Tag: بادشاہ

  • بادشاہ کے حکم پر باغ سے پھل چننے والے تین وزیر

    بادشاہ کے حکم پر باغ سے پھل چننے والے تین وزیر

    ایک بادشاہ نے اپنے تین وزیروں کو دربار میں بلاکر حکم دیا کہ ایک ایک تھیلا لے کر الگ الگ باغات میں جائیں اور مختلف اچھےاچھے پھل اکٹھے کریں۔

    وزیروں کو اس پر تعجب تو ہوا مگر حکم کی تعمیل میں تینوں الگ الگ باغوں میں چلے گئے۔

    پہلے وزیر کی کوشش تھی کہ بادشاہ کے لیے اس کی پسند کے مزے دار اور تازہ پھل جمع کرے۔ اس نے ایسا ہی کیا۔

    دوسرے کا خیال تھا کہ بادشاہ ایک ایک پھل اس تھیلے سے نکال کر خود نہیں دیکھے گا اور یہ جاننے کی کوشش نہیں کرے گا کہ اس کے لائے ہوئے پھل کیسے ہیں۔ اسے بس پھلوں سے اپنا تھیلا بھرنے کی جلدی تھی۔ اس نے ہر قسم کے تازہ، گلے سڑے اور کچے پھلوں سے اپنا تھیلا بھر لیا۔

    ادھر تیسرا وزیر باغ میں یہ سوچتا ہوا داخل ہوا کہ بادشاہ سلامت کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ تھیلے سے پھل نکال نکال کر دیکھے۔ وہ صرف بھرے ہوئے تھیلے پر نظر ڈالے گا۔ اس نے پھل توڑنے اور ان کی مختلف اقسام چننے اور تازہ پھل جمع کرنے کی زحمت نہ کی اور تھیلے میں گھاس، پتے بھر لیے اور اس طرح جان چھڑائی۔ اس نے اپنا بہت سا وقت بھی بچا لیا تھا۔

    اگلے روز بادشاہ نے تینوں وزرا کو پھلوں سے بھرے ہوئے تھیلوں سمیت دربار میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔
    بادشاہ نے سپاہیوں کو حکم دیا کہ تینوں کو ان کے تھیلوں سمیت ایک ماہ کے لیے کسی دور دراز مقام پر قید کر دو۔
    سب حیران تھے کہ یہ کیا ہو رہا ہے مگر لب کشائی کی جرأت نہ کرسکے۔ حکم کی تعمیل ہوئی اور تینوں وزیر ایک ایسی جیل میں قید کر دیے گئے جہاں ان کے پاس کھانے پینے کو بھی کچھ نہ تھا۔ ہاں، ان کے اس تھیلے میں وہی کچھ تھا، جو انھوں نے جمع کیا تھا۔ ان کی قید کی مدت ایک ماہ تھی۔

    پہلا وزیر جس نے اچھے اچھے اور عمدہ پھل جمع کیے تھے، وہ مزے سے اپنے ان سے اپنا پیٹ بھرتا رہا۔
    دوسرا وزیر جس نے خاص کوشش اور محنت نہیں کی تھی اور ہر قسم کے تازہ اور کچے پھل جمع کرلیے تھے۔ اسے مشکل پیش آئی۔ چند روز تازہ پھل کھا لیے لیکن بعد میں گلے سڑے اور کچے پھلوں پر گزارہ کرنا پڑا جس کے نتیجے میں وہ بیمار ہوگیا۔

    تیسرا وزیر نہایت کاہل، کام چور اور چالاک بھی تھا اور ظاہر ہے اس کے تھیلے میں صرف گھاس اور باغ کا کچرا ہی تھا۔ وہ چند روز بعد ہی بھوک سے مر گیا۔

    یہ حکایت بیان کرنے والے بزرگ فرماتے ہیں کہ ہمیں بھی سوچنا چاہیے کہ ہم اس دنیا میں کیا جمع کر رہے ہیں جو ایک خوش نما باغ کی طرح ہے۔ اور ہم موت سے قبل جس جگہ جائیں گے وہاں گویا یہ جمع شدہ مال یعنی ہمارے اعمال ہی ہمیں راحت و تسکین پہنچائیں گے تو ہمیں خود ہی فیصلہ کرنا ہے کہ یہ کیسے عمدہ اور بہترین ہونے چاہییں۔ اسی طرح وہی اپنے بادشاہ یعنی کائنات کے حقیقی مالک اور اپنے خالق کے سامنے اور اس کے دربار میں باحفاظت اور عزت سے پہنچ سکے گا جس نے نیکیاں کی ہوں گی اور اس کے اعمال عمدہ ہوں گے۔

  • معجزۂ شقُ القمر کا کھلی آنکھوں‌ سے مشاہدہ کرنے والا بادشاہ

    معجزۂ شقُ القمر کا کھلی آنکھوں‌ سے مشاہدہ کرنے والا بادشاہ

    ایک مشہور روایت ہے کہ چیرامن پیرومل نے شقُ القمر کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تھا۔ یہ وہ معجزہ ہے جس کا ذکر قرآن حکیم میں‌ موجود ہے۔

    تاریخی حوالوں میں لکھا ہے کہ چیرا قدیم زمانے سے بادشاہوں کا لقب چلا آرہا ہے۔ اللہ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ سے جب مکہ کے مشرکین نے معجزہ دکھانے کو کہا تو کائنات نے چاند کا بٹ جانا دیکھا اور وہ لوگ جن کو توفیق ہوئی انھوں نے اسے مانا جب کہ بدبخت اور نامرادوں نے اس کا انکار کردیا۔ کہتے ہیں خطۂ ہند کے فرماں روا نے یہ منظر دیکھا اور ششدر رہ گیا۔ اس نے نجومیوں سے دریافت کیا کہ یہ کیا انہونی ہوئی، لیکن وہ اس کی توجیہہ اور سبب بیان نہ کرسکے۔

    ملابار اور ہندوستان کے دیگر علاقے اس زمانے میں بھی تجارت کے لیے مشہور تھے اور یہاں عرب تاجر بھی آتے رہتے تھے۔ ان راستوں سے گزرنے کے لیے وہاں کے بادشاہ کی اجازت درکار ہوتی تھی اور انہی کی زبانی چیرامن پیرومل کو رسولِ اکرم ﷺ معجزۂ شقُ القمر کا علم ہوا۔ تب وہ آقائے دو جہاںﷺ کے دربار میں حاضری کا مشتاق ہوا اور ایک روز اس غرض سے حجاز روانہ ہوا۔

    روایات کے مطابق یہ بادشاہ حضرت محمدﷺ کے لیے اپنے ساتھ ادرک کا اچار لے کر گیا تھا اور وہاں جاکر اسلام قبول کرلیا تھا۔

    بعض محققین نے لکھا ہے کہ چاند کو ٹکڑے ہوتا دیکھنے والا مالدیپ کا بادشاہ تھا، جس کے شہر مالی کو ملابار سمجھا جاتا رہا۔ کہتے ہیں کہ اسلامی تواریخ کے علاوہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے محققین نے بھی اس روایت کا اپنی کتب میں ذکر کیا ہے۔ اسی بادشاہ کے حکم پر کیرالا میں ایک مسجد بھی تعمیر کی گئی تھی جو آج بھی موجود ہے۔

  • فلسفی نے زندگی کی حقیقت بتا دی!

    فلسفی نے زندگی کی حقیقت بتا دی!

    تاریخ کے اوراق الٹیں تو جہاں ہمیں بادشاہوں، سلاطین و امرا کے طرزِ حکم رانی، جنگوں اور خوں ریز معرکوں کی بابت حقائق، واقعات، حکایات اور طرح طرح کی داستانیں پڑھنے کو ملتی ہیں وہیں بعض بادشاہوں کے زندگی کے حالات اور دل چسپ واقعات ایسے بھی ہیں جو آج بھی ہمارے لیے عبرت آمیز اور سبق آموز ہیں۔

    اسی طرح صدیوں پہلے کی حکایات، کسی دانا و حکیم کی باتیں بھی ہمارے لیے زندگی میں راہ نما ثابت ہوتی ہیں۔ یوں تو ہم نے کئی حکایات پڑھ رکھی ہیں جنھوں نے ہمیں زندگی اور گزر بسر سے متعلق روشن اور اجلے اصولوں سے نہ صرف آشنا کیا بلکہ آج بھی ان کی اہمیت برقرار ہے اور ان پر عمل کرنے کی ضرورت بھی ہے۔ یہ قصّے اور حکایات ہماری اخلاقی تربیت اور کردار سازی کا ذریعہ ہیں۔

    تاریخ کا ایک کردار عمرولیث بھی ہے جسے ہم سب ایک حکم راں کی حیثیت سے جانتے ہیں۔ عمرولیث اور اس زمانے کے ایک دانا کا یہ واقعہ آپ کی دل چسپی کے لیے پیش ہے۔
    کسی فلسفی نے عمرولیث کو ایک عرضی کے ذریعے ایک مسئلے سے آگاہ کیا اور داد رسی چاہی۔ اس زمانے کے دستور کے مطابق فلسفی نے عرضی کے آغاز میں شاہِ وقت کے لیے دعائیہ انداز میں لکھا کہ وہ طویل عمر پائیں، ہزاروں برس زندہ رہیں۔ کہتے ہیں عمرولیث ایک بدمزاج اور تندخو شخص تھا۔

    اس نے کاتب سے جواب لکھوایا کہ دانا لوگ ناممکن باتیں نہیں لکھا کرتے۔ تم نے عرضی کی ابتدا میں میرے لیے ہزاروں برس زندہ رہنے کی دعا کی ہے۔ میرا ہزاروں برس زندہ رہنا قطعی ناممکن ہے۔ عرضی کے باقی مندرجات کا بھی اسی پر قیاس کرنا چاہیے۔
    فلسفی اپنے فریاد نامے کا یہ حشر دیکھ کے عمرولیث کے پاس پہنچا اور بولا: ‘‘امیر اپنے فرمودات کے جواب کی اجازت دیں تو سائل کچھ عرض کرے۔’’

    اس نے بات کرنے کی اجازت دی تو فلسفی نے کہا: ‘‘انسان کی زندگی صرف جسمی نہیں ہے بلکہ ان نیکیوں سے بھی عبارت ہے جو انسان کے گزر جانے کے بعد بھی سلامت رہتی ہیں۔ نیکی کے بغیر زندگی زندگی نہیں، موت سے بدتر ہے۔

    عمرولیث کو یہ جواب بہت پسند آیا اور اس نے فلسفی کو شاد کام واپس کیا۔

  • اسقاط حمل کیس: مراکش کے بادشاہ نے خاتون صحافی کو معاف کردیا

    اسقاط حمل کیس: مراکش کے بادشاہ نے خاتون صحافی کو معاف کردیا

    رباط: مراکش کے بادشاہ محمد ہشتم نے اسقاط حمل کیس میں گرفتار خاتون صحافی ’ہرج ریسومی‘ کی سزا معاف کرتے ہوئے رہا کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق مراکش میں خاتون صحافی کو اپنے منگیتر سے جنسی تعلق رکھنے اور اسقاط حمل کے جرم میں سزا سنائی گئی تھی جسے بادشاہ نے معاف کردیا۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق وزرات انصاف کا کہنا ہے کہ ہرج کو گذشتہ ماہ ایک سال کی سزا سنائی گئی تھی۔ اس فیصلے کے بعد انسانی حقوق کی تنظیموں نے مراکش حکومت کے خلاف شدید احتجاج کیا تھا۔

    خاتون صحافی نے عدالتی فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ مجھ سے انتقام لیا جارہا ہے، ہرج ریسومی رباط حکومت کے غلط پالیسیوں پر آواز بلند کرتی رہی ہیں۔

    بادشاہ نے انسانی ہمدری کے تحت سزا معاف کرتے ہوئے زور دیا کہ وہ قانونی اور مذہبی طور پر خاندانی رشتہ استوار کرکے اپنی نئی زندگی کا آغاز کریں۔

    دوسری جانب خاتون صحافی کے منگیتر کا کہنا تھا کہ وہ دونوں رشتہ ازدواج میں بندھ چکے تھے لیکن قانونی طور پر کوئی دستاوزات نہیں بنوائی تھیں۔

    مراکش میں اسقاط حمل غیرقانونی ہے، ایک اعداد وشمار کے مطابق پابندی کے باوجود گذشتہ سال روزانہ کی بنیاد پر 600 سے 800 اسقاط حمل کرایا گیا، جن میں سے 41 کیس ریکارڈ ہوئے۔

    خیال ہے کہ ہرج ریسومی مراکش میں ’الیوم‘ نامی اخبار میں بحیثیت صحافی اپنے پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دیتی ہیں۔

  • تھائی لینڈ کے بادشاہ کے لیے سفید رنگ کے مقدس ہاتھی کا تحفہ

    تھائی لینڈ کے بادشاہ کے لیے سفید رنگ کے مقدس ہاتھی کا تحفہ

    بینکاک : رواں ہفتے نئے تھائی بادشاہ مہا وجیرالونگ کی تاج پوشی کی تقریبات کے بعد تھائی لینڈ کا 33 سالہ مقدس ہاتھی انہیں بطور تحفہ پیش کیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق تھائی لینڈ کے شمال مشرق میں جانوروں کے تحفظ اور افزائش نسل کے ایک مرکز میں ملک کے نئے بادشاہ مہا وجیرالونگ کورن کی ایک بڑی تصویر آویزاں ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ وہی سنٹر ہے جہاں پلائی ایکچائی نامی ایک سفید ہاتھی بھی اپنے دن کا آغاز کرتا ہے۔تھائی لینڈ کے پانچویں بادشاہ راما کے دور حکومت میں ملنے والے اس 33 سالہ سفید نر ہاتھی کی خدمت گزشتہ برس سے بطور دیوتا کی جا رہی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ رواں ہفتے نئے تھائی بادشاہ کی تاج پوشی کی تقریبات کے بعد یہ ہاتھی انہیں بطور تحفہ پیش کیا جائے گا۔

    اس سنٹر میں پلائی ایکچائی اور نو دیگر ہاتھیوں کی دیکھ بھال کرنے والے 35 سالہ تانابدہ پرومو کہتے ہیں کہ بادشاہ کے لیے ایسے ہاتھی کو پالنے سے بڑھ کر اور فخر کی کیا بات ہو سکتی ہے۔

    تانابدہ پرومو کے مطابق انہوں نے اس ہاتھی کو ملک کے جنوبی سیاحتی شہر رابی سے 2010 میں خریدا تھا جہاں اسے سیاحوں کی سواری کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔

    قدیم برہمن کتابوں کے مطابق سفید ہاتھی میں سات خصوصیات ہوتی ہیں۔ اس کی آنکھیں، تالو، ناخن، بال، جلد اور دم کے بال سفید ہوتے ہیں۔

  • بحرین کے بادشاہ نے 551 افراد کی شہریت بحال کردی

    بحرین کے بادشاہ نے 551 افراد کی شہریت بحال کردی

    مناما : اقوامِ متحدہ اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی تنظیموں کی جانب سے شہریت منسوخ کرنے پر شدید تنقید کے بعد بحرین کے بادشاہ نے 551 بحرینی باشندوں کی شہریت بحال کرنے کے احکامات دے دیئے۔

    تفصیلات کے مطابق خلیج تعاون کونسل کے رکن ملک بحرین میں بھی عرب بہار کے دوران بادشاہت کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے تھے جو آج بھی جاری ہیں اور بحرینی حکومت کی جانب سے بھی مسلسل اپنے بادشاہت کے خلاف احتجاج کرنے والے افراد کے خلاف انتقامی کاررائیاں جاری ہیں۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ 2012 میں مظاہرین کے خلاف عدالتی کارروائی کے آغاز کے بعد سے اب تک تقریباً 900 افراد، جن میں اکثریت اہلِ تشیع مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی ہے، کی شہریت منسوخ کی جاچکی ہے-

    رپورٹ کے مطابق بحرین کی سرکاری خبررساں ایجنسی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ’بحرینی حکام حماد بن عیسیٰ آل خلیفہ نے عدالتی احکامات کے تحت منسوخ کی جانے والی 551 سزا یافتہ افراد کی شہریت بحال کرنے کے احکامات دے دیئے۔

    امریکی اتحادی ملک بحرین میں سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین کے خلاف حکام کے کریک ڈاون کے نتیجے میں سال 2011 سے بد امنی کا سلسہ جاری ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ اُس وقت سے اب تک سینکڑوں مظاہرین کو جیل بھیجا جاچکا ہے اور جو افراد دہشت گردی کے معاملات میں ملوث پائے گئے ان سے شہریت چھین لی گئی۔

    بحرین کی جانب سے ان افراد کو تربیت دینے اور حکومت گرانے کے لیے کیے جانے والے مظاہروں کے پیچھے ایران کے ملوث ہونے کا الزام عائد کیا جاتا ہے تاہم ایران نے ان الزامات کی ہمیشہ تردید کی۔

    بحرین نیوز ایجنسی کا کہنا ہے کہ شاہ حماد، جن کے پاس عدالتی احکامات منسوخ کرنے کے اختیارات موجود ہیں، نے درخواست کی ہے کہ مجاز حکام کو جرائم کی نوعیت کے اعتبار سے اعتماد میں لیا جائے۔

    اس کے ساتھ انہوں نے وزارت داخلہ کو بھی ہدایت کی کہ ہر مقدمے کی چھان بین کر کے ان افراد کی فہرست تیار کی جائے جن کی شہریت بحال کی جاسکتی ہے۔

    غیر ملکی میڈیا کے مطابق انسانی حقوق کے گروہوں کا کہنا ہے کہ 2012 میں مظاہرین کے خلاف عدالتی کارروائی کے آغاز کے بعد سے اب تک تقریباً 900 افراد، جن میں اکثریت اہلِ تشیع مکتبہ فکر سے تعلق رکھتی ہے، کی شہریت منسوخ کی جاچکی ہے۔

    خیال رہے کہ شیعہ اکثریتی آبادی والے ملک بحرین پر تقریباً گزشتہ 2 صدیوں سے زائد عرصے سے برطانوی حمایت یافتہ شاہی خاندان آل خلیفہ حکمرانی کررہا ہے۔

  • سال 2018: خانز ہوئے خاک، بالی وڈ کو نئے بادشاہ مل گئے

    سال 2018: خانز ہوئے خاک، بالی وڈ کو نئے بادشاہ مل گئے

    ممبئی: سال 2018 بالی وڈ کے لیے حیرتوں سال رہا، ایک جانب جہاں میگا اسٹارز کی فلموں کو ناکامیوں کا سامنا رہا، وہیں ابھرتے ہوئے اداکاروں کی فلموں نے حیران کن بزنس کیا۔

    تفصیلات کے مطابق سنجے لیلا بھنسالی کی متنازع فلم پدماوت (بزنس، 300 کروڑ) سے شروع ہونے والے سال 2018 روہت شیٹھی کی فلم سمبا پر ختم ہوا۔ اتفاق یہ ہے کہ دونوں ہی فلموں میں رنویر سنگھ نے مرکزی کردار ادا کیا اور دونوں فلموں نے باکس آف پر راج کیا۔ آئیں، اس برس کے چند دل چسپ پہلوئوں پر بات کرتے ہیں۔

    کیا خانز کا زوال شروع ہوگیا؟

    اس سال تینوں خانز کی فلمیں ریلیز ہوئیں اور بڑے تہواروں، یعنی عید، دیوالی اور کرسمس پر ریلیز ہوئیں، البتہ یہ تہوار ان فلموں کے کام نہیں آئے، تینوں ہی فلمیں باکس آفس پر فلاپ ثابت ہوئیں۔

    عید پر ریلیز ہونے والا بڑی اسٹار کاسٹ کی فلم ’’ریس تھری‘‘ اس تہوار پر سلمان خان کی لگاتار دوسری فلاپ فلم تھی، گذشتہ برس ٹیوب لائٹ کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

    دیوالی پر میگا بجٹ فلم ’’ٹھگز آف ہندوستان‘‘ آئی، جو مہنگی ترین فلم تھی، پہلے دن فلم نے ریکارڈ بزنس کیا، مگر دوسرے ہی دن باکس آفس پر ڈھے گئی۔

    کرسمس پر شاہ رخ خان کی ’’زیرو‘‘ سے بڑی امیدیں تھیں، مگر ان کی ناکامیوں کا سفر ختم نہیں ہوا، فلم کو بدترین ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور یہ بحث شروع ہوگئی کہ خانز کا دور ختم ہوگیا۔

    رنبیر کا کم بیک اور رنویر کی کامیابیاں

    کیریر کے آغاز ہی میں رنبیر کپور اور رنویر سنگھ کو اسٹار ز ٹھہرا دیا گیا تھا، بعد کے برسوں میں دونوں اداکاروں کو کامیابیاں ملیں۔ 

    گذشتہ دو برس سے رنبیر کپور کے ستارے گردش میں تھے، فلمیں پے در پے فلمیں ناکام ہوئیں۔ دوسری جانب سنجے لیلا بھنسالی اور دیپکا پاڈکون کا ساتھ رنویر سنگھ کے لیے خوش بختی لایا اور وہ کامیابیوں کی سیڑھیاں چڑھتے رہے۔

    اس برس بھی رنویر کی کامیابیوں کا سلسلہ جاری رہا، جب کہ رنبیر کپور بھی راج کمار ہیرانی کی بلاک بسٹر فلم ’’سنجو‘‘ کے ساتھ کم بیک کرنے میں کامیاب رہے، جس نے اس سال 341 کروڑ کا بزنس کیا، جو ’’دنگل‘‘ کے بعد ایک ریکارڈ ہے۔

    اکشے کمار اور اجے دیوگن کے اچھے دن

    اکشے کمار اور اجے دیوگن اپنی مقبولیت کے باوجود کبھی خانز کے قریب نہیں پہنچ سکے، مگر گذشتہ چند برس کے دوران انھوں نے ایسی فلمیں منتخب کیں، جنھیں ناقدین کی جانب سے بھی سراہا گیا اور انھوں نے اچھا بزنس کیا۔

    اس برس اکشے کمار سپراسٹار رجنی کانب کے ساتھ فلم 2.0 میں جلوہ گر ہوئے، جس نے ہندی بیلٹ میں 188 کروڑ کا حیران کن بزنس کیا۔ ’’گولڈ‘‘ نے بھی 107 کروڑ کمائے، پیڈ مین نے بھی مناسب بزنس کیا۔

    دوسری جانب ’’سنگھم‘‘ اور ’’گول مال‘‘ سیریز کی وجہ سے مقبول اجے کی فلم ’’ریڈ‘‘ بھی سو کروڑ کلب کا حصہ بنی۔

    نئے سپراسٹار

    بالی وڈ میں چند نوجوان اداکاروں کو قابلیت کے باوجود فقط سنجیدہ اور کم بجٹ کی فلموں کا اسٹار سمجھا جاتا تھا۔ اس ضمن میں دو نام نمایاں تھے، ایک راج کمار راؤ اور آیوشمان کھرانا نمایاں تھے۔

    البتہ اس سال چھوٹی فلموں کے ان ستاروں نے باکس آف پر سب کو حیران کر دیا۔ راج کمار راؤ کی فلم استری نے 129 کا حیران کن بزنس کیا، جب کہ آیوشمان کی فلم اندھا دھند 72 کروڑ اور بدھائی ہو  نے باکس آفس پر 136 کروڑ سمیٹے۔

    اس کے علاوہ ٹائیگر شروف کی فلم باغی ٹو نے بھی شان دار بزنس کیا. اس کا تیسرا پارٹ 2019 میں‌ریلیز ہوگا.

  • مصر کے بادشاہ کی قیمتی گھڑی دبئی میں فروخت

    مصر کے بادشاہ کی قیمتی گھڑی دبئی میں فروخت

    دبئی: مصر کے معروف بادشاہ فاروق کی قیمتی گھڑی دبئی میں ہونے والی نیلامی میں فروخت ہوکر مشرقی وسطیٰ کی سب سے مہنگی ترین گھڑی بن گئی۔

    تفصیلات کے مطابق دبئی میں وال کلاک اور کلائی پر باندھنے والی تاریخی اور نادر گھڑیوں کی نیلامی ہوئی جہاں دنیا بھر کی نادر و نایاب اور قدیم گھڑیوں کو نیلامی کے لیے پیش کیا گیا جس میں مصر کے بادشاہ کی گھڑی 3۔3 ملین درہم میں فروخت ہوئی۔

    دبئی میں ہونے والی نیلامی میں گھڑیوں کے دلدادہ افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی، جس میں بادشاہ فاروق کی گھڑی 3۔3 ملین درہم میں فروخت ہونے کے بعد مشرقی وسطیٰ کی تاریخ میں نیلام ہونے والی مہنگی ترین گھڑی بن گئی ہے۔

    ڈیفینس، نوجوان لڑکی قیمتی گھڑی چرا کر فرار

    خیال رہے کہ مصری شاہی خاندان کے دسویں بادشاہ فاروق گھڑیوں کے انتخاب میں اور اُ ن کے کلیکشن کے لیے کافی شہرت رکھتے ہیں، وہ 1965 میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے تھے لیکن اب بھی ان سے جڑی اشیاء دنیا بھر میں خصوصی اہمیت رکھتی ہیں یہی وجہ ہے کہ اُن کے زیر استعمال دستی گھڑی کی نیلامی کا سُن کر کئی نامور شخصیات نے اسے خریدنے دبئی پہنچے۔

    مصرکے بادشاہ کی قیمتی گھڑی کی نیلامی دبئی میں ہوگی

    یاد رہے اس سے قبل بھی مصر کے سابق بادشاہ کے زیر استعمال اشیاء کی نیلامی کی جا چکی ہے جسے تاریخ، تہذیب اور ورثے میں دلچسپی رکھنے والوں نے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ نئی آنے والی نسل کو تاریخ سے وابستہ رکھنے کے لیے اس قسم کی اشیاء کو نیلام کرنے کے بجائے قومی ورثہ قرار دے کر میوزیم میں رکھا جائے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں.

  • مصرکے بادشاہ کی قیمتی گھڑی کی نیلامی دبئی میں ہوگی

    مصرکے بادشاہ کی قیمتی گھڑی کی نیلامی دبئی میں ہوگی

    مصر کے معروف بادشاہ فاروق کی قیمتی گھڑی کو دبئی میں ہونے والی نیلامی میں پیش کیا جائے گا بولی کے ذریعے لگائی جانے والی قیمت چار لاکھ سے 8 لاکھ ڈالرز کے درمیان ہو سکتی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دبئی میں وال کلاک اور کلائی پر باندھنے والی تاریخی اور نادر گھڑیوں کی نیلامی کے لیےتیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں، جس کے شیڈول کا اعلان مارچ میں کیا جائے گا، اس نمائش میں دنیا بھر کی نادر و نایاب اور قدیم گھڑیوں کو نیلامی کے لیے پیش کیا جائے گا جہاں گھڑیوں کے دلدادہ افراد کی بڑی تعداد کی شرکت کی امید کی جارہی ہے۔

    نیلامی کا انعقاد کرانے والی تنظیم کا کہنا ہے کہ اس بار ہونے والی نادر و قیمتی گھڑیوں کی نیلامی میں مصر کے شاہی خاندان کے دسویں بادشاہ محمد فاروق کی قیمتی گھڑی لوگوں کی توجہ کامرکز ہو گی ، گھری کی نیلامی کا آغاز 4 لاکھ امریکی ڈالر سے کیا جائے گا جب کہ گھڑی کے 8 لاکھ امریکی ڈالر میں فروخت ہونے کے امکانات کافی روشن ہیں۔

    مصری شاہی خاندان کے دسویں بادشاہ فاروق گھڑیوں کے انتخاب میں اور اُ ن کے کلیکشن کے لیے کافی شہرت رکھتے ہیں، وہ 1965 میں اس دار فانی سے کوچ کر گئے تھے لیکن اب بھی ان سے جڑی اشیاء دنیا بھر میں خصوصی اہمیت رکھتی ہیں یہی وجہ ہے کہ اُن کے زیر استعمال دستی گھڑی کی نیلامی کا سُن کر کئی نامور شخصیات نے اسے خریدنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

    یاد رہے اس سے قبل بھی مصر کے سابقہ بادشاہ کے زیر استعمال اشیاء کی نیلامی کی جا چکی ہے جسے تاریخ، تہذیب اور ورثے میں دلچسپی رکھنے والوں نے تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ نئی آنے والی نسل کو تاریخ سے وابستہ رکھنے کے لیے اس قسم کی اشیاء کو نیلام کرنے کے بجائے قومی ورثہ قرار دے کر میوزیم میں رکھا جائے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • جاپان کے بادشاہ کا تخت چھوڑنے کا اشارہ

    جاپان کے بادشاہ کا تخت چھوڑنے کا اشارہ

    ٹوکیو : جاپانی بادشاہ اکی ہیٹو نے کہا ہے ان کی عمر اور گرتی ہوئی صحت کی وجہ سے بطور بادشاہ اپنا کردار ادا کرنے میں انہیں مشکلات درپیش ہیں.

    تفصیلات کے مطابق 82 سالہ بادشاہ کا یہ بیان ان کے ٹی وی پر عوامی خطاب میں سامنے آيا ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی میں دو بار ہی عوام سے خطاب کیا ہے.

    اگرچہ انھوں نے ’دست بردار ہونے‘ کے الفاظ استعمال نہیں کیے تاہم انھوں نے واضح انداز میں یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ اپنے فرائض کسی اور کے حوالے کرنے کے خواہش مند ہیں.

    وزیر اعظم شنزو ایبے نے کہا ہے کہ حکومت اس ضمن میں قانونی تبدیلیوں پر سنجیدگی سے غور کرنے کے لیے تیار ہے.

    پہلے سے ریکارڈ شدہ دس منٹ کے بیان میں بادشاہ اکی ہیٹو نے کہا کہ وہ یہ چاہتے ہیں ریاست کے بادشاہ کے طور پر فرائض بغیر کسی تعطل کے جاری رہیں.

    انہوں نے کہا کہ ’مجھے یہ پریشانی لاحق ہے کہ ریاست کے علامتی بادشاہ کے طور پر اب تک جو ذمہ داری میں نبھاتا رہا ہوں اسے نبھانا مشکل ہو سکتا ہے۔‘

    انہوں نے کہا کہ جب کوئی بادشاہ اپنی عمر یا بیماری کے سبب اپنے فرائض انجام دینے سے قاصر رہے تو ایسے میں ایک شاہی عہدہ قائم کیا جا سکتا ہے.

    اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا’میرے خیال میں ریاست کی علامت کے طور پر بادشاہ کے فرائض کو ہمیشہ کے لیے کم نہیں کیا جا سکتا ہے۔‘

    خیال رہے کہ موجودہ قانون کے تحت وہ اپنا تاج نہیں چھوڑ سکتے ہیں اور ایسا کرنے کے لیے قانون میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہوگی اور اسے پارلیمان کی منظوری چاہیے.

    بادشاہ کو قانونی طور پر کوئي سیاسی بیان دینے کی اجازت نہیں اور دستبردار ہونے کی خواہش کو سیاسی بیان سمجھا جا سکتا ہے.

    عوام یہ چاہتی ہے کہ بادشاہ کو ان کی ضعیفی میں آرام کرنے دیا جائے اور انھیں ان کے فرائض سے دستبردار ہونے دیا جائے.

    واضح رہے کہ اکی ہیٹو جاپان میں اپنے والد ہیروہیٹو کی سنہ 1989 میں موت کے بعد سےعلامتی حکمران ہیں.