Tag: بجٹ

پاکستان بجٹ 2024-25 7 جون 2024 کو قومی اسمبلی میں پیش کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔

بجٹ کا سائز: خیال کیا جاتا ہے کہ بجٹ کا کل حجم 1700 ارب روپے سے زیادہ ہوگا۔
اہداف: بجٹ کے اہداف میں معاشی نمو کو فروغ دینا، افراط زر کو کم کرنا، اور مالیاتی خسارے کو کم کرنا شامل ہیں۔
تجوزات: توقع ہے کہ بجٹ میں ٹیکسوں میں اضافے، اخراجات میں کمی، اور کاروباری ترقی کے لیے اقدامات شامل ہوں گے۔

  • امریکہ نےاقوام متحدہ کےبجٹ میں 28 کروڑڈالرکی کٹوتی کردی

    امریکہ نےاقوام متحدہ کےبجٹ میں 28 کروڑڈالرکی کٹوتی کردی

    نیویارک: امریکہ نے اقوام متحدہ کے بجٹ میں 28 کروڑ50 لاکھ ڈالر کی کٹوتی کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو امریکی عوام کی سخاوت کا ناجائزفائدہ اٹھانے نہیں دیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکہ نے اقوام متحدہ کے بجٹ میں 28 کروڑ50 لاکھ ڈالر کی کٹوتی کردی، اقوام متحدہ کے نئے بجٹ برائے سال 19-2018ء میں یہ کٹوتی کی گئی ہے۔

    اقوام متحدہ کے اجلاس میں اگلے دو سال کے لیے 5 ارب 39 کروڑ 60 لاکھ روپے کا بجٹ پیش کیا گیا تھا۔

    امریکی سفیر نکی ہیلی کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کے بجٹ میں کٹوتی درست سمت میں ایک بڑا قدم ہے، کسی کو امریکی عوام کی سخاوت کا ناجائزفائدہ اٹھانے نہیں دیں گے۔

    امریکی سفیر کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی ناکامیاں اور شاہ خرچیاں سب جانتے ہیں اس لیے اقوام متحدہ کے بجٹ میں 285 ملین ڈالرز کم کیے جا رہے ہیں۔


    یروشلم سے متعلق امریکی فیصلے کو اقوام متحدہ نے مسترد کردیا


    خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے قرارداد منظور کی تھی جس میں امریکہ سے کہا گیا تھا کہ وہ یروشلم کواسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا فیصلہ واپس لے۔

    امریکی فیصلے کے خلاف قرارداد کے حق میں 128 جبکہ 9 ممالک نے مخالف کی تھی اور35 ممالک نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا تھا۔

    امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ میں امریکی فیصلے کی مخالفت کرنے والے ممالک کو امداد بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • سندھ کے بجٹ میں ماحولیات کا شعبہ نظر انداز

    سندھ کے بجٹ میں ماحولیات کا شعبہ نظر انداز

    کراچی: پاکستان کو موسمیاتی تغیرات (کلائمٹ چینج) سے پہنچنے والے تباہ کن نقصانات کے باجود صوبہ سندھ کے مالی سال 18-2017 کے بجٹ میں ایک بار پھر شعبہ ماحولیات کو نظر انداز کردیا گیا۔

    رواں سال کے بجٹ میں شعبہ ماحولیات کے لیے صرف 40 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں جو سالانہ ترقیاتی پروگرام کی رقم کا صرف 0.11 فیصد حصہ ہے۔

    المیہ یہ ہے کہ ماحولیات کے شعبہ کو نظر انداز کرتا ہوا یہ بجٹ ماحولیات کے عالمی دن یعنی 5 جون کو ہی پیش کیا گیا۔

    گزشتہ برس مالی سال 17-2016 کے بجٹ میں ماحولیات کے لیے 40 کروڑ 55 لاکھ روپے کا بجٹ رکھا گیا تھا جس میں سے 10 کروڑ 55 لاکھ روپے ماحولیاتی ترقیاتی پروگرام جبکہ 30 کروڑ روپے ساحلی علاقوں کی ترقی و بحالی کے لیے رکھے گئے تھے۔

    مزید پڑھیں: پاکستان کے لیے ماحولیاتی خطرات سے نمٹنا کیوں ضروری؟

    رواں سال نہ صرف اس رقم میں مزید کمی کردی گئی بلکہ بجٹ میں تحفظ ماحول سے متعلق کسی پروگرام کا اضافہ بھی نہیں کیا گیا۔

    یہی نہیں گزشتہ سال جن ماحولیاتی منصوبوں کو مکمل کرنے کا ہدف رکھا گیا تھا وہ بھی تاحال ادھورے ہیں۔

    ماہرین ماحولیات نے اس امر کو حکومت کی غیر سنجیدگی قرار دیتے ہوئے تحفظ ماحول کے لیے زیادہ سے زیادہ کام کرنے پر زور دیا ہے۔

    پنجاب میں تحفظ ماحول

    دوسری جانب صوبہ پنجاب کے مالی سال 18-2017 کے بجٹ میں ماحولیات کا بجٹ گزشتہ برس کے 10 کروڑ 85 لاکھ سے بڑھا کر 50 کروڑ 40 لاکھ روپے کردیا گیا۔

    صوبے میں تحفظ ماحول اور پائیدار ترقی کے حوالے سے 7 نئی اسکیموں کا آغاز بھی کیا جارہا ہے۔

    مزید پڑھیں: دنیا کے مستقبل کے لیے پائیدار ترقیاتی اہداف

    علاوہ ازیں پنجاب میں پائیدار ترقیاتی اہداف کے حصول کے لیے کئی نئے اقدامات بھی کیے جارہے ہیں جن میں ایجنسی برائے تحفظ ماحول کے اہلکاروں کی استعداد میں اضافے کے پروگرام، صنعتی آلودگی کی نگرانی، عوامی شعور و آگاہی اور ماحولیاتی آلودگی سے نمٹنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال شامل ہے۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل رواں برس وفاقی بجٹ 18-2017 میں موسمیاتی تغیرات اور ماحولیات سے متعلق 81 کروڑ 50 لاکھ روپے کا بجٹ مختص کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • بجٹ 18-2017: سب سے بڑے خطرے کے  لیے سب سے کم رقم

    بجٹ 18-2017: سب سے بڑے خطرے کے لیے سب سے کم رقم

    اسلام آباد: پاکستان میں پہلی بار گزشتہ 2 سال سے موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے لیے اقدامات اٹھائے جارہے ہیں اور بجٹ میں ایک بڑی رقم اس کے لیے مختص کی جارہی ہے۔

    تاہم پاکستان کو کلائمٹ چینج کے حوالے سے جن نقصانات کا سامنا ہے اس حوالے سے یہ رقم نہایت قلیل ہے۔ علاوہ ازیں اس حوالے سے اب تک جو اقدامات اٹھائے گئے ہیں وہ بھی ناکافی ہیں اور پاکستان کو مزید بڑے پیمانے پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

    گزشتہ سال موسمیاتی تغیرات یعنی کلائمٹ چینج کے 4 منصوبوں کے لیے 1 ارب 2 کروڑ 70 لاکھ روپے مختص کیے گئے تھے تاہم رواں برس کے اقتصادی جائزے کے مطابق وزارت برائے کلائمٹ چینج نے اس میں سے صرف 58 کروڑ روپے خرچ کیے ہیں۔

    اس امر کو وزارت کی نا اہلی کہیں یا غفلت، البتہ یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس شعبے میں (حکومت کی حد تک) ماہرین کی بے حد کمی ہے جو صورتحال کا درست جائزہ لے کر صحیح منصوبہ بندی کرسکیں، اور جو ماہرین پاکستان میں موجود ہیں، حکومت ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا ضروری نہیں سمجھتی۔

    پاکستان کا کلائمٹ چینج ’445 الفاظ‘ پر مشتمل

    سنہ 2015 میں 2 سال قبل جب دنیا کے بہت سے ممالک کلائمٹ چینج سے نمٹنے کا عزم لیے پیرس میں جمع تھے (کوپ 21 کانفرنس کے لیے) اور دنیا کو بچانے کے لیے ایک تاریخ ساز معاہدہ اپنی تشکیل کے مراحل میں تھا تب اس معاہدے میں شامل ہونے کے لیے ہر ملک نے ایک حکمت عملی کی دستاویز جمع کروائی تھی جسے آئی این ڈی سی کا نام دیا گیا۔

    اس دستاویز میں ہر ملک نے کلائمٹ چینج سے ہونے والے اپنے داخلی نقصانات اور ان کے ممکنہ سدباب کا تفصیلی ذکر کیا۔ علاوہ ازیں اس میں یہ عزم بھی ظاہر کیا گیا کہ مستقبل میں کون سا ملک اپنے کاربن اخراج پر کس قدر قابو پائے گا۔

    مختلف ممالک نے ضغیم آئی این ڈی سی جمع کروا کر کلائمٹ چینج کے سدباب کے لیے اپنی سنجیدگی ظاہر کی اور بتایا کہ ان کے لیے یہ معاہدہ کس قدر اہمیت کا حامل رکھتا ہے۔

    اس وقت پاکستان کا آئی این ڈی سی فقط 445 الفاظ یعنی بہ مشکل ایک صفحے پر مشتمل تھا۔ بعد ازاں اس یک صفحی دستاویز کی وضاحت یہ پیش کی گئی کہ پاکستان کے صنعتی شعبہ کو ابھی پھلنا پھولنا ہے، لہٰذا ابھی یہ کہنا کہ، ہم اپنے کاربن اخراج میں کتنی کمی کریں گے، قبل از وقت ہوگا۔

    شجر کاری اور کوئلے کے بجلی گھر ۔ متضاد ترقیاتی منصوبے

    یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ صرف چند روز قبل وزیر اعظم میاں نواز شریف ساہیوال میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر کا افتتاح کر چکے ہیں جو کاربن کی پیداوار کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔

    دوسری جانب گزشتہ سال وزیر اعظم ہی کی ہدایت پر گرین پاکستان پروگرام کا آغاز کیا گیا جس کے تحت ملک بھر میں شجر کاری اور درختوں کا تحفظ کیا جانا ہے۔

    ایک طرف تو گرین پاکستان پروگرام اور بڑے پیمانے پر شجر کاری کا منصوبہ، اور دوسری جانب کوئلے کے بجلی گھروں کی تکمیل اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وزیر اعظم کو ایسے مشیران کی ضرورت ہے جو ترقیاتی منصوبے بناتے ہوئے پائیداری، تحفظ ماحول، اور صحت عامہ کو بھی مدنظر رکھیں جو اب وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔

    یاد رہے کہ پاکستان میں کوئلے کے بجلی گھر چین کے مشترکہ تعاون سے بنائے جارہے ہیں جو اس وقت دنیا میں کوئلے کا سب سے بڑا استعمال کنندہ ہے۔

    چین اپنی توانائی کی 69 فیصد ضروریات کوئلے سے پوری کرتا ہے۔ کوئلے کے اس بے تحاشہ استعمال کے باعث چین کی فضائی آلودگی اس قدر خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے کہ یہ ہر روز 4 ہزار چینیوں کو موت کے گھاٹ اتار رہی ہے۔

    موجودہ بجٹ میں ماحول کے لیے کیا ہے؟

    مالی سال 18-2017 کا بجٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے بچوں کے ڈائپرز اور سگریٹ کی قیمتوں میں کمی بیشی کا تو ضرور بتایا، تاہم انہوں نے مستقبل قریب میں پاکستان کو لاحق دہشت گردی سے بھی بڑے خطرے کلائمٹ چینج کا ذکر بھی کرنا گوارہ نہیں کیا۔

    بعد میں جاری کی گئی بجٹ دستاویز تفصیلات کے مطابق رواں برس موسمیاتی تغیرات اور ماحولیات سے متعلق 6 ترقیاتی منصوبوں کے لیے 81 کروڑ 50 لاکھ روپے مختص کرنے کی سفارش کی گئی ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔

    جیومیٹرک سینٹر کی بنیاد رکھنے کے لیے: 3 کروڑ 38 لاکھ روپے۔ یہ منصوبہ سنہ 2019 تک پایہ تکمیل کو پہنچ جائے گا۔

    خشک سالی کے سدباب کے لیے پائیدار زمینی انتظام (سسٹین ایبل لینڈ مینجمنٹ): ڈھائی کروڑ روپے۔ یہ منصوبہ سنہ 2020 تک مکمل ہوگا۔

    وزیر اعظم کی خصوصی ہدایت پر شروع کیا گیا گرین پاکستان پروگرام: اس منصوبے کے تحت جنگلات کے تحفظ اور ان میں اضافے کے لیے 60 کروڑ 51 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔ اس منصوبے کا طے کردہ ہدف سنہ 2021 تک حاصل کرلیا جائے گا۔

    تحفظ جنگلی حیات: گرین پاکستان پروگرام ہی کے تحت اس ضمن میں 10 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔

    اسلام آباد میں نباتاتی و حیاتیاتی گارڈن: 1 کروڑ 50 لاکھ روپے۔

    زولوجیکل سروے آف پاکستان: 3 کروڑ 60 لاکھ روپے۔ یہ سروے پاکستان کی خطرے کا شکار جنگلی حیات اور ان کی پناہ گاہوں کو لاحق خطرات سے آگاہی حاصل کرنے اور ان کے تحفظ کے لیے اقدامات کرنے کے مقصد کے لیے کیا جارہا ہے۔

    دیگر منصوبے

    ان منصوبوں کے علاوہ تحفظ ماحولیات کے نام سے بھی کچھ رقم بجٹ میں شامل ہے جو 11 کروڑ سے زائد (1141 ملین) ہے جو ویسٹ واٹر مینجمنٹ پر خرچ کی جائے گی۔

    ایک خصوصی پروگرام ‘پینے کا صاف پانی ۔ سب کے لیے’ کی مد میں 12 ارب روپے سے زائد کی رقم رکھی گئی ہے۔ یہ رقم ملک بھر میں پینے کے پانی کو صاف کرنے کے اقدامات اور دور دراز علاقوں میں صاف پانی کی فراہمی ممکن بنانے کے لیے خرچ کی جائے گی۔

    وزیر خزانہ کی تقریر میں وزیر اعظم کے ایک پائیدار ترقیاتی اہداف (سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز) منصوبے کا بھی ذکر کیا گیا جو تقریباً ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس منصوبے کے لیے 30 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

    مزید پڑھیں: پائیدار ترقیاتی اہداف کیا ہیں؟

    علاوہ ازیں تحفظ ماحول کے لیے بجٹ میں کچھ اور وعدے بھی کیے گئے ہیں جن کے مطابق

    حکومت تمام بڑے شہروں میں پانی کو صاف کرنے کے پلانٹس نصب کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے جس کا پانی زراعت اور باغبانی کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

    صنعتوں کو پابند کیا جائے گا کہ وہ پانی کا کم سے کم اخراج کریں۔ یاد رہے کہ کافی عرصہ قبل امریکا سمیت اکثر ممالک میں صنعتوں کو مختلف قوانین کے تحت پابند کیا جاچکا ہے کہ وہ فیکٹریوں میں استعمال شدہ پانی کو ری سائیکل یعنی دوبارہ سے استعمال کریں تاکہ پانی کی بچت ممکن ہوسکے۔

    پائیدار ترقیاتی اہداف کو مدنظر رکھتے ہوئے وزارت کلائمٹ چینج کا مختلف بین الاقوامی اداروں کے ساتھ مل کر شہری حدود میں توسیع کے لیے بھی ایک منصوبہ زیر غور ہے تاکہ شہروں کو ایک حد تک پھیلایا جائے اور بے ہنگم پھیلاؤ پر قابو پایا جاسکے۔

    رواں سال بجٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ حکومت کلائمٹ چینج کو منصوبہ بندی اور مالیات کے شعبہ سے منسلک کرنے پر کام کر رہی ہے تاکہ ہر شعبہ میں کسی بھی منصوبہ کے آغاز اور اس کی تکمیل میں کلائمٹ چینج (کے نقصانات) کو مدنظر رکھا جائے۔

    مزید پڑھیں: حکومت کا گلیشیئرز کا ڈیٹا حاصل کرنے کے لیے اہم اقدام

    ماہرین ماحولیات اس بات پر متفق ہیں کہ صرف 1 سے 2 سال کے اندر پاکستان کو کلائمٹ چینج کے ہاتھوں پہنچنے والے نقصانات کا تخمینہ دہشت گردی کے نقصانات کے تخمینہ سے بھی تجاوز کرجائے گا۔

    اگر صرف مذکورہ بالا وعدوں کو ہی پورا کرلیا جائے، اور مختص کی گئی رقم کو دانش مندی اور ایمانداری سے خرچ کیا جائے تو ہم کلائمٹ چینج کے نقصانات سے خاصی حد تک نمٹ سکتے ہیں۔

  • انتخابات سے قبل میثاق معیشت پر متفق ہونا ضروری ہے: وزیر خزانہ

    انتخابات سے قبل میثاق معیشت پر متفق ہونا ضروری ہے: وزیر خزانہ

    اسلام آباد: وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کا کہنا ہے کہ آئندہ سال چھٹا بجٹ پیش کر کے تاریخ رقم کریں گے۔ انتخابات سے قبل میثاق معیشت پر متفق ہونا ضروری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے اسلام آباد میں پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کی۔

    پریس کانفرنس میں ان کا کہنا تھا کہ آئندہ سال کا بجٹ موجودہ بجٹ سے 11 فیصد زیادہ ہے۔ اپنے وسائل کو سامنے رکھتے ہوئے کام کرنا ہے۔

    وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ جی ڈی پی کی گروتھ 6 فیصد رکھی ہے۔ افراط زر 6 فیصد سے کم رکھی جائے گی۔ بجٹ خسارے سے زیادہ ترقیاتی بجٹ ہوگا۔

    مزید پڑھیں: مالی سال 18-2017 کا بجٹ پیش

    اسحٰق ڈار نے کہا کہ قرض لے کر ترقیاتی کام کرنا کوئی بری بات نہیں ہے۔ تجارتی اور بجٹ خسارے کے باوجود ترقیاتی کاموں کا بجٹ زیادہ رکھا۔ پانچویں بجٹ میں دفاع کو خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔

    ان کے مطابق جی ڈی پی میں قرضوں کی شرح 60 فیصد سے نیچے رکھی جائے گی۔ بجلی کی فراہمی بہتر اور لوڈ شیڈنگ ختم کی جائے گی۔ غربت کے خاتمے کے لیے بجٹ میں 121 ارب کا اضافہ کیا گیا ہے۔ ٹیکس وصولیوں میں 14 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے۔

    اسحٰق ڈار نے کہا کہ غیر ترقیاتی بجٹ کو افراط زر کی شرح سے کم رکھا جائے گا۔ زراعت، روزگار، سرمایہ کاری کے لیے مراعات کا اعلان کیا ہے۔ آئی ٹی کے شعبہ میں 2 لاکھ نوجوان کام کر رہے ہیں۔ 10 لاکھ افراد کو آئی ٹی ٹریننگ دی جائے گی۔

    وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ زراعت کے لیے اسپیشل اسکیم کا اعلان کیا گیا ہے۔ کسانوں کو سستے قرضے فراہم کیے جائیں گے۔ قرض کی فراہمی اسٹیٹ بینک کی ذمہ داری ہے۔ کسانوں کے لیے رواں سال کھاد کا پیکج بھی جاری رکھا جائے گا۔

    انہوں نے کہا کہ ٹیوب ویل کی سستی بجلی کے لیے 27 ارب کی سبسڈی دی جائے گی۔ پولٹری کے لیے بھی مراعات دی گئی ہیں۔ تعمیرات کے لیے بھی اسکیمز دی جائیں گی۔

    مزید پڑھیں: مالی سال 17-2016 کا اقتصادی جائزہ

    وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ 500 ارب کے ٹیکسز لگانے کا تاثر غلط ہے، 120 ارب کے ٹیکس لگائے ہیں۔ ڈیویڈنڈ پر ٹیکس میں اضافہ اس لیے ہے کیونکہ مارکیٹ میں ٹریڈنگ بڑھ گئی ہے۔ نان فائلر کی زندگی مشکل کی ہے اور ضرور کریں گے۔

    انہوں نے کہا کہ دودھ پر نیا ٹیکس لگانے کا تاثر غلط ہے۔ برآمدات اور ٹیکسائل کے لیے رواں سال کا پیکج جاری رہے گا۔ ہاؤسنگ کے شعبے کے لیے مراعات ہیں جبکہ پاکستان ڈیولپمنٹ فنڈ کو فعال کردیا گیا ہے۔ اس سال 125 ارب روپے تنخواہوں کی مد میں دیا جائے گا۔

    اسحٰق ڈار کے مطابق اسلام آباد میں تارکین وطن کے لیے زمین مختص کی گئی ہے۔ تارکین وطن براہ راست اسٹیٹ بینک کو ادائیگی کریں گے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ روز وفاقی حکومت نے سال 18-2017 کا 5 ہزار 310 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا ہے۔


  • صدر ممنون حسین کی تنخواہ میں 6 لاکھ روپے کا اضافہ

    صدر ممنون حسین کی تنخواہ میں 6 لاکھ روپے کا اضافہ

    اسلام آباد: بجٹ کے بعد صدرممنون حسین کی تنخواہ چھ لاکھ اضافےکے بعد سولہ لاکھ روپے ماہانہ ہوگئی۔

    تفصیلات کےمطابق گزشتہ روز وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی طرف سے پیش کیے گئے بجٹ میں صدر مملکت کی تنخواہ میں اضافے کا بھی اعلان کیا گیا جبکہ وزیراعظم کے دفتر کا بجٹ 91 کروڑ 67 لاکھ روپے سالانہ کر دیا گیا ہے۔

    دستاویز کے مطابق ایوان صدر کےلیے 95 کروڑ 96 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں جس میں سے ایوان صدرکے ملازمین کی تنخواہوں اورمراعات کیلیے 65 کروڑ 33 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔

    ممنون حسین کے صوابدیدی فنڈز کےلیے 10 لاکھ روپے،ایوان صدر کے باغیچوں کےلیے 4 کروڑ13 لاکھ روپے،گاڑیوں کےلیے 3 کروڑ 97 لاکھ روپے، ڈسپنسری کےلیے 2 کروڑ 12 لاکھ روپے جبکہ صدر مملکت کے بیرون ممالک دوروں کےلیے 1کروڑ32 لاکھ روپے مختص کیے گئے ہیں۔


    پانچ ہزار 310 ارب کا بجٹ پیش، تنخواہ و پنشن میں‌ 10 فیصد اضافہ


    واضح رہےکہ گزشتہ روز وفاقی حکومت نے 5 ہزار 310 ارب روپے کا بجٹ پیش کیا تھا جس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافہ کیاگیا۔

  • ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کے لیے کولیشن فنڈ کی رقم مختص کردی

    ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کے لیے کولیشن فنڈ کی رقم مختص کردی

    واشنگٹن : امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں امریکی بجٹ میں پاکستان کے لیے 80 کروڑ ڈالر کی امداد مختص کردی۔

    امریکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے کولیشن سپورٹ فنڈزکے تحت پاکستان کواگلے مالی سال کے لیے 800 ملین ڈالردینے کی تجویزدی ہے۔

    امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان نے بتایاکی امریکا دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی قربانیاں تسلیم کرتا ہے۔ انہوں نےکہاکہ افغانستان میں اتحادی فورسز کو میٹریل کی فراہمی کے لیے پاکستان کی ٹرانزٹ حمایت بھی قابل تعریف ہے۔

    ترجمان محکمہ دفاع کا کہناتھاکہ پاکستان امریکہ کااہم اتحادی ہے جس کے لیے پاکستان کو مذکورہ فنڈزدینے کے لیے کوئی شرط عائد نہیں کی گئی۔

    یاد رہےکہ گزشتہ دنوں امریکی میڈیا کا کہناتھاکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے سالانہ بجٹ میں تجویز پیش کی ہے کہ پاکستان کے لیے فوجی ہارڈویئر کی خریداری کے لیے امریکی گرانٹ کو قرضے میں تبدیل کردیا جائے۔


    ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کی فوجی امداد کو قرض میں تبدیل نہیں کیا


    واضح رہےکہ بعدازاں امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے اس بات کی تردید کرتے ہوئےبتایاگیاتھاکہ ٹرمپ انتظامیہ نے پاکستان کی فوجی امداد کو قرض میں تبدیل نہیں کیا۔

  • وفاقی کابینہ نے بجٹ تجاویز کی منظوری دے دی

    وفاقی کابینہ نے بجٹ تجاویز کی منظوری دے دی

    اسلام آباد: وزیر اعظم محمد نواز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں بجٹ تجاویز کی منظوری دے دی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی کابینہ کا اجلاس وزیر اعظم نوز شریف کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے فنانس ڈویژن کی کارکردگی سے متعلق بریفنگ دی۔

    بعد ازاں وفاقی کابینہ نے بجٹ 18-2017 کی منظوری دے دی۔

    اجلاس میں شنگھائی تعاون تنظیم کی مستقل رکنیت کے لیے طریقہ کار کی منظوری دی گئی جبکہ مقدمات نمٹانے سے متعلق کابینہ کمیٹی کی سفارشات کی بھی توثیق کردی گئی۔

    شرکا نے پرائیوٹ پاور انفرا اسٹرکچر کے ایکٹ 2010 میں ترمیم کی منظوری دی، جبکہ توانائی کے بارے میں کابینہ کمیٹی اور اقتصادی رابطہ کمیٹی کے فیصلوں کی توثیق بھی کی گئی۔

    تجاویز میں مجموعی ترقیاتی بجٹ 2113 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ سالانہ ترقیاتی بجٹ کی مد میں 1001 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔

    صوبوں کا ترقیاتی بجٹ 1112 ارب روپے ہے جبکہ 168 ارب روپے غیر ملکی امداد سے حاصل کیے جائیں گے۔

    وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار پارلیمنٹ میں بجٹ 18-2017 پیش کریں گے۔

    وفاقی کابینہ کے اجلاس سے قبل وزیر اعظم نے مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی بھی صدارت کی تھی جس میں حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے آخری بجٹ پر تبادلہ خیال کیا گیا۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • پاکستان2013 کی نسبت آج مستحکم اورخوشحال ملک بن چکا ہے‘وزیراعظم

    پاکستان2013 کی نسبت آج مستحکم اورخوشحال ملک بن چکا ہے‘وزیراعظم

    اسلام آباد:وزیراعظم پاکستان کا کہناہےکہ 2013 میں حکومت کو متعدد مسائل کا سامنا تھا لیکن آج پاکستان خوشحال اور مستحکم بن چکا ہے۔

    تفصیلات کےمطابق وزیراعظم نوازشریف کی زیرصدارت پارلیمنٹ ہاؤس میں مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا جس میں حکومت کی جانب سے پیش کیے جانے والے آخری بجٹ پرتبادلہ خیال کیاگیا۔

    اجلاس کےدوران وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے مسلم لیگ ن کےارکان پارلیمنٹ کو بجٹ کے خدوخال پر بریفنگ دی جبکہ بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کے لیے ارکان کی تجاویز بھی لی گئیں۔

    وزیراعظم نوازشریف کا اجلاس کےدوران کہناتھاکہ 2013 میں ہمیں بڑے مسائل ورثے میں ملےلیکن ہم نیک نیتی کے ساتھ کام کرتے رہے۔


    ساہیوال میں 660 میگا واٹ بجلی منصوبے کا افتتاح، ایشین ٹائیگر بن کے دکھائیں‌ گے، وزیراعظم


    انہوں نےکہاکہ ہم عوام کے سامنے جوابدہ ہیں اور ہرصورت میں اصلاحات کا ایجنڈا مکمل کریں گے۔

    وزیراعظم پاکستان کا کہناتھاکہ قوم فیصلہ کرے گی کہ کس نے کارکردگی دکھائی اور کس نے کچھ نہیں کیا۔ان کا کہناتھاکہ ہم نے بہت محنت کی جس کے نتیجے میں منصوبے تیزی سے مکمل ہورہے ہیں۔

    واضح رہے کہ وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار آج قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال کے لیے بجٹ پیش کریں گے۔

  • بجٹ 18-2017: صحت کے شعبے میں جدید اقدامات کی ضرورت

    بجٹ 18-2017: صحت کے شعبے میں جدید اقدامات کی ضرورت

    مالی سال 18-2017 کا بجٹ آیا ہی چاہتا ہے اور ہر بار امیدیں پوری نہ ہونے کے باوجود عوام نے ایک بار پھر سے امیدیں لگا لی ہیں کہ شاید اس بار بجٹ میں عوام کا بھی خیال رکھا جائے۔

    لوگوں کی مسیحائی کا مقدس فریضہ انجام دینے والے لاکھوں ڈاکٹرز بھی پر امید ہیں کہ اس بار بجٹ میں نہ صرف ان کی ذاتی بلکہ شعبہ طب کی بہتری پر بھی توجہ دی جائے گی اور دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی طب میں کی جانے والی نئی ایجادات اور ٹیکنالوجیز کو متعارف کروایا جائے گا تاکہ معمولی بیماریوں کے ہاتھوں مرنے والے لاکھوں افراد کی جانیں بچائی جاسکیں۔

    پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر قیصر سجاد نے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی ایسوسی ایشن طویل عرصے سے کوشش کر رہی ہے کہ بجٹ میں صحت کے لیے اعشاریوں پر مبنی بجٹ کے بجائے کل بجٹ کا 6 فیصد حصہ مختص کیا جائے۔

    انہوں نے کہا، ’لوگوں کی صحت، معاشروں اور ملکوں کی ترقی کی ضامن ہے۔ اگر لوگ صحت مند نہیں ہوں گے تو وہ کس طرح قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے‘؟

    ڈاکٹر قیصر کا کہنا تھا کہ صحت جیسے اہم شعبے کے لیے بجٹ کا معقول حصہ مختص کرنا، اور اس رقم کو دانش مندی سے استعمال کرنا نہایت ضروری ہے۔

    انہوں نے اچانک پھیلنے والے وبائی امراض جیسے ڈینگی اور چکن گونیا کو صحت کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے اس کے خاتمے کے اقدامات پر زور دیا۔ ’ہم نے کئی سال پہلے خبردار کردیا تھا کہ ڈینگی کا مرض پاکستان میں پھیلے گا، تاہم اس وقت اس بات پر توجہ نہیں دی گئی‘۔

    ڈاکٹر قیصر نے دل دہلا دینے والا انکشاف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں زیکا وائرس بھی موجود ہے۔ یہ اچانک ایسے ہی ابھر کر سامنے آئے گا جیسے ڈینگی یا چکن گونیا سامنے آئے ہیں۔

    انہوں نے ان جان لیوا امراض کے درست طریقے سے سدباب کے لیے اقدامات کرنے پر زور دیا۔ ’اب جبکہ چکن گونیا پھیل گیا ہے، تو خطیر رقم خرچ کر کے اس کی کٹ منگوائی جارہی ہے۔ جبکہ مرض کی جڑ پر کسی کی توجہ نہیں‘۔

    ڈاکٹر قیصر کے مطابق ڈینگی، چکن گونیا اور زیکا وائرس مچھر کی ایک ہی قسم سے ہوتے ہیں تو بجائے ان تینوں امراض پر بے تحاشہ رقم خرچ کرنے کے، اگر اس مچھر کے خاتمے پر توجہ دی جائے تو یہ تینوں خطرناک امراض خود ہی ختم ہوجائیں گے۔

    ڈاکٹرز کو سہولیات کی فراہمی

    اقوام متحدہ کی ایوارڈ یافتہ ڈاکٹر سارہ خرم نے اے آر وائی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شعبہ طب سے وابستہ افراد کو سہولیات کی فراہمی اور مراعات میں اضافہ سب سے زیادہ ضروری ہے اور ہمارے دیہی علاقوں میں ڈاکٹرز کی عدم موجودگی کی وجہ یہی ہے۔

    انہوں نے کہا، ’ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف کی تنخواہیں خیبر پختونخواہ اور پنجاب کے ڈاکٹرز کے برابر ہونی چاہئیں‘۔

    ان کے مطابق سرکاری اسپتالوں میں لیبارٹریز اور مختلف امراض کے تشخیص کی مشینوں کی بھی ازحد ضرورت ہے۔ ’کئی امراض کو غلط تشخیص کیا جاتا ہے جس کے باعث بعض اوقات معمولی مرض بھی، جس کا بآسانی علاج کیا جاسکتا ہے، بڑھ کر جان لیوا صورت اختیار کرلیتا ہے‘۔

    انہوں نے ایک اور امر کی طرف اشارہ کیا کہ چھوٹے علاقوں، قصبوں اور گاؤں دیہاتوں میں صرف ڈسپنسریز بنانا کافی نہیں جہاں معمولی سر درد اور بخار کی ادویات موجود ہوں۔ بلکہ مختلف امراض کی باقاعدہ اسپیشلائزڈ ویکسین اور ادویات کی فراہمی بھی ضروری ہے۔

    خواتین اور بچے مختلف امراض کا آسان ہدف

    ڈاکٹر سارہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خواتین اور بچوں کی صحت کسی بھی ملک کی اول ترجیح ہونی چاہیئے کیونکہ یہ دونوں صحت مند ہوں گے تو ہی نئی نسل معاشرے کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکے گی، ’لیکن ہمارے یہاں صورتحال الٹ ہے‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ دیہی اور کم ترقی یافتہ علاقوں میں بچوں کی پیدائش میں خواتین کو بے شمار مسائل کا سامنا ہوتا ہے جن پر دانش مندانہ حکمت عملی اپنا کر باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے۔

    ان کے مطابق گاؤں دیہاتوں میں سرگرم عمل دائیوں، مڈ وائفس اور نرسز کی درست تربیت ضروری ہے تاکہ ان کے ہاتھوں کسی کی زندگی برباد نہ ہو۔

    ڈاکٹر سارہ کے مطابق طب کے شعبے میں خواتین اور بچوں کے لیے مندرجہ ذیل خصوصی اصلاحات کی جانی بے حد ضروری ہیں۔

    حمل شروع ہونے سے لے کر بچے کی پیدائش کے کچھ عرصے بعد تک خواتین کے لیے خصوصی طبی سہولیات کی فراہمی اور دیکھ بھال۔

    نومولود بچوں کی تربیت یافتہ نرسز کے ہاتھوں دیکھ بھال۔

    ڈیلیوری کے لیے آسان اور کم قیمت پیکجز۔

    سرکاری اسپتالوں میں ماہر اطفال کی تعیناتی۔

    پیدائش سے قبل ماں کے لیے اور پیدائش کے بعد نومولود بچے کے لیے ضروری تمام ویکسین اور ٹیکوں کی دستیابی۔

    دور دراز گاؤں دیہاتوں میں موجود سرکاری اسپتالوں میں حاملہ خواتین کے لیے تمام ضروری سہولیات جیسے مطلوبہ ادویات، الٹرا ساؤنڈ مشینوں اور پیدائش کی بعد کسی پیچیدگی کی صورت میں وینٹی لیٹرز کی موجودگی۔

    صفائی ستھرائی کا فقدان

    ڈاکٹر سارہ نے مختلف پیچیدگیوں کے بڑھنے کی اہم وجہ صفائی ستھرائی کے فقدان کو قرار دیا۔

    ان کا کہنا تھا، ’گھروں میں اسپتال کھول لیے گئے ہیں جہاں ڈیلیوریز کروائی جارہی ہیں۔ دور دراز علاقوں میں قائم سرکاری ڈسپنسریوں میں بھی صفائی کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتا‘۔

    ان کے مطابق، ’چونکہ دیہی علاقوں میں کم عمری کی شادیوں کا رجحان ہے، لہٰذا ایک کم عمر لڑکی جس کا جسم کمزور ہو، اور جس کا پیدا ہونے والا بچہ بھی کمزور ہو، مختلف جراثیموں کا آسان ہدف بن سکتے ہیں جو جان لیوا انفیکشنز پیدا کرسکتے ہیں‘۔

    شعور و آگاہی بھی ضروری

    ڈاکٹر سارہ کے مطابق صحت سے متعلق بڑے پیمانے پر شعور و آگاہی کے پھیلاؤ کی بھی ضرورت ہے اور اس ضمن میں خصوصی پروگرامز بنا کر حکومت اور عوام دونوں اپنا کردار ادا کریں۔

    انہوں نے کہا، ’دیہی علاقوں میں کم عمری کی شادیوں کے خلاف تعلیم دینے کی ضرورت ہے۔ یہ عمل ایک کم عمر لڑکی کو موت کے منہ میں دھکیلنا ہے کیونکہ کم عمری میں بچوں کی پیدائش نہ صرف ماں بلکہ بچے کی صحت کے لیے بھی نہایت خطرناک ہے‘۔

    ان کے مطابق کم عمری کی شادیاں بے شمار امراض میں مبتلا کرسکتی ہیں۔ بعض اوقات نو عمر لڑکیاں بچوں کی پیدائش کے دوران جان کی بازی بھی ہار جاتی ہیں۔

    انہوں نے کہا، ’نہ صرف حکومت بلکہ معاشرے میں بسنے والے ہر شخص کو اپنی ذمہ داری سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسی صورت میں ہم ایک صحت مند معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں‘۔

    ذہنی امراض کا سدباب اولین ترجیح

    ملک کے بدلتے حالات، دہشت گردی، غربت، بے روزگاری اور مختلف معاشرتی مسائل کے باعث لوگوں کی بڑی تعداد ذہنی امراض میں مبتلا ہو رہی ہے اور ماہرین کے مطابق ان امراض کے سدباب کو اولین ترجیح دینی ضروری ہے۔

    کراچی میں ذہنی امراض کے اسپتال کاروان حیات کے ماہر نفسیات ڈاکٹر سلیم احمد کا کہنا ہے، ’یوں تو صحت ویسے ہی ایک نظر انداز شدہ شعبہ ہے لہٰذا باوجود اس کے، کہ ذہنی امراض کا پھیلاؤ تیزی سے جاری ہے، یہ توقع کرنا بے فائدہ ہے کہ حکومت اس شعبے کی طرف خصوصی توجہ کرے‘۔

    انہوں نے عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دنیا کا ہر تیسرا شخص ڈپریشن کا شکار ہے جو سب سے عام ذہنی مرض ہے۔ اس شعبے میں ہنگامی طور پر اصلاحات کرنے اور توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ بہت جلد یہ دنیا کی بڑی بیماریوں میں سے ایک بن جائے گی۔

    ڈاکٹر سلیم کے مطابق ذہنی امراض پر کام شروع کرنے کے لیے سب سے پہلا قدم تو اس کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہی کا فروغ ہے۔ ’آج بھی کسی سے کہا جائے کہ کسی ماہر نفسیات کے پاس جاؤ، تو وہ ناراض ہوجاتا ہے کہ کیا تم مجھے پاگل یا نفسیاتی سمجھتے ہو‘۔

    ان کا کہنا تھا کہ ذہنی امراض کے حوالے سے بڑے پیمانے پر لوگوں میں شعور پھیلانے کی ضرورت ہے کہ یہ کوئی ہوا نہیں، عام اور قابل علاج مرض ہے۔ ’آج بھی اگر کوئی شخص کسی دماغی بیماری کا شکار ہوجائے تو اسے جن بھوت کا اثر سمجھ کر جعلی پیر فقیروں کے چکر لگائے جاتے ہیں۔ لوگوں کو علم ہی نہیں کہ دماغی امراض بھی اب ایسے ہی عام ہوگئے ہیں جسیے نزلہ، زکام یا بخار‘۔

    ان کے مطابق جس طرح حکومت خاندانی منصوبہ بندی، ایڈز یا ڈینگی سے بچاؤ کے لیے آگاہی مہمات چلاتی ہے، اسی طرح ذہنی امراض کے بارے میں بھی معلومات کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔

    ڈاکٹر سلیم کا کہنا تھا کہ اگر ابتدائی مرحلے میں ذہنی امراض کی تشخیص کرلی جائے تو باآسانی ان کا علاج ہوسکتا ہے جس کے بعد مریض صحت مند ہو کر معمول کی زندگی گزار سکتا ہے۔ ’لیکن بات وہی کہ ذہنی مرض کو عام مرض کی طرح سمجھ کر ڈاکٹر کے پاس جایا جائے‘۔


    ماہرین طب کو امید ہے کہ اگر حکومت شعبہ صحت کو اہم خیال کرتے ہوئے نہ صرف بجٹ کا ایک خطیر حصہ اس مد میں مختص کرے، بلکہ اس بجٹ کے استعمال میں ذہانت، دور اندیشی اور ایمانداری سے بھی کام لے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ شعبہ بہتری کی طرف گامزن ہوجائے۔

  • آئندہ ترقیاتی بجٹ میں جی ڈی پی کا ہدف 6 فیصد مقرر

    آئندہ ترقیاتی بجٹ میں جی ڈی پی کا ہدف 6 فیصد مقرر

     اسلام آباد: قومی اقتصادی کونسل نے آئندہ مالی سال کے لیے 2 ہزار 1 سو 13 ارب کے ترقیاتی بجٹ کی منظوری دے دی۔ آئندہ مالی سال کے لیے معاشی ترقی کا ہدف 6 فیصد مقرر کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کی زیر صدارت قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں وفاقی اور صوبائی ترقیاتی بجٹ برائے مالی سال 18-2017 کی منظوری دے دی گئی۔

    اجلاس میں وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار پر آئندہ بجٹ کے حوالے سے تفصیلی بریفنگ دی۔

    وفاقی ترقیاتی بجٹ 1 ہزار 1 ارب روپے جبکہ صوبائی ترقیاتی بجٹ 1 ہزار 1 سو 12 ارب روپے رکھا گیا ہے۔ رواں مالی سال مجموعی ترقیاتی بجٹ کا حجم 16 سو 75 ارب روپے تھا۔

    وفاقی بجٹ کے لیے 1 سو 68 ارب روپے غیر ملکی ذرائع سے حاصل کرنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔

    وزیر اعظم نے آئندہ مالی سال کے لیے معاشی ترقی کی شرح کا ہدف 6 فیصد مقرر کیا ہے۔ رواں مالی سال ملکی معاشی شرح نمو 5.3 رہی۔

    ذرائع کے مطابق توانائی اور سڑکوں کے لیے 3 سو 84 ارب روپے، وفاقی وزارتوں کے لیے 2 سو 88 ارب روپے، ٹی ڈی پیز کے لیے 90 ارب روپے، خصوصی علاقوں کے لیے 65 ارب، ایس ڈی جیز کے لیے 45 ارب اور خصوصی وفاقی ترقیاتی پروگرام کے لیے 50 ارب رکھے گئے ہیں۔

    سی پیک کے منصوبوں کے لیے 27 ارب، وزیر اعظم اسکیموں کے لیے 20 ارب روپے، ایرا کے لیے 7 ارب اور گیس انفراسٹرکچر فنڈ کے لیے 50 ارب روپے مختص کرنے کی منظوری دی گئی۔

    اس کے علاوہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے پانچ ارب روپے کا خصوصی پروگرام بھی منظور کیا گیا۔

    تسلی بخش شرح نمو

    اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اقتصادی ترقی کی شرح 5.3 فیصد رہی جو کہ تسلی بخش ہے۔ پاکستان کے اقتصادی اشاریے مثبت سمت میں جا رہے ہیں جس کا اعتراف عالمی اقتصادی ادارے کر رہے ہیں۔

    وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان تیزی سے ترقی کرنے والی معیشتوں میں شامل ہے جس کے لیے وفاق اور صوبے مل کر ملک کی ترقی کے لیے کردار ادا کر رہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ ہماری تمام تر توجہ توانائی کے منصوبوں پر ہے۔ ملکی ترقی ہم سب کا مشترکہ فرض ہے، اس فرض کو سیاست کی نظر نہیں کرنا چاہیئے۔

    اجلاس میں تمام صوبوں کے وزارئے اعلیٰ، وزیر اعظم آزاد کشمیر اور وفاقی اور صوبائی وزرا نے بھی شرکت کی۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔