Tag: بازوؤں سے محروم

  • بازوؤں سے محروم نوجوان کے حوصلے نے سب کو حیران کردیا

    بازوؤں سے محروم نوجوان کے حوصلے نے سب کو حیران کردیا

    دونوں بازوؤں سے محروم باہمت نوجوان نے اپنی معذوری کو مجبوری نہیں بننے دیا، وہ نہ صرف اپنے کام خود کرتا ہے بلکہ اپنی ماں کا بھی ہاتھ بٹاتا ہے۔

    کوئی بھی انسان اگر ہمت حوصلے اور مستقل مزاجی سے کام لے تو وہ ہر ناممکن کام کو ممکن بنا سکتا ہے، چاہے وہ کتنا ہی کٹھن اور دشوار کیوں نہ ہو۔

    اس کی بہت بڑی مثال ان معذور افراد میں دیکھنے میں آتی ہے جو کسی جسمانی معذوری کا شکار ہونے کے باوجود قدرت کے فیصلے کو دل سے قبول کرتے ہوئے اپنے حوصلے بلند رکھتے ہیں۔

    ایک ایسا ہی نوجوان جس نے اپنے دونوں بازوؤں سے محرومی کے باوجود ہمت نہ ہاری اور زندگی کو معمول کے مطابق بسر کرنے تہیہ کیا جسے دیکھنے والے بھی اس کی ہمت کی داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔

    اے آر وائی نیوز مری کے نمائندے ارسلان ایاز کی رپورٹ کے مطابق یہ باہمت نوجوان مری کا رہائشی کامران عباسی ہے جو دس سال قبل کرنٹ لگنے کے باعث اپنے دونوں بازو گنوا چکا ہے لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور کسی پر بوجھ نہیں بنا۔

    کامران جنگل سے لکڑیاں بھی لاتا ہے مرغیوں کو دانہ پودوں کو پانی اور اپنے کپڑوں پر استری بھی خود ہی کرتا ہے۔

    دونوں ہاتھوں سے محروم نوجوان بے روزگاری کے باعث غربت کا شکار ہے اس کی ضعیف والدہ نے حکام بالا سے درخواست کی ہے کہ میرا بیٹا بہت ہمت والا ہے مین چاہتی ہوں اسے دو مصنوعی ہاتھ لگ جائیں اور اسے کوئی نوکری مل جائے تاکہ یہ اپنی باقی زندگی عزت اور سکون سے گزار سکے۔

  • ٹانگوں سے اسپورٹس کار چلانے والے معذور ڈرائیور نے کئی مقابلے جیت کر حیران کر دیا

    ٹانگوں سے اسپورٹس کار چلانے والے معذور ڈرائیور نے کئی مقابلے جیت کر حیران کر دیا

    20 سال کی عمر میں اپنے بازو کھونے کے باوجود پولینڈ کے بارٹک اوستالوسکی اب ٹانگوں سے اسپورٹس کار چلاتے ہیں، انھوں نے کئی مقابلے جیت کر لوگوں کو حیران کر دیا ہے۔

    اوسالوسکی دونوں بازوؤں سے محروم ہیں لیکن اب وہ ایک کامیاب اسپورٹس کار ڈرائیور ہیں، 2006 میں وہ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ایک الم ناک حادثے کا شکار ہوئے تھے، جس کے بعد ان کے دونوں ہاتھ کاٹنے پڑ گئے تھے۔

    اوستالوسکی کا خواب تھا کہ وہ اسپورٹس کار ڈرائیور بنے، لیکن حادثے میں بازوؤں کی محرومی نے انھیں کچھ وقت کے لیے مایوس کر دیا، لیکن پھر انھوں نے پیروں سے کار چلانے کا سوچا اور اس کی تگ و دو میں لگ گئے۔

    بارٹک نے تین برس تک بھرپور کوشش کی اور ٹانگوں سے کار چلانے میں مہارت حاصل کر لی، آج انھیں پوری دنیا اسپورٹس کار ڈرائیور مانتی ہے، اور وہ پیروں سے گاڑی چلانے والے دنیا کے پہلے پروفیشنل اسپورٹس ڈرائیور ہیں۔

    بارٹک نے اپنی نسان اسکائی لائن جی ٹی ریس کار میں کافی ساری تبدیلیاں کیں، تاکہ وہ آسانی سے اسے ٹانگوں کی مدد سے چلا سکے، انجن میں تبدیلی کے ساتھ انھوں نے ٹرانسمیشن کو طاقت ور بنانے کے لیے ایک الگ گیئر باکس بھی انسٹال کیا۔

    اب وہ دائیں پیر سے گاڑی کے پیڈل قابو کرتے ہیں اور دوسری ٹانگ سے اسٹیئرنگ گھماتے ہیں، جب کہ خودکار گیئر کندھوں کی حرکت سے تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔

    بارٹک کا کہنا ہے کہ المناک حادثے کے بعد میں اس نے خود سے پوچھا کہ دوبارہ کار چلانے کے لیے مجھے کیا کرنا ہوگا؟ تب مجھے پولینڈ میں دونوں بازوؤں سے محروم ایک شخص ملا جو بہت آرام سے کار چلا سکتا تھا، اور یوں مجھے اس سے بہت ہمت ملی۔

    لیکن بارٹک نے کار ریسنگ میں بھی ایک مشکل انتخاب کیا، جسے ڈرفٹنگ کہا جاتا ہے، اس کے لیے بڑی مہارت درکار ہوتی ہے جس کے لیے بارٹک نے بڑی محنت کی۔

    2019 میں انھوں نے پولینڈ کے ایک مقابلے میں حصہ لیا، جس میں 50 ڈرائیور شریک ہوئے اور وہ نویں نمبر پر آئے، لیکن ایک سال پہلے انھوں نے چیک ڈرفٹ سیریز مقابلہ جیتا، جس میں ماہر ترین پروفیشنل ڈرائیور شامل تھے، یہی وجہ ہے کہ انھیں پولینڈ میں سپر ہیرو کا درجہ دیا جا رہا ہے۔