Tag: ببرک کارمل جمالی

  • بلوچستان رنگ: سرتو لے آئے ہو لیکن کان کہاں ہے؟

    بلوچستان رنگ: سرتو لے آئے ہو لیکن کان کہاں ہے؟

    شام ہونے کو تھی سورج دائیں طرف کی پہاڑی میں ڈوب رہا تھا۔ بکریوں کے بچے دودھ پینے کے بعد اپنے ماؤں کے گرد کھیل کھود کر رہی تھیں جبکہ شیر خان دیسی قالین پر رکھے تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھا ہوا تھا۔ سورج کی سرخ مائل کرنیں پہاڑی کی آخری چوٹیوں کو رخصت کرنے کو تھیں۔ بکریوں کے گھنٹی بجنے سے ایک خوبصورت ساز چاروں طرف بکھر جاتی تھی۔ تھوڑا سا اندھیرا چھا گیا تو اچانک بکریوں میں ہلچل سی ہوئی بکریاں یہاں وہاں بھاگنے لگیں۔ یا اللہ رحم آج دوبارہ بھوت خان ایک بکرے کو لے کر جائیں گے اور اپنے لئے سجی بنائیں گے۔شیر خان سر پہ ہاتھ رکھ کر دہائی رہے تھے ،بھوت خان آیا اور بھوت کی طرح بکری لے کر گم ہوگیا۔

    شیر خان ننگے پاؤں بھوت کی جانب دوڑنے لگا۔چند قدم جانے کے بعد واپس مڑا اور وہاں سے آواز دی جیجو میرا تلوار نکال کے دو۔ بھوت خان سفید بکرے کو لے کر کھیر تھر پہاڑی پر بجلی کی مانند دوڑے جارہا تھا اس کے گھوڑے کی رفتار بجلی کی طرح تیز تھی شیر خان  او شیر خان بھیڑیوں کا پیچھا کرنا چھوڑ دو بکریوں کو سنبھالو شیر خان کی بیوی چیخ کر کہ رہی تھی۔

    تاریکی چاروں طرف پھیل گئی ہے یہ سہمے بکری ہاتھ نہیں آئیں گے اور بھوت ان پر دوبارہ حملہ آوور نہ ہو ۔ شیر خان  بیٹے کے ہمراہ  دوسری پہاڑی کی طرف دوڑ پڑے ایک گھاٹی پار کرنے کے بعد دیکھا تو ایک بکری کا کچھ خون پڑا ملا تھا۔ بھوت خان اپنا شکار کرکے چلئےگئےتھے کچھ دیر یہاں وہاں دیکھنے کے بعد شیر خان نے کہا چلو بیٹا واپس چلتے ہیں۔ شیر خان کے بیٹے نے اپنے باپ سے کہا اب ہمیں پہاڑوں سے نیچے کی جانب نقل مکانی کرنا ہوگا۔ یہاں رہنا ٹھیک نہیں۔ یہ بھوت خان نے ایک ہفتے میں دوسرا حملہ ہمارے ریوڑ پہ حملہ کیا ہے۔ پچھلی بار وہ کالا دبنہ لے جانے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے مگر اب کی بار وہ سفید بکرا لے کر گئے ہیں باپ بیٹے کھیر تھر کی پہاڑی سے اترے اور دوبارہ اپنے گھر کی جانب روا ں دواں ہوئے۔

    بھوت خان کی تیز رفتاری کا اندازہ کسی کو معلوم نہیں تھا۔ بھوت خان کے بڑے لمبے بال تھے وہ عظیم شہ سوار تھا اس کی شہ سواری اور گھوڑے کی تیز رفتاری پورے علاقے میں بہت مشہور تھا وہ آتا بھی بھوت کی طرح تھا اور اپنا شکار کرکے بھوت کی طرح سیکنڈوں میں غائب ہو جاتا تھا وہ کھانے پینے کا بہت شوقین تھا۔ وہ گوشت خور کا تھا۔

    بلوچستان کے لوگ کھانوں کے بہت پرانے شوقین ہیں۔ان کھانوں میں ایک ایسی روٹی پکائی جاتی ہے جو پاکستان میں کہیں بھی نہیں ملتی، جس کا نام ’’کاک روٹی‘‘ ہے۔ کاک روٹی  تیز آگ کی حدت پر براہِ راست پکائی جاتی ہے۔ کاک روٹی گرم گول پتھروں پر آٹا لپیٹ کر انگاروں پر پکائی جاتی ہیں۔ بھوت خان کی بیوی کاک روٹی پکانے میں مہارت رکھتی تھی۔ وہ پہلے ایک سائز کے گول پتھروں کو انگاروں پر خوب گرم کرتی تھی ۔۔۔۔۔ پھر ان پر آٹا لپیٹ کر ہلکی انگاروں پر رکھ دیتی تھی۔ پھر ہلکی آنچ سے یہ گولہ اندر تک اچھی طرح پک جاتی تھی ۔کاک روٹی کے پیڑے کے اندر ایک پتھر ہوتا تھا جسے بعد میں نکال کر کھایا جاتا تھا اور جب یہ روٹی آگ کے قریب رکھی جاتی تھی تو اس کے اندر موجود پتھر بھی گرم ہوجاتی تھی جس کی وجہ سے یہ روٹی اندر سے بھی پک کر تیار ہوجاتی تھی۔

     اپنے ذائقے میں کاک روٹی بے حد لذیذ ہوتی ہے۔ یہ روٹی کئی کئی روز تک بھوت خان سفر میں بھی کھاتا تھا شاید یہ روٹی جنگوں کے دوران بہت کھائی جاتی رہی ہے اس روٹی کا ذائقہ کبھی ختم نہیں ہوتا ہے۔

    تاریخ گواہ ہے کہ بلوچ قوم نے جتنے درد جنگوں میں  دیکھے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔کاک روٹی کا رواج روایتی طور پر بلوچستان میں ہوتا ہے۔ کاک روٹی بلوچستان میں اکثر سجی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے بھوت خان ہمیشہ کاک روٹی سجی کے ساتھ کھاتا تھا اور سفر پر بھی کاک روٹی لیکر جاتا تھا۔ بھوت خان پینے کے پانی کے لیے خود (کھلی) مشکیزہ بنانا تھا اور بکری کی کھال خود اتارتا تھا اور خود چھوٹی بکری اور بکرا کو ذبح کرنے کے بعد اس کی کھال آرام سے اتارتا تھا پھر اس کو دس ہفتوں تک کھال کو خشک کرتا تھا۔ اور پھر گرم پانی میں ابالتا تھا اور پھر ریشم کے دھاگے سے سی دیتا تھا۔ پھر اپنے ہاتھ کے بنے مشکیزےکا پانی سفر میں پیتا تھا۔

    شیر خان بلوچستان کے غیور چہرہ تھا وہ مختلف کھیلوں میں مہارت رکھتا تھا۔ جن میں کوڈی کوڈی  یا کبڈی کبڈی بہت مشہور تھا۔ شیر خان اکھاڑے میں مخالف کھلاڑیوں کو زور کا جھٹکا زوروں سے لگاتا تھا تو ان کی کمر تک توڑ دیتے تھے ۔  وہ سندھ اور بلوچستان میں کبڈی کے میدان میں  کسی بھی پہلوان کو دھول چٹانے میں مہارت رکھتا تھا۔بلوچستان اور سندھ کے سب حکمران کبڈی میں شیر خان کا مقابلہ دیکھنے آتے تھے تو مقابلہ دیکھ کر دانت چبانے پہ مجبور ہو جاتے تھے۔ شیر خان انتہائی سخی آدمی تھا ۔۔۔۔۔۔وہ اپنے کھیتوں میں ہمیشہ گندم کی فصل خود کرتا تھا اور جب فصل تیار ہوجاتا تو وہ سب علاقے کے غریبوں میں تقسیم کرتا تھا۔ اس کے تقسیم کا طریقہ بہت الگ تھا وہ گندم کے اناج ٹیلے کے اوپر بیٹھ جاتا تھا اور پورے علاقے کو لوگوں کوکہتا تھا کہ آؤ اپنا نصیب لے جاؤ ۔ پھر سب غریب لوگ فجر کی اذان سے لیکر مغرب کی اذان تک گندم اٹھا اٹھا کے تھک جاتے تھے اور شیر خان کو دعائیں دینے لگتے ۔ اگر شیر خان کسی کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور تھا وہ تھا بھوت خان۔۔۔۔۔۔۔ اس کے سامنے سب تدبیریں ناکام تھی۔

    شیر خان رومانوی داستان سننے کا بہت شوقین تھا شیر خان کے گھر میں ایک لالٹین مٹی کے تیل سے جلتی تھی اس کے بیچ میں ایک ایسا دھاگہ ہوتا ہے جو مٹی کے تیل کو اوپر کھینچتا تھا جسے لوگ دیکھ کر حیران رہ جاتے تھے پرانے زمانے  لالٹین ہی روشنی کا ذریعہ ہوتا تھا۔ اسی لالٹین کی روشنی پہ شیر خان مختلف رومانوی  کہانیاں روتوں کو سنتے۔ رات سے صبح تک ایک روپے تک مٹی کا تیل بمشکل جلتا تھا۔حتٰی کہ بلوچ قبائل کی جنگ کے دوران لالٹین تک پہنچنا لازمی تھا۔جب کسی علاقے کے سردار کے محل پر اگر کوئی قبیلہ حملہ آور ہوتا تھا تو جب تک اس کا ہاتھ اسی روشن لالٹین تک نہیں پہنچ پاتا اس وقت تک فتح کو تسلیم نہیں کیا جاتا تھا اور یہی اس لالٹین کی مقبولت کا اصل وجہ تھی یعنی لالٹین  ایک جیت کا نشان تصور کیا جاتاتھا۔شیر خان کے گھر میں جلتی لالٹین کو بجھانے ہمیشہ بھوت خان آ تا تھا اور اپنا شکار کرکے واپس چلا جاتا تھا۔

    بلوچستان کی مزید حیرت انگیز داستانیں


       آب پاشی کے لیے3 ہزار سال قدیم طریقہ ہی موثر

     تاریخی چوکنڈی مقبرے

     کھمبی ایک لذیذ غذا


    شیر خان اس روز بھوت کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر اس وقت کے بلوچ سردار شہداد خان ٹالپر  کے پاس فریاد لیکر پہنچتا ہے ٹالپر سردار شہداد خان نے شیر خان کو ایک چاندی کے کٹورے میں پانی لے کر دیتا ہے اور اس میں ایک تنکا ڈالا تھا تو شیر خان حیران ہوا یہ تنکا کیوں ڈالا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ پانی احتیاط سے پی رہا تھا تاکہ تنکے کو نگل نہ سکیں۔۔۔۔۔۔ شیر خان کو تنکا ڈالنا سمجھ نہیں آ رہا تھا اور سوچنے لگ گیا، بعد میں ٹالپر سردار شہداد خان نے شیر خان کو بتایا کہ تھکا ہوا خالی پیٹ جلدی پانی سے  نقصان ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ شیر خان ٹالپر سردار شہداد خان کی اس دانائی سے بہت متاثر ہوا اور فیصلہ کیا کہ وہ بھوت خان کے قتل کرنے میں ضرور مدد کروائے گا۔

    شہداد خان  ٹالپر سردار نے چار لوگوں کا انتخاب کرکے شیر خان کو دیا تھا جس میں ایک شخص  کے لمبے لمبے بال تھے وہ بھی کمر سے نیچے تک تھے جبکہ ایک شخص قد کا لمبا تھا جبکہ ایک شخص قد کا چھوٹا تھا جبکہ چوتھا شخص انتہائی چالاک تھا جو پیروں کے نشانات دیکھ کر منزل تک شکار کو پہنچا دیتا تھا شیر خان کے سامنے ان چاروں کی خوب تعریفیں شہداد خان ٹالپر نے کی اور کہا کہ جو شخص بھوت خان کا سر قلم کر لائےگا اس کا انعامات سے نوازا جائے گا جو آج تک کسی کو نہیں دیئے گئے ہیں۔ شیر خان خود بھی دنیا کے چالاک ترین لوگوں میں سے ایک تھا مگر بھوت خان تک نہیں پہنچ پا رہا تھا۔

    شیر خان کا مقبرہ

    بھوت خان پورے کھیر تھر کے پہاڑوں پہ حکمرانی کرتا تھا وہ پہاڑوں کا بادشاہ تھا اس وقت بھوت خان کو شکست دینا ناممکن لگ رہا تھا اس وقت کے سب جنگجو بھوت خان سے خوفزدہ تھے کوئی اس کا مقابلہ کرنے کو تیار نہیں تھا مگر شیر خان بھوت خان سے مقابلہ کرنے کو تیار تھا وہ کسی بھی قیمت پہ بھوت خان سر قلم کرنا چاہتا تھا۔

    شیر خان نے شہداد خان ٹالپر کو الوداع کیا اور واپسی کا راستہ اپنایا دو دن کی مسافت کے بعد شیر خان گھر پہنچا رات کو ایک بڑے سفید بکرے کی سجی بنائی گئی اور لائٹیں کی روشنی میں مہمانوں کو  رومانوی کہانی سنائی گئی تھی مسلسل دو دن آرام تک مہمانوں کو آرام دیا گیا تاکہ ساری تھکن دور ہو جائے دو دن کی تھک اتارنے کے بعد یہ لوگ بھوت خان کی تلاش میں کھیر تھر کے پہاڑوں کی جانب نکل پڑے۔

    شیر خان اور اس کے دوست دن رات بھوت خان کو ڈھونڈھنے لگ گئے مگر ان کو بھوت خان کا نام و نشان بھی نہ ملا۔ اسی طرح پورے ایک ہفتے تک کھیر تھر پہاڑوں کی ایک ٹکری(پہاڑی) سے دوسری ٹکری تک بھوت خان کو تلاش کرتے رہے مگر بھوت خان تو بھوت کی طرح غائب ہو گیا تھا۔

    وہ جمعرات کی رات تھی جب یہ پانچوں لوگ بھوت خان کے ٹھکانے پر پہنچ گئے۔بھوت خان اپنی بیوی کے ساتھ سویا ہوا تھا ۔ شیر خان نے جب ان کو دیکھا تو تمام لوگوں کو واپس چلنے کاحکم دیا۔ سب لوگ بھوت خان کو دیکھ کر حیران رہ گئے ، اتنا لمبا قد اتنا لمبا خونخوار تلوار اور نیند میں ایسے خراٹے لے رہے تھا جیسے وہ ابھی بھی جاگ رہا ہو۔شہداد ٹالپر کے چاروں  لوگ بھوت خان کی طرف دیکھ کر کانپنے لگ گئے اور شیر خان کو کہا۔۔۔۔۔ موقع اچھا ہے۔۔۔۔۔ بھوت کو قتل کر دو۔۔۔۔۔۔لیکن شیر خان کہنے لگا ۔۔۔۔۔۔آپ میں کسی میں ہمت ہیں تو ہاتھ لگا کے دیکھائے بھوت خان کو ۔۔۔۔۔ویسے بھی بلوچوں میں ایک رواج ہے کہ ہم عورتوں کے ساتھ سوئے ہوئے مرد کو کبھی نہیں مارتے ہیں۔سب لوگ واپس ہوئے۔۔۔۔۔کھیر تھر کے پہاڑوں کو الوداع کیا۔

    شیر خان  نے چاروں دوستوں کی طرف دیکھا اور کہا بلوچ قوم میں نیند ہمارے لئے مقدس ہوتی ہے ہم نیند کو عبادت کا درجہ دیتے ہیں کسی کی نیند  اس کی عزت ہوتی ہیں اس لیے ہم اپنے چوٹ (جوتوں)کے ساتھ واپس ہوئے ہیں۔ دوستو! نیند  وہ چیز ہیں جن کی تقدس و حفاظت کیلئے ہم بلوچ اپنی جان تک قربان کردیتے ہیں اور اسی طرح دوسروں کے نیند کو بھی عزت و تکریم دینا ہم بلوچوں کا شیوہ اور فرض ہوتا ہے یہ ہماری بلوچ قوم کی روایت اور غیرت کیخلاف ہے کہ ہم کسی کو نیند میں قتل کر دیں۔ ایک سفید ریش لمبے قد والے شخص نے شیر خان جانب دیکھا اور ہاتھ بڑھایا واہ کیا باتیں بتائی ہیں۔ شیر خان سب کو نصیحت کرتے جا رہے تھے۔ چاروں دوستوں نے ہنس کر کہا شیر خان یہ باتیں کہاں سے سیکھیں ہیں ۔شیر خان نے کہاں ۔ہم نے یہ سب باتیں اپنے بزرگوں سے سیکھیں ہیں اور اپنی  آنیوالی نسلوں کو سینہ بہ سینہ منتقل کرتے آ رہے ہیں۔

    شیر خان رومانوی داستان سنتے ہوئے

    شیر خان تکیے سے ٹیک لگائے بیٹھا ہوا تھا جبکہ مہمان تکیوں کے اوپر بیٹھ گئے۔شیر خان نے اپنے بیٹے کو آواز دی ( کلی اور کٹورہ)چھوٹا مشکیزہ اور کٹورہ لاؤ اور مہمانوں کو پانی پلاؤ۔شیر خان کے بیٹے نے گدان کی جانب بڑے بڑے گام کے ساتھ جاکر اماں جیجا کو آواز دی آئی کہ اماں جیجا چھوٹا مشکیزہ اور کٹورہ کہاں ہے ۔ اماں نے کہا کہ بیٹا چھوٹے  مشکیزہ کا پانی اتنا ٹھنڈا نہیں ہوگا۔ آپ اپنے بابا کے کلی کو لے جاؤ جو کہ گندان کے گندار میں باندھا ہوا ہے اور نیا کٹورہ بھی وہاں رکھا ہوا ہے لیکر جاؤاور مہمانوں کو پانی پلاؤاور کلی کا منہ  (بابیرہ) کھول کر پانی کٹورے میں ڈال کر مہمانوں کا ہاتھ بھی دھلا دو اور مہمانوں کو پانی پلا کر کلی پہاڑی میں ایک جاڑی کے ساتھ لٹکا دو اور پھر مہمانوں کا کھانا لے جاؤ۔ سب مہمانوں کو شیر خان نے کھانا کھلایا اور کہا آج رات دوبارہ بھوت کو ڈھونڈھنے نکلیں گے  کاک روٹیاں بھی بن رہی ہیں جو ہمارے ایک ہفتے تک کیلئے کافی ہیں۔

    رات کا اندھیرا چھا رہا تھا۔۔۔۔۔سب لوگوں نے اپنے اپنے تلواروں کو تیز کیا اور پہاڑی کا رخ کیا۔۔۔۔۔۔بھوت خان کی ایک بڑی خصوصیت یہ تھی وہ ہر روز اپنا ٹھکانہ بدلتا رہتا تھا۔کھیر تھر کے لمبے لمبے پہاڑ جو بہت دور دور تک پھیلے ہوئے تھے۔ ان پہاڑوں پر بھوت خان کی حکمرانی چلتی تھی اور اسے پہاڑوں پہ ڈھونڈنا انتہائی مشکل کاموں میں ایک کام تھا۔ مسلسل ایک ہفتے تک بھوت خان کو ڈھونڈھتے رہے وہ جمعرات کا دن تھا جب ایک بکرے کے خون کے نشانات شیر خان کو مل گئے۔ شیر خان نے سب کو بلا کر کہا بھوت خان سے آج رات کسی بھی وقت ہمارا مقابلہ ہوگا۔مسلسل پوری رات شیر خان کو ڈھونڈھنے کے بعد ایک پہاڑ کی ٹکری پہ شیر خان نے بھوت خان کو دیکھا جو تنہا بیٹھا ہوا تھا اور تلوار تیز کر رہا تھا۔

    شیر خان نے بلند آواز دی۔بھوت خان آج آپ سے شیر خان کا مقابلہ ہے۔بھوت خان نے ہنسے ہوئے کہ شیر ہمیشہ اپنا شکار اکیلا کرتا ہے ۔ بھوت خان کی تیز آواز سن کر ٹالپر کے چاروں آدمیوں نے اپنی اپنی تلواروں کو نیچے پھینک دیا۔بھوت خان سمجھ گیا یہ لوگ میرا مقابلہ نہیں کر سکتے ہیں اس لیے انہوں نے اپنے ہتھیار پھینک دیئے ہیں۔ شیر خان نے بلند آواز میں کہا کہ بھوت خان ابھی ہم زندہ ہیں آپ کا مقابلہ تو مجھ سے ہے۔دونوں طرف سے تلواریں نکلیں شیر خان اور بھوت خان کی تلوار تیز تیز چل رہی تھی۔ کبھی شیر خان ان کی زد سے بچ جاتا کبھی بھوت خان ان تلواروں کی زد سے بچ جاتا تھا۔ مسلسل تلوار ایک دوسرے پر برس رہے تھے۔رات کی تاریکی ڈوب رہی تھی اور سورج کی کرنیں نکل رہی تھی۔رات کا اندھیرا ختم ہوچکا تھا لیکن اب تک نہ شیر خان بھوت خان کو نشانہ بنا پا رہا تھا اور نہ ہی بھوت خان شیر خان کو نشانہ بنا رہا تھا۔چاروں تماشائی دور سے مقابلہ دیکھ رہے تھے ۔

    اسی طرح صبح سے دوپہر کا وقت آگیا۔ دونوں کا پیاس کے مارے برا حال تھا۔سامنے پانی کی کلی (مشکیزہ) رکھی ہوئی تھی مگر پانی کوئی پی نہیں رہا تھا۔اسی وقت بھوت خان نے با آواز بلند کہا کہ پانی وہی پیے گا جو زندہ بچے گا۔شیر خان نے جواب میں کہا کہ یہ پانی کا مشکیزہ بھی میرا ہے اور پانی بھی میں پیو ں گا۔اسی دوران شیر خان کی تلوار ایسے تیزی سے چلی کہ بھوت خان کے ایک کان کا ٹکڑا کٹ کر زمیں پہ گر گیا۔بھوت خان ہنسا کہ کان کٹ گیا ہے مگر گردن باقی ہے۔

    بھوت خان کو درد ہو رہا تھا۔تلوار بھی ٹھیک سے چلا نہیں پا رہا تھا۔پھر بھی بھوت خان کے حوصلے پست نہیں ہو رہے تھے ۔ اچانک تیز تلوار بھوت خان کے گردن سے ایسے گزری کہ اس کا سر دھڑ سے الگ ہوگیا۔شیر خان نے جلدی سے کان کا ٹکڑا اٹھایا اور جیب میں ڈال دیا اور اس وقت شیر خان نے  بلند آواز میں کہا۔آجاؤ دوستو! اور  اب اٹھاؤ گردن بھوت خان کا اور پیش کرو سردار شہداد خان ٹالپر کو۔اور ان سے کہنا کہ شیر خان اپنا شکار کبھی نہیں چھوڑتا ہے۔اسی دوران یہ چاروں افراد آپس میں کچھ کھسر پھسر کر رہے تھے اور شیر خان سمجھ گیا کہ یہ لوگ اب مجھے مارنا چاہتے ہیں۔ شیر خان انتہائی چالاک تھا اس نے ان چاروں کو کہا یہ گردن اٹھاؤ اور سردار کو پیش کرو اور اپنا انعام جا کر لو۔ میں یہاں کا باسی ہو مجھے انعام کی کوئی ضرورت نہیں ہیں۔ میرا کام تھا بھوت خان سے علاقےکے لوگوں کو نجات دلانا جو میں انہیں دلا چکا ہوں۔

    ان چاروں نے شیر خان کی گردن اٹھائی اور سردار شہداد خان ٹالپر  کو جا کر پیش کی اور کہا کہ ہم تینوں نے بھوت خان کو مار دیا ہے۔ سردار نے کہا شیر خان کہا ں گیا تھا۔ جواب میں کہا گیا کہ وہ تو بھوت خان کو دیکھ کر بھاگ گیا تھا۔ ہم چاروں  نے اس کو بہت مشکل سے مارا ہے بڑا دلیر شخص تھا ۔یہ رہی بھوت خان کا سر۔ سردار اس کا سر دیکھ کر حیران رہ گیااور کہا آپ کو انعام ضرور  دوں گا مگر ایک ہفتے کے بعد۔۔۔۔۔سردار شہداد ٹالپر سمجھ گیا تھا کہ اتنا بڑا دلیر شیر خان آخر کیوں بھاگا ، کچھ تو راز ہوگا۔ ایک ہفتے تک سب  پتہ چل جائے گا۔

    اس روز فجر کی اذان ہو رہی تھی سردار شہداد خان ٹالپر وضو کرکے نماز پڑھنے لگ گیا ۔وہ پچھلی صف میں کھڑا تھا ۔نماز کے بعد جیسے سردار نے دوسری جانب سلام پھیرا تو نماز میں شیر خان کو بیٹھا ہوا پایا تھا۔ارے شیر خان آپ!۔شیر خان کیسے ہو ؟بھوت خان کو مارنے کے بجائے تم اسے دیکھ کر بھاگ گئے۔شیر خان نے جواب میں کہا کہ یہ جو تمھارے ساتھ بیٹھے چار لوگ تھے سب دھوکے باز ہیں۔ میں نے جب بھوت خان کو مار کر سر تن سے الگ کیاتو انہوں نے مجھے مارنے کا منصوبہ بنایا تھااور مجھے مار کر یہ آپ سے انعام لینا چاہتے تھے۔ اس لیے میں نے لڑائی کے دوران بھوت خان کی جو کان کٹ گئی تھی۔ وہ اپنے پاس رکھی دی تھی تاکہ آپ کو دکھا سکو ں کہ یہ لوگ جنگجو کم دھوکے باز زیادہ ہے۔۔۔۔۔شیر خان نے سرخ رومال کھولا اور کان کا ٹکڑا شہداد خان ٹالپر کو تھماتے ہوئے کہا۔ان سے پوچھا جائےبھوت خان کاسر تو لائے ہیں مگر کان کہاں ہ۔سردار نے شیر خان کو دیکھا اور کہاں مجھے پتا تھا دال میں کچھ کالا ہے۔اس لیے میں نے انہیں اس وقت انعام دینے کے بجائے ایک ہفتے بعد انعام دینے کا فیصلہ کیا تھا مجھے اندازہ  تھا آپ  ایک ہفتے کے اندر میرے پاس آ جاؤ گے اور اپنا انعام لے جاؤ گے۔

    شیر خان اپنی روداد سناتے ہوئے

    شہداد خان ٹالپر سردار نے صبح سب کو دربار میں بلایا اور بلند  آواز دیکر کہا۔دوستوں احوال بیان کرو ۔شیر خان  نے کہا سردار آ پ کو شرف نصیب ہو ، سب سن رہے تھے۔سب کی آنکھیں دو سے چار ہو رہی تھی۔جب شیر خان نے کان کا ٹکڑا سب کو دکھایا تو چاروں نے سر خم کیا اور کہ ہم انعام کے لالچ میں آ گئے تھے اور شیر خان کو مارنا چاہتے تھے۔۔۔۔۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔ شیر خان انتہائی چالاک نکلا۔شہداد خان تالپر سردار نے کہا حیرت کی انتہاء ہوگئی ۔

    شہداد خان ٹالپر  کے یہ اسلحہ بند بہادر جوان جو دو گھنٹے قبل سب کو آنکھیں دیکھا رہے تھے۔ اشاروں میں معزز لوگوں کو سردار سے دور کررہے تھے۔۔۔۔۔ اب وہ خود دورکھڑے بے بسی کی مثال بنے تھے ۔۔۔۔۔دنیا اور تاریخ کے اوراق کو جب پلٹنا شروع کر دو گے تو ایسے بہت سے شخص ملیں گے جنہوں نے انا شہرت ذات ذاتی رشتوں ضد ڈر وخوف آسائش و سہولیات اور دشمن کے مختلف حربوں کو نظر انداز کر کے صرف اور صرف  اپنی مقصد کو حا صل کرنے کیلئے جھوٹ بولا ہے وہ ہمیشہ نقصانات میں گئے ہیں۔

    میر شہداد خاں تالپور کا شمار سندھ کے عظیم جرنیلوں میں کیا جاتا ہے۔تالپور خاندان جن کا تعلق بلوچستان سے تھا جو بعد میں سندھ میں آباد ہوگئے تھے۔ میر شہداد خان تالپور کئی سالوں تک بلوچ لشکر کا سربراہ بنا ہوا تھا ۔ وہ بلوچ علاقوں میں امن امان بحال کرنے میں کام یاب ہوگیا تھا۔ میر شہداد خان ٹالپر نے شیر خان کی جرأت اور بہادری سے بہت متاثر تھے اس لیے  انہیں بلوچستان والی زمین جاگیر کے طور پر عنایت کردی تھی۔

    شیر خان کا مقبرہ جو اب آدھا ڈھ چکا ہے

    شیر خان نے تاریخ کے اوراق میں امن امان کیلئے لازوال قربانیاں دی تھی اور اپنی قوم کو ظلم وجبر  غلامی اور  سماج کے مختلف خوف و خطروں سے نکال دینے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ شیر خان کا مقبرہ نصیرآباد میں موجود ہے آج کل ان کا مقبرہ گرنے پر ہے اور  جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ اس عظیم سپہ سالار کو لوگ آج بھی عزت کی نگاہ سے یاد کرتے ہیں۔


    تحریر وتصاویر: ببرک کارمل جمالی

  • شہیدا- بلوچ تلوار، اونٹ اورانتقام کی ایک لازوال داستان

    شہیدا- بلوچ تلوار، اونٹ اورانتقام کی ایک لازوال داستان

    ببرک کارمل جمالی

    بلوچستان کئی اعتبار سے پاکستان کا نہایت منفرد صوبہ ہے۔ صوبے میں اکثریت بلوچوں کی صدیوں سے آباد ہے۔ آثار قدیمہ کی دریافتوں سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ بلوچستان میں پتھروں کے دور میں بھی آبادی تھی۔ مہر گڑھ کے علاقہ میں سات ہزار سال قبل مسیح کے زمانہ کی آبادی کے نشانات بھی ملے ہیں۔ سکندر اعظم کی فتح سے قبل بلوچستان کے علاقہ پر ایران کی سلطنت کی حکمرانی ہوتی تھی اور ان کے اونٹ گھوڑے بہت مشہور تھے۔ بلوچ سرداروں کے گھوڑے دنیا بھر میں بہت مشہور تھے اگر کوئی سردار (مادہ) گھوڑی پہ سوار ہوتا تھا تو اس گھوڑی کو اس سردار کی بیوی جتنا درجہ دیا جاتا تھا۔ وہی سردار جب انتقال کر جاتا تو اس کی گھوڑی کو اس کے ساتھ دفنا دیاجاتا تھا تاکہ سردار کی گھوڑی پہ کوئی اور سواری نہ کرسکے ۔ حتی ٰکہ کچھ سرداروں کی وفات پہ ان کے کھانے پینے کی اشیاء گلا برتن سونے چاندی کے زیورات سمیت ان کو دفنایا جاتا تھا۔

    بلوچستان میں چوکوری قبرستان کئی علاقوں میں موجود ہے جن میں اکثریت سندھ اور بلوچستان میں موجود ہیں ان کی عمر کتنی ہے یہ کوئی نہیں جانتا ہے نہ ہم نہ آثار قدیمہ کے لوگ۔ آج تک آثار قدیمہ کے لوگوں نے ان قبرستانوں پہ تحقیق تک نہیں کی ہے جس کی وجہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ ان چوکوری قبرستان کے باہر بنی عمارات کی لمبائی ایک سو فٹ سے بھی ذیادہ ہے جبکہ چوڑائی بیس سے تیس فٹ کے درمیان ہوگی۔ بعض بزرگوں کے بقول یہ چوکوری قبرستان اس وقت بنائے گئے تھے جس وقت بلوچستان کی سر زمین کو سخت پانی کی کمی کا سامنا تھا۔ شاید اسی وجہ سے یہ قبرستان پانی کی جگہ اونٹنی کا دودھ سے بنائے گئے تھے۔ کیونکہ اونٹنی کا دودھ آج جتنا نایاب نہ تھا۔ اس وقت اتنا نایاب نہیں تھا کیونکہ اس وقت سرداروں کے پاس ہزاروں اونٹوں کے قافلے ہوتے تھے جبکہ اس وقت سرداروں کی سب سے ذیادہ قیمتی مال متاع اونٹنی کو سمجھا جاتا تھا۔ کیونکہ ان اونٹوں پہ بلوچوں کی آپس کی کئی لڑائیاں بھی ہوئی تھی جو کئی کئی سالوں تک چلی تھی جس کے نشانات آج بھی موجود ہیں،ان نشانیوں کو تلاش کرتے ہم ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں پہ دو بلوچ قبائل بگٹی اور جمالی میں خونی جنگ ہوئی تھی ۔یہ جنگ بھی انہی جانوروں پر شروع ہوئی تھی ، جس کا انجام دونوں سرداروں کی موت پہ ہوا تھا۔

    اس رات گھپ اندھیرا تھا چاند کا نام و نشان دور دور تک نہیں تھا۔ سخی صوبدار خان اور لھڑاں خان گہری نیند میں اوطاق میں سوئے ہوئے تھے۔ رات کے اندھیرے میں ایک شخص جبل خان بگٹی آتا ہے اور ان کا گھوڑا ، اوطاق سے چراکر لے جاتا ہے ۔ صبح جب سخی صوبدار خان اور لھڑا ںخان جمالی نیند سے جاگتے ہیں تو گھوڑا نہ دیکھ کر ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر کہتے ہیں ۔ ہمارے علاقے میں چوری۔۔۔۔۔۔۔ ہاہاہاہا ۔۔۔۔۔۔۔ ہاہاہاہا۔۔۔۔ یہ مسکراہٹ بدلے کی آگ تھی اور پھر لھڑاں خان اور سخی صوبدار خان ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر خوب ہنستے ہیں۔ پھر گھوڑے کے پاؤں کے نشانات لے کر چور کی تلاش میں نکلتے ہیں۔ ان کے لیے چور کو پکڑنا نہ ممکن بات نہ تھی، اگلی صبح صادق سخی صوبدار خان اور لھڑاں خان پاؤں کے نشانات کا پیچھا کرتے چور کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور وہاں اپنا گھوڑا دیکھ کر خاموشی سے آگے گزر جاتے ہیں ۔

    گھوڑا ان دونوں کی طرف دیکھ کے ناچنے لگتا ہے اس چور کے پاس مقامی سردار وںکے ایک سو کے قریب اونٹ اور پچاس کے قریب گھوڑے تھے۔ سخی صوبدار خان اور لھڑاں خان ان کے سارے اونٹ اور سارے گھوڑے کے بدلے میں مار(بدلہ) کر آتے ہیں اور اس شخص کو چوری کے جرم میں قتل کرکے واپس اپنے گوٹھ آتے ہیں اور اس بدلے کی خوشی میں ایک اونٹ کی سجی بنا کے پورے گاؤں کو کھلاتے ہے اور کہتے ہیں یہ بلوچ کے بدلے کی آگ۔۔۔۔ جو کبھی نہیں بجھتی ہے ۔۔۔۔۔۔اور اس آگ کو کبھی بجھا بھی نہیں سکتا ہے ۔۔۔۔ بلوچوں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ وہ کھانہ بنانے کے بعد آگ پہ پانی کبھی بھی نہیں بجھاتے ہے اور نہ جلتی آگ پہ پانی ڈالتے ہیں کیونکہ آگ پہ پانی ڈالنا رزق میں کمی سمجھا جاتا ہے جب تک انگارے خود نہ بجھ جائے تب تک پانی جلتی آگ پہ نہیں ڈالا جاتا ہے۔ اکثریتی بلوچ قبائل رات کو جلائی آگ پہ صبح کا ناشتہ بھی بناتے ہیں اور اس عمل کو گھر میں برکت سمجھتے ہیں ۔

    اس روز کے بعد سخی صوبدار خان اور جبل خان کے قبائل کے لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسی ہو جاتے ہیں اور ایک دوسرے کے بدلے کی آگ میں جلتے ہیں اور جنگ کی تیاریاں شروع کرتے ہیں۔ اور ایک بڑے میدان کا بھی انتخاب کرتے ہیں اور ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کے لیے اونٹ گھوڑے اور تلوار تیار کیے جاتے ہیں۔ سخی صوبدار دو ایسی تلواریں لاتے ہیں جس کے کنداق بھی سونے کےبنے ہوتے تھے ان دو تلواروں کے نام بھی رکھے جاتے ہیں ایک کا نام سسی اور دوسرے کا نام ماروی (سخی صوبدار کے تلوار کا نام سسی تھا جبکہ لھڑاں خان کے تلوار کا نام ماروی تھا) رکھے جاتے ہیں جبکہ سخی صوبدار خان بندوق بھی خریدتے ہیں جو ایک نالی بندوق ہے ( یہ پہلی بار بلوچستان میں استعمال ہونے جارہی ہے) اس کا بھی کنداق سونے کا بنا ہوا تھا اور دوسری جانب بگٹی قبائل کے لوگ بھی ہر قسم کے ہتھیار اکھٹے کرتے ہیں اور ساتھ میں میدان شہیدا کا بھی انتخاب بھی کرتے ہیں جہاں پہ مارو یا مر جاؤں، آر یا پار کا رسم دو بلوچ قبائل میں شروع ہونے جا رہا تھا۔ اگر کوئی چیز معلوم نہیں تھی تو وہ تھی جنگ کی تاریخ ۔ اسی میدان میں ہر روز سخی صوبدار خان اور لھڑاں اپنے اونٹ چرانے کے لیےلے جاتے تھے اور دشمن کے ساتھ جنگ کے انتظار میں تھے۔

    اینٹیں نصب کرنے میں استعمال کیا گیا دودھ – مقامی دعویٰ

    دونوں قبائل کے لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسی ہو گئے تھے جبل خان کے رشتے داروں سمیت ان کے سردار بھی بدلے کی آگ میں جل رہے تھے۔ وہ جبل خان کے خون کا بدلہ لینے کیلئے تلوار اور لوگوں کو اکھٹے کرنے میں مصروف ہو گئے۔ چھ ماہ میں (نہ گیست) نو بیس یعنی ایک سو اسی لوگ اکھٹے کر لیے تھے۔ مرحوم جبل خان (بگٹی) کے قبیلے کے سربراہ نے ایک خط سخی صوبدار خان (جمالی) قبیلے کے سربراہ کو بھیجا کہ ہم اب آپ سے آمنے سامنے جنگ کے لئے تیار ہیں اور آپ کے علاقے میں جنگ کرنے فلا ں تاریخ کو آئیں گے۔ مگر کاشی (موت یا جنگ کی خبر پہنچانے والا) نے سخی صوبدار خان کے لیے آیا خط مقامی وڈیرے کو دے دیا جس نے وہ خط چھپا لی۔ تاکہ اچانک گھمسان کی جنگ ہو اور جنگی لاٹ(سپہ سالار ،کمانڈ ران چیف ) دونوں ختم ہو جائیں۔

    سخی صوبدار خان نے اس وقت پہلی بار بندوق کا نام سنا تھا اور وہیں سے ایک نالی بندوق لیا جس کی قیمت دس اونٹوں کے برابر تھی یہ بندوق دیکھنے والوں کے لئے ایک عجیب چیز تھی۔ سب لوگ بندوق کی آواز سن کے پریشان ہو جاتے تھے کہ آخر یہ کس چیز کا نام ہے جس کی آواز کے ساتھ نشانہ بھی کرتا ہے نشانہ کرنے کے بعد آواز باہر گونجتی ہے۔ شروع شروع میں لوگ اس کی آواز سن کر اتنا خوفزدہ ہو جاتے تھے کہ نو ماہ کی حمل شدہ عورت دوران حمل عورتیں اپنا بچے تک بھی خوف سے گرا دیتی تھی۔ حتی کہ جو عورتیں حمل کے دوران سخت درد میں مبتلا ہوتی تھی ان کو ایک بیل گاڑی میں بٹھا کر بیلوں کو دوڑایا جاتا تھا اور سخی صوبدار کو بولا جاتا تھا ایک فائر دلیر بچے کے لیے کر دیں تاکہ وہ دنیا میں آ سکیں ۔ تو سخی صوبدار خان فائر کر دیتا تو بندوق کی آواز سن کر عورت خوف سے اپنا بچہ پیدا کر دیتی تھی پھر لوگ خوشی سے نہال ہوکر اونٹ یا بکرے کی قربانی کرکے غریب غربا میں تقسیم کر دیتے تھے اور ایک بکرا سخی صوبدار کو بھیجا جاتا تھا جس کا اوطاق میں سجی بنا کر سب دوست احباب آپس میں کھاتے تھے۔ اور بلوچی شاعر و شاعری کی محفل کی جاتی تھی جسے سننے کیلئے دور دور سے لوگ آتے تھے اور شاعری سننے میں مشغول ہوجاتے تھے گاؤں میں کسی بھی جنم گھٹی ( بچے کی پیدائش ) پہ بہت ساری خوشیاں منائی جاتی تھی جب سخی صوبدار خان کو شاہو خان پیدا ہوا تو اس نے اتنے جانوروں کی قربانی کی تھی کہ لوگ گوشت کھا کھا کے تنگ ہوگئے تھے ۔

    بلوچ قوم نے ہمیشہ اپنے قول و فعل کی پاسداری کی ہے اس لیئے جب جنگ کا میدان سجایا جاتا تو سب سے پہلے سردار سپہ سالار کا کردار ادا کرتا تھا اور میدان جنگ کا جھنڈا اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ جب تلواروں کی جنگ ہوتی تھی تو اس جنگ میں تلواروں کے نام رکھے جاتے تھے جیسے سخی صوبدار کے تلوار کا نام سسی تھا جبکہ لھڑاں خان کی تلوار کا نام ماروی تھا اس کے چلانے کا انداز دیکھ کر لوگ آنکھیں ملتے رہتے تھے آخر یہ لوگ تلوار کیسے چلاتے ہیں حتیٰ کہ لھڑاں خان جانوروں کا شکار بھی ماروی سے کرتے تھے۔ جب وہ کسی بھی جانور کا شکار کرتے تھے تو ایک منٹ میں اس جانور کے دس ٹکڑوں میں بانٹ دیتے تھے۔ لھڑاں خان کے تلوار چلانے کا چرچہ دور دور تک مشہور تھا۔ لھڑاں خان اور سخی صوبدار خان یہ جانتے تھے کہ اب بگٹی قبائل کے لوگ جنگ کرنے ہمارے پاس ضرور آئیں گے اور تاریخ بتائیں گے اس لیے انہوں نے پہلے ہی جنگ کی مختصر تیاری کی ہوئی تھی۔ وہ ہمیشہ اونٹ چرانے لے جاتے تھے تو ہر طرف سے ایک بندہ کھڑا کرتے تھے تاکہ مد مقابل اشخاص کا مقابلہ آرام سے کیا جائے۔

    اس روز صبح سویرے ایک طرف سے آندھی کی طرح ایک لشکر دیکھائی دے رہا تھا جو نہ گیست (ایک سو اسی) لوگوں پہ مشتمل قافلہ تھا۔ دوسری طرف صرف نو مردتھے ۔سخی صوبدار خان یہ دیکھ کے حیران رہ گیا تھا کہ آخر یہ لشکر بغیر بتائے کیسے جنگ میں آ رہا ہے ہمیشہ بلوچ قبائل کی جنگ بغیر بتائیں نہیں کی جاتی تھی۔ مگر یہ جنگ بغیر بتائے کی جارہی تھی ،مٹی کا طوفان اڑ رہا تھا۔ وہی پہ ایک بوڑھی عورت نار (کنویں سے بیلوں کے ساتھ پانی نکالنا) پہ کپڑے دھو رہی تھی بگٹی قوم کے سردار کو اس عورت نے للکار کے کہا۔۔۔(اے جوان بکھے روغے)اے جوانوں کہاں جار ہے ہو ۔۔۔۔۔۔ اتنی بڑی لشکر لیکر ۔۔۔۔ تو اس سردار نے گھوڑا روکا اور کہا بی بی آج جنگ ہے۔۔۔۔۔ آپ کے قبائل کے مردوں کے ساتھ۔۔۔۔۔ اچھا تو پتا ہے ۔۔۔۔سخی صوبدار خان اور لھڑاں خان اس لشکر کو جیتنے نہیں دے گے۔۔۔۔۔ سردار اے بلوچ عورت آپ اسی جگہ ٹھہرنا ہم جنگ جیت کے اسی جگہ آپ کو بتائیں گے کہ ہم اپنا بدلہ لیکر واپس جار ہے۔۔۔۔۔۔ اور جیت کا پرچم ہمارے ہاتھ میں ہوگا۔۔۔۔۔۔ اس عورت نے کپڑے دھوتے ہوئے کہا یہ جنگ بھی جنگ ہوگی جس کی جیت کا پتا واپسی پہ چلے گا لشکر آگے بڑھتاچلا جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔ مٹی کا طوفان اونٹوں اور گھوڑوں کے پاؤں سے اڑتا جا رہا تھا۔

    اب گھمسان کی لڑائی دو قبائل میں شروع ہونے جارہی تھی سخی صوبدار خان اور لھڑاں خان نے جب اچانک لشکر دیکھا تو حیران رہ گئے کہ یہ لوگ بغیر پیغام دیئے کیسے جنگ پہ آ گئے۔ میدان سج گیا ایک طرف نو لوگ دوسری طرف نہ گیست( ایک سو اسی ) لوگ آمنے سامنے تھے ۔ بگٹی قبائل کے سردار کو للکار کر سخی صوبدار نے کہا کہ ارے واہ جانی واہ ۔ آپ لوگ اتنے کمزور ہوگئے ہو بغیر بتائے جنگ کرنے آئے ہو، یہ تو مجھے آج پتا چلا ؟۔

    ایک بلوچ ساربان ، اپنے اونٹ کے ساتھ

    دوسری طرف سے آواز آئی کہ ہم نے تو جنگ کا پیغام کاشی (جنگ کا پیغام پہچانے والا)کے ساتھ بھیجا تھا۔

    دوسری جانب سے سخی صوبدار خان کی آواز آئی کاشی نے ہمیں پیغام نہیں دیا ، اس لیے تو ہم اس میدان میں صرف نو لوگ آپ کے مد مقابل ہے مگر یاد کرو ہم نو لوگ آپ کی لشکر کو ایسے جیتنے نہیں دیں گے مقابلہ کانٹے کا ہوگا۔

    مقابلہ شروع ہوتا ہے ۔ایک شخص آگے بڑھتا ہے سخی صوبدار بندوق چلاتا وہ وہی پہ ڈھیر ہوتا ہے۔۔۔۔ اسی طرح دس منٹ میں سخی صوبدار اپنی بندوق سے بیس لوگوں کو فائر کرکے مار دیتا ہے تو بیس لوگ ڈھیر ہو جاتے ہیں باقی ایک سو ساٹھ لوگوں کا مقابلہ نو لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔

    پھر اچانک خاموشی طاری ہوتی ہے بگٹی قبائل کے سردار کی آواز تیز گونجتی ہیں۔۔۔۔۔ ارے واہ سخی صوبدار خان اور لھڑا خان ہم جنگ لڑنے تلوار کے ساتھ آئے ہیں اور یہ آپ یہ کیا چیز لائے ہو جو دور دور سے ہمارے لوگوں کو نشانہ بنا رہا ہے اپنا یہ ہتھیار پھینک دو اور ہمارے ساتھ تلوار کی لڑائی لڑو تاکہ مقابلہ برابری کا ہو۔

    بندوق پھینکتے ہی سخی صوبدار خان ماروی تلوار نکالتا ہے ۔ اس موقع پر سخی صوبدار خان کے دو لوگ ایک سو ساٹھ لوگوں کو دیکھ کہ بھاگ جاتے ہے جن پہ بلوچی میں آج بھی شاعری موجود ہے پھر بھائی خان سخی صوبدار خان کو کہتا ہے کہ ’’زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے جو سرخ سالن کھاتے تھے، وہ بھاگ گئے ہے ہمیں ان کی کوئی فکر نہیں ہے شاید وہ لوگ یہ سمجھ کہ بھاگ گئے کہ ہم جنگ ہار جائیں گے مگر ہم مقابلہ کریں گے، جیت ہار میرے رب کے ہاتھ میں ہے۔

    مقابلہ دوبارہ شروع ہوا لوگوں کا قافلہ تلواروں کے نیچے آ رہا تھا لوگ مر رہے تھے سخی صوبدار خان اور لھڑاں خان کے تلوار سے ایک پلک جھپک میں دو دو لوگ اپنے گھوڑوں سے نیچے گر رہے تھے لشکر لٹ رہا تھا لوگ اونٹوں کے نیچے آ رہے تھے گھوڑے مر رہے تھے۔

    چوکوری قبرستان کا ایک منظر

    اچانک ایک شخص لھڑاں خان کو پیچھے سے وار کرتا ہے اور لھڑاں خان پیچھے مڑ کر اس شخص کا سر دھڑ سے جدا کر دیتا ہے اور کہتا ہے جنگ ہمیشہ آمنے سامنے سے لڑی جاتی ہے۔ وہ اپنا پگڑی اس زخم پہ باندھ کے دوبارہ جنگ میں داخل ہوتا ہے سب لوگ اس کی بہادری دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں اور سات لوگوں کا لشکر ،مد مقابل کے لشکر میں بھی صرف ساٹھ لوگ رہ گئے ہیں ۔

    سات لوگ ایک طرف دوسری جانب ساٹھ لوگ ۔۔۔مقابلہ سخت تھا اونٹ گھوڑے میدان جنگ میں دوڑھ رہے تھے لاشیں جگہ جگہ پہ بکھری پڑی تھی اچانک ایک شخص کی تیز تلوار سخی صوبدار خان کے پیٹ سے آر پار کر جاتا ہے تو بگٹی قبائل کے سردار سمیت سب کی آواز گونجتی ہے کہ جمالی سردار کو تلوار لگی ہے ۔ اس موقع پر لھڑاں خان ہوش و حواس کھو دیتا ہے ۔ اسے کچھ پتا نہیں چلتا کہ وہ کتنے لوگوں کو میدانِ جنگ میں مار رہا ہے ۔اچانک اس کی پیٹھ میں ایک ساتھ دو تلوار گھنپ جاتے ہیں اور وہ زمیں پر گر جاتا ہے ۔سخی صوبدار خان یہ منظر دیکھ کر بہت افسردہ ہوتا ہے۔ ایسے میں بگٹی قبائل کا سردار سخی صوبدار کے پاس آتا ہے اور کہتا ہے اب اپنی ہار مان لو اور تلوار مجھے دے دو۔ صوبدار خان جواب دیتا ہے کہ ہمت ہے تو خود تلوار لے لو کیونکہ بلوچ قوم میں تلوار(ماروی) کی بڑی عزت ہے اور میں یہ عزت زمیں پہ نہیں رکھ سکتا ہوں۔ جیسے ہی وہ آگے بڑھتا ہے سخی صوبدار خان اپنی پیاری تلوار(ماروی) گھماتا ہے کہ بگٹی قبائل کے سردار کا سر قلم ہوجاتا ہے اور سخی صوبدار خان بولتا ہے۔اب ہوا حساب ہو برابر ۔ اب لے جاؤ اپنے سردار کو اور کوئی پوچھے تو کہنا کہ سخی صوبدار خان مارا ہے ۔سب لوگ سخی صوبدار خان کی طرف دیکھ رہے تھے اوراس کی بہادری پہ سلام دل ہی دل میں پیش کر رہے تھے۔ اس دوران بگٹی قبائل کے نو لوگ بچ جاتے ہیں اور باقی بگٹی اور جمالی قبائل کے تمام لوگ وہیں شہید ہو جاتے ہیں۔ اس لئے اس جنگ زدہ علاقے کو شہیدا کے نام سے آج تک پکارا جاتا ہے جہاں پہ ایک سو اکہتر لوگ دونوں قبیلے کے شہید ہوئے تھے ۔

    لھڑا خان کا مقبرہ

    جنگ ختم ہوگئی ۔۔۔ بگٹی قبائل کے لوگوں نے تمام شہیدوں کو وہیں پہ دفن کیا اور اپنے سردار کی لاش واپس لے جارہے تھے وہی عورت نار پہ کپڑے دھو رہی تھی اور بگٹی قبائل کے لوگوں نے اس سے کہا ۔۔دیکھویہ سخی صوبدار خان اور لھڑاں خان کی تلوار سسی اور ماروی ہے۔ ان کو ہم نے شکست دے دی ہے ۔وہ عورت بولتی ہے کہ اس اونٹ پہ کیا لدا ہوا لے جا رہے ہو۔ اس شخص نے کہا ۔اس پہ ہمارے سردار کی لاش ہے۔۔تو وہ عورت ہنستے ہوئے بولی سردار گنوا کے اور جیت کا پرچم لہرا رہے ہو۔ یہ آپ کی ہار ہے ہار، سب لوگ خاموش ہو کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے ہیں اور آگے بڑھنے لگے۔

    آج بھی لھڑاں خان مقبرہ سمیجی میں موجود ہے جو ابھی تک قائم ہے جبکہ سخی صوبدار کا مقبرہ شہیدا میں تھا جو گزشتہ مسلسل سیلابوں کی وجہ سے گر گیا ہے جس کے نشانات آج بھی موجود ہیں۔ آج بھی جمالی قبیلے کا کوئی بچہ جب بولنے لگتا ہے تو اسے جنگ آزمود بلوچستان کی یہ اہم داستان سنائی جاتی ہے تاکہ بچہ بڑا ہوکر دلیر بنے ۔

    صوبدار خان کے منہدم شدہ مقبرے کے آثار