Tag: بجٹ 2019 -2020

  • سندھ حکومت نے عام شہریوں ، کاروباری افراد پر ٹیکسوں کا نیابم گرا دیا

    سندھ حکومت نے عام شہریوں ، کاروباری افراد پر ٹیکسوں کا نیابم گرا دیا

    کراچی : سندھ حکومت نے عام شہریوں ،کاروباری افراد پر ٹیکسوں کا نیابم گرادیااور اربوں روپے کے نئے ٹیکس لگانے کا فیصلہ کرلیا ہے، آن لائن سروسز ہوں یا فنی تعلیم کے ادارے، مسجد، مدرسہ، امام بارگاہ، مندر، چرچ یا ٹرسٹ ٹیکس سب کو دینا ہوگا۔

    تفصیلات کے مطابق مالی سال 20-2019 کے لیے سندھ کا بجٹ میزانیہ جاری کردی، سندھ حکومت نے مجوزہ فنانس بل دو ہزار انیس بیس میں اربوں روپے کے نئے ٹیکس متعارف کرادیے۔

    مجوزہ فنانس بل میں آن لائن موٹرسائیکل، کار، ٹیکسی سروس پر جی ایس ٹی عائدکرنےکی تجویز جبکہ کچرا اٹھانے اور ری سائیکلنگ پر بھی سیلز ٹیکس آن سروسز عائد ہونے امکان ہے۔

    رہائشی فلیٹس پر مجموعی مالیت کاڈیڑھ فیصد ٹیکس دینا ہوگا جبکہ پروفیشنل ٹیکس کی شرح 500 سے بڑھا کر 1500کرنے اور کمپنیوں پر ٹیکس کی شرح بڑھا کر 1500 سے لے کر 30 ہزار تک کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

    مزید پڑھیں : سندھ بجٹ 2020-2019: 12 کھرب 17 ارب کا بجٹ پیش

    سندھ حکومت نے فنی تعلیم کے تمام اداروں پر جی ایس ٹی آن سروسز کے نفاذ کا فیصلہ کیا ہے جبکہ مسجد، مدرسہ ، امام بارگاہ ، مندر، گرجا گھرٹرسٹ پر500 روپے ٹیکس کی تجویز دی ہے۔

    فنانس بل میں غیرمنقولہ جائیداد پر ڈیڑھ فیصد کی شرح سےٹیکس کےنفاذ اور پانی کی بورنگ، تعمیراتی مشینری کرائے پر دینے پر بھی جی ایس ٹی آن سروسز اور پیٹرول پمپس، سی این جی اسٹیشنز پر سالانہ 5ہزار ٹیکس کی تجویز ہے۔

    مجوزہ فنانس بل دو ہزار انیس بیس کے مطابق آن لائن اشیا کی خریدوفروخت پر صوبائی جی ایس ٹی وصول کیاجائےگا اور انوائس کا اجرا نہ کرنے پر کاروبار منجمد کردیاجائےگا۔

  • پنجاب کا بجٹ: 160 ارب روپے ٹیکس وصولی کا ہدف دیا جائے گا

    پنجاب کا بجٹ: 160 ارب روپے ٹیکس وصولی کا ہدف دیا جائے گا

    لاہور: پنجاب حکومت کی جانب سے بجٹ کل پیش کیا جائے گا، بجٹ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ پنجاب ریونیو اتھارٹی کو 160 ارب روپے ٹیکس وصولی کا ہدف دیا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر خزانہ پنجاب ہاشم جواں بخت کل پنجاب اسمبلی میں بجٹ پیش کریں گے، بجٹ کا مجموعی تخمینہ 2200 ارب روپے رکھا گیا ہے۔

    بجٹ دستاویز کے مطابق پنجاب کو این ایف سی میں 1494 ارب روپے ملنے کی توقع ہے، صوبائی آمدنی کا حجم 368 ارب روپے ہوگا، پنجاب ترقیاتی بجٹ 350 ارب روپے رکھے جانے کی تجویز ہے۔

    یہ بھی پڑھیں:  بجٹ 2020 -2019: تحریک انصاف نے 70 کھرب 22 ارب کا بجٹ پیش کردیا

    گریڈ 16 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فی صد اضافے، گریڈ 17 سے گریڈ 20 تک سرکاری ملازمین کی تنخواہ میں 5 فی صد اضافے کی تجویز ہے جب کہ گریڈ 21 اور 22 کے ملازمین کی تنخواہ نہیں بڑھائی جائے گی، ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 10 فی صد اضافے کی تجویز ہے۔

    بجٹ دستاویز کے مطابق 36 فی صد ٹیکس اضافے کے ساتھ ٹیکس تخمینہ 283 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، پنجاب میں بیوٹی پارلرز، ہیئر ڈریسرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی تجویز، ڈاکٹرز، ٹیلرنگ کے شعبے کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانے کی تجویز ہے۔

    صوبائی وزرا کی تنخواہوں میں 10 فی صد کمی کی تجویز بھی پیش کی گئی ہے۔

  • گرفتاریوں کا مقصد بجٹ سے توجہ ہٹانا تھا: قمر زمان کائرہ

    گرفتاریوں کا مقصد بجٹ سے توجہ ہٹانا تھا: قمر زمان کائرہ

    اسلام آباد: پاکستان پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریوں کا مقصد بجٹ سے توجہ ہٹانا تھا۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے قمر زمان کائرہ نے کہا کہ بجٹ سے قبل کچھ گرفتاریاں کی گئیں، کوشش کی گئی کہ بجٹ کی بجائے توجہ گرفتاریوں کی طرف چلی جائے، وزیر اعظم نے خطاب میں سیاسی تلخی بھی پیدا کرنے کی کوشش کی تاکہ بجٹ پر توجہ نہ جائے۔

    [bs-quote quote=”قرضوں کے اعداد و شمار غلط دیے گئے، 24 ہزار ارب قرضے کو 30 ہزار ارب کہا جا رہا ہے۔” style=”style-8″ align=”left” author_name=”قمر زمان کائرہ”][/bs-quote]

    پی پی رہنما نے کہا کہ وزیر اعظم ان معاملات سے توجہ نہیں ہٹا سکتے، چھوٹی چھوٹی چیزوں پر ٹیکس لگایا جا رہا ہے، ملک کا ہر طقبہ چیخ رہا ہے اور حکومت شادیانے بجا رہی ہے، کسان بھی رو رہا ہے، سرکاری ملازمین الگ سے پریشان ہیں۔

    انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان نے گرفتاریوں پر کہا اللہ کا فضل ہو گیا، یہ فضل تو پہلے بھی ہو چکا ہے، 1958 میں بھی ہوا، 1977 اور 1999 میں بھی ہوا۔

    قمر زمان نے کہا کہ وزیر اعظم نے تاخیر کر کے رات 12 بجے خطاب کیا، پھر ان کا لہجہ بھی منصب کے مطابق نہیں تھا، کیا وزیر اعظم کو اس لہجے میں بات کرنی چاہیے تھی؟

    پی پی رہنما کا کہنا تھا کہ یہ تاثر دیا گیا کہ ماضی کی حکومتیں صرف قرضے لیتی رہیں اور کیا کچھ نہیں، قرضوں کے اعداد و شمار بھی غلط دیے گئے، 24 ہزار ارب قرضے کو 30 ہزار ارب کہا جا رہا ہے، حالاں کہ وزارتِ خزانہ نے سارا ریکارڈ بیان کر دیا ہے، ہمارے وزیر خزانہ تو آپ کے مشیر خزانہ ہیں ان ہی سے پوچھ لیں۔

    [bs-quote quote=”وزیر اعظم عمران خان نے گرفتاریوں پر کہا اللہ کا فضل ہو گیا، یہ فضل تو پہلے بھی ہو چکا ہے، 1958 میں بھی ہوا، 1977 اور 1999 میں بھی ہوا۔” style=”style-8″ align=”right” author_name=”پی پی رہنما”][/bs-quote]

    قمر زمان کائرہ نے مزید کہا کہ بجٹ کا ایک بڑا حصہ ہمیشہ سے قرضوں کی ادائیگی میں جاتا ہے، 60 فی صد جی ڈی پی سے زائد قرضے نہیں لیے جا سکتے، 2017-18 میں ن لیگ نے 1950 ارب کا قرضہ واپس کیا، ہمارے دور میں جی ڈی پی کا 4.5 فی صد قرض کی صورت میں واپس ہوا، لیکن یہ حکومت لوگوں کو اتنا پریشان کرنا چاہتے ہیں کہ عوام کی جیب پر ڈاکے سے توجہ ہٹے۔

    رہنما پیپلز پارٹی کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے نے اپنی سربراہی میں کمیشن بنانے کی بات کی ہے، 4 محکمے تو پہلے ہی آپ کے ماتحت ہیں، کیا اس ارادے سے کمیشن بنایا جا رہا ہے کہ کسی کو نہیں چھوڑیں گے، ایسا ہے تو شوق سے کمیشن بنائیں، ہم کارکردگی پر مناظرے کے لیے بھی تیار ہیں، افسوس ہے کہ وزیر اعظم کو غلط معلومات دی جا رہی ہیں۔

    قمر زمان کائرہ نے اسپیکر قومی اسمبلی سے گرفتار سیاسی رہنماؤں کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا بھی مطالبہ کیا، یہ بھی کہا کہ گرفتاریاں ہو چکیں اب عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے، انھوں نے اس تشویش کا بھی اظہار کیا کہ آج پھر سے پاکستان میں قوم پرستی کو ہوا دی جا رہی ہے، سیاسی مسائل کا جواب سیاسی حکومتیں ہی دیتی ہیں۔

  • دس سال میں قرضہ 24 ہزار ارب تک کیسے پہنچا؟ وزیر اعظم کا اعلیٰ سطح کا کمیشن بنانے کا اعلان

    دس سال میں قرضہ 24 ہزار ارب تک کیسے پہنچا؟ وزیر اعظم کا اعلیٰ سطح کا کمیشن بنانے کا اعلان

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اپنی نگرانی میں ہائی پاورڈ کمیشن بنا رہے ہیں، 10 سال میں قرضہ 24 ہزار ارب تک کیسے پہنچا، اس کی رپورٹ بنے گی۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم نے بجٹ کے بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ اور پی پی نے معیشت کو غیر مستحکم کرنے کی پوری کوشش کی، زرداری کی 100 ارب روپے کی منی لانڈرنگ سامنے آئی۔

    انھوں نے کہا کہ ہائی پاورڈ کمیشن میں آئی ایس آئی، ایف آئی اے، نیب، ایف بی آر اور ایس ای سی پی شامل ہوگی، آیندہ ملک میں کوئی کرپشن نہیں کر سکے گا، اب ملک مستحکم ہوگیا، اور میں ان کے پیچھے جاؤں گا۔

    وزیر اعظم نے کہا کہ یہ کہتے ہیں احتجاج کریں گے، سڑکوں پر نکلیں گے حکومت گرا دیں گے، میں ان سے کہتا ہوں کہ میں اپنے گھر میں رہتا ہوں، اپنا خرچہ خود کرتا ہوں، قوم سے وعدہ ہے چوروں اور ڈاکوؤں کو نہیں چھوڑوں گا۔

    عمران خان نے مزید کہا کہ میں وہ ہوں جو ایک لاکھ لوگوں کے اسٹیڈیم میں جاتا تھا تو سب برا بھلا کہتے تھے، اب تھوڑے سے لوگوں سے مجھے کچھ فرق نہیں پڑتا، میری جان بھی چلی جائے، چوروں کو نہیں چھوڑوں گا۔

    وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے کہا کہ یہ وہ بجٹ ہے جو نئے پاکستان کے نظریے کی عکاسی کرے گا، غریبوں کے لیے بجٹ میں فنڈز رکھے گئے ہیں۔

    وزیر اعظم نے کہا کہ میرا نظریہ پاکستان کے اوپر آ گیا، اب قوم اوپر اٹھے گی، یہ کوئی سوئچ نہیں جو عمران خان دبائے گا اور نیا پاکستان بن جائے گا، بڑے بڑے برج جو آج جیلوں کے اندر ہیں کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

    وزیر اعظم نے کہا کہ چیئرمین ایف بی آر اور میں اب اکٹھے کام کریں گے، 5500 ارب کا ٹارگٹ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے، شبر زیدی کے ساتھ مل کر ایف بی آر کے ادارے کو ٹھیک کروں گا، اسی قوم سے ٹیکس اکٹھا کرنا ہے مجھے آپ کی ضرورت ہے، ایمنسٹی اسکیم کا پورا فائدہ اٹھائیں، 30 جون کے بعد تمام بے نامی پراپرٹیز ضبط ہو جائیں گی۔

    عمران خان نے مزید کہا کہ ملک کے لیے قربانیاں دینے پر مسلح افواج کو سلام پیش کرتا ہوں، مسلح افواج نے صرف جونیئرز کی تنخواہیں بڑھائیں، مسلح افواج کے بجٹ سے متعلق احسن اقدام کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔

    انھوں نے کہا کہ ماضی میں سپریم کورٹ کے ججز کو خریدا گیا، نیب کو ان دو جماعتوں نے مل کر بنایا تھا، لیکن جب سے ہماری حکومت آئی ہے تو جمہوریت ٹھیک سے نہیں چل رہی، دو مختلف نظریے جب پارلیمنٹ ہوتے ہیں تو جمہوریت چلتی ہے، پارلیمنٹ میں گفتگو ہوتی ہے تو ایک تسلسل بنتا ہے یہ جمہوریت کی خوب صورتی ہے، اپوزیشن پہلے دن سے تقریر نہیں کرنے دے رہی، میں نے ان کا کیا بگاڑا تھا۔

    عمران خان نے کہا ’جب میں اسمبلی میں جاتا ہوں تو یہ بد تمیزی کرتے اور شور مچاتے ہیں، لیکن بلیک میلنگ اور دباؤ میں آ کر این آر او نہیں دوں گا، ملک کو مقروض تاریخ کے دو این آر او نے کیا ہے، دونوں پارٹیوں کی حکومتیں کرپشن کی وجہ سے گئی ہیں، اپوزیشن پر مقدمات میں نے نہیں بنائے، ن لیگ کی دو بار حکومت آئی تو دونوں بار آصف زرداری کو جیل میں ڈالا۔

    وزیر اعظم نے کہا کہ مشرف کی حکومت آئی تو نواز شریف کو این آراو دیا گیا، پہلی بار این آر او مشرف نے 2002 میں دیا، 2008 میں یہ واپس آئے اور دونوں نے چارٹر آف ڈیموکریسی کیا، آصف زرداری اور نواز شریف نے نیب کا چیئرمین مل کر لگایا، یہ دونوں سمجھتے تھے کہ انھیں کوئی نہیں پکڑے گا، شہباز شریف کے خاندان نے 26 ملین ڈالر کی منی لانڈرنگ کی، 10 سال میں 30 کمپنیاں بنائیں۔

  • عوام دوست بجٹ پیش کرنے پر وزیراعظم کی پوری ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے، شہباز گل

    عوام دوست بجٹ پیش کرنے پر وزیراعظم کی پوری ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے، شہباز گل

    لاہور: ترجمان وزیراعلیٰ پنجاب شہباز گل نے کہا ہے کہ عوام دوست بجٹ پیش کرنے پر وزیراعظم کی پوری ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ترجمان وزیراعلیٰ پنجاب شہباز گل نے کہا ہے کہ عمران خان کی قیادت میں پاکستانی تاریخ میں پہلی بار ایسا بجٹ پیش کیا گیا، حقیقت پسندانہ اور عوام دوست بجٹ پیش کرنے پر حکومت کو مبارک باد دیتے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ماضی میں حکومتیں اعدادو شمار کی جعل سازی سے عوام کو گمراہ کرتی رہی ہیں، ہماری حکومت نے ماضی کی طرح ترقی کے بلند و بانگ دعوے نہیں کیے ہیں۔

    ترجمان وزیراعلیٰ پنجاب شہباز گل نے کہا کہ حکومت کی جانب سے متعین اہداف پائیدار ترقی کی بنیاد بنیں گے۔

    مزید پڑھیں: بجٹ 2019 -2020: تحریک انصاف نے 70 کھرب 22 ارب کا بجٹ پیش کردیا

    واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے آئندہ مالی سال 2020-2019 کے لیے 70 کھرب 22 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا گیا، حکومت کی جانب سے ملک بھر کے مجموعی ترقیاتی کاموں کے لیے 18 ارب روپے مختص کیے گئے، جبکہ مزدور کی کم سے کم تنخواہ کو 17ہزار 500 روپے مختص کیا گیا،

    بجٹ میں گریڈ 1سے 16گریڈ تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 10فیصد اضافہ کیا گیا اسی طرح 17سے20گریڈ تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 5فیصد اضافہ کیا گیا جبکہ 21سے22گریڈ تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے کااعلان کیا گیا۔

    وفاقی کابینہ اور اراکین اسمبلی نے رضاکارانہ طور پر اپنی تنخواہوں میں 10 فیصد کمی کا فیصلہ کیا۔ بجٹ کا حجم 67 کھرب روپے مختص کیا گیا جبکہ ٹیکس وصولیوں کا ہدف 550 ارب روپے مختص کیا گیا۔

  • بجٹ 2020 -2019: تحریک انصاف نے 70 کھرب 22 ارب کا بجٹ پیش کردیا

    بجٹ 2020 -2019: تحریک انصاف نے 70 کھرب 22 ارب کا بجٹ پیش کردیا

    اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف کے وزیرِ مملکت برائے محصولات حماد اظہر نے آج اپنی حکومت کا پہلا سالانہ بجٹ پیش کیا گیا ہے، بجٹ کا حجم 70.22 کھرب روپے رکھا گیا ہے۔ ترقیاتی کاموں کے لیے 1800 ارب روپے مختص کیے  گئے ہیں، ٹیکس وصولیوں کا ہدف 550 ارب رکھا گیا ہے۔ وفاقی بجٹ کا خسارہ 3560ارب روپے ہوگا۔

    بجٹ میں وفاقی وزراؤں کی تنخواؤں میں 10 فیصد کمی کا فیصلہ کیا گیا ہے جبکہ گریڈ 21 اور 22 کے سرکاری افسران کی  تنخواہوں میں اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ چارلاکھ سالانہ آمدن والوں کو انکم ٹیکس دینا ہوگا۔

    وزیرمملکت حماداظہر نے بجٹ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کامجموعی قرضہ 31000ارب روپےہے، کمرشل قرضے سود پر لئے گئے ،بیرونی قرضوں کا حجم ضرورت سے زیادہ تھا،جاری کھاتوں کاخسارہ20ارب ڈالراورتجارتی خسارہ32ارب ڈالرتھا۔بجلی کےنظام کاقرضہ 1200ارب روپے تک پہنچ گیا تھا۔

    ماضی میں روپےکی قدرمستحکم رکھنےکیلئےاربوں ڈالرجھونکےگئے ستمبر2017میں روپیہ گرنے لگا ترقی کا زور ٹوٹ گیا، سرکاری اداروں کاخسارہ1300ارب روپےرہا۔امپورٹ ڈیوٹی میں اضافےسےتجارتی خسارےمیں کمی ہوئی۔

    بجٹ تقریرکا عکس

    وزیراعظم پراعتمادکےباعث ترسیلات زرمیں2ارب ڈالرکااضافہ ہوا،12ارب ماہانہ گردشی قرضےمیں کمی آئی۔ دوست ممالک سے 9.2ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ملی ۔صنعتی اوربرآمدی شعبےکورعایتی نرخوں پربجلی،گیس فراہم کی گئی حکومتی اقدامات کےباعث برآمدات میں اضافہ ہوا۔

    آئی ایم ایف سے 6ارب ڈالر کامعاہدہ ہوگیا ہے۔آئی ایم ایف بورڈکی منظوری کےبعدمعاہدےپرعملدرآمدہوگا،آئی ایم ایف معاہدےکےبعداضافی امدادبھی میسرآئےگی ۔

    مالیاتی نظم وضبط کےباعث سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ۔سعودی عرب سےمؤخرادائیگی پرتیل کی سہولت حاصل ہوئی،اگلےسال تیل کی درآمدی بل میں اگلےسال مزیدکمی آئیگی۔95ترقیاتی منصوبےمکمل کرنےکیلئےفنڈز جاری کئےگئے۔

    اسٹیٹ بینک کومزیدخودمختاری دی گئی ہے ، افراط زر کو مانیٹری پالیسی کےذریعے قابو کیاجارہاہے۔ سنگل ٹریژری اکاؤنٹ بنایا گیاہے،145ارب روپےکےریفنڈزجاری کئے۔

    بجٹ تخمینہ

    رواں سال وفاقی بجٹ کا تخمینہ 7،022 ارب روپے رکھا گیا ہے جو کہ گزشتہ مالی سال سے تیس فیصد زیادہ ہے جبکہ وفاقی آمدنی کا تخمینہ 6،717 روپے ہے۔

    ٹیکس نظام میں تبدیلی

    گزشتہ حکومت کی ناقص پالیسی کے باعث بد ترین نتائج سامنے آئے، ٹیکس بیس میں 9 فی صد کمی ہوئی، ٹیکس اقدامات وسط مدتی پالیسی کا حصہ ہیں، ٹیکس چھوٹ اور مراعات میں مرحلہ وار کمی کی جائے گی۔

    حکومت کی توجہ مؤثر اور بے خوف ٹیکس کمپلائنس پر رہے گی، نظام میں بہتری کے لیے حقیقی آمدن پر ٹیکس لگایا جائے گا، ٹیکس بیس بڑھانے کے لیے معیشت کو دستاویزی بنایا جائے گا۔

    حکومت نے اثاثے ظاہر کرنے کی اسکیم کے ذریعے اصلاحات فراہم کی ہیں۔

    ٹیکسز

    کارپوریٹ سیکٹر کے کاروبار چلانے والے افراد کا ٹیکس ریٹ کم رکھا جائے گا، کمپنیوں کے لیے کارپوریٹ ریٹ میں اضافہ نہیں کیا جا رہا، ٹیکس ریفنڈ کے لیے بانڈز جاری کرنے کی تجویز ہے۔

    انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرنے کا طریقہ کار انتہائی سادہ بنایا جا رہا ہے، حکومت پرمژری نوٹ جاری کرے گی، نئے گریجویٹس کو ملازمت فراہم کرنے والی کمپنیوں کو ٹیکس کریڈٹ دیا جائے گا، نان فائلرز پر 50 لاکھ سے زائد مالیت کی جائیداد کی خریداری پر پابندی ختم کر دی ہے۔

    گزشتہ حکومت کی انکم ٹیکس چھوٹ سے 80 ارب کا نقصان ہوا، 6 لاکھ روپے سے زائد سالانہ آمدنی پر 5 سے 35 فی صد پروگیسو ٹیکس لگایا جائے گا، تنخواہ دار طبقے کے لیے انکم ٹیکس کی کم از کم حد 6 لاکھ روپے کی تجویز ہے، غیر تنخواہ دار طبقے کے لیے انکم ٹیکس کی کم از کم حد 4 لاکھ روپے کی تجویز ہے۔

    ترقیاتی بجٹ

    گزشتہ برس ترقیاتی کاموں کے لیے دس کھرب تیس ارب روپے وفاقی سطح پر مختص کیے گئے تھے ، رواں برس تقریبا اٹھارہ کھرب روپے مختص کیے  گئے ہیں۔ اس میں سے 950 ارب روپے وفاقی منصوبوں کے لیے اور باقی صوبائی منصوبوں کے لیے ہیں۔

    ترقیاتی بجٹ میں حکومت صحت، پانی وغیرہ کے لیے 93 ارب مختص کرے گی، حکومت کوشش کرے گی کہ قیمتوں میں کم از کم اضافہ ہو، عالمی منڈی میں قیمتوں میں اضافہ ہو تو بھی غریبوں پر بوجھ نہیں ڈالیں گے، 950 ارب روپے وفاقی ترقیاتی بجٹ کے لیے رکھے گئے ہیں، ترقیاتی بجٹ کی ترجیحات میں صاف پانی، سرمایہ کاری اور بجلی کی فراہمی شامل ہیں۔

    نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے لیے 156 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، پشاور کراچی موٹر وے کے سکھر سیکشن کے لیے 19 ارب روپے مختص، انسانی ترقی کے لیے 60 ارب روپے کی تجویز ہے۔ کوئٹہ ڈیویلپمنٹ پیکج کا حجم 10.2 ارب روپے رکھا گیا ہے، 43.5 ارب روپے کراچی کے منصوبوں کے لیے رکھے گئے ہیں۔

    دفاعی بجٹ

    پاکستان اپنے مخصوص جغرافیے کے سبب سیکیورٹی خدشات کا شکار ہے، دفاع پر کثیر رقم خرچ کرنا ہماری سلامتی کے لیے ضروری ہے۔ گزشتہ برس دفاع کے لیے 11 کھرب روپے مختص کیے گئے ، پاک فوج کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ اس سال دفاعی بجٹ میں اضافہ نہیں لیا جائے گا، اس سال دفاعی بجٹ 1150 ارب  پر مستحکم رہے گا۔

    توانائی

    پاکستان میں توانائی کے شعبے کو بہتر بنانے کے لیے مستقل اقدامات کی ضرورت ہے گزشتہ برس اس مد میں 138 ارب روپے رکھے گئے تھے، رواں برس توانائی کی مد میں 80 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ 300 یونٹ سے کم استعمال کرنے والوں کے لیے 200 ارب روپے کی سبسڈی رکھی گئی ہے تاکہ انہیں لاگت سے بھی سستی بجلی فراہم کی جاسکے۔

    اعلیٰ تعلیم

    پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا حصول ایک انتہائی مشکل امر ہے اور اس مد میں بہت کم رقم مختص کی جاتی ہے، گزشتہ برس اس میں میں 57 ارب روپے مختص کیے گئے تھے، رواں برس اس ضمن میں 43 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

    صحت

    اٹھارویں ترمیم کے بعد سے صحت صوبائی معاملہ ہے لیکن وفاق بھی صحت کی سہولیات کی فراہمی میں اپنا حصہ ڈالتا ہے گزشتہ برس صحت کی مد میں37 روپے مختص کیے گئے تھے۔ صحت اورپانی کیونکہ لازم و ملزوم ہیں لہذا صحت و پانی کے منصوبوں کے لیے مجموعی طور پر 93 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

    زراعت

    پاکستان کی معیشت میں زراعت ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہےگزشتہ سال اس شعبے کی دی جانے والی سبسڈی صوبوں کی صوابدید پر چھوڑی گئی تھی ، اس سال زراعت کے فروغ کے لیے 280 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

    کمزور طبقے کے لیے خصوصی پالیسی

    کمزور طبقے کے لئے  حکومت نے چار خصوصی پالیسیز ترتیب دی ہیں، کمزور طبقے کو بجلی پرسبسڈی دینے کے  لئے 200 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔

    غربت کے خاتمے کے لئے نئی وزارت کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، 10 لاکھ افراد کے لئے نئی راشن کارڈ اسکیم شروع کی جارہی ہے۔ احساس پروگرام کےتحت وظیفے 5000 روپے سے بڑھا کر 5500 روپے کیے جائیں گے۔

    عمر رسیدہ افراد کے لئے احساس گھر بنانے کا کام شروع کر دیا گیا ہے، بچیوں کے وظیفے کی رقم 750 سے بڑھا کر 1000 روپے کی جا رہی ہے. کمزور طبقے کی سماجی تحفظ کے لئے بجٹ مختص کیا گیا ہے۔

    کارپوریٹ سیکٹر کے کاروبار چلانے والے افراد کا ٹیکس ریٹ کم رکھا جائے گا، کمپنیوں کے لیے کارپوریٹ ریٹ میں اضافہ نہیں کیا جا رہا، ٹیکس ریفنڈ کے لیے بانڈز جاری کرنے کی تجویز ہے۔

    گاڑیوں پر ٹیکس میں اضافہ

     حالیہ بجٹ میں ایک ہزار سی سی تک کی گاڑیوں پر ٹیکس میں 2.5 فی صد اضافہ کیا گیا ہے۔ 2 ہزار سی سی تک کی گاڑیوں میں ٹیکس میں5 فی صد، جب کہ 2 ہزار سے زائد سی سی کی گاڑیوں میں ٹیکس میں 7.5 فی صد اضافہ کیا گیا ہے۔

    بلوچستان پیکیج

    بجٹ میں کوئٹہ ڈیولپمنٹ پیکج کا حجم 10.2ارب روپے رکھا گیا ہے، بلوچستان کے کسانوں کے لئے مشترکہ اسکیم شروع کی ہے۔

    ملازمین کی تنخواہیں

    گریڈ  سے 16 تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فی صد اضافہ، 17 سے 20 گریڈ تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 5 فی صد اضافہ، 21 سے 22 گریڈ تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

    تمام پنشنرز کی پنشن میں 10 فی صد اضافہ کیا جا رہا ہے، معذور افراد کے وظیفے میں 1000 روپے کا اضافہ کیا گیا ہے۔

    وزرا نے رضا کارانہ طور پر تنخواہوں میں 10 فی صد کمی کا تاریخی فیصلہ کیا۔ بجٹ میں کم سے کم تنخواہ 17500 روپے کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

    کسٹم ڈیوٹی

    درآمدات سے حاصل ہونے والے ریونیو میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، 1600 سے زائد ٹیرف لائن پر امپورٹ ڈیوٹی ختم کی جا رہی ہے، حکومت کسٹم ٹیرف کے اصلاحاتی منصوبے کو حتمی شکل دے رہی ہے۔

    امپورٹڈ اشیا پر کم سے کم ٹیکس لگایا جا رہا ہے، غیر بُنے کپڑے کی امپورٹ میں کمی کی جا رہی ہے، لکڑی کے فرنیچر میں استعمال کی کچھ اشیا پر ڈیوٹی کم کی جا رہی ہے، بجٹ میں لکڑی پر ڈیوٹی کم کی جا رہی ہے۔

    خوردنی تیل صاف کرنے والے پلانٹس کے پارٹس پر ڈیوٹی کم کر رہے ہیں، اسمگلنگ کم کر کے ضایع ہونے والے محصولات کو واپس لایا جائے گا، ادویہ میں استعمال کیمیکل پر ڈیوٹی 3 فی صد کم کی جا رہی ہے، ایل این جی پر 5 فی صد کسٹم ڈیوٹی عاید کر دی گئی ہے۔

    جنرل سیلز ٹیکس

     

    جنرل سیلز ٹیکس میں کسی قسم کا اضافہ نہیں کیا جا رہا، دودھ کریم اور فلیورڈ دودھ پر 10 فی صد ٹیکس عاید ہوگا ، بھٹے کی اینٹوں پر 17 فی صد سیلز ٹیکس کم کرنے کی تجویز ہے، بھٹے کی اینٹو ں پر سیلز ٹیکس کی شرح علاقائی بنیاد پر رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔

    موبائل فون پر عاید ٹیکس میں 3 فی صد کمی کر رہے ہیں، چینی پر سیلز ٹیکس کی شرح 8 فی صد سے بڑھا کر 17 فی صد کر دی گئی ہے، امید ہے چینی پر صرف ساڑھے 3 روپے فی کلو اضافہ ہوگا۔

    تمام ایس آر اوز کا خاتمہ کیا جا رہا ہے، خشک دودھ پر سیلز ٹیکس کی شرح کم کر کے 10 فی صد کر دی گئی ہے، 17 فی صد کی معیاری شرح کو بحال کر دیا گیا ہے، چمڑے کی مصنوعات پر سیلز ٹیکس 17 فی صد بڑھا دیا گیا ہے۔

    ریسٹورنٹ، بیکرز، کھانے پینے کی اشیا فراہم کرنے والوں پر سیلز ٹیکس میں کمی کی گئی ہے، ان پر سیلز ٹیکس کی شرح 17 فی صد سے کم کر کے ساڑھے 7 فی صد کر دی گئی ہے، اسٹیل میں استعمال اسکریپ پر 5600 فی صد میٹرک ٹن سیلز ٹیکس بحال کر دیا گیا ہے۔

    سونا، چاندی، ہیرے اور زیورات پر ٹیکس لگایا جائے گا۔ سیلز ٹیکس کی رجسٹریشن کے عمل کو بھی آسان بنایا جا رہا ہے۔ ماربل کی صنعت کو ملنے والی بجلی پر ایک روپے 25 پیسے فی یونٹ ٹیکس کی تجویز ہے۔ کمپنیوں پر 29 فی صد ٹیکس ریٹ 2 سال کے لیے منجمد کرنے کی تجویز ہے۔

    کولڈ ڈرنکس اور مشروبات

     

    کولڈ ڈرنکس اورمشروبات پر13 فی صد فیڈرل ایکسائزڈیوٹی، گھی اور خوردنی تیل پر 17 فی صد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عاید کی گئی ہے، خوردنی تیل کے بیجوں پر بھی رعایت ختم کی جائے گی، برانڈڈ گھی اور تیل پر 17 فی صد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عاید کی گئی ہے۔