Tag: بحر اوقیانوس

  • ٹائٹن آبدوز سے متعلق اہم حقائق جانئے

    ٹائٹن آبدوز سے متعلق اہم حقائق جانئے

    گذشتہ پانچ روز سے بحر اوقیانوس کے گہرے پانیوں میں لاپتہ ہونے والی ٹائنٹن نامی آبدوز کا تاحال سراغ نہ مل سکا ہے اور اس میں موجود افراد کی زندہ بچنے کے امکانات معدوم ہوتے جارہے ہیں۔

    ٹائی ٹینک کی باقیات کو دیکھنے جانے والے ٹائنٹن میں پانچ افراد سوار ہیں،جس میں اوشیئن گیٹ کمپنی کے سی ای او اسٹاکٹن رش، فرانسیسی بحریہ کے سابق اہلکار پال ہنری نارجیولیٹ، ارب پتی برطانوی مہم جو ہمیش ہارڈنگ اور پاکستان کے معروف بزنس مین شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے سلیمان شامل ہیں۔

    ٹائٹینک کا ملبہ سمندر میں 12000 فٹ سے زائد کی گہرائی میں موجود ہے

    ٹائٹن کب لاپتا ہوئی؟

    اکیس فٹ کی آبدوز ٹائٹن پاکستان کے مقامی وقت کے مطابق اتوار کی صبح 4 بجے روانہ ہوئی تھی مگر پونے 2 گھنٹے بعد ہی اس کا رابطہ منقطع ہوا،آبدوز کا وزن 10,432 کلو گرام ہے اس کا سفر عام طور پر زیادہ سے زیادہ آٹھ دن پر محیط ہوتا ہے۔

    اس کا سفر نیو فاؤنڈ لینڈ کے ساحل سے شروع ہوتا ہے جو مشرقی کینیڈا میں واقع "ٹائی ٹینک” کے ملبے سے 592 کلومیٹر دوری پر ہے۔ اس کا ایک مکمل غوطہ لگ بھگ 8 گھنٹے جاری رہتا ہے۔ اس میں سے بھی نصف وقت نیچے اترنے اور چڑھنے میں لگ جاتا ہے۔ کمپنی کی ویب سائٹ کے مطابق کمپنی کے پاس ایسی تین آبدوزیں ہیں۔

    ٹائٹن کی خامی

    ٹائٹن کی خامی یہ ہے کہ یہ خود اپنی سمت متعین کرنے سے قاصر ہے، یہ سمندر کی سطح پر موجود جہاز سے ملنے والے ٹیکسٹ میسیجز پر انحصار کرتی ہے، یہ اپنے بیس سے عام طور پر ہر 15 منٹ میں ایک پنگ یا اونچی آواز والی "کلنگ” نشر کر کے بات چیت کرتی ہے۔

    ریسکیو آپریشن اور ماہرین کی رائے

    بحرِ اوقیانوس کے پانیوں میں تاریخی بحری جہاز ٹائٹینک کے ملبے تک تفریحی سفر پر لے جانے والی لاپتہ آبدوز کی تلاش کا کام ابھی جاری ہے۔

    آخری اطلاعات کے مطابق امریکی کوسٹ گارڈ کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق لاپتہ آبدوزٹائٹن کا ملبے کے آثار ملے ہیں، ملبےکےآثارٹائی ٹینک جہازکی باقیات کےقریب ملے، آثار ریموٹ کنٹرول آبی گاڑی کی مدد سےدیکھے گئے ہیں۔

    امریکہ اور کینیڈا کی ایجنسییاں بحریہ اور کمرشل کمپنیاں جو سمندر کی گہرائی میں کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں اس ریسکیو آپریشن کا حصہ ہیں۔ اس آپریشن کو بوسٹن میساچوسٹس سے چلایا جا رہا ہے اور اس میں فوجی طیاروں اور سونار بوئے کی مدد لی گئی ہے۔

    اس سے قبل دو ڈرون سمندر کی تہہ میں بھیجے گئے تھے جبکہ برطانوی شاہی فوج کا ایک طیارہ بھی متاثرہ علاقے میں پہنچ چکا ہے۔

    امریکی کوسٹ گارڈ کی جانب سے کل بیان جاری کیا گیا تھا کہ آبدوز کی تلاش میں شامل ریسکیو ٹیموں کو مزید آوازیں سنائی دی گئیں تھیں جس کے بعد سرچ آپریشن کا دائر وسیع کیا گیا تھا۔

    ریسکیو حکام کے مطابق آج تلاش کے عمل میں مزید دس جہاز اور متعدد ریموٹ آبدوزوں نے حصہ لیا جبکہ کیمروں سے لیس ریموٹ کنٹرول سے چلنے والے آلات مسلسل سمندر کی تہہ کی چھان بین کرتے رہے۔

    ماہرین کے مطابق زیر سمندر جس جگہ ٹائٹن آبدوز گئی وہاں کا ماحول اور حالات زمین کی بیرونی خلا جیسے سخت اور مشکل ہیں، کیونکہ ٹائٹینک کا ملبہ سمندر کے جس حصے میں موجود ہے اسے ’مڈنائٹ زون‘ کہا جاتا ہے کیونکہ وہ درجہ حرارت منجمد کر دینے والا اور وہاں گھپ اندھیرا ہوتا ہے۔

    آکسیجن ختم ہونے سے متعلق مختلف آرا

    ٹائٹن آبدوز میں آکسیجن کے خاتمے کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ بائیسں فٹ چوڑی آبدوز میں موجود پانچ افراد آکسیجن کا استعمال کیسے کررہے ہیں؟

    امریکی کوسٹ گارڈ کے ایک اندازے کے مطابق آبدوز میں آکسیجن جمعرات کو برطانوی وقت کے مطابق 12:18 بجے ختم ہو سکتی ہے جبکہ نیو فاؤنڈ لینڈ کے سینٹ جانز کی میموریل یونیورسٹی میں ہائپربارک میڈیسن کے ماہرڈاکٹر کین لیڈیز کے مطابق آبدوز میں سوار کچھ افراد توقع سے زیادہ عرصے تک زندہ رہ سکتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ آکسیجن کے خاتمے کا انحصار اس بات پر منحصر ہے کہ آبدوز میں موجود افراد کو کتنی ٹھنڈ لگتی ہے اور وہ آکسیجن کو کتنے مؤثر انداز میں محفوظ کرتے ہیں؟

  • ٹائٹن آبدوز میں چند گھنٹے کی آکسیجن باقی، تلاشی حتمی مرحلے میں داخل

    ٹائٹن آبدوز میں چند گھنٹے کی آکسیجن باقی، تلاشی حتمی مرحلے میں داخل

    بحر اوقیانوس میں گہرے سمندر میں لاپتہ ہونے والی ٹائٹن  آبدوز میں کچھ گھنٹے کی آکسیجن باقی رہ گئی ہے جبکہ تلاشی کا عمل حتمی مرحلے میں داخل ہوگیا۔

    امریکی کوسٹ گارڈ کے مطابق لاپتہ آبدوز کی تلاش کا عمل حتمی مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، آبدوز میں برطانوی وقت کے مطابق 12 بجکر 8 منٹ تک کی آکسیجن باقی ہے۔

    برطانوی میڈیا کے مطابق امریکی کوسٹ گارڈ کا کہنا ہے کہ لاپتا آبدوز کو تلاش کرنےکیلئے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، فرانسیسی جہاز ڈائیونگ روبوٹ کے ساتھ سرچ زون میں پہنچ گیا۔

    لاپتہ آبدوز میں موجود سیاحوں کے بچنے کے کتنے امکانات ہیں؟ ماہرین نے بتا دیا

    رپورٹ کے مطابق روبوٹ  20 ہزار فٹ کی گہرائی تک جاسکتا ہے، یہ روبوٹ 2 گھنٹے کے اندر ٹائٹنک کے ملبے تک پہنچ سکتا ہے، تاہم ٹائٹن سمندر سطح سے 400 گنا نیچے تہہ میں بیٹھ جانے کا خدشہ ہے۔

    واضح رہے کہ لاپتہ ہونے والی آبدوز میں 5 لوگوں کی موجودگی کا انکشاف ہوا تھا جو سمندر کی تہہ میں ٹائی ٹینک کی باقیات دیکھنے کے لیے ڈھائی لاکھ ڈالر کی خطیر رقم کے عوض روانہ ہوئے تھے، لاپتا آبدوز میں اینگرو کے وائس چیئرمین اور ان کے بیٹے بھی سوار ہیں۔

  • زمین کا وہ مقام جو خلائی اسٹیشن سے بے حد نزدیک ہے

    زمین کا وہ مقام جو خلائی اسٹیشن سے بے حد نزدیک ہے

    کیا آپ جانتے ہیں ہماری زمین پر ایک مقام ایسا بھی ہے جہاں پہنچنا بے حد مشکل ہے، اور اسے زمین کا مشکل ترین مقام قرار دیا جاتا ہے؟

    اور مزید حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عالمی خلائی اسٹیشن پر موجود انسان اس مقام سے، زمین پر موجود انسانوں کی نسبت زیادہ نزدیک ہیں۔

    پوائنٹ نیمو نامی یہ مقام جنوب بحر اوقیانوس کے وسط میں واقع ہے اور یہ خشکی سے نہایت دور ہے۔ اس مقام سے قریب ترین زمین 1400 ناٹیکل میل کے فاصلے پر ہے۔

    لفظ ’نیمو‘ لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ہے ’کوئی نہیں‘۔

    کسی بھی قسم کے جاندار سے خالی اس مقام کو سنہ 1992 میں اس وقت دریافت کیا گیا جب سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی کی مدد سے اس خطے کا نقشہ تیار کیا جارہا تھا۔

    اس مقام کے آس پاس مہر آئی لینڈ، ایسٹر آئی لینڈ اور ڈیوئس آئی لینڈ نامی جزیرے موجود ہیں لیکن یہ بھی اس سے 2300 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہیں۔ اس مقام کو زمین کا تنہا ترین مقام بھی کہا جاتا ہے۔

    ایک اندازے کے مطابق عالمی خلائی اسٹیشن (انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن) پر موجود انسان، دیگر زمینی باشندوں کی نسبت اس مقام سے زیادہ نزدیک ہیں، یہ اسٹیشن زمین کے محور سے 408 کلو میٹر باہر واقع ہے۔

    پوائنٹ نیمو کو خلائی جہازوں کا قبرستان بھی کہا جاتا ہے۔ جب بھی خلا سے کوئی سیٹلائٹ، خلائی اسٹیشن یا خلائی جہاز ناکارہ ہونے کے بعد واپس زمین پر پھینکا جاتا ہے تو اسے اسی مقام پر پھینکا جاتا ہے تاکہ یہ کسی انسانی آبادی کو نقصان نہ پہنچائے۔

  • بحراوقیانوس کی صفائی کے لیے 2ہزارفٹ طویل پائپ

    بحراوقیانوس کی صفائی کے لیے 2ہزارفٹ طویل پائپ

    سان فرانسسکو: سمندروں کی صفائی کرنے کے لیے دو ہزار فٹ طویل پائپ بحر اوقیانوس میں اتارا گیا ہے، جس کا مقصد سمندر کی تہہ سے ٹنوں وزنی پلاسٹک کا کچرا نکالنا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق یہ کام اوشین کلین اپ فاؤنڈیشن کے زیراہتمام انجام دیا جارہا ہے اور اس عظیم الشان پائپ کا نام ولسن رکھا گیا ہے،یہ پائپ سان فرانسسکو اور ہوائی کے سمندر کے درمیان پھیلے ہوئے کچرے کے ڈھیر کو صاف کرے گا۔

    ذرائع کاکہنا ہے بحر اوقیانوس میں جس مقام پر صفائی کی جارہی ہے وہاں موجود کچرے کے ڈھیر کا رقبہ ٹیکساس سے دو گنا زیادہ ہے اور یہ سمندروں میں موجود کچرے کے پانچ عظیم ذخیروں میں سے ایک ہے۔

    اوشین کلین اپ فاؤنڈیشن نے گزشتہ ماہ اس پراجیکٹ کا آگغاز کیا تھا اور آج یہ پائپ اپن منزل پر پہنچ جائے گا جہاں اسے نصب کرکے جلد ہی صفائی کا عمل شروع کردیا جائے گا۔

    یہ پائپ انگریزی حرف ’یو‘ کی شکل میں ہے اور سمندر کی سطح سے کچرے کا ڈھیر صاف کرے گا۔ ایک بوٹ اس کچرے کو واپس ساحل پر لانے کے لیےمختص کی گئی ہے جو سمندر میں کچرے کے ٹرک کے فرائض انجام دے گی ۔ اس سارے منصوبے کا مقصد سمندر کو صاف کرنا اور پلاسٹک کو ری سائیکل کرکے اس سے نئی اشیا تیار کرنا ہے۔

    کمپنی کا مقصد ہے کہ وہ پوری دنیا کے سمندروں کی صفائی کرے۔ یاد رہے کہ اس وقت سمندروں کی تہہ میں 150 ملین ٹن پلاسٹک موجود ہے جو وسیع پیمانے پر موسمیاتی تبدیلی کا سبب بن رہی ہے، جبکہ اس سے سمندری حیات اور سیاحت پر بھی اثر پڑ رہا ہے جبکہ یہ ہماری سمندری غذا کو بھی متاثر کررہی ہے۔

    کمپنی کے 24 سالہ جواں سال سی ای او بویان سلیٹ کا کہنا ہے کہ یہ پلاسٹک آئندہ ایک سال تو کیا سو سال تک بھی وہیں رہنے والی ہے اور ہمارے ماحول کو برباد کرتی رہے گی ، اسے ختم کرنے کا بس یہی ایک طریقہ ہے کہ ہم وہاں جائیں اور اسے وہاں سے نکال کرلے آئیں ۔

  • بحر اوقیانوس میں 6 منزلہ عمارت جتنی بلند لہر

    بحر اوقیانوس میں 6 منزلہ عمارت جتنی بلند لہر

    جینیوا: اقوام متحدہ کے زیر نگرانی فعال عالمی ادارہ موسمیات کا کہنا ہے کہ شمالی بحر اوقیانوس میں تاریخ کی بلند ترین لہر دیکھی گئی جو 19 میٹر بلند (62 فٹ سے بھی زائد) تھی اور یہ بلندی ایک 6 منزلہ عمارت جتنی تھی۔

    ادارے کی جانب سے جاری کیے جانے والے ڈیٹا کے مطابق یہ خوفناک اور بلند و بالا لہر برطانیہ اور آئس لینڈ کے درمیان واقع سمندر میں دیکھی گئی۔ ادارے کے ڈپٹی چیف وین جنگ زینگ کا کہنا ہے کہ یہ تاریخ میں دیکھی جانے والی بلند ترین لہر ہے۔

    wave-2

    ڈیٹا کے مطابق 6 منزلہ عمارت جتنی بلند یہ لہر شدید سرد موسم کا نتیجہ تھی جس کے ساتھ 50 میل فی گھنٹہ چلنے والی تیز اور سرد ہوائیں بھی دیکھی گئیں۔

    زینگ کا کہنا ہے کہ ہمیں موسموں میں ہونے والی ان تبدیلیوں کو سمجھنے کے لیے سمندروں اور ان کی لہروں کا نہایت درست ریکارڈ رکھنا ہوگا۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے بحری نقل و حمل کو زیادہ سے زیادہ محفوظ بنا سکیں۔

    مزید پڑھیں: دنیا کا دوسرا بڑا سمندر بحر اوقیانوس تیر کر پار کرنے کا عزم

    واضح رہے کہ براعظم امریکا کو باقی دنیا سے الگ کرنے والے دنیا کے دوسرے بڑے سمندر بحر اوقیانوس کا شمالی حصہ کینیڈا سے آئس لینڈ تک پھیلا ہوا ہے اور یہ بلند و بالا لہروں کا مرکز ہے۔ سردی کے موسم میں یہاں وقوع پذیر ہونے والے موسمیاتی دباؤ کے باعث تیز ہوائیں شدید طوفانوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔

  • عالمی ریکارڈ قائم کرنے میں سمندری حیات مزاحم

    عالمی ریکارڈ قائم کرنے میں سمندری حیات مزاحم

    لندن: برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص بین ہوپر کا عزم ہے کہ وہ دنیا کا دوسرا بڑا سمندر بحر اوقیانوس تیر کر پار کرے گا، لیکن اس کے اس عزم میں مختلف سمندری حیات رکاوٹ بن رہی ہیں۔

    اڑتیس سالہ بین ہوپر جو پیشے کے لحاظ سے ایک پولیس افسر ہے، بحر اوقیانوس کو تیر کر پار کرنا چاہتا ہے تاکہ دنیا کو بتا سکے کہ اگر کچھ کرنا چاہیں تو کچھ بھی ناممکن نہیں۔

    وہ رانولف فنیز نامی مہم جو کو اپنا آئیڈیل سمجھتا ہے جس نے انٹارکٹک کے برفانی خطے کا پیدل سفر طے کیا تھا۔

    بین نے اپنا سفر مغربی افریقی ملک سینیگال سے شروع کیا جو برازیل پر اختتام پذیر ہونا تھا۔ بین اور ان کی ٹیم کے اندازوں کے مطابق یہ سفر 4 سے 5 ماہ میں مکمل ہوجانا چاہیئے۔

    تاہم یہ اتنا آسان نہیں ہے۔

    sea-2

    بین نے جب اپنا سفر شروع کیا تو بہ مشکل 67 ناٹیکل میل کے فاصلے کے بعد ہی اسے مختلف سمندری حیات سے پالا پڑگیا جنہوں نے اس کے سفر کو ناکام بنانے کی کوشش شروع کردی۔

    اس کا کہنا ہے کہ اسے روزانہ جیلی فش کے ڈنک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بین نے دو بار مختلف مقامات پر شارکس کو بھی دیکھا۔ ’یہ اس سے کہیں زیادہ مشکل ہے جتنا ہم نے سوچا تھا‘۔

    بین سنہ 2013 سے اس کی مشق کر رہے ہیں لیکن اب اصل امتحان کافی سخت ہے۔ لیکن بین کا عزم ہے کہ وہ اپنے ارادے کی تکمیل کرے گا اور بحر اوقیانوس کو پار کر کے رہے گا۔

    بین چاہتا ہے کہ وہ دنیا کاپہلا شخص بنے جو بحر اوقیانوس کو تیر کر پار کرے۔

    واضح رہے کہ بحر اوقیانوس دنیا کا دوسرا بڑا سمندر ہے جو 10 کروڑ سے بھی زائد اسکوائر کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔

  • دو یورپی ممالک کو ملانے والا سمندر میں حیران کن پل

    دو یورپی ممالک کو ملانے والا سمندر میں حیران کن پل

    دنیا میں دو ممالک کو تقسیم کرنے کے لیے کوئی سرحد بنائی جاتی ہے۔ یہ سرحد عموماً خاردار تاروں اور دیواروں کی ہوتی ہے لیکن دنیا کے کئی امن پسند ممالک اپنی سرحدیں قدرتی رکھتے ہیں۔

    یہ سرحدیں پہاڑ، دریا، جنگلات وغیرہ کی شکل میں ہوتی ہیں۔ بعض دفع سرحدوں پر کوئی ایسی چیز تعمیر کی جاتی ہے جودیکھنے والوں کو حیران کردیتی ہے۔

    ایسا ہی ایک نمونہ تعمیر سوئیڈن اور ڈنمارک کے درمیان واقع ہے۔ سوئیڈن اور ڈنمارک کے درمیاں بھی پانی کی قدرتی سرحد واقع ہے۔ یہ بحر اوقیانوس کا حصہ ہے جسے آبنائے اورسنڈ کہا جاتا ہے۔

    bridge-2

    اس حصہ میں ایک وسیع و عریض پل تعمیر کیا گیا ہے جو دونوں ممالک کو سڑک اور ریلوے لائن کے ذریعہ ملاتا ہے۔

    bridge-6

    پل پر 4 لینز والی ہائی وے اور ریلوے لائن موجود ہے۔

    bridge-7

    ایک طویل اور وسیع و عریض ہائی وے آخر میں ایک مصنوعی جزیرے پر غائب ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد یہاں سے ایک زیر زمین سرنگ شروع ہوتی ہے۔

    bridge-3

    bridge-4

    انوکھے انداز میں تعمیر کیے گئے اس پل کے نیچے سے بحری جہاز بھی باآسانی گزر سکتے ہیں۔

    bridge-5

    یہ پل 1936 میں تعمیر کیا گیا تھا۔

  • قطب شمالی میں برف پگھلنے کی رفتار میں خطرناک اضافہ

    قطب شمالی میں برف پگھلنے کی رفتار میں خطرناک اضافہ

    عالمی خلائی ادارے ناسا نے ایک ویڈیو جاری کی ہے جس میں قطب شمالی کے سمندر میں پگھلتی ہوئی برف کو دکھایا ہے۔ ناسا کے مطابق رواں برس مارچ سے اگست کے دوران قطب شمالی کے سمندر میں ریکارڈ مقدار میں برف پگھلی۔

    ماہرین کے مطابق 2016 ایک گرم سال تھا۔ رواں برس مئی اور جولائی کے مہینہ میں درجہ حرارت میں ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ رواں سال کے بقیہ ماہ 2014 اور 2015 سے بھی زیادہ گرم ہونے کا خدشہ ہے جس کی وجہ ایل نینو اور گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں اضافہ ہے۔ ایل نینو بحر الکاہل کے درجہ حرارت میں اضافہ کو کہتے ہیں جس کے باعث پوری دنیا کے موسم پر منفی اثر پڑتا ہے۔

    درجہ حرارت میں اس اضافہ کا اثر قطب شمالی پر بھی پڑ رہا ہے جہاں موجود برف تیزی سے پگھلنی شروع ہوگئی۔

    قطب شمالی یا بحر منجمد شمالی کے بیشتر حصے پر برف جمی ہوئی ہے۔ یہاں آبی حیات بھی کافی کم ہیں جبکہ نمکیات دیگر تمام سمندروں کے مقابلے میں سب سے کم ہیں۔

    arctic-2

    اس کا رقبہ 14,056,000 مربع کلومیٹر ہے۔ اس کے ساحل کی لمبائی 45 ہزار 389 کلومیٹر ہے۔ یہ تقریباً چاروں طرف سے زمین میں گھرا ہوا ہے جن میں یورپ، ایشیا، شمالی امریکہ، گرین لینڈ اور دیگر جزائر شامل ہیں۔

    کلائمٹ چینج یا موسمیاتی تغیر کا اثر بحر منجمد پر بھی پڑا ہے۔ شدید گرمی کے باعث اس کے گلیشیئرز کی برف پگھلنی شروع ہوگئی ہے جس سے ایک تو سطح سمندر میں اضافے کا خدشہ ہے، دوسری جانب یہاں پائی جانے والی جنگلی حیات جیسے برفانی ریچھ وغیرہ کی بقا کو بھی سخت خطرات لاحق ہیں۔

    مزید پڑھیں: برفانی سمندر کو بچانے کے لیے پیانو کی پرفارمنس

    ماہرین کا کہنا ہے کہ رواں سال میں گرمیوں کے موسم کے درجہ حرارت میں تو اضافہ ہوا ہی، مگر اس کے ساتھ ساتھ گزشتہ برس کا موسم سرما بھی اپنے اوسط درجہ حرارت سے گرم تھا۔ یعنی موسم سرما میں قطب شمالی کا جو اوسط درجہ حرارت ہے، گزشتہ برس وہ اس سے 2 سے 3 ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ تھا۔

    arctic-3

    ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا میں ہوتی تیز رفتار صنعتی ترقی اور اس کے باعث گیسوں کے اخراج اور درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے اب تک قطب شمال کے برفانی رقبہ میں 620,000 میل اسکوائر کی کمی ہوچکی ہے۔