اونورے بالزاک (Honoré de Balzac) شاید دنیا کا واحد مصنّف ہے جس کے ناولوں میں کئی کردار ملتے ہیں۔ بالزاک کی خواہش تھی کہ اس کا نام اس کے کام کی بدولت ہمیشہ زندہ رہے اور یہ خواہش پوری ہوئی۔ اسے فرانسیسی زبان کے مقبول ناول نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔
اونورے بالزاک 1799ء میں پیرس کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ سرکاری ملازم تھا۔ بالزاک نے تعلیمی مدارج طے کیے اور پیرس میں ایک وکیل کے ہاں بطور منشی ملازم ہوگیا۔ اس وقت تک وہ قلم تھام چکا تھا۔ وکیل کے پاس کام کرتے ہوئے اس نے لکھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور پھر مکمل یکسوئی سے ادب تخلیق کرنے کا فیصلہ کیا۔ بالزاک نے ابتداً بطور مصنّف لوگوں کی توجہ حاصل کی اور بعد کے برسوں میں اس کے قلم سے متعدد شاہکار کہانیاں نکلیں جن میں صرف اس کے ناولوں کی تعداد 97 ہے۔ بوڑھا گوریو اس کا ایک مقبول ناول ہے جس کا بشمول اردو متعدد زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ اسی طرح یوجین گرینڈ بھی فرانس میں محبّت کی ایک بے مثال داستان کے طور پر پڑھا گیا جس میں ایک لڑکی کو اس کے کزن سے محبت ہو جاتی ہے۔ فرانسیسی ناول نگار بالزاک کی یہ تخلیق انقلابِ فرانس کے بعد فرانسیسی معاشرے میں جنم لیتے نئے رحجانات کے پس منظر میں ہے۔ اس کے ناولوں میں کردار نگاری اور جزئیات نگاری کمال کی ہے۔
بالزاک کے تخلیقی سفر سے متعلق ایک دل چسپ واقعہ بھی مشہور ہے کہ اس کی بہن کی شادی کی تیاریاں ہو رہی تھیں، بالزاک کے تمام رشتے دار ایک کمرے میں موجود تھے جہاں مصنّف نے اپنا لکھا ہوا پہلا ڈرامہ انھیں پڑھ کر سنانا شروع کردیا۔ جب وہ خاموش ہوا اور منتظر تھا کہ اب یہ سب اس کی تعریف کریں گے تو بالزاک کو شدید مایوسی ہوئی۔ سب نے کہا "یہ بالکل بکواس ہے۔” لیکن نوجوان بالزاک نے ان کی اس حوصلہ شکنی پر اپنا راستہ نہیں بدلا۔ وہ مسلسل لکھتا رہا اور وہ دن آیا جب فرانس میں وہ مقبول ہوا اور بعد میں دنیا بھر میں شہرت ملی۔
کہتے ہیں کہ وہ نوٹ بک اور پنسل ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ فرانس کی تاریخ کو ناولوں میں بیان کرنا چاہتا تھا اور اس مقصد کے لیے وہ جہاں بھی جاتا تھا، بالخصوص وہاں کے کوچہ و بازار، محلّوں اور شہروں کی سڑکوں کی تفصیل نوٹ کرتا تھا اور بعد میں ان پر اپنے کرداروں کے ساتھ کہانیاں تخلیق کرتا تھا۔ وہ اکثر سڑکوں اور میدانوں میں درختوں اور کیاریوں کا جائے وقوع لکھ لیتا اور کسی ناول میں انہی درختوں کے درمیان یا گرد و نواح میں اپنے کرداروں جمع کرکے اپنی کہانی آگے بڑھاتا جاتا۔ بالزاک چاہتا تھا کہ وہ ہر سال دو ضخیم ناول، درجنوں کہانیاں اور ڈرامے لکھے اور اس نے ایسا ہی کیا۔
بالزاک لمبے فقرے لکھتا ہے اور اس کے بیان کردہ منظر میں بہت تفصیل ہوتی ہے۔ بالزاک کو اس کے طرزِ تحریر سے زیادہ اس لیے سراہا جاتا ہے کہ وہ شروع ہی سے انفرادیت کا قائل رہا تھا اور کہتا تھا کہ لوگ اس کی تخلیقات کو فراموش نہیں کرسکیں گے۔ بالزاک نے اپنی یہ بات پوری کر دکھائی اور فرانسیسی معاشرے میں انسانوں کا گویا پوسٹ مارٹم کرتا چلا گیا۔ اسی وصف نے بالزاک کو مقبول فرانسیسی ناول نگار بنایا۔ اس نے جو کردار تخلیق کیے، آج بھی وہ فرانس ہی نہں ہمیں اپنے معاشرے میں بھی مل جاتے ہیں۔
اس کی وجہِ شہرت ہیومن کامیڈین کے عنوان کے اس کی تخلیقات کا مجموعہ بنا اور قارئین پر کھلا کہ بالزاک نے واقعی معاشرے کے ہر شعبے سے کردار، ہر گلی کوچے سے واقعات سمیٹے ہیں اور وہ سب ان سے واقف ہیں، مگر بالزاک کے قلم نے ان کی جو لفظی تصویر پیش کی ہے، وہ بہت منفرد ہے، اس کے ناول فرانس میں تہذیبی اور ثقافتی تاریخ کے ساتھ انفرادی آداب، عادات، لوگوں کے رجحانات، ان کی رسومات اور جذبات کو سامنے لاتے ہیں اور بالزاک ایک حقیقت نگار کے طور پر ابھرتا ہے۔
ممتاز نقاد اور ادیب محمد حسن عسکری نے اس کے ایک ناول کے اردو ترجمہ پر اپنی رائے دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جب بالزاک نے سستے رومانی اور سنسنی خیز ناول لکھنے کے بجائے سنجیدگی سے ادب کی طرف توجہ کی تو اس زمانے میں سائنس اور خصوصاً حیاتیات کا چرچا شروع ہوگیا تھا اور یہ رحجان پیدا ہو چلا تھا کہ انسانی زندگی پر بھی حیاتیاتی اصول عائد کیے جائیں کیونکہ انسان بھی تو بنیادی اعتبار سے جانور ہی ہے۔
چنانچہ بالزاک کے دل میں بھی سب بڑی خواہش یہ تھی کہ میں اپنے سماج کا مطالعہ ٹھیٹ علمی طریقے سے کروں اور انسانی زندگی کے ایسے اصول دریافت کروں جو حیاتیات کے اصولوں کی طرح درست اور بے لاگ ہوں۔ چنانچہ اسے فخر تھا کہ میں نہ تو رومانی ناول نگاروں کی طرح جذبات کی رو میں بہتا ہوں نہ کوئی بات اپنی طرف سے گھڑ کے کہتا ہوں بلکہ میرا ایک ایک لفظ حقیقت کے دلیرانہ مشاہدے پر مبنی ہے۔ اُسے دعویٰ تھا کہ نہ میں نے کوئی بات بڑھائی ہے، نہ گھٹائی ہے بلکہ جو کچھ دیکھا ہے اسے ہوبہو نقل کرتا چلا گیا ہوں۔ اور میرے ناول میں پورے فرانسیسی سماج کی سچی تصویر ملتی ہے۔ اسی لئے وہ اپنے آپ کو سماج کا سیکریٹری جنرل کا کہتا تھا۔
بالزاک 18 اگست 1850ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگیا تھا، لیکن آج بھی اس کی تخلیقات بڑے شوق سے پڑھی جاتی ہیں۔