Tag: بابائے صحافت

  • پیاس، پیالہ اور پیرِ مغاں

    پیاس، پیالہ اور پیرِ مغاں

    ہندوستان میں آزادی کی تحریک، مسلمانوں کی فکری راہ نمائی اور تربیت کے ساتھ اردو زبان و ادب کے لیے خدمات کے حوالے سے جن شخصیات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ان میں سے ایک مولانا ظفرعلی خان بھی ہیں۔

    صحافت کی دنیا میں ان کی خدمات اور ادبی کارناموں کی فہرست طویل ہے۔ وہ ایک ادیب، شاعر اور جید صحافی کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ مولانا کی علمی و صحافتی خدمات اور کارناموں سے متعلق تذکروں میں ان کی زندگی اور معمولات سے متعلق یادیں بھی محفوظ ہیں۔ وہ برجستہ گو اور نکتہ آفریں ہی نہیں بذلہ سنج اور طباع بھی تھے۔ ان سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے۔

    ایک محفل میں مولانا آزاد اور مولانا ظفر علی خان اکٹھے تھے۔ مولانا آزاد کو پیاس محسوس ہوئی، انھوں نے اس کا اظہار کیا تو ایک بزرگ جلدی سے پانی کا پیالہ لے آئے۔ مولانا آزاد نے مسکرا کر کہا:

    لے کے اک پیرِ مُغاں ہاتھ میں مینا، آیا

    مولانا ظفر علی خان جو ان کے ساتھ ہی موجود تھے، یہ سنا تو برجستہ دوسرا مصرع کہا اور شعر مکمل کر دیا:

    مے کشو! شرم، کہ اس پر بھی نہ پینا آیا

  • ظفر علی خاں: حقے اور چائے کے شیدا

    ظفر علی خاں: حقے اور چائے کے شیدا

    مولانا ظفر علی خاں ساری زندگی سیاست اور صحافت کے میدان میں سرگرم رہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالات و واقعات کے زیر اثر ان کے مضامین اور نظم و نثر کے موضوعات کی نوعیت سیاسی ہوتی تھی، مگر بنیادی طور پر وہ ایک شاعر اور ادیب تھے۔

    ان کا نظریہ، فکر اور صحافت کا ڈھب ہی نرالا تھا۔ نظم و نثر میں سبھی ان کے کمال کے معترف ہیں۔ حاضر دماغ، طباع اور خوش مذاق تھے۔ کہتے ہیں چائے اور حقہ دونوں ان کے پسندیدہ تھے۔ گویا دھواں اور بھاپ ان کے ذہن کی مشین کو متحرک رکھتا تھا اور ان کا قلم اداریے، نظمیں لکھتا اور مختلف موضوعات پر تحاریر کو ان کی نظر سے گزار کر اشاعت کے قابل بناتا تھا۔

    تذکروں میں لکھا ہے کہ وہ حقے کی نے منہ میں ڈالے، اس کے ہر کش پر ایک شعر کہہ دیا کرتے تھے۔ حقے کے کش کا دھواں ان کے منہ سے ایک شعر تر ساتھ لے کر نکلتا تھا۔

    حقے اور چائے پر فدا تھے اور فرماتے تھے، زندگانی کے لطف دو ہی تو ہیں، صبح کی چائے اور شام کا حقہ، مگر حقیقت یہ تھی کہ ان کے ہاں حقے اور چائے میں صبح و شام کی کوئی قید نہ تھی۔ ان کا ذہن رواں ہی حقے کے کش کے ساتھ ہوتا تھا۔ اسی طرح چائے کے بارے میں ان کا نعرۂ مستانہ شعر کا روپ یوں دھارتا ہے۔

    چائے کا دور چلے، دور چلے، دور چلے
    جو چلا ہے تو ابھی اور چلے اور چلے

    شیخ کرامت ﷲ گجراتی سے مروی ہے کہ مولانا ظفر علی خاں ایک دفعہ اتحاد ملت کے جلسے منعقدہ گجرات میں جب رات کے ایک بجے صدارتی تقریر سے فارغ ہوئے تو چائے کی فرمائش کردی۔ اس وقت دیگچی کا ابلا ہوا دودھ ملنا مشکل تھا، جسے وہ چائے کے لیے بہ طور خاص پسند کرتے تھے۔

    شیخ کرامت ﷲ کہیں سے دودھ منگوانے میں کام یاب ہو گئے اور مولانا کی دل پسند چائے تیار کروا کر ان کی خدمت میں پیش کر دی۔ مولانا نے جونہی چائے کی چسکی لی، ان کا چہرہ کھل اٹھا۔ وہ چائے کی تعریف میں رطب اللسان ہو گئے۔