Tag: بائیں بازو

  • فرانس پارلیمانی انتخابات میں‌ بڑا سرپرائز، انتہائی دائیں بازو کو اپ سیٹ شکست

    فرانس پارلیمانی انتخابات میں‌ بڑا سرپرائز، انتہائی دائیں بازو کو اپ سیٹ شکست

    پیرس: فرانس میں قبل از وقت پارلیمانی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں بڑا اَپ سیٹ ہوا ہے۔

    غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق فرانسیسی انتخابات میں بائیں بازو کی جماعتوں نے کامیابی سمیٹ لی، ایگزٹ پول میں بائیں بازو کی جماعتوں کے اتحاد کو سب سے زیادہ 182 نشستیں مل گئی ہیں۔

    سی این این کے مطابق انتخابی نتائج حیرت انگیز ہیں، نیو پاپولر فرنٹ (NFP) نے قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ 182 نشستیں جیت لی ہیں، یہ پارٹی بہت سی جماعتوں کا ایک جھرمٹ ہے جس میں انتہائی بائیں بازو کی فرانس انبووڈ پارٹی سے لے کر اعتدال پسند سوشلسٹ اور ایکولوجسٹ تک شامل ہیں۔

    میکرون کے سینٹرسٹ اینسمبل اتحاد نے 163 نشستیں حاصل کی ہیں، جب کہ میرین لی پین کی انتہائی دائیں بازو کی نیشنل ریلی (RN) پارٹی اور اس کے اتحادیوں نے 143 نشستیں حاصل کیں، جن کے بارے میں توقع کی جا رہی تھی کہ وہ سب سے زیادہ سیٹیں لیں‌ گے۔

    رن آف الیکشن میں بائیں بازو کی جماعتوں کے اتحاد کو معمولی اکثریت حاصل ہو گئی ہے، تاہم میڈیا رپورٹس کے مطابق کسی بھی جماعت کو سادہ اکثریت کے لیے پارلیمان کی 577 میں سے 289 نشستیں لینا ضروری ہے، معلق پارلیمنٹ فرانس کے سیاسی نظام کے لیے بڑا دھچکا ثابت ہو سکتی ہے۔

    دوسری جانب ایگزٹ پولز نتائج کے خلاف پیرس میں احتجاج میں مظاہرین اور پولیس گتھم گتھا ہو گئے، مظاہرین کے جلاؤ گھیراؤ پر پولیس نے شیلنگ کر دی۔

    نتائج سامنے آنے کے بعد فرانسیسی وزیر اعظم گیبریل اٹل نے استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا ہے، غیر ملکی میڈیا میں اس نتیجے کو حیران کن قرار دیا جا رہا ہے، اور کہا جا رہا ہے کہ یہ شاید فرانسیسی انتخابات کی تاریخ کا سب سے بڑا سرپرائز ہے۔

    صدر امانوئل میکرون کی مدت صدارت میں تین سال باقی ہیں، ان انتخابات کے بعد انھیں ایک غیر منظم پارلیمنٹ کی صدارت کرنے کے لیے خود کو تیار رکھنا ہوگا، کیوں کہ اندرون اور بیرون ملک مسائل بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ نتائج دیکھ کر اسپین کے وزیر اعظم پیڈرو سانچیز نے فرانس اور برطانیہ کے ووٹروں کو انتہائی دائیں بازو کو مسترد کرنے پر سراہا۔

  • یومِ وفات: جرأتِ اظہار کے ساتھ خود داری خالد علیگ کا امتیازی وصف تھا

    یومِ وفات: جرأتِ اظہار کے ساتھ خود داری خالد علیگ کا امتیازی وصف تھا

    آج اردو کے نام وَر ترقّی پسند شاعر اور صحافی خالد علیگ کا یومِ وفات ہے۔ زندگی کی 83 بہاریں دیکھنے والے خالد علیگ نے 2007ء میں آج ہی کے روز ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔

    ان کا شمار پاکستان میں بائیں بازو کی تحریک سے وابستہ قلم کاروں میں ہوتا تھا۔

    خالد علیگ کا اصل نام سید خالد احمد شاہ تھا۔ وہ 1925ء میں بھارتی ریاست اتر پردیش کے علاقے قائم گنج میں پیدا ہوئے۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے گریجویشن تک تعلیم حاصل کی اور تقسیمِ ہند کے بعد 1947ء میں اپنے اہلِ خانہ سمیت پاکستان آگئے۔ پاکستان میں پہلے صوبہ پنجاب کے شہروں اوکاڑہ اور لاہور میں قیام کیا، بعد سندھ کے شہروں میرپور خاص، خیرپور اور سکھر میں رہائش پذیر رہے اور 1960ء میں کراچی آگئے جہاں تمام زندگی گزاری۔

    خالد علیگ نے صحافت کا آغاز کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے مجلّے منشور سے کیا اور اس کے بعد روزنامہ حرّیت سے وابستہ ہوگئے۔ 1972ء میں جب روزنامہ مساوات شائع ہوا تو اس کے نیوز ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ اس وقت ابراہیم جلیس اس کے ایڈیٹر تھے جن کے انتقال کے بعد انھیں ایڈیٹر مقرر کیا گیا اور 1978ء میں اس اخبار کی بندش تک اسی عہدے پر فائز رہے۔

    خالد علیگ ہمیشہ ترقّی پسند مصنّفین کی تحریک میں سرگرم رہے۔ ایوب خان اور جنرل ضیاءُ الحق کے دور میں آمریت اور فردِ‌ واحد کے فیصلوں کے خلاف انھوں نے صحافیوں کی تحریک میں نمایاں کردار ادا کیا۔ خالد علیگ کی شاعری میں ظلم و جبر سے نفرت، آمریت کی مخالفت اور انسان دوستی کے موضوعات ملتے ہیں۔ ان کی شاعری جراتِ اظہار کا بہترین نمونہ ہے۔

    وہ ایک ایسے شاعر اور صحافی تھے جس نے کسی بھی موقع پر سرکاری امداد قبول نہیں کی اور اپنے قلم کو آزاد رکھتے ہوئے ہمیشہ اپنے ضمیر کی آواز سنی اور وہی لکھا جو حق اور سچ تھا۔ وہ خود دار تھے اور ہمیشہ خود کو اپنے ضمیر کا قیدی رکھا۔ خالد علیگ نے محنت کش طبقے اور عوام کے حق کے لیے شاعری اور صحافت کے ذریعے ہمیشہ آواز بلند کی اور بہت نام و مقام، عزّت اور احترام پایا۔ ساری زندگی کراچی شہر کی ایک بستی لانڈھی میں اپنے چھوٹے سے گھر میں گزار دی اور ہر قسم کی تکلیف اور پریشانی جھیلی مگر خود داری اور اپنی آزادی کو برقرار رکھا۔

    خالد علیگ کو 1988ء میں مالی امداد کا حکومتی چیک بھجوایا گیا جسے انھوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ اسی طرح ایک مرتبہ شدید علالت کے باعث مقامی اسپتال میں داخل تھے تو معلوم ہوا کہ حکومت کی جانب سے ان کا علاج سرکاری خرچ پر کروانے کا اعلان کیا گیا ہے اور یہ جان کر وہ اسپتال سے فوری گھر منتقل ہو گئے۔

    ان کی شاعری کا ایک مجموعہ ’غزال دشت سگاں‘ کے عنوان سے شائع ہوا جو ان کے دوستوں اور شاگردوں نے شائع کروایا تھا۔

    ان کی ایک غزل کے یہ دو اشعار ملاحظہ کیجیے

    میں ڈرا نہیں، میں دبا نہیں، میں جھکا نہیں، میں بکا نہیں
    مگر اہلِ بزم میں کوئی بھی تو ادا شناسِ وفا نہیں

    مرا شہر مجھ پہ گواہ ہے کہ ہر ایک عہدِ سیاہ میں
    وہ چراغِ راہِ وفا ہوں میں کہ جلا تو جل کے بجھا نہیں