Tag: بابر اعظم

  • بابر کس نمبر پر کھیلیں گے؟ کپتان نے بتا دیا

    بابر کس نمبر پر کھیلیں گے؟ کپتان نے بتا دیا

    قومی ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کے کپتان شان مسعود نے کہا کہ بابر اعظم ہمارے بیٹنگ کے لیڈر ہیں، وہ ایک بہترین کھلاڑی ہیں۔

    لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے شان مسعود کا کہنا تھا کہ بابر اعظم کے ساتھ ہمیشہ اچھا تعلق رہا ہے اور ہم بہت عرصے سے ایک ساتھ کھیل رہے ہیں، میری اور بابر کی انڈر اسٹینڈنگ بہت اچھی ہے۔

    شان مسعود نے بابر اعظم کی پلئینگ پوزیشن سے متعلق کہا کہ بابراعظم ہمارے بہترین کھلاڑیوں میں سے ہیں، ان کی جگہ کو نہیں چھیڑ  سکتے اور نا ہی ٹیم میں زیادہ تبدیلی کررہے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہر ملک کی کنڈیشنز مختلف ہوتی ہیں، آسٹریلیا جیسی کنڈیشن پاکستان میں نہیں ہیں، ٹیم میں تبدیلی کی جاسکتی ہے تاہم انہوں نے تصدیق کی کہ اسٹار بلے باز بابر اعظم کی پلیئنگ پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔۔

    قومی ٹیسٹ کرکٹ ٹیم کے کپتان شان مسعود نے مزید کہا کہ بابر اعظم ہمارے بیٹنگ کے لیڈر ہیں، ہماری کوشش ہے کہ ٹیم میں ہر شعبے کا ایک لیڈر ہو۔

  • بابر اعظم نے شان مسعود کے بارے میں کیا کہا؟

    بابر اعظم نے شان مسعود کے بارے میں کیا کہا؟

    پاکستان کرکٹ ٹیم کی کپتانی سے مستعفی ہونے والے سابق قائد بابر اعظم نے شان مسعود کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کردیا۔

    ایشیا کپ اور ورلڈکپ میں بابر اعظ کی کپتانی کو کا تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ آئی سی سی عالمی ایونٹ کے بعد انھوں نے تینوں فارمیٹ کی کپتانی سے استعفیٰ دیدیا تھا جس کے فوراً بعد ہی پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے ٹیسٹ اوپنر شان مسعود کو یہ فریضہ سونپا گیا تھا۔

    سابق کپتان بابر اعظم کا کہنا تھا کہ شان مسعود کے پاس یہ بہترین موقع ہے کہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرے۔ ٹیم میں نئے آنے والے کھلاڑیوں کے لیے بھی سنہری موقع ہے۔

    معروف بیٹر بابر اعظم کا کہنا تھا کہ نئے کپتان شان مسعود کے پاس بہت اچھا موقع ہے کہ اپنے جوہر ثابت کریں۔

    دورہ آسٹریلیا کے حوالے سے ٹیم ڈائریکٹر اور ہیڈ کوچ محمد حفیظ نے بھی بیان دیا ہے، ان کہنا تھا کہ آسٹریلیا جیسے دورے باقاعدگی سے ہونے چاہئیں۔ دو طرفہ سیریز کو زیادہ سے زیادہ ہونا چاہیے۔

    واضح رہے کہ دورہ آسٹریلیا کے کڑے امتحان کے لیے شان مسعود کو قیادت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے جبکہ اسکواڈ میں دو سابق کپتان سرفراز احمد اور بابر اعظم بھی موجود ہیں۔

  • ورلڈ کپ کے بعد پاکستان کرکٹ میں اکھاڑ پچھاڑ، نئے چہروں سے سجی پُرانی کہانی

    ورلڈ کپ کے بعد پاکستان کرکٹ میں اکھاڑ پچھاڑ، نئے چہروں سے سجی پُرانی کہانی

    ورلڈ کپ کی 48 سالہ تاریخ اور کرکٹ کے میدان میں پاکستانی ٹیم کی بدترین کارکردگی کے بعد ٹیم میں بڑی تبدیلیوں کی افواہوں کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا، وہ اب حقیقت بن چکی ہیں اور صرف ٹیم کا قائد ہی نہیں بلکہ پوری ٹیم منیجمنٹ کی کایا پلٹ دی گئی ہے۔ لیکن جو تبدیلی آئی ہے وہ نئی نہیں بلکہ پرانی کہانی کو نئے چہروں سے سجایا گیا ہے، اب دیکھنا ہے کہ یہ نئے چہرے کیا ایسا نیا کرتے ہیں کہ جس سے دم توڑتی کرکٹ کو نئی زندگی مل سکے۔

    کچھ عرصہ قبل تک پڑوسی ملک کا ایک ٹی وی سوپ ’’کہانی گھر گھر کی‘‘ کا بہت شہرہ تھا جو سازشوں، کھینچا تانی، بغض، نفرت، حسد اور دُہرے روپ کے چاٹ مسالہ کے ساتھ بالخصوص خواتین کا من پسند تھا، لگتا ہے کہ پاکستان کرکٹ بھی کچھ اسی کی مثل ہو چلی ہے جہاں ’’کہانی ہر ورلڈ کپ کی‘‘ کی صورت میں ایسے ہی ‘لوازمات’ سے بھرپور ڈراما اسٹیج کر کے کرکٹ کے کرتا دھرتا چند چہروں کو ادھر سے اُدھر سرکاتے ہیں اور اپنے آرٹیفیشل اقدامات پر واہ واہ سمیٹ کر کرسی کو مضبوط کرتے ہیں۔

    15 نومبر کا دن پاکستانی کرکٹ کا ہنگامہ خیز دن تھا، جب پی سی بی ہیڈ کوارٹر افواہوں اور خبروں کا مرکز رہا کئی اہم ملاقاتیں ہوئیں، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بابر اعظم تینوں فارمیٹ کی قیادت سے خود دستبردار ہو گئے۔ شان مسعود ٹیسٹ اور شاہین شاہ ٹی 20 کے لیے ٹیم کے کپتان بنا دیے گئے۔ مکی آرتھر جنہیں گزشتہ پی سی بی منیجمنٹ ان کی شرائط پر لائی اور ان کے لیے ٹیم ڈائریکٹر کا عہدہ تخلیق کیا گیا لیکن پی سی بی نے جب ورلڈ کپ میں ناقص کارکردگی پر پورے کوچنگ اسٹاف کو ہی تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا تو ٹیم ڈائریکٹر کی کرسی پر محمد حفیظ کو براجمان کر دیا گیا یہ وہی حفیظ ہیں جن کی گزارشات کو اسی پی سی بی انتظامیہ نے ورلڈ کپ سے قبل درخور اعتنا نہ سمجھا جس کی وجہ سے وہ ٹیکنیکل کمیٹی چھوڑ گئے تھے۔ بولنگ کوچ مورنی مورکل کا پی سی بی کو قبل از وقت چھوڑ جانا تو پرانی بات ہو چکی ان کی جگہ اب عمر گل کا نام لیا جا رہا ہے۔ پی سی بی نے چند روز قبل توصیف احمد کی قیادت میں بنائی گئی اپنی ہی عبوری سلیکشن کمیٹی کو ختم کر دیا اور جلد نئی سلیکشن کمیٹی بنانے کی نوید بھی سنا دی۔

    یہ سب تبدیلیاں پاکستان کرکٹ سے لگاؤ رکھنے والوں کے لیے نئی نہیں ہیں۔ یہ کہانی 1996 کے ورلڈ کپ سے شروع ہوئی ہے جو چہروں کی تبدیلی اور اسکرپٹ کے معمولی ردو بدل کے ساتھ مسلسل دہرائی جا رہی ہے لیکن ہر چار سال بعد تبدیلی کتنی سود مند ثابت ہوتی ہے اس کا اندازہ تو اس بات سے ہی ہو جانا چاہیے ہم ہر چار سال بعد پرانی پوزیشن پرکھڑے ہوتے ہیں اور پھر نئی تبدیلیوں کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔

    1996 سے 2023 تک کرکٹ معاملات اور ہر ورلڈ کپ میں شکست کے بعد اکھاڑ پچھاڑ پر نظر ڈالیں تو وسیم اکرم، وقار یونس، انضمام الحق، شاہد آفریدی، مصباح الحق، سرفراز احمد اور اب بابر اعظم کو قیادت سے ہاتھ دھونے پڑے۔ درجنوں کھلاڑیوں کے کیریئر پر فل اسٹاپ لگ گیا یا لگا دیا گیا جن میں سعید انور بھی شامل ہیں جنہیں 2003 کے ورلڈ کپ کے بعد جب باہر کیا گیا تو ان کی آخری اننگ روایتی حریف بھارت کے خلاف سنچری سے سجی ہوئی تھی۔ اس دوران کرپشن الزامات پر کمیشن بنے، کچھ کو سزائیں کچھ کو صرف سرزنش کی گئی لیکن جتنے تواتر کے ساتھ کرکٹرز کا احتساب کیا گیا اتنے تواتر کے ساتھ بورڈ عہدیداروں پر ہاتھ نہیں ڈالا گیا۔

    سوال تو یہ ہے کہ گزشتہ 27 سال سے ہر ورلڈ کپ کے بعد مستقبل مزاجی سے دہرائی جانے والی اس کہانی سے اب تک کیا مثبت نتائج ملے ہیں۔ اگر غور کریں تو اس سارے قضیہ میں ہمیشہ بورڈ انتظامیہ معصوم بنی رہتی ہے اور سارا نزلہ میدان میں موجود کھلاڑیوں اور ٹیم منیجمنٹ پر گرایا گیا، جب کہ اس عرصے میں کچھ فتوحات ملیں تو اس کا کریڈٹ پورا پورا بورڈ حکام نے لیا۔

    ہماری سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ ہم پینک (خوف و ہراس) بٹن جلد دبا دیتے ہیں اور صورتحال کو اتنا پرخطر بنا کر پیش کرتے ہیں کہ پھر تبدیلیوں کا عوامی شور اٹھتا ہے جس کی گرد میں بعض اوقات اصل ذمے دار چھپ جاتے ہیں۔

    یہ درست کہ ہماری ٹیم کی کارکردگی انتہائی خراب رہی جس کے لیے کسی وضاحت کی ضرورت نہیں، لیکن اسی ورلڈ کپ کو دیکھیں دفاعی چیمپئن انگلینڈ کی کارکردگی ہماری ٹیم سے بھی زیادہ خراب تھی تاہم وہاں کسی نے خوف وہراس نہیں پھیلایا۔ 2007 میں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ بھارت بھی شرمناک انداز میں پہلے ہی راؤنڈ میں بنگلہ دیش سے ہارنے کے بعد ورلڈ کپ سے باہر ہوا لیکن وہاں قیامت نہیں آئی اور نہ ہی اکھاڑ پچھاڑ ہوئی۔ دھونی پر اعتماد برقرار رکھا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ بھارتی تاریخ کا کامیاب ترین کپتان بن گیا اور بھارت کو ٹی ٹوئنٹی کے ساتھ ون ڈے کا عالمی چیمپئن بھی بنوایا۔ جب 2003 میں جنوبی افریقہ کے پولاک سے قیادت لی گئی تو 22 سالہ گریم اسمتھ کو کپتان بنایا گیا جو مسلسل 11 سال تک کپتان رہے۔ اس دوران جنوبی افریقہ نے دو ون ڈے ورلڈ کپ اور 4 ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کھیلے لیکن ایک بھی نہ جیت سکے لیکن کسی نے ٹی وی پر بیٹھ کر اسمتھ یا پوری ٹیم کو باہر کرنے کے مطالبے نہیں کیے۔ ایسی کئی مثالیں آسٹریلیا، نیوزی لینڈ جیسی بڑی کرکٹ ٹیموں سے بھی جڑی ہیں۔

    بات یہ ہے کہ جن ممالک کا ذکر کیا گیا وہاں کرکٹ کو سیاست سے علیحدہ رکھا گیا اور اس کی ترقی کے لیے ایک مستقل اور مربوط پالیسی مرتب کی گئی جس پر ہر دور میں من وعن عمل کیا لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں دیگر شعبوں کی طرح کرکٹ میں بھی سیاست پوری طرح متحرک ہے۔ دیگر ممالک خاص طور پر آسٹریلیا اور انگلینڈ کے حکمران بھی کرکٹ میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن وہ کرکٹ کے معاملات پر اثر انداز نہیں ہوتے جب کہ ہمارے یہاں تو حکومت تبدیل ہوتے ہیں بورڈ میں چہرے تبدیل ہوتے ہیں اور پھر جس طرح ملکی پالیسیوں پر یوٹرن لیا جاتا ہے اسی طرح کرکٹ کے معاملات بھی من مانے انداز میں صرف اس سوچ کے تحت چلائے جاتے ہیں کہ چاہے کچھ بھی ہو ہماری کرسی مضبوط اور محفوظ رہے اور اس کے لیے کرکٹ کے کھیل سے کھیل کھیلا جاتا ہے۔

    کرکٹ میں سیاسی مداخلت کا شاخسانہ سری لنکا کرکٹ کو بہت مہنگا پڑا ہے اور آئی سی سی نے حال ہی میں لنکا کرکٹ کی رکنیت معطل کر دی ہے۔ یہ پاکستان کرکٹ کے لیے ایک الارمنگ صورتحال بھی ہو سکتی ہے کیونکہ ہمیں ایسے حریف بھارت کا سامنا ہے جو کرکٹ کے میدان میں پاکستان کو نیچا دکھانے کے لیے کوئی بھی ہتھکنڈا استعمال کرنے سے باز نہیں آتا، جب کہ آئی سی سی جو بھارتی خوشنودی کے لیے بعض اوقات انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے بجائے انڈین کرکٹ کونسل کا کردار ادا کرتا دکھائی دیتا ہے، ان کا گٹھ جوڑ مستقبل میں پاکستان کرکٹ کے لیے نئی مشکل لا سکتا ہے۔

    پاکستان کرکٹ کرتا دھرتاؤں کو خواب غفلت اور ذاتی مفادات سے نکل کر ہوش مندی سے صرف اور صرف کی کرکٹ کی فلاح وبہبود کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ کرکٹ سیاست نہیں ایک کھیل ہے اور اس کو کھلاڑی ہی اچھے طریقے سے چلا سکتے ہیں۔ ہمیں میرا چیئرمین تیرا چیئرمین کی پالیسی سے نکلنا ہوگا اس لیے کرکٹ میں اصلاح احوال کے لیے بڑوں سے یہی گزارش ہے کہ کرکٹ کو کھیل سمجھیں اس کے ساتھ کھیل نہ کھیلیں اور جینٹلمین گیم کے لیے جینٹل مین فیصلے کریں کہ اگر روش نہ بدلی تو پھر ’’تمہاری داستاں بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔‘‘

  • ’’بابر اعظم کی قومی ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں بھی جگہ نہیں بنتی‘‘

    ’’بابر اعظم کی قومی ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں بھی جگہ نہیں بنتی‘‘

    قومی کرکٹرز عماد وسیم اور محمد عامر سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں بابراعظم کی جگہ نہیں بنتی۔

    نجی ٹی وی کے پروگرام میں بابراعظم متعلق گفتگو کرتے ہوئے سابق آل راؤنڈر عبدالرزاق کا کہنا تھا کہ مجھے اختیار ملے تو بابراعظم کو صرف ٹیسٹ کا کپتان بناؤں گا۔ اس موقع پر عماد اور محمد عامر کا کہنا تھا کہ ٹی ٹوئنٹی ٹیم میں بابراعظم کی جگہ نہیں بنتی۔

    عماد وسیم کے مطابق آئندہ چیمپیئن ٹرافی کیلئے ٹیم میں تبدیلیاں ہونی چاہئیں اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ٹیم میں گروپنگ بھی ہوتی ہے۔

    بھارت نیوزی لینڈ سیمی فائنل پر تبصرہ کرتے ہوئے قومی ٹیم کے آل راؤنڈر نے کہا کہ اگر کوئی ٹیم سیمی فائنل میں بھارت کو ہراسکتی ہے تو وہ نیوزی لینڈ ہے جب کہ محمد عامر کا موقف تھا کہ آج بھارت فاتح رہے گا۔

    واضح رہے کہ بھارت میں ہونے والے آئی سی سی ورلڈکپ 2023 میں شکست کے بعد بابراعظم تینوں فارمیٹ کی کپتانی چھوڑ چکے ہیں انھوں نے سوشل میڈیا پر اس بات کا اعلان کیا تھا۔

    بابر کا مزید کہنا تھا کہ وہ بطور کھلاڑی پاکستان کرکٹ ٹیم کو دستیاب رہیں گے اور جو بھی کپتان بنے گا اسے بھرپور سپورٹ کریں گے۔

  • بابر اعظم کی ذکا اشرف سے ون آن ون ملاقات؟

    بابر اعظم کی ذکا اشرف سے ون آن ون ملاقات؟

    لاہور: ورلڈ کپ میں قومی ٹیم کی ناقص کارکردگی کے بعد مشاورت کا سلسلہ جاری ہے، چیئرمین پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی آج بھی اہم ملاقاتیں کریں گے۔

    تفصیلات کے مطابق قومی ٹیم کے کپتان بابر اعظم آج دوپہر ذکا اشرف سے ون آن ون ملاقات کریں گے، ذرائع کا کہنا ہے کہ بابر اعظم ٹیم کی ناقص کارکردگی کی وجوہات پر رپورٹ دیں گے۔

    بابر اعظم کے بطور کپتان مستقبل کا فیصلہ بھی آج متوقع ہے، ذرائع کے مطابق بابر اعظم کو ٹیسٹ ٹیم کا کپتان برقرار رکھنے کی تجویز سامنے آئی ہے، جب کہ ون ڈے اور ٹی 20 فارمیٹ کے لیے نیا کپتان لانے کی تجویز دی گئی ہے۔

    بابر اعظم کے علاوہ آج ہیڈ کوچ گرانٹ بریڈ برن اور ٹیم ڈائریکٹر مکی آرتھر بھی ذکا اشرف کو رپورٹس دیں گے۔

    بابر اعظم کو وائٹ بال کی کپتانی سے ہٹانے پر غور

    واضح رہے کہ بابر اعظم کو وائٹ بال کرکٹ کی کپتانی سے ہٹانے پر غور کیا جا رہا ہے، ذرائع کے مطابق چیئرمین پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی بابر اعظم سے ون ڈے اور ٹی ٹوینٹی کپتانی سے متعلق گفتگو کریں گے، بابر اعظم کو وائٹ بال کے نئے کپتان کے بارے میں بتایا جائے گا۔

    ٹی ٹوینٹی ورلڈ کپ میں کپتانی کے لیے شاہین شاہ آفریدی مضبوط امیدوار ہیں، دورہ آسٹریلیا میں ٹیسٹ ٹیم کی کپتانی کے لیے شان مسعود مضبوط امیدوار ہیں، تاہم کرکٹ بورڈ تبدیلیوں سے متعلق حتمی فیصلہ بابر اعظم سے ملاقات کے بعد کرے گا، بابر سے ملاقات کے بعد مینجمنٹ کمیٹی کا ایک اور اجلاس ہوگا۔ خیال رے کہ بابر اعظم کی کپتانی میں پاکستان آئی سی سی اور ایشین کرکٹ کونسل کا کوئی ٹائٹل نہیں جیت سکا ہے۔

  • ’ہوسکتا ہے کل خبر آئے بابر خود کپتانی چھوڑنا چاہتے ہیں‘

    ’ہوسکتا ہے کل خبر آئے بابر خود کپتانی چھوڑنا چاہتے ہیں‘

    ورلڈکپ میں پاکستانی ٹیم کی بری کارکردگی کے بعد اسپورٹس تجزیہ کار نے انکشاف کیا ہے کہ ہوسکتا ہے کل یہ خبر آئے کہ بابر خود کپتانی چھوڑنا چاہتے ہیں۔

    سینئر اسپورٹس رپورٹر شعیب جٹ نے کہا ہے کہ مجھے جو خبریں ملی ہیں تو یہ بھی ہوسکتا ہے کل یہ خبر آئے کہ کرکٹ بورڈ تو ان کی کپتانی کا سلسلہ جاری رکھنا چاہتا ہے مگر بابر اعظم خود کپتانی چھوڑنا چاہتے ہیں۔ یہ بات سامنے آسکتی ہے۔

    انھوں نے کہا کہ اس چیز پر میں نے بہت زیادہ کام نہیں کیا اس لیے میں اس حوالے سے ابھی یقین سے نہیں کہہ رہا لیکن کچھ اسی طرح کی سن گن مجھے ملی ہے۔

    سابق کرکٹرز کی رائے ہے کہ وائٹ بال کا کپتان بدل دیا جائے۔ آسٹریلیا کا ٹور چوں کہ سر پر موجود ہے تو ریڈ بال کا کپتان بابر اعظم کو ہی برقرار رکھا جائے۔

    انھوں نے کہا کہ آج سلیکشن کمیٹی تحلیل کردی گئی، سابق کرکٹرز نے جو ملاقاتیں کی تھیں ان میں سے ایک سابق کرکٹر کے مشورے کے بعد سلیکشن کمیٹی کو تحلیل کیا گیا۔

    اس موقع پر شاہد ہاشمی کا کہنا تھا کہ پاکستان کرکٹ اسی طرح تماشہ بنتی ہے، پوری دنیا میں یہ باتیں جارہی ہیں کہ تحقیقات کے لیے بلالیا۔ یہ تماشہ ہے اسے سکون اور آرام سے بھی کیا جاسکتا ہے۔

  • محمد عامر کی بابر اعظم کی کپتانی اور مائنڈ سیٹ پر تنقید

    محمد عامر کی بابر اعظم کی کپتانی اور مائنڈ سیٹ پر تنقید

    پاکستان کے فاسٹ بولر محمد عامر نے بابر اعظم کی کپتانی اور سسٹم میں تبدیلی سے متعلق بیان پر تنقید کی ہے۔

    پاکستان کی قومی کرکٹ ٹیم آئی سی سی ورلڈ کپ 2023 میں ناقص کارکردگی کے باعث سیمی فائنل میں جگہ نہیں بنا سکی، ساتھ ہی ایونٹ کے آخری میچ میں بھی بُری طرح ناکام ہی نظر آئی۔

    اس ناکامی کے بعد جہاں بابر اعظم کی مستقبل میں کپتانی سے متعلق کئی سوال اٹھے وہی ٹیم مینجمنٹ اور سسٹم پر  تنقید کی گئی۔

    اب کپتانی اور سسٹم سے متعلق سوال پر فاسٹ بولر محمد عامر نے نجی چینل پر گفتگو کی ہے، انہوں نے کہا کہ ’ سسٹم ہے کیا؟ سسٹم مطلب چند لوگوں کا گروپ، اور کپتان بھی اسی سسٹم کا حصہ ہوتا ہے، 1992 میں عمران خان کی قیادت میں ہم نے ورلڈ کپ جیتا، سسٹم وہی تھا، 1999 میں ہماری ٹیم ورلڈ بیٹر تھی، جو فائنل تک پہنچی۔ ہم نے اسی سسٹم کے ساتھ 2009 کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتا تھا، اسی سسٹم کے تحت ہم نے 2017 کی چیمپئنز ٹرافی جیتی تھی۔

    فاسٹ بولر محمد عامر نےکہا کہ بابر اعظم گزشتہ چار سال سے کپتان ہیں،  انہوں نے اپنی ٹیم اپنے بل بوتے پر بنائی ہے، مثال دیتے ہوئے فاسٹ بولر کا کہنا تھا کہ جوز بٹلر ہمارے سسٹم کا حصہ نہیں تو پھر انگلینڈ اتنا برا کیوں کھیلا؟ کیا انگلینڈ کے نظام میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے؟۔

    ان کا کہنا تھا کہ سسٹم جوں کا توں رہتا ہے، کپتان ہی ہے، جس نے اپنا مائنڈ سیٹ بدلنا ہوتا ہے جب تک کپتان کا مائنڈ سیٹ نہیں بدلے گا، سسٹم کچھ نہیں کر سکتا۔

    فاسٹ بولر کا مزید کہنا تھا کہ آج ہم بھارتی ٹیم کی مثال دیتے ہیں کہ دھونی نے بھارتی کرکٹ کو بدل دیا،  انہوں نے نے ٹیم بنائی سسٹم وہی ہے۔

  • ورلڈکپ میں شرمناک اختتام کے بعد کپتان بابراعظم نے کیا کہا؟

    ورلڈکپ میں شرمناک اختتام کے بعد کپتان بابراعظم نے کیا کہا؟

    آئی سی سی ورلڈکپ کے آخر میچ میں بھی شکست کے بعد پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بابراعظم نے ٹیم کی کارکردگی کو مایوس کن قرار دے دیا۔

    انگلینڈ کے خلاف شکست کے بعد میچ کے اختتام پر گفتگو کرتے ہوئے بابر اعظم نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج ہماری پرفارمنس مایوس کن رہی، افسوس ہے کہ ورلڈکپ کا اچھا اختتام نہیں کرسکے۔

    قومی کپتان نے ایونٹ میں اسپنرز کی کارکردگی پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ عالمی کپ 2023 میں اسپنرز کی کارکردگی سے مایوسی ہوئی۔

    کولکتہ میں میچ پریزنٹیشن کے دوران بابر اعظم نے کہا کہ پاکستان واپس جا کر کارکردگی کا جائزہ لیں گے، ساتھ میں انھوں نے یہ بھی کہا کہ یہاں سے مثبت چیزیں بھی لے کر جارہے ہیں۔

    بابر اعظم نے کہا کہ ہم نے اپنی پوری کوشش کی لیکن بدقسمتی سے ایک دو میچز میں قریب آکر ہارے۔ اگر ہم وہ میچ جیت جاتے تو یہ ایک مختلف کہانی ہوسکتی تھی لیکن بولنگ اور فیلڈنگ میں بہت سی غلطیاں ہوئیں۔

    انھوں نے کہا کہ سچ پوچھیں تو اس میچ میں ہم نے 20 سے 30 رنز اضافی دیے۔ ہم نے بہتر بالنگ نہیں کی۔ دسویں اوور کے بعد کئی لوز ڈلیوری ہوئیں اور اسپنرز ہمارے لیے وکٹیں حاصل نہیں کرسکے۔

    واضح رہے کہ آئی سی کرکٹ ورلڈکپ میں پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی نہایت خراب رہی اور پہلی بار ایسا ہوا کہ ٹیم ایونٹ کے دوران لگاتار چار میچز ہاری۔ پاکستان نے 9 میچز کھیلے جس میں اسے صرف 4 میں کامیابی ملی۔

    شوپیس ایونٹ کے آخر میچ میں بھی انگلینڈ نے گرین شرٹس کو باآسانی 93 رنز سے ہرایا۔ ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے سوائے سلمان آغا کے کوئی بیٹر نصف سنچری تک اسکور نہ کرسکا۔

  • رمیز راجہ نے بابر اعظم سے ملاقات کا احوال بتادیا

    رمیز راجہ نے بابر اعظم سے ملاقات کا احوال بتادیا

    پی سی بی کے سابق چیئرمین رمیز راجہ نے کپتان بابر اعظم سے ہونے والی ملاقات کا احوال بتادیا۔

    پاکستان کے آل فارمیٹ کے کپتان بابر اعظم مبینہ طور پر وائٹ بال کرکٹ میں کپتانی سے دستبردار ہونے پر غور کر رہے ہیں۔

    رپورٹ کے مطابق گزشتہ روز قومی ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے اس حوالے سے ایڈن گارڈنز کولکتا میں سابق چیئرمین پی سی بی رمیز راجا سے ملاقات کی، اس دوران کپتان نے اپنی کپتانی سے متعلق ان سے مشاورت کی۔

    اس مشاورت کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے سابق چیئرمین رمیز راجہ نے نے نجی چینل میں گفتگو کرتے  ہوئے بابر اعظم سے ملاقات کا احوال بتایا۔

    رمیز راجہ نے کہا کہ کھیل میں ہار جیت ہوتی ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کرکٹرز پر ہر طرف سے تنقید کی جائے، اگر کرکٹرز کی عزت نہیں ہوگی تو وہ کس طرح آگے بڑھیں گے۔

    ان کا کہنا تھا کہ میں مانتا ہوں کھلاڑیوں نے ورلڈ کپ میں بہت سی غلطیاں کی ہیں لیکن ہماری قوم کے مزاج میں بہت تلخی ہے اور ہمارے پلئیرز اس تلخی کو محسوس کرتے ہیں۔

    رمیز راجا کا کہنا تھا کہ سیمی فائنل میں کوالیفائی نہ کرنے پر بابر اعظم بہت افسردہ لگ رہے تھے اور مجھے یہ بہت برا لگا،  ان کی کپتانی کے حوالے سے گفتگو نجی تھی اور میں اسے عام نہیں کرنا چاہتا۔

    واضح رہے کہ پاکستان کرکٹ ٹیم کی رواں ورلڈکپ میں کارکردگی مایوس کن رہی، ٹیم کو بھارت، آسٹریلیا، جنوبی افریقا اور افغانستان سے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے، پاکستان کرکٹ ٹیم کے سیمی فائنل میں پہنچنے کے امکانات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔

  • بابر اعظم کو کپتانی چھوڑنی چاہئے یا نہیں؟ عبد الرزاق نے بتادیا

    بابر اعظم کو کپتانی چھوڑنی چاہئے یا نہیں؟ عبد الرزاق نے بتادیا

    بھارت میں ہونے والی آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ 2023 میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی پر سابق کرکٹر ز کی جانب شدید تنقید کی گئی ، ایسے میں اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ بابر اعظم نے بھی کپتانی سے متعلق صلاح مشورے شروع کردیئے ہیں۔

    نجی چینل کے ایک شو میں قومی ٹیم کے سابق آل راؤنڈر عبد الرزاق نے قومی ٹیم کے کپتان بابر اعظم کی کپتانی سے متعلق اپنی رائے دی اور انہیں مفید مشورہ بھی دیا۔

    سابق آل راؤنڈر عبد الرزاق نے بابر اعظم کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ انہیں کپتانی چھوڑ دینی چاہئے، انہوں نے کہا کہ بابر کو چاہئے کہ کھلاڑی کے طور پر ٹیم میں کھیلیں۔

    عبد الرزاق نے سابق بھارتی کپتان ویرات کوہلی کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اسے دیکھیں وہ بھی کپتانی سے علیحدہ ہوکر کتنا اچھا پر فارم کررہا ہے۔ دھونی نے بھی کپتانی چھوڑ کر بہت اچھا پر فارم کیا۔

    واضح رہے کہ قومی ٹیم کے کپتان بابر اعظم کے حوالے سے یہ اطلاعات سامنے آرہی ہیں کہ انہوں نے آئی سی سی ورلڈ کپ کے دوران ہونے والی شدید تنقید کے بعد کپتانی چھوڑنے کے حوالے سے مشاورت شروع کردی ہے۔

    ذرائع کے مطابق قومی ٹیم کے بابر اعظم کپتانی سے علیحدگی کے لئے سوچ بچار کررہے ہیں، جبکہ اطلاعات ہیں کہ وطن واپسی پر وہ اس حوالے سے فیصلہ کریں گے۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے ایڈن گارڈنز کولکتا میں سابق چیئرمین پی سی بی رمیز راجا سے بھی اس حوالے سے مشاورت کی ہے۔