Tag: بارہ برس بیت گئے

  • استاد اسد امانت علی کو مداحوں سے بچھڑے بارہ برس بیت گئے

    استاد اسد امانت علی کو مداحوں سے بچھڑے بارہ برس بیت گئے

    کراچی: کلاسیکی راگوں کے ذریعے دنیا بھر میں شہرت پانے والے گلوکار اسد امانت علی کو ہم سے بچھڑے بارہ برس بیت گئے۔

    اسد امانت علی 8 اپریل 2007 کو لندن میں دار فانی سے کوچ کرگئے تھے، اسد امانت علی 25 ستمبر 1955 کو لاہور میں پیدا ہوئے، اسد امانت علی استاد امانت علی خان کے صاحبزادے، استاد فتح علی اور استاد حامد علی خان کے بھتیجے اور شفقت امانت علی خان کے بڑے بھائی تھے۔

    دس برس کی عمر سے موسیقی کی دنیا میں قدم رکھنے والی اس فنکار کی آواز نے لوگوں کے دلوں پر رج کیا، انہوں نے 1970 میں اپنے والد استاد امانت علی خان کی وفات کے بعد باقاعدہ گلوکاری شروع کی اور والد کے مشہور گیت اور غزلیں گاکر مشہور ہوگئے، اسد امانت علی خان نے لوک گیتوں سے بھی الگ پہچان بنائی۔

    انہیں اصل شہرت ‘عمراں لنگھیاں پباں بھار‘ سے ملی، اس کے علاوہ گھر واپس جب آؤ گے ان کی شاہکار غزلیں ہیں، انہوں نے بے شمار پاکستانی فلموں کے لیے گیت گائے، ان کے چچا حامد علی خان کے ساتھ ان کی جوڑی کو بھی بے حد پسند کیا جاتا تھا۔

    اسد امانت علی خان کو پرائیڈ آف پرفارمنس سے بھی نوازا گیا، ایوارڈ کے فوری کے بعد ہی ان کی طبیعت ناساز رہنے لگی اور وہ علاج کے لیے لندن چلے گئے، 8 اپریل 2007 کو دل کے دورے کے باعث ان کا انتقال ہوگیا۔

    اسد امانت علی خان آج ہم میں نہیں لیکن ان کی گائی ہوئی غزلیں اور گیت آج بھی سماعت میں رس گھولتی ہیں، ان کی غزلیں اور گیت اب بھی کلاسیکل موسیقی کی پہچان ہیں۔

  • معروف شاعر محسن بھوپالی کو ہم سے بچھڑے بارہ برس بیت گئے

    معروف شاعر محسن بھوپالی کو ہم سے بچھڑے بارہ برس بیت گئے

    آج اردو ادب کو لافانی اشعار دینے والے معروف شاعر محسن بھوپالی کی 12ویں برسی ہے‘ انہوں نے اردو شاعری کو نئی جہت عطا کی اورزندگی بھر مزاحمت کا استعارہ بنے رہے۔

    محسن بھوپالی کا اصل نام عبدالرحمن تھا اور وہ بھوپال کے قریب ضلع ہوشنگ آباد کے قصبے سہاگ پور میں 29 ستمبر 1932ء کو پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان نقل مکانی کرکے لاڑکانہ منتقل ہوگیا اور پھر کچھ عرصے کے بعد حیدرآباد میں رہائش اختیار کی۔ آخر میں وہ کراچی منتقل ہوگئے۔

    این ای ڈی انجینئرنگ کالج کراچی سے سول انجینئرنگ میں ڈپلومہ کورس کرنے کے بعد وہ 1952ء میں محکمہ تعمیرات حکومت سندھ سے وابستہ ہوئے۔ اس ادارے سے ان کی یہ وابستگی 1993ء تک جاری رہی۔ اسی دوران انہوں نے جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    محسن بھوپالی کی شعر گوئی کا آغاز 1948ء سے ہوا۔ ان کی وجہ شہرت شاعری ہی رہی۔ ان کی شاعری کا پہلا مجموعہ “شکست شب” 1961ء میں منظر عام پر آیا۔ ان کی جو کتابیں اشاعت پذیر ہوئیں ان میں شکست شب، جستہ جستہ، نظمانے، ماجرا، گرد مسافت، قومی یک جہتی میں ادب کا کردار، حیرتوں کی سرزمین، مجموعہ سخن، موضوعاتی نظمیں، منظر پتلی میں، روشنی تو دیے کے اندر ہے، جاپان کے چار عظیم شاعر، شہر آشوب کراچی اور نقد سخن شامل ہیں۔

    محسن بھوپالی کویہ منفرد اعزاز بھی حاصل تھا کہ 1961ء میں ان کے اولین شعری مجموعے کی تقریب رونمائی حیدرآباد سندھ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت زیڈ اے بخاری نے انجام دی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کسی کتاب کی پہلی باقاعدہ تقریب رونمائی تھی جس کے کارڈ بھی تقسیم کئے گئے تھے۔ وہ ایک نئی صنف سخن نظمانے کے بھی موجد تھے۔

    محسن بھوپالی اردو کے ایک مقبول شاعر تھے ۔ ان کی زندگی میں ہی ان کے کئی قطعات اور اشعار ضرب المثل کا درجہ حاصل کرگئے تھے خصوصاً ان کا یہ قطعہ توان کی پہچان بن گیا تھا اور ہر مشاعرے میں ان سے اس کے پڑھے جانے کی فرمائش ہوتی تھی۔

    تلقین اعتماد وہ فرما رہے ہیں آج
    راہ وفا میں خود جو کبھی معتبر نہ تھے
    نیرنگیٔ سیاستِ دوراں تو دیکھیے
    منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

    معروف محقق عقیل عباس جعفری کی کتاب ’پاکستان کے سیاسی وڈیرے‘ کی تقریب پزیرائی کے موقع پر انہوں نے خصوصی نظمانہ تحریر کیا اور 9 جنوری 1994 کو اس تقریب میں پڑھا ۔

    اپنے ملک پہ اک مدت سے قائم ہے
    گنتی کے ان سرداروں
    ……..اورجاگیروں کے پانے والوں
    کی نسلوں کا راج
    آزادی سے بڑھ کر جن کو پیارا تھا
    انگریزوں کا تاج!
    سوچ رہا ہوں…….. شائد اب کے
    قسمت دے دے مظلوموں کا ساتھ
    استحصالی ٹولے سے…. پائے قوم نجات
    صبح ہوئی تو گونج رہا تھا’
    بے ھنگم نعروں کا شور
    اپنے خواب کی ہم نے کی…….. من مانی تعبیر
    پھر ہے اپنے قبضے میں……. ملت کی تقدیر
    پاکستان کا مطلب کیا؟…. …موروثی جاگیر

    محسن بھوپالی کی شاعری میں ادب اور معاشرے کے گہرے مطالعے کا عکس نظر آتا ہے۔ انہوں نے جاپانی ادب کا اردو میں ترجمہ کیا اور ہائیکو میں بھی طبع آزمائی کی۔

    اگر یہی ہے شاعری تو شاعری حرام ہے
    خرد بھی زیر دام ہے ، جنوں بھی زیر دام ہے
    ہوس کا نام عشق ہے، طلب خودی کا نام ہے

    ان کی شاعری کے موضوعات معاشرتی اور سیاسی حالات ہوتے تھے۔ ان کے ایک قطعے کو بھی خوب شہرت حاصل ہوئی۔

    جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
    اس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے
    مے خانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
    کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
    ہم مصلحت وقت کے قائل نہیں یارو
    الزام جو دینا ہو، سر عام دیا جائے

    سنہ 1988 میں ان کے گلے کے سرطان کا کامیاب آپریشن کیا گیا، اس کے بعد انہیں بولنے میں دشواری ہوتی تھی مگر اس کے باوجود بھی انہوں نے زندگی کے معمولات جاری رکھے اور مشاعروں میں شرکت کرتے اور شعر پڑھتے رہے۔

    اردو ادب کو ایک لافانی ذخیرہ فراہم کرنے والے محسن بھوپالی 17جنوری 2007ء کو دنیا سے رخصت ہوئے اور کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • شہرۂ آفاق ناول و افسانہ نگار شوکت صدیقی کو ہم سے بچھڑے بارہ برس بیت گئے

    شہرۂ آفاق ناول و افسانہ نگار شوکت صدیقی کو ہم سے بچھڑے بارہ برس بیت گئے

    کراچی : اردو زبان کے معروف مصنف اور شہرۂ آفاق ناول و افسانہ نگار شوکت صدیقی کو ہم سے بچھڑے بارہ برس بیت گئے، وہ اپنے ناول "خدا کی بستی” کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتے ہیں۔

    شوکت صدیقی 20مارچ1923 کو بھارتی شہر لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ 1946ء میں سیاسیات میں ایم اے کرنے کے بعد 1950 میں کراچی آ گئے۔ کراچی میں 1952ء میں ان کی شادی ثریا بیگم سے ہوئی۔

    ناولوں اور متعدد کہانیوں کے مجموعوں کے خالق کے علاوہ وہ اردو کے ایک ممتاز صحافی بھی تسلیم کیے جاتے تھے اور متعدد نامور صحافی ان سے صحافت سیکھنے کا اعتراف کرتے ہیں۔

    وہ کئی ہفت روزہ اور روزنامہ اخبارات سے وابستہ رہے۔ تاہم عملی زندگی کا آغاز انیس سو چوالیس میں ماہنامہ ’ترکش‘ سے کیا۔ وہ روزنامہ ’مساوات‘ کراچی کے بانی ایڈیٹر اور روزنامہ "مساوات” لاہور اور روزنامہ "انجام” کے چیف ایڈیٹر بھی رہے۔

    ایک عرصہ تک وہ ہفت روزہ ’الفتح‘ کراچی کے سربراہ بھی رہے جس اخبار میں کئی ادبی صحافیوں نے کام کیا جنہیں آج پاکستان کے بڑے صحافیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

    واضح رہے کہ شوکت صدیقی کے دیگر ناولوں میں ’کمیں گاہ‘ 1956، ’خدا کی بستی‘ 1958، ’جانگلوس‘ 1988اور ’چار دیواری‘ 1990ء میں شائع ہوئے۔

    "جانگلوس” ان کا ایک طویل ناول ہے جس کے اب تک کئی ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ اس ناول کو پنجاب کی الف لیلیٰ بھی کہا جاتا ہے، ان کے ناول "خدا کی بستی” کے 46 ایڈیشن شائع ہوئے اور یہ اردو کا واحد ناول ہے جس کا 42 دیگر زبانوں میں ترجمہ بھی ہوا۔