Tag: باری علیگ

  • ناول، جو کسی نے نہیں‌ پڑھا تھا!

    ناول، جو کسی نے نہیں‌ پڑھا تھا!

    راجندر سنگھ بیدی سے لاہور میں اپنی ایک ملاقات کا ذکر سعادت حسن منٹو نے بھی کیا ہے جو پرانی انار کلی کے اس کمرے میں ہوئی جہاں باری علیگ اور حسن عباس رہتے تھے۔

    "گنجے فرشتے” میں منٹو نے باری علیگ کے خاکے میں لکھا ہے: "راجندر سنگھ بیدی، روسی ناول نویس شولوخوف کے "اینڈ کوائٹ فلوز دی ڈون” کے متعلق بات چیت کر رہا تھا۔ یہ ناول ہم میں سے کسی نے بھی نہیں پڑھا تھا۔ لیکن بیدی کچھ اس انداز سے گفتگو کر رہا تھا کہ مجھے خواہ مخواہ اس میں شریک ہونا اور یہ ظاہر کرنا پڑا کہ ناول میرا پڑھا ہوا ہے۔ جب میں نے اس کا اظہار کیا تو بیدی بوکھلا سا گیا۔ باری صاحب تاڑ گئے کہ معاملہ کیا ہے اور شولوخوف کی ناول نویسی پر ایک لیکچر شروع کر دیا۔

    نتیجہ یہ ہوا کہ بیدی صاحب کو تھوڑی دیر کے بعد بڑے بینڈے پن سے اس بات کا اقرار کرنا پڑا کہ اس نے شولوخوف کا زیرِ تبصرہ ناول نہیں پڑھا۔ میں نے بھی حقیقت کا اظہار کر دیا۔ باری صاحب خوب ہنسے اور آخر میں انہوں نے مخصوص انداز میں حاضرین کو بتایا کہ شولوخوف کا نام انہوں نے پہلی مرتبہ بیدی صاحب کے منھ سے سنا ہے اور اس کی ناول نویسی پر جو لیکچر انہوں نے پلایا ہے ان کی دماغی اختراع ہے!!

    (محمود الحسن کی کتاب ‘لاہور شہرِ پُرکمال’ سے اقتباس)

  • کمپنی کی حکومت کے مصنّف باری علیگ کا تذکرہ

    کمپنی کی حکومت کے مصنّف باری علیگ کا تذکرہ

    کمپنی کی حکومت وہ کتاب تھی جس کے بارے میں مصنّف باری علیگ لکھتے ہیں کہ پہلے ایڈیشن کا طرزِ تحریر یک طرفہ اور طریقِ تنقید منتقامانہ تھا، اس کے باوجود اس کی مقبولیت کی وجہ یہی تھی کہ لوگ انگریز سے نفرت اور کمپنی کی حکومت کا خاتمہ چاہتے تھے۔ اس کتاب کا چوتھا ایڈیشن 1945ء میں آیا تھا۔ آج بھی باری علیگ کی اس کتاب کی اہمیت برقرار ہے۔

    باری علیگ کو اردو دنیا ایک ترقی پسند دانش وَر، مؤرخ، نقاد اور صحافی کی حیثیت سے یاد کرتی ہے۔ 1949ء میں باری علیگ آج ہی کے دن دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے تھے۔ ان کی کتاب ’ کمپنی کی حکومت‘ منفرد انداز کی تاریخ نگاری میں ایک کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے۔ سعادت حسن منٹو جیسے مشہور ادیب باری علیگ کو اپنا راہ نما اور استاد تسلیم کرتے تھے۔ 1933ء میں جب منٹو بارہویں جماعت کے طالبِ علم تھے تو ان کی ملاقات اشتراکی ادیب باری علیگ سے ہوئی تھی جو ان دنوں روزنامہ مساوات کے ایڈیٹر تھے۔ منٹو کی ذہنی پرداخت میں باری علیگ کا بڑا حصّہ ہے۔

    یہ باری صاحب ہی تھے جن کی ہدایت پر منٹو نے وکٹر ہیوگو کے انگریزی ترجمے ’دی لاسٹ ڈے آف اے کنڈیمنڈ‘ کو اُردو کے قالب میں ڈھالا اور بعد میں آسکر وائلڈ کے ڈرامے ’ ویرا‘ کا بھی ترجمہ کیا۔ باری علیگ کے دیگر خورد معاصرین نے بھی ان سے بہت کچھ سیکھا اور ادب کی دنیا میں نام و مقام پایا۔

    باری علیگ 1906ء کو برطانوی ہندوستان کے مشہور شہر امرتسر میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام غلام باری تھا۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل تھے اور دیگر طالبِ علموں کی طرح اسی درس گاہ کی نسبت اپنے نام کے ساتھ علیگ کا لاحقہ جوڑا۔ باری علیگ کی تصانیف میں تاریخ کا مطالعہ، انقلابِ فرانس، کارل مارکس، مشین اور مزدور اور دیگر کتب شامل ہیں۔

    حالاتِ حاضرہ اور سیاسی امور پر اخبارات کے لیے مضمون نویسی سے باری علیگ نے اپنے قلمی سفر کا آغاز کیا۔ بعد میں اخبار مساوات کی ادارت سنبھالی۔ یہاں انھوں نے معیاری صحافت کی۔ باری‌ صاحب کی دل چسپی کے موضوع تاریخ اور معاشیات تھے۔ اپنی اوّلین دو کتابوں میں انھوں نے فرانس کے انقلاب، ہندوستان میں انگریزوں کی آمد، ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت کے قیام اور اس کے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔ باری علیگ کی دیگر کتابوں میں‌ اسلامی تاریخ و تہذیب، عالمی تاریخ، تاریخِ اسلام بھی شامل ہیں۔ باری علیگ نے مارکسی فلسفے پر چند کتابچے بھی تحریر کیے۔

    باری علیگ جوانی میں لاہور شہر میں وفات پاگئے تھے۔

  • عرب ہوٹل:’’لاہور کے آڑے ترچھوں کا اڈّہ‘‘

    عرب ہوٹل:’’لاہور کے آڑے ترچھوں کا اڈّہ‘‘

    لاہور کے کچھ ادبی اور ثقافتی مرکز ایسے ہیں جنہیں لوگ بالکل فراموش کر چکے ہیں اور ان کا ذکر اب صرف تذکروں میں ہی ملتا ہے۔ ان میں کچھ ادبی ٹھکانے تو اپنے زمانے میں بڑی شہرت کے مالک تھے جہاں علم و ادب کے نامور لوگ اپنی محفلیں سجایا کرتے تھے۔

    سب سے پہلے میں عرب ہوٹل کا ذکر کروں گا۔ عرب ہوٹل ریلوے روڈ اسلامیہ کالج کے بالکل سامنے واقع تھا۔ کہتے ہیں کہ 1926ء سے 1936ء تک لاہور کی ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا خاموش مرکز رہا۔ یہاں اس زمانے میں خواجہ دل محمد، ڈاکٹر تاثیر، عابد علی عابد، حفیظ جالندھری، گوپال متل، پنڈت ہری چند اختر، مولانا چراغ حسن حسرت، پروفیسر فیاض محمود، عبدالمجید بھٹی اور باری علیگ بیٹھا کرتے تھے۔ کبھی کبھی آنے والوں میں عبدالمجید سالک شامل تھے۔ جس زمانے میں مَیں نے عرب ہوٹل دیکھا اس وقت وہاں مولانا چراغ حسن حسرت کی شخصیت سب سے نمایاں تھی۔ میں عرب ہوٹل گیا بھی حسرت صاحب سے ملنے تھا کیونکہ ان کی فیملی سے ہمارے گھر والوں کے دیرینہ مراسم تھے اور حسرت صاحب مجھے جانتے تھے۔ یہ قیامِ پاکستان سے چند برس پہلے کا زمانہ تھا۔

    عرب ہوٹل کا ماحول مجھے ذرا پسند نہیں تھا۔ میں نے رنگون، بمبئی اور کلکتہ میں بڑے بڑے ریستوران اور ہوٹل دیکھے تھے۔ عرب ہوٹل ان کے مقابلے میں ایک چھوٹی سی دکان تھی جس کے اندر ایک تنور بھی تھا، جہاں نان لگتے تھے اور سالن وغیرہ بھی پکتا تھا اور چائے بھی پکتی تھی جو چینی کی زرد پرانی چینکوں میں چھوٹے (فنجانوں) پیالوں میں اور کپ میں بھی دی جاتی تھی۔ بڑا غریبانہ ہوٹل تھا۔ وہاں کے نان تنور سے نکلتے تو ان کی خوشبو سے ہی بھوک تیز ہو جاتی تھی۔ بُھنے ہوئے گوشت کی فل پلیٹ بھی ملتی تھی اور ہاف پلیٹ بھی ملتی تھی۔ کباب بے حد لذیز تھے۔ بھنے ہوئے گوشت کی ہاف پلیٹ شاید دو آنے کی ہوتی تھی۔ گرمیوں کے موسم میں عرب ہوٹل میں تنور کی وجہ سے گرمی زیادہ ہوتی تھی۔

    چند ایک میزیں لگی تھیں۔ حسرت صاحب سگریٹ سلگائے چائے کی پیالی سامنے رکھے اپنی خاص نشست پر بڑی شان سے بیٹھے ہوتے۔ ان کے گرد لوگ ان کی باتیں سننے کے لئے بڑے ادب سے بیٹھے ہوتے تھے۔ میرے لیے ان لوگوں کے چہرے اجنبی تھے۔ صرف باری علیگ کا چہرہ میرے لیے اجنبی نہیں تھا۔ حسرت صاحب نے سادہ اور آسان اردو میں جس میں ہندی کے الفاظ کی آمیزش بھی تھی کچھ طبع زاد کہانیاں لکھی تھیں جن کے بارے میں بعد میں گوپال متل نے لکھا تھا کہ اگر حسرت صاحب کی یہ کہانیاں دیونا گری رسم الخط میں ترجمہ کر دی جاتیں تو انڈیا والے حسرت صاحب کو ہندی کا بہت بڑا ادیب تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتے۔ عرب ہوٹل کے مالکان میں ایک درمیانی عمر کے گورے چٹے خوبصورت آدمی تھے جو عرب تھے اور اردو پنجابی بڑی روانی سے بول لیتے تھے۔ ان کے چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ رہتی تھی۔ ان کے ساتھی جو شاید ان کے پارٹنر تھے وہ بھی گورے چٹے تھے مگر ان کا قد درمیانہ اور چہرے کے نقوش موٹے تھے۔ میں ان دنوں لکھتا لکھاتا بالکل نہیں تھا۔ ادب کا طالب علم تھا اور مشہور ادیبوں کی کہانیاں بڑے شوق سے پڑھتا تھا۔ گوپال متل نے اپنی کتاب ’’لاہور کا جو ذکر کیا‘‘ میں عرب ہوٹل کا تھوڑا سا نقشہ کھینچا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔

    ’’اسلامیہ کالج کے سامنے عرب ہوٹل لاہور کے آڑے ترچھوں کا اڈہ تھا۔ ان میں زیادہ تر ادیب، شاعر اور صحافی تھے۔ یہ ایسے اداروں میں کام کرتے تھے جہاں تنخواہ بڑی قلیل ملتی تھی۔ بروقت نہیں ملتی تھی اور کسی ماہ ناغہ بھی ہو جاتا تھا۔ لیکن یہ اپنے حال میں مست رہتے تھے اور اپنی زندہ دلی پر غمِ زمانہ کی پرچھائیاں نہیں پڑنے دیتے تھے۔عرب ہوٹل بڑا ہی غریب نواز ہوٹل تھا۔ وہ کبابوں، نصف نان اور چائے کی ایک پیالی میں صبح کا ناشتہ ہو جاتا تھا اور بھنے ہوئے گوشت کی نصف پلیٹ اور ایک نان میں ایک وقت کا کھانا ہو جاتا تھا۔ مولانا چراغ حسن حسرت عرب ہوٹل کے میر مجلس تھے۔ انہوں نے مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ ’’الہلال‘‘ میں کام کیا تھا۔ زمیندار میں وہ ’’فکاہات‘‘ کے عنوان سے مزاحیہ کالم لکھتے تھے جس کی اس زمانے میں بڑی دھوم تھی۔ عبدالمجید بھٹی کا دفتر عرب ہوٹل کے پاس ہی تھا۔ پہلے وہ بچوں کی نظمیں لکھا کرتے تھے۔ ان دنوں وہ بالغوں کے لئے نظمیں لکھنے لگے تھے۔ عرب ہوٹل کے حاضر باشوں میں انتہائی دل چسپ شخصیت باری علیگ کی تھی۔ ’’کمپنی کی حکومت‘‘ کے نام سے انہوں نے جو کتاب لکھی وہ بے حد مشہور ہوئی اور اس کے کئی ایڈیشن چھپے۔ بڑے آزاد خیال اور قلندر صفت آدمی تھے۔ پنجابی زبان کے عاشق تھے۔ ایک بار کہنے لگے…’’جب کوئی پنجابی اردو بولتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے جھوٹ بول رہا ہو۔‘‘

    ’’خواجہ دل محمد ایم اے، ڈاکٹر تاثیر، عابد علی عابد، حفیظ جالندھری، چراغ حسن حسرت، پروفیسر فیاض محمود، باری علیگ، عبدالمجید سالک اور عبدالمجید بھٹی ان لوگوں کے دم قدم سے عرب ہوٹل میں گہما گہمی رہتی تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ لوگ عرب ہوٹل سے ایک ایک کرکے جدا ہوتے گئے۔ آخر میں صرف چراغ حسن حسرت صاحب اور باری علیگ عرب ہوٹل کی رونقیں بحال کرنے کے لیے رہ گئے۔ حسرت صاحب فوجی اخبار کی ادارت سنبھالنے کے لیے دلّی چلے گئے تو عرب ہوٹل کی وہ گہما گہمی ختم ہو گئی جو لاہور کے ادیبوں، صحافیوں اور دانشوروں کے دم سے قائم تھی۔‘‘

    عرب ہوٹل سے میرا رابطہ بھی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا۔ حسرت صاحب چلے گئے تو میں نے بھی عرب ہوٹل میں بیٹھنا چھوڑ دیا۔ پاکستان بنا تو ہم بھی امرتسر کے مسلمانوں کے ساتھ ہجرت کر کے لاہور آ گئے۔ میں نے افسانے لکھنے شروع کر دیے تھے اور لاہور کے ادبی حلقوں میں میرا ایک مقام بن گیا تھا۔ اپنے دوستوں احمد راہی اور عارف عبدالمتین کے ساتھ میں بھی کبھی کبھی عبدالمجید بھٹی صاحب سے ملنے عرب ہوٹل یا ان کی رہائش گاہ پر جاتا۔ بھٹی صاحب کی وضع داری اور مہمان نوازی میں ذرہ برابر فرق نہیں پڑا تھا۔ کبھی وہ ہمیں ساتھ لے کر نیچے عرب ہوٹل میں آ جاتے اور پرانے دنوں کو یاد کرتے جب عرب ہوٹل کی ادبی محفلیں اپنے عروج پر تھیں۔

    (اے حمید کے قلم سے)