Tag: بادشاہ کی کہانی

  • دس روز کی مہلت (ایک سبق آموز کہانی)

    دس روز کی مہلت (ایک سبق آموز کہانی)

    یہ بہت پرانی کہانی ہے جس میں‌ ایک سبق پوشیدہ ہے۔ کہتے ہیں کہ یہاں سے سمندر پار، بہت دور کسی سلطنت کا بادشاہ طبیعتاً زود رنج اور مزاجاً جارح تھا۔ اپنی رائے سے اختلاف اسے ناپسند تھا۔ اگر کسی وزیر، درباری اور خادم سے کوئی غلطی اور کوتاہی سرزد ہوجاتی تو سخت سزا دینے سے نہ چوکتا۔

    بادشاہ اگرچہ ظالم نہیں تھا، مگر اپنے ریاستی امور اور اپنی ذات سے متعلق کچھ زیادہ ہی حساس واقع ہوا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ رعایت اور نرمی برتنے سے درباری اس پر حاوی ہوسکتے ہیں۔ وہ کسی بات پر بگڑتا تو ایسا بگڑتا کہ لوگوں کے سَر ان کے شانوں سے اتروانے میں‌ ذرا دیر نہ کرتا۔ بادشاہ نے دس جنگلی کتّے بھی پال رکھے تھے۔ ان خونخوار کتّوں کو خاص تربیت دی گئی تھی اور وہ بادشاہ کے حکم پر اپنے سامنے پھینکے گئے آدمی کو بھبھوڑ ڈالتے۔ ظاہر ہے ایک مجبور اور بے بس انسان ان کتّوں کے آگے کیا کرسکتا ہوگا۔ کتّوں کے نوکیلے دانت اور پنجوں سے گھائل ہونے کے بعد موت ایسے آدمی کا مقدر بن جاتی۔ بادشاہ کے خادمین اور نوکروں سب کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ ہمیشہ اپنے کان کھلے رکھیں اور بادشاہ کے روبرو حاضر باش رہیں تاکہ کسی موقع پر غلطی سے بچ سکیں۔ وہ خوب سوچ سمجھ کر کسی بات کا جواب دیتے اور ہمیشہ بادشاہ کی خوشامد میں لگے رہتے تھے۔

    مزید دلچسپ کہانیاں پڑھنے کے لیے کلک کیجیے
    ایک روز کسی نوکر کی شامت آئی اور اس نے بادشاہ کا کوئی کام انجام دیتے ہوئے کسی بات پر اپنی رائے کا اظہار کردیا۔ بظاہر یہ ایک معمولی بات تھی مگر بادشاہ کو نوکر کے خیالات نے برافروختہ کردیا۔ اس نے کچھ کہے سنے بغیر بیک لحظہ نوکر کو کتّوں کے باڑے میں پھینک دینے کا حکم جاری کردیا۔ بادشاہ کے کمرے کے باہر موجود سپاہی آواز سن کر دوڑے آئے اور نوکر کو پکڑ لیا۔ نوکر کی رنگت زرد پڑ چکی تھی۔ موت اس کے سَر پر تھی۔ مگر اس نے ہمّت کرکے بادشاہ کو مخاطب کیا اور اپنی آواز کی لرزش پر قابو پاتے ہوئے کہا، ”حضور! میں نے دس سال آپ کی خدمت کی، آپ مجھ پر اتنا رحم ضرور کریں ان خونخوار کتوں کے سامنے پھینکنے سے پہلے دس دن کی مہلت دے دیں! بادشاہ کچھ سوچ کر اس پر رضامند ہوگیا۔ اب نوکر دس دن کے لیے آزاد تھا۔

    نوکر اسی روز کتّوں کی دیکھ بھال کرنے والے کے پاس پہنچا اور اس سے سارا ماجرا بیان کر کے درخواست کی کہ وہ اگلے دس دنوں تک کتّوں کی دیکھ بھال کرنا چاہتا ہے۔ کتّوں کا رکھوالا اس پر راضی ہو گیا۔ وہ معتوب نوکر روز باڑے میں جاتا اور کتّوں کو کھانا کھلاتا، ان کو نہلاتا اور ان کے ساتھ کچھ وقت گزار کر اپنے گھر لوٹ جاتا۔

    جب دس دن پورے ہوئے تو بادشاہ نے اس نوکر کو طلب کیا اور کہا کہ وہ سزا بھگتنے کو تیار ہوجائے۔ نوکر نے گردن جھکا کر تعظیم کی اور سپاہی اسے پکڑ کر لے گئے۔ اسے کتّوں کے باڑے میں دھکیلا گیا تو وہاں موجود عملہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ جنگلی کتّے اس کے آگے پیچھے دُم ہلاتے ہوئے گھوم رہے ہیں اور یوں لگتا ہے کہ وہ اس سے بہت پیار کرتے ہیں۔ نوکر ان کے کتّوں کے درمیان کھڑا مسکرا رہا تھا۔

    بادشاہ تک یہ خبر پہنچی تو وہ بھی حیران ہوا اور بولا۔ ’’میرے ان خونخوار کتوں کو کیا ہوا ہے کہ وہ اس آدمی کو نقصان پہنچانے سے گریزاں ہیں؟‘‘

    پہرے دار بادشاہ کو اس بارے میں کیا بتاتے۔ وہ لاعلم تھے کہ نوکر نے دس روزہ مہلت میں ان کتّوں کو اپنا دوست بنا لیا تھا۔ یہ بات صرف کتّوں کا رکھوالا اور چند دوسرے محافظ جانتے تھے۔ بہرحال، بادشاہ نے نوکر کو دربار میں طلب کیا اور اس بابت سوال کرنے پر نوکر نے بتایا، "حضور! جان کی امان پاؤں تو ایک خطا اور کی ہے، جو آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں کہ میں نے آپ سے جو دس روز کی مہلت طلب کی تھی، اس میں ان کتوں کی خدمت کرتا رہا، اور آج جب ان کے سامنے مجھے پھینکا گیا تو یہ نتیجہ نکلا، وہ میری دس روزہ خدمت نہیں بھولے۔ میں نے پورے دس سال آپ کی خدمت کی اور ایک معمولی غلطی پر آپ نے مجھے موت کے منہ میں‌ ڈال دیا۔” نوکر کی اس جسارت پر درباری دم بخود رہ گئے اور خیال کیا کہ اب بادشاہ اس کے ساتھ نہایت برا سلوک کرے گا۔ ادھر بادشاہ اپنے اس پرانے خادم کو غور سے دیکھ رہا تھا۔ یک دم اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی اور بادشاہ نوکر کو آزاد کرنے کا حکم دے دیا۔ اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا تھا۔

    سبق:‌ جب کسی کے ساتھ کچھ اچھا وقت گزارا ہو تو اس کی چھوٹی چھوٹی غلطیوں اور خطاؤں سے صرفِ نظر بھی کرنا چاہیے۔ یہ اعلیٰ ظرفی بھی ہے اور تعلق کا تقاضا بھی۔ اگرغلطی سنگین ہو یا کسی سے ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہو تب بھی ممکن ہو تو ایسا راستہ اختیار کریں جس کی اپنے تو ایک طرف دشمن بھی تعریف کرنے پر مجبور ہو جائے۔

  • بادشاہ اور تاجر (دل چسپ کہانی)

    بادشاہ اور تاجر (دل چسپ کہانی)

    پرانے زمانے کی بات ہے، ایک تاجر تجارت کی غرض سے بغداد پہنچا۔ پچھلے وقتوں میں تجارت کا یہ قانون تھا کہ تجارتی سامان کے ساتھ جس ملک میں کوئی تاجر داخل ہوتا تو اسے سب سے پہلے وہاں کے بادشاہ کے سامنے پیش کیا جاتا۔ تاجر اپنا تعارف کرواتا اور سامانِ تجارت کی خوبیوں اور انفرادیت سے آگاہ کرتا تھا۔ چنانچہ اس تاجر کو بھی بغداد میں بادشاہ کے دربار میں پیش کیا گیا۔

    تاجر نے بیش قیمت تحائف بادشاہ کی نذر کیے۔ پھر مالِ تجارت کی تفصیل بتاتے ہوئے ایک ایک چیز کی خوبی بیان کرنے لگا۔ اس دوران تاجر نے بادشاہ کو پانی سے چلنے والی ایک گھڑی دکھائی اور بتایا یہ میں نے یونان سے خریدی ہے۔ اس کے بعد قالین دکھاتے ہوئے بتایا کہ یہ میں نے ایران سے خریدا ہے اور خالص ریشم کے تار سے بنا ہے۔ اس نے ایک قلم دکھاتے ہوئے بتایا کہ یہ جاپان سے بہت مہنگے داموں خریدا ہے۔ بادشاہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ بہت خوب، تمام چیزیں بہت عمدہ نایاب ہیں جو تم نے ایران، یونان اور جاپان سے خریدی ہیں لیکن یہ تو بتاﺅ کہ تمہیں ہندوستان میں ہمارے شایانِ شان کوئی چیز نظر آئی۔ تاجر نے بادشاہ کو متاثر کرنے کے لیے کہا، یوں تو بادشاہ سلامت آپ کے شایانِ شان بہت چیزیں تھیں لیکن جو چیز مجھے پسند آئی۔ اس کو حاصل کرنے کے لیے مجھے کچھ عرصہ وہاں قیام کرنا پڑتا جب کہ میرے پاس صرف دو دن کا وقت تھا۔

    بادشاہ نے پوچھا۔ اچھا وہ کیا چیز تھی۔ تاجر بولا، جناب وہ ایک موتی ہے اور اس کی خاص بات یہ ہے کہ وہ دوسروں کو بانٹنے سے بڑھتا ہے۔ اس کو کوئی چرا بھی نہیں سکتا اور اس موتی سے بہت سارے زیور بھی بنا کر پہنے جاسکتے ہیں۔ بادشاہ کو یہ سن کر تعجب ہوا اور کہنے لگا۔ میں اسے ہر قیمت پر حاصل کرنا چاہوں گا۔ اس نے فوراً اپنے ایک خاص وزیر کو اس ہدایت کے ساتھ رخصت کیا کہ اب وہ موتی لے کر ہی لوٹے۔ وزیر اپنے مقصد کے لیے نکل پڑا۔ ادھر تاجر دربار سے رخصت ہوگیا۔

    جنگلوں، سمندروں، پہاڑوں اور صحراﺅں غرض یہ کہ ہر جگہ کی خاک چھان ماری۔ وادی وادی گھوما، ہر شخص سے اس نادر و نایاب موتی کا پوچھا مگر سب نے یہ ہی کہا کہ ایسا کوئی موتی نہیں ہے جو چوری نہ ہوسکے اور اس سے بہت سارے زیور بن جائیں۔ لوگ اس کی بات سن کر ہنستے اور کہتے۔ مسافر پاگل ہوگیا ہے۔

    یوں ہی مہینوں بیت گئے، ناامیدی کے سائے گہرے ہونے لگے لیکن بادشاہ کے سامنے ناکام لوٹنے کا خوف اس کو چین نہیں لینے دے رہا تھا۔ وزیر نے ہر ممکن کوشش کر لی، سو اس نے واپسی کا ارادہ کیا۔ وزیر اپنی ناکامی پر خوف زدہ اور روتا ہوا جنگل سے گزر رہا تھا۔ رات کافی ہوچکی تھی اور وزیر بہت تھک بھی گیا تھا۔ ایک درخت کے پاس آرام کے ارادے سے لیٹا ہی تھا کہ اسی لمحے ایک روشنی اپنی جانب بڑھتی ہوئی نظر آئی۔ پہلے تو وزیر ڈر گیا مگر پھر ایک آواز نے اس کو حوصلہ دیا۔

    اے نوجوان ڈرو مت، میں اچھی پری ہوں۔ بتا تیرے ساتھ کیا مسئلہ ہے، تو مدتوں کا تھکا ہوا مسافر معلوم ہوتا ہے، بتا میں تیری کیا مدد کروں۔

    وزیر نے اپنی داستان کہہ سنائی کہ اسے جس موتی کی تلاش تھی، وہ کہیں نہیں ملا۔ اب اچھی پری وزیر کے سامنے آچکی تھی اور وہ وزیر کی بات سن کر بے ساختہ ہنس پڑی، پھر بولی۔ افسوس کہ تو نے عقل سے کام نہ لیا اور محض ایک موتی کی تلاش میں مہینوں مارا مارا پھرتا رہا۔

    وزیر بولا۔ اچھی پری، میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا۔ وہ بولی، بھلے آدمی، وہ موتی دراصل علم کا موتی ہے لیکن تو اس کی ظاہری شکل کو تلاش کرتا رہا۔ علم تو ایک ایسی شے ہے جسے ہزاروں نام دیے جاسکتے ہیں۔ کہیں اسے پھل دار درخت کہتے ہیں تو کبھی سورج سے تشبیہ دیتے ہیں اور اسے سمندر بھی کہا جاتا ہے لیکن اسے کوئی چرا نہیں سکتا۔

    لیکن اس سے زیور بنانے والی صفت۔ وزیر نے حیرت سے پوچھا۔

    پری نے مسکراتے ہوئے کہا۔ علم کی بہت ساری صفات ہیں۔ تم اس موتی کی صورت کو کیوں تلاش کرتے ہو۔ یاد رکھو، ہر شے کی تاثیر کا تعلق اس کے نام سے نہیں بلکہ اس کی اندرونی خوبیوں سے ہوتا ہے۔ اسی طرح علم بھی ایک نایاب موتی ہے کہ جس سے یہ حاصل ہوجائے، وہ اس سے ایسے ہی سج جاتا ہے جیسے انسان زیور پہن کر سجتا ہے اور اسے کوئی چرا نہیں سکتا بلکہ یہ تو بانٹنے سے بڑھتا ہے، گھٹتا نہیں ہے۔

    وزیر بڑے غور سے پری کی بات سن رہا تھا اور بالآخر اس بات کا قائل ہوگیا کہ واقعی علم ایک ایسا موتی ہے کہ جس کے پاس ہو، وہ دراصل دنیا کے سب سے قیمتی زیور کا مالک بن جاتا ہے۔ وزیر نے پری کا شکریہ ادا کیا جس کے بعد اچھی پری وہاں سے غائب ہوگئی۔ اب وزیر بہت خوش تھا اور اسے یقین تھا کہ وہ بادشاہ کو بھی قائل کر لے گا، وہ اپنے ملک خوشی خوشی روانہ ہوگیا۔ وہاں پہنچ کر اس نے بادشاہ کو علم کے موتی کے بارے میں بتایا اور سمجھایا تو بادشاہ بھی پری کی بات کا قائل ہوگیا کہ صرف علم ہی وہ موتی ہے جسے کوئی چرا نہیں سکتا۔

    وہ تاجر بغداد میں اپنا سامان فروخت کر کے اپنے ملک جاچکا تھا۔ بادشاہ نے وزیر کو کہا کہ وہ کوئی عام انسان نہیں‌ تھا بلکہ ایک دانا اور قابل شخص تھا اور یقیناً اس نے اپنی ذہانت اور قابلیت سے ہمارے ملک کے اس عظیم شہر میں اپنا مال بیچ کر خوب منافع پایا ہو گا۔

    (بچوں کے ادب سے انتخاب)

  • بادشاہ اور فقیر (ایک سبق آموز قصہ)

    بادشاہ اور فقیر (ایک سبق آموز قصہ)

    یہ اُس زمانے کی بات ہے جب دنیا میں بادشاہتیں قائم تھیں اور کئی کئی میل پر پھیلی ہوئی ریاستوں پر مختلف خاندانوں کی حکومت ہوا کرتی تھی۔ اسی دور کے ایک بادشاہ پر قدرت مہربان ہوئی اور اس کے ایک عقل مند وزیر اور بہادر سپاہ سالار کی بدولت اس کی سلطنت وسیع ہوتی چلی گئی۔

    اس بادشاہ کے پڑوسی ممالک پہلے ہی اس کی فوجی طاقت سے مرعوب تھے اور اس کے مطیع و تابع فرمان تھے۔ وہاں اسی بادشاہ کے نام کا سکّہ چلتا تھا۔ بادشاہ نے ان کی فوجی قوّت اور وسائل کو بھی اپنے مفاد میں‌ استعمال کیا اور دور تک پھیلے ہوئے کئی ممالک پر حملہ کرکے انھیں بھی فتح کرلیا تھا۔ لیکن اتنی بڑے رقبے پر حکومت کرنے کے باوجود اس کی ہوس کم نہیں ہورہی تھی۔ وہ اپنی طاقت کے گھمنڈ میں بھی مبتلا ہوچکا تھا اور یہ سوچتا تھا کہ دنیا پر حکم رانی اس کا حق ہے۔ ہر قوم کو اس کی بادشاہی قبول کرلینی چاہیے۔

    یہ بادشاہ قسمت کا ایسا دھنی تھا کہ ہر سال ایک ملک فتح کرتا۔ وہ مفتوح علاقوں میں اپنے نام کا سکّہ جاری کرکے وہاں اپنی قوم سے کوئی حاکم مقرر کردیتا اور اس وہاں کے لوگوں پر اپنا قانون لاگو کرکے نظام چلانے لگتا۔ لیکن ان مسلسل فتوحات کے بعد اسے عجیب سا اضطراب اور بے چینی رہنے لگی تھی۔ یہ دراصل وہ حرص تھی جس نے اس کی راتوں‌ کی نیند اور دن کا سکون چھین لیا تھا۔ وہ راتوں کو اٹھ کر نئی مہمات کے منصوبے بناتا رہتا تھا۔ وقت تیزی سے گزرتا رہا اور ایک مرتبہ ایسی ہی مہم پر بادشاہ نے اپنی فوج روانہ کی۔ لیکن چند ہفتوں بعد قاصد خبر لے کر آیا کہ بادشاہ کی فوج کو ناکامی ہوئی ہے اور دشمن اس پر غالب آگیا ہے۔ کئی سال کے دوران مسلسل فتوحات نے بادشاہ کا دماغ خراب کردیا تھا۔ وہ شکست کا لفظ گویا فراموش کر بیٹھا تھا۔ اس نے یہ سنا تو غضب ناک ہوگیا۔ اس نے مزید لشکر تیّار کرکے خود اس ملک کی جانب روانہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ بادشاہ تیزی سے صحرا، پہاڑ، دریا عبور کرتا ہوا اس ملک کی سرحد پر پہنچا جہاں اس کا بھیجا ہوا لشکر ناکام ہوگیا تھا۔ جنگ شروع ہوئی اور مخالف بادشاہ کی فوج جس کا ساتھ اس کے پڑوسی ممالک بھی دے رہے تھے، انھوں نے ایک مرتبہ پھر حملہ آوروں کو ڈھیر کردیا اور بادشاہ کو نامراد لوٹنا پڑا۔ یہ شکست اس سے ہضم نہیں ہورہی تھی۔

    اس ناکام فوجی مہم سے واپسی پر بادشاہ بہت رنجیدہ اور پریشان تھا۔ ایک روز وہ اپنی بیوی سے باتیں کررہا تھا جس نے کہا کہ وہ ایک بزرگ کو جانتی ہے جس کی دعا سے وہ دوبارہ میدانِ‌ جنگ میں کام یاب ہوسکتا ہے۔ بادشاہ نے اس بزرگ کو دربار میں‌ طلب کیا۔ مگر بزرگ نے آنے سے انکار کردیا اور کہلوا بھیجا کہ جسے کام ہے وہ مجھ سے میری کٹیا میں‌ آکر خود ملے۔ قاصد نے بادشاہ کو بزرگ کی یہ بات بتائی تو بادشاہ برہم ہوگیا۔ مگر اس کی بیوی نے سمجھایا کہ وہ بہت پہنچے ہوئے ہیں اور ایسے لوگوں کا احترام کرنا چاہیے۔

    ایک روز بادشاہ اپنے چند مصاحبوں کو لے کر فقیر کی کٹیا پر حاضر ہوگیا۔ سلام دعا کے بعد اس نے اپنا مدعا بیان کیا۔ بزرگ نے اس کی بات سنی اور کہا کہ میں تجھے حکومت اور قومیں فتح کرنے کا کوئی گُر تو نہیں بتا سکتا، مگر ایک ایسی بات ضرور تجھ تک پہنچا دینا چاہتا ہوں جس میں سراسر تیری فلاح اور بھلائی ہے۔ بادشاہ کو غصّہ تو بہت آیا مگر اس پر فقیر کی بے نیازی اور رعب قائم ہوچکا تھا۔ اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا، تو بزرگ نے کہا، "اللہ کا ایک بندہ آدھی روٹی کھا لیتا ہے اور آدھی دوسرے بھوکے شخص کو دے دیتا ہے، مگر ایک بادشاہ کا یہ حال ہوتا ہے کہ اگر دنیا کے بڑے حصّے پر قبضہ کر لے تب بھی اس کو باقی دنیا پر قبضہ کرنے کی فکر سوار رہتی ہے! تجھے چاہیے کہ جو مل گیا ہے اس پر اکتفا کر اور اگر دل کو ہوس سے پاک کرنا ہے تو جو کچھ تیری ضرورت سے زائد ہے اسے تقسیم کر دے۔

    یہ کہہ کر بزرگ نے بادشاہ کو کٹیا سے نکل جانے کا اشارہ کیا اور بادشاہ محل لوٹ گیا۔ لیکن وہ جان گیا تھا کہ یہ بے اطمینانی اور اضطراب اسی وقت ختم ہوسکتا ہے جب وہ حرص چھوڑ دے اور خواہشات کو ترک کرکے قانع ہوجائے۔

  • بادشاہ کے تین سوال

    بادشاہ کے تین سوال

    ایک بادشاہ نے اپنے وزیر کو تین سوالوں‌ کا درست جواب دینے پر آدھی سلطنت دینے کا وعدہ کیا۔ بادشاہ نے کہا کہ وہ چاہے تو یہ چیلنج قبول کرے اور اگر اسے لگتا ہے کہ ناکام ہوجائے گا تو معذرت کر لے، لیکن ان سوالوں کو جان لینے کے بعد اسے جواب لازمی دینا ہو گا اور اس امتحان میں ناکامی کی سزا موت ہوگی۔

    وزیر لالچ میں آگیا۔ اس نے سوچا ایسا کون سا سوال ہے جس کا جواب نہ ہو۔ وہ کسی دانا اور عالم سے پوچھ کر بادشاہ کو ضرور جواب دے سکے گا۔ اس نے ہامی بھر لی۔ بادشاہ نے اس کے سامنے اپنا پہلا سوال یہ رکھا کہ دنیا کی سب سے بڑی سچائی کیا ہے؟ دوسرا سوال تھا دنیا کا سب سے بڑا دھوکا کیا ہے؟ اور تیسری بات جو بادشاہ نے پوچھی وہ یہ تھی کہ دنیا کی سب سے میٹھی چیز کیا ہے؟

    بادشاہ نے اپنے وزیر کو ایک ہفتہ کی مہلت دی اور وزیر نے سلطنت کے عالی دماغ اور دانا لوگوں کو اکٹھا کرلیا۔ وہ ان کے سامنے یہ سوال رکھتا گیا لیکن کسی کے جواب سے وزیر مطمئن نہیں ہوا۔ اسے موت سر پر منڈلاتی نظر آنے لگی۔ مہلت ختم ہونے کو تھی، تب وزیر سزائے موت کے خوف سے بھیس بدل کر محل سے فرار ہوگیا۔ چلتے چلتے رات ہوگئی۔ ایک مقام پر اس کو ایک کسان نظر آیا جو کھرپی سے زمین کھود رہا تھا۔ کسان نے وزیر کو پہچان لیا۔ وزیر نے اس کو اپنی مشکل بتائی جسے سن کر کسان نے اس کے سوالوں کی جواب کچھ یوں دیے۔ اس نے پہلے سوال کا جواب دیا کہ دنیا کی سب سے بڑی سچائی موت ہے۔ اسی طرح‌ دوسرا جواب تھا دنیا کا سب سے بڑا دھوکا زندگی ہے۔ اور تیسرے سوال کا جواب بتانے سے پہلے کسان نے کہا کہ میں اگر تمہارے سارے سوالوں کے جواب بتا دوں تو مجھے کیا ملے گا؟ سلطنت تو تمہارے ہاتھ آئے گی۔

    کسان کی بات سن کر وزیر نے اسے بیس گھوڑوں کی پیشکش کی اور اسے شاہی اصطبل کا نگران بنانے کا وعدہ بھی کرلیا۔ کسان نے یہ سن کر جواب دینے سے انکار کر دیا۔ وزیر نے سوچا کہ یہ تو آدھی سلطنت کا خواب دیکھ رہا ہے۔ وزیر جانے لگا تو کسان بولا کہ اگر بھاگ جاؤ گے تو ساری زندگی بھاگتے رہو گے اور بادشاہ کے ہرکارے تمہارا پیچھا کرتے رہیں گے اور اگر پلٹو گے تو جان سے مارے جاؤ گے۔ یہ سن کر وزیر رک گیا اور کسان کو آدھی سلطنت کی پیشکش کی لیکن کسان نے اسے مسترد کر دیا۔ اتنے میں ایک کتا آیا اور پیالے میں رکھے ہوئے دودھ میں سے آدھا پی کر چلا گیا۔ کسان نے وزیر سے کہا مجھے آدھی سلطنت نہیں چاہیے، بس تم اس بچے ہوئے دودھ کو پی لو تو میں تمہارے تیسرے سوال کا جواب بتا دوں گا۔ یہ سن کر وزیر تلملا گیا مگر اپنی موت اور جاسوسوں کے ڈر سے اس نے دودھ پی لیا۔

    وزیر نے دودھ پی کر کسان کی طرف دیکھا اور اپنے سوال کا جواب مانگا
    تو کسان نے کہا کہ دنیا کی سب سے میٹھی چیز انسان کی غرض ہے! جس کے لیے وہ ذلیل ترین کام بھی کر جاتا ہے!

  • فضول خرچ فقیر (شیخ سعدی کی حکایت)

    فضول خرچ فقیر (شیخ سعدی کی حکایت)

    کہتے ہیں، ایک بادشاہ کسی باغ کی سیر کو گیا۔ وہاں اپنے مصاحبوں کے درمیان وہ خوش و خرم بیٹھا جو اشعار پڑھ رہا تھا ان کا مفہوم کچھ اس طرح تھا کہ دنیا میں مجھ جیسا خوش بخت کوئی نہیں، کیونکہ مجھے کسی طرف سے کوئی فکر نہیں ہے۔

    اتفاق سے ایک ننگ دھڑنگ فقیر اس طرف سے گزرا۔ وہ بادشاہ کی آواز سن کر رک گیا اور اونچی آواز میں ایسا شعر پڑھا جس کا مفہوم کچھ یوں‌ تھا کہ اے بادشاہ اگر خدا نے تجھے ہر طرح کی نعمتیں بخشی ہیں اور کسی قسم کا غم تجھے نہیں ستاتا تو کیا تجھے میرا غم بھی نہیں ہے کہ تیرے ملک میں رہتا ہوں اور ایسی خراب حالت میں زندگی گزار رہا ہوں؟

    یہ آواز بادشاہ کے کانوں میں پڑی تو اس فقیر کی طرف متوجہ ہوا اور کہا کہ دامن پھیلائیے۔ ہم آپ کو کچھ اشرفیاں دینا چاہتے ہیں۔ بادشاہ کی یہ بات سن کر فقیر نے کہا کہ بابا، میں تو دامن بھی نہیں رکھتا۔ واقعی فقیر کا کرتہ نہایت خستہ تھا اور اس کا دامن تار تار تھا۔ اس کی یہ بات سن کر بادشاہ ایک لمحے کو جیسے لرز کر رہ گیا۔ بادشاہ کو اس پر اور رحم آیا اور اس نے اسے اشرفیوں کے ساتھ بہت عمدہ لباس بھی بخش دیا۔ فقیر یہ چیزیں لے کر چلا گیا اور چونکہ یہ مال اسے بالکل آسانی سے مل گیا تھا اس لیے ساری اشرفیاں چند ہی دن میں خرچ کر ڈالیں اور پھر بادشاہ کے محل کے سامنے جا کر اپنا دکھڑا پھر رونے لگا۔

    کسی نے بادشاہ کو اطلاع کی کہ وہی فقیر اب محل کے اطراف گھومتا رہتا ہے اور آپ کو اپنی حالت پر متوجہ کرتا ہے۔ اس مرتبہ بادشاہ کو فقیر پر غصہ آیا۔ حکم دیا کہ اسے بھگا دیا جائے۔ یہ شخص بہت فضول خرچ ہے۔ اس نے اتنی بڑی رقم اتنی جلدی ختم کر دی۔ اس کی مثال تو چھلنی کی سی ہے جس میں پانی نہیں ٹھہر سکتا۔ جو شخص فضول کاموں میں روپیہ خرچ کرتا ہے وہ سچی راحت نہیں پاسکتا۔

    جو شخص دن میں جلاتا ہے شمعِ کا فوری
    نہ ہو گا اس کے چراغوں میں تیل رات کے وقت

    بادشاہ کا ایک وزیر بہت دانا اور غریبوں کا ہم درد تھا۔ اس نے بادشاہ کی یہ بات سنی تو ادب سے کہا کہ حضورِ والا نے بالکل بجا فرمایا ہے۔ اس نادان نے فضول خرچی کی ہے۔ ایسے لوگوں کو تو بس ان کی ضرورت کے مطابق امداد دینی چاہیے۔ لیکن یہ بات بھی مروّت اور عالی ظرفی کے خلاف ہے کہ اسے خالی ہاتھ لوٹا دیا جائے۔ حضور، اس کی بے تدبیری کو نظر انداز فرما کر کچھ نہ کچھ امداد ضرور کریں۔ وزیر نے بادشاہ کے سامنے یہ خوب صورت اشعار پڑھے اور فقیر پر رحم کرنے کی درخواست کی۔

    دیکھا نہیں کسی نے پیاسے حجاز کے
    ہوں جمع آبِ تلخ پہ زمزم کو چھوڑ کر
    آتے ہیں سب ہی چشمۂ شیریں ہو جس جگہ
    پیا سے کبھی نہ جائیں گے دریائے شور پر

    سبق: شیخ سعدی سے منسوب اس حکایت میں دو امر غور طلب ہیں۔ ایک طرف تو فضول خرچی اور روپے پیسے کے سوچے سمجھے بغیر استعمال کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے اور اسے غلط بتایا ہے جب کہ مال و دولت رکھنے والوں کو کہا گیا ہے کہ جذبات میں آکر نادان اور کم عقل لوگوں پر مال نہ لٹائیں بلکہ خوب سوچ سمجھ کر ضرورت کے مطابق ہی غریبوں کی امداد کریں، لیکن انھیں دھتکارنا درست نہیں ہے کہ وہ مال داروں کی طرف نہ دیکھیں‌ تو کہاں‌ جائیں گے؟ یہ حکایت بتاتی ہے کہ جو لوگ کسی کی بخشش اور خیرات کو بلا ضرورت اور ناجائز صرف کرتے ہیں، ایسی ہی تکلیف ان کا مقدر بنتی ہے۔

  • بوڑھا مشیر (دل چسپ قصّہ)

    بوڑھا مشیر (دل چسپ قصّہ)

    صدیوں پہلے ایک سلطنت کا بادشاہ بڑا ظالم تھا اور خود کو بہت عقل مند سجھتا تھا۔ وہ اکثر حیلوں بہانوں سے عوام پر طرح طرح کے ٹیکس لگا دیتا تھا، مگر ان کی فلاح و بہبود پر کچھ توجہ نہ تھی۔ رعایا اس بادشاہ سے تنگ آچکے تھے اور خدا دعائیں کرتے تھے کہ کسی طرح اس سے نجات مل جائے۔

    بادشاہ ہر وقت خوشامدی لوگوں میں گھرا رہتا جو اس کی ہر جائز ناجائز بات اور فیصلوں پر اس کی تعریف کرتے اور اس کو قابل اور نہایت ذہین کہتے۔ بادشاہ کو وہ لوگ ناپسند تھے جو اس کی کسی غلط بات کی نشان دہی کرتے اور اس کے فیصلے پر تنقید کرتے۔ ایسے ہی لوگوں میں مشیر بھی شامل تھا جو بادشاہ کے والد کے زمانے سے دربار میں موجود تھا اور جس کی تنقید کی وجہ سے وہ اسے سخت ناپسند کرتا تھا۔

    وہ مشیر ایک انتہائی قابل اور ذہین شخص تھا۔ وہ اس بات پر یقین رکھتا تھا کہ بادشاہ کو اپنی عوام کی فلاح کا خیال رکھنا چاہیے اور عوام کو جائز ٹیکس ادا کرنا اور بادشاہ کا وفادار ہونا چاہیے۔ وہ بادشاہ کو گھیرے ہوئے خوشامدیوں سے سخت بیزار تھا اور ان کو غلط مشورے دینے سے روکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ سب ایسے موقع کی تلاش میں رہتے کہ اس مشیر کو بادشاہ کے سامنے ذلیل کر سکیں۔ اور پھر وہ دن بھی آگیا جب ان لوگوں کو موقع مل گیا۔

    ایک دن مشیر نے بھرے دربار میں کہہ دیا کہ اگر کوئی انسان اپنی عقل اور ذہانت کو استعمال کرے تو وہ ہر جگہ اپنی روٹی روزی کا بندوبست کر سکتا ہے۔ بادشاہ جو مشیر سے اس کے سچ بولنے پر پہلے ہی ناراض تھا، اسے یہ وقت مناسب لگا کہ وہ مشیر کو اس کی حق گوئی کی سزا دے سکے۔ اس نے کہا کہ مشیر کو اپنی بات کی سچائی ثابت کرنی ہوگی اور حکم دیا کہ اسے گھوڑوں کے اصطبل میں بند کر دیا جائے۔ اسے کوئی تنخواہ نہیں ملے گی اور اصطبل سے باہر جانے کی بھی اجازت نہیں ہو گی۔ وہ ایک ماہ میں ایک ہزار سونے کے رائج الوقت سکے اپنی عقل اور ذہانت کو بروئے کار لا کر کمائے اور خزانہ میں جمع کرائے۔ بصورتِ دیگر اس سے شاہی عہدہ واپس لے لیا جائے گا۔

    بادشاہ کے اس غیر منصفانہ فیصلہ پر مشیر بڑا دل برداشتہ ہوا مگر ہمت نہ ہارا۔ اس نے بادشاہ سے درخواست کی اور کہا کہ اسے اپنا وزنی کنڈا ساتھ لے جانے کی اجازت دی جائے۔ جو بادشاہ نے منظور کر لی۔ مشیر کو اصطبل میں بند کر دیا گیا۔

    مشیر نے گھوڑوں کی خوراک کا وزن کرنا شروع کر دیا۔ پہلے تو اصطبل کے ملازمین نے خیال کیا کہ مشیر کا دماغ چل گیا ہے، پھر بھی انہوں نے مشیر سے خوراک کے وزن کرنے کا سبب پوچھا تو مشیر نے کہا کہ بادشاہ سلامت نے اس کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ معلوم کیا جائے کہ گھوڑوں کو پوری خوراک دی جا رہی ہے۔ یہ سن کر اصطبل کے ملازمین پریشان ہو گئے کیوں کہ وہ گھوڑوں کی خوراک کا ایک بڑا حصہ چوری کرکے بازار میں فروخت کر دیتے تھے۔ انہوں نے مشیر کی منت سماجت شروع کر دی اور کہا کہ بادشاہ کو کچھ نہ بتائے۔ اس کے عوض مشیر جو کہے وہ رقم ادا کرنے کو تیار ہیں۔ اس طرح مشیر نے ایک ماہ میں سونے کے ایک ہزار سکے ان سے حاصل کیے اور خزانہ میں جمع کروا دیے۔

    ادھر بادشاہ نے مشیر کی یہ بات ماننے سے انکار کر دیا کہ اس نے یہ رقم اصطبل سے کما کر خزانہ میں جمع کروائی ہے بلکہ الٹا مشیر پر الزام لگا دیا کہ اس نے یہ رقم باہر سے اکٹھی کر کے خزانہ میں جمع کروائی ہے اور اس کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہے۔ لہٰذا مشیر کو دریا پر ایک جھو نپڑی میں بند کرنے کا حکم دے کر اسے کہا کہ اس دفعہ وہ دو ہزار سکے ایک ماہ میں سرکاری خزانہ میں جمع کروائے، بصورتِ دیگر اُس کی گردن اڑا دی جائے گی۔ مشیر کے پاس بادشاہ کی بات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اس نے دوبارہ ایک بڑا ترازو ساتھ لے جانے کی اجازت مانگی جو منظور کر لی گئی۔

    مشیر نےدریا پر اپنے ترازو سے پانی کا وزن کرنا شروع کر دیا۔ کشتی بانوں نے اس کا سبب دریافت کیا تو مشیر نے ان کو بتایا کہ بادشاہ سلامت نے اس کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ جو کشتی بان زیادہ سواریاں کشتی میں سوار کرتے ہیں اور اس طرح لوگوں کی جانوں کو خطرےم یں ڈالتے ہیں، ان کے بارے میں آگاہ کرے تا کہ انہیں سخت سزا دی جائے۔ چونکہ تم سب زیادہ سواریاں اٹھاتے ہوں اس لیے سزا کے لیے تیار رہنا۔

    تمام کشتی بان یہ جان کر فوراً مشیر سے معافی مانگنے لگے۔ معاملہ اس بات پر طے ہوا کہ وہ ماہ کے آخر تک دو ہزار سکے دیں گے اور آیندہ زیادہ سواریاں نہیں اٹھائیں گے۔ ماہ کے آخر تک کشتی باتوں نے دو ہزار سکے سوداگر کو ادا کر دیے جو اس نے خزانہ سرکار میں جمع کروا دیے۔

    دو ماہ کے بعد مشیر کو بادشاہ کے دربار میں پیش کیا گیا، مشیر اس دفعہ بہت خوش تھا کہ اُس نے اپنی عقل اور دانش سے بادشاہ کے 2 ہزار سونے کے سکے ادا کر دیے ہیں اور ضرور اُس کو خوش ہوکر مشیر سے ترقی دے کر وزیر بنا دیا جائے گا۔

    بادشاہ کو جب پتہ چلا کہ مشیر اس دفعہ بھی کام یاب ہوگیا ہے تو وہ دل ہی دل میں غُصہ کرنے لگا کہ یہ مشیر اب اُسے دربار میں شرمندہ کرنے پھر آگیا ہے۔ اس لیے اُس نے اپنے ایک خوشامدی وزیر جو مشیر سے نفرت بھی کرتا تھا کو اشارہ کیا کہ وہ اُس کے قریب آئے اور جب خوشامدی بادشاہ کے قریب آیا تو بادشاہ نے اُس کے کان میں کہا ” اس مشیر کو فصیل سے دھکا دے دو تاکہ اس کی صورت ہم دوبارہ نہ دیکھیں۔

    وزیر انتہائی خوش ہوا اور مشیر کو انعام دینے کا کہہ کر فصیل پر لے گیا، جب مشیر فصیل پر پہنچا تو اُس نے وزیر سے کہا میری عقل اور دانش مجھے دکھا رہی ہے کہ تُم مجھے اس فصیل سے دھکا دینے والے ہو لیکن ایک بات یاد رکھنا جب کوئی بادشاہ اہلِ علم کو اپنے دربار سے یوں رسوا کر کے نکالتا ہے تب اُس کے تاج کے دن گنے جا چکے ہوتے ہیں۔

    وزیر نے مشیر کو بات ختم کرنے سے پہلے ہی فصیل دے دھکا دیا اور واپس چلا گیا۔ ٹھیک سات دن بعد بادشاہ کی سلطنت پر اُس کے طاقتور پڑوسی ملک نے حملہ کیا، بادشاہ دربار میں موجود تمام دانشوروں کو چُن چُن کر ختم کر چکا تھا جو ہمیشہ اُسے اپنی ذہانت سے طاقتور پڑوسی سے جنگ سے بچا لیا کرتے تھے۔ اس نے خوشامدی اکٹھے کر رکھے تھے۔ وہ اُسے اس جنگ سے کیسے بچاتے۔ بادشاہ بُری طرح جنگ ہارا اور جب پکڑا گیا تو پڑوسی ملک کے بادشاہ نے اُسے اُسی فصیل پر کھڑا کر کے جہاں سے مشیر کو دھکا دیا گیا تھا نیچے دھکا دے دیا۔

  • سلطنت کی قیمت (ایک سبق آموز کہانی)

    سلطنت کی قیمت (ایک سبق آموز کہانی)

    کسی ملک پر ایک مغرور بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ وہ ہیرے جواہرات، شان و شوکت اور اپنے جاہ و جلال کے نشے میں بدمست ہوکر رعایا کی طرف سے بالکل غافل ہوچکا تھا اور اسے ان کی مشکلات اور پریشانیوں کی کوئی فکر نہیں تھی۔ کچھ لوگ اس کے لیے بد دعائیں کرتے تو کچھ اس کے لیے ہدایت اور نیک توفیق کے طلب گار بھی ہوتے۔

    ایک وقت آیا جب خدا نے رعایا کی سن لی۔ ہوا یہ کہ بادشاہ ایک دن نہایت شان و شوکت سے سپاہیوں کے لاؤ لشکر کو ساتھ لے کر شکار پر نکلا۔ جنگل میں اسے ایک ہرن نظر آیا، اس نے اس کے پیچھے گھوڑا دوڑا دیا۔ ہرن کا تعاقب کرتے ہوئے وہ بہت دور نکل آیا اور راستہ بھٹک گیا۔ وہ اپنے محافظ دستے اور تمام درباریوں سے بچھڑ گیا تھا۔ ادھر انھوں نے بادشاہ کو بہت ڈھونڈا لیکن گھنے جنگل میں مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا اور یوں بھی رعایا کی طرح بادشاہ کے سپاہی اور درباری سبھی اس کی اکڑ اور غرور سے تنگ آچکے تھے۔ انھوں نے اپنے فرماں روا کی تلاش بند کر دی اور واپس لوٹ گئے۔

    بادشاہ سارا وقت راستہ تلاش کرتا رہا، لیکن نہ تو اسے اپنے محل کی طرف جانے کا راستہ ملا اور نہ اس کے درباری۔ اس دوڑ دھوپ میں اسے پیاس لگنے لگی۔ مگر کہیں بھی پانی نہیں ملا۔ میلوں چلنے کے بعد اسے بہت دور ایک جھونپڑی نظر آئی تو وہ خوشی سے پاگل ہو گیا۔ اس نے سرپٹ گھوڑا دوڑایا اور جھونپڑی تک جا پہنچا۔ وہاں ایک بزرگ بیٹھے عبادت میں مشغول تھے اور ایک طرف کونے میں پانی کا گھڑا رکھا تھا۔ بادشاہ نے بڑی بیتابی اور خشک زبان کو بمشکل حرکت دے کر بزرگ سے پوچھا، ’’پپ…پانی مل جائے گا ایک گلاس؟‘‘ ’ہاں مل جائے گا مگر ایک شرط پر‘‘ بزرگ کی پُر جلال آواز جھونپڑی میں‌ سنائی دی۔

    ’’مجھے ہر شرط منظور ہے، میں اس سلطنت کا حکم راں ہوں، پپ… پانی… پلا دو! بادشاہ نے بے تابی سے کہا، مگر اس موقع پر بھی اس نے اپنی امارت کا احساس دلانا ضروری سمجھا تھا۔

    ’’پہلے شرط سن لو۔ پانی کے گلاس کے بدلے میں تمہاری پوری سلطنت لوں گا۔‘‘ بزرگ نے درشتی سے کہا۔

    ’’پوری سلطنت؟ ایک گلاس پانی کے بدلے‘‘؟ بادشاہ نے حیرت سے پوچھا۔

    بزرگ نے کرخت لہجے میں کہا۔ ’’ ہاں‘‘، ’’منظور ہے تو ٹھیک ورنہ یہاں سے چلے جاؤ اور مجھے عبادت کرنے دو۔‘‘پیاس کی شدت سے بادشاہ کو اپنا دم نکلتا محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے نڈھال ہو کر کہا۔ ’’ مجھے منظور ہے، اب مجھے پانی دے دیں۔‘‘

    پانی پی کر بادشاہ کی جان میں جان آئی تو وہ بزرگ سے کہنے لگا۔ ’’وعدے کے مطابق اب میں بادشاہ نہیں رہا، آپ میری جگہ بادشاہ ہوگئے ہیں۔‘‘آپ میرے ساتھ محل چلیں اور تخت سنبھال کر مجھے وہاں سے رخصت کریں۔‘‘

    بادشاہ کی بات سن کر بزرگ نے مسکراتے ہوئے اور ایک بے نیازی کے ساتھ کہا۔ ’’ جس سلطنت کی قیمت ایک گلاس پانی ہو، اس کی حقیر بادشاہت لے کر میں کیا کروں گا؟‘‘ یہ سن کر بادشاہ بہت شرمندہ ہوا۔ اسے اپنی اصلیت کا علم ہو گیا تھا اور وہ جان چکا تھا کہ واقعی انسان کے پاس دنیا بھر کے خزانے ہوں یا کوئی بڑی سلطنت لیکن جب وہ مجبور ہو تو اس کی قیمت ایک گلاس پانی کے برابر بھی نہیں ہے۔

    باشاہ کے دل سے شان و شوکت اور اپنی امارت کا سارا ذوق و شوق اور ہر آرزو گویا جاتی رہی۔ اس نے خدا کا شکر ادا کیا کہ آج اسے ہدایت ملی۔ بادشاہ نے ایک اچھے حکم راں کے طور پر زندگی بسر کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ تب اس بزرگ نے بادشاہ کو گھنے جنگل سے نکالا اور محل تک پنہچایا۔ اس موقع پر بادشاہ نے بزرگ سے وعدہ کیا کہ وہ اللہ کے بندوں کے ساتھ بھلائی کرے گا اور اپنی رعایا کی خبر گیری کرتا رہے گا۔

    (ماخوذ از بادشاہ کی کہانیاں)

  • جادو کا پتھر….

    جادو کا پتھر….

    بہت عرصہ پہلے کی بات ہے، کسی گاؤں میں ایک عورت رہتی تھی جس کا ایک بیٹا تھا۔ ایک دن اس نے اپنے بیٹے کو کچھ پیسے دے کر اس سے کہا: "بیٹے! ذرا جا کر بازار سے روٹی لے آؤ۔” لڑکا پیسے لے کر بازار جا رہا تھا کہ ایک چوراہے پر اس نے کچھ بچّوں کو بلّی کے ایک مریل سے بچّے کو ستاتے ہوئے دیکھا۔

    اسے رحم آ گیا۔ اور اس نے بچّوں سے پوچھا: "اس بلّی کے بچّے کو بیچو گے؟”

    "ہاں بیچیں گے۔” بچوں نے جواب دیا۔ "کیا لو گے؟” لڑکے نے پوچھا۔

    "جو جی چاہے دے دو۔” بچوں نے کہا۔ لڑکے کے پاس جتنے پیسے تھے سب دے کر اس نے بلّی کے بچّے کو لے لیا اور اس کو گود میں اٹھائے واپس گھر آیا۔

    ماں نے پوچھا: "لے آئے روٹی؟”

    "روٹی تو نہیں لایا۔ بلّی کا بچّہ لایا ہوں۔” لڑکے نے جواب دیا۔ "ارے کیا کہہ رہے ہو، بیٹے! یہ تم نے کیا کیا؟” ماں نے حیران اور اداس ہو کر کہا۔

    لڑکے نے سارا حال اپنی ماں کو سنانے کے بعد کہا: "ماں! کوئی بات نہیں۔ ایک دن روٹی کھائے بغیر ہی رہ لیں گے۔” دوسرے دن ماں نے لڑکے کو پھر کچھ پیسے دے کر قصائی کی دکان پر بھیجا۔ راستے میں سڑک پر لڑکے نے دیکھا کہ کچھ لڑکے ایک پلّے کو پتھروں سے مار رہے ہیں۔ لڑکے کو اس پلّے پر رحم آ گیا اور اس نے لڑکوں سے پوچھا: "اے لڑکو! اس پلّے کو بیچو گے؟”

    "ہاں بیچیں گے۔” لڑکوں نے جواب دیا۔ لڑکے نے اپنے ہاتھ کے سارے پیسے ان کو دے دیے اور پلّے کو لے کر گھر واپس آ گیا۔

    ماں نے پوچھا: "لے آئے گوشت؟”

    لڑکے نے کہا: "ماں! آپ ناراض نہ ہوں۔ آپ نے جو پیسے دیے تھے، ان کو دے کر میں یہ پلّا لایا ہوں۔”

    "ارے بیٹے!” ماں نے اداس ہو کر کہا۔ "ہم ٹھہرے غریب لوگ۔ میں نے جانے کتنی مشکلوں سے وہ پیسے کمائے تھے۔ تم ان سے پلّا خرید لائے۔ بھلا یہ ہمارے کس کام کا؟ اور پھر اس کو کھلانے کے لیے ہمارے پاس کچھ ہے بھی تو نہیں۔”

    لڑکے نے جواب دیا: "ماں کوئی بات نہیں۔ ہم ایک دن گوشت کے بغیر جی لیں گے۔”

    تیسرے دن پھر ماں نے اپنے بیٹے کو کچھ پیسے دیے اور اسے تیل لانے کے لیے بازار بھیجا۔ وہ سڑک پر چلا جا رہا تھا کہ اچانک اس نے دیکھا کہ کچھ لڑکے چوہے کے ایک بچّے کو جو چوہے دان میں پھنس گیا تھا، ستا رہے تھے۔ اس کو چوہے کے بچّے پر رحم آ گیا۔ اس نے اپنے سارے پیسے دے کر اس کو لے لیا اور لیے ہوئے گھر واپس آیا۔

    ماں نے پوچھا: بیٹے! تیل لے آئے؟” تو اس نے بتایا کہ کس طرح اسے تیل کے بجائے چوہے کے بچّے کو لینا پڑا۔ ماں بیٹے سے بہت پیار کرتی تھی۔ اس لیے اس بار بھی اس نے بیٹے کو برا بھلا نہ کہا۔ بس ایک ٹھنڈی سانس لے کر رہ گئی۔

    بہت دن گزر گئے۔ لڑکا جوان ہو گیا۔ پلّا کتّا بن گیا، بلّی کا بچہ بڑا ہو کر بلّی بن گیا اور چوہے کا بچّہ بھی ایک اچھا خاصا چوہا بن گیا۔

    ایک دن نوجوان نے دریا میں مچھلی پکڑ لی۔ اس نے مچھلی کو کاٹا اور اس کی آنتیں نکال کر کتّے کے آگے پھینک دیں۔ کتّا آنتوں کو کھانے لگا تو اچانک ان میں سے ایک چھوٹا سا پتّھر مل گیا جو سورج کی مانند چمک رہا تھا۔

    نوجوان نے اس پتّھر کو دیکھا تو خوشی سے اچھلنے کودنے لگا۔ کیوں کہ وہ ایک جادو کا پتھر تھا جس کے متعلق نوجوان نے لوگوں سے سن رکھا تھا۔ اس نے پتّھر کو اٹھا کر اپنی ہتھیلی پر رکھا: "اے جادو کے پتھر! مجھے کھانا کھلا!”

    یہ کہہ کر اس نے مڑ کر دیکھا تو حیرت سے اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ پلک جھپکتے میں اس کے سامنے ایک بیش قیمت دستر خوان پر ایسے انوکھے اور لذیذ کھانے چنے ہوئے تھے جن کو اس نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھا تھا۔ اس نے پیٹ بھر کر کھانا کھا لیا۔ پھر وہ دوڑ کر گھر آیا اور وہ جادو کا پتھر اپنی ماں کو دکھایا۔ ماں بہت خوش ہوئی۔ اسی دن سے ماں اور بیٹا دونوں بڑے چین اور آرام سے زندگی بسر کرنے لگے۔

    ایک دن نوجوان شہر گیا۔ وہاں گھوم پھر رہا تھا کہ اچانک اسے ایک نہایت حسین جوان لڑکی نظر آئی۔ وہ لڑکی نوجوان کو اتنی زیادہ پسند آئی کہ اس نے اس سے شادی کرنے کا ارادہ کر لیا۔ گھر لوٹ کر اس نے اپنا یہ ارادہ ماں کو بتایا۔

    "واہ ! تم بھی کیا باتیں کرتے ہو!” ماں نے حیرت سے کہا۔ "تم یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ لڑکی خود بادشاہ سلامت کی بیٹی ہے۔ نہ بابا! میں پیغام لے کر بادشاہ کے پاس کبھی نہیں جاؤں گی۔”

    لیکن نوجوان اصرار کرتا رہا اور آخرکار ماں مجبوراً راضی ہو گئی۔ اس نے کہا: "اچھی بات ہے۔ کہتے ہو تو چلی جاؤں گی، لیکن اتنا یاد رکھنا کہ بادشاہ کے محل سے آج تک کبھی کسی کو سکھ نہیں ملا۔”

    رات کے وقت ماں شاہی محل تک پہنچ گئی اور محل کے دروازے کے سامنے کی سڑک پر جھاڑو دے کر اس کی صفائی کر دی۔

    صبح کو بادشاہ محل سے باہر نکلا تو یہ دیکھ کر بڑا حیران ہوا کہ دروازے کے سامنے کی ساری زمیں صاف ستھری ہو گئی ہے۔ اگلے دن صبح پھر اس نے دیکھا تو یہی حال تھا۔ اس نے زیادہ تعجّب ہوا اور اس نے رات کو دروازے کے سامنے پہرے دار کھڑے کر دیے۔

    تیسرے دن صبح سویرے پہرے دار ایک عورت کو پکڑ کر بادشاہ کے پاس لے آئے۔ بادشاہ نے عورت سے پوچھا: "بتاؤ تم روز رات کو میرے محل کے دروازے کے سامنے جھاڑو کیوں دیتی ہو؟”

    عورت نے کہا: "میں ایک غریب بیوہ ہوں۔ میرا ایک بیٹا ہے۔ میں آپ کی بیٹی سے اس کی شادی کی خواہش لے کر آئی تھی، لیکن آپ کے پاس یوں چلے آنے کی مجھے جرات نہیں ہوئی۔ اور پھر آپ کے پہرے دار بھی تو آنے نہ دیتے۔”

    کسی غریب عورت کی یہ گستاخی بھلا بادشاہ کیسے برداشت کرتا۔ اس نے غصّے میں آ کر حکم دیا کہ عورت کو قتل کر دیا جائے، لیکن اس کے دائیں والے وزیر نے کہا: "بادشاہ عالم! اس بیچاری عورت کو قتل کروانے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ اس کو کوئی ایسا کام بتائیے جس کو پورا کرنا اس کے بس کی بات نہ ہو۔ بس پھر یہ خود ہی محل میں آنا بند کر دے گی۔”

    وزیر کی بات بادشاہ کو پسند آئی اور اس نے عورت سے کہا: "جاؤ جا کر اپنے بیٹے سے کہنا کہ وہ میری بیٹی سے شادی کے لیے چالیس اونٹوں پر سونا لاد کر لائے۔”

    "ہم بیچارے اتنا سونا کہاں سے لائیں گے؟” عورت نے اداس ہو کر سوچا اور محل سے نکل کر اپنے گھر کی راہ لی۔ گھر لوٹ کر اس نے بادشاہ کی شرط اپنے بیٹے کو بتائی تو اس نے ماں سے کہا: "امی جان! آپ فکر نہ کیجیے۔”

    اس نے جادو کے پتھر کو اپنی ہتھیلی پر رکھ کر اس سے کچھ کہا۔ بس پھر کیا تھا، صبح ہوتے ہیں غریب بیوہ کی جھونپڑی کے سامنے سونے سے لدے ہوئے چالیس اونٹ کہیں سے آ کر کھڑے ہو گئے۔

    نوجوان نے ماں سے کہا: "امی جان! آپ ان چالیس اونٹوں کو بادشاہ کے پاس لے جائیں۔” ماں کو بڑا تعجب ہوا، لیکن وہ کچھ کہے بغیر ان چالیس اونٹوں کو ہانکتی ہوئی بادشاہ کے پاس لے گئی۔

    بادشاہ کو بھی بہت تعجّب ہوا، لیکن اس نے فوراً ہی ایک اور حکم صادر کر دیا۔ اس نے عورت سے کہا: "اپنے بیٹے سے جا کر کہنا کہ وہ اپنی دلہن کے لیے ایک محل بنوائے جو سارے کا سارا خالص سونے کا ہو۔ تب ہی شادی بیاہ کی بات ہو سکتی ہے۔”

    ماں اور زیادہ اداس ہو گئی اور گھر جا کر بادشاہ کی نئی فرمائش اپنے بیٹے کو سنائی۔ نوجوان نے ماں کی باتیں چپ چاپ سن لیں اور پھر اس سے کہا: "امی جان! آپ فکر نہ کیجیے۔ خالص سونے کا محل بھی بن جائے گا۔”

    صبح سویرے دریا کے کنارے ایک عالی شان محل کھڑا ہوگیا جو سارے کا سارا خالص سونے کا تھا۔ ایسا محل اس وقت تک کسی نے نہیں دیکھا تھا۔

    ماں نے بادشاہ کے پاس جا کر کہا: "بادشاہ عالم لیجیے محل تیار ہے۔ ذرا باہر چل کر اس کو دیکھیے تو۔”

    بادشاہ اپنے وزیروں کے ساتھ باہر آیا اور محل دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔ اب تو اس کو ٹال مٹول کرنے کی کوئی صورت نظر نہ آئی اور اس نے غریب نوجوان سے اپنی بیٹی کی شادی کر دی۔

    بادشاہ کے محل میں ایک چڑیل رہتی تھی۔ اس نے راز معلوم کرنے کا عہد کیا کہ ایک غریب نے راتوں رات ایسا عالی شان محل کیسے بنوا لیا، وہ بھی سونے کا۔ یہ عہد کر کے وہ مزاج پرسی کے بہانے شہزادی کے پاس آئی اور اس کو اس بات پر تیار کر لیا کہ وہ اپنے شوہر سے کسی طرح یہ راز معلوم کرے۔ چناں چہ اپنی بیوی کے اصرار پر نوجوان نے بتایا!

    "میرے پاس جادو کا ایک پتھر ہے۔ اس کی مدد سے میں جو کچھ چاہوں حاصل کر سکتا ہوں۔”
    "تم اس جادو کے پتھر کو کہاں رکھتے ہو؟” بیوی نے پوچھا۔
    "میں اس کو اپنے منھ میں زبان کے نیچے رکھتا ہوں۔” نوجوان نے جواب دیا۔

    اگلے ہی دن شہزادی نے یہ سب باتیں چڑیل کو بتا دیں۔ اس روز رات کو نوجوان گہری نیند سو گیا تو چڑیل نے آ کر آہستہ سے اس کے منھ سے جادو کا پتھر نکال لیا اور فوراً اس کو حکم دیا۔ "اے جادو کے پتھر! سونے کے محل کو شہزادی کے ساتھ ہی بادشاہ کے باغ میں منتقل کر دو اور غریب نوجوان پہلے جہاں تھا اسے وہی پہنچا دو۔”

    ایک ہی لمحہ بعد سونے کا محل بادشاہ کے باغ میں کھڑا تھا۔ نوجوان نے آنکھیں کھولیں تو اس نے دیکھا کہ نہ محل ہے، نہ شہزادی اور وہ خود اپنی بوسیدہ جھونپڑی کے اندر پڑا ہوا ہے۔ پاس ہی اس کی ماں بیٹھی رو رہی ہے اور ایک کونے میں کتّا، بلّی اور چوہا اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔

    "ہائے میری بدقسمتی!” نوجوان مایوس ہو کر کہہ اٹھا۔ "جادو کا پتھر گم ہو گیا ہے۔ اب میں کیا کروں؟” یہ کہہ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ کتّے، بلّی اور چوہے کو نوجوان پر رحم آ گیا۔

    ان میں سے ہر ایک اپنے دل میں سوچنے لگا کہ اب آخر کیا کیا جائے، وہ سوچ ہی رہے تھے کہ اچانک کتّا بھونک اٹھا، بلی میاؤں میاؤں کر اٹھی، چوہا چیں چیں کرنے لگا۔ وہ تینوں دوڑتے ہوئے جھونپڑی سے باہر نکلے اور نظروں سے اوجھل ہو گئے۔

    وہ تینوں تمام دن برابر دوڑتے رہے اور شام ہوتے ہوتے بادشاہ کے باغ تک پہنچے۔ انھوں نے نظریں اٹھا کر دیکھا تو دیوار کے اس طرف نوجوان کا سنہرا محل چمک رہا تھا۔ "اب ہم کو کسی طرح باغ کے اندر داخل ہونا چاہیے۔” کتّے، بلّی اور چوہے تینوں نے آپس میں طے کیا۔

    لیکن باغ کی دیواریں اتنی اونچی تھیں کہ ان کو پھاند کر اندر جانا ناممکن تھا۔ سب دروازوں پر اندر سے مضبوط تالے لگے تھے۔

    تینوں دیوار میں کوئی سوراخ تلاش کرنے لگے۔ سوراخ نہ ملا تو وہ تینوں مل کر دیوار کے نیچے زمیں میں ایک سوراخ بنانے لگے۔ سب سے پہلے چوہے نے اپنے پنجے کام میں لگا لیے۔ پھر بلّی، اور آخر میں کتّا اس کی جگہ کام میں لگ گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں سرنگ تیار ہو گئی۔

    پہلے چوہا سوراخ سے ہو کر اندر گیا۔ پھر بلّی بھی اندر چلی گئی۔ کتّا باہر پہرہ دینے لگا۔

    بلّی اور چوہا دونوں سارے محل میں دوڑتے پھرے اور بالآخر اس کمرے میں داخل ہو گئے جہاں شہزادی سوئی ہوئی تھی اور پاس ہی چڑیل پڑی سو رہی تھی، جس نے اپنے ہونٹ زور سے بھینچ رکھے تھے۔ عقل مند چوہا فوراً سمجھ گیا کہ جادو کے پتھر کو اس نے اپنے منھ میں زبان تلے دبا رکھا ہے۔

    چوہا دبے پاؤں جا کر چڑیل کی چھاتی پر چڑھ گیا اور اپنی دُم کی نوک سے اس کی ناک میں گدگدی کرنے لگا۔ چڑیل نے اپنا منھ کھول کر ایک چھینک ماری اور جادو کا پتھر اچھل کر فرش پر گر پڑا۔ بلّی نے فوراً اس کو منھ میں اٹھا لیا اور جب تک چڑیل ہوش سنبھالتی بلّی اور چوہا دونوں سر پر پاؤں رکھ کر بھاگتے ہوئے سوراخ کے راستے باہر سڑک پر آ گئے جہاں کتّا ان کا انتظار کر رہا تھا، کتّے نے فوراً جادو کا پتھر بلّی سے لے کر اپنے منھ میں دبا لیا اور تینوں آگے دوڑ پڑے۔

    ادھر محل میں کھلبلی مچ گئی۔ سب "پکڑو! پکڑو!” کر کے چیخنے لگے۔ چور کی تلاش ہونے لگی، لیکن انھیں یہ کیا معلوم تھا کہ جادو کا پتّھر کسی کتّے کے منھ میں پڑا ہوا ہے۔

    کتا، بلّی اور چوہا تینوں دوڑتے ہوئے تھوڑی دیر میں دریا کے کنارے پہنچے اور آپس میں اس بات پر بحث کرنے لگے کہ جادو کے پتّھر کو اس پار کون لے جائے؟

    بلّی کہتی تھی: "پتھر کو اس پار میں لے جاؤں گی۔”

    کتا کہتا تھا: "نہیں، تمھیں تو تیرنا بھی نہیں آتا، کہیں اس کو لیے ڈوب ہی نہ جاؤ۔

    چوہے کی بھی یہی خواہش تھی کہ جادو کے پتّھر کو اُس پار میں لے جاؤں۔ تینوں بہت دیر تک بحث کرتے رہے۔ کتّا اپنی بات پر اڑا رہا اور پتّھر اسی کے پاس رہ گیا۔ تینوں تیرتے ہوئے دریا پار کرنے لگے۔ اچانک کتّے نے پانی میں اپنا عکس دیکھ لیا اور کوئی دوسرا کتّا خیال کر کے زور سے جو بھونکا تو جادو کا پتھر اس کے منھ سے نکل کر پانی میں گر گیا۔ اسی وقت اچانک کہیں سے ایک بڑی سی مچھلی نکلی اور وہ پتھر کو نگل گئی۔

    "میں نے کہا تھا نا کہ پتھر کو تم ہر گز نہ لے جانا۔” بلّی نے مایوس ہو کر کتّے سے کہا۔ اب وہ تینوں پریشان تھے کہ کیا کیا جائے۔ اپنے مالک کے پاس خالی ہاتھ جانا نہیں چاہتے تھے۔ نزدیک میں ماہی گیروں کی ایک بستی تھی۔ وہ تینوں حیران و پریشان چلتے ہوئے اس بستی میں گئے۔ تینوں کو بہت بھوک لگی ہوئی تھی۔

    خوش قسمتی سے ایک مچھیرے نے ایک بڑی مچھلی پکڑ لی تھی۔ اس نے مچھلی کو کاٹ کر اس کی آنتیں پھینک دیں۔ کتا بلّی اور چوہا تینوں آنتوں کو کھانے لگے۔

    اچانک بلّی خوشی سے میاؤں کر اٹھی۔ معلوم ہوا کہ مچھلی کی آنتوں میں اس کو اچانک کوئی چمکیلا پتّھر مل گیا ہے۔ تینوں نے اس کو ذرا غور سے دیکھا تو پتا چلا کہ انھیں کا جادو کا پتھر ہے، تینوں خوشی سے اچھلنے لگے۔

    بلّی نے پتھر کو اپنے منھ میں لے لیا اور تینوں اپنے گھر کی طرف دوڑ پڑے۔ گھر پہنچتے ہی بلّی نے جادو کے پتھر کو نوجوان کے گھٹنوں پر رکھ دیا۔ نوجوان اس کو دیکھ کر خوشی سے پھولا نہ سمایا اور اس نے کتّے، بلّی اور چوہے تینوں سے کہا:

    "تم لوگوں کا احسان میں جیتے جی نہیں بھولوں گا۔”

    "اور ہم جیتے جی تمھاری خدمت کرنے کو تیار ہیں، کیوں کہ کبھی تم ہی نے ہماری جانیں بچائی تھیں۔” کتّے، بلّی اور چوہے نے ایک آواز میں اس کو جواب دیا۔

    نوجوان نے جوش میں آ کر کہا: "ابھی میں پتّھر کو حکم دیتا ہوں، وہ سونے کا محل پھر سے آ جائے گا۔”

    ماں نے بیٹے کو روکتے ہوئے کہا: "رہنے دو بیٹے۔ سونے کے محل کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں۔” تب نوجوان نے جادو کے پتھر سے کہا:

    "محل کو مٹا دو۔” تو بس پھر کیا تھا، نہ محل رہا، نہ چڑیل رہی اور نہ ہی بادشاہ اور اس کی بیٹی رہی۔ ان سب کا نام و نشان مٹ گیا۔

    لوگ کہتے ہیں کہ اس کے بعد نوجوان نے ایک مالی کی بیٹی سے شادی کر لی اور وہ لوگ بڑے سکھ اور آرام سے زندگی بسر کرنے لگے۔

    (مصنّف: نامعلوم)

  • خواہشات کا کشکول

    خواہشات کا کشکول

    جب انسان میّسر و موجود سے بڑھ کر خواہش کرتا ہے اور صبر و شکر، اعتدال اور قناعت کا راستہ ترک کردیتا ہے تو پھر یہ نفسانی خواہشات بہ آسانی اس پر غلبہ پالیتی ہیں اور اس کے لیے نیک و بد میں‌ تمیز کرنا ممکن نہیں‌ رہتا۔ یوں‌ وہ زمین پر فساد برپا کرنے لگتا ہے، ظلم، انصافی، حق تلفی غرض ہر قسم کی برائی میں مبتلا ہوتا چلا جاتا ہے۔

    پیشِ نظر حکایت ایک عظیم سچ اور آفاقی حقیقت کو ہمارے سامنے لاتی ہے، جس کے دو کردار بادشاہ اور فقیر ہیں جن میں‌ سے ایک کو ہم دولت مند اور بااختیار فرض کرسکتے ہیں اور دوسرے کو خدا کا فرماں‌ بردار اور قانع و شکر گزار کہہ سکتے ہیں۔ اس حکایت کے مختلف حوالے ملتے ہیں جن میں‌ اسے کبھی شیخ سعدی سے منسوب کیا گیا ہے تو کہیں‌ رومی سے۔ اسی طرح‌ یہ قصّہ مختلف صوفیائے کرام اور بزرگوں کے نام بھی پڑھنے اور سننے کو ملتا ہے۔

    یہ حکایت کچھ اس طرح‌ ہے:

    مشہور ہے کہ کسی عظیم سلطنت کے فرماں‌ روا کا سامنا ایک درویش سے ہوا۔ ”بادشاہ نے بصد عجز و نیاز اس سے کہا، مانگو کیا مانگتے ہو؟” اس درویش نے اپنا کشکول آگے کر دیا اور مسکراتے ہوئے بولا۔

    ”حضور! صرف میرا کشکول بھر دیں۔” بادشاہ نے فوراً اپنے گلے کے ہار اتارے، انگوٹھیاں اتاریں، جیب سے سونے چاندی کی اشرفیاں نکالیں اور درویش کے کشکول میں ڈال دیں، لیکن کشکول بڑا تھا اور مال و متاع کم۔ لہٰذا اس نے فوراً خزانچی کو ہیرے جواہرات کی بوری سمیت طلب کرلیا۔

    خزانچی اپنے ملازموں کے ساتھ ہیرے جواہرات کی بوری لے کر حاضر ہوا۔ بادشاہ نے پوری بوری الٹ دی اور حکم دیا کہ جواہرات اس فقیر کے کشکول میں بھر دیے جائیں۔ حکم کی تعمیل ہوئی لیکن دیکھا کہ کشکول پھیلتا جارہا ہے اور اس کا پیٹ بھر کے ہی نہیں‌ دے رہا۔ یہاں تک کہ تمام جواہرات اس درویش کے کشکول میں‌ چلے گئے۔

    سبھی حیران تھے کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ ادھر بادشاہ کو ایک فقیر کے آگے نہ صرف اپنی بے بسی کا احساس ستانے لگا بلکہ اس نے اسے اپنی توہین اور بے عزّتی تصور کیا۔ بادشاہ کے حکم پر جواہرات کی مزید بوریاں لائی گئیں‌ اور کشکول بھرنے کی کوشش کی گئی، لیکن نتیجہ وہی نکلا۔

    شاہی خزانہ حتّٰی کہ وزرا کی تجوریاں‌ تک الٹ دی گئیں، لیکن کشکول نہیں‌ بھرا۔ تب بادشاہ نے اپنی شکست کا اعتراف کرتے ہوئے درویش سے اس کی حقیقت دریافت کی۔

    درویش نے کشکول بادشاہ کے سامنے الٹ دیا اور کچھ کہے بغیر وہاں‌ سے جانے لگا۔ بادشاہ نے یہ دیکھا تو اس کے آگے ہاتھ باندھ کر عرض کی کہ اپنی اور اس کشکول کی حقیقت اس پر منکشف کی جائے۔

    ”بادشاہ نے کہا، اے خدا کے مقرّب بندے، مجھے صرف اتنا بتا دیں کہ یہ کشکول کس چیز کا بنا ہوا ہے؟” درویش مسکرایا اور کہا۔

    ”اے نادان! یہ خواہشات کا بنا ہوا کشکول ہے، جسے صرف قبر کی مٹی بھر سکتی ہے۔

  • وہ تمھاری وفادار نہیں ہے!

    وہ تمھاری وفادار نہیں ہے!

    ایک صراف نے عباسی فرماں روا منصور کو عرضی بھیجی کہ میں غریب بندہ ہوں، تھوڑی سی پونجی ایک صندوقچے میں رکھی تھی، وہ چوری ہوگئی۔ اب کوڑی کوڑی کو محتاج ہوں۔

    منصور نے صراف کو خلوت میں طلب کر کے دریافت کیا کہ تمھارے گھر میں کون کون رہتا ہے؟

    جواب ملا کہ بیوی کے سوا کوئی نہیں ہے۔

    بادشاہ نے پوچھا، بیوی جوان ہے یا معمر؟

    صراف نے جواب دیا، وہ جوان ہے۔

    خلیفہ منصور نے صراف کو جانے کی اجازت دے دی اور چلتے وقت اسے ایک نایاب عطر کی شیشی عطا کی۔ یہ عطر خلیفہ کے سوا بغداد بھر میں کسی کے پاس نہیں تھا۔

    خلیفہ کے حکم سے شہر کی فصیل کے پہرے داروں کو وہی عطر سنگھوا دیا گیا کہ ایسی خوش بُو کسی شخص کے پاس سے آئے تو اسے گرفتار کر کے پیش کیا جائے۔

    چند روز بعد سپاہی ایک نوجوان کو پکڑ کر لائے۔ اس کے پاس سے مخصوص عطر کی خوش بُو آرہی تھی۔ خلیفہ منصور نے اس سے دریافت کیا کہ یہ عطر تجھے کہاں سے دست یاب ہوا؟ نوجوان خاموش رہا۔

    خلیفہ نے کہا، جان کی امان چاہتا ہے تو وہ صندوقچہ واپس کر دے جو تجھے صراف کی بیوی نے دیا ہے؟ اس شخص نے چپ چاپ صندوقچہ لاکر پیش کر دیا اور معافی چاہی۔

    بادشاہ نے صراف کو بلا کر صندوقچہ دیا اور سمجھایا کہ بیوی کو طلاق دے دو، وہ تمھاری وفادار نہیں ہے۔

    سید مصطفٰے علی بریلوی