Tag: بادشاہ اور فقیر

  • مغل بادشاہ اور بہروپیا

    مغل بادشاہ اور بہروپیا

    اردو کے نام ور ادیب، افسانہ نگار اور ناصح اشفاق احمد نے اپنی مشہور کتاب ’’زاویہ‘‘ میں‌ ایک بہروپیے کا پُرلطف اور سبق آموز قصّہ رقم کیا ہے جو پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔

    یہ قصّہ مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر اور ایک بہروپیے کے درمیان ہونے والی گفتگو پر مبنی ہے۔ مشہور ہے کہ اورنگزیب عالمگیر کھیل تماشوں سے دور رہتا تھا اور علما و قابل لوگوں کی محفل و مجلس پسند کرتا تھا۔

    ایک روز ایک شخص اس کے دربار میں حاضر ہوا اور کہا:” شہنشاہِ معظّم ! میرا نام کندن بہروپیا ہے اور میں ایسا بہروپ بدل سکتا ہوں کہ آپ، جنھیں اپنے تبحرِ علمی پہ بڑا ناز ہے، دھوکا دے سکتا ہوں، اور غُچہ دے کر کام یابی سے نکل جانے کی صلاحیت رکھتا ہوں۔”

    اورنگ زیب نے اس کا دعویٰ نظر انداز کرتے ہوئے کہا کہ یہ تضیعِ اوقات ہے، میں تو شکار کو بھی کارِ بیکار سمجھتا ہوں۔ اس شخص نے اصرار کیا، شہنشاہِ معظم کی دانش کا جواب نہیں لیکن آزمانے کو سہی، میں موقع دیکھ کر بھیس بدلوں گا اور آپ مجھے نہ پہچان سکے تو پانچ سو روپے عنایت کر دیجیے گا۔ بادشاہ نے اس کا دل رکھنے کو بات مان لی۔ وہ شخص دربار سے چلا گیا۔

    اس بات کو سال ہی گزرا تھا جب اورنگزیب عالمگیر نے مرہٹوں پر حملہ کیا۔ وہ اپنے مضبوط قلعے میں تھے۔ اورنگزیب کے لشکر کو مشکل کا سامنا تھا۔ لوگوں نے کہا یہاں ایک درویش رہتے ہیں، ان کی خدمت میں حاضر ہوں اور دعا کی درخواست کریں تو قلعہ تسخیر کرسکتے ہیں۔

    اورنگزیب نے بزرگ کی خدمت میں‌ حاضری کا فیصلہ کیا۔ اس نے فقیر کو اپنی آمد کا مقصد بتایا اور اپنا مدعا اس کے سامنے رکھا تو فقیر نے کہا کہ اگر اس کا لشکر پرسوں بعد نمازِ ظہر حملہ کرے تو کام یابی نصیب ہوگی۔

    اورنگزیب نے ایسا ہی کیا اور قلعہ فتح ہو گیا۔ فوج کو معلوم تھا کہ وہ بزرگ کی دعا لے کر لوٹا ہے اور انہی کے کہنے پر پوری قوّت سے حملہ کرنے کے لیے یہ دن اور وقت چنا گیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ بادشاہ کی فوج جوش و ولولے سے بھری ہوئی تھی اور ان کے ارادے مضبوط تھے۔ فتح کے بعد بادشاہ اس فقیر کے پاس گیا اور بڑی جاگیر اور مراعات اس کے نام کرنا چاہیں۔ فقیر نے انکار کردیا۔

    اورنگزیب نے بڑا زور لگایا لیکن وہ نہیں مانا اور بادشاہ مایوس ہو کے واپس آگیا۔ چند روز بعد وہی فقیر بادشاہ کے دربار میں‌ آیا تو شہنشاہ نے کہا: "حضور آپ یہاں کیوں تشریف لائے، مجھے حکم دیتے میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا۔”

    فقیر نے کہا! ” نہیں شہنشاہِ معظّم! آپ نے مجھے پہچانا نہیں‌، میں کندن بہروپیا ہوں، میرے پانچ سو روپے مجھے عنایت فرمائیں۔” اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی۔

    بادشاہ کو یاد آگیا کہ یہی وہ آدمی ہے جو اس کے دربار میں پہلے بھی آیا تھا۔ اورنگزیب نے کہا:”مجھے پانچ سو روپے دینے میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ میں آپ سے یہ پوچھتا ہوں جب میں نے آپ کے نام اتنی زمین اور مراعات دینا چاہیں تو انکار کیوں کیا؟ آپ تو بہت عیش سے رہ سکتے تھے، یہ پانچ سو روپیہ تو اس کے آگے کچھ بھی نہیں۔

    کندن بہروپیے نے کہا: ” حضور بات یہ ہے کہ میں نے جن کا روپ دھارا تھا، ان کی عزّت مقصود تھی۔ وہ سچّے لوگ ہیں، ہم جھوٹے۔ یہ میں نہیں کر سکتا کہ روپ سچّوں کا دھاروں اور پھر بے ایمانی بھی کروں۔

    قصہ مختصر کہ بھلے وقتوں میں لوگ کسی کا سوانگ بھرتے تو اس کے وقار اور ناموس کا بھی خوب لحاظ کرتے، اور کوئی ایسی حرکت نہ کرتے جس سے اس حقیقی کردار کی رسوائی اور جگ ہنسائی کا اندیشہ ہوتا۔ آج کل سچّے اور کھرے لوگوں کا بھیس بدل کر ہر وہ کام کیا جاتا ہے، جس سے ان کی عزت پر حرف آتا ہے۔

  • خواہشات کا کشکول

    خواہشات کا کشکول

    جب انسان میّسر و موجود سے بڑھ کر خواہش کرتا ہے اور صبر و شکر، اعتدال اور قناعت کا راستہ ترک کردیتا ہے تو پھر یہ نفسانی خواہشات بہ آسانی اس پر غلبہ پالیتی ہیں اور اس کے لیے نیک و بد میں‌ تمیز کرنا ممکن نہیں‌ رہتا۔ یوں‌ وہ زمین پر فساد برپا کرنے لگتا ہے، ظلم، انصافی، حق تلفی غرض ہر قسم کی برائی میں مبتلا ہوتا چلا جاتا ہے۔

    پیشِ نظر حکایت ایک عظیم سچ اور آفاقی حقیقت کو ہمارے سامنے لاتی ہے، جس کے دو کردار بادشاہ اور فقیر ہیں جن میں‌ سے ایک کو ہم دولت مند اور بااختیار فرض کرسکتے ہیں اور دوسرے کو خدا کا فرماں‌ بردار اور قانع و شکر گزار کہہ سکتے ہیں۔ اس حکایت کے مختلف حوالے ملتے ہیں جن میں‌ اسے کبھی شیخ سعدی سے منسوب کیا گیا ہے تو کہیں‌ رومی سے۔ اسی طرح‌ یہ قصّہ مختلف صوفیائے کرام اور بزرگوں کے نام بھی پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے۔

    یہ حکایت کچھ اس طرح‌ ہے:

    مشہور ہے کہ کسی عظیم سلطنت کے فرماں‌ روا کا سامنا ایک درویش سے ہوا۔ ”بادشاہ نے بصد عجز و نیاز اس سے کہا، مانگو کیا مانگتے ہو؟” اس درویش نے اپنا کشکول آگے کر دیا اور مسکراتے ہوئے بولا۔

    ”حضور! صرف میرا کشکول بھر دیں۔” بادشاہ نے فوراً اپنے گلے کے ہار اتارے، انگوٹھیاں اتاریں، جیب سے سونے چاندی کی اشرفیاں نکالیں اور درویش کے کشکول میں ڈال دیں، لیکن کشکول بڑا تھا اور مال و متاع کم۔ لہٰذا اس نے فوراً خزانچی کو ہیرے جواہرات کی بوری سمیت طلب کرلیا۔

    خزانچی اپنے ملازموں کے ساتھ ہیرے جواہرات کی بوری لے کر حاضر ہوا۔ بادشاہ نے پوری بوری الٹ دی اور حکم دیا کہ جواہرات اس فقیر کے کشکول میں بھر دیے جائیں۔ حکم کی تعمیل ہوئی لیکن دیکھا کہ کشکول پھیلتا جارہا ہے اور اس کا پیٹ بھر کے ہی نہیں‌ دے رہا۔ یہاں تک کہ تمام جواہرات اس درویش کے کشکول میں‌ چلے گئے۔

    سبھی حیران تھے کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ ادھر بادشاہ کو ایک فقیر کے آگے نہ صرف اپنی بے بسی کا احساس ستانے لگا بلکہ اس نے اسے اپنی توہین اور بے عزّتی تصور کیا۔ بادشاہ کے حکم پر جواہرات کی مزید بوریاں لائی گئیں‌ اور کشکول بھرنے کی کوشش کی گئی، لیکن نتیجہ وہی نکلا۔

    شاہی خزانہ حتّٰی کہ وزرا کی تجوریاں‌ تک الٹ دی گئیں، لیکن کشکول نہیں‌ بھرا۔ تب بادشاہ نے اپنی شکست کا اعتراف کرتے ہوئے درویش سے اس کی حقیقت دریافت کی۔

    درویش نے کشکول بادشاہ کے سامنے الٹ دیا اور کچھ کہے بغیر وہاں‌ سے جانے لگا۔ بادشاہ نے یہ دیکھا تو اس کے آگے ہاتھ باندھ کر عرض کی کہ اپنی اور اس کشکول کی حقیقت اس پر منکشف کی جائے۔

    ”بادشاہ نے کہا، اے خدا کے مقرّب بندے، مجھے صرف اتنا بتا دیں کہ یہ کشکول کس چیز کا بنا ہوا ہے؟” درویش مسکرایا اور کہا۔

    ”اے نادان! یہ خواہشات کا بنا ہوا کشکول ہے، جسے صرف قبر کی مٹی بھر سکتی ہے۔

  • حکایت: درویش کی بے خوفی

    حکایت: درویش کی بے خوفی

    ایک بادشاہ اپنے مصاحبوں اور خدمت گاروں‌ کے ساتھ جنگل میں‌ شکار کی غرض‌ سے گیا، جہاں اس کی نظر ایک فقیر پر پڑی۔

    وہ فقیر گرد و پیش سے بے نیاز اور ہر قسم کے خوف سے آزاد نظر آیا۔ گھنے جنگل میں‌ موذی جانور، حشرات اور درندوں‌ سے تو ہوشیار رہنا ہی پڑتا ہے، مگر بادشاہ نے اس کے چہرے پر خاص اطمینان دیکھا اور اسے اس شخص کی ڈھٹائی اور بے وقوفی تصور کیا۔

    بادشاہ اور اس کے مصاحب جب اس کے قریب سے گزرے تو اس نے آنکھ اٹھا کر بھی ان کی طرف نہ دیکھا اور یہ بات بادشاہ کو بہت ناگوار گزری۔

    اس نے بزرگ کی طرف اشارہ کرکے وزیر سے کہا کہ ایسے فقیر بھی بالکل جانوروں کی طرح ہوتے ہیں کہ انھیں معمولی ادب آداب کا بھی خیال نہیں ہوتا۔

    بادشاہ کی ناگواری کا اندازہ کر کے وزیر اس درویش کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ بابا جی، ملک کا بادشاہ آپ کے قریب سے گزرا اور آپ نے اتنا بھی نہیں کیا کہ اپنی عقیدت اور نیاز مندی ظاہر کرنے کے لیے کھڑے ہو جاتے اور ادب سے سلام کرتے؟

    درویش نے بے پروائی سے جواب دیا، اپنے بادشاہ سے کہو کہ ادب آداب کا خیال رکھنے کی امید ان لوگوں سے کرے جنھیں اس سے انعام حاصل کرنے کا لالچ ہو۔ اس کے علاوہ اسے یہ بات بھی اچھی طرح سمجھا دو کہ ہم جیسے درویشوں کا کام بادشاہ کا خیال رکھنا نہیں بلکہ بادشاہ کا یہ فرض ہے کہ وہ ہماری حفاظت کرے۔ تُو نے سنا نہیں بھیڑیں گڈریے کی حفاظت نہیں کرتیں بلکہ گڈریا بھیڑوں کی حفاظت کرتا ہے۔

    یاد رہے! بادشاہی ہمیشہ رہنے والی چیز نہیں۔ موت کے بعد بادشاہ اور فقیر برابر ہو جاتے ہیں۔ اگر تُو قبر کھول کر دیکھے تو یہ بات معلوم نہ کر سکے گا کہ یہ شخص جس کی کھوپڑی کو مٹی نے کھا لیا ہے۔ زند گی میں کس مرتبے اور شان کا مالک تھا۔

    وزیر نے درویش کی یہ باتیں بادشاہ کو سنائیں تو اس نے فوری نصیحت حاصل کی اور فقیر پر مہربان ہو کر اس سے کہا کہ اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو بیان کرو، تمھاری ہر حاجت پوری کی جائے گی۔ فقیر نے بے نیازی سے کہا، بس ایک خواہش ہے اور وہ یہ کہ میرے پاس آنے کی تکلیف پھر کبھی نہ اٹھانا۔

    اس پر بادشاہ نے کہا، اچھا مجھے کوئی نصیحت ہی کر دیجیے کہ دنیا اور آخرت دونوں‌ سنور جائیں۔

    درویش بولا، میری نصیحت یہ ہے کہ ابھی جب تُو تاج اور تخت کا مالک ہے زیادہ سے زیادہ نیکیاں کر کہ عاقبت میں تیرے کام آئیں گی۔ یہ تاج اور تخت ہمیشہ تیرے پاس ہی نہ رہے گا اور جس طرح تجھ سے پہلے بادشاہ کے بعد تجھے ملا، اسی طرح تیرے بعد کسی اور کو مل جائے گا۔

    شیخ سعدیؒ سے منسوب یہ حکایت ہمیں‌ بتاتی ہے کہ حرص اور لالچ ترک کرکے ہی انسان کو قلبی سکون اور دائمی راحت حاصل ہوتی ہے۔

    مال دار اور خوش حال بھی جان لے کہ غریب کی طرح‌ وہ بھی دنیا سے جاتے ہوئے کفن کے سوا کچھ نہ لے جاسکے گا۔