Tag: براڈ شیٹ

  • براڈ شیٹ کے حق میں برطانوی ہائی کورٹ کا نیا حکم جاری

    براڈ شیٹ کے حق میں برطانوی ہائی کورٹ کا نیا حکم جاری

    لندن: براڈ شیٹ کے حق میں برطانوی ہائی کورٹ نے نیا حکم جاری کر دیا۔

    تفصیلات کے مطابق برطانوی ہائی کورٹ نے براڈ شیٹ کمپنی کے حق میں نیا حکم جاری کر دیا، عدالت نے براڈ شیٹ کو فریزنگ آرڈر نیب اور اٹارنی جنرل دفاتر پہنچانے کی اجازت دے دی۔

    براڈ شیٹ کمپنی نے 10 لاکھ پاؤنڈ کی بقایا رقم کے لیے برطانوی ہائی کورٹ سے رابطہ کیا تھا، جب کہ برطانیہ میں نیب کے وکلا براڈ شیٹ کو جواب نہیں دے رہے تھے، ایلن اینڈ اووری کے فعال نہ ہونے کے سبب نمائندگی نہیں تھی۔

    برطانوی ہائی کورٹ پہلے ہی پاکستانی اکاؤنٹس منجمد کرنے کے احکامات جاری کر چکا ہے، نیا حکم ہائی کورٹ کے ماسٹر ڈویژن کے کمرشل کورٹ نے جاری کیا ہے۔

    براڈ شیٹ انکوائری کمیشن رپورٹ کے مزید مندرجات سامنے آ گئے

    براڈ شیٹ کی درخواست پر تھرڈ پارٹی ڈیبٹ آرڈر کی سماعت 30 جولائی کو ہوگی، کاوے موساوی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں رواں ہفتہ متعلقہ اداروں کو عدالتی حکم مل جائے گا۔

    واضح رہے کہ پاکستان دسمبر 2020 میں براڈ شیٹ کو 28 ملین ڈالر کی رقم ادا کر چکا ہے۔

    اس کیس میں پاکستان میں جسٹس ریٹائرڈ عظمت سعید شیخ کی سربراہی میں ایک کمیشن قائم کیا گیا ہے، جس نے رواں ماہ 23 تاریخ کو رپورٹ میں انکشاف کیا کہ براڈ ‏شیٹ کمپنی کو 15 لاکھ ڈالر کی ادائیگی کا ریکارڈ غائب ہے، یہ ادائیگی غلط طور پر کی گئی تھی، اور اس کے لیے ذمہ دار سابق ڈپٹی ہائی کمشنر عبدالباسط تھے۔

  • براڈ شیٹ نے ہمیں 20 ہزار پاؤنڈز ادا کیے: حسین نواز کا دعویٰ

    براڈ شیٹ نے ہمیں 20 ہزار پاؤنڈز ادا کیے: حسین نواز کا دعویٰ

    لندن: سابق وزیر اعظم نواز شریف کے صاحب زادے حسین نواز نے دعویٰ کیا ہے کہ براڈ شیٹ نے ہمیں 20 ہزار پاؤنڈز ادا کیے، جو پچاس لاکھ روپے کے قریب بنتے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق لندن میں مقیم حسین نواز نے ایک ویڈیو میں دعویٰ کیا ہے کہ براڈ شیٹ کمپنی نے انھیں بیس ہزار پاؤنڈز ادا کیے تھے، اور ہم اس سے زیادہ پیسے بھی طلب کر سکتے تھے، لیکن وکلا کے کہنے پر سیٹلمنٹ کی پیش کش قبول کی۔

    حسین نواز نے کہا براڈ شیٹ نے احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کا فیصلہ درخواست سے منسلک کیا تھا، اور یہ کہا تھا کہ اس فیصلے کی رو سے یہ حکومت پاکستان کی پراپرٹیز ہیں، لہٰذا انھیں ضبط کر کے انھیں فروخت کر کے حکومت پاکستان کی طرف سے انھیں ادائیگی کی جائے، درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایون فیلڈ فلیٹس حکومت پاکستان کی پراپرٹی ہے۔

    براڈ شیٹ کمیشن کے سربراہ نے جیمرز والی گاڑی حکومت کو واپس کر دی

    انھوں نے کہا کہ اس سے قبل کہ براڈ شیٹ کو عدالت میں حقائق کا سامنا کرنا پڑتا، براڈ شیٹ عدالت جانے سے 15 دن پہلے بھاگ گئی۔ واضح رہے کہ اس سلسلے میں شریف فیملی کا دعویٰ ہے کہ درخواست کے ساتھ براڈ شیٹ نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کا معاملہ اٹیچ کیا تھا، تاہم یہ درخواست عدالت سے واپس لینے پر لیگل فیس کے اخراجات کی مد میں براڈ شیٹ کو رقم ادا کرنی پڑی۔

    حسین نواز نے کہا کہ حکومت پاکستان اس سارے معاملے میں فریق تھی، تو شہزاد اکبر نے کیوں نہیں کہا کہ یہ جائیدادیں ہماری ہو چکی ہیں، انھیں ضبط کر کے ادائیگی انھی سے کی جائے، لیکن سچ یہ ہے کہ شہزاد اکبر کے پاس صرف الزامات ہیں اور کچھ نہیں۔

    انھوں نے کہا جب یہ بات کسی آزاد جوڈیشل فورم پر جاتی ہے تو وہاں پر ان کی قلعی کھل جاتی ہے، شہزاد اکبر کی بات کا جواب نہیں دیتا، ڈھونگ رچاتے رہتے ہیں، اور چیزوں کو توڑ مروڑ کر بیان کرتے ہیں، براڈ شیٹ یا حکومت سچی ہوتی تو فلیٹ ضبط کرا لیتی۔

    حسین نواز نے یہ بھی کہا کہ ڈیوڈ روز، براڈ شیٹ کا معاملہ الجھ کرگندا ہو چکا، انڈیپنڈنٹ کمیشن کے ذریعے تحقیقات ہونی چاہیئں، واٹس ایپ جے آئی ٹی جیسی تحقیقات نہیں۔

  • براڈ شیٹ معاملے پر پہلے بیوروکریٹس کا نام آنا چاہیے: اعتزاز احسن

    براڈ شیٹ معاملے پر پہلے بیوروکریٹس کا نام آنا چاہیے: اعتزاز احسن

    اسلام آباد: ماہر قانون دان اور سینئر سیاست دان اعتزاز احسن نے کہا ہے کہ ابھی تک ہم براڈ شیٹ معاملے کو صحیح انداز سے نہیں دیکھ رہے، اس معاملے پر سب سے پہلے بیوروکریٹس کا نام آنا چاہیے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام سوال یہ ہے میں گفتگو کرتے ہوئے اعتزاز احسن نے کہا براڈ شیٹ کو ادائیگیاں بیوروکریٹس کے دور میں ہوئیں، یہ معاملہ جنرل (ر) امجد کی موجودگی میں ہوا، پھر یہ معاہدہ جنرل (ر) شاہد عزیز کے دور میں ہوا، معاملے پر پہلے بیوروکریٹس کا نام آنا چاہیے، لیکن ہر معاملے پر پہلے سیاست دانوں کو بدنام کر دیا جاتا ہے۔

    انھوں نے کہا جسٹس (ر) عظمت سعید شیخ کو براڈ شیٹ پر کمیٹی کا سربراہ نہیں بننا چاہیے، انھیں اس پر اعتراض کرنا چاہیے۔

    تحریک عدم اعتماد کے حوالے سے رہنما پیپلز پارٹی نے کہا عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے لیے ہمیں محنت کرنی پڑے گی، عمران خان کی حکومت تو صرف 4 ووٹوں پر کھڑی ہے، پنجاب میں بھی پی ٹی آئی حکومت بہت کم مارجن پر کھڑی ہے، حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد نہیں لائیں گے تو عمران خان کیسے جائیں گے۔

    براڈ شیٹ اسکینڈل کی تحقیقات : مسلم لیگ ن نے جسٹس(ر)شیخ عظمت کی تقرری مسترد کردی

    اعتزاز احسن کا کہنا تھا استعفے آخری آپشن ہیں، اگر ہم نے استعفے دے دیے اور حکومت نے الیکشن کرا دیے تو کیا ہوگا؟ پی ٹی آئی حکومت پر ان کی کارکردگی کا دباؤ ہے، یہ حکومت اپنے وزن سے ہی نیچےگر رہی ہے۔

    انھوں نے کہا عمران خان کو اتارنے کا ایک ہی طریقہ ہے وہ ہے تحریک عدم اعتماد، اگر ان سے دباؤ کے ذریعے استعفیٰ لیا گیا تو وہ سیاسی شہید بن جائیں گے۔

  • وزیر اعظم کا الیکشن کمیشن سے فارن فنڈنگ تحقیقات پبلک کرنے کا مطالبہ

    وزیر اعظم کا الیکشن کمیشن سے فارن فنڈنگ تحقیقات پبلک کرنے کا مطالبہ

    اسلام آباد: وزیر اعظم عمران خان نے الیکشن کمیشن سے فارن فنڈنگ تحقیقات پبلک کرنے کا مطالبہ کر دیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق ایک نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر اعظم نے انکشاف کیا کہ انھیں 2 ممالک سے فنڈنگ کی آفر ہوئی تھی۔

    انھوں نے کہا جنھوں نے مجھے آفر کی ان ممالک نے ان کو بھی فنڈنگ کی، فنڈنگ کی آفر کرنے والے ممالک کے نام نہیں بتا سکتا، الیکشن کمیشن فارن فنڈنگ تحقیقات پبلک کرے۔

    وزیر اعظم نے کہا پی ٹی آئی کو چینی والا، پاپڑ والا نے فنڈنگ نہیں کی، پی ٹی آئی کو فنڈنگ کرنے والے 40 ہزار افراد کی تفصیلات موجود ہیں، اس لیے ن لیگ، پی ٹی آئی، پی پی کی فارن فنڈنگ تحقیقات کو پبلک کیا جائے، فضل الرحمان کی پارٹی کی بھی تحقیقات کی جائیں، میں چیلنج کرتا ہوں کہ ان دونوں پارٹیوں کو بڑی بھاری فنڈنگ ہوئی ہے۔

    انھوں نے کہا حکومت براڈ شیٹ سے مکمل معلومات مانگے گی کہ کون کب ان سے ملا، براڈ شیٹ کے کاوے موسوی سے رابطہ کر رہے ہیں، ظفر علی نامی شخص نے مجھ سے ملاقات کی تھی، اس نے بیرون ملک پڑے اثاثوں کی جانچ پڑتال کی بات کی، اور اس کے بدلے کچھ فی صد لینے کا کہا تھا، تاہم اس نے اپنا تعلق براڈ شیٹ سے نہیں بتایا تھا۔ کاوے موسوی الزام لگا رہے ہیں تو ثبوت بھی دیں۔

    وزیر اعظم نے کہا مجھے علم نہیں تھا کہ علی ظفر کا تعلق براڈ شیٹ سے ہے، این آر او دینے کی وجہ سے براڈ شیٹ کو اربوں روپے دینے پڑے، زرداری نے اسمبلی میں کہا سرے محل میرا نہیں، سرے محل پر ایک ارب روپے حکومت نے وکلا پر خرچ کیے، اس کی فروخت سے پیسا پاکستان کو ملنا تھا، لیکن پرویز مشرف نے ان لوگوں کو این آر او دے دیا۔

    این آر او سے متعلق انھوں نے کہا یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت چلانی ہے تو این آر او دیں، انھوں نے تحریری طور پر مجھ سے این آر او مانگا، ایف اے ٹی ایف میں 34 ترامیم کے ذریعے این آر او مانگا گیا، پی ڈی ایم میں ملک کے نامور چور اور ڈاکو موجود ہیں، اس کو کبھی سنجیدہ نہیں لیا۔

    وزیر اعظم نے ترجمان ندیم افضل چن سے استعفیٰ مانگنے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ کوئی وزیر کابینہ کے فیصلے سے اتفاق نہیں کرتا تو وہ استعفیٰ دے، دنیا بھر میں جمہوری کابینہ میں ایسا ہی ہوتا ہے، ندیم افضل چن غلط بیانی کر رہے ہیں، ان سے کسی نے استعفیٰ نہیں مانگا۔

  • براڈ شیٹ کو ادائیگی، نیا موڑ سامنے آ گیا

    براڈ شیٹ کو ادائیگی، نیا موڑ سامنے آ گیا

    اسلام آباد: برطانوی نجی فرم براڈ شیٹ کو 450 کروڑ روپے کی ادائیگی کے معاملے میں نیا موڑ سامنے آ گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت کا سراغ لگانے والی برطانوی کمپنی براڈ شیٹ کو نیب کی جانب سے رقم ادائیگی کے معاملے پر خارجہ امور کمیٹی نے ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں۔

    قومی اسمبلی کی خارجہ امور کمیٹی نے 18 جنوری کو شیڈول اجلاس ملتوی کر دیا، کمیٹی نے ایک روز قبل ہی اس معاملے کا نوٹس لیا تھا اور براڈ شیٹ معاملے پر چیئرمین نیب جاوید اقبال کو طلب کیا تھا۔

    نظام آف حیدر آباد کیس میں پاکستان کا 35 ملین پاؤنڈ کا مسترد شدہ دعویٰ بھی ایجنڈے میں شامل تھا۔

    نیب کے اکاؤنٹ میں خطیر رقم کیوں موجود تھی؟ برا ڈشیٹ کیس میں سنسنی خیز انکشاف

    اس کمیٹی نے سیکریٹری خارجہ کو پالیسی امور پر تفصیلات پیش کرنے کی ہدایت کی تھی، اور سیکریٹری قانون و انصاف کو قانونی امور پر بریفنگ کے لیے بلایا گیا تھا۔

    واضح رہے کہ برا ڈشیٹ کیس میں ایک اور انکشاف ہوا ہے، پاکستانی ہائی کمیشن کا ایک اہم خط منظر عام پر آیا ہے، جس نے نیب پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔

    خط کے مطابق نیب کے زیر استعمال ہائی کمیشن اکاؤنٹ سے براڈ شیٹ کے لیے 28.7 ملین ڈالرز نکالے گئے تھے، اکاؤنٹ میں 26.15 ملین ڈالرز موجود تھے، بقیہ 2.55 ملین ڈالرز راتوں رات بھیج دیے گئے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستانی ہائی کمیشن کے اکاؤنٹ میں نیب کی خطیر رقم کیوں موجود تھی؟ چندگھنٹے میں 2.55 ملین ڈالرز کی مزید رقم کس کی منظوری سے بھیجی گئی؟ اور کیا نیب نے حکومت پاکستان کو مزید ادائیگی پر آگاہ کیا تھا؟