Tag: بانو قدسیہ کی برسی

  • تہذیبی اور ثقافتی روایات کی امین، مشہور ناول نگار بانو قدسیہ کا یومِ وفات

    تہذیبی اور ثقافتی روایات کی امین، مشہور ناول نگار بانو قدسیہ کا یومِ وفات

    بانو قدسیہ اردو ادب کی ایک قد آور شخصیت ہیں۔ ان کا شمار اُن ادبا اور اہلِ علم و دانش میں‌ ہوتا ہے جو اردو زبان کی آب یاری کے ساتھ اپنے قلم سے اپنی تہذیب اور روایات کا پرچار بھی کرتے رہے۔ انھوں نے ادب کو ایسی شاہ کار تخلیقات سے مالا مال کیا جس نے معاشرے کے مختلف طبقات کو غور و فکر پر آمادہ کیا اور سوچ کے دَر وا کیے۔

    بانو قدسیہ نے فکشن، معاشرتی اور سماجی مسائل پر اپنے قلم کے زور ہی سے شہرت حاصل نہیں کی بلکہ مختلف مجالس میں‌ اپنی گفتگو سے بھی معاشرے کی تعمیر اور اصلاح کی کوشش کی اور بے حد مقبول ہوئیں۔

    وہ اردو اور پنجابی زبان کی ناول نگار، افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس کے طور پر مشہور تھیں۔ 28 نومبر 1928ء کو مشرقی پنجاب کے شہر فیروز پور کے ممتاز علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہونے والی بانو قدسیہ تین سال کی تھیں جن اُن کے والد کا انتقال ہو گیا۔ تعلیم و تربیت کے مراحل طے کرتے ہوئے پانچویں جماعت میں پہنچیں تو قلم تھاما اور مختصر کہانیاں لکھنے لگیں۔ اس طرح مشق اور حوصلہ افزائی نے انھیں مزید سوچنے اور اپنے خیالات کو کاغذ پر منتقل کرنے پر آمادہ کیا جس میں وقت کے ساتھ شعور اور پختگی آتی گئی۔ تقسیمِ ہند کے بعد وہ اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کر کے لاہور آ گئیں، جہاں انھوں نے 1949ء میں کینیرڈ کالج لاہور برائے خواتین سے ریاضیات اور اقتصادیات میں گریجویشن مکمل کیا۔

    اس عرصے میں وہ اپنے کالج کے میگزین اور دوسرے رسائل کے لیے بھی لکھتی رہیں۔ بعد ازاں 1951ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم اے اردو کی ڈگری حاصل کی۔ وہیں ان کی ملاقات مشہور ناول نگار اور ڈرامہ نویس اشفاق احمد سے ہوئی، جو اس وقت ان کے ہم جماعت تھے۔ اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں گہری دل چسپی لینے والی یہ دونوں شخصیات 1956ء میں رشتۂ ازدواج میں بندھ گئیں۔

    ایم اے کے بعد لاہور کے معروف ادبی مجلہ ’’ادبِ لطیف ‘‘ میں ان کا پہلا افسانہ شایع ہوا جس کا عنوان ’واماندگیٔ شوق‘ تھا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ ناول نگاری تک پھیل گیا اور راجہ گدھ، بازگشت، امربیل، آتش زیرِپا، آدھی بات، دوسرا دروازہ، تمثیل، حاصل گھاٹ اور توبہ شکن جیسے ناول سامنے آئے جو بہت مقبول ہوئے۔ ’راجہ گدھ‘ ان کا سب سے مقبول ناول ہے، جس کے اسلوب اور علامتی انداز کو قارئین نے بے حد سراہا اور بانو قدسیہ کو بے مثال شہرت نصیب ہوئی۔

    وہ اردو اور پنجابی زبانوں پر عبور رکھتی تھیں اور اس زمانے میں‌ ریڈیو اور ٹیلی ویژن تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ تھے جن کے لیے بانو قدسیہ نے بھی ڈرامے لکھے۔ ان کے ڈرامے ’آدھی بات‘ کو کلاسک کا درجہ حاصل ہے۔ ان کے تحریر کردہ ڈرامے سماجی مسائل پر بامقصد اور تعمیری انداز میں نظر ڈالنے کا موقع دیتے تھے۔ ان کی تحریروں کا بڑا وصف روایات اور اقدار کی پاس داری کا درس ہے جس میں وہ مذہب اور تعلیم و تربیت کی اہمیت کے ساتھ رشتے ناتوں کے تقدس کو نہایت خوب صورتی سے پیش کرتی ہیں۔

    بانو قدسیہ کی علمی اور ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے انھیں ستارۂ امتیاز اور قومی خدمات پر ہلالِ امتیاز سے نوازا تھا۔ اس کے علاوہ انھیں کمالِ فن ایوارڈ اور بعد میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی دیا گیا۔

    4 فروری 2017ء کو بانو قدسیہ لاہور میں وفات پاگئی تھیں۔

  • مقبول و معروف ناول نگار بانو قدسیہ کی برسی

    مقبول و معروف ناول نگار بانو قدسیہ کی برسی

    آج اردو کی معروف ناول نگار، افسانہ اور ڈرامہ نویس بانو قدسیہ کی چوتھی برسی منائی جا رہی ہے۔ راجہ گدھ ان کا وہ ناول ہے جس کا شمار اردو کے مقبول ترین نالوں میں ہوتا ہے۔ بانو قدسیہ نے پاکستان ٹیلی ویژن کے لیے بھی متعدد ڈرامے لکھے جنھیں بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔

    اردو زبان کی معروف ادیب بانو قدسیہ کا تعلق مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور سے تھا جہاں انھوں نے 28 نومبر 1928ء کو آنکھ کھولی۔ انھوں نے کنیئرڈ کالج اور گورنمنٹ کالج سے تعلیم حاصل کی۔ وہ پاکستان کے مشہور و معروف ادیب اشفاق احمد کی اہلیہ تھیں۔

    بانو قدسیہ ایک کہنہ مشق لکھاری کے طور پر جانی جاتی ہیں جنھوں نے 1981 میں ’راجہ گدھ‘ لکھا تھا۔ اس مقبولِ عام ناول کے چودہ سے زائد ایڈیشن شایع ہوئے۔ انھوں‌ نے دو درجن سے زیادہ تصانیف یادگار چھوڑی ہیں جن میں ناول، افسانے، مضامین اور سوانح شامل ہیں۔ بازگشت، امربیل، دوسرا دروازہ، تمثیل اور حاصل گھاٹ جیسی کہانیاں ان کی پہچان بنیں۔ بانو قدسیہ نے اردو کے علاوہ پنجابی زبان میں بھی لکھا۔ بانو قدسیہ نے ٹی وی کے لیے کئی سیریل اور طویل ڈرامے تحریر کیے جن میں ’دھوپ جلی‘, ’خانہ بدوش‘, ’کلو‘ اور ’پیا نام کا دیا‘ جیسے ڈرامے شامل ہیں۔

    ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت نے بانو قدسیہ کو تمغۂ امتیاز سے نوازا تھا۔ وہ چار فروری 2017ء کو دنیائے فانی سے کوچ کرگئی تھیں۔