Tag: برسی

  • کینسر کے سبب زندگی ہار جانے والی لارا لپّا گرل

    کینسر کے سبب زندگی ہار جانے والی لارا لپّا گرل

    آج پاکستان فلم انڈسٹری کی مشہور اداکارہ مینا شوری کی برسی ہے۔ 2 ستمبر 1989 کو سرطان جیسے مہلک مرض کے ہاتھوں ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ جانے والی مینا شوری کا اصل نام خورشید جہاں تھا۔

    خورشید جہاں نے 1921 میں رائے ونڈ میں آنکھ کھولی۔ انھوں نے اپنا فلمی کیریئر بمبئی سے شروع کیا اور سہراب مودی کی فلم سکندر میں مینا شوری کی شان دار پرفارمنس نے ان پر فلمی صنعت کے دروازے کھول دیے۔ فلم پتھروں کا سوداگر، شہر سے دور، پت جھڑ، چمن اور ایک تھی لڑکی نے انھیں مزید کام یابیاں‌ دیں۔

    فلم ایک تھی لڑکی کا وہ گیت جس کے بول ’لارا لپا، لارا لپا، لائی رکھدا‘ تھے، بہت مشہور ہوا۔ یہ مینا شوری پر فلمایا گیا گیت تھا جس کے بعد ہندوستان بھر میں ہر جگہ انھیں لارا لپا گرل کے نام سے پکارا جانے لگا۔

    تقسیم کے بعد مینا شوری نے ہجرت کی اور کراچی میں‌ قیام کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کرلی۔ مینا شوری نے پانچ شادیاں کی تھیں۔

    اس اداکارہ کی مشہور اور کام یاب فلموں میں سرفروش، جگا، جمالو، بڑا آدمی، ستاروں کی دنیا، گل فروش، بچہ جمہورا، گلشن، تین اور تین، پھول اور کانٹے، موسیقار،خاموش رہو، مہمان شامل ہیں۔ مجموعی طور پر 83 فلموں میں کام کیا۔

    مینا شوری لاہور کے ایک قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • معروف کامیڈین البیلا کی برسی

    معروف کامیڈین البیلا کی برسی

    ٹیلی ویژن، اسٹیج اور فلم کے معروف اداکار البیلا 17 جولائی 2004 کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج اس فن کار کی برسی منائی جارہی ہے۔

    البیلا کا اصل نام اختر حسین تھا۔ وہ 1941ء میں پیدا ہوئے تھے۔ کوچہ فن و ثقافت میں‌ قدم رکھنے والے البیلا نے تھیٹر اور اسٹیج کے بعد پہلی فلم ’’فرشتہ‘‘ کا ایک چھوٹا سا کردار نبھا کر اپنی صلاحیتوں کا خوبی سے اظہار کیا اور فلمی دنیا میں‌ جگہ بناتے چلے گئے۔

    البیلا کا مضبوط حوالہ اسٹیج ہے جہاں انھوں‌ نے کامیڈی کرکے لوگوں‌ کو اپنا گرویدہ کرلیا۔ تاہم انھو‌ں نے بیک وقت سنجیدہ اور مزاحیہ کردار ادا کرکے خود کو منوایا تھا۔ وہ اپنی پرفارمنس اور برجستہ مکالموں کے لیے پہچانے جاتے ہیں۔

    اس فن کار نے 215 فلموں میں اداکاری کی جن میں شہید، عشق نچاوے گلی گلی، بڑے میاں دیوانے، سہرے کے پھول، تیس مار خان، انسانیت کے دشمن کے نام سرِفہرست ہیں۔

    البیلا نے سیکڑوں اسٹیج ڈرامے کیے اور اپنے وقت کے نام ور فن کاروں کے ساتھ ان کی پرفارمنس سے حاضرین اور ناظرین کو محظوظ ہونے کا موقع ملا۔ اسٹیج کی دنیا میں‌ معروف کامیڈین امان اللہ کے ساتھ ان کا کام خاص طور پر شائقین نے پسند کیا۔

    البیلا دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے تھے۔

  • خاطر غزنوی: خوب صورت شاعر اور ادیب

    خاطر غزنوی: خوب صورت شاعر اور ادیب

    گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
    لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے

    خاطر غزنوی کا یہ مشہور شعر آپ نے بھی سنا اور پڑھا ہو گا۔ آج اردو اور ہندکو کے اسی نام ور شاعر اور ادیب کا یومِ وفات منایا جارہا ہے۔

    7 جولائی 2008 کو خاطر غزنوی وفات پاگئے تھے۔ وہ پشاور میں آسودۂ خاک ہیں۔

    خاطر غزنوی کا اصل نام محمد ابراہیم بیگ تھا۔ وہ 25 نومبر 1925 کو پشاور میں پیدا ہوئے۔ عملی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان، پشاور سے کیا۔ بعدازاں اپنے شہر کی یونیورسٹی سے اردو زبان میں ایم اے کیا اور تدریس کے پیشے سے وابستہ ہوگئے۔

    1984 میں انھیں اکادمی ادبیات پاکستان کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا۔ خاطر غزنوی کے شعری مجموعوں میں روپ رنگ، خواب در خواب، شام کی چھتری اور نثری کتب میں زندگی کے لیے، پھول اور پتھر، چٹانیں اور رومان، خوش حال نامہ، چین نامہ شامل ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا۔

  • پُرنم الہٰ آبادی: بھر دو جھولی میری یا محمدﷺ

    پُرنم الہٰ آبادی: بھر دو جھولی میری یا محمدﷺ

    بھر دو جھولی میری یا محمدﷺ لوٹ کر میں نہ جاؤں گا خالی
    کچھ نواسوں کا صدقہ عطا ہو، در پہ آیا ہوں بن کر سوالی…..

    یہ نعتیہ کلام آپ نے ضرور سنا ہو گا جسے غلام فرید صابری قوال نے اپنے مخصوص انداز میں پیش کیا اور خوب شہرت حاصل کی۔

    اس خوب صورت قوالی(نعتیہ کلام) کے‌ خالق پُرنم الہٰ آبادی ہیں جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    کئی مشہور قوالیوں، نعتیہ اور صوفیانہ کلام اور گیتوں کے اس خالق کا اصل نام محمد موسیٰ ہاشم تھا۔

    1940 میں الہٰ آباد، ہندوستان میں پیدا ہونے والے اس خوب صورت شاعر نے اپنے دور کے مشہور اور استاد شاعر قمر جلالوی کی شاگردی اختیار کی۔ پُرنم الہٰ آبادی قیام پاکستان کے وقت ہجرت کر کے کراچی آگئے تھے۔

    انھوں نے شاعری میں صوفیانہ اسلوب اپنایا اور ایسا کلام تخلیق کیا جو لازوال ہے۔ کہتے ہیں وہ ہندوستان فلم انڈسٹری میں گیت نگار کی حیثیت سے جگہ بنا رہے تھے، لیکن پھر سب کچھ چھوڑ کر عشقِ رسول ﷺ کا یہ راستہ چنا اور بے پناہ شہرت اور عزت پائی۔

    سادہ اور عام فہم ہونے کی وجہ سے پُرنم الٰہ آبادی کا کلام عوامی سطح پر بے حد مقبول ہوا اور اسے گانے والوں کو بھی خوب شہرت ملی۔ وہ ایک سادہ اور گوشہ نشیں شاعر تھے۔

    29 جون 2009 کو انھوں نے اس عارضی ٹھکانے سے ہمیشہ کے لیے رخصت باندھ لی۔

  • شاہد احمد دہلوی کا تذکرہ

    شاہد احمد دہلوی کا تذکرہ

    شاہد احمد دہلوی اردو ادب کے صاحبِ طرز ادیب، مترجم، محقق اور متعدد کتب کے مصنف تھے۔ ان کا تعلق دہلی سے تھا۔

    آج شاہد احمد دہلوی کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے اور مولوی بشیر الدین احمد کے فرزند تھے جو علم و ادب کی دنیا کے بڑے نام ہیں۔

    شاہد احمد دہلوی نے اردو کا باوقار جریدہ ساقی جاری کیا اور ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی آگئے اور ادبی دنیا میں متحرک رہے۔

    وہ باکمال نثر نگار اور انشا پرداز تھے۔ انھوں نے مختلف شخصیات کے خاکوں کے علاوہ مختلف تذکروں اور واقعات کو بھی ادبی پیرائے میں‌ ڈھالا اور کتابی شکل دی۔ دلی کی بپتا اور اجڑا دیار ایسی ہی کتابیں ہیں۔

    ان کا ایک کارنامہ انگریزی کی متعدد کتابوں کا اردو ترجمہ ہے۔ شاہد احمد دہلوی نے موسیقی کی باقاعدہ تربیت حاصل کی تھی اور ریڈیو پاکستان سے وابستگی کے دوران موسیقی کے پروگرام پیش کرتے رہے۔

    27 مئی 1966 کو وہ اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ حکومت نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • اک آئنہ تھا سو ٹوٹ گیا….عبید اللہ علیم

    اک آئنہ تھا سو ٹوٹ گیا….عبید اللہ علیم

    عبید اللہ علیم کا شمار اردو کے ممتاز شعرا میں‌ ہوتا ہے۔ 1998 میں وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج عبید اللہ علیم کا یومِ وفات ہے۔

    1939 کو بھوپال کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولنے والے عبید اللہ علیم کا خاندان تقسیم کے بعد پاکستان آگیا۔ یہاں اردو میں ایم اے کی سند حاصل کرنے کے بعد عبید اللہ علیم نے پاکستان ٹیلی ویژن میں بطور پروڈیوسر ملازمت اختیار کر لی، مگر یہ سلسلہ زیادہ عرصہ نہ چل سکا اور اختلافات کے بعد انھو‌ں نے استعفیٰ دے دیا۔

    عبیداللہ علیم کے شعری مجموعوں میں چاند چہرہ ستارہ آنکھیں، ویران سرائے کا دیا، نگارِ صبح کی امید میں شامل ہیں۔

    عبید اللہ علیم کی یہ مشہور غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    کچھ دن تو بسو مری آنکھوں میں
    پھر خواب اگر ہو جاؤ تو کیا

    کوئی رنگ تو دو مرے چہرے کو
    پھر زخم اگر مہکاؤ تو کیا

    جب ہم ہی نہ مہکے پھر صاحب
    تم باد صبا کہلاؤ تو کیا

    اک آئنہ تھا سو ٹوٹ گیا
    اب خود سے اگر شرماؤ تو کیا

    تم آس بندھانے والے تھے
    اب تم بھی ہمیں ٹھکراؤ تو کیا

    دنیا بھی وہی اور تم بھی وہی
    پھر تم سے آس لگاؤ تو کیا

    میں تنہا تھا میں تنہا ہوں
    تم آؤ تو کیا نہ آؤ تو کیا

    جب دیکھنے والا کوئی نہیں
    بجھ جاؤ تو کیا گہناؤ تو کیا

    اب وہم ہے یہ دنیا اس میں
    کچھ کھوؤ تو کیا اور پاؤ تو کیا

    ہے یوں بھی زیاں اور یوں بھی زیاں
    جی جاؤ تو کیا مر جاؤ تو کیا

  • معروف فن کار اطہر شاہ خان جیدی انتقال کر گئے

    معروف فن کار اطہر شاہ خان جیدی انتقال کر گئے

    کراچی: ممتاز شاعر، ڈراما نگار اور معروف فن کار اطہر شاہ خان عرف جیدی انتقال کر گئے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق فن کی دنیا کے نامور ستارے اور اپنے زمانے میں ٹی وی ناظرین کو چہرے کے تاثرات سے محظوظ کرنے والے فن کار اطہر شاہ خان جیدی طویل علالت کے بعد 77 سال کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔

    اطہر شاہ خان کے صاحب زادے نے ان کے انتقال کی تصدیق کر دی، جیدی گزشتہ چند برس سے علیل تھے اور گلستان جوہر کراچی کے ایک اسپتال میں زیر علاج تھے۔

    ان کے بیٹے ندیم شاہ نے بتایا کہ اطہر شاہ خان کو دل کا دورہ پڑنے پر فوری اسپتال لے جایا گیا تھا، تاہم وہ جاں بر نہ ہو سکے، ان کی نماز جنازہ کی ادائیگی کے وقت کا ابھی طے نہیں ہوا۔

    اطہر شاہ خان یکم جنوری 1943 کو بھارت کی ریاست رام پور میں پیدا ہوئے تھے، انھوں نے ٹی وی، اسٹیج پر بطور ڈراما نگار اپنے تخلیقی کام کا آغاز کیا، وہ اپنے ہی تخلیق کردہ مزاحیہ کردار ’’جیدی‘‘ سے پہچانے جاتے ہیں، پی ٹی وی کے پروگرام ’کشت زعفران‘ سے مزاحیہ شاعری میں بھی مقبولیت حاصل کی، اطہر شاہ خان مزاحیہ شاعری میں بھی ’’جیدی‘‘ تخلص کرتے۔

    انھوں نے پی ٹی وی پر طویل عرصے تک راج کیا، وہ ایک بہترین لکھاری بھی تھے اور انھوں نے متعدد ڈرامے لکھے، انھیں پرائیڈ آف پرفارمنس بھی مل چکا ہے جب کہ پی ٹی وی نے اپنی گولڈن جوبلی پر انھیں گولڈ میڈل بھی دیا تھا۔

    اطہر شاہ جیدی نے لاہور سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد پشاور سے سیکنڈری تک پڑھا اور پھر کراچی میں اُردو سائنس کالج سے گریجویشن کیا، بعد ازاں انھوں نے پنجاب یونی ورسٹی سے صحافت کے شعبے میں ماسٹرز کیا، ان کا شمار ٹیلی وژن کے ابتدائی ڈراما نگاروں اور فن کاروں میں کیا جاتا ہے۔

    جیدی کے مشہور ڈراما سیریلز میں انتظار فرمائیے، ہیلو ہیلو، جانے دو، برگر فیملی، آپ جناب، پرابلم ہاؤس، جیدی ان ٹربل، آشیانہ، ہائے جیدی، با ادب با ملاحظہ ہوشیار شامل ہیں، ڈراما سیریل انتظار فرمائیے میں جیدی کے کردار نے انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچایا۔

  • منصور بلوچ: لاجواب اداکاری، شان دار شخصیت

    منصور بلوچ: لاجواب اداکاری، شان دار شخصیت

    پاکستان ٹیلی ویژن کے سنہری دور میں جہاں کئی فن کار اپنی لاجواب اداکاری کے علاوہ اپنے منفرد لب و لہجے اور آواز و انداز کی وجہ سے پہچانے گئے ان میں منصور بلوچ کا نام بھی شامل ہے۔

    ٹیلی ویژن ڈراموں اور فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے منصور بلوچ تین مئی 1994 کو لاہور میں وفات پا گئے تھے۔ آج ٹیلی وژن اور فلم کے اس باکمال فن کار منصور بلوچ کی برسی ہے۔

    منصور بلوچ 1942 میں پیدا ہوئے، ان کا تعلق نواب شاہ سے تھا۔ اسی ضلع نواب شاہ کے ایک گاؤں بچھری میں انھیں‌ سپردِ خاک گیا گیا۔

    منصور بلوچ نے متعدد سندھی فلموں اور ڈراموں میں‌ کام کیا۔ ان کے فنی سفر کا آغاز ہی سندھی زبان میں بننے والی فلم سے ہوا تھا، بعد میں پاکستان ٹیلی وژن پر ڈراموں‌ میں‌ اداکاری کے جوہر دکھانے ملا اور انھوں نے ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔

    منصور بلوچ نے ٹیلی وژن کے مشہور ترین ڈراما سیریل دیواریں اور جنگل میں کردار نبھا کر خوب شہرت حاصل کی۔ ڈراما سریل دیواریں میں‌ ان کی جان دار اداکاری اور شان دار پرفارمنس یادگار ٹھہری اور پی ٹی وی ایوارڈ سے نوازے گئے۔

  • یاد دریچے سے جھانکتے عزیز حامد مدنی!

    یاد دریچے سے جھانکتے عزیز حامد مدنی!

    عزیز حامد مدنی کا شمار اردو کے جدید اور اہم شعرا میں ہوتا ہے۔ انھیں جداگانہ اسلوب کا حامل اور ایسا تخلیق کار مانا جاتا ہے جس کے موضوعات کی انفرادیت اور اظہار کا سلیقہ قابلِ توجہ ہے۔

    اردو کے معروف شاعر اور ادیب عزیز حامد مدنی کا انتقال 23 اپریل 1991 کو کراچی میں ہوا۔ آج ان کا یومِ وفات ہے۔ ان کا شمار پاکستان کے چند بہترین براڈ کاسٹروں میں ہوتا ہے۔ ادب تخلیق کرنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے نقاد کی حیثیت سے بھی پہچان بنائی۔

    عزیز حامد مدنی کا تعلق رائے پور (یوپی) سے تھا۔ انگریزی ادبیات میں ایم اے کرنے والے عزیز حامد مدنی نے قیام پاکستان کے بعد اپنی عملی زندگی کا آغاز تدریس کے شعبے سے کیا اور بعد میں ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوگئے اور ریٹائرمنٹ تک ان کی یہ وابستگی برقرار رہی۔

    ان کے شعری مجموعوں میں چشم نگراں، دشت امکاں اور نخل گماں شامل ہیں۔ عزیز حامد مدنی کا ایک شعر دیکھیے۔

    وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے
    گئے تو کیا تری بزم خیال سے بھی گئے

  • ہر دل عزیز معین اختر آج ہی کے دن ہم سے جدا ہوئے تھے

    ہر دل عزیز معین اختر آج ہی کے دن ہم سے جدا ہوئے تھے

    ہر دل عزیز فن کار معین اختر نے آج ہی کے روز اس دنیا سے ناتا توڑا تھا، اور مداح آج ان کی نویں برسی منارہے ہیں۔

    پاکستان میں پرفارمنگ آرٹ، خاص طورپر نقالی کے فن کی بات کی جائے تو معین اختر کا کوئی ثانی نہ تھا۔ اس فن کو نہایت خوبی سے اپنی شناخت کا ذریعہ بناتے ہوئے معین اختر نے صدا کاری سے ادا کاری تک اپنی صلاحیتوں کو منوایا اور شہرت کے ہفت آسمان طے کیے۔

    معین اختر جیسے فن کار صدیوں میں‌ پیدا ہوتے ہیں۔ اسٹیج سے ریڈیو تک، ریڈیو سے ٹیلی ویژن اور پھر فلم نگری تک معین اختر نے ہزاروں روپ بدلے، سیکڑوں کردار نبھائے اور وہ سبھی لازوال اور ذہنوں پر نقش ہیں۔

    انھیں ایک ایسے ورسٹائل آرٹسٹ اور باکمال فن کار کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے جس نے اس نگری کے ہر شعبے میں تخلیقی اور شان دار کام کیا۔ اسٹیج اور ٹیلی ویژن ڈراموں میں کامیڈی کے ساتھ معین اختر نے سنجیدہ کردار بھی نبھائے۔ صدا کار، ادا کار، مختلف پروگراموں کے کام یاب میزبان، گلوکار اور اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے بھی معین اختر نے اپنی قابلیت اور صلاحیتوں کو منوایا۔

    معین اختر کا تعلق کراچی سے تھا جہاں 24 دسمبر، 1950 کو آنکھ کھولی۔ اس بے مثال اداکار نے 2011 کو اسی شہر میں زندگی کا سفر تمام کیا۔

    معین اختر سولہ برس کے تھے جب اسٹیج پر پہلی پرفارمنس دی اور حاضرین کے دل جیت لیے۔ ٹیلی ویژن وہ میڈیم تھا جہاں قدم رکھتے ہی گویا ان کی شہرت کو پَر لگ گئے۔ 70 کی دہائی میں معین اختر پاکستان بھر میں پہچان بنا چکے تھے۔

    مزاحیہ شوز ففٹی ففٹی، لوز ٹاک، ہاف پلیٹ، اسٹوڈیو ڈھائی اور روزی جیسا ٹی وی پلے ان کی شان دار پرفارمنس کی وجہ بہت مقبول ہوا۔

    معین اختر کا فنی سفر 45 سال پر محیط ہے جسے ہر لحاظ سے شان دار اور متأثر کن کہا جاتا ہے۔

    پرفارمنگ آرٹ کے اس بے تاج بادشاہ نے کئی معتبر ایوارڈز اپنے نام کیے اور انھیں سرحد پار بھی بہت پسند کیا جاتا تھا۔ حکومتِ پاکستان کی جانب سے معین اختر کو ستارۂ امتیاز اور تمغۂ حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔

    معین اختر پاکستان کے ان آرٹسٹوں میں شمار ہوتے ہیں جنھوں نے دلوں پر راج کیا اور کبھی، کسی بھی روپ میں ان کے مداحوں کو ان کی پرفارمنس سے مایوسی نہیں ہوئی۔ معین اختر کے ساتھ فنِ نقالی اور اسٹیج پرفارمنس کا گویا ایک عہد بھی رخصت ہوگیا۔