Tag: بانو قدسیہ

  • معروف مصنفہ بانو قدسیہ کی رحلت، ایک عہد تمام ہوا

    معروف مصنفہ بانو قدسیہ کی رحلت، ایک عہد تمام ہوا

    کراچی : مشہور ناول نویس، افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار بانو قدسیہ آج اپنے مداحوں کو چھوڑ کر خالق حقیقی سے جاملیں، بانو قدسیہ 28 نومبر 1928 کو مشرقی پنجاب کے ضلع فیروز پور میں پیدا ہوئیں اور تقسیم ہند کے بعد لاہور آگئیں، ان کے والد بدرالزماں ایک گورنمنٹ فارم کے ڈائریکٹر تھے۔

    بانو قدسیہ نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی قصبے فیروز پور ہی میں حاصل کی انھیں بچپن سے ہی کہانیاں لکھنے کا شوق تھا اور پانچویں جماعت سے انہوں نے باقاعدہ لکھنا شروع کردیا بانو قدسیہ نے ایف اے اسلامیہ کالج لاہور جب کہ بی اے کنیئرڈ کالج لاہور سے کیا

    بانو قدسیہ نے 1949 میں گورنمٹ کالج لاہور میں ایم اے اُردو میں داخلہ لیا اشفاق احمد ان کے کلاس فیلو تھے دونوں کی مشترکہ دلچسپی ادب پڑھنا اور لکھنا تھا دسمبر 1956 میں بانو قدسیہ کی شادی اشفاق احمد سے ہوئی دونوں رائٹرز تھے اور ادب سے گہرا شغف رکھتے تھے۔

    bano-post-01

    انہوں نے ایک ادبی رسالے داستان گو کا اجراء کیاریڈیو اور ٹی وی پر بانو قدسیہ اور اشفاق احمد نصف صدی سے زائد عرصے تک حرف و صورت کے اپنے رنگ دکھاتے رہےریڈیو پر انھوں نے 1965 تک لکھا، پھر ٹی وی نے انھیں بے حد مصروف کردیا۔

    bano-post2

    بانو قدسیہ نے ٹی وی کے لیے کئی سیریل اور طویل ڈرامے تحریر کیے جن میں ’دھوپ جلی، خانہ بدوش ’کلو‘ اور ’پیا نام کا دیا جیسے ڈرامے شامل ہیں۔ اس رائٹر جوڑے کے لکھے ہوئے ان گنت افسانوں، ڈراموں، ٹی وی سیریل اور سیریز کی مشترقہ کاوش سے ان کا گھر تعمیر ہوا۔

    bano-post3

    بانو قدسیہ نے افسانوں، ناولز، ٹی وی و ریڈیو ڈراموں سمیت نثر کی ہر صنف میں قسمت آزمائی کی۔ 1981 میں شایع ہونے والا ناول ’’راجہ گدھ‘‘ بانو قدسیہ کی حقیقی شناخت بنا۔ بانو قدسیہ نے 27 کے قریب ناول، کہانیاں اور ڈرامے لکھے۔

    bano-post5

    راجہ گدھ کے علاوہ بازگشت، امربیل، دوسرا دروازہ، تمثیل، حاصل گھاٹ اور توجہ کی طالب، قابلِ ذکر ہیں۔ ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں 2003 میں ’’ستارۂ امتیاز‘‘ اور 2010 میں ’’ہلالِ امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔

    bano-post-06

    اس کے علاوہ ٹی وی ڈراموں پر بھی انھوں نے کئی ایوارڈز اپنے نام کیے اور اب انھیں کمال فن ایوارڈ سے نوازا جارہا ہے۔بانو قدسیہ چار فروری کو علالت کے بعد لاہور کے نجی اسپتال میں انتقال کر گئی جس کے بعد اردو ادب کا ایک اور باب بند ہوگیا۔

  • اردو ادب کی معروف مصنفہ ’’بانو قدسیہ‘‘ انتقال کرگئیں، اہم شخصیات کا اظہار افسوس

    اردو ادب کی معروف مصنفہ ’’بانو قدسیہ‘‘ انتقال کرگئیں، اہم شخصیات کا اظہار افسوس

    لاہور: اردو ادب کی معروف مصنفہ اور اشفاق احمد کی اہلیہ بانو قدسیہ طویل علالت کے بعد 88 سال کی عمر میں انتقال کرگئیں۔

    خاندانی ذرائع اور اسپتال انتظامیہ نے اُن کے انتقال کی تصدیق کر دی ہے، قانونی کارروائی کے بعد اُن کا جسد خاکی ماڈل ٹاؤن کے گھر منتقل کیا جائے گا، اُن کی نمازِ جنازہ کل بعد نماز عصر ماڈل ٹاؤن لاہور بلاک ڈی میں ادا کی جائے گی۔

    ادیبہ بانو قدسیہ کو طویل عرصے سے شوگر کا مرض لاحق تھا، وہ کئی دنوں سے لاہور کے اسپتال میں زیر علاج تھیں جہاں ان کی حالت بگڑ گئی، ڈاکٹروں نے کوشش کی تاہم وہ جانبر نہ ہوسکیں۔ بیٹے اسیر احمد خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ والدہ چند روز سے انتہائی نگہداشت وارڈ میں داخل تھیں۔

    اشفاق احمد کے انتقال کے بعد اپنا حلقہ احباب کم کرنے والی بانو قدسیہ نے سوگوران میں 3 بیٹے چھوڑے ہیں۔

    اردو ادب کے معروف ادیب اشفاق احمد کی اہلیہ خود بھی ادب کا ایک درخشاں ستارہ تھیں، وہ 28 نومبر 1928 کو بھارت کے شہر فیروز پور میں پیدا ہوئیں اور تقسیم برصغیر کے بعد اپنے خاندان کے ہمراہ پاکستان منتقل ہوگئیں، انہوں ںے گورنمنٹ کالج یونیورسٹی اور کینٹرڈ کالج برائے خواتین سے تعلیم حاصل کی۔

    آپ نے اردو ادب کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں، مختلف ناول لکھے اور قوم کے لیے خدمات بھی انجام دیں، بانو قدسیہ کا ناول راجہ گدھ بہت مشہور ہوا۔

    اہم شخصیات کا اظہار افسوس

    صدرِ پاکستان ممنون حسین نے افسوس کا اظہار کہا کہ ’’بانو قدسیہ کا شمار ملک کی قد آور شخصیات میں ہوتا تھا، اُن کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوا اُسے پُر کرنا ناممکن ہے۔وزیر اعظم میاں محمد نوازشریف نے کہا کہ بانو قدسیہ پاکستان کا اہم سرمایہ تھیں، اُن کی خدمات آئندہ نسلوں تک یاد رکھیں جائیں گی۔

    علاوہ ازیں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، تحریک منہاج القرآن کے سربراہ طاہرالقادری سمیت مختلف سیاسی جماعتوں نے افسوس کا اظہار کیا۔