Tag: اے نیر کی برسی

  • اے نیّر: فلمی دنیا کی ایک خوب صورت آواز

    اے نیّر: فلمی دنیا کی ایک خوب صورت آواز

    پاکستان میں پسِ پردہ گائیکی کے لیے اے نیّر کا نام ہمیشہ ایک بہترین گلوکار کے طور پر لیا جاتا رہے گا۔ انھوں نے فلموں کے علاوہ ٹیلی ویژن کے لیے کئی لازوال گیت اپنی آواز میں‌ ریکارڈ کروائے۔

    گلوکار اے نیّر 11 نومبر 2016ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    17 ستمبر 1950ء کو پیدا ہونے والے اے نیّر کا اصل نام آرتھر نیّر تھا، وہ ایک عیسائی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ اے نیّر کو بچپن ہی گلوکاری کا شوق تھا۔ وہ پلے بیک سنگر بننے کے آرزو مند تھے، لیکن اس زمانے میں گھر والوں کی مخالفت اور ڈر کی وجہ سے انھیں اپنا یہ خواب پورا ہوتا نظر نہیں آتا تھا۔ اے نیّر گھر والوں سے چھپ کر ریڈیو پر مختلف گلوکاروں کو سنا کرتے اور ان کی طرح گانے کی کوشش کرتے۔ ان کا یہی شوق اور لگن انھیں پاکستان کی فلم انڈسٹری تک لے گئی اور پھر قسمت سے مخالفت کا زور بھی ٹوٹ گیا۔ اے نیّر کو موقع ملا تو انھوں نے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کیا اور خوب شہرت حاصل کی۔

    1974ء میں اے نیّر نے پلے بیک سنگر کے طور پر ایک فلم بہشت سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا۔ ان کے اوّلین فلمی گانے کے بول تھے، ‘ یونہی دن کٹ جائے، یونہی شام ڈھل جائے…، جب کہ ان کی آواز میں پہلا سپر ہٹ گانا فلم خریدار کا تھا جس کے بول تھے، پیار تو ایک دن ہونا تھا، ہونا تھا ہوگیا۔

    اے نّیر نے اپنے انٹرویوز میں‌ بتاتے تھے کہ ان کے کیریئر میں مشہور گلوکار احمد رشدی کا کردار بہت اہم رہا اور انھوں نے احمد رشدی ہی سے یہ فن سیکھا۔ اے نیّر انھیں اپنے استاد کا درجہ دیتے تھے۔

    1980ء کی دہائی میں اے نیّر کی شہرت عروج پر تھی جس کے دوران انھوں نے 5 بار بہترین گلوکار کا نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔ ان کی آواز میں جو گیت مشہور ہوئے ان میں ‘جنگل میں منگل تیرے ہی دَم سے، ‘بینا تیرا نام، ‘یاد رکھنے کو کچھ نہ رہا، ‘ایک بات کہوں دلدارا اور درد و سوز سے بھرپور شاعری ‘ میں تو جلا ایسا جیون بھر، کیا کوئی دیپ جلا ہو گا’ شامل ہیں۔

    اے نیّر نے لاہور میں ایک میوزک اکیڈمی بھی شروع کی تھی۔ ایک عرصہ سے علیل اے نیّر 66 سال زندہ رہے۔

  • معروف گلوکار اے نیّر احمد رشدی کو استاد کا درجہ دیتے تھے

    معروف گلوکار اے نیّر احمد رشدی کو استاد کا درجہ دیتے تھے

    نام وَر پاکستانی گلوکار اے نیّر 11 نومبر 2016ء کو جہانِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کا یومِ‌ وفات ہے۔

    اے نیّر 17 ستمبر 1950ء کو پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام آرتھر نیّر تھا اور وہ ایک عیسائی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انھیں‌ بچپن ہی گلوکاری کا شوق تھا اور وہ پسِ پردہ گائیکوں کی طرح خود بھی پلے بیک سنگر بننا چاہتے تھے، لیکن اس زمانے میں گھر والوں کی مخالفت اور ڈر کی وجہ سے انھیں اپنا یہ خواب پورا ہوتا نظر نہیں آتا تھا۔ وہ گھر والوں سے چھپ کر ریڈیو پر مختلف گلوکاروں کو سنا کرتے اور ان کی طرح گانے کی کوشش کرتے تھے۔ ان کا یہی شوق اور لگن انھیں پاکستان کی فلم انڈسٹری تک لے گئی اور پھر مخالفت کا زور بھی ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد اے نیّر نے کئی گیتوں کو اپنی آواز دے کر لازوال بنایا اور خوب شہرت حاصل کی۔

    1974ء میں انھوں نے پلے بیک سنگر کے طور پر ایک فلم بہشت سے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ ان کے اوّلین فلمی گانے کے بول تھے، ‘ یونہی دن کٹ جائے، یونہی شام ڈھل جائے…، جب کہ ان کی آواز میں پہلا سپر ہٹ گانا فلم خریدار کا تھا جس کے بول تھے، پیار تو ایک دن ہونا تھا، ہونا تھا ہوگیا۔

    اے نّیر نے اپنے متعدد انٹرویوز میں‌ بتایا کہ ان کے کیریئر میں مشہور گلوکار احمد رشدی کا کردار بہت اہم رہا اور انھوں نے احمد رشدی ہی سے یہ فن سیکھا۔ اے نیّر انھیں اپنے استاد کا درجہ دیتے تھے۔

    1980ء کی دہائی میں اے نیّر کی شہرت عروج پر تھی جس کے دوران انھوں نے 5 بار بہترین گلوکار کا نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیا۔ ان کی آواز میں جو گیت مشہور ہوئے ان میں ‘جنگل میں منگل تیرے ہی دَم سے، ‘بینا تیرا نام، ‘ یاد رکھنے کو کچھ نہ رہا، ‘ایک بات کہوں دلدارا اور درد و سوز سے بھرپور شاعری ‘ میں تو جلا ایسا جیون بھر، کیا کوئی دیپ جلا ہو گا’ شامل ہیں۔

    اے نیّر نے لاہور میں ایک میوزک اکیڈمی بھی کھولی تھی۔ وہ کافی عرصے سے علیل تھے اور 66 سال کی عمر میں دنیا سے ہمیشہ کے لیے منہ موڑ لیا۔