Tag: بابری مسجد

  • بابری مسجد کی شہادت کو 32 سال مکمل، مسلمانوں کے زخم آج بھی تازہ

    بابری مسجد کی شہادت کو 32 سال مکمل، مسلمانوں کے زخم آج بھی تازہ

    بابری مسجد کی شہادت کو 32 سال مکمل ہوگئے 1992 سے اب تک صرف بھارتی ریاست گجرات میں 500 مساجد اور مزارات گرائے جا چکے ہیں.

    بابری مسجد کو شہید ہوئے آج 32 سال مکمل ہو گئے، مگر مسلمانوں کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ 1992 میں 6 دسمبر کے روز ہی اترپردیش کے شہر ایودھیا میں انتہا پسند ہندووٴں نے بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا۔

    حملہ کرنے والوں کا تعلق بھارتیہ جنتا پارٹی، راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ، وشوا ہندو پریشاد اور بجرنگ دل سے تھا۔ ایل کے ایڈوانی اور منوہر جوشی نے مجمع کو بابری مسجد شہید کرنے کے لئے اشتعال دلایا تھا۔ انتہا پسندوں نے کلہاڑیوں، ہتھوڑوں اور دیگر اوزاروں سے بابری مسجد کو نشانہ بنایا۔

    بابری مسجد کی شہادت کے دوران مسلمانوں کی طرف سے شدید احتجاج اور مزاحمت کی گئی. اس دوران فسادات پھوٹ پڑے جس کے نتیجے میں 2 ہزار سے زائد مسلمان شہید جبکہ ہزاروں زخمی ہوئے۔

    2009 میں جسٹس منموہن سنگھ کی تحقیقاتی رپورٹ میں بی جے پی رہنماوٴں سمیت 68 لوگوں کو مورد الزام ٹھہرایا گیا۔ سربراہ بھارتی انٹیلی جنس بیورو ملوئے کرشنا کے مطابق بابری مسجد کی شہادت کا منصوبہ بی جے پی، راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ اور وشوا ہندو پریشاد نے 10 ماہ پہلے بنایا۔

    بابری مسجد کی شہادت کے بعد بی جے پی کی لوک سبھا میں سیٹیں 121 سے بڑھ کر 188 ہوگئی۔ 9 نومبر 2019 کو بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی شہادت میں ملوث تمام ملزمان کو بری کر دیا۔

    ہیومن رائٹس واچ کے مطابق ایودھیا میں بابری مسجد کی بے حرمتی بین الاقوامی اصولوں کے منافی اور اقلیتوں کے مذہبی حقوق کی سنگین خلاف ورزی تھی۔ 1992 سے اب تک صرف بھارتی ریاست گجرات میں 500 مساجد اور مزارات گرائے جا چکے ہیں.

  • بابری مسجد کے انہدام  کے بعد دیگر مساجد بھی مودی سرکار کے نشانے پر

    بابری مسجد کے انہدام کے بعد دیگر مساجد بھی مودی سرکار کے نشانے پر

    بابری مسجد کے انہدام کے بعد دیگر مساجد بھی مودی سرکار کے نشانے پر ہے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارت میں انتخابات کے قریب آتے ہی مودی سرکار کامیابی حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کے بنیادی حقوق غصب کرنے لگی، مودی سرکار انتہائی اوچھے وار کرتے ہوئے بھارت میں قائم مساجد کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنے لگی۔

    نئی دہلی کی مساجد کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے قبرستان بھی ہند و انتہا پسندوں کے نشانے پر آگیا، نئی دہلی میں صدیوں پرانی اکھونجی مسجد کو مودی سرکار نے منہدم کردیا۔

    رہائشیوں کو کہنا ہے کہ ہندو انتہا پسندوں نے مسجد سے ملحقہ مسلمانوں کی قبروں اور قرآن پاک کے نسخوں کی بھی بے حرمتی کی، مسلمانوں کی قبروں کو مسمار کیا جارہا ہے، قبروں کی اس حد تک بے حرمتی کی گئی کہ کفن اور میتیں بھی نظر آرہی ہیں۔

    امام مسجد کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج بلڈوزر کے ساتھ زبردستی مسجد کے احاطے میں داخل ہوئی اور ہمیں کہا کہ یہ جگہ خالی کردو، انہوں نے ہم سے کہا کہ یہ دہلی ڈیویلپمنٹ کی زمین ہے، ہمارے پاس کاغذات ہیں، اس جگہ کو خالی کرنے کا کوئی نوٹس بھی نہیں دیا گیا۔

    مسجد کے استاد کا کہنا ہے کہ یہ مسجد کئی یتیم بچوں کا گھر تھا، ان بچوں کو یہاں بنیادی حقوق ملتے تھے، یتیم بچے یہاں سے تعلیم حاصل کرتے تھے اور ہر ماہ یہاں ان کے لئے میڈیکل کیمپ لگتا تھا، بھارت میں مقیم مسلمان مسلسل خوف و ہراس کا شکار ہیں۔

  • ویڈیو رپورٹ: رام مندر پر 217 ملین ڈالر خرچ، ایودھیا کے شہری بنیادی سہولیات سے محروم

    ویڈیو رپورٹ: رام مندر پر 217 ملین ڈالر خرچ، ایودھیا کے شہری بنیادی سہولیات سے محروم

    رام مندر پر سیاست چمکانے والی مودی سرکار بھارتی عوام کی بنیادی سہولیات سے بے نیاز دکھائی دے رہی ہے، 22 جنوری 2024 کو مودی سرکار نے متنازعہ رام مندر کا افتتاح کیا تاہم اپوزیشن نے افتتاحی تقریب میں شرکت سے صاف انکار کر دیا۔

    بی بی سی نے انتخابات کے قریب رام مندر کا افتتاح بی جے پی اور آر ایس ایس کا انتخابات میں کامیابی کے لیے سیاسی چال قرار دے دیا ہے، رام مندر ایک متنازعہ جگہ ہے جہاں 5 سو سالہ قدیم بابری مسجد کو 1992 میں ہندو بلوائیوں نے شہید کر دیا تھا، بابری مسجد کے انہدام اور اس کے بعد جنم لینے والے فسادات میں 2 ہزار سے زائد مسلمان شہید ہوئے۔

    رام مندر پر 217 ملین ڈالر خرچ ہوئے اور دوسری جانب ایودھیا شہر میں عوام کی بڑی تعداد بنیادی سہولیات سے بھی محروم ہیں، بھارتی عوام خود کہہ رہی ہے کہ ملک کے جو حالات چل رہے ہیں اس میں آگے بڑھنے کا سوچنے کی بجائے ایسے معاملات میں پڑنا جمہوریت کے لیے بڑا خطرہ ہے۔

    بھارتی عوام کے مطابق مودی سرکار سے نوجوانوں کے لیے روزگار ملنے کی کوئی امید نہیں ہے، صرف رام مندر کے معاملے پر توجہ دینے کی بجائے حکومت کو عوام کو بنیادی سہولیات پہنچانے پر بھی توجہ دینی چاہیے۔ بھارتی عوام کا کہنا ہے کہ مودی سرکار مذہب کی آڑ میں سیاست کا گھناؤنا کھیل کھیل رہی ہے، رام مندر کا راگ الاپ کر عوام کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے، مودی سرکار کہہ رہی ہے کہ رام راج آ گیا ہے یہ کیسا راج ہے جس میں عوام دو وقت کی روٹی کو بھی ترس رہی ہے۔

    ایک طرف ملک میں بڑھتی غربت اور دوسری جانب بھارت میں مذہب کے نام پر تقسیم حالات کو مزید کشیدہ بنا رہے ہیں، بھارتی عوام کے مطابق اب جو کچھ ہو رہا ہے اس نے سیکولر بھارت کا نام نہاد بت توڑ دیا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مودی سرکار رام مندر کا افتتاح کر کے اپنی نااہلی نہیں چھپا سکتا، مودی بھارت میں بے روزگاری، تعلیم اور ترقی کے فقدان پر جواب دہ ہوگا۔

    سوال تو اٹھتے ہیں کہ کیا مذہب پر سیاست کر کے مودی سرکار عوام کے مسائل حل کر پائے گی؟ کیا بھارت کی بڑھتی آبادی اور غربت میں محصور عوام کے لیے اس وقت رام مندر ہی سب سے زیادہ اہم ہے؟

  • بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر پر او آئی سی کا  اظہارِ تشوش

    بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر پر او آئی سی کا اظہارِ تشوش

    اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) نے بھارتی شہر ایودھیا میں شہید کی گئی پانچ صدی پرانی بابری مسجد کی جگہ ’رام مندر‘ کی تعمیر پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

     57 اسلامی ممالک کی تنظیم نے کہا کہ او آئی سی جنرل سیکریٹریٹ نے شہید کی گئی بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی حالیہ تعمیر اور افتتاح پر ’شدید تشویش‘ کا اظہار کیا ہے۔

    او آئی سی جنرل سیکریٹریٹ کے بیان کے مطابق مودی سرکار مذہب کی آڑ میں اسلامی تہذیب کے نشان مٹانا چاہتی ہے، ایودھیا میں بابری مسجد کے مقام پر مندر کے افتتاح  نے بھارت کی مسلم کمیونٹی کو غیر محفوظ کر دیا، رام مندر کی افتتاح میں آٹھ ہزار افراد کی سیکیورٹی کے لیے دس ہزار سیکورٹی اہلکاروں کی تعیناتی شرمناک ہے۔

    دوسری جانب ایودھیا میں شہید بابری مسجد رام مندر کی تعمیر مذہبی سے زیادہ سیاسی معاملہ قرار دیدیا گیا، بین القوامی میڈیا کے مطابق بھارت میں رہائش پزیر مسلمانوں کے لیے بولنے والا کوئی نہیں ہے، مودی کی جماعت میں مسلمانوں کو کوئی نمائندگی نہیں ہے، بی جے کا انتخابی ایجنڈا ہندتوا ہے۔

    واضح رہے کہ گزشتہ دنوں رام مندر کی افتتاحی تقریب میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اس جگہ پر بنے نئے مندر میں ہندو دیوتا رام کی مورتی کی نقاب کشائی کی جہاں 1992 میں ہندوتوا کے ہجوم کے ہاتھوں شہید ہونے والی بابری مسجد صدیوں سے موجود تھی۔

    مسجد کو شہید کرنے کے واقعے نے بھارت میں بدترین مذہبی فسادات کو جنم دیا تھا جس کے نتیجے میں 2 ہزار افراد مارے گئے تھے، مرنے والوں میں زیادہ تر مسلمان شامل تھے

  • بابری مسجد کی شہادت کو 31 سال مکمل

    بابری مسجد کی شہادت کو 31 سال مکمل

    بابری مسجد کی شہادت کو 31 سال مکمل ہو گئے، بابری مسجد کی شہادت کے دوران مسلمانوں کے شدید احتجاج اور مزاحمت کے بعد شروع ہونے والے فسادات کے نتیجے میں 2 ہزار سے زائد مسلمان شہید جب کہ ہزاروں زخمی ہوئے تھے، تاہم بی جے پی رہنماوٴں سمیت 68 ذمہ داران سپریم کورٹ سے بری ہوئے۔

    6 دسمبر 1992 کو اتر پردیش کے شہر ایودھیا میں انتہا پسند ہندووٴں نے بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا، حملہ کرنے والوں کا تعلق بھارتیہ جنتا پارٹی، راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ، وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دل سے تھا۔

    انتہا پسندوں نے کلہاڑیوں، ہتھوڑوں اور دیگر اوزاروں سے بابری مسجد کو نشانہ بنایا، بابری مسجد کی شہادت کے دوران مسلمانوں کی طرف سے شدید احتجاج اور مزاحمت کی گئی، فسادات کے نتیجے میں 2 ہزار سے زائد مسلمان شہید جب کہ ہزاروں زخمی ہوئے، بی جے پی رہنما ایل کے ایڈوانی اور منوہر جوشی نے مجمع کو بابری مسجد شہید کرنے کے لیے اشتعال دلایا تھا۔

    2009 میں جسٹس منموہن سنگھ کی تحقیقاتی رپورٹ میں بی جے پی رہنماوٴں سمیت 68 افراد کو موردالزام ٹھہرایا گیا، سربراہ بھارتی انٹیلی جنس بیورو ملوئے کرشنا کا کہنا تھا کہ بابری مسجد کی شہادت کا منصوبہ بی جے پی، راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ اور وشوا ہندو پریشد نے 10 ماہ پہلے بنایا۔

    بابری مسجد کی شہادت کے بعد بی جے پی کی لوک سبھا میں سیٹیں 121 سے بڑھ کر 188 ہوئیں، 9 نومبر 2019 کو بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی شہادت میں ملوث تمام ملزمان کو بری کر دیا۔

    ہیومن رائٹس واچ کے مطابق ایودھیا میں بابری مسجد کی بے حرمتی بین الاقوامی اصولوں کے منافی اور اقلیتوں کے مذہبی حقوق کی سنگین خلاف ورزی تھی، 1992 سے اب تک صرف بھارتی ریاست گجرات میں 500 مساجد اور مزارات گرائے جا چکے ہیں۔

  • بابری مسجد کا فیصلہ دینے والے بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ریٹائر ہوگئے

    بابری مسجد کا فیصلہ دینے والے بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ریٹائر ہوگئے

    نئی دہلی : بابری مسجد کا فیصلہ دینے والے بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوکوئی ریٹائر ہوگئے ، انھوں نے ہندوں کے حق میں مندر بنانے کا فیصلہ دیا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس رنجن گوکوئی ریٹائر ہوگئے، جسٹس رنجن گوگوئی کو 3 اکتوبر 2018 کو چیف جسٹس آف انڈیا مقرر کیا گیا تھا۔

    یاد رہے چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے اپنے عہد کے آخری ایام میں گذشتہ کئی دہائیوں سے جاری بابری مسجد کیس کا حتمی فیصلہ سنایا تھا،چیف جسٹس رنجن گوگئی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے فیصلے میں کہا تھا کہ تاریخی شواہد کے مطابق ایودھیا رام کی جنم بھومی ہے۔

    مزید پڑھیں :   بابری مسجد کی جگہ مندر بنے گا، بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ

    فیصلے میں بابری مسجد کی متنازع زمین ہندوؤں کو دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا تھا بھارتی حکومت کی زیرنگرانی بابری مسجدکی جگہ رام مندر بنے گا، تین ماہ میں بھارتی حکومت بورڈتشکیل دےکراسکیم تیارکرے اور مسلمانوں کوایودھیامیں 5ایکڑمتبادل جگہ دی جائے۔

    خیال رہے اترپردیش کے شہر ایودھیا میں بابری مسجد مغل بادشاہ بابر کے دور1528میں تعمیر کی گئی لیکن انتہا پسند ہندؤوں نےدعویٰ کیا تھا کہ مسجد کی جگہ ان کے بھگوان رام کی جائے پیدائش ہے۔

    تنازع پر پہلے مسجد بند کی گئی اور پھر باقاعدہ منصوبہ بنا کر جنونی ہندؤوں نے تاریخی یادگار پر دھاوا بول دیا گیا تھا، جس کے بعد فسادات میں مسجد کے اطراف مسلمانوں کے گھر بھی جلا دئیے گئےاور ان فسادات میں تین ہزار سے زائد مسلمانوں جان سے گئے تھے۔

  • بابری مسجد فیصلے پر جمعیت علمائے ہند کا رد عمل بھی سامنے آگیا

    بابری مسجد فیصلے پر جمعیت علمائے ہند کا رد عمل بھی سامنے آگیا

    نئی دہلی: جمعیت علمائے ہند نے دوٹوک مؤقف اختیار کیا ہے کہ بابری مسجد کے متبادل کے طور پر نہ زمین قبول ہے اور نہ ہی رقم لیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ کے بابری مسجد سے متعلق متعصبانہ فیصلے کو جمعیت علمائے ہند نے بھی مسترد کردیا اور واضح مؤقف اختیار کیا کہ متبادل کے طور پر مسجد کی تعمیر کے لیے 5ایکڑ زمین قبول نہیں کریں گے۔

    صدر جمعیت علمائے ہند ارشدمدنی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر ریویوپٹیشن دائر کرسکتے ہیں، پانچ رکنی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی قانونی مشاورت کرے گی۔ جمعیت علمائے ہند بابری مسجد کیس کے اہم فریقوں میں شامل تھی۔

    بھارتی سپریم کورٹ کا بابری مسجد کی جگہ مسلمانوں کو ایودھیا میں متبادل جگہ دینے کا حکم ہے۔

    خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی متنازع زمین ہندوؤں کو دینے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا بھارتی حکومت کی زیرنگرانی بابری مسجد کی جگہ مندر بنے گا اور مسلمانوں کو ایودھیا میں متبادل جگہ دی جائے۔

    فیصلے میں سنی اور شیعہ وقف بورڈز کی درخواستیں مسترد کردی گئیں تھیں اور کہا گیا تھا کہ تاریخی شواہد کے مطابق ایودھیارام کی جنم بھومی ہے، بابری مسجد کا فیصلہ قانونی شواہد کی بنیاد پر کیا جائے گا۔

    بابری مسجد کا متعصبانہ فیصلہ، پاکستان کی او آئی سی کے سفیروں کو بریفنگ

    بعد ازاں پاکستان نے تاریخی بابری مسجد کے فیصلے پرشدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ ایک بار پھرانصاف کے تقاضے پورے کرنے میں ناکام رہا۔

  • بابری مسجد کا فیصلہ تضادات سے بھرپور ہے: شاہ محمود

    بابری مسجد کا فیصلہ تضادات سے بھرپور ہے: شاہ محمود

    ملتان: وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں اقلیتوں پر جگہ تنگ کی جا رہی ہے، پاکستان بابری مسجد سے متعلق تضادات پر مبنی فیصلے کی شدید مذمت کرتا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ملتان میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بابری مسجد کا فیصلہ کرتاپورراہداری کے کھلنے کے دن دیا گیا، یہ فیصلہ انصاف پر مبنی نہیں بلکہ تضادات سے بھرپور ہے، ہم کرتارپورراہداری کھول کرخیرسگالی کا پیغام دے رہے ہیں جبکہ بھارت کالے قوانین سے انسانی حقوق کی پامالی کررہا ہے۔

    انہوں نے بھارتی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ آرایس ایس کا ہندوستان معرض وجود میں آرہا ہے، اب بھارت گاندھی اور نہرو کا بھارت نہیں رہا، ہم نے ہمیشہ بھارت سے بات چیت کے لیے ہاتھ بڑھایا لیکن مودی نے راہ فرار اختیار کی، بابری مسجد کے فیصلے کو نہیں مانتے۔

    وزیرخارجہ کا نواز شریف کی طبیعت سے متعلق کہنا تھا کہ جان کی حفاظت کے لیے نوازشریف کو باہر جانا چاہیے، عدالت نے انہیں 8ہفتے کی ضمانت دی ہے، دعاگو ہیں اللہ تعالیٰ نوازشریف کو صحت دے، انہیں ہر دستیاب سہولت فراہم کرنے کی کوشش کی، اللہ نوازشریف کو صحت دے اور وہ واپس آکر اپنی سیاست کریں۔

    مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر شاہ محمود نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر سے متعلق پٹیشن کو سنا ہی نہیں جارہا، گزشتہ روز کہا تھا بھارت ہمیں بھی شکریہ کا موقع دے، بھارت کشمیر سے کرفیو ہٹاکر ہمیں بھی شکریہ ادا کرنے کا موقع دے، 97روز سے کشمیر میں مسلسل کرفیو نافذ ہے۔

    بابری مسجد کیس کا فیصلہ انصاف کا خون ہے، مشال ملک

    یاد رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی متنازع زمین ہندوؤں کو دینے کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا بھارتی حکومت کی زیرنگرانی بابری مسجد کی جگہ مندر بنے گا اور مسلمانوں کو ایودھیا میں متبادل جگہ دی جائے۔

    فیصلے میں سنی اور شیعہ وقف بورڈز کی درخواستیں مسترد کردی گئیں تھیں اور کہا گیا تھا کہ تاریخی شواہد کے مطابق ایودھیارام کی جنم بھومی ہے، بابری مسجد کا فیصلہ قانونی شواہد کی بنیاد پر کیا جائے گا۔

  • مسجدکی جگہ مندرکی تعمیرکا فیصلہ امت کیخلاف اعلان جنگ ہے، مسعود خان

    مسجدکی جگہ مندرکی تعمیرکا فیصلہ امت کیخلاف اعلان جنگ ہے، مسعود خان

    کراچی: صدر آزاد کشمیر مسعود خان نے بابری مسجد کی جگہ مندرکی تعمیرکے بھارتی فیصلے کو امت کیخلاف اعلان جنگ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ فیصلہ متعصب اور جانبداری پر مبنی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں گورنر سندھ عمران اسماعیل ، جماعت اسلامی کے رہنماؤں اور دیگر سے ملاقات اور میڈیا سے بات کرتے ہوئے صدر آزاد کشمیر نے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ نےانتہائی جانبدارانہ اورمتعصبانہ فیصلہ کیا۔

    مسعود خان نے کہا کہ بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ ایسےوقت میں دیا جب پاکستان نےکرتارپورراہداری کاافتتاح کیا، پاکستان نے امن، محبت اورمذہب کےتقدس کاپیغام دیا جب کہ بھارت نےپیغام دیاکہ وہ مسلمانوں کےمقدس مقامات کااحترام نہیں کرتا۔

    یہ بھی پڑھیں: بابری مسجد کی جگہ مندر بنے گا، بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ

    انہوں نے کہا کہ بھارت کےاس اقدام نےہندومسلم تصادم کاآغاز کیاہے ،بھارت چاہتاہےکہ ایک نیاتصادم اورشورش پیداہو با ہماری ذمہ داری ہےکہ بھارت کوروکنےکیلئے عملی اقدامات کریں۔

    صدرآزادکشمیر کا کہنا تھا کہ بھارت مقبوضہ کشمیرسےتوجہ ہٹانا چاہتا ہے مقبوضہ وادی میں کرفیوکو97دن ہوگئے ہیں،مقبوضہ وادی میں خواتین کی بےحرمتی کی جارہی ہےا ور 9لاکھ غاصب بھارتی افواج رات کی تاریکی میں گھروں پرحملہ کررہی ہے۔

    واضح رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی زمین ہندوؤں کو دینے کا حکم سناتے ہوئے فیصلے میں کہا تھا کہ بھارتی حکومت کی زیرنگرانی بابری مسجد کی جگہ مندر بنے گا اور مسلمانوں کو ایودھیا میں متبادل جگہ دی جائے ۔

  • بابری مسجد  کا عدالتی فیصلہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں ناکام رہا، دفتر خارجہ

    بابری مسجد کا عدالتی فیصلہ انصاف کے تقاضے پورے کرنے میں ناکام رہا، دفتر خارجہ

    اسلام آباد: پاکستان نے تاریخی بابری مسجد کے فیصلے پرشدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ ایک بار پھرانصاف کے تقاضے پورے کرنے میں ناکام رہا۔

    تفصیلات کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ کے بابری مسجد کے فیصلے پر پاکستان کا باضابطہ ردعمل آگیا، ترجمان دفتر خارجہ نے بیان میں کہاہے کہ اقوام متحدہ نے کہا تھا کہ بھارتی عدالتیں فیصلوں میں انسانی حقوق کو مدنظر رکھیں جب کہ مقبوضہ کشمیر کےحوالے سے بھی بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے میں سست روی ہے۔

    ترجمان نے کہا کہ اس طرح کے فیصلوں میں بھارت میں اقلیتوں کا خیال نہیں رکھا جاتا، بھارت میں اقلیتیں محفوظ نہیں ہیں اور آج عدالتی فیصلے سے بھی بھارت کا اصل چہرہ بے نقاب ہوگیا ہے۔

    ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ بھارت میں اقلیتوں کو اپنے عقائد اورعبادت گاہوں میں خطرہ ہے،بھارت ہندوتوا کیلئے نظریئے کی پیروی اورہندو راشٹر کی تاریخ پر عمل پیرا ہےایسے فیصلوں سے بھارت کے بڑے ادارے بھی متاثرہورہے ہیں۔

    ترجمان کا کہنا تھا کہ بھارت میں انتہاپسندانہ نظریہ، ہندوؤں کی بالادستی اعتکاد پر مبنی ہے،بھارت کا طرز عمل علاقائی امن واستحکام کیلئے خطرہ ہے۔

    یہ بھی پڑھیں: بابری مسجد کی جگہ مندر بنے گا، بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ

    بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ بھارت اپنے ملک میں بسنے والے مسلمانوں کے جان و مال حقوق اور املاک کا تحفظ یقینی بنائے جب کہ اقوام متحدہ بھارت میں انتہاپسند نظریئے کے خاتمے اوراقلیتوں کے مساوی حقوق یقینی بنائے۔

    واضح رہے کہ بھارتی سپریم کورٹ نے بابری مسجد کی زمین ہندوؤں کو دینے کا حکم سناتے ہوئے فیصلے میں کہا تھا کہ بھارتی حکومت کی زیرنگرانی بابری مسجد کی جگہ مندر بنے گا اور مسلمانوں کو ایودھیا میں متبادل جگہ دی جائے ۔