Tag: باہمت لڑکی

  • باہمت لڑکی تعلیم اور گھر کی کفالت کے لیے پولیو ورکر بن گئی

    باہمت لڑکی تعلیم اور گھر کی کفالت کے لیے پولیو ورکر بن گئی

    لاہور: زندہ دلان لاہور کی باہمت لڑکی کائنات اپنی تعلیم مکمل کرنے اور گھر کی کفالت کے لیے پولیو ورکر بن کر دوسروں کے لیے ایک مثال بن گئی ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق لاہور کینٹ ٹاؤن کی طالبہ کائنات بچوں کو گھر گھر جا کر پولیو کے قطرے پلاتی ہیں، بچوں کو قطرے پلانے کے ساتھ ساتھ والدین کو ویکسین کی افادیت کے بارے میں آگاہی بھی فراہم کرتی ہیں۔

    کائنات کا کہنا ہے کہ ویکسین کے لیے بچوں کے والدین کو راضی کرنے کے لیے وہ دل سے محنت کرتی ہیں، بہت سارے بچے ایسے ہیں جو اس بیماری کی وجہ سے معذور ہو چکے ہیں، جو بستر سے اٹھ نہیں سکتے، چل نہیں سکتے، مجھے خوشی ہے کہ اللہ نے مجھے اس قابل بنایا کہ میں بچوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہوں۔

    کائنات نے اے آر وائی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا میں نے پولیو ورکر بن کر پچھلے سال اپنا بی ایس سی مکمل کر لیا ہے اور اب ماسٹر بھی کروں گی۔

    ڈپٹی ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کینٹ ٹاؤن ڈاکٹر جنید کا کہنا ہے کہ کائنات ایک محنتی لیڈی ہیلتھ ورکر ہے، انھوں نے بتایا کہ کائنات کو جو تنخواہ ملتی ہے وہ اسی میں اپنی تعلیم مکمل کر رہی ہیں۔

    واضح رہے کہ ملک کو پولیو سے پاک کرنے کے لیے کائنات جیسے ورکرز کا کردار بہت اہم ہے، کائنات کا شمار ان خواتین ورکرز میں ہوتا ہے جو علم سے اپنی دنیا روشن کرنے اور بچوں کو معذوری سے بچانے کا مشن لے کر گھر سے نکلتی ہیں۔

  • درد ناک زندگی گزارنے والی پہلی کمپیوٹر پروگرامر کی کہانی

    درد ناک زندگی گزارنے والی پہلی کمپیوٹر پروگرامر کی کہانی

    ایڈا لولیس کو دنیا کی پہلی کمپیوٹر پروگرامر کہا جاتا ہے۔

    ایڈا لولیس کا بڑا کارنامہ انالیٹیکل انجن کے لیے پہلا الگورتھم تحریر کرنا بتایا جاتا ہے جو ایک عام مقصد کے لیے تیار کردہ مشین یا کمپیوٹر کی بنیاد تھا۔ یہ ایک کارنامہ تھا جسے انجام دینے والی یہ لڑکی کم سنی سے لے کر موت تک تکلیف دہ اور مشکل حالات کا سامنا کرتی رہی۔ آئیے ایڈا لولیس کی کتابِ زیست کے اوراق الٹتے ہیں۔

    ایڈا لولیس کے والد کا نام جارج گورڈن بائرن تھا جو مشہور شاعر اور برطانیہ کے نواب خاندان کا فرد تھا۔ دنیا اسے لارڈ بائرن کے نام سے بھی جانتی ہے۔

    لندن کے اسی نواب کے گھر ایڈا لولیس نے 10 دسمبر 1815 کو آنکھ کھولی۔

    بائرن اولادِ نرینہ کی خواہش رکھتے تھے اور بیٹی کی پیدائش پر انھیں‌ شدید مایوسی ہوئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ایڈا لولیس تمام عمر والد کی شفقت اور پیار سے محروم رہی۔

    ایڈا کے والد اپنی بیوی سے بھی نباہ نہ کرسکے اور نوبت علیحدگی تک پہنچ گئی۔

    قسمت کی ستم ظریفی یہ دیکھیے کہ ایڈا کو اپنی ماں کی محبت اور توجہ بھی حاصل نہ ہوسکی۔ وہ اپنی بیٹی کو اکثر اس کی نانی کے پاس چھوڑ جاتی تھیں۔

    دوسری طرف ایڈا بچپن ہی سے بیمار رہنے لگی۔ آٹھ برس کی عمر میں اسے سَر میں مستقل درد کی شکایت ہوئی جس نے بینائی پر منفی اثر ڈالا۔

    زندگی کے چودھویں برس وہ خسرے کی بیماری کے بعد بستر سے لگ گئی۔ ڈیڑھ برس تک شدید بیمار رہنے کے بعد بیساکھیوں کی مدد سے چلنے کے قابل ہوئی۔

    اس دوران باہمّت ایڈا لولیس نے تعلیم کا سفر جاری رکھا اور سائنس کے علاوہ مختلف فنون میں دل چسپی لینے کے ساتھ اس حوالے سے عملی طور پر بھی متحرک رہی۔

    زندگی کے آخری برسوں میں اسے سرطان کا عارضہ لاحق ہو گیا اور اسی بیماری کے باعث 1852 میں ایڈا لولیس کی موت واقع ہو گئی۔