Tag: باقر مہدی

  • غالب: شخصیت اور شاعری: نئے مطالعے کے امکانات

    غالب: شخصیت اور شاعری: نئے مطالعے کے امکانات

    میں نہ تو غالب کا ماہر ہوں اور نہ ہی میں نے غالیبات کے سلسلے میں لکھی گئی ساری کتابیں اور مضامین پڑھے ہیں، ہاں چند کتابوں اور چند مضامین کا مطالعہ کیا ہے اور کلیات غالب (ڈاکٹر گیان چند نسخہ عرشی کو اسی نام سے یاد کرتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ صحیح بھی ہے) کا مطالعہ کرنے کا شرف ضرور حاصل ہے، اس لیے میں اپنے ’’پراگندہ ذہن‘‘ کی مدد سے چند باتیں لکھنے کی جرأت کر رہا ہوں۔

    غالب کے ماہرین اور محققین سے بہ صد عجز عرض ہے کہ دیوانے کی ہو بھی کبھی کبھی قابل توجہ ہوتی ہے۔

    مجھے ہمیشہ کی طرح غالب کی شخصیت کا مطالعہ ایک ایسے ڈیلیما سے دوچار کرتا ہے جس کا حل آسان نہیں ہے۔ غالب کے محققین نے ان کی شخصیت کے اتنے ایکسرے پیش کیے ہیں کہ ان کی زندگی کے شب و روز کبھی دھوپ اور کبھی چاندنی کی طرح تیز گرم، روشن اور ٹھنڈے دھندلے عکس نظر آتے ہیں مگر محققین کی اس ’’کام یابی‘‘ کے باوجود غالب کی شخصیت کے سارے پیچ و خم کھل کر سامنے نہیں آتے ہیں۔ غالب سے مکمل تعارف بھی ایک قسم کی پراسراریت کو قائم رکھتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان کا مکمل تجزیہ ہمیشہ تشنہ ہی رہے گا۔ غالب اپنے اشعار اور خطوط میں اتنا عریاں نہیں ہیں جتنا کہ قیس تصویر کے پردے میں تھا، اس لیے کہ قیس تو ایک یک رخا عاشق اور غالب ’’مجموعۂ اضداد‘‘ ہیں اور یہی رنگا رنگی ہے جو ہم لوگوں کے لیے ’سوہانِ روح‘ بن گئی ہے۔

    اگر اس پر یقین آ جائے کہ ان کی شخصیت کا جائزہ ممکن ہی نہیں ہے تو بحث ختم ہو جاتی ہے اور ان کی شاعری کے بارے میں یقین سے رائے دی جا سکتی ہے مگر ناتمامی اور تشنگی کا یہ مسلسل احساس ہی ان کی شخصیت اور شاعری کو اور بھی قابل توجہ بناتا ہے۔ جشن غالب (۱۹۶۹ء) کے بعد یہ خیال کیا جاتا تھا کہ نئے ناقدین غالب پر ’حملہ آور‘ ہوں گے اور غالب کی پرانی آرزو یعنی’’اڑیں گے پرزے‘‘ پوری ہوگی۔ تماشا تو خوب دھوم سے ہوا مگر کچھ نہ ہوا۔ مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غالب آج بھی اردو تنقید پر خندہ زن ہیں۔ میری کیا بساط ہے کہ میں ان کی دیرینہ آرزو پوری کروں، میں تو صرف اتنا کہہ سکتا ہوں:

    رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
    آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے

    غالب کی شخصیت پر لکھے گئے درجنوں مضامین، غالب کے خطوط اور ان کی شاعری کا تمام تر مطالعہ مجھے اس نتیجے پر پہنچاتا ہے کہ وہ ایک Precocious Child تھے، کم عمری میں بالغ ہو گئے تھے۔ بچوں کی نفسیات کے ایک امریکی ماہر ڈاکٹر اسپاک Dr. Spock کا خیال ہے کہ ایسے ذہین بچے اکثر اپنی ذہانت کا خود شکار ہو جاتے ہیں اور بہت جلد تازگی اور ندرت کھو بیٹھتے ہیں۔ یہ بچے شاید ان غنچوں کی طرح ہیں جو کھلتے ہی مرجھا جاتے ہیں مگر غالب اس تجزیے سے مستثنا نظر آتے ہیں۔ وہ خاصی کم سنی میں فارسی اور اردو زبانوں میں اعلیٰ پائے کے شعر موزوں کرنے کے اہل ہو گئے تھے، یہی نہیں پندرہ بر س کی عمر میں وہ آفات زمانہ کی تلخیوں سے بھی لطف اندوز ہونے کا سلیقہ جان گئے تھے۔ ان کے خطوط ان کی کھلی ہوئی شخصیت Open Personality کی ا چھی مثالیں ہیں مگر اس کے باوجود اپنی شخصیت کے سارے پہلو عیاں نہیں کرتے ہیں۔

    وہ اپنی انا کے ساتھ خاکساری کے جواہر بھی پیش کرتے ہیں، وہ دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے دشمن ہونے کے باوجود دوستی کے حدود اور دشمنی کی بیکرانی سے واقف ہیں۔ وہ شخص جو کم سنی میں یتیم ہو گیا ہو، جس کو اپنی ماں سے کوئی خاص محبت بھی نہ ہو، جس نے کم عمری سے آزادانہ جنسی زندگی گزاری ہو اور جو اپنی شخصیت کی تعمیر میں اتنا کوشاں بھی نہ ہو کہ ہر قدم پر احتیاط کرتا ہو، ایسے شخص کی زندگی سے ساری نقابیں اٹھ جائیں تووہ عریاں نظر آئے گا مگر غالب پھر بھی اپنی شخصیت کا کوئی نہ کوئی پہلو چھپا جاتے ہیں۔ جان بوجھ کر اپنے کو چھپانے والا شخص سہما ہوا اور اکثر بکتر بند نظر آتا ہے۔
    غالب کی بے پناہ ذہانت ان کا مطالعہ کرنے والی نظروں کو خیرہ کر دیتی ہے۔ اگر یہ معلوم بھی ہو جائے کہ وہ بذلہ سنج تھے، شاعر نغز گو تھے، ہشت پہلو شخصیت رکھتے تھے، پھر بھی یہ احساس کیسے قائم رہتا ہے کہ غالب سے ملے لیکن غالب کو نہ سمجھ پائے۔ مجھے دو ایک ماہر غالبیات سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے اور میرے مسلسل سوالات کے بعد بھی وہ میری تشفی نہیں کر سکے۔

    غالب کی شخصیت میں خود پر خندہ زن ہونے کی جو بے مثال صلاحیت ہے وہ انہیں (شاید) پراسرار بنائے رکھتی ہے۔ حالی کے ’’حیوان ظریف‘‘ کی ذہانت، فطانت اور ندرت تجزیہ نگار کو مبہوت کر دیتی ہے۔ آپ لاکھ ان کی شخصیت کو مختلف خانوں میں بند کرنے کی کوشش کریں وہ بند بھی نظر آتے ہیں اور نہیں بھی۔ اور ان کی شخصیت کے ایک پراسرار پہلو پر تیز شعاعیں ڈالی جائیں یعنی ان کے طنز و مزاح کا گہرا تجزیہ کیا جائے تو وہ کبھی ایک دل جلے کی ہنسی ہنستے ہیں جیسے:

    اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
    ساغر جم سے مرا جام سفال اچھا ہے

    مگر یہ تبسم بھی پھیکا نہیں ہے اور معنی خیز ہے اور کبھی ایک ایسے دانشور کے تبسمِ زیرِ لب کا احساس ہوتا ہے جو دل ہی دل میں قہقہے لگاتا ہے مگر اس کے چہرے کی سنجیدگی پوری طرح قائم رہتی ہے، صرف آنکھوں کی چمک شوخ تر نظر آتی ہے:

    کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں یارب
    سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی

    وہ شخصیت جو اپنے ’’یارب‘‘ سے اتنے گہرے دوستانہ مراسم رکھتی ہو، اس کی وسعت اور گہرائی کا اندازہ لگانا: دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ غالب کی آزادانہ شخصیت اپنی آزادی کے حدود سے واقف تھی۔ وہ زخمی ہوکر اپنا ضبط و غم نہیں کھوتے بلکہ اپنی شکست کو بھی ایسے طنز آمیز تبسم سے قبول کرتے ہیں کہ فاتح بھی ان کو دیکھ کر دنگ رہ جائے۔ چارلی چپلین نے اپنی خودنوشت سوانح عمری میں کہیں لکھا ہے کہ ’’وہ مسخرہ کس کام کا جو دوسروں کو صرف ہنسا سکے۔‘‘ غالب تبسم کی زیریں لہر میں خاموش غم کو بھی اس طرح سمونے کا فن جانتے تھے کہ آدمی دکھی ہو کر بھی ان کی خندہ زنی میں شریک ہو جاتا ہے، بے دلی سے نہیں بلکہ کشادہ دلی سے:

    ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
    یارب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے

    اور اس شعر کا ’’اگر‘‘ گناہوں پر سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔ ناکردہ گناہوں کو جنسی تلذذ کی خواب بندی کہا جا سکتا ہے۔ غالب کی شخصیت کا بنیادی مطالعہ ہمیں حیرت میں ڈال دیتا ہے۔ وہ یتیم تھے مگر ان کا بچپن محرومیوں سے بہت دور تھا۔ انہیں اپنے باپ کی یاد بھی بہت کم آتی ہے۔ گو کہ خطوط میں وہ اپنے باپ اور چچا کی موت کا اکثر ذکر کرتے ہیں۔ خورشید الاسلام کا خیال ہے کہ ’’افسردگی اور تصوف سے دلچسپی کے اسباب ان کے تجربوں میں ڈھونڈنے چاہیے۔‘‘ یعنی یتیمی، کم عمری کی شادی اور ۲۵ برس کی عمر میں عشق۔ میری ناچیز رائے یہ ہے کہ بچے کو اگر شروع میں محرومی کا احساس نہ ہو تو یتیم ہونے کے باوجود اپنے والد کے سائے کا خواہاں نہیں رہتا ہے بلکہ اس پودے کی طرح تیزی سے بڑھتا اور پروان چڑھتا ہے جس پر کوئی برگد سایہ فگن نہیں ہوتا ہے، کیونکہ غالب کی شخصیت میں وسیع المشربی، رندی، شوخی اور طنز کے جو بنیادی عناصر ہیں وہ اسی وجہ سے اتنے گہرے اور پائیدار ثابت ہوتے ہیں کہ ان کی ترقی میں کوئی روک ٹوک نہ تھی۔

    جنس کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اس کو عام بنے بنائے پیمانے سے نہیں ناپا جا سکتا، اس لیے خورشید صاحب نے شخصیت کے نقوش اجاگر کرنے کے لیے جو پیمانہ بنایا ہے وہ اپنی جگہ تمثیلی ہوتے ہوئے بھی غالب کے لیے نامناسب ہے۔ ان کی کم عمری میں شادی بھی اسی لیے کی گئی تھی کہ انہیں آزادانہ زندگی بسر کرنے سے روکا جا سکے۔ اسی لیے انہوں نے شادی کو’بیڑی‘ کہا ہے، ورنہ وہ اپنی بیوی سے محبت نہ کرتے ہوئے بھی نفرت نہیں کرتے تھے۔ اس کا ثبوت اولادیں ہیں۔ ہاں ان کے عشق کے سلسلے میں قیاس آرائیاں کی جا سکتی ہیں۔ حمیدہ سلطان نے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’’امراؤ بیگم نے ان کے (غالب کے) ذوق شعر کو بلند کیا، کردار کو پاکیزگی بخشی، آگرے کی بے راہ روی اور رنگ رلیاں دلّی کے مستقل قیام کے بعد تقریباً ختم ہو گئیں۔‘‘ حمیدہ سلطان کے اس بیان پر ڈاکٹر عبدالسلام خورشید نے صحیح نکتہ چینی کی ہے، اس لیے کہ آگے چل کر خود حمیدہ سلطان یہ بھی کہتی ہیں کہ ترک نامی ایک خاتون تھی جس سے مرزا کا عشق تھا۔ محترمہ کے الفاظ ہیں:

    ’’مرزا کی شاعری کا بے مثل حسن، انفرادی بانک پن جس نگہِ ناز کا عطیہ ہے، مرزا کے فکر کو جس دلکش خیال نے رنگینی و دل آویزی بخشی، اس شعلہ خُو حسینہ کے حسنِ صورت پر ہی نہیں حسنِ سیرت و ذہانت پر بھی مرزا فریفتہ تھے۔ بہت ممکن ہے کہ غالب کے ہر شعر میں جو دل کی دھڑکن سنائی دیتی ہے، وہ ترک کا عطیہ ہو۔‘‘ (اقتباس از مضمون ڈاکٹر عبدالسلام خورشید، نقوش غالب نمبر ص ۳۶۸، ۱۹۶۹ء)

    یہ ایک بیوہ خاتون تھیں۔ ان سے غالب کا عشق ثابت کرنا ایک قسم کی قیاس آرائی ہے۔ اصل میں غالب کا کوئی ایک محبوب نہیں ہے۔ وہ نہ بھونرے ہیں اورنہ مگس، ان میں ان دونوں کی ایک ایک خوبی ہے یعنی حسن پرستی مگر یہاں بھی غالب کی دانشورانہ طراری کبھی سپر نہیں ڈالتی، وہ اپنے آپ کو کسی حسین سے کمتر نہیں سمجھتے تھے اور یہ خود نگری اور خود سری اس انا کو جنم دیتی ہے جو ان کی ہمیشہ ممد و معاون رہی اور تیزابی ذہانت کے ساتھ ساتھ وہ درد مند دل بخشا کہ اس کو کسی ایک نفسیاتی پیمانے سے نہیں ناپا جا سکتا ہے۔

    کہا گیا ہے کہ جینیئس خود اپنا پیمانہ لے کر آتا ہے۔ جبھی تو غالب کی کم سنی، جوانی اور عمر کی خستگی کا اندازہ ایک پیمانے، ایک نظریے اور ایک معیار سے نہیں لگایا جا سکتا ہے۔ غالب کی شخصیت کو سمجھنے کے لیے غالب سے مستعار لے کر معیارات قائم کرنے ہوں گے، اس لیے کہ وہ صرف فخرِ عرفی اور رشک طالب نہیں تھے بلکہ ان سے اپنا الگ معیار رکھتے تھے۔

    (ممتاز نقاد اور روایت شکن قلم کار باقر مہدی کے مضمون سے اقتباسات)

  • میرؔ کو شعراء نے دھڑکنوں میں‌ جگہ دی، مگر اردو تنقید نے کیا رویہ اپنایا؟

    میرؔ کو شعراء نے دھڑکنوں میں‌ جگہ دی، مگر اردو تنقید نے کیا رویہ اپنایا؟

    میر کے ساتھ ہماری تنقید کا کیا رویہ ہے؟ زمانے بدلتے رہے مگر اردو تنقید افسوس ناک حد تک آہستہ رو رہی ہے۔

    میر کبھی گم نامی کا شکار نہیں ہوئے۔ ان کی قبر پر ریل چل گئی تو کیا ہوا، تمام اردو شعراء نے اپنی دھڑکنوں میں ہمیشہ میر کو جگہ دی۔ ان کی کلیات بھی چھپتی رہی مگر وقفے وقفے سے۔ پھر بھی میر کے پرستاروں کو شکایت رہی کہ ان کی پذیرائی کم ہوئی۔ مجھے اثر لکھنوی اور ڈاکٹر سید عبداللہ سے یہ شکایت نہیں ہے کہ وہ میر کو ہر دل عزیز بنانے میں ناکام رہے ہیں، اس لیے کہ ان بزرگوں نے اپنی ساری ذہانت کو میر کے مطالعے میں صرف کر دیا ہے مگر برا ہو اردو تنقید کا جو شاعری میں افکار اور احساسات و جذبات کو الگ الگ خانوں میں دیکھنے کی عادی ہے۔
    ناصر کاظمی ایسا فہیم شاعر بھی میر پر مضمون لکھتے ہوئے قدم قدم پر جھجھکتا ہے اور آخر میں میر اور اقبال کے یہاں مماثلت تلاش کرنے پر مجبور نظر آتا ہے۔

    وارث علوی کی زبان میں ’’معنی کس چٹان پر بیٹھا ہے‘‘ یعنی شاعری میں اقدار و افکار کی جستجو، جذبات اور احساسات سے الگ چہ معنی دارد؟ غالب ایسا عظیم شاعر بھی میر کی استادی کو اس طرح تسلیم کرتا ہے کہ میر کے انداز یعنی سہلِ ممتنع میں شاعری کی کوشش کرتا رہتا تھا۔ میر کے کلام میں بے پناہ تاثیر، زبان میں ندرت، جذبات کے اظہار میں شائستگی اور شعری صداقت، ساری نزاکتوں کا ایک آئینہ در آئینہ سلسلہ ملتا ہے۔

    میری رائے میں 1857ء کے تباہ کن اثرات سے ہم بے طرح گھبرا گئے تھے۔ حالی نے غیرشعوری طور سے اس روایت کو مجروح کر دیا جس سے ہم میر سے منسلک تھے۔ میں حالی پر الزم نہیں لگاتا، اس لیے کہ انگریز حکومت کے مہلک اثرات کی وجہ سے ہم آج تک اپنی ثقافتی تفہیم کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ کبھی ہم ماضی میں پناہ ڈھونڈتے ہیں بنیاد پرستوں کی طرح اور کبھی مغرب زدہ لوگوں کی بنائی ہوئی ’’جنت‘‘ کو اپنا مستقبل سمجھتے ہیں۔ یہ نہیں جانتے کہ ہمارا ماحول کیا تھا اور اب کیا ہے؟ نہ جانے کس نے ہمیں یہ سمجھا دیا تھا کہ ’’وقت کی آواز‘‘ عشقیہ شاعری کے خلاف ہے جب کہ میر کی شاعری کار زارِ حیات کی سب سے دل کش آواز تھی۔ اسی وقت سے ہماری تنقید نے میر فہمی کی راہ کھول دی تھی۔ حسن عسکری نے ایک مضمون میں لکھا تھا: ’’اگر لوگ میر کے اس شعر کی جدلیات کو سمجھ لیں تو جو انقلاب رونما ہوگا وہ مارکس کے انقلاب سے کہیں بڑا ہوگا۔‘‘ (حوالہ: انسان اور آدمی)

    ظاہر ہے کہ یہ جملہ صرف ’’ترقی پسندوں‘‘ کو چھیڑنے کے لیے لکھا گیا تھا۔ میر کا شعر ہے،

    وجہِ بے گانگی نہیں معلوم
    تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں

    اس شعر میں جو نکتہ قابلِ غور ہے وہ علیحدگی، بےگانگی (Alienation) کو جنم دیتا ہے اور ہم صنعتی نظام میں داخل ہوئے تھے کہ اس کا شکار ہو گئے۔ اب ہماری بیگانگی دشمنی میں بدلتی جارہی ہے۔ اردو کی سب سے جان دار روایت عشقیہ شاعری کی تھی۔ عشق ہی تصوف اور بھکتی تحریروں کی جان تھا۔ ہماری مشترکہ تہذیب کی بنیاد تھا (قرۃ العین حیدر کے نئے ناول ’’گردش رنگ چمن‘‘ میں اس دور کے چند مناظر اور کردار دیکھے جاسکتے ہیں ) ہم نے انجانی اصلاحی اقدار کے فریب میں آکر اپنی ’جڑوں ‘سے خود کو کاٹ لیا ہے اور آج ہم زندگی کی سزا پا رہے ہیں اور ادب میں خون ناحق کو بہتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور حیران و ششدر ہیں۔ ہم خود اپنے جرائم کی سزا پا رہے ہیں، کم از کم بقول میر ہمارے سینے تو سوزِ عشق سے منور ہوتے،

    اعجازِ عشق سے ہم جیتے رہے وگرنہ
    کیا حوصلہ کہ جس میں آزار یہ سمائے

    آج ہمارے پاس عشق کا سوزِ دروں ہے نہ عمل کی لگن۔ ہم۔ سب۔ ایک معنی میں ایلیٹ کے ’’کھوکھلے آدمی‘‘ بن کر رہ گئے ہیں!

    میرتقی میر بنیادی طور سے رومانی کرب کے شاعر تھے مگر یہ کرب صرف جنسی تشنگی اور دیوانگی کی دین نہیں تھا، اس میں آئندہ مستقبل کے خواب کی پنہاں آرزوئیں بھی شامل ہو گئی تھیں۔ یہی نہیں اپنے ماحول کی ساری تہذیبی شکست و ریخت بھی شامل تھی۔ اطالوی ناقد ماریو پراز (Mario Praz) نے یوروپی شاعری (اٹھارہویں صدی) کو اسی اصطلاح سے جانچنے کی کوشش کی تھی۔ اٹھارہویں صدی کا یورپ بھی ہنگاموں اور انقلابوں کا مرکز تھا۔ انقلابِ فرانس نے یورپ کو پہلی بار انسانیت کو مساوات، اخوت اور آزادی کا پیغام دیا تھا۔ اس دور کے شاعر بھی اسی جانکاہ درد و غم سے سرشار تھے جس سے کہ رومانی کرب کی پہچان ہوتی ہے۔

    روسو کے اعترافات (دوجلدیں ) کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ فطرت سے انسانی دوری کتنی مہلک ہوگی۔ ماریو پراز کا خیال تھا کہ مسرت کی جستجو ہی درد و غم کی راہ سے گزرتی ہے اور درد ہی مسرت کی جستجو کی منزل ہے۔ اس طرح خوشی اور غم کی جذباتی کشمکش حزنیہ لب و لہجے کو جنم دیتی ہے جو رومانی کرب کی نشان دہی کرتا تھا۔ میر کی شاعری میں جو گھلاوٹ، نرمی اور سپردگی ہے، وہ اسی غم کی قبولیت کی وجہ سے کہ درد ہی مسرت کی جان ہے اور مسلسل کرب ہی جہدِ حیات ہے۔

    انگریزی رومانی شعرا سے میر کا تقابل پروفیسر احمد علی نے بھی کیا تھا۔ احمد علی نے اپنی کتاب سنہری روایت (The Golden Tradition) میں میر کی عظمت کا اعتراف کیا ہے، یہ کتاب آج بھی مطالعے کے قابل ہے، گو کہ اس کو شائع ہوئے پندررہ برس گزر چکے ہیں (مطبوعہ کولمبیا یونیورسٹی امریکہ ۱۹۷۳ء) میر تقی میر کی شاعری کو ان کی کشادہ شخصیت، بے پناہ تخلیقی قوت اور فکر خیز تخیل (Imagination) کی رہینِ منت ٹھہرایا ہے۔ یہی نہیں ان کی (احمدعلی) رائے میں میر کے پائے کا شاعر انگریزی رومانی شعرا میں کوئی نہیں تھا۔ فراق اردو میں یہی بات کہہ چکے ہیں۔ وہ میر کی شاعری میں ’دل‘ کے استعارے کو مرکزی حیثیت دیتے ہیں۔ مجنوں گورکھپوری یہ بات اپنے مضمون میں کہہ چکے ہیں (سردار جعفری ایک عرصے تک مجنوں سے اس لیے خفا رہے کہ مرحوم نے کئی شعر ایسے لکھے تھے جو میر کے نہیں ہیں۔ خیر) احمد علی کا خیال ہے کہ میر کے ذہن کی جستجو ہمیں ان اشعار سے کرنی چاہیے جو میر نے دل کو محور بنا کر کہے تھے، اس لیے کہ دل ہی عشق اور زندگی کا سرچشمہ ہے اور یہ اشعار بھی پیش کیے ہیں،

    جا کے پوچھا جو میں یہ کارگہِ مینا میں
    دل کی صورت کا بھی اے شیشہ گراں ہے شیشہ
    کہنے لاگے کہ کدھر پھرتا ہے بہکا اے مست
    ہر طرح کا جو تو دیکھے ہے کہ یاں ہے شیشہ
    دل ہی سارے تھے یہ اک وقت میں جو کر کے گداز
    شکل شیشے کی بنائے ہیں کہاں سے شیشہ

    یہی نہیں، احمد علی کا خیال ہے کہ ایک معنی میں میر ایک وجودی شاعر تھے اور سارتر کا بیان نقل کرتے ہیں :Existence Precedes Essence یعنی وجود روح سے پہلے ہے۔ میر کا خیال ہے، ’’مقدور سے زیادہ مقدور ہے ہمارا‘‘ کی مثال بھی دیتے ہیں۔ میر پر انگریزی میں جو چند مضامین اور کتابیں میری نظر سے گزری ہیں ان میں یہ کتاب زیادہ ’’شہرت‘‘ کی مستحق تھی، اس لیے کہ اس کتاب میں میر کے اچھے خاصے ترجمے بھی شامل ہیں۔

    اور ایک سوال میر ے ذہن میں آتا ہے کہ میر کی عشقیہ شاعری کے ساتھ کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ کیا اب یہ عہد پارینہ کی ایک شعری داستان ہے اور بس۔۔؟ سرمایہ دارانہ سماج میں ہر شے فروخت ہو سکتی ہے۔ اب عشق یا تو محض جنسی شے (بدن کی تہذیب کہاں؟) یا تفریح کا سامان۔ ایک ایسے دور میں جب ہم میر کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہیں تو حیرت اور معصومیت سے نئی لذت کے ساتھ دوچار ہوتے ہیں یا یہ جانتے ہوئے بھی کہ اب وہ ’’رومانی کرب‘‘ اپنی جاذبیت بڑی حد تک کھو چکا ہے مگر کسی حد تک معصومیت حسن کی اور عشق کی کشمکش کو بڑی حد تک برقرار رکھے ہوئے ہے۔

    عشق میں ہم ہوئے نہ دیوانے
    قیس کی آبرو کا پاس رہا
    عشق کا گھر ہے میر سے آباد
    ایسے پھر خانماں خراب کہاں

    رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے
    جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ

    دور بیٹھا غبار میر ان سے
    عشق بن یہ ادب نہیں آتا

    یہ خود کلامی کا ’’جادو‘‘ بھی رکھتی ہے۔ پروفیسر مسعود حسین ادیب نے میر کی شاعری کو ’’عشق کی زبان‘‘ سے تعبیر کیا تھا۔ مجھے اکثر یہ احساس ہوا ہے کہ میر کے آنسو’’پارس پتھر‘‘ تھے، جس لفظ کو چھو لیتے تھے کندن بن جاتا تھا۔ اس طرح جسمانی حسن کا بیان بھی ساری لطافتیں لیے ہوئے ہے،

    ساتھ اس حسن کے دیتا تھا دکھائی وہ بدن
    جیسے جھمکے ہے پڑا گوہرِ تر پانی میں

    حسن کی بالیدگی کا یہ عالم شاید ہی کسی اردو شاعر نے کبھی سوچا اور بیان کیا ہو گا۔ میر کی عشقیہ شاعری ایک جمالیات کی نئی دستاویز تھی جس میں انبساط کے کم رنگ تھے مگر زرد رنگ سب سے نمایاں تھا جیسے ڈچ مصور وان گاف کی مصوری! آج میر کی عشقیہ شاعری ایک ایسی ’’فردوسِ گمشدہ‘‘ کی یاد دلاتی ہے جس میں دوزخ کو سیر کرنے کے لیے ملا دیا گیا ہو۔

    (ممتاز نقاد اور روایت شکن قلم کار باقر مہدی کے مضمون کا ایک حصّہ ہند و پاک سمینار جامعہ ملیہ (نئی دہلی) میں ۱۹۸۳ء میں پڑھا گیا تھا)