Tag: بارشیں

  • اگلے 2 سے 3 روز تک مزید بارشیں متوقع، پنجاب کے دریاؤں میں اونچے درجے کے سیلاب کا الرٹ جاری

    اگلے 2 سے 3 روز تک مزید بارشیں متوقع، پنجاب کے دریاؤں میں اونچے درجے کے سیلاب کا الرٹ جاری

    لاہور (31 اگست 2025): پی ڈی ایم اے کے ڈائریکٹر جنرل نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگلے 2 سے 3 روزتک مزید بارشیں متوقع ہیں، اور پنجاب کے دریاؤں میں اونچے درجے کے سیلاب کا الرٹ جاری کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ڈی جی پی ڈی ایم اے نے صوبہ پنجاب کے دریاؤں میں انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کا الرٹ جاری کر دیا ہے، اور کہا کہ دو سے تین ستمبر کے دوران دریاؤں کے بالائی حصوں میں شدید بارشوں کا امکان ہے۔

    انھوں نے کہا بارش کے بعد راوی، ستلج اور بیاس میں طغیانی کا خدشہ ہے، اگلے چوبیس گھنٹوں میں دریائے چناب میں ہیڈ تریموں کے مقام پر انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہوگا، اور ہفتے تک 10 لاکھ کیوسک کا ریلا سندھ پہنچ جائے گا۔

    2 یا 3 ستمبر کی رات سیلاب سندھ میں داخل ہوگا

    واضح رہے کہ سندھ کے سینیئر وزیر شرجیل میمن نے کہا ہے کہ 2 یا 3 ستمبر کی رات سیلاب سندھ میں داخل ہوگا، صوبے میں 16 لاکھ افراد سیلاب سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ سندھ میں سیلاب سے نمٹنے کے لیے تیاریاں کر لی گئی ہیں اور 102 حساس مقامات پر مشینری پہنچا دی گئی ہے، صدر زرداری اور بلاول بھٹو خود صورت حال کی نگرانی کر رہے ہیں۔

    وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے سیلابی صورت حال کی مانیٹرنگ کے لیے مقرر وزرا سے رابطہ کر کے ہدایت کی ہے کہ منگل اور بدھ کی رات دریائے سندھ میں سیلاب کا خدشہ ہے، اس لیے دریا کنارے بندوں کے نہری نظام کی کڑی نگرانی کی جائے۔

  • بھارت: موسلا دھار بارشیں، اسکولوں میں تعطیل، ٹرینیں منسوخ

    بھارت: موسلا دھار بارشیں، اسکولوں میں تعطیل، ٹرینیں منسوخ

    بھارت میں خلیج بنگال کے اوپر بنے ہوئے کم دباؤ کے علاقے کے باعث ریاست کے کئی حصوں میں موسلا دھار بارشیں شروع ہوگئیں، جس کے باعث تلنگانہ کے کئی اضلاع کے اسکولوں میں تعطیل کا اعلان کردیا گیا۔

    بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق شدید موسلا دھار بارشیں اور کلاؤڈ برسٹ کے خطرے کے پیش نظر ضلعی تعلیمی افسران نے کریم نگر، جگتیال، یادادری بھواناگیری، کاماریڈی اور میدک اضلاع میں تمام اسکولوں کو بند کرنے کا حکم جاری کردیا ہے۔

    رپورٹس کے مطابق موسلا دھار بارشوں کے باعث کئی علاقوں میں سیلابی صورتحال ہے، ندی نالوں میں طغیانی آ گئی ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر ریسپانس فورس (این ڈی آر ایف) اور اسٹیٹ ڈیزاسٹر ریسپانس فورس (ایس ڈی آر ایف) کی ٹیموں کو کاماریڈی اور نرمل اضلاع میں ریسکیو کے لیے تعینات کردیا گیا ہے۔

    بارشوں کے باعث حیدرآباد-ناگپور قومی شاہراہ (NH 44) تین مقامات پر دھنس گئی ہے، جس سے ٹریفک کا نظام درہم برہم ہوگیا، میدک میں 47 سڑکوں، 23 پلوں اور 15 پلوں پر پانی جمع ہونے کی وجہ سے ٹریفک مسدود ہے۔ 16 تالابوں میں شگاف پڑ گیا ہے جس کی وجہ سے دیہات کو الرٹ کر دیا گیا ہے۔

    رپورٹس کے مطابق بھارت میں بارش کی وجہ سے کئی ریلوے ٹریک بہہ گئے ہیں جس سے ریل ٹریفک میں بڑے پیمانے پر خلل کا سامنا ہے۔

    ساؤتھ سینٹرل ریلوے نے کئی ٹرینوں کو منسوخ کر دیا ہے اور کچھ کا رخ موڑ دیا ہے۔ حکام نے بتایا کہ بدھ کے روز، کریم نگر-کاچی گوڑا، کاچی گوڑا-نظام آباد، کاچی گوڑا-میدک، میدک-کاچی گوڑا، بودھن-کاچی گوڑا اور عادل آباد-تروپتی سمیت روٹس پر ٹرینیں منسوخ کردی گئی ہیں، جبکہ نظام آباد-کاچی گوڑا روٹ پر خدمات آج بھی معطل رہیں گی۔

    گوگل میپ پر اندھا اعتماد، فیملی دریا میں بہہ گئی، 4 افراد ہلاک

    حکام کے مطابق ٹرینوں کی منسوخی کے بارے میں اطلاع دینے کے لیے ہیلپ لائن نمبر جاری کیے گئے ہیں۔

  • بالائی علاقوں میں ہونے والی بارشوں کے سبب دریائے سندھ میں طغیانی

    بالائی علاقوں میں ہونے والی بارشوں کے سبب دریائے سندھ میں طغیانی

    کوٹ ادو (18 اگست 2025): بالائی علاقوں میں ہونے والی بارشوں کے سبب دریائے سندھ میں طغیانی آ گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دریائے سندھ میں تونسہ بیراج کے مقام پر پانی کی سطح میں اضافہ ہو گیا ہے، اور پانی کا بہاؤ 450 کیوسک سے تجاوز کر گیا ہے۔

    محکمہ آب پاشی نے کہا ہے کہ بالائی علاقوں میں بارشوں کے بعد دریائے سندھ میں چشمہ بیراج کے مقام پر بھی پانی کا بہاؤ 5 لاکھ کیوسک ہو گیا ہے۔ دریں اثنا، صوبہ سندھ کے مختلف علاقوں میں بھی بارش برس گئی ہے، سجاول اور گرد و نواح، ٹھٹھہ، مکلی اور گرد و نواح میں بارش ہوئی ہے۔

    شانگلہ میں طغیانی سے 36 افراد جاں بحق ہوئے

    واضح رہے کہ خیبرپختونخوا میں بارش اور سیلاب سے 323 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق کی گئی ہے، پی ڈی ایم اے کے مطابق 273 مرد، 29 خواتین اور 21 بچے شامل ہیں۔ بونیر میں سب سے زیادہ 209 اموات ہوئیں۔

    پی ڈی ایم اے کے مطابق 336 گھروں کو نقصان پہنچا، 106 مکمل منہدم، 230 جزوی تباہ ہوئے، وزیر اعظم کے معاون اختیار ولی نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ صرف ضلع دیر میں ہزار سے زائد اموات ہو سکتی ہیں۔

  • خیبرپختونخوا میں مزید مون سون بارشوں کی پیشگوئی

    خیبرپختونخوا میں مزید مون سون بارشوں کی پیشگوئی

    پشاور (17 اگست 2025): محکمہ موسمیات کی جانب سے خیبرپختونخوا میں مزید مون سون بارشوں کی پیشگوئی کی گئی ہے، پی ڈی ایم اے نے اس سلسلے میں الرٹ جاری کر دیا ہے۔

    پی ڈی ایم اے الرٹ میں کہا گیا ہے کہ 17 سے 19 اگست تک تیز بارش، آندھی اور گرج چمک کا امکان ہے، تمام متعلقہ اداروں کو ہائی الرٹ رہنے کی ہدایت جاری کر دی گئی ہے۔

    ایبٹ آباد، سوات، چترال، پشاور، مانسہرہ سمیت متعدد اضلاع میں فلش فلڈ کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے، برساتی نالوں، دریاؤں میں طغیانی اور پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ کا بھی خطرہ ہے، شہری علاقوں میں اربن فلڈنگ کا اندیشہ ہے جس کی وجہ سے عوام کو محتاط رہنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

    تیز ہواؤں سے کمزور عمارات، بجلی کے کھمبوں اور سائن بورڈز کو نقصان پہنچ سکتا ہے، پی ڈی ایم اے نے مون سون اسپیل کے دوران غیر ضروری سفر سے گریز کی اپیل بھی کی ہے، اور کہا ہے کہ کاشتکار اپنی فصلیں اور مال مویشی محفوظ مقامات پر منتقل کریں۔


    خیبرپختونخوا: این ڈی ایم اے نے 328 اموات کی تصدیق کر دی


    پی ڈی ایم اے نے ہدایت کی ہے کہ سیاح خطرناک اور متاثرہ علاقوں کی جانب جانے سے گریز کریں، اور متعلقہ ادارے ہنگامی سروسز، طبی امداد اور خوراک کی فراہمی یقینی بنائیں، اور شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ کسی بھی ہنگامی صورت حال میں پی ڈی ایم اے ہیلپ لائن 1700 پر فوری رابطہ کریں۔

    واضح رہے کہ موسمیاتی تبدیلی نے خیبرپختونخوا میں تباہی مچا دی ہے، بادل پھٹنے اور آسمانی بجلی گرنے اور لینڈ سلائڈنگ سے ہونے والی اموات کی تصدیق شدہ تعداد 328 تک پہنچ گئی ہے۔

    کلاؤڈ برسٹ کے شکار بونیر میں 230 لاشیں نکالی گئی ہیں، اور 180 سے زائد شہری زخمی ہوئے، متعدد افراد اب بھی لاپتا ہیں۔ قدر نگر کے علاقے میں آسمانی بجلی گرنے سے ایک ہی خاندان کے 25 افراد جان سے گئے، قدر نگر اور ڈگر میں کئی رابطہ پل بھی بہہ گئے ہیں۔

  • آج سے مون سون کی شدت میں اضافے کی پیشگوئی

    آج سے مون سون کی شدت میں اضافے کی پیشگوئی

    اسلام آباد (17 اگست 2025): جڑواں شہروں میں صبح سویرے موسلادھار بارش ہوئی ہے، موسمیات کا کہنا ہے کہ آج سے مون سون کی شدت میں اضافے کا امکان ہے۔

    تفصیلات کے مطابق راولپنڈی اور اسلام آباد میں صبح سویرے موسلادھار بارش شروع ہو گئی ہے، اور محکمہ موسمیات نے آج سے مون سون کی شدت میں اضافے کی پیشگوئی کی ہے۔

    کشمیر، گلگت بلتستان اور خیبر پختونخوا میں آج سے منگل تک شدید بارشوں کا امکان ہے، پنجاب میں بھی گرج چمک کے ساتھ موسلادھار بارش متوقع ہے، سندھ اور بلوچستان کے مختلف اضلاع میں آج سے جمعرات تک موسلادھار بارش ہو سکتی ہے۔

    شدید بارشوں کے باعث دریاؤں اور ندی نالوں میں طغیانی اور لینڈ سلائیڈنگ کا خدشہ ہے، سیاحوں کو پہاڑی علاقوں کا سفر مؤخر کرنے اور انتظامیہ کو الرٹ رہنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔

    راولپنڈی، اسلام آباد اور گرد و نواح میں موسلادھار بارش سے نالہ لئی میں کٹاریاں کے مقام پر پانی کی سطح 10، گوالمنڈی میں 7 فٹ تک بلند ہو گئی ہے، ایم ڈی واسا سلیم اشرف کے مطابق موسم کی صورت حال میں نشیبی علاقوں اور نالہ لئی پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

    ترجمان واسا کے مطابق محکمہ موسمیات کی پیش گوئی پر واسا راولپنڈی ہائی الرٹ ہے، اور عملہ و ہیوی مشینری نشیبی علاقوں میں تعینات ہے، بارشوں کے پیش نظر رین ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے، جڑواں شہروں میں مجموعی طور 70 ملی میٹر سے زائد بارش ریکارڈ کی جا چکی ہے۔

  • پاکستان میں موسم گرما جلد آنے کا امکان کیوں ہے؟ ویڈیو رپورٹ

    پاکستان میں موسم گرما جلد آنے کا امکان کیوں ہے؟ ویڈیو رپورٹ

    پاکستان میں پچھلے 4 ماہ کے دوران 40 فی صد کم بارشیں ہونے کے پیش نظر خشک سالی کا خطرہ ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق بارشوں کی 52 فی صد کمی کے ساتھ صوبہ سندھ سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ رہا ہے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ بارشیں کم ہونے پر سب سے زیادہ شعبہ زراعت کے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ملک کے میدانی علاقوں میں خاطر خواہ بارشیں ریکارڈ نہیں کی گئیں، جس کے نتیجے میں یکم ستمبر 2024 سے 15 جنوری کے درمیان معمول سے 40 فی صد کم بارشیں ریکارڈ کی گئی ہیں۔

    صوبہ سندھ میں 52، بلوچستان میں 45 اور پنجاب میں 42 فی صد معمول سے کم بارشیں ہوئیں۔ محکمہ موسمیات کے مطابق کم بارشوں کے باعث موسم گرما جلد آنے کا امکان ہے۔

    موسمیاتی تبدیلیوں سے خواتین کس طرح متاثر ہو رہی ہیں؟ تشویشناک ویڈیو رپورٹ

    سندھ میں بھی کراچی، ٹھٹھہ، بدین، حیدر آباد سمیت 10 شہروں میں ہلکی خشک سالی کے آثار ہیں۔ ماہرین کے مطابق ’ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنج سے فوری نمٹنا ضروری ہے تاکہ خشک سالی جیسے مسائل کو روکا جا سکے۔

    ملٹی میڈیا – ویڈیو خبریں دیکھنے کے لیے کلک کریں

  • عمان میں کب سے بارشیں ہوں گی؟

    عمان میں کب سے بارشیں ہوں گی؟

    مسقط: عمان کے محکمہ موسمیات نے مملکت میں بارش کی پیشگوئی کردی، اگلے ہفتے سے سلطنت میں برسات متوقع ہے۔

    عمان میں اگلے ہفتے 29 ستمبر سے یکم اکتوبر تک بارش کی پیش گوئی کی گئی ہے، عمان کے محکمہ موسمیات نے اپنے بیان میں کہا کہ موسم کے تازہ ترین نقشے اس بات کو ظاہر کررہے ہیں کہ دھوفر گورنری کے ساحلی اور پہاڑی علاقوں میں بارش کے لیے بادل بن رہے ہیں۔

    اگلے ہفتے کے شروع میں بارشیں متوقع ہیں، اس کے علاوہ الحجر پہاڑوں پر بھی برسات ہوگی جو وادیوں کے اندر پانی کے بہاؤ کا باعث بن سکتی ہیں۔

    محکمہ موسمیات نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ نیشنل سینٹر فار اَرلی وارننگ آف ملٹی پل ہیزارڈز کے ماہرین متوقع موسمی حالات اور ان میں ہونے والی پیشرفت کا جائزہ لے رہے ہیں۔

    حکام نے عمان کے شہریوں اور رہائشیوں سے جاری کردہ بلیٹن اور رپورٹس پر عمل کرنے کی درخواست کی ہے۔

  • مون سون اسپیل سندھ میں داخل، کب تک بارشیں ہوں گی؟

    مون سون اسپیل سندھ میں داخل، کب تک بارشیں ہوں گی؟

    کراچی: مون سون ہواؤں کا سلسلہ آج سے سندھ میں داخل ہوجائے گا، جس کے باعث کراچی سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں گرج چمک کے ساتھ بارشیں ہوسکتی ہے۔

    محکمہ موسمیات کے بیان کے مطابق ملک میں مون سون کا اسپیل 25 اگست تک جاری رہنے کا امکان ہے۔

    بیان میں کہا گیا ہے کہ 19 اگست تک کراچی، گھوٹکی، میرپورخاص، عمرکوٹ، سانگھڑ، ٹھٹہ اور سکھر سمیت سندھ کے مختلف شہروں میں گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے۔

    دوسری جانب حافظ آباد، گوجرانوالا اور چنیوٹ میں بھی موسلا دھار بارش کی پیش گوئی کی گئی ہے، جس کے باعث این ڈی ایم اے نے پنجاب کے بڑے شہروں میں اربن فلڈنگ کا امکان ظاہر کیا ہے۔

    وزیراعظم شہباز شریف نے موسلا دھار بارشوں کے باعث متعلقہ اداروں کو ہائی الرٹ رہنے کی ہدایت جاری کردی ہیں۔

    وزیر اعظم نے بتایا کہ 25 اگست تک مون سون کے متوقع شدید اسپیل کی ڈیش بورڈ سے خود نگرانی کروں گا، ہنگامی صورتحال میں لوگوں کے انخلا، نکاسی آب کی تیاری یقینی بنائی جائے۔

    پاکستان میں مون سون کی بارشوں کا دورانیہ اور اہمیت

    پاکستان میں مون سون کی بارشوں کا دورانیہ عام طور پر جولائی سے ستمبر تک ہوتا ہے۔ یہ بارشیں ملک کے مختلف حصوں میں مختلف شدت اور مدت کے ساتھ برستی ہیں۔ مون سون کی آمد سے ملک کے کئی علاقوں میں خشک سالی کے بعد زندگی میں ایک نئی بہار آ جاتی ہے۔ یہ بارشیں نہ صرف زرعی پیداوار کے لیے بلکہ پانی کے ذخائر کو بھرپور کرنے اور موسم کو خوشگوار بنانے کے لیے بھی انتہائی اہم ہیں۔

    کراچی کی سڑکوں کو بارشوں نے ادھیڑ کر رکھ دیا

    تاہم، بعض اوقات یہ بارشیں اتنی شدید ہو جاتی ہیں کہ سیلاب کی صورت اختیار کر لیتی ہیں اور ملک کے مختلف علاقوں میں تباہی پھیل جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، غیر متوقع اور بے وقت بارشیں بھی فصلوں کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

  • شدید گرمی اور بارش میں کراچی کے بے گھر افراد کو مشکلات کا سامنا

    شدید گرمی اور بارش میں کراچی کے بے گھر افراد کو مشکلات کا سامنا

    تیس سالہ مٹھو کا گھر پاکستان کے دو کروڑ کی آبادی والے سب سے بڑے شہر کراچی میں کے پی ٹی انٹرچینج فلائی اوور کے نیچے ہے۔ مٹھو کے ساتھ اُن کے بیس عزیز و اقربا بھی ساتھ رہتے ہیں جو کئی سال پہلے بہتر معاشی مواقع کی تلاش میں دو سو کلومیٹر شمال مشرق میں واقع ٹنڈو الہ یار سے ہجرت کر کے یہاں آئے تھے۔ آس پاس کے بلند و بالا اپارٹمنٹس اور دفاتر میں رہنے والے لوگوں کے برعکس، اِن کے پاس سخت موسمی حالات سے بچنے کے لئے فی الحقیقت کوئی پناہ گاہ موجود نہیں ہے۔

    جولائی کے آخر کی جُھلسا دینے والی گرمی کے ایک دن جب ان کی بہن سوتری سرخ اینٹوں کے عارضی چولہے پر روٹیاں بنا رہی تھیں تو اُس وقت مٹھو نے اپنے ماتھے سے پسینہ پونچھتے ہوئے بتایا کہ “ہمیں رفع حاجت یا غسل کے لئے خالی پلاٹوں پر جانا پڑتا ہے، چاہے اِس طرح کی شدید گرمی ہی کیوں نہ ہو۔ ہم یہاں پانی قریبی کالونیوں سے خالی ڈبوں میں بھر کر لاتے ہیں۔ حکومت ہمارے لئے کیا کرے گی؟ ہمیں حکومت پر بھروسہ نہیں ہے کہ وہ ہمیں شدید گرمی کے دوران یا بارشوں میں ہماری مدد کرے گی۔”

    کراچی میں بے گھر افراد کی تعداد کے حوالے سے کوئی قابل اعتماد اعداد و شمار موجود نہیں ہیں، جس کی وجہ سے شدید گرمی اور بارشوں سے نمٹنے میں اِن کی مدد کے لئے کسی قسم کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ہے

    مٹھو کا خاندان، بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح، کسی بھی سرکاری اعداد و شمار میں شامل نہیں ہے۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی ڈائریکٹر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اسماء غیور نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ “آپ کو اِن بے گھر افراد کے بارے میں کوئی اعداد و شمار، ڈیٹا، یا منصوبے نہیں ملیں گے۔ زیادہ سے زیادہ، یہ لوگ انتخابات کے قریب ممکنہ ووٹرز کے طور پر کام آسکتے ہیں۔ اِس سے ہٹ کر، اِن کے مسائل کو بڑی حد تک نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔”

    1988 میں قائم ہونے والی ایک غیر منافع بخش تنظیم شہری – سٹیزن فار اے بیٹر انوائرنمنٹ (سی بی ای) کی جنرل سکریٹری امبر علی بھائی نے بے گھر افراد کو “اِس بڑے شہر کے کسی کو نظر نہ آنے والے لوگ” قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ “آب و ہوا سے پیدا ہونے والی آفات جیسے سیلاب کے دوران پولیس اِن بے گھر افراد کو پولیس اسٹیشنوں میں عارضی پناہ دے سکتی ہے، لیکن اُن کے پاس بھی مناسب جگہ کی کمی ہوتی ہے، لہذا اِن بے گھر افراد کو عام طور پر کسی دوسرے مقام پر منتقل کر دیا جاتا ہے۔ اِن بے گھر افراد کی نگرانی اور اِن کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لئے نادرا [نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی] کو بھی اِس مربوط عمل میں شامل کرنا ضروری ہے۔”

    شہری منصوبہ ساز اور کراچی اربن لیب کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر محمد توحید نے بے گھر افراد کی مدد کے حوالے سے موجودہ مشکلات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ ” جب تک بے گھر افراد کی صحیح تعداد اور ان کے مقامات کا علم نہ ہو، وسائل مختص کرنا، ہنگامی ردعمل کی منصوبہ بندی کرنا، اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے طویل مدتی حل نافذ کرنا مشکل ہے۔” یہ مسائل شدید گرمی کے واقعات سے کہیں زیادہ ہیں۔ کچھ سول سوسائٹی کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں مجموعی طور پر بے گھر افراد کی آبادی تقریبا 20 ملین (دو کروڑ) یا اِس کی آبادی کا 9 فیصد ہے، لیکن سول سوسائٹی کے شعبے میں بھی کراچی جیسے شہروں کے بارے میں کوئی خاص معلومات موجود نہیں ہیں اور اِن مسائل کو حکومتی سطح پر اُجاگر کرنے کے لئے اعداد و شمار ناکافی ہیں۔

    علی بھائی نے کہا کہ بے گھر افراد سے نمٹنے کے لئے موجودہ قوانین، جیسے سندھ ویگرنسی آرڈیننس 1958 اور اس کی 1983 کی ترمیم کے باوجود، کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) نے “اپنی ذمہ داریوں سےمکمل کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔” انہوں نے مزید کہا کہ جب آب و ہوا سے پیدا ہونے والی آفات، جیسے گرمی کی لہریں یا شہر میں سیلاب آتے ہیں تو متاثرہ افراد کو خیرات دینے والے افراد کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔

    رؤف فاروقی، جو 2013 سے 2015 کے درمیان کراچی اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں کے لئے کے ایم سی کے سب سے اعلیٰ انتظامی عہدے پر فائز رہے، نے ڈائیلاگ ارتھ کو بتایا کہ بے گھر افراد کے لئے کوئی سرکاری اہتمام نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، “زیادہ سے زیادہ، ہم اِنہیں عارضی پناہ کے لئے پولیس کے پاس یا ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس لے جاتے تھے۔”

    پاکستان کے محکمہ موسمیات کے چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز نے کہا کہ موسم کی شِدّت سے بچاؤ کے لئے انتظامات نہ ہونے کی وجہ سے کراچی کے بے گھر افراد کو اِس موسم گرما میں شدید گرمی کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ 23 سے 30 جون کے دوران اور 16 سے 23 جولائی کے دوران درجہ حرارت اوسط سے 4 سے 6 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ رہا۔ “1990 کی دہائی کے وسط سے پاکستان میں درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اِس میں کوئی شبہ نہیں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بے گھر افراد سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔”

    ایدھی فاؤنڈیشن، جو پاکستان کی محروم طبقے کی کمیونٹیز کی خدمت کرنے والی ایک سماجی تنظیم ہے، کے کنٹرول روم کے انچارج محمد امین نے بتایا کہ اس سال اموات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ “15 سے 30 جون کے درمیان، ہمیں اپنے مردہ خانوں میں 1,540 لاشیں موصول ہوئیں جو کہ روزانہ کی اوسطاً 35 سے 40 لاشوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہیں۔” اس کے ساتھ ہی انہوں نے متنبہ کیا کہ اِن سب ہلاکتوں کو پوری طرح سے گرمی کے اثرات سے منسلک نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم، سول سوسائٹی کی تنظیموں کی جانب سے رپورٹ کی جانے والی ہلاکتوں کی بڑی تعداد نے اس سال جون کے آخر میں آٹھ روز تک چلنے والی گرمی کی لہروں کے دوران سرکاری طور پر 49 اموات کے بارے میں سوالات اٹھائے ہیں۔

    ڈاکٹر احمر، جو کراچی کے گنجان آباد علاقے صدر میں واقع کراچی ایڈوینٹسٹ اسپتال کے ایمرجنسی روم میں کام کرتے ہیں نے کہا کہ انکا پورا نام ظاہر نہ کیا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں اس سال گرمی سے متعلق ہر قسم کے کیسز موصول ہوئے اور خاص طور وہ لوگ جو کسی مناسب چھت یا سایہ سے محروم ہیں وہ لُو ، تیز بخار، لو بلڈ پریشر اور چکر جیسی علامات کے ساتھ آئے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اگر مون سون کی بارشیں جاری رہیں تو آلودہ پانی کی وجہ سے اسپتال گیسٹرو اینٹرائٹس (معدے اور آنتوں کی سوزش) کے مریضوں سے بھر جائے گا۔ جہاں تک بے گھر لوگوں کا تعلق ہے تو میں نے ان کے لئے کوئی خاص انتظامات یا اقدامات نہیں دیکھے ہیں۔ وہ تمام عملی مقاصد کے لئے غیر رجسٹرڈ شہری ہیں حالانکہ وہ واقعی بہت سی مصیبتوں کا شکار ہیں۔

    صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) سندھ کے ڈائریکٹر جنرل سید سلمان شاہ نے کراچی میں 2015 میں گرمی کی لہروں کے بعد کی صورتحال پر روشنی ڈالی، جس کے بعد ہیٹ ویومینجمنٹ پلان تشکیل دیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ گرمی کی لہروں میں بے گھر افراد یا سڑکوں کے کنارے مقیم افراد سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ 2015 میں رمضان المبارک کے موقع پر آنے والی گرمی کی لہروں نے پاکستان بھر سے بہت سے لوگوں کو خیراتی امداد کے لئے کراچی کی طرف راغب کیا جس کی وجہ سے صورتحال مزید خراب ہو گئی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ “یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس عام طور پر گھر نہیں ہوتے اور وہ غیر سرکاری بستیوں، عارضی خیموں یا فلائی اوورز کے نیچے بیٹھے رہتے ہیں۔ 2024 کے منصوبے میں خاص طور پر شدید گرمی کی لہروں کے دوران بے گھر افراد کو عارضی پناہ گاہیں فراہم کرنا شامل تھا اور اِس کے لئے شادی ہالز اور سرکاری دفاتر جیسی عمارتوں کو استعمال میں لایا جائے گا۔

    شاہ کے مطابق، اگرچہ سرکاری محکموں نے اس سال گرمی کی لہروں سے قبل شہریوں کی جانب سے محسوس کئے جانے والے اثرات کو کم کرنے کے لئے کام کیا تھا، لیکن یہ غیر متوقع طور پر طویل ثابت ہوا۔ اُن کا کہنا تھا کہ “صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے) بار بار گرمی کی لہروں کے حوالے سے الرٹ اور روزانہ کی صورتحال کی رپورٹس جاری کرتی ہے لیکن کراچی میں بے گھر افراد کی صحیح تعداد کوئی نہیں جانتا،” حالانکہ انہوں نے توقع ظاہر کی کہ کراچی میں لوگوں کی اصل تعداد زیادہ ہوگی کیونکہ شہر میں بہتر زندگی کی تلاش میں لوگوں کا مسلسل آنا جاری رہتا ہے۔

    سیلاب سے نمٹنے کے لئے تین سال قبل نالوں پر غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی عمارتوں کو منہدم کرنے کے لئے انسدادِ تجاوزات مہم شروع کی گئی تھی جس سے نادانستہ طور پر شہر میں بے گھر افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ اپریل میں سپریم کورٹ نے صوبائی حکومت کو ہدایت دی کہ اِن عمارتوں کے اِنہدام کی وجہ سے بے گھر ہونے والے لوگوں کو نئے مکانات مہیّا کئے جائیں۔

    شہر کے انفرااسٹرکچر(بنیادی ڈھانچے) کے منصوبوں کی نگرانی کرنے والے سول سوسائٹی کے ادارے اربن ریسورس سینٹر کے جوائنٹ ڈائریکٹر زاہد فاروق نے اس طرح کی پالیسیوں کے وسیع اثرات پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ “گجر اور اورنگی نالوں کے اوپر بنی عمارتوں کو ہٹانے کے نتیجے میں 6،900 ہاؤسنگ یونٹس منہدم ہوئیں اور ہر گھر میں ممکنہ طور پر ایک سے زیادہ خاندان رہائش پذیر تھے۔ بے گھر ہونے کے بعد وہ کسی رشتہ دار کے گھر چلے جاتے ہیں جو کہ خود بھی غریب ہوتے ہیں۔” انہوں نے کہا، “چونکہ ایک بڑی تعداد پہلے ہی تنگ حالات میں رہ رہی ہے، اُس پر بے گھر رشتہ داروں کی آمد، چھوٹے گنجان مکانات یا عارضی پناہ گاہوں میں رہائشی کثافت (کم جگہ میں زیادہ لوگوں کا رہنا) کو مزید بڑھا دیتی ہے۔ یہ بڑھتی ہوئی کثافت موسمیاتی واقعات جیسے گرمی کی لہروں یا شدید بارشوں کے اثرات کو بڑھا دیتی ہے۔” فاروق نے مزید کہا، ” گھروں کا یہ انہدام صرف اِن کے گھروں کو ہی نہیں مِسمار کرتا بلکہ اِن کی معاشی حالت، سماجی شناخت اور روابط بھی بکھر جاتے ہیں۔”

    ایک مقامی دائی نیہا منکانی جو غریب کمیونٹیز کے لئے ذہنی صحت کے کلینک چلا رہی ہیں، کے مطابق بے گھر خواتین کی حالت خاص طور پر سنگین ہے۔ انہوں نے کہا کہ “کراچی میں بے گھر خواتین کو سیلاب اور گرمی کی لہروں کے دوران صحت کے حوالے سے مقابلتاً بڑے خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ آلودہ سیلابی پانی انفیکشن، جلد کی بیماریوں اور ذہنی صحت کے مسائل کے لئے اُن کی حسّاسیت بڑھا دیتا ہے، اور ایسا بے گھر ہونے اور جذباتی صدمے کی وجہ سے ہوتا ہے۔” اس کے علاوہ، جب سیلاب آتا ہے تو لوگ ایک ساتھ ہجوم والی جگہوں پر رہنے کے لئے جاتے ہیں اور ایسے مواقع خواتین کے لئے جنسی تشدد کے خطرے کو بڑھا سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں، غیر مستحکم غذائی ذرائع شدید موسم سے مزید متاثر ہوتے ہیں اور نتیجتاّ اِن خواتین کو کھانا بھی اچھی مقدار میں نہیں ملتا اور یہ غذائی قلت اور معدے کے مسائل کا شکار ہو جاتی ہیں۔

    منکانی نے گرمی کی شدید لہروں کے دوران خواتین کی صحت کے تحفظ کے لئے مخصوص علاجوں کی ضرورت پر زور دیا، اور محفوظ پانی اور صفائی ستھرائی تک ان کی محدود رسائی کو اجاگر کیا جس سے پانی کی کمی، پیشاب کی نالی کے انفیکشن اور حمل میں پیچیدگیوں کے خطرات میں اضافہ ہوتا ہے جس میں قبل از وقت زچگی اور حمل کا نقصان بھی شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ “یہ تسلیم کرنا بہت ضروری ہے کہ خواتین، خاص طور پر وہ جو مناسب پناہ گاہ سے محروم ہیں، گرمی سے مقابلتاً زیادہ متاثر ہوتی ہیں، اور یہ نکتہ اُن کی صحت اور فلاح و بہبود کے تحفظ کے لئے مخصوص علاجوں اور اُنھیں صحت مند رکھنے کے نظام کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔”

    (فرح ناز زاہدی معظم کی رپورٹ ڈائلاگ ارتھ پر شایع ہوچکی ہے جس کو اس لنک کی مدد سے پڑھا جاسکتا ہے)

  • مون سون بارشیں، پی ڈی ایم اے نے الرٹ جاری کر دیا

    مون سون بارشیں، پی ڈی ایم اے نے الرٹ جاری کر دیا

    اسلام آباد: لاہور سمیت پنجاب کے مختلف اضلاع میں بارشوں کا سلسلہ جاری ہے، پی ڈی ایم اے نے الرٹ بھی جاری کردیا ہے۔

    ترجمان پی ڈی ایم اے کے مطابق گوجرانوالہ، گجرات، سیالکوٹ،حافظ آباد، جہلم، منڈی بہاالدین، سیالکوٹ میں بھی بارش ریکارڈ ہوئی ہے۔

    ترجمان نے کہا کہ 25 جولائی تک پنجاب بھر میں مون سون بارشوں کاا سپیل جاری رہے گا، آج اور کل جنوبی پنجاب کے بیشتر اضلاع میں آندھی اور تیز بارش کے امکانات موجود ہیں۔

    لاہور میں بارشوں سے گرمی اور حبس کی شدت میں کمی ہو گی، بڑے شہروں کی انتظامیہ الرٹ رہے اور پیشگی انتظامات مکمل کریں۔

    اس کے علاوہ راولپنڈی، اسلام آباد اور گردونواح میں بارش سے موسم خوشگوار ہوگیا، واسا کی ٹیمیں ہیوی مشینری کیساتھ علاقوں میں نکاسی آب میں مصروف ہیں۔

    سمندری ہوائیں بند ہونے سے کراچی میں گرمی کی شدت برقرار، آج بھی بارش کی پیشگوئی

    ایم ڈی واسا ضلعی افسران کی جانب سے مختلف علاقوں کا دورہ کیا گیا، نکاسی آب کے آپریشن کا جائزہ لیا گیا، انہوں نے کہا کہ بارش کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔