سے باہر نکلے تو ہم نے ادبی رسالوں کے دو بھاری بھرکم پلندے اٹھا رکھے تھے۔

    آپ یقین کریں کہ ہم وہاں سے نکل کر سیدھا موری دروازے کے باہر گندے نالے کے پاس ردی خریدنے والے ایک دکان دار کے پاس گئے اور سارے ادبی رسالے سات یا آٹھ روپوں میں فروخت کر دیے۔ اس شام میں نے اور احمد راہی نے بڑی عیاشی کی۔ یعنی مادام بواری فلم بھی دیکھی اور شیزان میں بیٹھ کر کیک پیسٹری بھی اڑاتے اور کریون اے کے سگرٹ بھی پیتے رہے۔

    اس کے بعد تقریباً ہر دوسرے تیسرے روز مرزا ادیب ہم سے پوچھ لیتے: بھئی انتخاب کا مسودہ کہاں ہے؟ ہم ہمیشہ یہی جواب دیتے: “ بس دو ایک دن میں تیار ہو جائے گا۔ ہم دراصل بڑی ذمے داری سے کام کر رہے ہیں۔“

  • اے حمید: پھول مرجھا جاتا ہے مگر اس کی خوشبو کبھی مرجھاتی نہیں!

    اے حمید: پھول مرجھا جاتا ہے مگر اس کی خوشبو کبھی مرجھاتی نہیں!

    کہانی، ناول اور ڈرامے لکھنے کے لیے اے حمید نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور مطالعے کے ساتھ مختلف ممالک کی سیر و سیاحت کے دوران سامنے آنے والے واقعات سے بھی بہت کچھ سمیٹا۔ بچّوں کے لیے سلسلہ وار ڈرامہ ‘عینک والا جن’ تحریر کر کے اے حمید نے خوب شہرت پائی۔ ان کا یہ ڈرامہ 90 کی دہائی میں ٹیلی ویژن پر پیش کیا گیا تھا۔ آج اس معروف قلم کار کی برسی ہے۔

    اے حمید نے شاعری اور اردو نثر کی تاریخ بھی مرتب کی تھی جس سے ادب کے طالب علم آج تک استفادہ کرتے ہیں۔ 2011ء میں‌ وفات پانے والے اے حمید کی تاریخِ پیدائش 25 اگست 1928ء ہے۔ ان کا وطن امرتسر تھا۔ ان کا نام عبدالحمید رکھا گیا جو اے حمید مشہور ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد اے حمید نے ہجرت کی اور پاکستان میں ریڈیو سے بطور اسٹاف آرٹسٹ عملی زندگی شروع کی۔ ان کے فرائض میں ریڈیو فیچر، تمثیلچےاور نشری تقاریر لکھنا شامل تھا۔

    اے حمید کی ابتدائی دور کی کہانیوں پر رومانوی اثر نظر آتا ہے۔ 60 کی دہائی میں ان کی کہانیوں کو مقبولیت حاصل ہوئی اور نوجوانوں میں پسند کیے گئے۔ ان کی کہانیاں بچوں اور نوجوانوں میں تجسس اور جستجو پیدا کرنے کا سبب بنیں، وہ جاسوسی اور دہشت ناک کہانیوں کی صورت میں نوجوانوں کو معیاری ادب پڑھنے کا موقع دیتے رہے۔

    1980ء میں‌ اے حمید نے ملازمت سے استعفیٰ دیا اور امریکا کے مشہور نشریاتی ادارے میں پروڈیوسر کی حیثیت سے کام شروع کیا، لیکن ڈیڑھ برس بعد ہی لاہور لوٹ آئے اور یہاں فری لانس رائٹر کے طور پر کام کرنے لگے۔

    ایک جگہ اے حمید لکھتے ہیں، ’’یادوں کے قافلے کبھی ایک ساتھ سفر نہیں کرتے۔ ان کی کوئی خاص سمت نہیں ہوتی، کوئی طے شدہ راستہ نہیں ہوتا، کوئی منزل نہیں ہوتی۔ کہیں سے کوئی پرانی خوشبو آتی ہے، کچھ روشن اور دھندلی شکلیں سامنے آجاتی ہیں۔ جس طرح پھول مرجھا جاتا ہے مگر اس کی خوشبو کبھی مرجھاتی نہیں۔ یہ یادیں بھی زندہ ہیں۔‘‘

    انھوں نے فکشن لکھا اور خاکے اور یادوں پر مشتمل کتابیں‌ بھی یادگار چھوڑیں۔ اے حمید کی چند مقبولِ عام کتابوں میں پازیب، شہکار، تتلی، بہرام، بگولے، دیکھو شہر لاہور، جنوبی ہند کے جنگلوں میں، گنگا کے پجاری ناگ، ویران حویلی کا آسیب، اداس جنگل کی خوشبو اور دیگر شامل ہیں۔

  • سارنگی نواز نے چیف انجینئر کو درخت کاٹنے سے منع کیا تھا!

    سارنگی نواز نے چیف انجینئر کو درخت کاٹنے سے منع کیا تھا!

    قصور گھرانے کے ایک اور بڑے نام وَر سارنگی نواز استاد غلام محمد ہوا کرتے تھے جنھوں نے بڑے بڑے کلاسیکل گائیکوں کے ساتھ سارنگی کی سنگت کی تھی۔ لاہور کے عظیم کلاسیکی گائیک استاد کالے خان صاحب کے ساتھ بھی وہ سنگت کیا کرتے تھے۔ آخری عمر میں وہ ریڈیو پاکستان لاہور سے منسلک ہو گئے تھے۔

    یہاں مجھے انہیں بڑے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ رنگ گندمی تھا، سَر کے بال درمیان سے غائب تھے۔ جسم بھاری تھا۔ ایک طرف ذرا جھک کر چلتے تھے۔ کم گو تھے۔ اس زمانے میں ریڈیو پاکستان اپنی نئی بلڈنگ میں منتقل ہو چکا تھا۔ اس نئی بلڈنگ کے احاطے میں ریڈیو کی کینٹین کے پیچھے سنٹرل پروڈکشن یونٹ کے دفاتر اور اسٹوڈیوز بن گئے تھے جہاں روزانہ کلاسیکل، نیم کلاسیکل میوزک کے علاوہ پنجابی گیتوں کی ریکارڈنگ ہوتی تھی۔ سنٹرل پروڈکشن یونٹ کے سازندوں کا اپنا یونٹ بھی تھا۔

    سارنگی نواز استاد غلام محمد سنٹرل پروڈکشن یونٹ سے وابستہ تھے۔ اسی یونٹ کے سازندے ریڈیو پاکستان لاہور کے بھی ملازم تھے۔ چناں چہ جب ان کی ضرورت ہوتی تھی تو سنٹرل پروڈکشن یونٹ کے اسٹوڈیو سے ریڈیو پاکستان کے ریگولر اسٹوڈیوز میں بھی ریکارڈنگ کے لیے آتے جاتے رہتے تھے۔ سنٹرل پروڈکشن یونٹ کی عمارت سے ریڈیو پاکستان لاہور کے اسٹوڈیوز میں جانے کے لیے پیپل کے ایک بڑے پرانے اور گنجان درخت کے نیچے سے ہو کر جانا پڑتا تھا۔

    استاد غلام محمد سارنگی نواز جب بھی اس پیپل کے درخت کے نیچے سے گزرتے تو نگاہ اٹھا کر ایک نظر پیپل کی گھنی شاخوں کو دیکھ لیا کرتے تھے۔ ریڈیو اسٹیشن اور سی پی یو کی عمارت کے پچھواڑے انجینئرنگ رومز تھے۔ اس کے سامنے بھی پیپل کا ایک درخت تھا۔ سی پی یو والا پیپل کا درخت کافی گھنا تھا۔ انجینئرنگ رومز والا درخت زیادہ گھنا نہیں تھا۔ ان دونوں درختوں کے درمیان ڈیڑھ دو سو گز کا فاصلہ تھا۔ سارنگی نواز غلام محمد ایک دفعہ کینٹین میں بیٹھے بتا رہے تھے کہ انجینئرنگ آفس والا پیپل کا درخت نر ہے اور سنٹرل پروڈکشن والا درخت مادہ ہے۔ دونوں کی شادی ہو چکی ہے۔ دونوں ایک دوسرے سے بڑی محبت کرتے ہیں۔ استاد صاحب کی ان بچوں جیسی معصوم باتوں کو لوگ زیادہ اہمیت نہیں دیتے تھے۔

    اب کرنا خدا کا کیا ہوا کہ انجینئرنگ والوں کو مزید دو تین کمروں کی ضرورت پڑ گئی جس کی زد میں کم عمر درخت آتا تھا۔ ان کی جانے بَلا، نر اور مادہ درخت کیا ہوتے ہیں۔ انہوں نے آری منگوا کر درخت کاٹنا شروع کر دیا۔

    استاد غلام محمد کو پتا چلا تو فوراً چیف انجینئر کے پاس پہنچ گئے اور انہیں اپنی منطق سے قائل کرنے کی کوشش کی کہ یہ درخت پیپل کی مادہ پیپلی کا درخت ہے۔ اسے مت کاٹیں۔ کسی نہ کسی کی جان جائے گی، مگر وہ قائل نہ ہوئے، درخت کاٹ دیا۔

    درخت کو کٹتے میں نے بھی دیکھا اور مجھے افسوس ہوا۔ درخت کٹ گیا۔ وہاں نئے کمروں کی تعمیر شروع ہو گئی۔ استاد غلام محمد اب پیپل کے درخت کے نیچے سے گزرتے تو اداس نظروں سے درخت کی شاخوں کو دیکھتے۔ کینٹین میں بیٹھے وہ اکثر یہ کہتے سنے جاتے۔ ’’پیپل کی پیپلی مر گئی۔ اب پیپل بھی مر جائے گا۔‘‘

    پیپل کا درخت تو نہ مرا لیکن سارنگی نواز استاد غلام محمد اس پیپل کے درخت کے نیچے سے گزرتے ہوئے اچانک لڑکھڑا کر گرے اور انتقال کر گئے۔

    (مشہور و معروف ناول نگار اور ڈراما نویس اے حمید کی کتاب ’’دیکھو شہر لاہور‘‘ سے اقتباس)