Tag: بجٹ 19-2018

  • کار ساز کمپنیوں کی  نان فائلرز کو گاڑی کی فروخت بند

    کار ساز کمپنیوں کی نان فائلرز کو گاڑی کی فروخت بند

    اسلام آباد : بجٹ 19 -2018 کی منظوری کے بعد مقامی کار ساز کمپنیوں نے نان فائلرز کو گاڑیوں کی فروخت بند کر دی۔

    تفصیلات کے مطابق ٹیکس نا دہندگان اور نان فائلرز  کے گرد گھیرا مزید تنگ ہوگیا، مقامی کمپنیوں کے عوامی نوٹسسز کے مطابق اب نان فائلز گاڑی کی بکنگ نہیں کروا سکیں گے۔

    نوٹسسز میں کہا گیا ہے ایسے افراد جنھوں نے گاڑی پہلے سے بک کرائی ہوئی ہے اور وہ نان فائلرز  ہیں تو ان کو گاڑی کی ڈیلیوری سے پہلے فائلز بننا ہوگا، بصورت دیگر گاڑی کی ڈیلیوری تاخیر کا شکار یا بکنگ کینسل بھی ہوسکتی۔

    خیال رہے کہ بجٹ دوہزار اٹھارہ انیس میں حکومت نے گاڑی کی خریداری کیلئے فائلز ہونا لازمی قرار دیا تھا، اب نان فائلر افراد 50 لاکھ سے زائد رقم کی سرمایہ کاری نہیں کرسکیں گے جب کہ 1200سی سی سے بڑی گاڑی بھی نہیں خرید سکیں گے۔

    کار ساز کمپنیوں کا کہنا ہے کہ اس عمل سےگاڑیوں کی فروخت میں کمی متوقع ہے، چھوٹی گاڑی خریدنے والے ساٹھ فیصد صارفین نان فائلز ہیں۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ایک ماہ کی مہمان حکومت کو پورے سال کا بجٹ پیش کرنا مہنگا پڑ گیا

    ایک ماہ کی مہمان حکومت کو پورے سال کا بجٹ پیش کرنا مہنگا پڑ گیا

    بجٹ عمل کا تجزیہ


    آج قومی اسمبلی کے بجٹ اجلاس میں مسلم لیگ ن نے اپنا چھٹا اور آخری بجٹ پیش کرکے اپنی سیاسی ذمہ داریوں سے سبک دوشی کی طرف آخری اہم قدم اٹھالیا۔ تاہم صرف ایک ماہ کی مہمان حکومت کی طرف سے پورے سال کا بجٹ پیش کرنے سے یہ واضح تاثر ملا کہ اس کا یہ عمل سراسر بدنیتی پر مشتمل ہے۔

    سیاسی حلقوں میں پہلے ہی سے اس متوقع سالانہ بجٹ کے حوالے سے خدشات کا اظہار ہورہا تھا یہی وجہ تھی کہ اپوزیشن احتجاج کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار تھی۔ جیسے ہی بجٹ پیش ہوا، اسمبلی اور ملک کے طول و عرض میں سیاست دانوں کی جانب سے تنقید کا شدید ترین سلسلہ شروع ہوگیا۔ دل چسپ امر یہ ہے کہ سب نے متفقہ طور پر اسے غیر اخلاقی عمل قرار دیا۔

    مجھے یاد نہیں کہ قومی اسمبلی میں کسی جمہوری حکومت کی طرف سے کوئی بجٹ پیش ہوا ہو اور اسے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مسترد نہ کیا گیا ہو، تاہم اس بار معاملہ بالکل مختلف ہے۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا معاملہ ہے جب حکومت محض ایک مہینے کی مہمان ہے اور اس کی جانب سے وزیر خزانہ پورے سال کا بجٹ پیش کرنے کے لیے قومی اسمبلی میں روسٹرم پر آئے۔ معاملہ اس وقت مزید سنگین نوعیت اختیار کرگیا جب حکومت نے بجٹ سے چند گھنٹے قبل اقتصادی امور کے لیے وزیر اعظم کے مشیر مفتاح اسماعیل کو وفاقی وزیر خزانہ کے عہدے پر فائز کردیا۔

    مسلم لیگ ن نے 2013 کے عام انتخابات میں اکثریت حاصل کرکے حکومت بنائی تھی جس کی مدت تیس مئی کو ختم ہورہی ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف کو پاکستان میں جمہوریت کے مقدر کے عین مطابق عدالتی فیصلے کے ذریعے تاحیات نااہل قرار دے کر فارغ کردیا گیا تھا جس کے بعد ن لیگ کی جانب سے شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم مقرر ہوئے۔

    اپنے آخری بجٹ میں موجودہ حکومت نے جس بدنیتی کا اظہار کیا ہے، اس پر سیاسی حلقوں سے شدید رد عمل کا سلسلہ جاری ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے ن لیگ کو یقین ہو کہ اگلی باری بھی وہی لے گی، اس لیے اس نے اپوزیشن کے متوقع احتجاج اور تنقید کو نظرانداز کرکے بجٹ کی تیاری پر سسٹم کو لگایا۔ اگلی حکومت کسی اور جماعت کے ہاتھ میں آتی ہے تو ن لیگ کی اس پریکٹس کی لایعنیت مزید واضح ہوجائے گی جب وہ بجٹ کی ساخت میں بنیادی تبدیلیاں کرنے بیٹھے گی۔

    بجٹ عمل پر رد عمل


    خورشید شاہ

    قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے بجٹ کو واضح طور پر غیر اخلاقی عمل قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ن لیگ نے آنے والی حکومت کا حق چھینا۔

    شاہ محمود قریشی

    پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ آج ن لیگ نے نئی منفی اور غیر اخلاقی روایت ڈال دی ہے۔ انھوں نے ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ چار ماہ کے لیے بھی قانونی طور پر بجٹ پیش کیا جاسکتا ہے۔

    تفصیل کے لیے یہ پڑھیں۔۔۔ موجودہ حکومت کے بجٹ کا کوئی اخلاقی جواز نہیں: شاہ محمود قریشی

    سراج الحق

    امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے بجٹ کو معاشی زبوں حالی کی تصویر قرار دیا۔ ان کا یہ نکتہ بھی اہمیت کا حامل ہے کہ ن لیگ نے اپنے اختیارات سے تجاوز کا مظاہرہ کیا ہے۔

    آصف علی زرداری

    پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بجٹ کو ن لیگ کی لالچ کا عکس قرار دیا۔ انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ حکومت نے پبلک سروس ڈیولپمنٹ پروگرام کے منصوبوں میں کمیشن کے لیے بجٹ پیش کیا ہے۔

    مصطفیٰ کمال

    پاکستان سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال نے بھی کراچی سے بجٹ پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اسے اگلی حکومت کے حق پر شب خون قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بجٹ کے اعداد و شمار غلط ہیں۔

    یہ بھی پڑھیں۔۔۔ موجودہ حکومت آنے والی حکومت کا حق چھین رہی ہے: خورشید شاہ

    قمر زمان کائرہ

    پیپلزپارٹی کے سینئر رہنما قمر زمان کائرہ نے بھی ن لیگ کی بدنیتی کی طرف اشارے دیے۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت تیس جون تک پہلے ہی بجٹ منظور کرچکی تھی، پھر سالانہ بجٹ کیوں۔ یہ اہم نکتہ بھی بیان ہوا کہ بجٹ تبدیل کرنے پر کیا آئندہ اسمبلی ہائی جیک نہیں ہوگی؟

    بلاول بھٹو

    پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی ٹوئٹ کے ذریعے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگلی حکومت کا حق چھن گیا، اب وہ چار بجٹ پیش کرسکے گی۔ بلاول بھٹو کے ایک اہم نکتے کے مطابق یہ سوال اٹھتا ہے کہ کیا یہ بجٹ انتخابات سے قبل دھاندلی کی ایک صورت نہیں ہے؟

    اسے بھی ملاحظہ کریں۔۔۔ سراج الحق نے بجٹ کو معاشی زبوں حالی کی تصویر قرار دے دیا

    شیری رحمان

    پیپلزپارٹی کی رہنما شیری رحمان نے کہا کہ حکومت تو چھٹا بجٹ پیش ہی نہیں کرسکتی، وہ کھربوں کا قرض آنے والی حکومت کے کاندھوں پر چھوڑ کر جارہی ہے۔

    رضا ربانی

    سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے بھی بجٹ پیش کرنے کے معاملے کو بدنیتی پر مبنی عمل قرار دیا جس کا واضح ثبوت یہ بھی تھا کہ اسے ایک غیر منتخب شخص نے پیش کیا۔

    فواد چوہدری

    پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے بھی کہا کہ یہ بجٹ دراصل انتخابات پر اثرانداز ہونے کا ایک حیلہ ہے۔

  • بجٹ 19-2018، شوبز انڈسٹری کے لیے پیکج، مستحق فنکاروں کو فنڈ دینے کا اعلان

    بجٹ 19-2018، شوبز انڈسٹری کے لیے پیکج، مستحق فنکاروں کو فنڈ دینے کا اعلان

    اسلام آباد: حکومتِ پاکستان نے آئندہ مالی سال کے بجٹ 19-2018 میں فلم انڈسٹری کی بحالی کے لیے بڑے پیکج کا اعلان کردیا جس کے تحت مستحق فنکاروں کو حکومت کی جانب سے فنڈ دیے جائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کے سیشن میں  نومنتخب وفاقی وزیر خزانہ کا بجٹ پیش کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’پاکستان کی فلم انڈسٹری کا شمار سن 1960 کی دہائی میں دنیا کی تیسری بڑی انڈسٹری کے طور پر ہوتا تھا جس کی بحالی کے لیے حکومت پیکج کا اعلان کررہی ہے‘۔

    اُن کا کہنا تھا کہ فلم انڈسٹری کے لیے بجٹ پیش کرنے کا مقصد پاکستانی ثقافت کو فروغ دینا اور انڈسٹری کے لیے ترقی کا سازگار ماحول فراہم کرنا ہے جو کو  آئندہ مالی سال کے بجٹ میں خاص طور پر مدنظر رکھا گیا ہے۔

    مزید پڑھیں: مالی سال19-2018 کے لیے وفاقی حکومت نے 59.32 کھرب کا بجٹ پیش کردیا

    وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ڈرامہ ، فلم سازی اور سینیما گھروں میں استعمال کیے جانے والے آلات کی درآمد پر عائد کسٹم ڈیوٹی کی شرح کم کر کے تین فیصد جبکہ سیلز ٹیکس کو بھی کم کر کے پانچ فیصد کیا جائے گا۔

    اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے مستحق فنکاروں کے لیے فنڈ بھی قائم کیا جائے گا جس کے ذریعے انہیں حکومت کی جانب سے مالی امداد بھی دی جائے گی علاوہ ازیں فلم کے مختلف پروجیکٹس پر سرمایہ کاری کرنے والے افراد یا کمپنیوں کے لیے 5 سال تک انکم ٹیکس دینے کی شرط بھی رکھی گئی جبکہ پاکستان میں بنائی جانے والی غیر ملکی فلموں پر عائد انکم ٹیکس پر 50 فیصد چھوٹ دی جائے گی۔

    یہ بھی پڑھیں: بجٹ 19-2018، اے آر وائی بنا عوام کی آواز

    مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ اس ضمن میں تیار کی جانے والی پالیسی کی مزید تفصیلات وفاقی وزیر مملکت مریم اورنگزیب آئندہ چند ماہ میں پیش کریں گی جس کے بعد صورتحال مزید واضح ہوجائے گی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کےلیے سوشل میڈیا پرشیئر کریں۔

  • بجٹ 19-2018، اے آر وائی بنا عوام کی آواز

    بجٹ 19-2018، اے آر وائی بنا عوام کی آواز

    اسلام آباد: حکومتِ پاکستان نے آئندہ مالی 19-2018 کا بجٹ پیش کردیا جس کا حجم 59 کھرب 30 ارب روپے ہے، اے آر وائی نے اپنے توسط سے حکومت تک عوامی مطالبات پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی جن میں سے کچھ کو منظور کر کے بجٹ میں پیش کیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کی حکومت نے اپنا آخری اور چھٹا بجٹ آئندہ مالی سال کے لیے پیش کیا، جس کا حجم 59 کھرب 30 ارب جبکہ ٹیکس وصولیوں کا ہدف 4435 ارب روپے متعین کیا گیا۔

    قومی اسمبلی میں ہونے والے بجٹ اجلاس میں نومنتخب وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بجٹ پیش کیا جس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ دو سو سے زائد اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کیے جانے کا اعلان کیا۔

    مکمل بجٹ دیکھنے کے لیے لنک پر جائیں: بجٹ 2018-19: وفاقی حکومت نے 56.61 کھرب کا بجٹ پیش کردیا

    آئندہ مالی سال کے بجٹ کا خسارہ جی ڈی پی کا4.9فیصد رکھا گیا جبکہ آمدن کا تخمینہ 5661 ارب روپے رکھا گیا ہے، حکومت نے ترقیاتی پروگراموں کے لیے 1030 ارب، دفاع کے لیے 1100 ارب مختص کیے جبکہ ٹیکس وصولیوں کا ہدف 4435 ارب مقرر کیا۔

    عوام نے کیا مطالبات کیے؟ اسکرول کریں

    مفتاح اسماعیل نے بتایاکہ نوجوانوں کی تعلیم کے لیے وزیراعظم یوتھ پروگرام کے لیے 10 ارب جبکہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے لیے 125 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز ہے، حکومت نے بچوں کی تعلیم کے لیے 100 فیصد داخلے کے لیے پروگرام تشکیل دیا جبکہ خوراک اور نشوونما کے لیے 10 ارب روپے مختص کیے گئے۔

    تعلیم کے لیے پیش کیا جانے والا بجٹ

    حکومت نے اعلیٰ تعلیم،بنیادی صحت،نوجوانوں کےپروگراموں کیلئے57ارب مختص کیے جبکہ صحت کی بنیادی سہولتوں کیلئے37ارب روپےمختص کیے اور 50 لاکھ سے زائد خاندانوں کو مالی معاونت فراہم کرنے کا بھی اعلان کیا۔

    مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ نوجوانوں کو تکنیکی اور پیشہ وارانہ تعلیم کی غرض سے حکومت کے پاس لیپ ٹاپ،کمپیوٹرز کی درآمدپر سیلزٹیکس ختم کرنےکی تجویز ہے۔

    صحت کے لیے پیش کیا جانے والا بجٹ

    مسلم لیگ ن کی حکومت کے پاس آئندہ مالی سال کے بجٹ کے لیے کینسرکی ادویات، خیراتی اداروں،اسپتالوں کی مشینری،آلات پردرآمدی ڈیوٹی ختم کرنےکی تجویز ہے جبکہ حکومت نے پینشن ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پنشنز کے لیے 342 ارب روپے مختص کرتے ہوئے 10 فیصد جبکہ ہاؤس رینٹ الاؤنس میں بھی 50 فیصد اضافے کی تجویز پیش کی علاوہ ازیں پنشن کی کم سے کم حد 6 ہزار سے بڑھا کر 10 ہزار مقرر کردی گئی اور 75 سال کے ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کے لیے کم از کم پنشن 15 ہزار روپے مقرر کرنے کی تجویز سامنے آئی۔

    یہ بھی پڑھیں:  بجٹ 19-2018، عوام حکومت سے کیا چاہتے ہیں؟

    اے آر وائی کے توسط سے گذشتہ روز عوام نے حکومت کو آئندہ مالی سال کے بجٹ میں غریبوں کے لیے ریلیف، تعلیم، صحت اور نوجوانوں کی تعلیم و روزگار کے لیے نئے مواقع فراہم کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

    عائشہ ظہیر نامی صارف کا کہناتھا کہ ’ٹیکس کم اور غریبوں کو تعلیم کی سہولت آسان و یقینی بنائی جائے، بے روزگار افراد کو مواقع فراہم کیے جائیں اس کے علاوہ خواجہ سراؤں کو بھی برابر کے حقوق ملنے چاہیں‘۔


    صغریٰ قریشی کا کہنا تھا کہ ’تعلیمی نظام کو بہتر بنایا جائے اور خصوصاً سندھ کے غریب باصلاحت طالب علموں کو اسکالر شپ فراہم کی جائیں تاکہ پاکستان کا مستقبل سنور سکے‘۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ ’نوجوانوں کو مستقبل ملازمتیں فراہم کی جائیں‘۔

    ملک یعقوب نامی صارف کا کہنا تھا کہ سرکاری اسکولوں میں موجود کم تعلیم یافتہ اساتذہ کو نوکریوں سے فارغ کیا جائے، نظام تعلیم کو جدید سلیبس سے بہتر بنایا جائے اور اسکولوں میں موجود اساتذہ کی کمی کے ساتھ فرنیچر، چوکیدار کی سہولیات بھی فراہم کی جائے اور طبقاتی نظام تعلیم کو فوری طور پر ختم کیا جائے‘۔ اُن کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ ’صحت کا بجٹ بڑھایا جائے‘.

    آسیہ علی نے مطالبہ کیا تھا کہ ’بجٹ میں پینشنرز کا ضرور خیال رکھا جائے‘.

    دلاور راجپوت نامی صارف کا کہناتھا کہ ’زراعت، صحت اور تعلیم کے لیے بہتر اقدامات کیے جائیں‘.

     سیکڑوں صارفین نے اپنی آواز پہنچانے کے لیے اے آر وائی کے پلیٹ فارم کو استعمال کیا تاہم ادارے نے قواعد و ضوابط کو مدنظر رکھتے ہوئے اعلیٰ معیار اور تہذیب و اخلاق کے دائرے میں کیے گئے مطالبات سامنے لائے اور عوامی  آراء کو حکمرانوں تک پہنچانے کی پوری کوشش کی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • بجٹ 19-2018، عوام حکومت سے کیا چاہتے ہیں؟ مطالبات سامنے آگئے

    بجٹ 19-2018، عوام حکومت سے کیا چاہتے ہیں؟ مطالبات سامنے آگئے

    کراچی: وفاقی حکومت آج آئندہ مالی سال 19- 2018 کے لیے بجٹ پیش کرنے جارہی ہے، عوام حکومت سے کیا ریلیف چاہتے ہیں؟ اس ضمن میں اے آر وائی نیوز نے صارفین کی آراء حاصل کیں۔

    تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کی حکومت کل چھٹا اورآخری بجٹ پیش کرنے جارہی ہے جس پر اپوزیشن کی مختلف جماعتوں کی جانب سے تنقید بھی جاری ہے کیونکہ بعض سیاسی رہنماؤں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومتی مدت آئندہ ماہ ختم ہورہی ہے، ایسے میں مالی سال کا بجٹ پیش کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

    اے آر وائی نیوز نے اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اور عوام کو پلیٹ فارم فراہم کیا کہ وہ اپنی آواز حکمرانوں تک پہنچائیں، عوام نے جہاں حکومت سے مختلف مطالبات کیے وہیں مفت تعلیم، لوڈ شیڈنگ، پڑھے لکھے نوجوانوں کو ملازمتوں کے نئے، لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے ساتھ ضروریات زندگی فراہم کرنے پر زور دیا۔

    مزید پڑھیں: حکومتی اقتصادی سروے 2017-18 جاری، ترقی کی شرح 5.8 فیصد، غربت میں کمی

    جن صارفین نے مطالبات پیش کیے انہیں اے آر وائی نیوز حکمرانوں تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کرے گا تاکہ جمہوری حکومت عوامی مسائل کو حل کرسکے۔

    عائشہ ظہیر نامی صارف کا کہناتھا کہ ’ٹیکس کم اور غریبوں کو تعلیم کی سہولت آسان و یقینی بنائی جائے، بے روزگار افراد کو مواقع فراہم کیے جائیں اس کے علاوہ خواجہ سراؤں کو بھی برابر کے حقوق ملنے چاہیں‘۔

    عبدالوہاب نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’بجٹ جون میں بنتا ہے اور حکومت کی مدت مئی میں ختم ہورہی ہے، موجودہ حکومت کے پاس بجٹ پیش کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں کیونکہ چار ماہ کا منی بجٹ پیش کرنا نگراں حکومت جبکہ آئندہ مالی سال کا بجٹ نئی حکومت کی
    ذمہ داری ہے‘۔

    تکنیکی طور پر مطلوبہ صارف کے مطالبے پرعمل درآمد ممکن نہیں کیونکہ عبوری حکومت کے پاس بجٹ پیش کرنے کا اختیار نہیں ہوتا(ادارہ)۔

    اسٹیفن اختر نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’میری ایک پاکستانی ہونے کے ناطے صرف اتنی سی گزارش ہے کہ غریب لوگوں پر رحم کیا جائے، اُن کے بچوں کا بھی دودھ اور روٹی پر اُتنا ہی حق ہے جتنا کسی امیر کا ہے، خدارا اس بجٹ میں غریبوں کا خاص خیال رکھا  جائے‘۔

    صغریٰ قریشی کا کہنا تھا کہ ’تعلیمی نظام کو بہتر بنایا جائے اور خصوصاً سندھ کے غریب باصلاحت طالب علموں کو اسکالر شپ فراہم کی جائیں تاکہ پاکستان کا مستقبل سنور سکے‘۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ ’نوجوانوں کو مستقبل ملازمتیں فراہم کی جائیں‘۔

    ملک یعقوب نامی صارف کا کہنا تھا کہ سرکاری اسکولوں میں موجود کم تعلیم یافتہ اساتذہ کو نوکریوں سے فارغ کیا جائے، نظام تعلیم کو جدید سلیبس سے بہتر بنایا جائے اور اسکولوں میں موجود اساتذہ کی کمی کے ساتھ فرنیچر، چوکیدار کی سہولیات بھی فراہم کی جائے اور طبقاتی نظام تعلیم کو فوری طور پر ختم کیا جائے‘۔ اُن کا یہ بھی مطالبہ تھا کہ ’صحت کا بجٹ بڑھایا جائے اور ہر یونین کونسل کی سطح پر کم از کم 20 بستروں پر مشتمل جدید سہولیات سے آراستہ اسپتال بنائے جائیں‘۔

    مہک خان نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’تعلیمی یافتہ نوجوانوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع فراہم کیے جائیں اور سرکاری و پرائیوٹ ملازمین کی تنخواہوں کو برابر کیا جائے‘۔

    آسیہ علی نے مطالبہ کیا کہ ’بجٹ میں پینشنرز کا ضرور خیال رکھا جائے‘

    دلاور راجپوت نامی صارف کا کہناتھا کہ ’زراعت، صحت اور تعلیم کے لیے بہتر اقدامات کیے جائیں‘

    فیض فیضی نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’ بینک میں پیسے نکلوانے اور جمع کروانے، موبائل بیلنس اور کالز پر عائد ٹیکس کم کردیں، شعبہ تعلیم پر زیادہ توجہ دینی چاہیے‘۔

    محمد افسر علی نے مطالبہ کیا کہ 55 سال سے زائد عمر کے ہر پاکستانی (مرد، عورت) کو اولڈ ایج بینفٹ دیا جائے۔

    چوہدری لیاقت نے مطالبہ کیا کہ ’اولڈ ایج بینیفٹ کی نوکری کی معیاد 15 سال سے کم کی جائے اور عمر کی حد 50 سال مقرر کی جائے‘۔

    غلام عباس نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’مزدور کی تنخواہ کم از کم 20 ہزار کی جائے کیونکہ مہنگائی کی شرح کے حساب سے تنخواہیں بہت کم ہیں‘۔

    خادم حسین قادری نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’بے روزگاری کا خاتمہ کیا جائے اور اس کے لیے گریجویٹ و نان گریجویٹ نوجوانوں کو روزگار کے مواقع، اعلیٰ تعلیم، شعبہ صحت میں اے گریڈ میڈیسن کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے‘۔

    معصوم نیازی نے مطالبہ کیا کہ  محکمہ پولیس کی تنخواہوں میں چالیس فیصد اضافہ کیا جائے۔

    ابوہوا نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’عوام کو مفت شناخت اور مفت قبر مہیا کی جائے‘۔

    اقصیٰ نیازی نامی صارف کا کہنا تھا کہ ’کنٹریکٹ ڈاکٹرز کو مستقل نوکری فراہم کی جائے‘۔

    محمد طیب مغل نامی صارف نے مطالبہ کیا کہ ’غریبوں کو بالکل مفت طبی سہولیات دی جائیں‘۔

    ٹویٹر پر بھی صارفین نے مطالبات پیش کیے

     


    نوٹ: فیس بک پوسٹ پر سیکڑوں صارفین نے کمنٹس کیے تاہم ادارے نے قواعد و ضوابط کو مدنظر رکھتے ہوئے اعلیٰ معیار اور تہذیب و اخلاق کے دائرے میں کیے گئے کمنٹس کو اسٹوری میں شامل کیا ہے، عوامی سنجیدگی اور اُن کی آراء کو حکمرانوں تک پہنچانے کی پوری کوشش کی جائے گی۔