Tag: بخاری صاحب

  • مہر و ماہ و انجم کی بے نیازیوں سے نالاں زیڈ اے بخاری

    مہر و ماہ و انجم کی بے نیازیوں سے نالاں زیڈ اے بخاری

    ذوالفقار علی بخاری کو دنیائے ادب اور فنون میں زیڈ اے بخاری کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ ان کی وجہِ شہرت شاعری اور صدا کاری ہے، لیکن تخلیقی جوہر سے مالا مال زیڈ اے بخاری نے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی دنیا میں ایک ماہرِ نشریات اور منتظم، پروڈیوسر اور اسٹیج اداکار کے طور پر بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ 12 جولائی 1975 کو زیڈ اے بخاری اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے۔

    وہ 1904 میں پشاور میں پیدا ہوئے۔ انھیں سب بخاری صاحب پکارتے جو اردو زبان کی صحت، املا اور ریڈیو پر درست تلفظ کا بہت خیال رکھتے تھے۔ وہ متعدد زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔

    زیڈ اے بخاری کو کم عمری ہی سے اسٹیج ڈراموں میں کام کرنے کا بہت شوق تھا۔ انھوں نے پہلی مرتبہ شملہ میں امتیاز علی تاج کے مشہور ڈرامے ’’انارکلی‘‘ میں سلیم کا کردار ادا کیا اور خوب داد سمیٹی۔ وہ اس ڈرامے کے پروڈیوسر بھی تھے۔

    یہ 1936 کی بات ہے جب آل انڈیا ریڈیو کا قیام عمل میں آیا تو بخاری صاحب بھی اس میڈیم سے منسلک ہوگئے اور زندگی بھر ریڈیو سے وابستہ رہے۔ انھوں نے لندن سے ریڈیو نشریات کے لیے تربیت حاصل کی اور واپسی پر بمبئی اور کلکتہ ریڈیو اسٹیشن کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ تقسیم کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور ریڈیو پاکستان کے پہلے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے۔

    جب کراچی میں ٹیلی ویژن اسٹیشن کا قیام عمل میں‌ لایا گیا تو بخاری صاحب ہی پہلے جنرل منیجر مقرر ہوئے۔

    ان کے والد صاحبِ دیوان نعت گو شاعر جب کہ بڑے بھائی پطرس بخاری اردو کے صاحبِ طرز ادیب تھے۔ ایسے علمی اور ادبی گھرانے میں‌ پروان چڑھنے والے بخاری صاحب کو حسرت موہانی، یاس یگانہ چنگیزی، نواب سائل دہلوی جیسے عظیم شعرا کی صحبت بھی میسر آئی جس نے انھیں‌ شاعری پر مائل کیا۔

    زیڈ اے بخاری کو اردو کے علاوہ فارسی، پنجابی، پشتو، بنگالی اور انگریزی زبانوں پر عبور حاصل تھا اور یہی وجہ ہے کہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ان کے زمانے میں صحتِ زبان کا بہت خیال رکھا گیا۔

    زیڈ اے بخاری نے اپنے حالاتِ زندگی کو ’’سرگزشت‘‘ کے نام سے رقم کیا جو نثر میں ان کے کمال کی یادگار ہے۔ موسیقی کے رسیا ہی نہیں‌ راگ راگنیوں‌ سے بھی واقف تھے اور فنِ موسیقی پر ایک کتاب ’’راگ دریا‘‘ بھی ان کی یادگار ہے۔

  • کسی نوجوان کے اداس ہونے کی صرف دو وجوہ ہو سکتی ہیں!

    کسی نوجوان کے اداس ہونے کی صرف دو وجوہ ہو سکتی ہیں!

    بخاری صاحب کا ان دنوں عالمِ شباب تھا۔ پینتیس سال کے قریب عمر ہوگی، دراز قد، گھنی بھنویں، سرخ و سفید رنگت، بڑی بڑی روشن آنکھیں، لمبوترا چہرہ، شکل و شباہت کے اعتبار سے وہ افغان یا ایرانی دکھائی دیتے تھے۔

    ریشمی گاؤن پہن کر کلاس روم میں آتے تھے۔ حاضری لیے بغیر لیکچر شروع کیا کرتے، عموماً لیکچر سے پہلے اپنے عزیز شاگردوں سے دو ایک چونچیں ضرور لڑایا کرتے تھے۔ بلراج ساہنی مشہور ہندوستانی اداکار، ان کا عزیزترین شاگرد تھا۔ اکثرایک آدھ فقرہ اس پر کستے تھے۔

    ’’کیا بات ہے ساہنی، آج کچھ کھوئے کھوئے نظر آتے ہو، جانتے ہو جب کوئی نوجوان اداس رہتا ہے تو اس کی اداسی کی صرف دو وجہیں ہوتی ہیں یا وہ عشق فرمانے کی حماقت کر رہا ہے یا اس کا بٹوہ خالی ہے۔‘‘

    لیکچر کسی کتاب یا نوٹس کی مدد کے بغیر دیتے تھے۔ انگریزی کا تلفظ ایسا تھا کہ انگریزوں کو رشک آتا تھا۔ فرسودہ یا روایتی اندازِ بیان سے چڑ تھی۔ غلطی سے بھی کوئی عامیانہ فقرہ ان کی زبان سےنہیں نکلتا تھا۔

    ڈراما پڑھانے میں خاص کمال حاصل تھا۔ ہملیٹ پڑھا رہے ہیں تو چہرے پر وہی تأثرات پیدا کرلیں گے جو موقع محل کی عکاسی کرتے ہوں۔ کنگ لیر پڑھاتے تو معلوم ہوتا، کہ طوفانوں میں گھرا ہوا بوڑھا شیر غرا رہا ہے۔ شیکسپیئر کے مشہور کرداروں کی تقریریں زبانی یاد تھیں، انھیں اس خوبی سے ادا کرتے کہ سامعین کو پھریری سی آجاتی۔

    حافظہ غضب کا پایا تھا، اکثر جب کوئی نئی کتاب پڑھتے تو دوسرے دن کلاس روم میں اس کا خلاصہ اتنی صحت کے ساتھ بیان کرتے کہ لیکچر سننے کے بعد محسوس ہوتا کتاب انھوں نےنہیں ہم نے پڑھی ہے۔

    ایک بار فرانسیسی فلسفی برگساں کی کتاب ’’مزاح‘‘ کی وضاحت فرماتے وقت انھوں نے طنز و مزاح سے متعلق بہت دل چسپ باتیں بتائیں۔

    فرمایا۔ انسان ہی صرف ہنسنے والا جانور ہے۔

    میں نے کہا، جناب بندر بھی ہنستا ہے۔

    ہنس کر فرمایا، کیوں کہ وہ انسان کا جدِ امجد ہے۔

    بیان کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا۔ ہنسنے کے لیے عقل کا ہونا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیوقوف کو لطیفہ سنانا تضیعِ اوقات ہے۔ اگرایک آدمی کیلے کے چھلکے سے پھسل پڑے تو دوسرے اس پر ہنستے ہیں، لیکن اگر ایک بھینس کیلے کے چھلکے سے پھسل کر کیچڑ میں گر پڑے تو باقی بھینسیں اس پر کبھی نہیں ہنسیں گی، کیوں کہ بھینس کے پاس عقل نہیں ہوتی، تبھی تو یہ محاورہ ایجاد ہوا، عقل بڑی یا بھینس۔۔۔۔

    معروف مزاح نگار کنہیا لال کپور کے مضمون پیرومرشد سے انتخاب