Tag: بادشاہ کی کہانیاں

  • بادشاہ کا مرتبہ کم نہ ہوا (حکایت)

    بادشاہ کا مرتبہ کم نہ ہوا (حکایت)

    ایک بادشاہ اپنے چند خاص مصاحبوں کے ساتھ شکار کے لیے نکلا۔ جاڑوں کے دن تھے، وہ سب دور نکل گئے اور اسی اثناء میں رات سر پر آ گئی۔

    اندھیرا بڑھنے لگا اور بادشاہ اور اس کے مصاحبوں کو واپسی کا راستہ سجھائی نہیں‌ دے رہا تھا۔ وہ کسی امید کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے کہ بادشاہ کو ایک مکان نظر آیا۔ یہ کسی کسان کا گھر تھا۔ بادشاہ نے کہا کہ آج رات وہ اس کسان کے گھر میں قیام کرے گا تاکہ سردی کے اثر سے بچ جائے۔

    مزید سبق آموز اور دل چسپ کہانیاں‌ پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں

    ایک وزیر نے یہ سنا تو کہا کہ یہ بات بادشاہ کے بلند مرتبہ کے لائق نہیں ہے کہ ایک کسان سے رہنے کی جگہ مانگے۔ ہم اسی جگہ خیمے لگا دیں گے اور آگ جلائیں گے تاکہ کھانا بھی تیار کرا لیں۔ کسان کو بادشاہ کے قافلے کی خبر ہو گئی۔ اس کے یہاں جو کچھ کھانے کے لیے موجود تھا وہ لا کر بادشاہ کے سامنے پیش کر دیا اور آداب بجا لایا اور کہا کہ بادشاہ سلامت آج رات میرے گھر گزاریں تو مجھ غریب پر احسان ہوگا۔ وزیر نے پھر مداخلت کی اور اپنی بات دہرائی تو کسان نے ادب سے کہا کہ حضور اس سے آپ بلند مرتبہ ہرگز کم نہ ہوگا لیکن شاید لوگ نہیں چاہتے کہ ایک کسان کی عزت بڑھ جائے۔

    بادشاہ کو کسان کی یہ بات بہت پسند آئی۔ اس نے حکم دیا کہ رات کو اس کا قیام کسان کے گھر ہوگا اور یہ کہہ کر کھانا کھانے لگا۔ کسان کی خوشی کا عالم ہی اور تھا۔ بادشاہ نے صبح کو رخصت ہوتے وقت اسے انعام دیا۔ لوگوں نے دیکھا کہ وہ کسان کچھ دور تک بادشاہ کی سواری کے ساتھ ساتھ چلتا رہا اور کہتا جاتا تھا کہ بادشاہ نے ایک کسان کے گھر قیام کیا، مگر بادشاہ کی عزت اور بڑائی میں کوئی کمی نہیں ہوئی لیکن بلند مرتبہ بادشاہ کی مہربانی کا سایہ کسان کے سر پڑا تو اس کا سر آسمان کی بلندی تک جا پہنچا۔

    (گلستانِ سعدی سے ایک حکایت)

  • حلوائی کا بیٹا

    حلوائی کا بیٹا

    قصہ مشہور ہے کہ ایک بادشاہ نے ایسا شفا خانہ قائم کیا جس میں مفت علاج کے ساتھ مریضوں کو صحت یاب ہونے تک قیام و طعام پر ایک دمڑی تک خرچ نہیں‌ کرنا پڑتی تھی بلکہ انواع و اقسام کی نعمتیں اور دیگر مراعات بھی میسر تھیں۔ سو، چند ہی روز میں شفا خانہ مریضوں سے بھر گیا۔

    شفا خانہ ایسا بھرا کہ مزید مریضوں کو داخل کرنا ممکن نہ رہا۔ شروع میں حکمیوں کا خیال تھا کہ معمولی تکلیف اور عام درد اور دوسری شکایات میں‌ مبتلا مریض جلد ہی صحت یاب ہوکر اپنے گھروں کو لوٹ جائیں‌ گے۔ ایسا ہوا بھی، لیکن ان مریضوں کی تعداد بہت کم تھی جو صحت یاب ہوکر شفا خانہ چھوڑ گئے۔ اکثریت ایسی تھی جو مسلسل علاج اور بھرپور توجہ کے باوجود کوئی نہ کوئی شکایت لے کر بیٹھ جاتی اور حکیم ان کے نئے یا مستقل مرض کی تشخیص کرنے میں ناکام ہورہے تھے۔ ان میں سے کسی کو مستقل جسم میں درد رہتا، تو کسی کو کوئی ایسا روگ لاحق تھا کہ وہ اس سے نجات ہی نہیں حاصل کر پا رہا تھا۔ الغرض صورتِ حال بہت پریشان کن ہوگئی۔ نتیجہ یہ کہ بہت سے مریضوں نے شفا خانہ میں‌ ایک طویل عرصہ گزار دیا۔

    جب بادشاہ کو یہ بتایا گیا کہ بڑے بڑے حاذق حکیموں کے علاج سے بھی مریض صحت یاب نہیں ہورہے اور شفا خانے میں گنجائش باقی نہیں تو بادشاہ بھی پریشان ہوا۔ اس نے اعلان کروایا کہ جو حکیم ان عمر بھر کے روگیوں کا روگ دور کرے گا اُسے انعام و اکرام اور خلعتِ فاخرہ سے نوازا جائے گا۔ بڑے بڑے حکیم اور ماہر اطبا آئے مگر ’منہ پِٹا کر‘ چلے گئے۔ آخر کو ایک حلوائی کا بیٹا دربار میں آیا اور دعویٰ کیا کہ وہ چند ساعتوں میں ایسے تمام روگیوں کو ان کے پیروں پر کھڑا کرسکتا ہے۔ بادشاہ نے کہا ’’چلو، تم بھی قسمت آزما لو۔‘‘

    اس لڑکے کو شفا خانہ لے جایا گیا جہاں پہنچ کر اس نے ایک بڑا سا کڑھاؤ، منوں تیل اور ٹنوں کے حساب سے لکڑیاں منگوا لیں۔ سب کچھ آگیا تو لکڑیاں جلا کر آگ دہکائی گئی۔ آگ پر کڑھاؤ چڑھایا گیا۔ کڑھاؤ میں تیل کھولایا گیا۔ تیل جوش مارنے لگا تو حلوائی کے فرزند نے شفا خانے کے عملے سے کہا کہ کسی بھی ایسے مریض کو لے آؤ جو برسوں سے یہاں پڑا ہے۔ ایک مریض جو چلنے پھرنے سے قاصر تھا، اسے پلنگ پر لاد کر لایا گیا۔ حلوائی کے پُوت نے پوچھا: ’’بڑے صاحب! آپ کب سے شفاخانے میں داخل ہیں؟‘‘

    معلوم ہوا: ’’پندرہ برس سے۔‘‘

    پوچھا: ’’ ٹھیک نہیں ہوئے؟‘‘

    جواب ملا: ’’نہیں، یہ تکلیف ہے، وہ تکلیف ہے، یہاں درد ہے، وہاں درد ہے۔‘‘

    اس لڑکے نے جو معالج بن کر آیا تھا، اس کی طرف مسکرا کر دیکھا اور تسلّی دی کہ وہ ابھی اسے ٹھیک کردے گا۔ پھر اس نے کارندوں سے کہا: ’’اس کا مرض میں جان گیا ہوں۔ اب اس کا علاج شروع کرتے ہیں، اسے ڈنڈا ڈولی کر کے لے جاؤ اور کھولتے تیل کے کڑھاؤ میں اس کی ٹانگیں تین مرتبہ ڈبو دو۔ اس کے بعد دونوں بازوؤں کو تین مرتبہ کھولتے تیل میں‌ ڈالنا ہوگا۔ اور دیکھو بہت احتیاط سے یہ کام کرنا ہے۔ بزرگ کو کڑھاؤ میں‌ مت گرا دینا۔‘‘ یہ سنتے ہی لاعلاج بابا یکلخت چھلانگ مار کر کھڑا ہوگیا۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر کہا: ’’نہیں، نہیں۔ حکیم جی! میں بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں، بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کمرے میں اچھل کود کرنے لگا اور سب کو چل کر دکھایا۔ حکیم نے کہا: ’’اب تم شفا خانے کے ہر کمرے میں جاؤ، ہر مریض کو بتاؤ کہ ’میں بالکل ٹھیک ہوگیا ہوں۔‘ پھر شفا خانے سے باہر نکل جاؤ۔‘‘ اس کے بعد اُس کے سامنے ایسے چند اور مریض لائے گئے اور ان کے لیے بھی اس نوجوان حکیم نے وہی علاج تجویز کیا جو پہلے مریض کے لیے کیا گیا۔ وہ بھی طریقۂ علاج سن کر فوراً‌ ٹھیک ہوگئے اور ہر قسم کا درد کافور ہوگیا یوں اس حکیم نے کچھ ہی دیر میں سارے مریض ٹھیک کر دیے اور شفا خانہ ان ہڈ حرام اور مفت خوروں سے خالی ہوگیا۔

    بادشاہ نے اپنا وعدہ پورا کیا اور حلوائی کے فرزند کو انعام و اکرام کے ساتھ خلعت سے نوازا گیا۔

    (لوک ادب سے انتخاب)

  • بے فکری کا زور (حکایت)

    بے فکری کا زور (حکایت)

    ایک دن اکبر بادشاہ دربار لگائے بیٹھا تھا کہ ایک ہاتھی کے بے قابو ہو کر چھوٹ جانے سے ’’ہٹو بچو‘‘ کا غل ہونے لگا۔ بادشاہ نے کھڑکی کی طرف منہ کیا تو کیا دیکھتا ہے کہ ایک نوجوان نے دوڑتے ہوئے ہاتھی کی دُم پکڑ کر اسے رکنے پر مجبور کردیا ہے۔

    بادشاہ نے بیربل کو اس کی شہ زوری کا تماشا دکھا کر پوچھا۔ ’’کچھ سوچو تو سہی۔ اس میں اتنا زور کہاں سے آگیا۔‘‘

    بیربل نے عرض کی۔ ’’جہاں پناہ! یہ صرف بے فکری کا زور ہے۔ اپنے کام اور معاش کی فکر میں مبتلا یا کوئی پریشان حال ہوتا تو اس کے لیے یہ آسان نہ تھا۔‘‘

    بادشاہ کو وزیر کی اس بات پر تعجب ہوا۔ وہ سوچنے لگا کہ واقعی کوئی ہر طرف سے بے فکر اور آزاد ہو تو اس میں اتنی قوت پیدا ہوجاتی ہے۔ بیربل نے دیکھا کہ بادشاہ کسی سوچ میں گم ہے تو اس نے بھانپ لیا کہ وہ اس کی بات پر شبہ میں‌ پڑ گیا ہے۔ بیربل نے فوراً اس شہ زور کو دربار میں بلوا لیا اور کہا۔ ’’جہاں پناہ تمہاری شہ زوری دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ آج سے ایک روپیہ روزانہ تمہیں تنخواہ ملا کرے گی اور کام صرف یہ ہے کہ شہر کے باہر فلاں خانقاہ پر عین شام کے وقت چراغ جلا آیا کرو۔ لیکن یاد رہے کہ اگر ایک دن بھی وقت سے آگے پیچھے پہنچو گے تو پھانسی دے دی جائے گی۔

    نوجوان سن کر آداب بجا لایا اور ہدایت کے مطابق ہر روز خانقاہ پر چراغ جلانے لگا۔ مگر تھوڑے دن گزرے تھے کہ کہیں کسی کا بیل چھوٹ گیا۔ اتفاق سے اس نوجوان نے جو خانقاہ پر چراغ جلانے جارہا تھا، یہ منظر دیکھ لیا اور اس بیل کی بھی دُم پکڑنی چاہی تو اس میں ناکام ہوا۔ وہ بیل کو تو کیا روکتا، اس کے ساتھ خود ہی دور تک گھسٹتا ہوا چلا گیا۔ بیل کی دُم اس نوجوان کے ہاتھوں سے چھوٹ گئی اور بیل بھاگا تو یہ دھم سے زمین پر آگرا۔

    کسی نے یہ ماجرا بیربل تک پہنچا دیا اور بیربل نے بادشاہ کو یہ بات بتائی۔ تب، اکبر بیربل کی ذہانت کا قائل ہوگیا اور کہا، واقعی فکرمندی بڑی بری چیز ہے۔‘‘

    (ہندوستانی حکایات سے انتخاب)

  • شہزادے کی ذہانت (ایک سبق آموز کہانی)

    شہزادے کی ذہانت (ایک سبق آموز کہانی)

    ایک بادشاہ کے کئی بیٹے تھے اور وہ سب وجیہ اور دراز قد تھے۔ بادشاہ ان سے بہت پیار کرتا تھا مگر اس کا سب سے چھوٹا بیٹا بدصورت اور بوٹے قد کا مالک تھا۔ یہ شہزادہ بڑا ہوا تو اس نے محسوس کیا کہ بادشاہ اور اس کے بھائی بھی واجبی شکل و صورت اور چھوٹے قد کی وجہ اسے اکثر نظر انداز کردیتے ہیں۔

    ایک مرتبہ دربار سجا ہوا تھا اور سبھی شہزادے دربار میں موجود تھے۔ ایک موقع پر بادشاہ سے اس بدصورت شاہزادے کی نظریں‌ چار ہوئیں تو اسے لگا کہ بادشاہ نے بڑی حقارت سے دیکھا اور منہ پھیر لیا۔ شہزادے نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے باپ سے اس پر بات کرے گا۔ دربار ختم ہوا تو اس نے بادشاہ سے کہا ’’ابّا جان! سمجھ دار ٹھگنا لمبے بیوقوف سے اچھا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ جو چیز دیکھنے میں بڑی ہے وہ قیمت میں بھی زیادہ ہو۔ دیکھیے ہاتھی کتنا بڑا ہوتا ہے، مگر حرام سمجھا جاتا ہے اور اس کے مقابلہ میں بکری کتنی چھوٹی ہے مگر اس کا گوشت حلال ہے۔ کیا آپ نے سنا ہے کہ ایک دبلے پتلے عقل مند نے ایک بار ایک موٹے بیوقوف سے کہا تھا کہ اگر عربی گھوڑا کمزور ہو جائے تب بھی وہ گدھوں سے بھرے ہوئے پورے اصطبل میں سب سے عمدہ اور طاقت ور ہوتا ہے!

    بادشاہ نے شہزادے کی بات سنی اور مسکراتے ہوئے اس کی طرف ایسے دیکھنے لگا گویا وہ اس بات سے خوش ہوا ہے، لیکن بادشاہ کے دوسرے بیٹے جو بہت خوب صورت تھے، اپنے بھائی کی اچانک پذیرائی سے خوف زدہ اور رنجیدہ ہوگئے۔

    جب تک انسان اپنی زبان سے بات نہیں کرتا اس وقت تک ظاہر نہیں‌ ہوتا کہ اس کی اچھائیاں اور برائیاں کیا ہیں اور کتنا ذہین ہے۔ اس بات کو چند ماہ گزرے تھے کہ بادشاہ کو ایک زبردست دشمن کا سامنا کرنا پڑا۔ جب دونوں طرف کی فوجیں آمنے سامنے آئیں اور لڑائی شروع ہوئی تو سب سے پہلے جو شخص لڑنے کے لیے میدان میں نکلا وہی بدصورت شہزادہ تھا۔ اور اس نے پکار کر دشمن کے سپاہ سالار کو کہا:

    میں وہ آدمی نہیں ہوں کہ تم لڑائی کے دن میری پیٹھ دیکھ سکو۔ میں ایسا بہادر ہوں کہ تم میرا سر خاک اور خون میں لتھڑا ہوا دیکھو گے!

    یہ کہہ کر شہزادے نے یلغار ہو کا نعرہ بلند کیا اور خود بھی اپنے سپاہیوں کے درمیان دشمن کی فوج پر ٹوٹ پڑا اور کئی دشمنوں کو ٹھکانے لگا دیا۔ جب جنگ ختم ہوئی اور بدصورت شہزادہ اپنے باپ کے سامنے آیا تو آداب بجا لایا اور کہا: ابّا جان! آپ نے میرے دبلے پتلے کمزور جسم کو ذلّت کی نگاہ سے دیکھا اور ہر گز میرے ہنر کی قیمت کو نہ سمجھا۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ پتلی کمر والا گھوڑا ہی لڑائی کے میدان میں کام آتا ہے آرام اور آسائش میں پلا ہوا موٹا تازہ بیل کام نہیں آسکتا!

    بادشاہ کو سپاہ سالار نے بتایا کہ دشمن کی فوج بہت زیادہ تھی اور شہزادے نے جب انھیں للکارا تھا تو اس کی صف میں سپاہیوں کی تعداد کم تھی۔ اس موقع پر کچھ نے جنگ کا میدان چھوڑنے کا ارادہ کیا، شہزادے نے ان کو کہا اے بہادرو! کوشش کرو اور دشمن کا مقابلہ کرو، یا پھر عورتوں کا لباس پہن لو۔ اس کی بات سن کر سپاہیوں کی ہمت بڑھ گئی اور سب دشمن کی فوج پر ٹوٹ پڑے اور اس کو مار بھگایا اور دشمن پر اسی دن فتح حاصل کی۔ بادشاہ نے شہزادے کو پیار کیا اور دربار میں اپنے ساتھ تخت پر بٹھایا۔ اب وہ اس سے محبت کرنے لگا تھا اور اس کو اپنا ولی عہد بنا دیا۔ دوسرے بھائیوں نے یہ حال دیکھا تو حسد کی آگ میں جلنے لگے اور ایک دن بدصورت شہزادے کے کھانے میں زہر ملا دیا۔ اتفاق سے ان کی بہن نے کھڑکی سے دیکھ لیا اور شہزادے کو خبردار کرنے کے لیے کھڑکی کے دروازے بہت زور سے بند کیے۔ شہزادہ اس کی آواز سے چونک پڑا اور اپنی ذہانت سے سمجھ گیا کہ دال میں کچھ کالا ہے، اس نے فوراً کھانا چھوڑ دیا اور کہنے لگا، یہ تو نہیں ہوسکتا ہے کہ بے ہنر لوگ زندہ رہیں اور ہنر مند مر جائیں۔ وہ کہتا جارہا تھا کہ اگر ہما دنیا سے ختم ہو جائے، تب بھی کوئی شخص الّو کے سایہ میں آنا پسند نہ کرے گا! ادھر کھڑکی زور سے بند کرکے وہ لڑکی دوڑی ہوئی باپ کے پاس گئی اور اسے اطلاع دی تو اس نے سب کو اکٹھا کرلیا اور بیٹے کے قتل کے ثبوت دیکھنے کے بعد شہزادے کے تمام بھائیوں کو سزا سنا دی۔ اس طرح یہ فتنہ اور فساد ختم ہوا۔

  • قلعی کھل گئی!

    قلعی کھل گئی!

    اٹلی میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس کی رعایا اسے ناپسند کرتی تھی مگر کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اس کی بہت تعریف کرتے تھے۔ اس بادشاہ کا ایک خوشامدی وزیر تھا۔ وہ دن رات بادشاہ کی جھوٹی تعریفیں کرتا۔

    بادشاہ کا حکم تھا کہ اسے رعایا کا حال سچ مچ بتایا جائے کہ کون کس حالت میں ہے اور میرے بارے میں لوگ کیا کہتے ہیں۔ اس طرح میں ان کی رائے اور سب کے حالات صحیح طور پر معلوم کر سکوں گا۔ اس کے جواب میں دوسرے وزیر تو خاموش رہتے، مگر تعریف کرنے والا وزیر فوراً کہتا، حضور کی نیکی اور انصاف کے چرچے سارے ملک بلکہ دنیا بھر میں ہوتے ہیں۔ بھلا وہ کون بے وقوف آدمی ہوگا جو حضور کے انتظام سے خوش نہ ہو ہمارے ملک کی رعایا تو بے حد آرام اور چین سے ہے۔

    بادشاہ کو اس کی باتیں سنتے سنتے شک ہونے لگا کہ ہو سکتا ہے کہ یہ خوشامدی مجھ سے سچی اور صاف باتیں نہیں کرتا اور اس کے دھوکے میں اپنی رعایا کے اصل حال سے بے خبر رہوں۔ یہ سوچ کر اس نے ارادہ کیا کہ اس وزیر کو کسی طرح آزمانا چاہیے۔ پہلے تو وہ اسے باتوں باتوں میں سمجھاتا رہا کہ دیکھو دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ہوتا جس کے سارے لوگ اپنے بادشاہ سے خوش ہوں اور کوئی بادشاہ ایسا نہیں ہو سکتا ہے کہ جو کسی معاملے میں بے جا فیصلہ نہ کر بیٹھے، جس سے کسی کو تکلیف پہنچے۔ وزیر کو چاہئے کہ اس کے سامنے سچ بولے اور حق بات کہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم نڈر ہو کر میرے سامنے رعایا کا حال، ان کے خیالات اور میرے انتظام کی صحیح حالت مجھے بتا دیا کرو تاکہ میں سب لوگوں کی اچھی طرح دیکھ بھال کر سکوں، لیکن وزیر اپنی خوشامد کی عادت سے باز نہ آیا اور اسی طرح جھوٹی سچی باتیں بنا کر تعریفیں کرتا رہا۔

    آخر بادشاہ نے تنگ آکر اس کی آزمائش کے لئے اس سے کہا ہم تمہارے کام اور تمہاری باتوں سے بہت خوش ہیں اور اس صلے میں تمہیں بہت بڑا انعام دینا چاہتے ہیں۔ یہ انعام ایک دن کی بادشاہت ہے۔ کل تم بادشاہ بنو گے اور دربار میں سب امیروں، وزیروں اور رعایا کے اعلیٰ و ادنیٰ لوگوں کو جمع کر کے تمہاری دن بھر کی بادشاہت کا ہم اعلان کریں گے۔

    وزیر یہ سن کر بہت خوش ہوا۔ دوسرے دن شاہی دربار میں مہمان آنا شروع ہوئے۔ ہر طبقے کے لوگوں کو دعوت دی گئی تھی اور ان کے سامنے وزیر کو بادشاہ نے اپنا تاج پہنا کر اپنے تخت پر بٹھا دیا اور اعلان کیا کہ آج کے دن ہم بادشاہ نہیں۔ آپ لوگوں کا یہ بادشاہ ہے۔ اس کے بعد سب لوگ کھانے پینے میں مصروف ہو گئے۔ خوشامدی وزیر بادشاہ بنا، بڑی شان سے تخت پر بیٹھا، نئے نئے حکم چلا رہا تھا اور خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا۔

    اصلی بادشاہ ایک دن کے نقلی بادشاہ کے پاس چپ چاپ بیٹھا تھا۔ اتنے میں ایک دن کے بادشاہ کی نظر جو اچانک اٹھی تو وہ ایک دم خوف سے کانپنے لگا۔ اصلی بادشاہ اس کی یہ حالت دیکھ کر مسکراتا رہا۔ قصہ یہ تھا کہ نقلی بادشاہ نے دیکھا کہ شاہی تخت کے اوپر اس جگہ جہاں وہ بیٹھا تھا سر پر ایک چمک دار خنجر لٹک رہا تھا جو بال جیسی باریک ڈوری سے بندھا ہوا تھا۔ اسے دیکھ کر نقلی بادشاہ کا ڈر کے مارے برا حال ہو گیا کہ کہیں یہ بال ٹوٹ نہ جائے اور خنجر اس کے اوپر نہ آ پڑے۔ اس نے ضبط کر کے بہت سنبھلنے کی کوشش کی، مگر اس سے خوف کی وجہ سے سیدھا نہ بیٹھا گیا۔

    آخر مجبور ہو کر اصلی بادشاہ سے کہنے لگا: ’’حضور! یہ خنجر میرے سر پر سے ہٹوا دیا جائے۔ اصلی بادشاہ نے مسکرا کر کہا:’’یہ کیسے ہٹایا جا سکتا ہے۔ یہ تو ہر بادشاہ کے سر پر ہر وقت لٹکا رہتا ہے۔ اسے فرض کا خنجر کہتے ہیں۔ اگر کوئی بادشاہ اپنے فرض سے ذرا غافل ہوتا ہے تو یہی خنجر اس کے سر کی خبر لیتا ہے، لیکن جو بادشاہ انصاف اور سچائی سے حکومت کرتا ہے یہ خنجر اس کی حفاظت کرتا ہے۔‘‘

    اب تو وزیر کی بہت بری حالت ہو گئی اور وہ پریشان ہو کر سوچنے لگا کہ اب کیا کرے، کیا نہ کرے۔ اس کے دل میں خیال آ رہا تھا کہ ایک دن کی بادشاہت میں وہ ایسے ایسے حکم چلائے جس سے اس کے خاندان والوں، عزیزوں اور دوستوں کو خوب فائدے پہنچیں، مگر اب تو اس کے سارے منصوبے خاک میں ملتے نظر آ رہے تھے۔ اس نے سوچا اگر کوئی حکم اس نے انصاف کے خلاف دیا تو یہ خنجر اس کی گردن اڑا دے گا۔ اصلی بادشاہ اس کی گھبراہٹ دیکھ کر کہنے لگا، اب تمہاری سمجھ میں آیا کہ بادشاہ کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور اس کی جان کو کیا کیا عذاب جھیلنے پڑتے ہیں۔ یہ تخت آرام اور من مانی کے لیے نہیں ہے۔ رعایا کا حال اور ملکی انتظام کے بارے میں صحیح صحیح حالات بتاؤ۔ خوشامدی وزیر اپنے بادشاہ کی جھوٹی تعریف کر کے ملک، بادشاہ اور رعایا کی بھلائی نہیں کرتے اور خود اپنے بھی خیرخواہ نہیں ہوتے۔ بلکہ وہ اپنے بادشاہ کو اس چمک دار خنجر کی زد میں لاتے ہیں جو اس کے سَر پر لٹک رہا ہے۔

    وزیر جو اس وقت ایک دن کا بادشاہ تھا، اپنے حقیقی بادشاہ کی یہ باتیں سن کر بہت شرمندہ ہوا اور جھوٹی خوشامد سے باز رہنے کا وعدہ کر کے بادشاہت سے دست بردار ہو گیا۔

    (اردو کے ممتاز ادیب، مؤرخ، نقاد اور براڈ کاسٹر عشرت رحمانی کے قلم سے)

  • حاجت روا (ایک حکایت)

    حاجت روا (ایک حکایت)

    ایک بادشاہ اپنے چند رفقاء اور درباریوں‌ کے ساتھ اپنے محل سے سیر کی غرض سے نکلا، لیکن ایک مقام پر ان سے بچھڑ گیا اور چلتے چلتے دور ویرانے میں پہنچ گیا۔ وہاں اسے ایک جھونپڑی نظر آئی!

    اس ویرانے میں ایک چھونپڑی دیکھ کر بادشاہ کو حیرت بھی ہوئی اور امید بھی بندھی کہ اب وہ دوبارہ اپنے محل پہنچ سکتا ہے۔

    بادشاہ نے جھونپڑی کے آگے کھڑے ہو کر آواز دی تو اس میں سے ایک شخص باہر آیا۔ بادشاہ نے اسے بتایا کہ وہ مسافر ہے اور راستہ بھٹک کر ادھر نکل آیا ہے۔ اس جھونپڑی میں رہنے والا ایک بوڑھا شخص تھا جس نے بادشاہ کو تسلّی دی اور جھونپڑی میں لے گیا۔ اس نے بادشاہ کی بڑی خدمت کی۔ وہ غریب آدمی جانتا بھی نہیں تھا کہ یہ بادشاہ ہے۔ اس نے مسافر سمجھ کر بادشاہ کی خدمت کی اور جو کچھ کھانے پینے کو اس کے پاس تھا، اس کے سامنے رکھا۔ بادشاہ بہت خوش ہوا۔ پھر اس دیہاتی بوڑھے نے بادشاہ کو اچھی طرح شہر جانے کا راستہ سمجھا کر روانہ کیا۔ روانگی کے وقت بادشاہ نے اس پر اپنی حقیقت کھول دی اور اپنی انگلی سے ایک انگوٹھی اتاری اور کہا: تم مجھے نہیں جانتے تھے کہ میں بادشاہ ہوں۔ لیکن ایک مسافر سمجھ کر تم نے میرا خیال رکھا اور یہ تمھارا نیک اور اچھا انسان ہونا ثابت کرتا ہے۔ یہ انگوٹھی اپنے پاس رکھو، جب کبھی کوئی ضرورت ہو محل کے دروازے پر آجانا، دروازے پر جو دربان ہوگا اسے یہ انگوٹھی دکھانا، ہم کسی بھی حالت میں ہوں گے وہ ہم سے ملاقات کرا دے گا۔ بادشاہ اس آدمی کے بتائے ہوئے راستے پر ہولیا اور اپنے محل پہنچ گیا۔

    ادھر وہ غریب بوڑھا ایک عرصہ بعد کسی مصیبت میں گرفتار ہوا تو سوچا، بادشاہ کے پاس جاتا ہوں تاکہ اس سے حاجت بیان کروں۔ وہ غریب محل کے دروازے پر پہنچا اور دربان کو کہا کہ اسے بادشاہ سے ملنا ہے۔ دربان نے اوپر سے نیچے تک دیکھا کہ اور سوچا کہ اس کی کیا اوقات بادشاہ سے ملنے کی۔ دربان نے کہا تم بادشاہ سے نہیں مل سکتے، مفلس و قلاش آدمی۔ تب اس دیہاتی شخص نے وہ انگوٹھی اس کے سامنے کردی، اب جو دربان نے دیکھا تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ یہ بادشاہ کی مہر لگانے والی انگوٹھی آپ کے پاس؟ دربانوں کو بادشاہ کا حکم تھا کہ یہ انگوٹھی جو لے کر آئے گا ہم جس حالت میں ہوں اُسے ہم تک پہنچایا جائے۔

    چنانچہ دربان اسے ساتھ لے کر بادشاہ کے خاص کمرے تک گیا، دروازہ کھلا ہوا تھا، وہ اندر داخل ہوگئے۔ غریب بوڑھے نے دیکھا کہ بادشاہ نماز میں مشغول ہے۔ پھر اس نے دعا کے لیے اپنے ہاتھ اٹھائے۔ اس کی نظر پڑی تو وہ وہیں سے واپس ہوگیا اور محل کے باہر جانے لگا، دربان نےکہا مل تو لو کہا اب نہیں ملنا ہے، کام ہوگیا۔ اب واپس جانا ہے۔ وہ دیہاتی یہ کہتا ہوا آگے چلا گیا۔ ادھر بادشاہ دعا سے فارغ ہوا تو دربان نے یہ ساری قصّہ گوش گزار کیا۔ بادشاہ نے کہا فوراً اسے لے کر آؤ، وہ ہمارا محسن ہے۔ دربانوں نے اس دیہاتی کو جا لیا۔ وہ واپس لایا گیا تو بادشاہ نے اسے پہچان لیا اور کہا آئے تھے تو ملے ہوتے، ایسے کیسے چلے گئے؟ اس دیہاتی بوڑھے نے کہا کہ بادشاہ سلامت! اصل بات یہ ہے کہ آپ نے کہا تھا کہ کوئی ضرورت پیش آئے تو آجانا ہم ضرورت پوری کر دیں گے۔ مجھے ایک ضرورت پیش آئی تھی، میں اس لیے یہاں‌ آیا مگر دیکھا کہ آپ بھی کسی سے مانگ رہے ہیں، تو میرے دل میں خیال آیا کہ جس سے اتنی بڑی سلطنت کا بادشاہ بھی مانگ رہا ہے، کیوں نہ میں بھی اسی سے مانگوں۔

    ( قدیم کہانیاں اور حکایات سے انتخاب)

  • بوڑھا مالی اور بادشاہ کا سوال

    بوڑھا مالی اور بادشاہ کا سوال

    ایک بادشاہ ہاتھی پر سوار کسی باغ کے قریب سے گزر رہا تھا تو اس کی نظر ایک ایسے بوڑھے شخص پر پڑی جو درختوں کی کاٹ چھانٹ میں‌ مصروف تھا۔

    وہ پھل دار درخت تھے، لیکن ابھی ان پر پھل آنے کا موسم نہ تھا۔ بادشاہ نے دیکھا کہ وہ شخص خاصا سن رسیدہ ہے اور اپنی طبعی عمر کو پہنچ چکا ہے۔ بادشاہ نے حکم دیا اور شاہی سواری کو فیل بان نے اس مقام پر ٹھہرا لیا۔ اب بادشاہ نے سپاہیوں‌ کو کہا کہ اس بوڑھے کو میرے سامنے حاضر کرو۔ حکم کی تعمیل ہوئی۔

    بوڑھا بادشاہ کے روبرو آیا تو بادشاہ نے دیکھا کہ وہ خاصا کمزور ہے اور اس کی جلد جھریوں سے بھری ہوئی ہے۔ بادشاہ نے کہا، اے بوڑھے! تُو جن درختوں کا خیال رکھ رہا ہے، کیا تجھے ان درختوں کا پھل کھانے کی اُمید بھی ہے؟

    بوڑھے نے کہا، بادشادہ سلامت! ہمارے پہلے لوگوں نے زراعت کی، اپنے جیتے جی اناج پایا اور اسے پکا کر کھایا، پھر باغات کی زمین کو اس قابل بنایا کہ وہ بیج کو اپنے اندر دبا کر اللہ کے حکم سے اس کے بطن سے پودا نکالے جو توانا درخت بنے اور اس کی شاخیں پھلوں سے بھر جائیں۔ وہ زندہ رہ سکے تو پھل بھی کھایا اور جب وہ نہیں رہے تو ان کے بچّوں اور ان بچّوں‌ کی اولادوں‌ نے وہ پھل کھائے۔ ان کی محنت سے ہم سب لوگوں نے فائدہ اٹھایا۔ آپ نے ٹھیک اندازہ لگایا ہے حضور لیکن اب میں اپنے بعد آنے والوں کے لیے یہ محنت کر رہا ہوں تاکہ وہ نفع حاصل کریں۔

    بادشاہ کو اس کی یہ بامذاق اور مفید بات بہت ہی پسند آئی۔ خوش ہو کر بادشاہ نے بوڑھے کو ایک ہزار اشرفیاں انعام کے طور پر دیں۔ اس پر بوڑھا ہنس پڑا۔ بادشاہ نے حیرت سے پوچھا کہ یہ ہنسی کا کیا موقع ہے؟ بوڑھے نے کہا مجھے اپنی محنت کا اس قدر جلد پھل مل جانے سے تعجب ہوا۔ اس بات پر بادشاہ اور بھی زیادہ خوش ہوا۔ بوڑھا یقیناً ذہین بھی تھا۔ بادشاہ نے اسے ایک ہزار اشرفیاں اور دیں۔ باغ بان بوڑھا پھر ہنسا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ اب کیوں ہنسے؟ وہ بولا کہ کاشت کار پورا سال گزرنے کے بعد ایک دفعہ فائدہ اٹھاتا ہے۔ مجھے میری باغ بانی نے تھوڑی سے دیر میں دو مرتبہ اپنی محنت کا ثمر دے دیا۔ بادشاہ اس جواب سے بہت خوش ہوا اور اس کی تعریف کرتے ہوئے ایک ہزار اشرفیاں مزید دیں اور سپاہیوں‌ کو آگے بڑھنے کا حکم دے دیا۔

    سبق: زندگی میں‌ کوئی کام صرف اپنے مفاد اور نفع کی غرض‌ سے نہیں‌ کرنا چاہیے، بلکہ نیک نیّتی کے ساتھ دوسروں‌ کی بھلائی کے لیے بھی اگر کچھ وقت نکال کر کوئی کام کرنا پڑے تو ضرور کرنا چاہیے۔ محنت کا پھل ضرور ملتا ہے اور اکثر ہماری توقع سے بڑھ کر اور آن کی آن میں قدرت ہم پر مہربان ہوسکتی ہے۔

  • بے خوف درویش (شیخ سعدی کی حکایت)

    بے خوف درویش (شیخ سعدی کی حکایت)

    بیان کیا جاتا ہے کہ ایک بادشاہ شکار کے لیے نکلا۔ وہ جنگل سے گزر رہا تھا کہ اس کی نظر ایک درویش پر پڑی جو اپنے حال میں مست بیٹھا تھا۔ بادشاہ اس درویش کے قریب سے گزرا لیکن اس نے آنکھ اٹھا کر بھی اس کی طرف نہ دیکھا اور یہ بات بادشاہ کو بہت ناگوار گزری۔

    بادشاہ نے اپنے وزیر سے کہا کہ یہ بھک منگے بھی بالکل جانوروں کی طرح ہوتے ہیں کہ انھیں معمولی ادب آداب کا بھی خیال نہیں ہوتا۔

    بادشاہ کی ناگواری کا اندازہ کر کے وزیر اس درویش کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ بابا جی، ملک کا بادشاہ آپ کے قریب سے گزرا اور آپ نے اتنا بھی نہیں کیا کہ اپنی عقیدت اور نیاز مندی ظاہر کرنے کے لیے کھڑے ہو جاتے اور ادب سے سلام کرتے؟

    درویش نے بے پروائی سے جواب دیا، اپنے بادشاہ سے کہو کہ ادب آداب کا خیال رکھنے کی امید ان لوگوں سے کرے جنھیں اس سے انعام حاصل کرنے کا لالچ ہو۔ اس کے علاوہ اسے یہ بات بھی اچھی طرح سمجھا دو کہ ہم جیسے درویشوں کا کام بادشاہ کا خیال رکھنا نہیں بلکہ بادشاہ کا یہ فرض ہے کہ وہ ہماری حفاظت کرے۔ تُو نے سنا نہیں بھیڑیں گڈریے کی حفاظت نہیں کرتیں بلکہ گڈریا بھیڑوں کی حفاظت کرتا ہے۔ یاد رکھ! بادشاہی بھی ہمیشہ رہنے والی چیز نہیں۔ موت کے بعد بادشاہ اور فقیر برابر ہو جاتے ہیں۔ اگر تُو قبر کھول کر دیکھے تو یہ بات معلوم نہ کرسکے گا کہ یہ شخص جس کی کھوپڑی کو مٹی نے کھا لیا ہے۔ زند گی میں کس مرتبے اور شان کا مالک تھا۔

    وزیر نے درویش کی یہ باتیں بادشاہ کو سنائیں تو اس نے ان سے نصیحت حاصل کی اور فقیر پر مہربان ہو کر اس کے پاس پہنچا اور عرض کی کہ اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو بیان کرو۔ تمھاری ہر حاجت پوری کی جائے گی۔

    فقیر نے بے نیازی سے کہا، بس ایک خواہش ہے اور وہ یہ کہ میرے پاس آنے کی تکلیف پھر کبھی نہ اٹھانا۔ بادشاہ نے کہا، اچھا مجھے کوئی نصیحت کرو۔

    درویش بولا، میری نصیحت یہ ہے کہ اس زمانے میں جب تُو تاج اور تخت کا مالک ہے زیادہ سے زیادہ نیکیاں کر کہ عاقبت میں تیرے کام آئیں گی۔ یہ تاج اور تخت ہمیشہ تیرے پاس ہی نہ رہے گا۔ جس طرح تجھ سے پہلے بادشاہ کے بعد تجھے ملا، اسی طرح تیرے بعد کسی اور کو مل جائے گا۔

    نیکیاں کر لے اگر تُو صاحبِ ثروت ہے آج
    کل نہ جانے کس کے ہاتھ آئے ترا یہ تخت و تاج

    سبق: حضرت سعدیؒ نے اس حکایت میں یہ بات بتائی ہے کہ اپنے دل کو حرص اور لالچ سے پاک کر لینے کے بعد ہی انسان کو سچی راحت اور اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ یہ مرتبہ حاصل ہو جائے تو خدا ایسی جرأت بخش دیتا ہے کہ وہ لاؤ لشکر رکھنے والے بادشاہوں سے بھی خوف نہیں کھاتا۔ نیز یہ کہ مال دار شخص کے لیے سب سے زیادہ نفع کا سودا نیکیاں کرنا ہے۔ اخروی زندگی میں اس کے کام اس کا یہی سرمایہ آئے گا جس مال پر دنیا میں غرور کرتا تھا، اس میں سے کفن کے سوا کچھ بھی اپنے ساتھ نہ لے جاسکے گا۔

    ( منسوب از شیخ سعدی، مترجم: نامعلوم)

  • بادشاہ کی وصیت

    بادشاہ کی وصیت

    ایک بادشاہ لا ولد تھا۔ جب اس کی موت کا وقت نزدیک آیا تو اس نے وصیت کی کہ میری موت کے دوسرے دن جو شخص سب سے پہلے شہر میں داخل ہو، میری جگہ اسے بادشاہ بنا دیا جائے۔

    خدا کی قدرت کا تماشا دیکھیے کہ دوسرے دن جو شخص سب سے پہلے شہر میں داخل ہوا وہ ایک فقیر تھا۔ اس کی ساری زندگی در در بھیک مانگتے اور اپنی گدڑی میں پیوند پر پیوند لگانے میں گزری تھی اور اچانک ہی اسے ایک بڑی سلطنت اور محل نصیب ہو گیا۔

    امیروں، وزیروں نے بادشاہ کی وصیت کے مطابق اسے بادشاہ بنا دیا اور وہ تاج و تخت اور خزانوں کا مالک بن کر بہت شان سے زندگی گزارنے لگا۔ قاعدہ ہے کہ حاسد اور کم ظرف لوگ کسی کو آرام میں دیکھ کر انگاروں پر لوٹنے لگتے ہیں۔ اس فقیر کے ساتھ بھی یہی ہوا جو اب بادشاہ بن گیا تھا۔ اس کے دربار کے کچھ امرا نے آس پاس کے حکم رانوں سے ساز باز کر کے ملک پر حملہ کروا دیا اور بہت سا علاقہ حملہ آوروں نے فتح کر لیا۔

    فقیر بادشاہ بہت افسردہ رہنے لگا۔ انھی دنوں اس کا ایک ساتھی فقیر ادھر آ نکلا اور اپنے یار کو ایسی حالت میں دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ اس نے اسے مبارک باد دی کہ خدا نے تیرا مقدر سنوارا اور فرشِ خاک سے اٹھا کر تختِ افلاک پر بٹھا دیا۔

    فقیر کی یہ بات بالکل درست تھی۔ کہاں در در کی بھیک مانگنا اور کہاں تختِ سلطنت پر جلوہ افروز ہونا، لیکن اس شخص کو تو اب بادشاہ بن جانے کی خوشی سے زیادہ ملک کا کچھ حصہ چھن جانے کا غم تھا۔ غم ناک آواز میں بولا، ہاں دوست تیری یہ بات تو غلط نہیں لیکن تجھے کیا معلوم کہ میں کیسی فکروں میں گھرا ہوا ہوں۔ تجھے تو صرف اپنی دو روٹیوں کی فکر ہو گی، لیکن مجھے ساری رعایا کی فکر ہے۔

    شیخ سعدیؒ کی اس حکایت میں یہ سچائی اور سبق پوشیدہ ہے کہ دنیا کا بڑے سے بڑا اعزاز پا کر بھی انسان کو سچا اطمینان حاصل نہیں ہوتا۔ طاقت و منصب، جاہ و جلاس اس کی خواہشات بڑھا دیتے ہیں اور اگر ان میں‌ سے کوئی پوری نہ ہو تو وہ اداس اور افسردہ ہو جاتا ہے۔ اگر اس سے مال و دولت چھن جائے یا اس میں‌ کمی آجائے تو اسے روگ لگ جاتا ہے۔