Tag: برسی

  • شہنشاہ قوالی نصرت فتح علی خان کو مداحوں سے بچھڑے 28 برس بیت گئے

    شہنشاہ قوالی نصرت فتح علی خان کو مداحوں سے بچھڑے 28 برس بیت گئے

    مشہور پاکستانی قوال اور دنیا بھر میں موسیقی اور اپنی گائیکی سے پہچان بنانے والے نصرت فتح علی خان 2007ء میں آج ہی کے دن اس دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی 28 ویں برسی منائی جارہی ہے۔

    فیصل آباد میں پیدا ہونے والے نصرت فتح علی خان کے والد فتح علی خان اور تایا مبارک علی خان اپنے وقت کے مشہور قوال تھے۔ ان کا خاندان قیام پاکستان کے وقت ضلع جالندھر سے ہجرت کر کے فیصل آباد آبسا تھا۔

    نصرت فتح علی خان نے فنِ قوالی، موسیقی اور گلوکاری کے اسرار و رموز سیکھے اور وہ عروج حاصل کیا کہ آج بھی دنیا بھر میں انھیں ان کے فن کی بدولت نہایت عقیدت، محبت اور احترام سے یاد کیا جاتا ہے۔

    یہ نصرت فتح علی خان کا کارنامہ ہے کہ انھوں نے قوالی کو مشرق و مغرب میں مقبول بنایا اور خاص طور پر صوفیائے کرام کے پیغام کو اپنی موسیقی اور گائیکی کے ذریعے دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا۔ انھوں نے اپنے فن کے ذریعے دنیا کو امن، محبت اور پیار کا درس دیا اور پاکستان کا نام روشن کیا۔

    16 اگست 1997 کو پاکستان کے اس نام وَر موسیقار اور گلوکار کا لندن کے ایک اسپتال میں زندگی کا سفر تمام ہو گیا تھا۔

    کلاسیکی موسیقی اور بالخصوص قوالی کے میدان میں ان کے والد اور تایا بڑا نام اور مقام رکھتے تھے اور انہی کے زیرِ سایہ نصرت فتح علی خان نے اس فن سے متعلق تمام تربیت مکمل کی تھی۔

    ابتدائی زمانے میں پرفارمنس کے دوران ان کا انداز روایتی قوالوں کی طرح رہا، مگر جب انھوں نے اس فن میں کلاسیکی موسیقی اور پاپ میوزک کے ملاپ کا تجربہ کیا تو ان کی شہرت کا آغاز ہوا اور پھر 1980 کی دہائی کے اواخر میں ایک غیرملکی فلم کا ساؤنڈ ٹریک تیار کرنے کی ذمہ داری اٹھائی تو شاید خود وہ بھی نہیں جانتے تھے کہ وہ شہرت اور مقبولیت کی کن انتہاؤں کو چھونے جارہے ہیں۔

    کس مشہور گانے کی ریکارڈنگ کے دوران نصرت فتح 150 بار شدت سے روئے؟

    90 کی دہائی میں پاکستان اور ہندوستان میں ان کی موسیقی نے دھوم مچا دی اور انھوں نے فلمی موسیقی بھی ترتیب دی۔

    ”دم مست قلندر، آفریں آفریں، اکھیاں اڈیک دیاں، سانوں اک پل چین نہ آئے اورغم ہے یا خوشی ہے تُو“ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی جب کہ ان کی آواز میں ایک حمد، ”کوئی تو ہے جو نظامِ ہستی چلا رہا ہے“ کو بھی بہت زیادہ سنا اور پسند کیا گیا۔

    نصرت فتح علی فیصل آباد میں آسودہ خاک ہیں۔ ان کے چاہنے والے آج ان کی 28 ویں برسی منارہے ہیں۔

  • علامہ اقبال کی 87 ویں برسی آج عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جا رہی ہے

    علامہ اقبال کی 87 ویں برسی آج عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جا رہی ہے

    آج شاعر مشرق، حکیم الامت ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا یوم وفات ہے، ملک بھر میں آج اقبال کی 87 ویں برسی عقیدت و احترام کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔

    صدر آصف علی زرداری نے علامہ اقبال کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے افکار، فلسفہ، شاعری ہمارے لیے مشعل راہ ہے، ہمیں پیغام اقبال پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔

    صدر مملکت آصف زرداری نے اقبال کے یوم وفات پر پیغام میں کہا ہم ان کی سیاسی، فکری خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں، وہ شاعر کے علاوہ مفکر اور مصلح بھی تھے، علامہ اقبال نے ملت اسلامیہ کے زوال کا درد محسوس کیا، اور امت کو بیدار کرنے کے لیے افکار و اشعار کو ذریعہ بنایا۔

    صدر نے کہا اقبال کی شاعری خودی، اجتہاد، عشق حقیقی، حریت فکر جیسے تصورات پر محیط ہے، اقبال کے نزدیک امت مسلمہ کی نجات فکری و روحانی بیداری میں مضمر ہے، ہمیں سماجی، معاشی اور فکری چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اقبال کی تعلیمات کو مشعل راہ بنانا ہوگا۔

    وزیر اعظم محمد شہباز شریف کا پیغام

    وزیر اعظم شہباز شریف نے ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا وہ پاکستان کے نظریاتی معمار اور پہلے مفکر تھے، علامہ اقبال نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن کا تصور پیش کیا، اور مسلمانوں کو سیاسی، فکری اور روحانی طور پر متحد کیا۔

    شہباز شریف نے کہا علامہ اقبال کے فلسفہ خودی نے اور شاعری نے تحریک پاکستان کو نظریاتی بنیاد فراہم کی، اور علم، یقین محکم اور خود اعتمادی پر زور دیا جو آج بھی ہماری تمام مشکلات کا حل ہے، علامہ اقبال نے نوجوانوں کو شاہین قرار دیتے ہوئے حصول علم اور اعلیٰ اخلاقی اقدار اپنانے کی تقلید کی۔

  • عمر بھر موسم بہار رہا _ آج رسا چغتائی کی برسی ہے

    عمر بھر موسم بہار رہا _ آج رسا چغتائی کی برسی ہے

    بہت دنوں میں یہ عقدہ کھلا کہ میں بھی ہوں
    فنا کی راہ میں اک نقشِ جاوداں کی طرح

    آج اس شعر کے خالق رسا چغتائی کی برسی ہے، رسا چغتائی کا اصل نام مرزا محتشم علی بیگ تھا۔

    وہ 1928 میں ریاست جے پور کے شہر سوائے مادھوپور میں پیدا ہوئے تھے، 1950 میں ہجرت کر کے پاکستان آئے اور مختلف اداروں سے وابستہ رہے۔ انھیں بینش سلیمی سے تلمذ حاصل تھا۔

    حکومت پاکستان نے ادبی خدمات کے اعتراف میں 2001 میں انھیں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے نوازا، رسا چغتائی کی تصانیف میں ریختہ، زنجیر ہمسائیگی، تصنیف، چشمہ ٹھنڈے پانی کا اور تیرے آنے کا انتظار رہا شامل ہیں۔

    رسا چغتائی کا انتقال 5 جنوری 2018 کو کراچی میں ہوا۔ ان کے کچھ مشہور اشعار درج ذیل ہیں:

    تیرے آنے کا انتظار رہا
    عمر بھر موسم بہار رہا

    تجھ سے ملنے کو بے قرار تھا دل​
    تجھ سے مل کر بھی بے قرار رہا​

    بہت دنوں سے کوئی حادثہ نہیں گزرا
    کہیں زمانے کو ہم یاد پھر نہ آ جائیں

    صرف مانع تھی حیا بند قبا کھلنے تلک
    پھر تو وہ جان حیا ایسا کھلا ایسا کھلا

    جن آنکھوں سے مجھے تم دیکھتے ہو
    میں ان آنکھوں سے دنیا دیکھتا ہوں

  • عام تعطیل کا اعلان

    عام تعطیل کا اعلان

     کراچی: سندھ حکومت نے 27 دسمبر کو شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی پر عام تعطیل کا اعلان کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ حکومت کی جانب سے شہید بینظیر بھٹو کی برسی پر 27 دسمبر کو عام تعطیل کا نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا ہے۔

    نوٹیفکیشن کے مطابق 27 دسمبر کو شہید بے نظیر بھٹو کی برسی پر صوبے بھر میں عام تعطیل ہوگی، سرکاری، نجی ادارے، لوکل کاؤنسلز اور صوبائی حکومت کے انتظامی دفاتر بند رہیں گے۔

    اس سے قبل سندھ حکومت نے شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی 17ویں برسی کے موقع پر وفاقی حکومت سے ہیلی کاپٹر طلب کیا ہے۔

    محکمہ داخلہ سندھ نے وفاقی وزارت داخلہ کو لکھے گئے خط میں ہیلی کاپٹر دینے کی درخواست کی ہے، برسی کے موقع پر گڑھی خدابخش میں فضائی نگرانی کے لئے وفاقی وزارت داخلہ سے ہیلی کاپٹر طلب کیاگیا ہے۔

    یاد رہے کہ 27 دسمبر 2007 کو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی سربراہ اور سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسے کے بعد خود کش حملہ اور فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا تھا، اس حملے میں ان کے علاوہ مزید 20 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

    https://urdu.arynews.tv/rawalpindi-educational-public-holiday/

  • قوال امجد صابری کو دنیا سے رخصت ہوئے 8 برس بیت گئے

    قوال امجد صابری کو دنیا سے رخصت ہوئے 8 برس بیت گئے

    کراچی : پاکستان کے مشہور قوال امجد صابری کو اپنے مداحوں سے بچھڑے 8 برس بیت گئے۔

    امجد صابری کو 22جون سال 2016 میں ماہ رمضان میں فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا تھا تاہم کئی سالوں بعد بھی قوال کی یاد مداحوں کے دلوں میں زندہ ہے۔

    امجد صابری کو 8 سال قبل لیاقت آباد کے علاقے میں 16 رمضان کو ان گاڑی میں نامعلوم افراد کی فائرنگ کا نشانہ بنا یا تھا۔

    وہ گھر سے رمضان ٹرانمیشن میں شرکت کیلئے روانہ ہوئے تھے اور راستے میں ان کے سر پر گولیاں ماری گئیں جس کی وجہ سے وہ موقع پر ہی دم توڑ گئے۔

    برصغیر کے معروف قوال گھرانے سے تعلق رکھنے والے امجد صابری استاد غلام فرید صابری کے گھر 23 دسمبر 1976 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔

    صابری برادران کے نام سے مشہور اپنے والد اور چچا سے قوالی کی تربیت حاصل کی اور چھوٹی سی عمر سے ہی اس فن سے وابستہ ہوگئے۔ امجد صابری نے پاکستان سمیت بہت سے ممالک میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا اور خوب شہرت کمائی۔

    امجد صابری کو ماہِ رمضان 22 جون 2016ء میں کراچی میں اس وقت قتل کیا گیا جب وہ گھر سے رمضان ٹرانمیشن میں شرکت کیلئے روانہ ہوئے تھے۔

    یاد رہے کہ مقتول امجد صابری کے قاتلوں کو گرفتار کرلیا گیا تھا ملزمان نے عدالت میں اپنے جرم کا اعتراف بھی کیا تھا۔

  • نازش جہانگیر والدہ کی برسی کے موقع پر جذباتی

    نازش جہانگیر والدہ کی برسی کے موقع پر جذباتی

    معروف اداکارہ نازش جہانگیر نے اپنی مرحوم والدہ کی برسی کے موقع پر ان سے متعلق جذباتی نظم شیئر کردی۔

    تفصیلات کے مطابق نازش جہانگیر نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر اپنی والدہ کی قبر کی تصویر اور اس کے ساتھ ایک جذباتی نظم شیئر کی۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Nazish Khan (@nazishjahangir)

    تصویر پر انہوں نے کیپشن لکھا، میری آخری محبت، اور ساتھ ہی والدہ کے انتقال کی تاریخ بھی لکھی۔

    نازش کی والدہ کا انتقال آج کے دن 10 سال قبل ہوا تھا۔

    نازش اس سے قبل کئی انٹرویوز میں بتا چکی ہیں کہ وہ اپنی والدہ کو بے حد یاد کرتی ہیں، وہ انسٹاگرام پر بھی اپنی والدہ سے متعلق یادیں شیئر کرتی رہتی ہیں۔

  • امجد صابری کی بیٹیاں والد کی برسی پر جذباتی ہوگئیں

    امجد صابری کی بیٹیاں والد کی برسی پر جذباتی ہوگئیں

    کراچی: معروف قوال امجد صابری کی پانچویں برسی کے موقع پر ان کی بیٹیاں جذباتی ہوگئیں اور اپنے بچپن کی یادیں شیئر کیں۔

    تفصیلات کے مطابق امجد صابری کی پانچویں برسی کے موقع پر ان کی بیٹیوں حورین اور پریسا نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ انسٹاگرام پر اپنے والد کی تصاویر شیئر کیں۔

    پریسا صابری نے والد کے ساتھ اپنی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ بابا! مجھے وہ تمام حسین لمحات یاد ہیں جو میں نے آپ کے ساتھ گزارے تھے۔

    انہوں نے لکھا کہ اگر مجھے آپ سے بات کرنے کا ایک موقع ملے تو میں آپ کو بتاؤں گی کہ آپ میرے لیے اور باقی سب کے لیے کس قدر اہم ہیں۔

    دوسری طرف حورین صابری نے بھی اپنے انسٹاگرام پر والد کی تصویر شیئر کی اور لکھا کہ پانچ سال بعد بھی آپ کے جانے کا یقین نہیں آتا، ہم اپنی زندگی میں بھی جتنا بھی مصروف ہوجائیں آپ کی کمی ہمیشہ محسوس ہوتی ہے۔

     

    View this post on Instagram

     

    A post shared by Hoorain Amjad Sabri (@hoorainn._)

    یاد رہے کہ امجد صابری پانچ سال قبل 16 رمضان کو اپنی گاڑی میں نامعلوم افراد کی فائرنگ کا نشانہ بنے تھے، ان کے سر پر گولیاں لگی تھیں جس کی وجہ سے وہ موقع پر ہی دم توڑ گئے۔

  • منفرد اسلوب کے حامل شاعر عزیز حامد مدنی کا تذکرہ

    منفرد اسلوب کے حامل شاعر عزیز حامد مدنی کا تذکرہ

    23 اپریل 1991ء کو اردو کے معروف شاعر، ادیب، نقّاد اور براڈ کاسٹر عزیز حامد مدنی وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ عزیز حامد مدنی کا شمار جدید لب و لہجے اور جداگانہ اسلوب کے حامل شعرا میں کیا جاتا ہے۔

    عزیز حامد مدنی 15 جون 1922ء کو رائے پور (یو پی) میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا تعلق ایک ذی علم گھرانے سے تھا۔ ان کے والد علامہ شبلی نعمانی جیسے عالم، ادیب اور مصنف کے شاگردوں میں سے ایک تھے۔

    عزیز حامد مدنی نے انگریزی ادبیات میں ایم اے کیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد اپنی عملی زندگی کا آغاز تدریس کے شعبے سے کیا اور بعد میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوئے۔ انھوں نے ریڈیو پر کئی پروگرام کیے اور خود کو بہترین براڈ کاسٹر ثابت کیا۔ علم و ادب کے شائق و شیدا عزیز حامد مدنی نے تخلیقی ادب میں شاعری کو اظہارِ خیال کا ذریعہ بنایا اور تنقید کے میدان میں بھی خوب کام کیا۔

    انھیں اردو کا جدید اور منفرد اسلوب کا حامل شاعر مانا جاتا ہے جن کے موضوعات میں تنوع اور انفرادیت تھی۔ عزیز حامد مدنی کے شعری مجموعے چشمِ نگراں، دشتِ امکاں اور نخلِ گماں کے نام سے شایع ہوئے۔ ان کی تنقیدی کتب جدید اردو شاعری اور آج بازار میں پابجولاں چلو ان کے نام سے اشاعت پذیر ہوئیں۔

    کراچی میں وفات پانے والے عزیز حامد مدنی کو لیاقت آباد کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔ ان کا ایک مشہور شعر دیکھیے۔

    وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
    گئے تو کیا تری بزمِ خیال سے بھی گئے

  • ممتاز افسانہ نگار ہاجرہ مسرور کی برسی

    ممتاز افسانہ نگار ہاجرہ مسرور کی برسی

    آج اردو کی ممتاز افسانہ نگار ہاجرہ مسرور کی برسی ہے۔ وہ 15 ستمبر 2012 کو کراچی میں‌ وفات پا گئی تھیں۔ لکھنؤ سے تعلق رکھنے والی ہاجرہ مسرور قیامِ پاکستان کے بعد پاکستان آگئیں اور یہاں‌ لاہور میں سکونت اختیار کی۔

    ان کے والد ڈاکٹر تہوّر احمد خاں برطانوی فوج میں ڈاکٹر تھے جو 17 جنوری 1929 کو پیدا ہونے والی ہاجرہ مسرور کو کم عمری میں چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوگئے۔ والد کے انتقال کے بعد کنبے کی کفالت کی ذمہ داری والدہ کے کاندھوں پر آگئی۔ یوں اس خاندان اور ہاجرہ مسرور نے سخت اور مشکل حالات دیکھے۔ ہاجرہ مسرور کی بہن خدیجہ مستور بھی اردو کی معروف ادیب تھیں۔

    پاکستان میں ہاجرہ بطور کہانی و افسانہ نگار اپنا سفر شروع کرچکی تھیں۔ ان کی کہانیوں کو ادبی حلقوں میں بہت پذیرائی ملی۔ ہاجرہ مسرور نے معروف ادیب احمد ندیم قاسمی کے ساتھ مل کر ادبی جریدہ ’’نقوش‘‘ شایع کرنا شروع کیا جب کہ کے ان کے افسانوں اور مختصر کہانیوں کے سات مجموعے شایع ہوئے جن میں چاند کے دوسری طرف، تیسری منزل، اندھیرے اجالے، چوری چھپے، ہائے اللہ، چرکے اور وہ لوگ شامل ہیں۔ ہاجرہ مسرور نے ڈرامے بھی لکھے۔

    ہاجرہ مسرور نے پاکستان میں متعدد فلموں کے لیے اسکرپٹ بھی لکھے۔ انھیں اپنے ایک اسکرپٹ پر پاکستانی فلمی صنعت کا سب سے بڑا اعزاز ’’نگار ایوارڈ‘‘ بھی ملا۔

    پاکستان کی اس معروف ادیب کو متعدد اعزازات سے نوازا گیا۔ حکومتِ پاکستان نے ادب کے شعبے میں ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا۔

    ہاجرہ مسرور پاکستان کے معروف صحافی احمد علی خان سے رشتہ ازدواج میں‌ منسلک ہوئیں۔ بعد میں‌ ہاجرہ مسرور کراچی منتقل ہوگئیں اور اسی شہر میں‌ اپنی زندگی کا سفر تمام کیا۔ وہ ڈیفنس سوسائٹی کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • ہاتھوں میں "سرخ جام” اٹھائے ہوئے حسن عابدی کی برسی

    ہاتھوں میں "سرخ جام” اٹھائے ہوئے حسن عابدی کی برسی

    سید حسن عسکری نے اردو ادب میں‌ حسن عابدی کے نام سے شہرت اور مقام حاصل کیا۔ آج اردو کے اس ترقی پسند ادیب، معروف شاعر اور صحافی کی برسی ہے۔ حسن عابدی 6 ستمبر 2005 کو کراچی میں وفات پاگئے تھے۔

    7 جولائی 1929 کو ضلع جونپور میں پیدا ہونے والے حسن عابدی نے اعظم گڑھ اور الہ آباد سے تعلیم حاصل کی۔ قیام پاکستان کے بعد انھوں نے لاہور ہجرت کی اور بعد میں کراچی میں اقامت اختیار کرلی۔ لاہور میں 1955 میں حسن عابدی نے روزنامہ آفاق سے صحافتی کیریر کا آغاز کیا اور بعد میں شہرہ آفاق شاعر فیض احمد فیض کی ادارت میں نکلنے والے جریدے لیل و نہار سے وابستہ ہوگئے۔ کراچی منتقل ہونے کے بعد بھی ان کا صحافتی سفر جاری رہا اور اسی دوران انھوں‌ نے کالم نگاری شروع کی۔ وہ ایک بہترین مترجم بھی تھے۔

    حسن عابدی کی تصانیف میں کاغذ کی کشتی اور دوسری نظمیں، نوشت نَے، جریدہ اور فرار ہونا حروف کا شامل ہیں۔ انھوں نے جنوں میں جتنی بھی گزری کے نام سے اپنی یادداشتیں بھی رقم کیں‌۔ حسن عابدی کی ایک ترجمہ شدہ کتاب بھارت کا بحران کے نام سے بھی اشاعت پذیر ہوئی تھی۔

    اردو کے اس معروف شاعر اور ادیب نے بچوں کے لیے بھی کئی کہانیاں اور نظمیں لکھیں۔ شریر کہیں‌ کے، بچوں‌ کے لیے حسن عابدی کی لکھی گئی نظموں کے مجموعے کا نام ہے۔ اپنے ترقی پسند نظریات کی وجہ سے انھوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ حسن عابدی کی غزل کے دو اشعار دیکھیے۔

    ہم تیرگی میں شمع جلائے ہوئے تو ہیں
    ہاتھوں میں سرخ جام اٹھائے ہوئے تو ہیں
    اس جانِ انجمن کے لیے بے قرار دل
    آنکھوں میں انتظار سجائے ہوئے تو ہیں