Tag: باغی شاعر

  • فوج کا کپتان اور انار کلی چوک کا تھانے دار

    فوج کا کپتان اور انار کلی چوک کا تھانے دار

    ‘‘ماورا’’ چھپ گئی۔ چغتائی صاحب نے اس کا بہت خوب صورت گرد پوش بنایا تھا۔ کرشن چندر نے دیباچہ لکھا تھا۔

    جیسا کہ توقع تھی کتاب ملک میں بہت مقبول ہوئی۔ اور ہاتھوں ہاتھ بک گئی۔ کچھ رسائل و جرائد میں اس کے خلاف تنقیدیں بھی چھپیں مگر اس کی مقبولیت پر کچھ اثر نہ پڑا۔

    اس دوران میں دوسری جنگِ عظیم چھڑ گئی۔ راشد کو فوج میں کمیشن مل گیا۔ اور وہ کپتان بن کر ملک سے باہر چلے گئے۔ کوئی ڈیڑھ دو سال بعد واپس آئے تو دلّی میں میرے ہی پاس آکر ٹھہرے۔

    ان کی عدم موجودگی میں ‘‘ماورا’’ کا دوسرا ایڈیشن چھپ گیا تھا جس کی ایک جلد میں خرید لایا تھا۔ خوش خوش اس کی ورق گردانی کرنے لگے۔

    اچانک ان کا چہرہ غصّے سے متغیر ہوگیا۔ ناشر نے دوسرے ایڈیشن میں ان کی وہ نظمیں بھی رسائل سے لے کر شامل کر دی تھیں جو انہوں نے ‘‘ماورا’’ کے چھپنے کے بعد پچھلے ڈیڑھ دو سال میں کہی تھیں۔ حالاں کہ انہوں نے ناشر کو اس کی سخت ممانعت کردی تھی۔ راشد شاید ان نظموں کو اپنے دوسرے مجموعے کے لیے محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔

    وہ اس واقعہ سے سخت پریشان ہوئے۔ رات کو نیند بھی نہ آئی۔ بس تڑپتے اور کروٹیں بدلتے رہے۔ صبح ہوئی تو وہ کسی کو کچھ بتائے بغیر وردی پہن کر گھر سے نکل گئے، تین چار دن غائب رہے۔ اس کے بعد آئے تو بڑے ہشاش بشاش، لپٹ لپٹ کر گلے ملے اور قہقہے لگاتے رہے۔

    بولے، جانتے ہو میں کہاں سے آرہا ہوں؟ لاہور سے۔ میں اس صبح اپنے دفتر سے اجازت لے کر لاہور روانہ ہوگیا تھا۔ میں سیدھا انار کلی چوک کے تھانے میں پہنچا۔

    میں نے تھانے دار سے کہا، میں فوج میں کپتان ہوں۔ میں جنگ کے سلسلے میں ملک سے باہر گیا ہوا تھا، ہمیں بتایا گیا ہے کہ جب ہم جنگ پر ملک سے باہر جائیں تو سرکار ہمارے پیچھے ہمارے حقوق کی حفاظت کرتی ہے۔ اب دیکھیے میرے ساتھ میرے پبلشر نے کیا کیا، اس کے بعد میں نے تھانے دار کو اس واقعہ کی تفصیل بتائی۔

    اس نے کہا، صاحب آپ فکر نہ کریں، میں ابھی اس کا بندوبست کرتا ہوں۔ اس نے فوراً سپاہی بھیج کر ناشر کی دکان پر تالا ڈلوا دیا۔ اس کے ساتھ ہی جس پریس میں کتاب چھپی تھی اس کے مالک کو بھی طلب کر لیا۔

    ‘‘ماورا’’ کا ناشر بڑا اکڑ باز تھا۔ بڑے بڑے شاعروں اور ادیبوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ کبھی کبھی مار پیٹ تک نوبت پہنچ جاتی تھی، مگر راشد کی اس کارروائی سے اس کی ساری اکڑ فوں نکل گئی۔ گڑگڑا کر راشد سے معافی مانگی اور کہا کہ میں پوری رائلٹی کے علاوہ ایک ہزار روپیہ اس کا ہرجانہ بھی دوں گا۔

    پریس والے بے قصور تھے، انہیں معاف کردیا گیا۔ البتّہ ان کے رجسٹر سے اس امر کا انکشاف ہوا کہ پہلا ایڈیشن ایک ہزار نہیں جیسا کہ اس میں درج تھا بلکہ دو ہزار جلدوں کا چھاپا گیا تھا۔ چنانچہ ناشر کو ایک ہزار کی مزید رائلٹی ادا کرنی پڑی۔

    (نذر محمد راشد المعروف ن م راشد اردو کے عظیم شاعر اور جدید نظم کے بانیوں میں سے ایک تھے جن سے متعلق نام وَر افسانہ نگار غلام عبّاس کے مضمون ‘راشد:چند یادیں’ سے یہ پارے نقل کیے گئے ہیں)

  • دماغ ماﺅف ہیں…….

    دماغ ماﺅف ہیں…….

    یہ اُن بیماروں کی بستی ہے جو یہ نہ جان سکیں کہ ان کا ہرج مرج کیا ہے؟ ایک سرسامی کیفیت ہے جس میں بولنے والے صرف بڑبڑا رہے ہیں۔

    یہ وہ گونگے ہیں جو اب بولنے پر آئے ہیں تو نہیں سمجھ پا رہے ہیں کہ بولیں تو کیا بولیں۔ سو، انھوں نے زبان سے وہ سب کچھ اُگلنا شروع کردیا ہے جو حلق، نرخرے اور ہونٹوں کی سکت میں ہے۔

    یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ لوگوں نے اپنے دکھوں کو لاعلاج بنا رکھا ہے۔ تمام عمر ٹیڑھے راستے پر چلتے رہے اور جب سیدھے راستے پر پڑنے لگے تو یہی بھول گئے کہ جانا کہاں تھا؟ ہَت تمھاری کی، تم نے جب بھی کی، آزار شعاری اور بد ہنجاری کی۔

    یہ کیسی اُفتاد ہے کہ اُونچے اٹھے تو نیچے چھلانگ لگانے کے لیے۔ زمانے سے مہلت پائی تو اپنے ہی خلاف سازش اور آپس ہی میں دَر اندازی کے لیے۔ یہ کیسی کشایش ہے جس سے دم گھٹا جارہا ہے اور یہ کیسی کشود ہے جس نے گرہوں پر گرہیں ڈال دی ہیں۔

    جو کچھ بھی سوچا گیا ہے، وہ بری طرح سوچا گیا ہے۔ جو ہو رہا ہے، وہ بہت بُرا ہو رہا ہے۔ سَر دھروں نے اپنے چھوٹوں کی چارہ جوئی کے ٹالنے پر ایکا کر لیا ہے۔ اب تو شاید یہ بھی نہیں سوچا جارہا کہ سوچنا کیا تھا۔

    ثروت مندوں کو مژدہ ہوکہ حاجت مندوں نے بھنگ پی رکھی ہے اور اب انھیں کسی چیز کی حاجت نہیں رہی۔ محتاجی نے قابلِ رشک استغنا سیکھ لیا ہے۔ منعموں کو نوید دی جائے کہ فاقہ کشی نے روزہ رکھ لیا ہے۔ دراصل بھوکوں کو بہکا دیا گیا تھا۔ اب انھوں نے سَر جھکاکر سوچ بچار کیا تو معلوم ہوا کہ بھوک لگ ہی نہیں رہی تھی۔ یہ روایت ہی غلط تھی کہ لوگ محرومی میں مبتلا ہیں کہ خود محروموں نے اس کی تردید کر دی ہے۔

    کیا ان بستیوں نے اس لیے آسمان سَر پر اٹھایا تھا کہ اوندھے منہ زمین پر آرہیں۔ جس بندوبست کے خلاف بڑی چنچناہٹ تھی، اب کس طرح سہارا جارہا ہے۔ کیا اب یہ سوچنے کی فرصت باقی رہی کہ جو کچھ ہو رہا ہے، اس سے کس کا بھلا ہوگا؟

    دیاروں کے مدبروں اور شہروں کے شہرت مداروں پر وَجد وحال کی کیفیت طاری ہے۔ کچھ معلوم نہیں کہ کون کس کے حق میں بول رہا ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کس کو کس سے شکایت کرنا چاہیے۔

    یہ تمیز مشکل ہے کہ اِس گُھپ اندھیرے میں کس کا گریبان کس کے ہاتھ میں ہے۔ دماغ ماﺅف ہیں، اس لیے کہ اصل غایت کو بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ بھلا دیا گیا ہے، ان جھنجلاہٹوں کی سَرنوشت کیا ہوگی جن میں رعایت دی گئی ہے تو غصب کرنے والوں کو۔ اس پَرخاش اور پیکار کا انجام کیا ہوگا جس میں پناہ دی گئی ہے تو غبن کرنے والوں کو۔

    جون ایلیا کے انشائیے سے انتخاب