Tag: اے حمید کی برسی

  • اے حمید: پھول مرجھا جاتا ہے مگر اس کی خوشبو کبھی مرجھاتی نہیں!

    اے حمید: پھول مرجھا جاتا ہے مگر اس کی خوشبو کبھی مرجھاتی نہیں!

    کہانی، ناول اور ڈرامے لکھنے کے لیے اے حمید نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور مطالعے کے ساتھ مختلف ممالک کی سیر و سیاحت کے دوران سامنے آنے والے واقعات سے بھی بہت کچھ سمیٹا۔ بچّوں کے لیے سلسلہ وار ڈرامہ ‘عینک والا جن’ تحریر کر کے اے حمید نے خوب شہرت پائی۔ ان کا یہ ڈرامہ 90 کی دہائی میں ٹیلی ویژن پر پیش کیا گیا تھا۔ آج اس معروف قلم کار کی برسی ہے۔

    اے حمید نے شاعری اور اردو نثر کی تاریخ بھی مرتب کی تھی جس سے ادب کے طالب علم آج تک استفادہ کرتے ہیں۔ 2011ء میں‌ وفات پانے والے اے حمید کی تاریخِ پیدائش 25 اگست 1928ء ہے۔ ان کا وطن امرتسر تھا۔ ان کا نام عبدالحمید رکھا گیا جو اے حمید مشہور ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد اے حمید نے ہجرت کی اور پاکستان میں ریڈیو سے بطور اسٹاف آرٹسٹ عملی زندگی شروع کی۔ ان کے فرائض میں ریڈیو فیچر، تمثیلچےاور نشری تقاریر لکھنا شامل تھا۔

    اے حمید کی ابتدائی دور کی کہانیوں پر رومانوی اثر نظر آتا ہے۔ 60 کی دہائی میں ان کی کہانیوں کو مقبولیت حاصل ہوئی اور نوجوانوں میں پسند کیے گئے۔ ان کی کہانیاں بچوں اور نوجوانوں میں تجسس اور جستجو پیدا کرنے کا سبب بنیں، وہ جاسوسی اور دہشت ناک کہانیوں کی صورت میں نوجوانوں کو معیاری ادب پڑھنے کا موقع دیتے رہے۔

    1980ء میں‌ اے حمید نے ملازمت سے استعفیٰ دیا اور امریکا کے مشہور نشریاتی ادارے میں پروڈیوسر کی حیثیت سے کام شروع کیا، لیکن ڈیڑھ برس بعد ہی لاہور لوٹ آئے اور یہاں فری لانس رائٹر کے طور پر کام کرنے لگے۔

    ایک جگہ اے حمید لکھتے ہیں، ’’یادوں کے قافلے کبھی ایک ساتھ سفر نہیں کرتے۔ ان کی کوئی خاص سمت نہیں ہوتی، کوئی طے شدہ راستہ نہیں ہوتا، کوئی منزل نہیں ہوتی۔ کہیں سے کوئی پرانی خوشبو آتی ہے، کچھ روشن اور دھندلی شکلیں سامنے آجاتی ہیں۔ جس طرح پھول مرجھا جاتا ہے مگر اس کی خوشبو کبھی مرجھاتی نہیں۔ یہ یادیں بھی زندہ ہیں۔‘‘

    انھوں نے فکشن لکھا اور خاکے اور یادوں پر مشتمل کتابیں‌ بھی یادگار چھوڑیں۔ اے حمید کی چند مقبولِ عام کتابوں میں پازیب، شہکار، تتلی، بہرام، بگولے، دیکھو شہر لاہور، جنوبی ہند کے جنگلوں میں، گنگا کے پجاری ناگ، ویران حویلی کا آسیب، اداس جنگل کی خوشبو اور دیگر شامل ہیں۔

  • پاکستانی فلم انڈسٹری کے باکمال موسیقار اے حمید کی برسی

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے باکمال موسیقار اے حمید کی برسی

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے لیے لازوال اور سدا بہار دھنیں تخلیق کرنے والے اے حمید 20 مئی 1991ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج اے حمید کی برسی ہے۔ ان کا پورا نام شیخ عبدُالحمید تھا جنھیں فلمی صنعت میں اے حمید کے نام سے پہچانا جاتا ہے

    وہ 1924ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد شیخ محمد منیر موسیقی کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے اور انھوں نے دو فلموں کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی۔ یوں اے حمید میں بھی سُر ساز کا شوق، موسیقی اور گائیکی کا ذوق پیدا ہوا اور انھوں نے اسی فن میں نام و مقام حاصل کیا۔

    اے حمید کے فلمی کیریئر کا آغاز فلم انجام سے ہوا۔ فلمی دنیا میں موسیقار کی حیثیت سے ان کی شہرت کا آغاز ہدایت کار ایس ایم یوسف کی فلم سہیلی سے ہوا۔ اے حمید کی دیگر فلموں میں رات کے راہی، اولاد، آشیانہ، شریکِ حیات، پیغام، دوستی، جواب دو، ثریا بھوپالی، انگارے، بیگم جان اور نیا انداز سرِفہرست ہیں۔ انھوں نے بہترین موسیقار کا نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا تھا۔ انھیں یہ ایوارڈ "چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے” جیسے خوب صورت گیت کی لازوال دھن تخلیق کرنے پر دیا گیا تھا۔

    پاکستانی فلموں کے دیگر مقبول گیتوں میں "ہم بھول گئے ہر بات مگر تیرا پیار نہیں بھولے، کہیں دو دل جو مل جاتے بگڑتا کیا زمانے کا، تھا یقیں کہ آئیں گی یہ راتاں کبھی، کس نام سے پکاروں کیا نام ہے تمہارا، یہ وادیاں یہ پربتوں کی شاہ زادیاں” شامل ہیں جن کی دھنیں اے حمید کی تخلیق کردہ ہیں۔

    پاکستان فلم انڈسٹری کے اس باکمال موسیقار کو راولپنڈی کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ اے حمید نے اردو کے علاوہ متعدد پنجابی فلموں کی موسیقی بھی ترتیب دی۔

  • یومِ وفات: اے حمید نے بچّوں اور نوجوانوں کے لیے معیاری کہانیاں اور ناول لکھے

    یومِ وفات: اے حمید نے بچّوں اور نوجوانوں کے لیے معیاری کہانیاں اور ناول لکھے

    آج معروف ادیب اور ناول نگار اے حمید کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ 29 اپریل2011ء کو وفات پاگئے تھے۔

    25 اگست 1928ء کو امرتسر میں پیدا ہونے والے عبدالحمید نے قلم تھاما تو اے حمید مشہور ہوئے۔ وہ تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کرکے پاکستان چلے آئے اور یہاں ریڈیو پاکستان میں اسٹاف آرٹسٹ کے طور پر کام شروع کیا۔ ان کے فرائض میں ریڈیو فیچر، تمثیلچےاور نشری تقاریر لکھنا شامل تھا۔

    اے حمید نے ناول، افسانہ اور ڈراما نگاری کے لیے اپنے مطالعے اور مختلف ملکوں کی سیر و سیاحت سے موضوعات چنے اور واقعات کو کہانی میں ڈھالا، ان کی ابتدائی دور کی کہانیوں پر رومانوی طرزِ‌ تحریر اور کرشن چندر کا اثر نظر آتا ہے۔ 60 کی دہائی میں انھیں شہرت اور ان کی کہانیوں کو وہ مقبولیت حاصل ہوئی جو بہت کم ادیبوں کو نصیب ہوئی، وہ نوجوانوں کے مقبول ناول نگار بنے۔ ان کی کہانیاں نوجوانوں میں تجسس، شوق اور کھوج پیدا کرنے کے ساتھ انھیں‌ جاسوسی اور دہشت ناک کہانیوں کی صورت میں معیاری ادب پڑھنے کا موقع دیتی ہیں۔

    1980ء میں‌ اے حمید نے ملازمت سے استعفیٰ دیا اور امریکا کے مشہور نشریاتی ادارے میں پروڈیوسر کی حیثیت سے کام شروع کیا، لیکن ڈیڑھ برس بعد ہی لاہور لوٹ آئے اور یہاں فری لانس رائٹر کے طور پر کام کرنے لگے۔

    اے حمید نے بچّوں کا ادب بھی تخلیق کیا اور فکشن نگار کی حیثیت سے نوجوانوں کے لیے بہت سی کہانیاں اور ناول لکھے۔ انھوں نے بچّوں کے لیے سلسلہ وار ڈراما ’عینک والا جن‘ لکھا جو پی ٹی وی سے نشر ہوتا تھا۔ اس ڈرامے نے مقبولیت کا ریکارڈ قائم کیا۔ کہانی، ناول اور ڈرامے کے علاوہ اے حمید نے اردو شاعری اور اردونثر کی تاریخ بھی مرتب کی تھی جس سے ادب کے طالب علم آج بھی استفادہ کرتے ہیں۔

    اے حمید کی کچھ مقبولِ عام کتابوں میں پازیب، شہکار، تتلی، بہرام، بگولے، دیکھو شہر لاہور، جنوبی ہند کے جنگلوں میں، گنگا کے پجاری ناگ، ویران حویلی کا آسیب، اداس جنگل کی خوشبو اور دیگر شامل ہیں۔