کویت میں خواتین کے باتھ روم میں خفیہ کیمرا لگانے پر ایک ہندوستانی اور مصری کو سخت سزا سنادی گئی۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق کویت کی بدعنوانی کی عدالت نے دو تارکین وطن (ایک ہندوستانی اور ایک مصری) جن پر خواتین کے باتھ روم میں کیمرہ رکھنے کا الزام عائد کیا گیا تھا سخت سزا سنائی گئی۔
عدالت کی جانب سے دونوں غیر ملکیوں کو دو سال قید با مشقت کی سزا سنائی گئی اور سزا پوری ہونے کے بعد ملک بدری کا حکم دیا گیا، جبکہ موبائل فون جس سے ویڈیوز بنائی گئیں انہیں ضبط کرلیا گیا۔
رپورٹس کے مطابق فروانیہ گورنریٹ میں ایک کویتی خاتون کومقامی بینک کے خواتین کے باتھ روم میں خفیہ طریقے سے لگایا گیا موبائل فون ملا، جس کا کیمرہ ویڈیو بنانے کی غرض سے چالو حالت میں تھا، خاتون نے فوری طور پر پولیس کو شکایت کی جس کے فوری بعد ملزمان کو حراست میں لے لیا گیا۔
اس حوالے سے وزارت داخلہ کی جانب سے ایک اعلان سامنے آیا کہ کرمینل سیکیورٹی سیکٹر کے جنرل ڈپارٹمنٹ برائے کرمنل انویسٹی گیشن نے کارروائی کرتے ہوئے ایک عرب اور ایک ایشیائی شہری کو فون کے غلط استعمال کے الزام میں گرفتار کرلیا ہے۔
کراچی: شاہ لطیف میں شہری کو واش روم میں دیر لگانا مہنگا پڑ گیا، انتظار میں کھڑے افراد نے شہری کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔
کراچی کے علاقے شاہ لطیف حسن پنہور گوٹھ میں شہری کو واش روم میں دیر لگانا مہنگا پڑ گیا، انتظارمیں کھڑے افراد نے شہری کو لوہے کا سریا مار کر شہری کی آنکھ ہی پھوڑ دی۔
زخمی شخص انور نے شاہ لطیف تھانے میں مقدمہ درج کرا دیا، مقدمے کے متن کے مطابق کمپنی میں کام کرتا ہوں چھٹی لے کر گھر جارہا تھا۔
متاثر شخص انور نے کہا کہ راستے میں پیٹ میں درد ہوا تو قریبی مسجد کے واش روم چلا گیا، باہر نکلتے ہی حیات اللہ نامی شخص نے مارنا پیٹنا شروع کر دیا، میں نے کہا بھی میرے پیٹ میں درد تھا اس لیے واش روم گیا تھا۔
انور نے کہا کہ حیات اللہ نے ہاتھ میں پکڑا ہوا سریا میری آنکھ میں مار دیا، آنکھ سے خون نکلا تو میں بھاگا لیکن راستے میں بے ہوش ہو گیا جس کے بعد محلے کے لوگوں نے مجھے اٹھا کر اسپتال پہنچایا۔
مدعی مقدمے کے مطابق یہ جھگڑا حسن پنہور گوٹھ کی مسجد میں پیش آیا تھا، ملزمان حیات اللہ اور سلیم کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔
وینکوور: کینیڈا میں ایک ایسا باتھ روم بنایا گیا ہے جس میں رہنے کا ماہانہ کرایہ 88 ہزار روپے ہے۔
تفصیلات کے مطابق کینیڈا کے شہر وینکوور میں صاف ستھرا اور آسائشوں کے ساتھ ایک شان دار باتھ روم تعمیر کیا گیا ہے، اگرچہ یہ دنیا کا مہنگا ترین غسل خانہ نہیں ہے، تاہم 160 مربع فٹ والے اس باتھ روم میں رہنے کا ماہانہ کرایا 88 ہزار روپے پاکستانی ہے۔
جب اس باتھ روم کو کرائے پر دینے کے لیے مقامی اخبار میں اشتہار دیا گیا تو لوگ حیران رہ گئے، اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ اشتہار سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا۔
اس باتھ روم میں ایک آرام دہ بستر بھی بنایا گیا ہے، جس کے بچلے حصے میں درازیں موجود ہیں، اور بستر سے کچھ فاصلے پر نہانے دھونے کی جگہ بھی موجود ہے، باتھ روم کا فرش سفید ماربل ٹائلوں سے مزین ہے، اور یہ بے حد صاف ستھرا اور شفاف ہے، یہ باتھ روم سادگی، خوب صورتی اور اچھوتے پن کا ایک مجموعہ ہے.
قدرتی روشنی کے لیے اس باتھ روم میں ایک کھڑی بھی بنائی گئی ہے، اور یہاں گھر کی ہر سہولت موجود ہے، تاہم باورچی خانے کے بارے میں نہیں بتایا گیا ہے، سہولتوں اور آسائشوں کے باوجود لوگوں کا کہنا ہے کہ کہ کیا یہ اس قابل ہے کہ اس کا اتنا زیادہ کرایہ دیا جائے۔
امریکا میں ایک خاتون اپنے باتھ روم کا شیشہ ہٹانے پر اس کے پیچھے پورا اپارٹمنٹ دریافت ہونے پر حیران رہ گئیں۔
امریکی شہر نیویارک کی رہائشی خاتون سمانتھا ہرٹز نے اپنی اس دریافت کی سلسلہ وار ویڈیوز ٹک ٹاک پر پوسٹ کیں جنہیں اب تک لاکھوں افراد دیکھ اور لائیک کر چکے ہیں۔
سمانتھا کا کہنا تھا کہ ان کے باتھ روم میں کوئی کھڑکی نہیں تھی لیکن وہاں بہت تیز ہوا آرہی تھی، غور کرنے پر علم ہوا کہ یہ ہوا سنک کے اوپر لگے آئینے کے پیچھے سے آرہی تھی۔
انہوں نے شیشہ ہٹایا تو اس کے پیچھے ایک بڑا سا سوراخ تھا جس کے دوسری طرف ایک تاریک کمرہ تھا۔
بعد ازاں سمانتھا فیس ماسک اور گلوز پہن کر، ہاتھ میں ہتھوڑی لے کر دوسری طرف اتریں تو انہیں علم ہوا کہ وہ صرف ایک کمرہ نہیں بلکہ پورا کا پورا اپارٹمنٹ ہے۔
پورا اپارٹمنٹ کچرے سے اٹا ہوا تھا جبکہ وہاں پانی کی خالی بوتلیں بھی موجود تھیں، سمانتھا کا خیال تھا کہ وہاں پر کوئی موجود ہوگا لیکن اپارٹمنٹ خالی تھا۔
سوشل میڈیا پر ان کی پوسٹ کی گئی ویڈیوز پر صارفین مختلف تبصرے کر رہے ہیں۔
32 سالہ رحمت بی بی نے اپنی جھونپڑی کے دروازے سے باہر دیکھا، باہر گھپ اندھیرا تھا اور گہرا سناٹا۔ ایک لمحے کو اس کا دل گھبرایا لیکن باہر جانا بھی ضروری تھا، ضرورت ہی کچھ ایسی تھی۔
رحمت بی بی کچھ دیر برداشت کرتی رہیں لیکن جب معاملہ اس کی برداشت سے باہر ہونے لگا تو مجبوراً اس نے برابر میں سوئی اپنی بہن کو جگایا، بہن بمشکل آنکھیں کھول کر اس کی بات سننے کی کوشش کرتی رہی، پھر معاملے کو سمجھ کر وہ اٹھ گئی، دونوں بہنیں باہر گئیں جہاں گھر سے کچھ دور جھاڑیاں ان کی منزل تھیں۔ جھاڑیوں کو بطور بیت الخلا استعمال کرنے کے بعد دونوں بہنیں واپس جھونپڑی میں تھیں لیکن اس دوران دونوں جیسے کئی میل کا سفر طے کر آئی تھیں۔
رحمت بی بی پاکستان کی ان لاکھوں خواتین میں سے ایک ہیں جنہیں بیت الخلا کی سہولت میسر نہیں۔ یونیسف کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2 کروڑ 22 لاکھ افراد کھلے میں رفع حاجت کرتے ہیں، یعنی ملک کی 13 فیصد آبادی بیت الخلا سے محروم ہے۔
یہ افراد زیادہ تر گاؤں دیہات اور کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہیں۔ رحمت بی بی کا گاؤں بھی انہی میں سے ایک ہے۔ یہ گاؤں کراچی کے علاقے گڈاپ ٹاؤن کی حدود میں واقع ہے، اس کا نام مٹھو گوٹھ ہے، اور یہاں جا کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے زندگی کئی صدیاں پیچھے چلی گئی ہو۔
صوبہ بلوچستان اور صوبہ سندھ کی قدرتی سرحد یعنی کیرتھر کے پہاڑی سلسلے میں واقع یہ گاؤں ایک پہاڑ پر آباد ہے۔ اس گاؤں میں تقریباً 100 گھر ہیں اور ہر گھر میں 8 سے 10 افراد موجود ہیں جن میں سے نصف تعداد خواتین کی ہے۔
مٹھو گوٹھ 100 گھروں پر مشتمل گاؤں ہے
گاؤں کا انحصار زراعت پر ہے، یہاں چھوٹے پیمانے پر گندم، گوار اور مختلف سبزیاں اگائی جاتی ہیں جو نہ صرف ان گاؤں والوں کے اپنے کام آتی ہیں بلکہ اسے شہر میں لے جا کر فروخت بھی کیا جاتا ہے۔ گاؤں والوں نے مویشی بھی پال رکھے ہیں جن میں زیادہ تعداد بکریوں کی ہے، ان کا دودھ بھی شہر میں فروخت کیا جاتا ہے۔ تاہم اس سب کا انحصار بارش پر ہے۔ گاؤں میں پانی کا کوئی خاص انتظام موجود نہیں، بارش ہوتی ہے تو ہی ان کی فصلوں کو پانی ملتا ہے، اور جانور چارہ کھا سکتے ہیں۔ جس سال بارش کم ہو، اس سال یہاں خشک سالی ہوجاتی ہے اور یہاں کے لوگ عارضی طور پر ہجرت کر کے کسی دوسرے گاؤں یا شہر کے قریب جا رہتے ہیں، لیکن بارشیں ہوتے ہی واپس اپنے گاؤں مٹھو گوٹھ آجاتے ہیں۔
طویل عرصے سے آباد یہاں کے لوگوں کے معاشی حالات یا گاؤں کے مجموعی حالات میں بظاہر تو کوئی تبدیلی نہیں آئی، البتہ حال ہی میں آنے والی ایک تبدیلی ایسی ضرور ہے جس کی خوشی یہاں کی خواتین کے چہروں پر چمکتی دکھائی دیتی ہے۔ وہ تبدیلی ہے، خواتین کے لیے واش رومز کی تعمیر۔
اس گاؤں میں صرف ایک واش روم تھا جو گاؤں کی مسجد کے باہر بنا ہوا تھا اور یہ مردوں کے زیر استعمال رہتا تھا۔ نماز کے لیے وضو کے علاوہ اسے عام اوقات میں بھی استعمال کیا جاتا تھا۔
کچھ سال قبل جب یہاں طوفانی بارشوں کے سبب سیلاب آیا، اور امداد دینے کے لیے یہاں حکومتی افراد، غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) اور مخیر افراد کی آمد شروع ہوئی تو ان کے لیے ایک اور واش روم کی ضرورت پڑی۔ تب ایک این جی او نے یہاں ایک اور باتھ روم بنوا دیا لیکن وہ صرف باہر سے آنے والے مہمانوں کے لیے مخصوص تھا، اور عام دنوں میں اسے کوئی استعمال نہیں کرتا تھا۔
گاؤں کی خواتین صبح اور رات کے اوقات میں گھر سے دور، کھلے میں رفع حاجت کرنے پر مجبور تھیں۔ رحمت بی بی بتاتی ہیں، ’زیادہ مشکل اندھیرا ہونے کے بعد پیش آتی تھی۔ اس وقت کسی عورت کا اکیلے جانا ناممکن تھا۔ چنانچہ دو یا تین عورتیں مل کر ساتھ جایا کرتی تھیں، چھوٹی بچیاں عموماً اپنی بڑی بہنوں یا ماں کے ساتھ جاتیں۔‘
رحمت بی بی خاندان کی دیگر خواتین کے ساتھ
یہ ایک مستقل اذیت تھی جو گاؤں کی خواتین کو لاحق تھی۔ دن کے کسی بھی حصے میں اگر انہیں باتھ روم کی ضرورت پیش بھی آتی تو وہ اسے شام تک برداشت کرنے پر مجبور ہوتیں تاکہ مرد گھر لوٹ آئیں تو وہ سناٹے میں جا کر فراغت حاصل کرسکیں۔
گاؤں میں پہلے سے موجود 2 باتھ روم ان کے لیے غیر ضروری تھے، کیونکہ ان میں سے ایک تو مہمانوں کے لیے مخصوص تھا، جبکہ دوسرا مردوں کے زیر استعمال تھا، لہٰذا وہ شرم کے مارے چاہ کر بھی اسے استعمال نہیں کرتی تھیں۔
باتھ روم کی سہولت نہ ہونے اور صفائی کے ناقص انتظام کے باعث 2 خواتین یہاں ڈائریا کے ہاتھوں جان سے بھی دھو چکی تھیں۔
ان خواتین کی زندگی کا یہ سب سے بڑا مسئلہ اس وقت حل ہوا جب ایک غیر سرکاری تنظیم نے خواتین کی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے یہاں واش رومز بنوائے۔ خواتین کے لیے بنوائے جانے یہ دو بیت الخلا ان کے لیے رحمت ثابت ہوئے جو ان کے گھروں کو نزدیک بنوائے گئے تھے اور وہ دن کے کسی بھی حصے میں انہیں استعمال کرسکتی تھیں۔
نو تعمیر شدہ بیت الخلانو تعمیر شدہ بیت الخلا
اس بارے میں تنظیم کے سربراہ منشا نور نے بتایا کہ یہاں پر بیت الخلا کی تعمیر کا مقصد ایک تو ان خواتین کو محفوظ باتھ روم کی سہولت فراہم کرنا تھا، دوسرا صفائی کے رجحان کو بھی فروغ دینا تھا۔ ’جب ہم نے یہاں بیت الخلا بنوانے کا ارادہ کیا تو گاؤں کی خواتین سے اس بارے میں تفصیلی مشاورت ہوئی۔ انہیں ایک محفوظ باتھ روم نہ ہونے کی پریشانی تو ضرور تھی تاہم وہ اس بات سے بے خبر تھیں کہ کھلے میں رفع حاجت اور صفائی کا فقدان ان کی صحت کے لیے خطرناک مسائل پیدا کرسکتا ہے۔‘
منشا نور کے مطابق ان خواتین کو باتھ روم کی تعمیر کے ساتھ صحت و صفائی کے اصولوں کی بھی ٹریننگ دی گئی جیسے باتھ روم کے استعمال کے بعد ہاتھ دھونا، کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا، اور صابن کا باقاعدہ استعمال کرنا۔
کیا بیت الخلا کی تعمیر میں کوئی سماجی رکاوٹ بھی ہے؟
حکومت پاکستان کے ساتھ سینی ٹیشن پر کام کرنے والی تنظیم واٹر ایڈ کے پروگرام مینیجر عاصم سلیم کے مطابق گاؤں دیہات میں گھروں میں، یا گھروں کے قریب ٹوائلٹ نہ بنوانا، اس امر میں کہیں غربت ان کی راہ میں حائل ہے اور کہیں پر یہ ان کی صدیوں پرانی روایات و عادات کا حصہ ہے۔ ’ہر گاؤں میں ایک بیت الخلا ضرور ہوتا ہے لیکن اسے مہمانوں کے لیے تعمیر کیا جاتا ہے۔ مہمانوں کے لیے ایک مخصوص کمرہ بیٹھک (اور بعض زبانوں میں اوطاق) بیت الخلا کے بغیر ادھورا ہے، یہ کمرہ گاؤں کے بیچوں بیچ تعمیر کیا جاتا ہے اور اسے صرف مہمانوں کے لیے ہی استعمال میں لایا جاتا ہے۔‘
عاصم کے مطابق اکثر گاؤں دیہات کے مقامی مرد و خواتین کھلے میں رفع حاجت کے عادی ہوتے ہیں اور یہ ان کی عادت بن چکا ہے چنانچہ ان کی ٹیم اسی عادت کو تبدیل کرنے پر کام کرتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بعض جگہوں پر گاؤں والے ایک خاص وجہ کے تحت بھی بیت الخلا نہیں بنواتے۔ چونکہ گاؤں والے کنوؤں اور ہینڈ پمس کے ذریعے زمین کا پانی نکال کر اسے پینے، فصلوں کو پانی دینے اور دیگر ضروریات کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور ایسی جگہوں پر ایک باقاعدہ سیوریج سسٹم موجود نہیں ہوتا تو وہ سمجھتے ہیں کہ بیت الخلا بنوا کر اسے استعمال کرنا زیر زمین پانی کو آلودہ کرسکتا ہے۔ سیوریج سسٹم کی عدم موجودگی کے سبب وہ بیت الخلا بنوانا بے فائدہ سمجھتے ہیں۔
بیت الخلا کی تعمیر میں کیا چیلنجز درپیش ہیں؟
محکمہ صحت سندھ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ سندھ میں سینی ٹیشن پالیسی سنہ 2017 میں تشکیل دی گئی تھی جس کا موٹو ’صاف ستھرو سندھ‘ رکھا گیا۔ اس کے تحت صوبائی حکومت کا وعدہ ہے کہ سنہ 2025 تک سندھ سے کھلے میں رفع حاجت کے رجحان کا خاتمہ کردیا جائے گا۔
لیکن ترجمان کا کہنا ہے کہ اس میں انہیں بہت سے چیلنجز درپیش ہیں، ’سب سے پہلا چیلنج تو لوگوں کی اس عادت کو بدلنا ہے کہ وہ کھلے میں رفع حاجت کے رجحان کو ترک کر کے ٹوائلٹس کا استعمال شروع کریں۔‘
ان کے مطابق اس سلسلے میں کمیونٹیز کے ساتھ کام کرنے والے افراد بھی مخمصے کا شکار ہیں کہ ان کی صدیوں پرانی اس عادت کو بدلنے کے لیے کون سا طریقہ آزمایا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ کئی مقامات پر جب لوگوں کو ٹوائلٹس تعمیر کروا کر دیے گئے تو ایک صاف ستھری اور طریقے سے بنی ہوئی جگہ کو بطور بیت الخلا استعمال کرنے کو ان کا دماغ تیار نہیں ہوا، چنانچہ اکثر افراد نے انہیں بطور اسٹور روم اور بعض نے بطور کچن استعمال کرنا شروع کردیا۔
ترجمان کے مطابق اس وقت سندھ کے شہری علاقوں میں 74 فیصد افراد کو بیت الخلا کی سہولت میسر ہے جبکہ دیہی علاقوں میں یہ شرح صرف 48 فیصد ہے۔
ایک طرف تو سندھ حکومت اس غیر صحتمند رجحان کے خاتمے کے لیے کوشاں ہے، تو دوسری طرف مختلف این جی اوز بھی ان کی مدد کر رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف، جنہیں سنہ 2030 تک مکمل کیا جانا ہے، میں چھٹا ہدف بھی اسی سے متعلق ہے کہ ہر شخص کے لیے محفوظ بیت الخلا کی دستیابی کو یقینی بنایا جاسکے۔
گاؤں دیہات کی خواتین کو ٹوائلٹ کی عدم موجودگی میں تکلیف میں مبتلا دیکھ کر امید کی جاسکتی ہے کہ سنہ 2025 تک کھلے میں رفع حاجت کے رجحان کے خاتمے کا ہدف پورا ہوسکے گا۔
دنیا بھر میں بیت الخلا میں رفع حاجت کے لیے پانی کا مناسب انتظام موجود ہوتا ہے، پاکستان سمیت متعدد ممالک میں پانی کے بغیر باتھ روم جانے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
اس مقصد کے لیے لوٹے یا دوسرے نالی دار برتن، ہینڈ شاورز یا بیڈیٹ (جو ایک نالی کی شکل میں کموڈ سے ہی منسلک ہوتی ہے) کا استعمال عام ہے۔ تاہم امریکا میں ہمیشہ سے رفع حاجت کے بعد صرف ٹوائلٹ پیپر کو ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ امریکی اس مقصد کے لیے پانی کا استعمال کیوں نہیں کرتے؟
بیت الخلا میں رفع حاجت کے لیے بیڈیٹ سب سے پہلے فرانس میں متعارف کروائے گئے۔ بیڈیٹ بھی ایک فرانسیسی لفظ ہے جس کا مطلب ہے پونی یا چھوٹا گھوڑا۔ یہ بیڈیٹس پہلی بار فرانس میں 1700 عیسوی میں استعمال کیے گئے۔
اس سے قبل بھی وہاں رفع حاجت کے لیے پانی استعمال کیا جاتا تھا تاہم بیڈیٹ متعارف ہونے کے بعد یہ کام آسان ہوگیا۔ ابتدا میں بیڈیٹ صرف اونچے گھرانوں میں استعمال کیا جاتا تھا تاہم 1900 عیسوی تک یہ ہر کموڈ کا باقاعدہ حصہ بن گیا۔
یہاں سے یہ بقیہ یورپ اور پھر پوری دنیا میں پھیلا لیکن امریکیوں نے اسے نہیں اپنایا۔ امریکیوں کا اس سے پہلا تعارف جنگ عظیم دوئم کے دوران ہوا جب انہوں نے یورپی قحبہ خانوں میں اسے دیکھا، چنانچہ وہ اسے صرف فحش مقامات پر استعمال کی جانے والی شے سمجھنے لگے۔
سنہ 1960 میں آرنلڈ کوہن نامی شخص نے امریکن بیڈیٹ کمپنی کی بنیاد ڈال کر اسے امریکا میں بھی رائج کرنے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہا۔ امریکیوں کے ذہن میں بیڈیٹ کے بارے میں پرانے خیالات ابھی زندہ تھے۔
اس کے علاوہ امریکی بچپن سے ٹوائلٹ پیپر استعمال کرنے کے عادی تھے چانچہ وہ اپنی اس عادت کو بدل نہیں سکتے تھے۔
اسی وقت جاپان میں بیڈیٹ کو جدید انداز سے پیش کیا جارہا تھا۔ ٹوٹو نامی جاپانی کمپنی نے ریموٹ کنٹرول سے چلنے والے الیکٹرک بیڈٹ متعارف کروا دیے تھے۔
اب سوال یہ ہے کہ امریکی بیت الخلا میں پانی کے استعمال سے اس قدر گریزاں کیوں ہیں؟
اس کی بنیادی وجہ تو یہ ہے کہ امریکا میں تعمیر کیے جانے والے باتھ رومز میں جگہ کی کمی ہوتی ہے لہٰذا اس میں کوئی اضافی پلمبنگ نہیں کی جاسکتی۔
اس کے علاوہ امریکیوں کی ٹوائلٹ رول کی عادت بھی اس کی بڑی وجہ ہے جس کے بغیر وہ خود کو ادھورا سمجھتے ہیں۔ اب بھی امریکا میں کئی لوگوں کو علم ہی نہیں کہ رفع حاجت کے لیے ٹوائلٹ پیپر کے علاوہ بھی کوئی متبادل طریقہ ہے۔
امریکیوں کی یہ عادت ماحول کے لیے بھی خاصی نقصان دہ ہے۔ ایک ٹوائلٹ رول بنانے کے لیے 37 گیلن پانی استعمال کیا جاتا ہے، اس کے برعکس ایک بیڈیٹ شاور میں ایک گیلن پانی کا صرف آٹھواں حصہ استعمال ہوتا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق امریکا میں روزانہ 3 کروڑ 40 لاکھ ٹوائلٹ پیپر استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ ایک امریکی کے پوری زندگی کے ٹوائلٹ پیپر کے لیے 384 درخت کاٹے جاتے ہیں۔
اس ضمن میں ایک تجویز ویٹ وائپس کی بھی پیش کی جاسکتی ہے کہ وہ اس کا متبادل ہوسکتے ہیں، تاہم ایسا ہرگز نہیں۔ ویٹ وائپس کا مستقل استعمال جلد پر خارش اور ریشز پیدا کرسکتا ہے۔ یہ وائپس سیوریج کے لیے بھی خطرہ ہیں جو گٹر لائنز میں پھنس جاتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق رفع حاجت کے لیے پانی کا استعمال پیشاب کی نالی کے انفیکشن ہیمرائیڈ سمیت بے شمار بیماریوں سے تحفظ دے سکتا ہے جبکہ یہ صفائی کا بھی احساس دلاتا ہے۔
جو لوگ اپنی صحت کے بارے میں فکر مند ہوتے ہیں وہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں بے شمار ایسے کام سر انجام دیتے ہیں جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ صحت مند ہیں۔
ایسے لوگ صفائی کا بے حد خیال رکھتے ہیں، کھانے میں نہایت احتیاط کرتے ہیں اور بہت زیادہ ورزشیں کرتے ہیں۔
لیکن ان میں سے کچھ عادات ایسی ہوتی ہیں جو ہمیں فائدہ پہنچانے کے بجائے نقصان پہنچاتی ہیں یا غیر ضروری ہوتی ہیں۔ نئے سال کا آغاز ہے، تو کیوں نہ ان مضر عادات سے چھٹکارہ حاصل کرلیا جائے جو بظاہر صحت مند لگتی ہیں۔
کم چکنائی والی غذائیں
ایک عام خیال ہے کہ وزن کم کرنے کا سب سے آزمودہ طریقہ کم چکنائی والے کھانے کھانا ہے۔ لیکن یہ بات جاننے کی ضرورت ہے کہ ہمارے جسم کے لیے چکنائی بھی بے حد ضروری ہے اور اگر ہم اپنی غذا سے چکنائی کا استعمال بالکل ختم کردیں گے تو ہمارا جسم خشکی کا شکار ہو کر مختلف مسائل کا شکار ہوجائے گا۔
یہی نہیں کم چکنائی والی غذائیں وزن گھٹانے میں بھی کوئی خاص کردار ادا نہیں کرتیں۔
صرف انڈے کی سفیدی کھانا
ایک عام خیال ہے کہ انڈے کی زردی کولیسٹرول میں اضافہ کرتی ہے۔ ماہرین نے اس خیال کی نفی کردی ہے۔
انڈے کی سفیدی اور زردی جسم کے لیے یکساں مفید ہے اور یہ جسم کو کوئی نقصان نہیں پہنچاتی۔
جوس پینا
جب آپ کسی سبزی یا پھل کا جوس نکالتے ہیں تو آپ اس پھل کے تمام ریشہ دار اجزا کو ختم کردیتے ہیں۔ یہ ریشہ آپ کو پیٹ بھرے ہونے کا احساس دلاتا ہے اور قبض سے بچاتا ہے۔
اس کے برعکس جب آپ صرف جوس پیتے ہیں تو وہ تھوڑی ہی دیر میں ہضم ہوجاتا ہے اور آپ کو پھر سے بھوک لگنے لگتی ہے۔
سینی ٹائزر کا استعمال
اگر آپ سینی ٹائزر کا استعمال کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ صفائی کا حد سے زیادہ خیال رکھتے ہیں اور دن میں بے شمار مرتبہ ہاتھ دھوتے ہوں گے۔
سینی ٹائزر کا استعمال اس وقت درست ہے جب آپ کو دن بھر مصروفیت کے باعث کم ہاتھ دھونے کا موقع ملے۔ اگر آپ دن میں کئی مرتبہ ہاتھ دھوتے ہیں تو سینی ٹائزر کا استعمال غیر ضروری ہے۔
کسی کے کھانسنے پر سانس روک لینا
اگر آپ کے قریب بیٹھا کوئی شخص کھانسے یا چھینکے تو ہوسکتا ہے آپ چند لمحوں کے لیے اپنی سانس روک لیتے ہوں گے تاکہ جراثیم آپ کی سانس کے ساتھ اندر نہ جائیں۔
لیکن یہ ایک غیر ضروری عمل ہے۔ چھینک اور کھانسی کے جراثیم بہت تیز رفتار ہوتے ہیں اور یہ آپ کے منہ، ناک اور آنکھوں میں جاسکتے ہیں۔
باتھ روم کی سیٹ پر کور
اگر آپ سوچتے ہیں کہ آپ اپنے باتھ روم میں کموڈ پر پلاسٹک کی شفاف لائننگ لگا کر جراثیموں سے بچ سکتے ہیں تو آپ بالکل غلط ہیں۔ لائننگ والے کموڈز بغیر لائننگ والے کموڈ سے زیادہ آلودہ ہوتے ہیں اور ان میں پنپنے والے جراثیم سے آپ کو ایڈز تک کا خطرہ ہوتا ہے۔
اس کے اثرات اس وقت مزید بدترین ہوجاتے ہیں جب آپ کی جلد پر کوئی کٹ یا کھلا زخم موجود ہو۔ اس کٹ کے ذریعہ ہر قسم کے جراثیم آپ کے جسم میں داخل ہوسکتے ہیں۔
دانتوں میں خلال
دانتوں میں خلال کرنا ایک قدیم روایت ہے جسے کھانے کے بعد نہایت ضروری سمجھا جاتا ہے۔ لیکن حال ہی میں امریکی ماہرین نے ایک تحقیق کی جس میں انہوں نے دانتوں میں کسی شے خاص طور پر دھاگے سے خلال کرنا دانتوں کے لیے مضر قرار دیا۔
انگلیاں ںہ چٹخانا
ایک عام خیال ہے کہ انگلیوں کو چٹخانا انگلیوں کے جوڑوں کے لیے نقصان دہ عمل ہے اور یہ آپ کے قریب موجود افراد کو بھی الجھن میں مبتلا کر سکتا ہے۔
لیکن حال ہی میں ایک تحقیق میں اس عمل کو جوڑوں کے لیے بہترین ورزش قرار دیا گیا۔ یہ ورزش انگلیوں کے جوڑوں کو لچکدار بناتی ہے لیکن اسے ایک حد میں کرنا درست ہے۔
کھڑے ہو کر کام کرنا
دفاتر میں 8 گھنٹے یا اس سے زیادہ وقت تک بیٹھے رہنا صحت پر بدترین اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہ امراض قلب اور موٹاپے سمیت مختلف بیماریوں میں مبتلا کرسکتا ہے۔
لیکن اگر آپ سوچتے ہیں کہ ان بیماریوں سے بچنے کے لیے آپ اپنے دفتر میں ایسی اونچی ڈیسک استعمال کریں جس کے لیے آپ کو کھڑے ہو کر کام کرنا پڑے تو آپ بالکل غلط ہیں۔
ماہرین کے مطابق آپ اپنے دفتر کے 8 گھنٹوں میں وقفے وقفے سے چل پھر سکتے ہیں، لیکن مستقل کھڑے ہوکر کام کرنا نہایت ہی نقصان دہ عادت ہے۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
دنیا بھر میں آج بیت الخلا کا عالمی دن یعنی ورلڈ ٹوائلٹ ڈے منایا جا رہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد ہماری زندگیوں میں بیت الخلا کی موجودگی کی اہمیت اور پسماندہ علاقوں میں اس کی عدم فراہمی کے مسئلے کی طرف توجہ مبذول کروانا ہے۔
عالمی ترقیاتی ادارے واٹر ایڈ کے مطابق پاکستان کی لگ بھگ پونے 7 کروڑ آبادی صاف ستھرے بیت الخلا یا سرے سے ٹوائلٹ کی سہولت سے ہی محروم ہے جبکہ دنیا بھر میں ہر 8 میں سے 1 شخص کو محفوظ بیت الخلا تک رسائی دستیاب نہیں۔
سنہ 2013 سے اس دن کے انعقاد کا آغاز کیے جانے کا مقصد اس بات کو باور کروانا ہے کہ صحت و صفائی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک محفوظ اور باقاعدہ بیت الخلا اہم ضرورت ہے۔ اس کی عدم دستیابی یا غیر محفوظ موجودگی بچوں اور بڑوں میں مختلف بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔
یونیسف کا کہنا ہے کہ پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جہاں لوگ کھلے عام رفع حاجت کرتے ہیں۔ یعنی کل آبادی کے 13 فیصد حصے یا 2 کروڑ 5 لاکھ افراد کو ٹوائلٹ کی سہولت میسر نہیں۔ یہ تعداد زیادہ تر دیہاتوں یا شہروں کی کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہے۔
یونیسف ہی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صفائی کی ناقص صورت حال کی وجہ سے روزانہ پانچ سال کی عمر کے 110 بچے اسہال، دست اور اس جیسی دیگر بیماریوں کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں۔
دوسری جانب دنیا بھر میں صفائی کی ناقص صورتحال کے باعث ہونے والی اموات کی شرح 2 لاکھ 80 ہزار سالانہ ہے۔
ٹوائلٹ ۔ ایک سماجی مسئلہ
گزشتہ برس بھارت میں بیت الخلا کی عدم موجودگی ایک سماجی مسئلہ بن کر سامنے آئی جب دیہاتوں میں کھلے عام رفع حاجت کے لیے جانے والی خواتین پر جنسی حملے ہوئے اور کئی خواتین زیادتی کا نشانہ بنیں۔
اس کے بعد بھارت میں بیت الخلا تعمیر کرنے کی ملک گیر مہم شروع ہوگئی جس میں بالی ووڈ اداکاروں نے بھی حصہ لیا۔ اس بارے میں آگاہی مہمات بھی شروع ہوئیں جس کے خاطر خواہ تنائج برآمد ہوئے۔
کچھ عرصے قبل بالی ووڈ اداکار اکشے کمار کی فلم ’ٹوائلٹ ۔ ایک پریم کتھا‘ بھی بھارت کے اہم ترین مسئلے بیت الخلا کی عدم موجودگی کی طرف توجہ دلانے کے لیے بنائی گئی۔
بھارت میں اس وقت 63 کروڑ سے زائد افراد بیت الخلا کی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔
فلم کی ریلیز کے موقع پر اکشے کمار کا کہنا تھا، ’بھارتیوں کا ایک مائنڈ سیٹ ہے کہ جہاں کھانا پکایا جاتا ہے، کھایا جاتا ہے، وہاں رفع حاجت نہیں کی جاسکتی، اور اس کے لیے گھروں سے باہر جا کر اس بنیادی ضرورت کو پورا کیا جاتا ہے۔ ہم اس فلم کے ذریعے اس نظریے کے خلاف لڑ رہے ہیں‘۔
پاکستان میں بیت الخلا استعمال کرنے کے رجحان میں اضافہ
نئی صدی کے آغاز میں طے کیے جانے والے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز میں (جن کا اختتام سنہ 2015 میں ہوگیا) صاف بیت الخلا کی فراہمی بھی ایک اہم ہدف تھا۔ پاکستان اس ہدف کی نصف تکمیل کرنے میں کامیاب رہا۔
رپورٹس کے مطابق سنہ 1990 تک صرف 24 فیصد پاکستانیوں کو مناسب اور صاف ستھرے بیت الخلا کی سہولت میسر تھی اور 2015 تک یہ شرح بڑھ کر 64 فیصد ہوگئی۔
سنہ 2016 سے آغاز کیے جانے والے اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف میں طے کیا گیا ہے کہ سنہ 2030 تک دنیا کے ہر شخص کو صاف ستھرے بیت الخلا کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
پاکستان اس ہدف کی تکمیل کے لیے پرعزم ہے۔ پاکستان میں یونیسف کی ترجمان انجیلا کیارنے کا کہنا ہے کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں باتھ روم کا استعمال بڑھ رہا ہے اور یہ ایک حیرت انگیز اور خوش آئند کامیابی ہے۔
کئی دیہی علاقوں میں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت یا کسی سماجی تنظیم کے تعاون سے باتھ روم کی تعمیر کروا رہے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت کے مقابلے میں پاکستانیوں کو باتھ روم کی اہمیت کا احساس ہے۔
ایک بہترین مثال
دیہی آبادیوں کو بیت الخلا استعمال کرنے پر مجبور کرنا بھی ایک مسئلہ ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سالوں سے کھلے میں رفع حاجت کرنے کے عادی ہیں۔ اس کی ایک بہترین مثال نیپال میں پیش کی گئی۔
نیپال میں حکومت عوامی تعاون کے ساتھ ملک بھر میں کھلے میں رفع حاجت کرنے کے عمل کو رواں برس کے آخر تک ختم کرنا چاہتی ہے۔
اس مقصد کے لیے گزشتہ برس دیہاتوں میں بچوں کو ایک رضا کارانہ عمل کے لیے تیار کیا گیا۔ یہ بچے ہر روز صبح کھیتوں میں نکلتے ہیں اور جہاں کہیں کسی شخص کو رفع حاجت کرتے پاتے ہیں تو اسے سیٹیاں بجا کر تنگ کرتے ہیں۔
بعد ازاں بچے اس مقام پر جہاں کسی شخص نے رفع حاجت کی ہو، ایک پیلا جھنڈا گاڑ کر اس شخص کا نام لکھ دیتے ہیں تاکہ وہ شرمندہ ہو کر دوبارہ گھر سے باہر یہ عمل نہ دہرائے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صاف ستھرے بیت الخلا کے استعمال اور صحت و صفائی کو فروغ دینے کے لیے مؤثر اقدامات اور آگاہی مہمات چلائی جانی ضروری ہیں۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
ممبئی: بالی ووڈ اداکار اکشے کمار کی حال ہی میں ریلیز ہونے والی ’ٹوائلٹ ۔ ایک پریم کتھا‘ جو بھارت میں بیت الخلا کی عدم موجودگی کے سنگین مسئلے پر بنائی گئی ہے، نے ہالی ووڈ اداکاروں کو بھی متاثر کردیا۔
ہالی ووڈ کے معروف اداکار میٹ ڈیمن نے فلم دیکھنے کے بعد اکشے کمار کی تعریفوں کے پل باندھ دیے۔
ایک بھارتی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اکشے کمار جیسے اداکار بہترین انسان بھی ہیں جو اپنے ملک کے سماجی مسئلوں کو آرٹ کے ذریعے اجاگر کر رہے ہیں۔
میٹ ڈیمن خود بھی واٹر ڈاٹ اورگ نامی تنظیم کے بانی ہیں جو غیر ترقی یافتہ ممالک میں صاف پانی اور محفوظ بیت الخلا کی دستیابی کے لیے کام کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پسماندہ علاقوں میں بیت الخلا کی سہولت نہ ہونا نہایت سنگین مسئلہ ہے جو صحت اور معیشت کو متاثر کرتا ہے جبکہ اس سے کئی دیگر سماجی مسائل بھی جنم لیتے ہیں۔
فلم ’ٹوائلٹ ۔ ایک پریم کتھا‘ دراصل ایک جوڑے کی کہانی ہے جس میں ہیروئن دوسرے گاؤں سے بیاہ کر جس گاؤں میں آتی ہے وہاں گھروں میں بیت الخلا موجود نہیں۔ اس بنیادی سہولت کی عدم دستیابی پر وہ (بھومی پڈنیکر) احتجاجاً گھر چھوڑ کر چلی جاتی ہے اور یہیں سے تبدیلی کا آغاز ہوتا ہے۔
اس کے بعد کی فلم اکشے کمار کی جدوجہد پر مبنی ہے کہ کس طرح وہ گھر میں بیت الخلا بنوانے کے لیے لڑتا ہے اور بے شمار مشکلات کا سامنا کرتا ہے۔
یہ فلم بہت زیادہ ریونیو تو نہ کما سکی بہرحال بھارتی باکس آفس پر کامیاب رہی۔
فلم نے اپنی ریلیز سے قبل ہی ہالی ووڈ کو بھی اپنی طرف متوجہ کرلیا تھا۔ اس سے قبل اداکارہ سلمیٰ ہائیک نے بھی فلم کی ریلیز اور اکشے کمار کے لیے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کیا تھا۔
اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔
دنیا بھر میں آج بیت الخلا کا عالمی دن یعنی ورلڈ ٹوائلٹ ڈے منایا جا رہا ہے۔ عالمی ترقیاتی ادارے واٹر ایڈ کے مطابق پاکستان کی لگ بھگ پونے 7 کروڑ آبادی صاف ستھرے بیت الخلا یا سرے سے ٹوائلٹ کی سہولت سے ہی محروم ہے جبکہ دنیا بھر میں ہر 8 میں سے 1 شخص کو محفوظ بیت الخلا تک رسائی دستیاب نہیں۔
سنہ 2013 سے اس دن کے انعقاد کا آغاز کیے جانے کا مقصد اس بات کو باور کروانا ہے کہ صحت و صفائی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک محفوظ اور باقاعدہ بیت الخلا اہم ضرورت ہے۔ اس کی عدم دستیابی یا غیر محفوظ موجودگی بچوں اور بڑوں میں مختلف بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔
یونیسف کا کہنا ہے کہ پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے جہاں لوگ کھلے عام رفع حاجت کرتے ہیں۔ یعنی کل آبادی کے 13 فیصد حصے یا 2 کروڑ 5 لاکھ افراد کو ٹوائلٹ کی سہولت میسر نہیں۔ یہ تعداد زیادہ تر دیہاتوں یا شہروں کی کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہے۔
یونیسفہی کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صفائی کی ناقص صورت حال کی وجہ سے روزانہ پانچ سال کی عمر کے 110 بچے اسہال، دست اور اس جیسی دیگر بیماریوں کے باعث ہلاک ہو جاتے ہیں۔
دوسری جانب دنیا بھر میں صفائی کی ناقص صورتحال کے باعث ہونے والی اموات کی شرح 2 لاکھ 80 ہزار سالانہ ہے۔
ٹوائلٹ ۔ ایک سماجی مسئلہ
گزشتہ برس بھارت میں بیت الخلا کی عدم موجودگی ایک سماجی مسئلہ بن کر سامنے آئی جب دیہاتوں میں کھلے عام رفع حاجت کے لیے جانے والی خواتین پر جنسی حملے ہوئے اور کئی خواتین زیادتی کا نشانہ بنیں۔
اس کے بعد بھارت میں بیت الخلا تعمیر کرنے کی ملک گیر مہم شروع ہوگئی جس میں بالی ووڈ اداکاروں نے بھی حصہ لیا۔ اس بارے میں آگاہی مہمات بھی شروع ہوئیں جس کے خاطر خواہ تنائج برآمد ہوئے۔
دو روز قبل ہی گوگل بھی بھارت کی اس مہم میں شامل ہوگیا ہے اور اس نے بھارتی عوام کو ٹوائلٹ تلاش کرنے کے لیے خصوصی میپ ایپلی کیشن متعارف کروا دی ہے۔
اس ایپ میں ٹوائلٹ کی تلاش کے لیے تقشے کے ساتھ ایک خصوصی ٹول متعارف کروایا گیا ہے جو لوگوں کو صاف عوامی ٹوائلٹس کی تلاش اور اس تک رسائی حاصل کرنے میں مدد فراہم کرے گا۔
پاکستان کہاں کھڑا ہے؟
نئی صدی کے آغاز میں طے کیے جانے والے ملینیئم ڈویلپمنٹ گولز میں (جن کا اختتام سنہ 2015 میں ہوگیا) صاف بیت الخلا کی فراہمی بھی ایک اہم ہدف تھا۔ پاکستان اس ہدف کی نصف تکمیل کرنے میں کامیاب رہا۔
رپورٹس کے مطابق سنہ 1990 تک صرف 24 فیصد پاکستانیوں کو مناسب اور صاف ستھرے بیت الخلا کی سہولت منظور تھی اور 2015 تک یہ شرح بڑھ کر 64 فیصد ہوگئی۔
سنہ 2016 سے آغاز کیے جانے والے اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف میں طے کیا گیا ہے کہ سنہ 2030 تک دنیا کے ایک ایک شخص کو صاف ستھرے بیت الخلا کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔
پاکستان اس ہدف کی تکمیل کے لیے پرعزم ہے۔ پاکستان میں یونیسف کی ترجمان انجیلا کیارنے کا کہنا ہے کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں باتھ روم کا استعمال بڑھ رہا ہے اور یہ ایک حیرت انگیز اور خوش آئند کامیابی ہے۔
ایک بہترین مثال
دیہی آبادیوں کو بیت الخلا استعمال کرنے پر مجبور کرنا بھی ایک مسئلہ ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ وہ سالوں سے کھلے میں رفع حاجت کرنے کے عادی ہیں۔ اس کی ایک بہترین مثال نیپال میں پیش کی گئی۔
نیپال میں حکومت عوامی تعاون کے ساتھ ملک بھر میں کھلے میں رفع حاجت کرنے کے عمل کو سنہ 2017 تک ختم کرنا چاہتی ہے۔
اس مقصد کے لیے دیہاتوں میں بچوں کو ایک رضاکارانہ عمل کے لیے تیار کیا گیا۔ یہ بچے ہر روز صبح کھیتوں میں نکلتے ہیں اور جہاں کہیں کسی شخص کو رفع حاجت کرتے پاتے ہیں تو اسے سیٹیاں بجا کر تنگ کرتے ہیں۔
بعد ازاں بچے اس مقام پر جہاں کسی شخص نے رفع حاجت کی ہو، ایک پیلا جھنڈا گاڑ کر اس شخص کا نام لکھ دیتے ہیں تاکہ وہ شرمندہ ہو کر دوبارہ گھر سے باہر یہ عمل نہ دہرائے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ صاف ستھرے بیت الخلا کے استعمال اور صحت و صفائی کو فروغ دینے کے لیے مؤثر اقدامات اور آگاہی مہمات چلائی جانی ضروری ہیں۔