Tag: بخار

  • خبردار! بخار، گلے اور فنگل انفیکشن کی یہ دوائیں جعلی ہیں، ہرگز نہ خریدیں

    خبردار! بخار، گلے اور فنگل انفیکشن کی یہ دوائیں جعلی ہیں، ہرگز نہ خریدیں

    پنجاب ڈرگ کنٹرول ڈائریکٹوریٹ نے مختلف امراض کی جعلی ادویات پکڑی ہیں اور ڈریپ نے اس حوالے سے ریپڈ الرٹ بھی جاری کر دیا ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق پنجاب میں ایک بار پھر جعلی ادویات کے خلاف بڑا کریک ڈاؤن کیا گیا۔ اس کارروائی میں پنجاب ڈرگ کنٹرول ڈائریکٹوریٹ نے بخار، گلے، فنگل انفیکشن اور امراض نسواں کے علاج کے لیے استعمال کی جانے والی جعلی ادویات پکڑ لیں۔

    پنجاب ڈرگ کنٹرول ڈائریکٹوریٹ کی درخواست پر ڈریپ نے اس حوالے سے ریپڈ الرٹ بھی جاری کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پنجاب ڈرگ ٹیسٹنگ لیب نے 5 ادویات کے 5 بیچ جعلی قرار دیے ہیں۔

    ڈریپ الرٹ کے مطابق ادویات ڈرگ ایکٹ 1976 سیکشن 3 کے تحت جعلی قرار پائی ہیں۔ مذکورہ جعلی ادویات مقامی فارما کمپنیز کے برانڈز کے ناموں پر تیار کردہ ہیں اور ان دواؤں کے لیبلز پر کراچی، لاہور، فیصل آباد اور سرگودھا کے پتے درج ہیں۔

    ڈریپ نے جعلی ادویات کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا ہے کہ پیراسٹامول ایکسٹرا سیرپ 1000 ایم ایل بیچ ایم ٹی 357 جعلی ہے۔ اس کے علاوہ گلے کے انفیکشن کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی گولی کلیریسڈ 500 ایم جی بیچ 722269 بھی جعلی ہے۔

    بخار، جسم درد کا سسپنشن کیریفن 450 ایم ایل بیچ سی این 37، فنگل انفیکشن کی گولی ٹربیسل 250 ایم جی بیچ 473 اور امراض نسواں کی ٹیبلٹ ڈروپھا 10 ایم جی بیچ ڈی آر پی 0005 یہ تمام ادویات جعلی ہیں۔

    ڈریپ الرٹ میں کہا گیا ہے جعلی ادویات کی تیاری میں خام مال استعمال نہیں ہوتا ہے۔ ان کی افادیت غیر واضح جب کہ استعمال جان لیوا ہو سکتا ہے۔ غیر معیاری ادویات کے استعمال سے علاج میں ناکامی بھی ہو سکتی ہے۔

    ڈریپ نے پنجاب حکومت کو غیر معیاری ادویات کی روک تھام کے لیے ہنگامی اقدامات کرنے، ڈریپ ریگولیٹری فورس، پنجاب ڈرگ کنٹرول ڈائریکٹوریٹ مارکیٹ کی سرویلنس بڑھانے اور صوبے میں جعلی ادویات کی سپلائی چین کی جامع تحقیقات کی ہدایات کی ہیں۔

    ڈریپ نے پنجاب حکومت کو واضح طور پر کہا ہے کہ وہ ریگولیٹری فورس کے ذریعہ مارکیٹ سے جعلی ادویات کا خاتمہ یقینی بنائے۔ مارکیٹوں میں دستیاب جعلی ادویات کے بیچ ضبط کیے جائیں۔ جعلی ادویات کے حوالے سے ڈسٹری بیوٹرز اور میڈیکل اسٹورز بھی فوری اطلاع دیں۔

  • بخار کے بعد ہونٹوں پر چھالے کیوں نکلتے ہیں؟

    بخار کے بعد ہونٹوں پر چھالے کیوں نکلتے ہیں؟

    بخار کے بعد عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ ہونٹوں کے ارد گرد کی جگہ سرخ ہوجاتی ہے اور ہونٹوں پر باریک چھالے بھی بن جاتے ہیں، یہ چھالے کافی تکلیف کا باعث ہوتے ہیں۔

    ان چھالوں کو فیور بلسٹر یعنی بخار کے چھالے یا کولڈ سور یعنی سرد زخم کہا جاتا ہے۔ یہ تکلیف دہ سفید یا زرد چھالے ہونٹ، منہ کے اردگرد اور ناک کے پاس بنتے ہیں۔

    یہ چھالے ہونے کی ایک اہم وجہ بخار کے باعث ہونے والا انکفیکشن ہوتا ہے، جسے ہرپس سمپلیکس وائرس یا ایچ ایس وی 1 کا نام دیا گیا ہے، اس وائرس میں چھالوں کے علاوہ مختلف عام موسمی بیماریاں اور تھکاوٹ بھی شامل ہے۔

    بعض محرکات وائرس مزید بڑھا سکتے ہیں، جیسے کوئی بیماری یا بخار، سورج میں زیادہ وقت گزارنا، چوٹ لگنا، نزلہ و زکام اور اسٹریس وغیرہ، یہ وائرس عام طور پر اعصابی خلیوں میں رہتا ہے، یہی وائرس بار بار بخار کے چھالوں کا باعث بنتا ہے۔

    ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 90 فیصد امریکی بالغ افراد اس وائرس کی زد میں آتے ہیں، جبکہ بعض افراد میں اس وائرس کی کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتی ہیں۔

    ایسے افراد جن کی ہرپس سورج کی روشنی سے متحرک ہوتے ہیں، انہیں چاہئے کہ سورج کی روشنی سے بچیں اور سن اسکرین لگانا ضرروی ہے تاکہ اس سے محفوظ رہنے میں مدد مل سکے۔

    اس وائرس کا تاحال کوئی علاج دریافت نہیں ہوا ہے، کوشش یہ کرنی چاہئے کہ جب یہ وائرس فعال ہونے لگے تو کھانے پینے کے برتن اور تولیہ کا اشتراک دوسرے فرد سے نہ کیا جائے۔

    وائرس کی 2عام اقسام:

    ہرپس سمپلیکس وائرس ٹائپ 1 (HSV-1) اکثر منہ کے انفیکشن سے منسلک ہوتا ہے۔ہرپس سمپلیکس وائرس ٹائپ 2 (HSV-2)۔ وائرس کی یہ قسم اکثر جینیاتی ہرپس کے انفیکشن سے جڑی ہوتی ہے، کوئی شخص اگر اس سے ایک بار متاثر ہوجائے تو وائرس ساری زندگی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتا۔

    جب وائرس فعال نہیں ہوتا ہے، تو یہ اعصابی خلیوں کے ایک گروپ میں غیر متحرک رہتا ہے، کچھ لوگوں میں کبھی بھی وائرس کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی جبکہ دوسروں کو وقتاً فوقتاً اس کا انفیکشن ہوتا رہتا ہے۔ اس لئے اس وائرس سے بچاؤ کے لئے احتیاطی تدابیر ضرور اختیار کرنی چاہئیں۔

  • کرونا کی سب سے عام علامت تبدیل ہو گئی

    کرونا کی سب سے عام علامت تبدیل ہو گئی

    طبی سائنس دانوں نے انکشاف کیا ہے کہ کرونا وائرس کی سب سے عام علامت تبدیل ہو گئی ہے۔

    برطانوی ماہرین کی جانب سے کی جانے والی حالیہ تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کووِڈ نائنٹین کی علامات میں تبدیلی آ چکی ہے۔

    یہ تحقیق مئی میں طبی جریدے اوٹولیرنجولوجی- ہیڈ اینڈ نیک سرجری میں شائع ہوئی، جس میں کرونا انفیکشن میں مبتلا ہونے والے لاکھوں مریضوں کی علامات کا جائزہ لیا گیا۔

    تحقیق سے معلوم ہوا کہ حال ہی میں وبا کا شکار ہونے والے افراد کی علامات ماضی کے مریضوں سے مختلف تھیں، اور بخار کی بجائے گلے میں خارش کرونا کی سب سے عام علامت بن گئی ہے۔

    اس برطانوی تحقیق میں معلوم ہوا کہ کرونا وائرس کے مریضوں میں انفیکشن کے دوران ذائقے اور بو کے خاتمے کی علامات موجود نہیں تھیں، جو شروع میں سر فہرست ہوا کرتی تھیں۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اب گلے میں خارش، ناک کا بند ہونا، سر درد اور خشک کھانسی کرونا کی نئی اور عام علامات بن چکی ہیں، جب کہ ماضی میں سونگھنے اور چکھنے کی حس کا چلا جانا، بخار اور نزلہ و زکام کرونا کی عام علامات تھیں۔

    تحقیق کے دوران 17 ہزار سے زائد افراد کا جائزہ لیا گیا، یہ بات بھی سامنے آئی کہ بلغم کے ساتھ کھانسی، ناک کا بہنا، چھینکیں آنا، تھکاوٹ ہونا، آواز کا تبدیل ہونا، آنکھوں میں درد، پٹھوں میں سوجن اور چکر آنا بھی کرونا کی نئی علامات ہیں۔

    تقریباً 17,500 مریضوں کے حالیہ سروے میں جب ان سے ان کی علامات کے بارے میں پوچھا گیا، تو 58 فی صد نے گلے میں خراش، 49 فی صد سر درد، 40 فی صد ناک بند، 40 فی صد بلغم کے بغیر کھانسی اور 40 فی صد ناک بہنے کی شکایت کی۔

    مریضوں میں 37 فی صد نے بلغم کے ساتھ کھانسی، 35 فی صد نے کھردری آواز، اور 32 فی صد چھینکنے، 27 فی صد نے تھکاوٹ، 13 فی صد نے بدلی ہوئی بو، 11 فی صد نے سانس لینے میں دشواری اور صرف 10 فی صد نے سونگھنے کی حس غائب ہونے کی شکایت کی، جو کہ رپورٹ شدہ علامات میں 20 ویں نمبر پر تھی۔

    یاد رہے کہ وبائی مرض کے ابتدائی دنوں کے دوران سونگھنے اور ذائقے کی حس کا غائب ہونا کووِڈ انفیکشن کی سب سے نمایاں علامات میں سے تھیں۔

  • ویلی فیور: ریت میں پایا جانے والا خرد بینی کیڑا موت بانٹنے لگا

    ویلی فیور: ریت میں پایا جانے والا خرد بینی کیڑا موت بانٹنے لگا

    ویلی فیور کے سبب امریکا اور دیگر ممالک میں اموات کے بعد طبی تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ ریت میں پائے جانے والے جراثیم میں سے ایک ہے جو ہوا کے ذریعے پھیلتا اور انسانی جسم میں داخل ہو کر اسے بخار میں مبتلا کر دیتا ہے۔

    اس بخار کی ابتدائی علامات میں سینے میں درد اور کھانسی شامل ہے۔ یہ بخار جان لیوا بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق بر وقت تشخیص اور علاج سے اس بیماری پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ یہ زیادہ تر صحرائی علاقوں میں پائی جانے والی بیماری ہے۔

    اس مرض کی دیگر عام علامات میں سردی لگنا، نیند کے دوران پسینے آنا، جسمانی تھکن اور جسم پر سرخ دھبے ظاہر ہونا ہیں۔ مرض بگڑنے کی صورت میں بخار کے ساتھ وزن میں کمی، کھانسی اور بلغم کے ساتھ خون آنے لگتا ہے۔

    یونیورسٹی آف ایریزونا کے ماہرین کی تحقیق کہتی ہے کہ ویلی فیور کی وجہ دراصل ایک قسم کی پھپھوندی ہے جو ریت میں موجود ہوتی ہے۔ ماہرین کے مطابق تعمیراتی شعبے، زراعت اور گلہ بانی سے وابستہ افراد کے اس بیماری میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔

    ماہرینِ طب کا کہنا ہے کہ امریکا میں ہر سال اموات کی ایک وجہ ویلی فیور بھی ہے۔ امریکا میں 1995 میں ویلی فیور میں مبتلا افراد کی تعداد پانچ ہزار تھی، جب کہ 2011 میں یہ تعداد بیس ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ طبی محققین کے مطابق ویلی فیور کوئی نئی بیماری نہیں ہے بلکہ اس کے ابتدائی کیسز 50 کی دہائی میں سامنے آئے تھے۔

  • بیماری میں آرام کرنے کا نقصان جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    بیماری میں آرام کرنے کا نقصان جان کر آپ حیران رہ جائیں گے

    آج کل سردیوں کا موسم ہے اور ہر دوسرا شخص نزلہ زکام کا شکار ہے۔ یہ نزلہ اور زکام بڑھ کر خطرناک صورت اختیار کرلیتا ہے اور آپ بخار یا سینے کے انفیکشن میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔

    ہوسکتا ہے آپ کو لگتا ہو کہ ایسی حالت میں آرام کرنا زیادہ مناسب ہے اور دفتر سے ایک دو دن کی چھٹی لے کر اسے بستر میں گزارنا چاہیئے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر آپ ایسا سوچتے ہیں تو آپ اپنی زندگی سے کھیل رہے ہیں۔

    برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ایک ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اگر آپ نزلہ زکام یا سردی لگنے کی صورت میں آرام کرنا پسند کرتے ہیں تو آپ اپنی بیماری کو شدید بنا رہے ہیں۔

    ان کا کہنا ہے کہ ایسی حالت میں آپ کو سارا دن بستر میں گزارنے کے بجائے ہلکی پھلکی ورزش یا چہل قدمی کرنی چاہیئے۔

    اس بارے میں ڈاکٹر ایرک بتاتے ہیں کہ نزلے کی حالت میں آرام کرنا آپ کے گلے میں موجود بلغم کو سخت کردیتا ہے جس کے بعد یہ سینے میں جم جاتا ہے اور یہ چیسٹ انفیکشن اور نمونیا کا باعث بھی بنتا ہے۔

    مزید پڑھیں: نمونیا اور اس کی علامات سے آگاہی حاصل کریں

    اس کے برعکس اگر ہلکی پھلکی ورزش یا چہل قدمی کی جائے اور جسم کو متحرک حالت میں رکھا جائے تو بلغم جمتا نہیں اور یہ بآسانی جسم سے باہر نکل آتا ہے۔

    ڈاکٹر ایرک کہتے ہیں، ’ضروری نہیں کہ آپ جم جائیں اور بھاری بھرکم وزش کریں۔ اس کے لیے اپنے روزمرہ کے کام انجام دینا جس میں آپ کا جسم حرکت میں آئے، یا صرف چہل قدمی کرنا بھی کافی ہوگا‘۔

    تو اگر آپ بھی نزلے کا شکار ہیں تو آرام کرنے کا خیال دل سے نکال دیں اور اپنے روزمرہ کے معمولات جاری رکھیں۔

  • ڈینگی وبا کی پیشگی اطلاع دینے والا سسٹم

    ڈینگی وبا کی پیشگی اطلاع دینے والا سسٹم

    پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی سے ڈینگی کا موذی مرض ہر سال اپنی تباہ کاریوں سے ہمارے ہم وطنوں کو نشانہ بناتا رہا ہے، کریبیئن انسٹی ٹیوٹ فار میٹرولوجی اینڈ ہائیدرولوجی کے شماریاتی ماڈل کے ذریعے دو سے تین ماہ قبل پیشن گوئی کی جاسکتی ہے کہ کس علاقے میں ڈینگی کی وبا پھوٹے گی، اور پیشگی حفاظتی انتظامات کیے جاسکتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق حال ہی میں کریبیئن انسٹی ٹیوٹ فار میٹرولوجی اینڈ ہائیدرولوجی نے ڈینگی اور دیگر وبائی امراض کی قبل از وقت پیش گوئی کرنے کے لیے ایک شماریاتی ماڈل بنایا ہے جس کی بنیاد پچھلے چند برسوں میں کسی مخصوص علاقے کے درجہ حرارت میں اضافے اور وہاں بارشوں کی سالانہ اوسط پر رکھی گئی ہے۔

    اس ماڈل پر کام کرنے والے محققین نے برازیل اور اطراف کے ممالک کے لیے 1999ء سے 2016ء تک درجہ حرارت اور بارشوں کی اوسط کا ایک شماریاتی ڈیٹا تیار کرکے یہ پیش گوئی کی ہے کہ اگلے 3 ماہ میں کن کن علاقوں میں ڈینگی کی وبا پھوٹ پڑنے کا امکان ہے اور حیرت انگیز طور پر یہ پیش گوئی بالکل درست ثابت ہوئی۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ماڈل ان علاقوں کے لیے زیادہ کار آمد ثابت ہوسکتا ہے جہاں مختصر یا طویل المدت خشک سالی کے بعد بارشوں کا آغاز ہوا ہو، جو عموماً کئی ماہ لگاتار جاری رہتی ہیں اور سیلاب کا سبب بنتی ہیں، کیوں کہ سیلاب کا پانی اترتے ہی یہ وبائی امراض بہت تیزی سے پھوٹ پڑتے ہیں۔

    محققین کے مطابق یہ شماریاتی ماڈل کسی بھی ملک کی پبلک ہیلتھ پالیسی بنانے میں بھی مدد گار ثابت ہوسکتا ہے اور اس کے ذریعے نہ صرف ڈینگی بلکہ دیگر وبائی امراض کے پھیلنے کے رسک کو کم کیا جاسکتا ہے۔

    یہ ماڈل پاکستان میں ایک ہیلتھ پالیسی اور ڈیزاسٹر اسٹریٹجی بنانے میں بہت معاونت کرسکتا ہے جہاں لاہور و کراچی جیسے بڑے شہروں میں بھی نکاسی آب کا درست انتظام نہیں اور معمول سے تھوڑی زیادہ بارشیں ہوتے ہی پورے شہر دریا کا منظر پیش کرنے لگتے ہیں جبکہ گنجان آبادی والے علاقوں میں کئی کئی روز بارش کا پانی کھڑا رہنے کے باعث مچھروں کی افزائش کا سبب بنتا ہے۔

    اگر 1995ء یا اس کے بعد کسی بھی سال سے شماریاتی ڈیٹا تیار کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ابتداء میں ڈینگی کے زیادہ تر کیسز صوبہ بلوچستان میں سامنے آئے تھے جہاں وقتاً فوقتاً طویل یا مختصر المدت خشک سالی کے اوقات اب معمول بن چکے ہیں جبکہ 2018ء میں یہ کیسز سندھ سے رپورٹ ہوئے ہیں جہاں بارشوں کی قلت کے باعث خشک سالی جڑیں پکڑتی جارہی ہے۔

    شماریاتی ڈیٹا کی بنیاد پر یہ پیش گوئی کرنا آسان ہوگا کہ اگلے چند ماہ یا 2019ء میں کون سے صوبے یا مخصوص علاقوں کو ان وبائی امراض کے حملے کا سامنا رہے گا۔ اس ماڈل کی بنیاد پر ہر صوبے میں ایک ارلی وارننگ سسٹم بھی بنایا جاسکتا ہے جو ہر طرح کے جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہو اور مقامی میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہو تاکہ پانی کے ذخائر اور درجہ حرارت کے حوالے سے مسلسل معلومات ملتی رہیں اور ان معلومات کی بنیاد پر 2 سے 3 ماہ پہلے وارننگ جاری کی جائے اور مقامی افراد کو اس کا پابند کیا جائے کہ وہ اپنے اطراف میں صفائی وستھرائی کا بھرپور انتظام کرتے ہوئے باقاعدگی سے جراثیم کش سپرے کریں، پانی کے ذخائر کو آلودہ اور بدبودار ہونے سے بچایا جائے تاکہ ڈینگی مچھر کی افزائش نسل کو روکا جا سکے۔

    یاد رہے کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 2016ء میں 16 ہزار 580 افراد ڈینگی کا شکار ہوئے، جن میں سے 257 کی صرف لاہور میں موت واقع ہوئی تھی۔ 2017ء میں یہ اعداد و شمار اچانک ہولناک شکل اختیار کرگئے اور پورے ملک سے 78 ہزار 820 کیسز رپورٹ ہوئے جن میں سے صرف 17 ہزار 828 افراد کی لیبارٹری سے تصدیق ہوسکی، مگر قابلِ غور بات یہ ہے کہ گزشتہ برس زیادہ تر کیسز پنجاب کے بجائے خیبر پختونخوا سے سامنے آئے جن کی تعداد 68 ہزار 142 تھی۔

    صحت سے متعلق پالیسی بنانا یقیناً حکومت کا کام ہے مگر جب تک مقامی آبادی ان پالیسیوں میں عمل درآمد میں حکومت کی معاونت نہیں کرے گی تب تک یونہی ہر برس ڈینگی، چکن گونیا اور زیکا وائرس سمیت دیگر وبائی امراض نئے مقامات پر حملے کرکے اسی طرح تباہی پھیلاتے رہیں گے۔

  • ڈینگی کی علامات سے باخبر رہیں

    ڈینگی کی علامات سے باخبر رہیں

    مچھروں کے باعث پیدا ہونے والے مرض ڈینگی کا اگر ابتدائی مراحل میں علاج نہ کیا جائے تو وہ مریض کے لیے جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے۔

    ایک خاص قسم کے مچھر کے کاٹنے سے پیدا ہونے والی یہ بیماری خون کے سفید خلیات پر حملہ کرتی ہے اور انہیں آہستہ آہستہ ناکارہ کرنے لگتی ہے۔

    پاکستان ڈینگی کے شکار سرفہرست 10 ممالک میں سے ایک ہے اور خشک موسم میں ان مچھروں کی افزائش بڑھ جاتی ہے۔

    مزید پڑھیں: مچھروں سے بچنے کے طریقے

    ڈینگی کو بعض اوقات کسی دوسرے مرض کی غلط فہمی میں زیادہ توجہ نہیں دی جاتی اور علاج میں تاخیر کردی جاتی ہے جس کے بعد یہ جان لیوا بن سکتا ہے۔

    طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈینگی بخار کی 4 اقسام ہیں اور ان چاروں میں ایک ہی طرح کی علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ ان کے مطابق ان علامات کے فوری طور پر ظاہر ہوتے ہی ڈاکٹر سے رجوع کرنا مرض کی شدت کو کم کرسکتا ہے۔

    مزید پڑھیں: ڈینگی وائرس سے بچیں

    وہ علامات کیا ہیں، آپ بھی جانیں۔

    سر درد

    ڈینگی بخار کی سب سے پہلی علامت شدید قسم کا سر درد ہے جو مریض کو بے حال کردیتا ہے۔

    تیز بخار

    ڈینگی کا وائرس جسم میں داخل ہوتے ہی مریض کو نہایت تیز بخار ہوجاتا ہے۔ 104، 105 یا اس سے بھی زیادہ تیز بخار کی وجہ سے جسم کے درجہ حرارت میں نہایت تیزی کے ساتھ غیر معمولی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔

    جوڑوں میں درد

    اس مرض میں مریض کو پٹھوں اور جوڑوں میں نہایت شدید درد کا سامنا ہوتا ہے۔ یہ درد خاص طور پر کمر اور ٹانگوں میں ہوتا ہے۔

    خراشیں

    ڈینگی بخار کے ابتدائی مرحلے میں جلد پر خراشیں بھی پڑ جاتی ہیں اور جلد کھردری ہو کر اترنے لگتی ہے۔

    متلی اور قے

    ڈینگی کے باعث ہونے والا تیز بخار متلیوں اور الٹیوں کا سبب بھی بنتا ہے۔

    غنودگی

    ڈینگی بخار کے دوران مریض کا غنودگی میں رہنا عام بات ہے۔

    خون بہنا

    جب ڈینگی بخار اپنی شدت کو پہنچ جاتا ہے تو مریض کے ناک اور مسوڑھوں سے خون بہنا شروع ہوجاتا ہے۔

    خون کے خلیات میں کمی

    ڈینگی وائرس خون کے خلیات پر حملہ کرتا ہے جس سے ایک تو نیا خون بننا بند یا کم ہوجاتا ہے، علاوہ ازیں بخار کے دوران اگر کوئی چوٹ لگ جائے اور خون بہنا شروع ہوجائے تو خون کو روکنا مشکل ہوجاتا ہے جو نہایت خطرناک بات ہے۔

    ڈینگی کے مریض میں خون کے خلیات کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اسے مستقل خون کی منتقلی ضروری ہے۔

    ڈائریا

    سخت بخار کے باعث مریض کو ڈائریا بھی ہوسکتا ہے جس کے باعث جسم سے نمکیات خارج ہوسکتے ہیں۔ یوں پہلے ہی ڈینگی سے بے حال مریض مزید ادھ موا ہوجاتا ہے۔

    فشار خون اور دل

    ڈینگی کا وائرس خون کے بہاؤ اور دل کی دھڑکن کو بھی متاثر کرتا ہے۔ ڈینگی کی وجہ سے بلڈ پریشر اور دھڑکن کی رفتار میں کمی آسکتی ہے۔


    اگرآپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اوراگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پرشیئر کریں۔