Tag: اے نیر

  • اے نیّر: وہ خوب صورت آواز جو آج بھی ہماری سماعتوں میں‌ رس گھول رہی ہے

    اے نیّر: وہ خوب صورت آواز جو آج بھی ہماری سماعتوں میں‌ رس گھول رہی ہے

    برصغیر بالخصوص پاک و ہند میں‌ثقافتی و تہذیبی مشغلوں میں موسیقی اور گلوکاری نمایاں اور اہمیت کے حامل رہے ہیں۔ کلاسیکی گائیکی، غزل اور فلمی گیتوں کی بات کی جائے متحدہ ہندوستان اور تقسیم کے بعد کئی نام لیے جاسکتے ہیں جن کی سحر انگیز آواز نے کئی نسلوں‌ کو متاثر کیا اور آج بھی ان کو بہت شوق سے سنا جاتا ہے۔ اے نیّر پاکستان کے انہی گلوکاروں میں سے ایک تھے۔

    فلموں‌ کے پسِ پردہ گلوکار کے طور پر اے نیّر کا نام ہمیشہ بہترین گلوکاروں میں لیا جائے گا۔ انھوں نے فلموں کے علاوہ ٹیلی ویژن کے لیے کئی لازوال گیت اپنی آواز میں‌ ریکارڈ کروائے جو بہت مقبول ہوئے۔ اے نیّر 11 نومبر 2016ء میں دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔

    70ء کی دہائی میں بطور پلے بیک سنگر اے نیّر نے بڑی شہرت اور نام پایا۔ وہ غزل گائیکی کے بھی ماہر تھے۔ وہ ان فن کاروں میں‌ شامل ہیں‌ کہ جو کیریئر کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھتے ہی کام یابیوں‌ کا سفر طے کرلیتے ہیں۔ 1974ء میں اے نیر نے فلم ”بہشت‘‘ کے لیے پہلا گیت گایا اور راتوں رات مشہور ہوگئے۔

    گلوکار اے نیر 17 ستمبر 1950ء کو ایک مسیحی خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام آرتھر نیر تھا۔ فن کی دنیا میں انھوں نے اے نیّر کے نام سے شہرت پائی۔ انھیں بچپن سے ہی گلوکاری کا شوق تھا، لیکن وہ جس گھرانے کے فرد تھے وہاں‌ یہ سب معیوب بھی سمجھا جاتا تھا اور اے نیر کو بڑوں کی مخالفت کا ڈر تھا۔ اس لیے وہ چھپ کر ریڈیو پر مختلف گلوکاروں کو سنا کرتے تھے۔ انھیں‌ سن کر خود بھی اسی طرح گانے کی کوشش کرتے تھے۔ لیکن پھر یہ ڈر اور مخالفت بہت پیچھے رہ گئی اور اے نیّر پاکستان کی فلم انڈسٹری کے مصروف گلوکار بن گئے۔

    گلوکار کا پہلا فلمی گیت ”یونہی دن کٹ جائیں، یونہی شام ڈھل جائے‘‘ تھا جس میں‌ گلوکارہ روبینہ بدر نے ان کا ساتھ دیا تھا۔ 1974ء میں بہشت ریلیز ہوئی اور یہ گانا بہت مقبول ہوا۔ ان کی آواز میں پہلا سپر ہٹ گانا فلم ”خریدار‘‘ کا تھا جس کے بول تھے، ”پیار تو ایک دن ہونا تھا، ہونا تھا ہوگیا۔‘‘

    اے نیّر نے اپنے دور کے نامور موسیقاروں کریم شہاب الدین، نثار بزمی، اے حمید، ایم اشرف، نوشاد اور ماسٹر عنایت حسین کے ساتھ کام کیا۔ ان کے گائے ہوئے کئی گیت اداکار ندیم اور وحید مراد پر عکس بند ہوئے اور اے نیّر نے تقریباً 80 فلموں کے لیے اپنی آواز میں گیت ریکارڈ کروائے۔ 1980 میں اے نیّر اپنے کریئر کے عروج پر تھے۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن پر ان کے گائے ہوئے گیت روز نشر ہوا کرتے تھے۔ اے نیّر کے دیگر مقبول گیتوں میں ”بینا تیرا نام‘‘، ” یاد رکھنے کو کچھ نہ رہا‘‘، ”ایک بات کہوں دلدارا‘‘، ”میں تو جلا ایسا جیون بھر‘‘، ”جنگل میں منگل تیرے ہی دم سے‘‘ شامل ہیں۔ انھیں پانچ مرتبہ نگار ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ یہ اے نیّر کے مقبول ترین گیت ہیں‌ جنھیں‌ آج بھی بہت شوق سے سنا جاتا ہے۔

    اے نیّر مشہور گلوکار احمد رشدی کو استاد کا درجہ دیتے تھے۔ اے نیّر کی سریلی آواز پاکستانی فلم انڈسٹری اور دنیا بھر میں‌ موجود فن و ثقافت کے دلدادہ اور باذوق سامعین کبھی فراموش نہیں کرسکیں‌ گے۔

  • اے نیّر: فلمی دنیا کی ایک خوب صورت آواز

    اے نیّر: فلمی دنیا کی ایک خوب صورت آواز

    پاکستان میں پسِ پردہ گائیکی کے لیے اے نیّر کا نام ہمیشہ ایک بہترین گلوکار کے طور پر لیا جاتا رہے گا۔ انھوں نے فلموں کے علاوہ ٹیلی ویژن کے لیے کئی لازوال گیت اپنی آواز میں‌ ریکارڈ کروائے۔

    گلوکار اے نیّر 11 نومبر 2016ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    17 ستمبر 1950ء کو پیدا ہونے والے اے نیّر کا اصل نام آرتھر نیّر تھا، وہ ایک عیسائی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اے نیّر کو بچپن ہی گلوکاری کا شوق تھا۔ وہ پلے بیک سنگر بننے کے آرزو مند تھے، لیکن اس زمانے میں گھر والوں کی مخالفت اور ڈر کی وجہ سے انھیں اپنا یہ خواب پورا ہوتا نظر نہیں آتا تھا۔ اے نیّر گھر والوں سے چھپ کر ریڈیو پر مختلف گلوکاروں کو سنا کرتے اور ان کی طرح گانے کی کوشش کرتے۔ ان کا یہی شوق اور لگن انھیں پاکستان کی فلم انڈسٹری تک لے گئی اور پھر قسمت سے مخالفت کا زور بھی ٹوٹ گیا۔ اے نیّر کو موقع ملا تو انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا اور خوب شہرت حاصل کی۔

    1974ء میں اے نیّر نے پلے بیک سنگر کے طور پر ایک فلم بہشت سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ ان کے اوّلین فلمی گانے کے بول تھے، ‘ یونہی دن کٹ جائے، یونہی شام ڈھل جائے…، جب کہ ان کی آواز میں پہلا سپر ہٹ گانا فلم خریدار کا تھا جس کے بول تھے، پیار تو ایک دن ہونا تھا، ہونا تھا ہوگیا۔

    اے نّیر نے اپنے انٹرویوز میں‌ بتاتے تھے کہ ان کے کیریئر میں مشہور گلوکار احمد رشدی کا کردار بہت اہم رہا اور انھوں نے احمد رشدی ہی سے یہ فن سیکھا۔ اے نیّر انھیں اپنے استاد کا درجہ دیتے تھے۔

    1980ء کی دہائی میں اے نیّر کی شہرت عروج پر تھی جس کے دوران انھوں نے 5 بار بہترین گلوکار کا نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔ ان کی آواز میں جو گیت مشہور ہوئے ان میں ‘جنگل میں منگل تیرے ہی دَم سے، ‘بینا تیرا نام، ‘یاد رکھنے کو کچھ نہ رہا، ‘ایک بات کہوں دلدارا اور درد و سوز سے بھرپور شاعری ‘ میں تو جلا ایسا جیون بھر، کیا کوئی دیپ جلا ہو گا’ شامل ہیں۔

    اے نیّر نے لاہور میں ایک میوزک اکیڈمی بھی شروع کی تھی۔ ایک عرصہ سے علیل اے نیّر 66 سال زندہ رہے۔

  • معروف گلوکار اے نیّر احمد رشدی کو استاد کا درجہ دیتے تھے

    معروف گلوکار اے نیّر احمد رشدی کو استاد کا درجہ دیتے تھے

    نام وَر پاکستانی گلوکار اے نیّر 11 نومبر 2016ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کا یومِ‌ وفات ہے۔

    اے نیّر 17 ستمبر 1950ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام آرتھر نیّر تھا اور وہ ایک عیسائی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انھیں‌ بچپن ہی گلوکاری کا شوق تھا اور وہ پسِ پردہ گائیکوں کی طرح خود بھی پلے بیک سنگر بننا چاہتے تھے، لیکن اس زمانے میں گھر والوں کی مخالفت اور ڈر کی وجہ سے انھیں اپنا یہ خواب پورا ہوتا نظر نہیں آتا تھا۔ وہ گھر والوں سے چھپ کر ریڈیو پر مختلف گلوکاروں کو سنا کرتے اور ان کی طرح گانے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کا یہی شوق اور لگن انھیں پاکستان کی فلم انڈسٹری تک لے گئی اور پھر مخالفت کا زور بھی ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد اے نیّر نے کئی گیتوں کو اپنی آواز دے کر لازوال بنایا اور خوب شہرت حاصل کی۔

    1974ء میں انھوں نے پلے بیک سنگر کے طور پر ایک فلم بہشت سے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ ان کے اوّلین فلمی گانے کے بول تھے، ‘ یونہی دن کٹ جائے، یونہی شام ڈھل جائے…، جب کہ ان کی آواز میں پہلا سپر ہٹ گانا فلم خریدار کا تھا جس کے بول تھے، پیار تو ایک دن ہونا تھا، ہونا تھا ہوگیا۔

    اے نّیر نے اپنے متعدد انٹرویوز میں‌ بتایا کہ ان کے کیریئر میں مشہور گلوکار احمد رشدی کا کردار بہت اہم رہا اور انھوں نے احمد رشدی ہی سے یہ فن سیکھا۔ اے نیّر انھیں اپنے استاد کا درجہ دیتے تھے۔

    1980ء کی دہائی میں اے نیّر کی شہرت عروج پر تھی جس کے دوران انھوں نے 5 بار بہترین گلوکار کا نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔ ان کی آواز میں جو گیت مشہور ہوئے ان میں ‘جنگل میں منگل تیرے ہی دَم سے، ‘بینا تیرا نام، ‘ یاد رکھنے کو کچھ نہ رہا، ‘ایک بات کہوں دلدارا اور درد و سوز سے بھرپور شاعری ‘ میں تو جلا ایسا جیون بھر، کیا کوئی دیپ جلا ہو گا’ شامل ہیں۔

    اے نیّر نے لاہور میں ایک میوزک اکیڈمی بھی کھولی تھی۔ وہ کافی عرصے سے علیل تھے اور 66 سال کی عمر میں دنیا سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لیا۔

  • اے نیر: ایک خوب صورت آواز جو تین برس پہلے ہم سے روٹھ گئی

    اے نیر: ایک خوب صورت آواز جو تین برس پہلے ہم سے روٹھ گئی

    شاید آپ کی سماعت میں یہ گیت ابھی تازہ ہوں، یا زندگی کی کم از کم چالیس بہاریں دیکھنے والوں کو تو ضرور یہ گیت اور گائیک یاد ہو گا۔

    ایک بات کہوں دلدارا، تیرے عشق نے ہم کو مارا
    مٹ نہ سکے گا میرے دل سے بینا تیرا نام۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    اور یہ درد بھرا نغمہ بھی آپ کی سماعتوں میں تازہ ہو گا۔
    میں تو جلا ایسا جیون بھر، کیا کوئی دیپ جلا ہو گا

    یقینا، آپ کے ذہن کے پردے پر اپنے دور کے معروف پلے بیک سنگر اے نیر کی تصویر ابھری ہو گی۔ آج اس جادو بھری آواز کو ہم سے بچھڑے تین برس بیت گئے ہیں۔

    ان کے گائے ہوئے گیت آج بھی ہر عمر کے شائقینِ موسیقی میں پسند کیے جاتے ہیں۔ ان گیتوں کے خوب صورت بول، موسیقی اور اے نیر کی مدھر آواز نے 80 کی دہائی میں سبھی کو اپنا دیوانہ بنا رکھا تھا۔ اے نیر اس زمانے میں مقبول ترین گلوکاروں میں سے ایک تھے اور شہرت کی بلندیوں کو چھو رہے تھے۔ وہ ایک کام یاب پلے بیک سنگر کی حیثیت سے عرصے تک انڈسٹری میں مصروف رہے۔ ان کے گائے ہوئے تمام گیتوں کو لازوال شہرت ملی۔ اے نیر کو ملک میں اور سرحد پار بھی اپنی گائیکی کی وجہ سے بے حد مقبولیت ملی۔

    ان کا اصل نام آرتھر نیر تھا۔ 1955 میں ساہیوال میں پیدا ہونے والے آرتھر نیر نے گلوکاری کے میدان میں اے نیر کے نام سے پہچان بنائی۔ ان کا بچپن پنجاب کے شہر عارف والا میں گزرا اور بعد میں ان کا خاندان لاہور منتقل ہو گیا۔ یہیں گریجویشن کیا اور اپنے شوق و لگن کی وجہ سے گلوکاری کے میدان میں قدم رکھا۔ کہتے ہیں وہ شروع ہی سے فلموں کے رسیا تھے۔ گائیکی کا شوق اسی زمانے میں پروان چڑھا اور وہ پاکستان کے نام ور گلوکاروں کے درمیان جگہ بنانے میں کام یاب رہے۔

    1974 میں اے نیر نے پہلا فلمی گیت گایا جس کے ذریعے انڈسٹری اور شائقین سے ان کا تعارف ہوا۔ یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا اور وقت نے اے نیر کو پاکستان کے مقبول ترین گلوکاروں کی صف میں لا کھڑا کیا۔

    بہترین گلوکاری پر پانچ بار نگار ایوارڈ اپنے نام کرنے والے اے نیر نے فلموں کے لیے ہزاروں گیت ریکارڈ کروائے۔ انھیں پہلا نگار ایوارڈ 1979 میں دیا گیا۔ اے نیر فن گائیکی میں احمد رشدی کو اپنا استاد مانتے تھے۔

    12 نومبر 2016 کو یہ خوب صورت گلوکار ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے چلا گیا۔ وہ عارضۂ قلب میں مبتلا تھے اور 66 سال کی عمر میں زندگی کا سفر تمام کیا۔ 2018 میں حکومت کی جانب سے انھیں پرائڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا۔