Tag: بانسری

  • عدنان صدیقی کی بانسری بجانے میں مہارت نے سب کو دنگ کردیا

    عدنان صدیقی کی بانسری بجانے میں مہارت نے سب کو دنگ کردیا

    پاکستان کے نامور اداکار عدنان صدیقی نے پاکستان کے 77ویں یوم آزادی کی مناسبت سے اپنی رہائش گا پر شوبز صحافیوں کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا۔

    صحافیوں کے ساتھ سیشن میں اداکار عدنان صدیقی نے بانسری کی دھن پر نہ صرف خوبصورت ملی نغمہ سنایا بلکہ مشہور گانوں کی دھن بھی بجائی، عدنان صدیقی کی طرف سے یوں مہارت کے ساتھ بانسری بجانے پر صحافیوں اور دیگر لوگوں نے تالیاں بجا کر انھیں داد دی۔

    عدنان صدیقی نے 14 اگست کی مناسبت سے ملی نغمہ ‘یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے’ کی زبردست دھن بجا کر لوگوں کا لہو گرمایا، وہاں موجود لوگوں نے اداکار کے دھن بجانے پر مل کر ملی نغمہ بھی گایا۔

    عدنان صدیقی اگر اداکار نہ ہوتے تو میرے والد ہو سکتے تھے: عنزیلہ عباسی

    اے آر وائی ڈیجیٹل کے مشہور زمانہ ڈرامہ ‘میرے پاس تم ہو’ جس میں انھوں نے ایک ولن کار کردار بڑی عمدگی سے نبھایا تھا، عدنان نے اس کے او ایس ٹی کی دھن بجا کر بھی داد سمیٹی۔

    عدنان صدیقی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئیے ہم سب وعدہ کرتے ہیں کہ ہم وہ پاکستان دیکھیں جس کا ہم نے خواب دیکھا تھا، کڑی سے کڑی بنتی جائے اور پاکستان ترقی کرتا جائے۔

    اس موقع پر معروف اداکار اعجاز اسلم بھی موجود تھے، جشن آزادی کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے انھوں نے اپنے بچپن کی یادوں کو تازہ کیا۔

    اعجاز اسلم نے کہا کہ ہم لوگ بہت بچپن میں بہت زبردست طریقے سے 14 اگست کو مناتے تھے، پورا محلہ جھنڈیوں سے سجایا جاتا تھا، اس روایت کو ہم نے آگے اپنے بچوں میں بھی جاری رکھا۔

    https://urdu.arynews.tv/adnani-slams-kriti-sanons-akhiyaan-de-kol-reshma-classic-song/

     

  • موسیقی سے شاعری تک آج بھی بانسری کا سحر برقرار

    موسیقی سے شاعری تک آج بھی بانسری کا سحر برقرار

    مشہور ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو شہنشاہ نیرو بانسری بجا رہا تھا اور یہ بات ہے سنہ 64 عیسوی کی۔ اس حکم راں کی بے نیازی کا عالم یہ تھا کہ نیرو اس وقت بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ کہتے ہیں کہ یہ آگ بھی اس نے خود لگوائی تھی۔

    خیر، ہمارا اصل موضوع یہ نہیں‌ ہے۔ بانسری کے بارے میں جان لیں کہ قدیم دور کا انسان بھی اس کے وجود سے پھوٹنے والے سُروں اور سماعتوں میں رَس گھولتی موسیقی سے لطف اندوز ہوتا رہا ہے۔ بانسری کی تان نے اگر ہوش مندوں کو مدہوش کیا تو اور دیوانوں نے اسے معرفت کے سربستہ رازوں تک پہنچنے کا وسیلہ بتایا ہے۔

    بانسری کی مختلف شکلیں ہیں اور اسی لیے یہ بانس یا دھات یا ابونائیٹ کی ہوسکتی ہے۔ اس میں بالعموم چھے سوراخ ہوتے ہیں۔ بانسری بجانے والا اس میں اپنا سانس پھونکتا ہے اور ان سوراخوں پر انگلیاں رکھتے ہوئے مہارت کے ساتھ ہٹاتا ہے اور اس طرح میٹھے سُر بکھیرتے ہیں۔

    ہوا کے دوش پر سُر بکھیرنے والی بانسری کے ساتھ گائے گئے گیت سماعتوں میں مٹھاس، چاشنی اور نغمگی سمو دیتے ہیں اور برصغیر کی موسیقی اور فلم انڈسٹری میں اس کا سحر آج بھی قائم ہے۔

    پاک و ہند میں بننے والی کئی فلموں کے مقبول گیتوں میں بانسری کی تان نمایاں رہی جب کہ شعراء نے اپنے گیتوں میں‌ بھی بانسری کو خوب صورت ناموں سے جگہ دی ہے۔ اسے ونجلی، بنسی، بانسری کہہ کر اشعار میں‌ پرویا گیا ہے۔ یہاں ہم چند پاکستانی گیتوں کا ذکر کررہے ہیں جو بہت مقبول ہوئے۔

    مالا بیگم کی آواز آج اس گیت کی صورت میں‌ بھی زندہ ہے جس کے بول ہیں’’ بنسی بجائے کوئی ندیا کے پار… یہ فلم جاگ اٹھا انسان کا وہ گیت تھا جس کی دُھن لال محمد اقبال نے بنائی تھی اور شاعر دکھی پریم نگری تھے۔ 1966ء کی اس فلم میں شائقینِ سنیما نے اداکارہ ’’زبیا‘‘ کو اس گیت پر رقصاں دیکھا تھا۔

    ہدایت کار رزاق کی فلم ’’کٹاری‘‘ 1968ایک خانہ بدوش رقاصہ کی کہانی تھی ۔ یہ کردار معروف فن کارہ زمرد نے ادا کیا تھا۔ یُوں تو کٹاری کے متعدد نغمات مقبول عام ہوئے، لیکن اس کا مقبول ترین گیت جو میڈم نورجہاں نے گایا تھا، اس کے بول تھے ملکۂ ترنم نور جہاں کی آواز میں 1968ء میں فلم کٹاری کا ایک نغمہ بہت مقبول ہوا جس کے بول تھے ’’بنسی بجائی تو نے، نندیا اڑائی تو نے، تیری قسم سانورے، میں تو ہو گئی بانوریا…‘‘ فلم کے ہیرو طارق عزیز تھے جنھیں بانسری بجاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس کی دھن ایم اشرف نے ترتیب دی تھی۔

    1970ء میں ریکارڈ مقبولیت حاصل کرنے والی پنجابی فلم ’’ہیر رانجھا‘‘ کا یہ گیت بھی لازوال ثابت ہوا جو نور جہاں کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا تھا۔ اس کے بول تھے، ’’سن ونجلی دی مٹھری تان وے، میں تاں ہو ہو گئی قربان وے…‘‘

    خواجہ خورشید انور کی اثر خیز دھن، میڈم نور جہاں کی دل کش گائیکی، اور استاد سلامت حسین کی بجائی ہوئی لازوال بانسری نے اس گیت کو امر کر دیا۔ 51سال گزر جانے کے باوجود اس گیت کی مٹھاس، دل کشی اور پسندیدگی برقرار ہے۔ اس فلم کا دوسرا ونجلی گیت جو دو گانا تھا۔

    ایک فلمی گیت تھا، او ونجلی والڑیا، تینو کر بیٹھی آں پیار … ونجلی والڑیا جس میں میڈم نور جہاں کے ساتھ گلوکار منیر حسین نے آواز ملائی تھی۔ یہ اپنے وقت کا مقبول ترین اور سب سے پسندیدہ فلمی نغمہ تھا۔

    گلوکارہ مہناز نے ایک نہایت خوب صورت اور دل میں اتر جانے والے بولوں پر مشتمل گیت گایا تھا جس کے بول تھے’’او میرے سانوریا بانسری بجائے جا، بانسری بجا کے میرے ہوش بھلائے جا۔‘‘ تسلیم فاضلی کا لکھا ہوا یہ گیت مشہور اداکارہ آسیہ پر پکچرائز ہوا اور ان کے ساتھ اداکار ندیم کو بانسری بجاتے ہوئے دکھایا گیا۔ فلم تھی بڑے میاں دیوانے جو 1977 میں ریلیز ہوئی تھی۔

  • عدنان صدیقی نے ایک بار پھر بانسری بجا کر سب کو مسحور کردیا

    عدنان صدیقی نے ایک بار پھر بانسری بجا کر سب کو مسحور کردیا

    معروف اداکار عدنان صدیقی نے ایک بار پھر بانسری پر خوبصورت دھن بجا کر سب کو مسحور کردیا، اس بار انہوں نے معروف بالی ووڈ گانے کا انتخاب کیا۔

    عدنان صدیقی بہترین اداکار ہونے کے ساتھ ساتھ بانسری بجانے میں بھی مہارت رکھتے ہیں اور اکثر و بیشتر اپنی بانسری بجاتی ویڈیوز سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں جنہیں بہت پسند کیا جاتا ہے۔

    اب عدنان نے اپنی نئی ویڈیو شیئر کی ہے جس میں وہ بالی ووڈ فلم براہمسترا کے معروف گانے ’کیسریا‘ کی دھن بجا رہے ہیں۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Adnan Siddiqui (@adnansid1)

    عدنان نے کیپشن میں لکھا کہ ایک تھکے ہوئے دن کے بعد اعصاب کو پرسکون کرنے کے لیے۔

    اداکار کی اس ویڈیو پر انڈسٹری کے بے شمار فنکاروں اور عام افراد نے تبصرے کیے اور اسے پسند کیا۔

  • نیرومررہا تھا، اور روم بانسری بجار ہا تھا۔

    نیرومررہا تھا، اور روم بانسری بجار ہا تھا۔

    آج رومی سلطنت کے اس متغیر مزاج حاکم نیرو کلاڈیس سیزر کا یومِ وفات ہے جس کے احمقانہ فیصلوں کے سبب رومی سلطنت رو بہ زوال ہونا شروع ہوئی تھی۔

    نیرو سلطنت روم کا شہنشاہ تھا جو پانچواں اور آخری سیزر ثابت ہوا۔ نیرو شہنشاہ کلاڈیس کا بھتیجا تھا، وہ 15 دسمبر 37ء کو پیدا ہوا۔ اس کی ماں نے شہنشاہ کلاڈیس سے نکاح ثانی کر لیا تھا اور اپنے بیٹے کے نام پر ولی عہدی کا اعلان کروادیا تھا۔ بعد ازاں نیرو کی ماں نے کلاڈیس کو زہر دے کر ہلاک کر ڈالا جس کے بعد نیرو شہنشاہ بن گیا۔

    پہلے پہل تو وہ اچھا بادشاہ ثابت ہوا اور انتہائی ہوشمندی سے حکومت کرتا رہا لیکن بعد میں بگڑ گیا جس کی ذمہ داری اُس کی ماں ایگری پینا پر عائد ہوتی ہے۔ایگری پینا نے شہنشاہ کا درجہ حاصل کرتے ہی بیٹے کے سر پر سہرا باندھنے کی حسرت پوری کی مگر جلد ہی اس کا بیٹا اپنی بیوی سے اکتا گیا اور وہ پوپائیا نامی نئی لڑکی کے عشق میں مبتلا ہو گیا لیکن وہ جانتا تھا کہ وہ اپنی ماں کے ہوتے ہوئے شہنشاہ ہو کر بھی اپنی محبت نہیں پا سکتا لہذا اس نے من کی مراد پانے کیلئے ماں کو ابدی نیند سلا دیا اور راستہ ہموار ہونے پر اس نے اکتاویا کو طلاق دی اور پوپائیا سے بیاہ رچا لیا ۔

    روم کی تاریخ کا یہ متلون مزاج بادشاہ 54ء سے 68ء تک روم کے سیاہ و سفید کا مالک رہا۔ مورخ فیصلہ نہیں کر پائے کہ اس کے سیاہ کارنامے زیادہ ہیں یا سفید۔ نیرو ظلم سفاکی اور بے حسی میں شہرت رکھتا تھا۔ نیرو نے اپنی ماں‘ دو بیویوں اور اپنے محسن کلاڈیس کے بیٹے کو قتل کرایا۔ 19 جولائی 64ء میں روم آگ کی لپیٹ میں آیا تھا۔ خوفناک آگ 5 دن تک بھڑکتی رہی 14 اضلاع میں سے 4 جل کر خاکستر سات بری طرح متاثر ہوئے۔

    ایک روایت کے مطابق جب آگ روم کے در و دیوار کو بھسم کر رہی تھا اس وقت نیرو ایک پہاڑی پر بیٹھا بانسری بجا کر اس نظارے سے لطف اندوز ہو رہا تھا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آگ اس کے حکم سے ہی لگائی گئی تھی۔

    تاہم مورخ ٹیسی ٹس کے مطابق (اس واقعہ کے وقت اس کی عمر نو سال تھی)۔ جب روم شعلوں کی لپیٹ میں تھا نیرو روم میں نہیں بلکہ وہاں سے 39 میل دور اینٹیم میں تھا۔ اس نے واپسی پر ذاتی خزانے سے متاثرین کی بحالی کی کارروائیاں شروع کیں اور اپنا محل بے گھر ہونے والوں کے لیے کھول دیا۔ اس نے روم کو نئے سرے سے بسایا خوبصورت عمارتیں اور کشادہ سڑکیں تعمیر کرائیں۔

    دیگر مورخین کے مطابق نیرو نے عیسائیوں پر آگ لگانے کا الزام لگا کر ان پر بہت ظلم ڈھائے ۔انہیں ہولناک سزائیں دیں کئی بدنصیبوں کو کتوں کے آگے زندہ پھینک کر موت کی سزا دی گئی اور کئی ایک کو زندہ آگ میں پھینک کر جلا دیا گیا ۔پھر اس نے روم کی تعمیر نو کے نام پر امیر اور غریب کی تخصیص کئے بغیر ان پر یکساں ٹیکس لگا دیے ۔ پورے روم میں جگہ جگہ بغاوتیں شروع ہو گئیں ۔ نیرو کی اپنی فوج نے اس کے خلاف بغاوت کر دی۔

    سنہ 68ء میں فوج نے بغاوت کر دی تو نیرو ملک سے بھاگ نکلا۔ سینٹ نے نیرو موت کی سزا سنائی لیکن اس نے پھانسی سے قبل صرف 31 سال کی عمر میں آج کے دن یعنی 9 جون 68ء میں خود کشی کر لی تھی۔