Tag: باہمت خواتین

  • طلاق کے بعد نہیں سوچا کہ لوگ کیا کہیں گے؟ امبر خان

    طلاق کے بعد نہیں سوچا کہ لوگ کیا کہیں گے؟ امبر خان

    دور حاضر میں پاکستانی معاشرے میں طلاق کے رجحان میں کافی حد تک اضافہ ہوا ہے، جس کے سبب خواتین کو اپنی آنے والی زندگی بہتر بنانے کیلئے بے انتہا تگ و دو کرنا پڑتی ہے۔

    ایسی صورتحال میں باہمت خواتین درپیش حالات کا مقابلہ کامیابی سے کرتی ہیں اور اپنے بچوں کے تابناک مستقبل کیلئے بھرپور جدوجہد کرکے انہیں بھی معاشرے ک اایک قابل انسان بناتی ہیں۔

    پاکستان کی شوبز انڈسٹری سے وابستہ ایک ایسی ہی حوصلہ مند خاتون اداکارہ امبر خان نے اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان میں شرکت کی اور طلاق کے بعد کی زندگی میں پیش آنے والے نشیب و فراز کے حوالے سے ناظرین کو آگاہ کیا۔

    انہوں نے بتایا کہ میری شادی بہت چھوٹی عمر میں ہوئی اور شادی کے 20 سال بعد مجھے طلاق ہوئی اس وقت میری دو بیٹیاں تھیں ایک کی عمر 12سال جبکہ دوسری چار یا پانچ سال کی تھی۔

    میرے سسرال والے آج بھی میری عزت کرتے ہیں اور میں بھی اپنے ساس سسر کو اپنے والدین کا درجہ دیتی ہوں اسکے علاوہ میری نندوں سے بھی اچھے تعلقات ہیں۔

    امبر خان نے بتایا کہ میں ایک مکمل طور پر گھریلو خاتون تھی، میں نے شادی کے بعد شوبز جوائن کیا کیونکہ میرے شوہر نے کہا کہ اب خود جاکر کماؤ، اس وقت میری بڑی بیٹی 7سال کی تھی۔

    ان کا کہنا تھا کہ پھر میں نے بہت محنت کی اور یہ پرواہ نہیں کی کہ لوگ کیا کہیں گے؟ اور آج میں اس مقام پر ہوں کہ میں نے بچیوں کی پرورش بھی اچھے طریقے سے کی ہے۔

  • صرف مرد کی کامیابی میں ہی عورت کا ہاتھ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!

    صرف مرد کی کامیابی میں ہی عورت کا ہاتھ نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ !!

    ہمارے معاشرے میں بےشمار خواتین ایسی بھی ہیں جنہوں نے تمام تر پریشانیوں اور مصائب کے باوجود اچھی زندگی گزارنے کیلئے انتھک محنت کی، نہ صرف محنت کی بلکہ اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے بھی آراستہ کیا۔

    ہمیں اپنے محلے یا رشتہ داروں میں ایسی کئی خواتین بھی نظر آتی ہیں جنہوں نے اپنے شوہر، والد یا سرپرست کے انتقال کے بعد حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور ایک اچھی زندگی گزارنے کیلئے اپنا بہتر مقام بھی بنایا۔

    ایک ایسی ہی باہمت خاتون ڈاکٹر فاطمہ حیات اے آر وائی ڈیجیٹل کے پروگرام گڈ مارننگ پاکستان کی مہمان بنیں جنہوں نے بتایا کہ ان کے والد کے بعد انہوں نے اپنی زندگی کو بہتر کیسے بنایا۔

    ڈاکٹر فاطمہ حیات نے بتایا کہ ہم صرف چار بہنیں ہیں ہمارے والد ایک سرکاری ادارے میں میڈیکل آفیسر تھے، ہمیں تعلیم دلانے کیلئے انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہم چاروں بہنیں پی ایچ ڈی ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ جس طرح کسی مرد کی کامیابی کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہوتا ہے بالکل اسی طرح کوئی لڑکی یا خاتون اپنے والد بھائی یا شوہر کی حمایت اور تعاون کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔

  • ویلما روڈولف: اپاہج لڑکی جو زندگی کی دوڑ میں سب سے آگے نکل گئی

    ویلما روڈولف: اپاہج لڑکی جو زندگی کی دوڑ میں سب سے آگے نکل گئی

    بعض لوگ زندگی میں بہت دشواریاں اور سختیاں جھیلتے ہیں۔ وہ کئی کٹھن اور صبر آزما مراحل سے گزرنے کے بعد ایک روز خاموشی سے مٹی میں مل جاتے ہیں۔

    ان میں وہ بھی شامل ہیں جنھیں غربت اور تنگ دستی کے ہاتھوں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور وہ بھی جو مالی مسائل کے ساتھ ساتھ مختلف بیماریوں اور جسمانی معذوری کا بھی شکار ہوتے ہیں۔ اگر ہم سے کوئی بھی حالات کی سختیوں اور مسائل کے انبار کے باوجود آگے بڑھنے کی ٹھان لے اور اپنی منزل کا تعین کرکے سفر شروع کردے تو اس کے اندر توانائی، حوصلہ اور وہ لگن اور جوش و ولولہ پیدا ہوجاتا ہے جو اسے حالات سے پنجہ آزمائی اور طوفانوں کا مقابلہ کرنے کے قابل بنا دیتا ہے اور ایک وقت آتا ہے جب وہ اپنے غیر معمولی اور حیرت انگیز کارناموں سے دنیا کو متوجہ کر لیتا ہے۔

    ویلما روڈولف (Wilma Glodean Rudolph) ایک ایسی ہی لڑکی تھی جس نے معمولی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اس کے والد نے دو شادیاں کی تھیں اور ان کی 22 اولادوں میں ویلما کا نمبر بیسواں تھا۔ والد ریلوے میں دوسروں کا بوجھ ڈھوتے تھے۔ گزر بسر مشکل تھی، وقت ملتا تو اضافی آمدن کے لیے کوئی بھی کام کرنے کو تیّار ہو جاتے۔

    ویلما کا سنِ پیدائش 1940ء اور وطن امریکا ہے۔ وہ پانچ سال کی تھی جب پولیو وائرس نے اسے اپنا نشانہ بنایا۔ پولیو کے سبب اس بچّی کی بائیں ٹانگ متاثر ہوئی اور اس کا پیر مفلوج ہوگیا۔ وہ چلنے پھرنے سے قاصر تھی۔ ڈاکٹروں نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ وہ کبھی نہیں چل پائے گی۔ اس کے ناتواں پیر کو مصنوعی سہارے سے چلنے کے قابل بنایا گیا تھا۔ وہ نو برس کی تھی تو اسے مخصوص جوتوں کے استعمال کا مشورہ دیا گیا۔

    ویلما دوسرے بچّوں کو دوڑتے بھاگتے دیکھتی تھی تو رنجیدہ ہوجاتی اور اس کا دل بھر آتا۔ وہ دوڑنا چاہتی تھی۔ تیز، بہت تیز اور زندگی کی ہر دوڑ میں اوّل آنا چاہتی تھی۔ یہ اس کا خواب تھا یا اس معذوری کے نتیجے میں پیدا ہونے والا احساسِ محرومی، لیکن اس نے اپنی اس کم زوری کو اپنی طاقت بنایا اور واقعی دنیا کی سب سے تیز رفتار لڑکی بننے کا اعزاز اپنے نام کیا۔

    ایک روز اس لڑکی نے پختہ ارادہ کیا کہ وہ اپنے پیروں پر چلے گی اور کچھ کر کے دکھائے گی۔ اس کے سامنے ایک مقصد تھا جس نے اس کے اندر ایک نئی روح پھونک دی تھی، وہ تکلیف اور درد کے باوجود گھر میں چلنے کی مشق کرنے لگی۔ اس کا حوصلہ سلامت رہا اور جنون بڑھتا چلا گیا جس نے ایک روز اسے بغیر سہارے کے چلنے پھرنے کے قابل بنا دیا۔

    1952ء جب وہ بارہ سال کی ہوئی تو اس نے دوڑنا شروع کردیا۔ ویلما کے مطابق وہ اپنے محلّے میں ہم عمروں کے ساتھ اچھل کود اور ان سے ریس لگانے لگی تھی۔ یہ اس کی ایک بڑی کام یابی تھی اور ویلما اس پر نہایت مسرور تھی۔

    ویلما نے اسکول میں منعقد ہونے والے کھیل کود کے مقابلوں میں حصّہ لینا شروع کردیا۔ ایک دن جب وہ اسکول میں باسکٹ بال کھیل رہی تھی تو اسے کوچ نے بلایا، اس کی حوصلہ افزائی کی اور کہا کہ بحیثیت تجربہ کار کوچ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ تم عام بچّوں کی بہ نسبت تیز رفتار ہو اور میرا مشورہ ہے کہ تم باسکٹ بال کے بجائے مختصر فاصلے کی دوڑ (Sprints) میں حصّہ لو۔ ویلما کو اس کا مشورہ پسند آیا اور اس نے دوڑنے کی باقاعدہ ٹریننگ لینی شروع کی۔ وہ اپنی قوّتِ ارادی اور حوصلے کے سبب بہت جلد قومی سطح کے مقابلوں میں حصّہ لینے کے قابل ہوگئی۔ اساتذہ اور کوچ اس کی مدد اور حوصلہ افزائی کرتے تھے اور اس کی کام یابی پر سبھی مسرور تھے۔

    انہی دنوں آسٹریلیا کے مشہور میلبورن اولمپک مقابلے کا چرچا ہونے لگا۔ ویلما نے مقابلے میں شرکت کی خواہش ظاہر کی اور اس کی مراد بر آئی۔ یہ 1956ء کا اولمپک مقابلہ تھا جس میں 16 سالہ ویلما نے کانسی کا تمغا اپنے نام کیا۔

    1960ء کے اولمپک مقابلوں سے پہلے ہی ویلما نے دو سو میٹر دوڑ کا مقابلہ جیت کر عالمی ریکارڈ بنا ڈالا تھا اور جب اولمپک مقابلے کا انعقاد ہوا تو وہ پھر میدان میں تھی۔ اس بار ویلما نے دوڑ کے مقابلے میں تین گولڈ میڈل حاصل کیے۔

    اس مقابلے میں ویلما کو امریکا کی ایسی پہلی خاتون کھلاڑی بننے کا اعزاز بھی حاصل ہوا جو ایک ہی اولمپک میں تین ریسوں کی لگاتار فاتح رہی اور جس نے تینوں گولڈ میڈل اپنے نام کیے۔

    پولیو کے سبب معذوری اور اپاہج ہوجانے والی اس لڑکی نے ثابت کیا کہ پختہ ارادہ اور ہمارا عزم ہمیں زندگی کی ہر دوڑ کا فاتح بنا سکتا ہے۔ ویلما کو جہاں کھیل کی دنیا کے کئی انعامات اور اعزازات سے نوازا گیا، وہیں امریکی حکومت نے اس کے نام سے ایک ایوارڈ کا اجرا بھی کیا جو خاتون کھلاڑیوں کو شان دار کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر دیا جاتا ہے۔

    12 نومبر 1994ء کو ویلما کی زندگی کا سفر ہمیشہ کے لیے تمام ہوا۔ اسے کینسر کا مرض لاحق ہوگیا تھا۔ امریکا میں کھیلوں کے میدانوں میں یادگار کے طور پر ویلما کے مجسمے نصب ہیں اور زیرِ تربیت کھلاڑیوں کو اس لڑکی کی زندگی اور فتوحات کی کہانی سنائی جاتی ہے اور ان کے لیے عزم و ہمّت کی مثال بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

  • سائنس سے سیاست تک "آئرن لیڈی” کے سفر کی کہانی

    سائنس سے سیاست تک "آئرن لیڈی” کے سفر کی کہانی

    برطانیہ بھی کرونا سے متاثرہ ملکوں میں شامل ہے جسں کے موجودہ وزیراعظم بورس جانسن بھی اس وائرس کا شکار ہیں اور پچھلے دنوں انھیں انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں منتقل کیا گیا ہے۔

    اسی برطانیہ کی ایک خاتون وزیرِاعظم تھیں مارگریٹ ہلڈا تھیچر، جنھیں "آئرن لیڈی” کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔

    برطانیہ کی یہ سیاست داں اپنے مضبوط ارادوں اور عزم و ہمت کی وجہ سے دنیا بھر میں‌ پہچانی جاتی ہیں۔

    وہ برطانوی تاریخ کی پہلی خاتون وزیرِاعظم تھیں۔ انھوں نے ثابت کیا کہ اس عہدے کے لیے ان کا انتخاب غلط نہ تھا۔ اپنے دور میں کئی سیاسی اور عسکری فیصلوں کے دوران انھوں نے بڑی سے بڑی مشکل اور رکاوٹ کو ہمت اور بہادری سے دور کیا۔ وہ 1979 تک برطانیہ میں اس عہدے پر فائز رہیں۔

    مارگریٹ تھیچر کا سن پیدائش 1925 ہے۔ انھوں نے آکسفورڈ میں تعلیم پائی اور کیمسٹری کے مضمون میں ڈگری حاصل کرنے کے بعد 1947 سے لے کر1951 تک ایک ادارے میں تحقیق میں مصروف رہیں۔

    1951 میں شادی کے بعد بھی مارگریٹ تھیچر نے تعلیمی سلسلہ جاری رکھا، مگر اب وکالت ان کا مضمون تھا۔ 1953 میں امتحان میں کام یابی کے بعد وہ ٹیکس اٹارنی بن گئیں۔

    یہاں سے انھیں سیاست کے میدان میں قدم رکھنے کا موقع ملا اور وہ کنزرویٹو پارٹی سے وابستہ ہو گئیں۔ 1959 میں اس جماعت کے ٹکٹ پر دارالعوام کی رکن منتخب ہوئیں۔

    ان کی سیاسی بصیرت اور اہلیت نے انھیں ایک روز برطانیہ کی وزیراعظم کے عہدے تک پہنچا دیا۔

    اس منصب پر فائز ہونے کے بعد مارگریٹ تھیچر نے کچھ ایسے فیصلے کیے جن پر سیاسی اور عوامی سطح پر انھیں کڑی تنقید کا سامنا کرنا پڑا، مگر وہ ایک قدم پیچھے نہ ہٹیں۔

    ان کے دور میں برطانیہ میں کئی شعبوں میں اصلاحات کی گئیں اور اس حوالے سے بھی انھیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔

    مارگریٹ کے دورِ حکومت میں برطانیہ اور ارجنٹائن کے درمیان جنگ ہوئی میں برطانیہ کی کام یاب خارجہ پالیسی کو بہت سراہا جاتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ انھیں مسلسل تین انتخابات میں کام یابی نصیب ہوئی اور ان کا شمار بیسویں صدی کے طاقت ور اور کام یاب سیاست دانوں میں کیا جاتا ہے۔