Tag: برسی

  • اینا مولکا: پاکستان میں مصوری کے شعبے کا اہم نام

    اینا مولکا: پاکستان میں مصوری کے شعبے کا اہم نام

    اینا مولکا کا نام پاکستان میں مصوری اور یہاں فائن آرٹ کے شعبے میں تعلیم کے آغاز اور اسے فروغ دینے کے حوالے سے بہت اہمیت رکھتا ہے۔

    آج پاکستان کی اس نام ور مصورہ کا یومِ وفات ہے۔ اینا مولکا نے 1917 میں ایک یہودی جوڑے کے گھر میں آنکھ کھولی جو ان دنوں لندن میں مقیم تھا۔ بعد میں اینا مولکا نے اسلام قبول کر لیا اور ان کی زندگی پاکستان میں گزری۔

    اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ ابتدائی تعلیم کے بعد اینا مولکا کی زندگی میں اس وقت اہم موڑ آیا جب انھوں نے رائل کالج آف آرٹس، لندن میں داخلہ لیا۔ یہ 1935 کی بات ہے۔ یہیں ان کی ملاقات شیخ احمد سے ہوئی جو خود بھی مصور تھے اور ان کا تعلق متحدہ ہندوستان سے تھا۔

    1939 میں اینا مولکا نے کالج سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد اپنے اسی ہم جماعت شیخ احمد سے شادی کرلی اور اینا مولکا احمد بن کر ان کے ساتھ پاکستان چلی آئیں۔ شیخ احمد کے ساتھ لاہور میں رہتے ہوئے انھوں نے پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ فنونِ لطیفہ کی بنیاد رکھی۔ اینا مولکا 1940 سے 1972 تک اس شعبے کی چیئرپرسن رہیں۔

    فن کی دنیا میں اس وقت کے باذوق افراد اور ناقدین نے ان کے کام کو سراہا اور ان اسے شہرت ملی، ان کے ہاں یورپی مصوروں طرزِ فن نظر آتا ہے جس میں برش کے چھوٹے چھوٹے اسٹروکس سے تصویر مکمل کی جاتی ہے۔

    حکومتِ پاکستان نے اینا مولکا کو مصوری کے شعبے میں خدمات کے اعتراف کے طور پر تمغہ امتیاز اور صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا۔

    20 اپریل 1995 کو وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئیں۔ انھیں‌ لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں دفن کیا گیا۔

    2006 میں پاکستان کے دس بہترین مصوروں کی یاد میں جاری کیے گئے ٹکٹ میں اینا مولکا بھی کو بھی شامل کیا گیا تھا۔

  • یا رحمۃ لِلعالمیں….. مظفر وارثی کی یہ نعت پڑھیے

    یا رحمۃ لِلعالمیں….. مظفر وارثی کی یہ نعت پڑھیے

    فخرِ موجودات، معلمِ انسانیت، سیدُ الانبیا، حبیبِ کبریا حضرت محمدﷺ کی شانِ اقدس میں حاضری کے آرزو مند، دربارِ عالی شان سے اپنے بلاوے کے منتظر مظفر وارثی نے جب اس دنیائے رنگ و بُو سے منہ موڑا تو ہر آنکھ اشک بار تھی، ہر دل افسردہ، مگر ان کے سفرِ آخرت کے دوران رفقا کے لبوں‌ پر ان کی حمد، ان کی نعتیں‌ جاری رہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ہم سبھی مظفر وارثی کا کلام سنتے اور پڑھتے رہتے ہیں۔

    آج مظفر وارثی کو ہم سے بچھڑے نو برس بیت گئے۔ ان کی یہ مشہور نعت آپ سبھی نے سنی ہوگی۔

    یا رحمۃ لِلعالمیں
    الہام جامہ ہے تیرا
    قرآں عمامہ ہے تیرا
    منبر تیرا عرشِ بریں
    یا رحمۃ لِلعالمیں

    آئینۂ رحمت بدن
    سانسیں چراغِ علم و فن
    قربِ الٰہی تیرا گھر
    الفقر و فخری تیرا دھن
    خوش بُو تیری جوئے کرم
    آنکھیں تیری بابِ حرم
    نُورِ ازل تیری جبیں
    یا رحمۃ لِلعالمیں

    تیری خموشی بھی اذاں
    نیندیں بھی تیری رتجگے
    تیری حیاتِ پاک کا
    ہر لمحہ پیغمبر لگے
    خیرالبشر رُتبہ تیرا
    آوازِ حق خطبہ تیرا
    آفاق تیرے سامعیں
    یا رحمۃ لِلعالمیں

    قبضہ تیری پرچھائیں کا
    بینائی پر، ادراک پر
    قدموں کی جنبش خاک پر
    اور آہٹیں افلاک پر
    گردِ سفر تاروں کی ضو
    مرقب براقِ تیز رَو
    سائیس جبرئیلِ امیں
    یا رحمۃ لِلعالمیں

    تو آفتابِ غار بھی
    تو پرچمِ یلغار بھی
    عجز و وفا بھی، پیار بھی
    شہ زور بھی، سالار بھی
    تیری زرہ فتح و ظفر
    صدق و وفا تیری سپر
    تیغ و تبر، صبر و یقیں
    یا رحمۃ لِلعالمیں

    پھر گڈریوں کو لعل دے
    جاں پتھروں میں ڈال دے
    حاوی ہوں مستقبل پہ ہم
    ماضی سا ہم کو حال دے
    دعویٰ ہے تیری چاہ کا
    اس امتِ گُم راہ کا
    تیرے سوا کوئی نہیں
    یا رحمۃ لِلعالمیں

  • شہید بینظیر بھٹو کا مشن مکمل ہونے تک جدوجہد جاری رکھوں گا: بلاول بھٹو

    شہید بینظیر بھٹو کا مشن مکمل ہونے تک جدوجہد جاری رکھوں گا: بلاول بھٹو

    اسلام آباد: چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ شہید بینظیر بھٹو کا مشن مکمل ہونے تک جدوجہد جاری رکھوں گا، تاریخ شہید بینظیر بھٹو کی جدوجہد کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔

    تفصیلات کے مطابق چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اپنی والدہ شہید بینظیر بھٹو کی برسی پر پیغام دیتے ہوئے کہا کہ شہید بینظیر بھٹو وفاقی پاکستان کی سب سے مضبوط زنجیر تھیں۔ بینظیر کے قاتلوں نے درحقیقت اس زنجیر کو توڑنے کی سازش کی تھی۔

    بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ آصف زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر سازشیوں کے عزائم کو ناکام بنایا تھا، عوام بہادر قائد کو ہمیشہ یاد رکھیں گے جس نے سب کچھ قربان کر دیا۔ شہید بینظیر بھٹو نظریات کے لیے بڑی بہادری سے لڑیں۔ انہوں نے جیالوں کو متحد کیا اور آمر ضیا کے خلاف جدوجہد کی قیادت کی۔

    انہوں نے کہا کہ نظریات کی خاطر ہی ذوالفقار بھٹو نے پھانسی کا پھندہ گلے لگایا تھا۔ شہید بینظیر بھٹو کو قید تنہائی اور جلا وطنی کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں۔ انہوں نے آمریت کو شکست سے ہمکنار کیا۔

    بلاول کا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو نے وزیر اعظم بننے کے بعد سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا۔ بطور وزیر اعظم ملک و عوام کے لیے ترقیاتی پروگرامز شروع کیے۔ صحت، تعلیم، غربت کے خاتمے، خواتین کی بہبود اور دفاع جیسے پروگرامز کا آغاز کیا۔ بیلسٹک میزائل پروگرام نے ہمارے دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا۔ وہی جوہری پروگرام جس کی بنیاد شہید بھٹو نے عدالتی قتل سے پہلے رکھی تھی۔

    بلاول بھٹو کا مزید کہنا تھا کہ شہید بینظیر بھٹو کا مشن مکمل ہونے تک جدوجہد جاری رکھوں گا، تاریخ شہید بینظیر بھٹو کی جدوجہد کو کبھی فراموش نہیں کرے گی۔

  • در قفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے، تو فیض دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں

    در قفس پہ اندھیرے کی مہر لگتی ہے، تو فیض دل میں ستارے اترنے لگتے ہیں

    اردو کے عظیم شاعر، ادیب اور معروف صحافی فیض احمد فیض کی آج 35 ویں برسی منائی جارہی ہے، ان کی نظمیں آج بھی پسے ہوئے لیکن باغی و خود سر طبقے کی آواز ہیں۔

    13 فروری سنہ 1911 میں سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے فیض نے ابتدائی تعلیم آبائی شہر سے حاصل کی۔ بعد ازاں گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی میں ایم اے جبکہ اورینٹل کالج سے عربی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔

    فیض انجمن ترقی پسند تحریک کے فعال رکن تھے۔ سنہ 1930 میں انہوں نے لبنانی شہری ایلس سے شادی کی، ایلس شعبہ تحقیق سے وابستہ تھیں اور فیض احمد فیض کی شاعری اور شخصیت سے بے حد متاثر تھیں۔

    فیض اور ان کی اہلیہ میں ذہنی ہم آہنگی، محبت اور دوستی کا بے حد مضبوط رشتہ تھا۔ حمید اختر نے لکھا ہے کہ ایک بار ہم نے ایلس سے پوچھا، ’اپنے میاں کو ہر وقت حسیناؤں اور مداحوں کے جھرمٹ میں دیکھ کر آپ رشک و حسد کا شکار تو ضرور ہوتی ہوں گی؟‘

    مگر ایلس کا کہنا تھا، ’حمید! شاعر عشق نہیں کرے گا تو کیا ورزش کرے گا؟‘

    سنہ 1942 میں فیض فوج میں کیپٹن کی حیثیت سے شامل ہوگئے اور فوج کے محکمہ تعلقات عامہ میں کام کیا۔ 1947 میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر فوج سے استعفیٰ دے دیا۔

    فیض احمد فیض انگریزی، اردو اور پنجابی کے ساتھ ساتھ فارسی اور عربی پر بھی عبور رکھتے تھے۔ انہوں نے ان زبانوں کی کلاسیکی شاعری سے براہ راست استفادہ کیا، اردو کی کلاسیکی شاعری پر بھی ان کی گہری نگاہ تھی۔

    وہ مختلف رسالوں اور روزناموں کے مدیر بھی رہے جن میں ادب لطیف، روزنامہ پاکستان ٹائمز، روزنامہ امروز اور ہفت روزہ لیل و نہار شامل ہیں۔

    انہوں نے جب شاعری شروع کی تو اس وقت جگر مراد آبادی، فراق گورکھ پوری اور جوش ملیح آبادی جیسے قد آور شعرا موجود تھے جن کے درمیان خود کو منوانا آسان کام نہ تھا۔

    اردو شاعری میں فیض کے منفرد انداز نے انہیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا، ان کی شعری تصانیف میں نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ، شام شہر یاراں، سر وادی سینا، مرے دل مرے مسافر اور نسخہ ہائے وفا شامل ہیں۔

    9 مارچ سنہ 1951 میں فیض کو راولپنڈی سازش كیس میں گرفتار کیا گیا۔ انہوں نے 4 سال سرگودھا، ساہیوال، حیدر آباد اور كراچی كی جیل میں گزارے۔ زنداں نامہ كی بیشتر نظمیں اسی عرصہ قید میں لكھی گئیں۔

    فیض احمد فیض واحد ایشیائی شاعر تھے جنہیں 1963 میں لینن پیس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فیض کا کلام محمد رفیع، مہدی حسن، آشا بھوسلے اور جگجیت سنگھ جیسے گلوکاروں کی آوازوں میں ریکارڈ کیا جا چکا ہے۔

    ان کی شہرہ آفاق نظم ’مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ‘ ملکہ ترنم نور جہاں نے اس قدر چاہت، رچاؤ اور لگن کے ساتھ سروں میں ڈوب کر گائی تھی کہ فیض کہا کرتے تھے، یہ نظم اب میری کہاں رہی ہے یہ تو نور جہاں کی ہوگئی ہے۔

    خوبصورت لب و لہجے کی شاعری سے لاکھوں دلوں کو اسیر کرنے والے فیض 20 نومبر 1984 کو 73 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی آخری آرام گاہ لاہور میں گلبرگ کے قبرستان میں ہے۔

  • میرتقی میر کو گزرے 209 برس بیت گئے

    میرتقی میر کو گزرے 209 برس بیت گئے

    کراچی: اردو کے خدائے سخن٬ قادرالکلام اور عہد ساز شاعر میر تقی میر کو جہان فانی سے کوچ کیے 209 برس بیت چکے ہیں لیکن ان کا کلام آج بھی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ اور مقبول ہے۔

    اردو زبان کے عظیم شاعر محمد تقی المعروف میرتقی میر کو رُخصت ہوئے دو صدیوں سے زائد کا عرصہ بیت گیا، لیکن آج بھی اردو شاعری میں میر تقی میر كا مقام بہت اونچا ہے۔

    میر دریا ہے٬ سنے شعر زبانی اس کی
    اللہ اللہ رے قدرت کی روانی اس کی

    میرتقی میر 1723 میں آگرہ میں پیدا ہونے والے میر تقی میر کو ناقدین کی جانب سے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا گیا، وہ اپنے زمانے کے منفرد شاعر تھے۔

    نو برس کی عمر میں آپ کے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا تھا اور اسکے بعد شروع ہونے والی رنج و الم کی داستاں زندگی بھر کا ساتھ بن گئی۔

    اشک آنکھ میں کب نہیں آتا
    درد آتا ہے جب نہیں آتا

    والد کی وفات کے بعد آپ دلی آ گئے اور اپنی زندگی کا بڑا عرصہ وہیں گزارا اور کئی بار اس شہر کو اجڑتے دیکھا، میر نے اس المناک داستاں کا اظہار کچھ یوں کیا ہے۔

    کیا بود و باش پوچھے ہو پورب کے ساکنو
    ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے

    دلّی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب
    رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے

    جس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا
    ہم رہنے والے ہیں اسی اجڑے دیار کے

    میرتقی میر نے دہلی میں اِک جہاں کو اپنا گرویدہ کیا اور سترہ سو اڑتالیس میں لکھنؤ جا بسے۔ جہاں رُباعی، مثنوی، قصیدہ اور خصوصاً غزل گوئی کوعروجِ ادب پر پہنچا دیا۔

    میر کی شاعری میں غم والم کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہ غم میر کا ذاتی غم بھی تھا اور یہی انسان کی ازلی اور ابدی تقدیر کاغم بھی تھا۔

    مرزا اسد اللہ غالب اور میر تقی میر کی شاعری کا تقابلی جائزہ اہل ادب کے ہاں عام ہے، مگر خود غالب بھی میر کے شیدائی تھے۔

    غالب اپنا یہ عقیدہ ہے باکل ناسخ
    آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں

    اقلیم سخن کا یہ شہنشاہ بیس ستمبر اٹھارہ سو دس میں ہمیشہ کے لیے آسودہ خاک ہوگئے۔

    اب جان جسم خاک سے تنگ آگئی بہت
    کب تک اس ایک ٹوکری مٹی کو ڈھوئیے

  • قائد اعظم کی برسی، گورنرسندھ اور وزیراعلیٰ سندھ کی مزارقائد پر حاضری

    قائد اعظم کی برسی، گورنرسندھ اور وزیراعلیٰ سندھ کی مزارقائد پر حاضری

    کراچی: قائد اعظم کی برسی کے موقع پر گورنر سندھ عمران اسماعیل اور وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نےمزار قائد پر حاضری دی اور فاتحہ خوانی کی۔

    تفصیلات کے مطابق بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کا 71ویں برسی ملک بھر میں نہایت عقیدت و احترام سے منائی جا رہی ہے، قائداعظم کے یوم وفات پر گورنر اور وزیراعلیٰ سندھ نے مزار قائد پر حاضری دی۔

    مزار قائد پر حاضری کے بعد گورنر سندھ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کشمیرمیں بھارتی مظالم کی مثال دنیا میں کہیں نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑا ر ہے گا۔

    عمران اسماعیل نے کہا کہ کراچی کی بہتری کے لیے متعدد اقدامات کیے جا رہے ہیں، 18ویں ترمیم کو چیلنج کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

    گورنر سندھ نے کہا کہ کراچی کے مسائل پرقائم کمیٹی 10 سے 12 دن میں رپورٹ پیش کرے گی، کمیٹی کی رپورٹ وزیراعظم کو پیش ہوگی تو مسائل میں کمی آئے گی۔

    دوسری جانب وزیراعلیٰ سندھ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان قائداعظم کی مدبرانہ صلاحیتوں کا ثمر ہے، پاکستان کو پرامن بنانے کے لیے سب کو کردار ادا کرنا ہوگا۔

    وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ پوری قوم کشمیر کے ساتھ کھڑی ہے، ہمیشہ ساتھ رہے گی۔

    قائد اعظمؒ کی 71ویں برسی آج منائی جا رہی ہے

    واضح رہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کو علیحدہ تشخص، الگ پہچان اور ایک آزاد ملک کا تحفہ دینے والے قائدِ اعظم محمد علی جناح کی 71 ویں برسی آج عقیدت و احترام سے منائی جا رہی ہے۔

  • قائد اعظمؒ کی 71ویں برسی آج منائی جا رہی ہے

    قائد اعظمؒ کی 71ویں برسی آج منائی جا رہی ہے

    کراچی: برصغیر کے مسلمانوں کو علیحدہ تشخص، الگ پہچان اور ایک آزاد ملک کا تحفہ دینے والے قائدِ اعظم محمد علی جناح کی 71 ویں برسی آج عقیدت و احترام سے منائی جا رہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق قائد اعظم محمد علی جناح 25 دسمبر 1876 کو کراچی میں پیدا ہوئے، مسلمانوں کے حقوق اورعلیحدہ وطن کے حصول کے لیے انتھک جدوجہد نے ان کی صحت پر منفی اثرات مرتب کیے۔

    سن 1930 میں انہیں تپِ دق جیسا موزی مرض لاحق ہوا، جسے انہوں نے اپنی بہن محترمہ فاطمہ جناح اور چند قریبی رفقاء کے علاوہ سب سے پوشیدہ رکھا، قیام پاکستان کے ایک سال بعد11 ستمبر 1948 کو قائد اعظم اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔

    بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو اس جہان فانی سے گزرے اکہتر برس بیت گئے، آج ان کی 71ویں برسی منائی جائے گی۔

    اس موقع پر ملک بھر میں مختلف مقامات پر قوم کے عظیم قائد کے ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی اور فاتحہ خوانی کی جائے گی۔ کراچی میں واقع قائد اعظم کے مزار پر اہم شخصیات اور شہری حاضری دیں گے اور اپنے عظیم قائد کو خراج عقیدت پیش کریں گی۔

    قائد اعظم کے اہم اقوال

    شہریوں کے مخلتف طبقات مزار قائد پر پھولوں کی چادریں چڑھائیں گے اور فاتحہ پڑھیں گے، قائد اعظم کے یوم وفات کے سلسلے میں مختلف تنظیموں کی جانب سے ملک بھر میں سیمینارز اور دیگر تقریبات کا اہتمام کیا گیا ہے جس میں بانی پاکستان کو خراج عقیدت پیش کیا جائےگا۔

    قائد اعظم کی وفات کے 71سال بعد بھی ان کی تاریخ وفات کے موقع پر ہزاروں افراد کی ان کی لحد پر حاضری اورشہر شہرمنعقد ہونے والی تقریبات اس امر کی گواہی دیتی ہیں کہ پاکستانی قوم ان سے آج بھی والہانہ عقیدت رکھتی ہے۔

  • شہنشاہ قوالی نصرت فتح علی خان کی 22ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    شہنشاہ قوالی نصرت فتح علی خان کی 22ویں برسی آج منائی جارہی ہے

    شہنشاہ قوالی،غزل گائیک اور موسیقار استاد نصرت فتح علی خان کی بائیسویں برسی آج منائی جارہی ہے، وہ 16 اگست 1997 کو اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے۔

    نصرت فتح علی خان تیرہ اکتوبر انیس اڑتالیس کو فیصل آباد میں پیدا ہوئے، آپ کے والد کا نام فتح خان تھا وہ خود بھی نامور گلوکار اور قوال تھے، نصرت فتح علی خان نے بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

    ٹائم میگزین نے دوہزار چھ میں ایشین ہیروز کی فہرست میں ان کا نام بھی شامل کیا، بطور قوال ا اس عظیم فنکار کو کئی بین الاقوامی اعزازات سے بھی نوازا گیا۔

    قوال کی حیثیت سے ایک سو پچیس آڈیو البم ان کا ایک ایسا ریکارڈ ہے، جسے توڑنے والا شاید دوردورتک کوئی نہیں، ان کی شہرت نے انہیں گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں جگہ دلوائی، دم مست قلندر مست ، علی مولا علی ، یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے، میرا پیاگھر آیا، اللہ ہو اللہ ہو اور کینا سوہنا تینوں رب نے بنایا، جیسے البم ان کے کریڈٹ پر ہیں، ان کے نام کے ساتھ کئی یادگار قوالیاں اور گیت بھی جڑے ہیں۔

    نصرت فتح علی خان کی ایک حمد وہی خدا ہے کو بھی بہت پذیرائی ملی جبکہ ایک ملی نغمے میری پہچان پاکستان اور مقبوضہ کشمیر کے عوام کے لئے گایا گیا گیت ‘جانے کب ہوں گے کم اس دنیا کے غم’ آج بھی لوگوں کے دلوں میں بسے ہیں۔

    نصرت فتح علی خان کو ہندوستان میں بھی بے انتہا مقبولیت اور پذیرائی ملی، جہاں انہوں نے جاوید اختر، لتا منگیشکر، آشا بھوسلے اور اے آر رحمان جیسے فنکاروں کے ساتھ کام کیا۔

    یورپ میں ان کی شخصیت اور فن پر تحقیق کی گئی اور کئی کتابیں لکھی گئیں، 1992 ء میں جاپان میں شہنشاہ قوالی کے نام سے ایک کتاب شائع کی گئی اور انہیں ’’گانے والے بدھا ‘‘ کا لقب دیا گیا ۔

    نصرت فتح علی خان نے دنیا بھر میں اپنی آواز کا جادو جگایا ۔پاکستان کے ساتھ ساتھ کئی حکومتوں اور اقوام متحدہ نے ان کی شاندار فنی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں متعدد سرکاری اعزازات سے نوازا۔

    شہنشاہ قوالی نصرت فتح علی خان جگرا ور گردوں کے عارضہ سمیت مختلف امراض میں مبتلا ہونے کے باعث صرف 49سال کی عمر میں 16اگست 1997 کو اپنے کروڑوں مداحوں کو روتا چھوڑ گئے۔

  • ڈاکٹررتھ فاؤ نے بلا رنگ ونسل دکھی انسانیت کی خدمت کی، عثمان بزدار

    ڈاکٹررتھ فاؤ نے بلا رنگ ونسل دکھی انسانیت کی خدمت کی، عثمان بزدار

    لاہور: وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ  ڈاکٹر رتھ فاؤ کی ٹی بی اور جذام کے خاتمے کے لیے خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے ڈاکٹر رتھ فاؤ کی دوسری برسی پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ
    پاکستان سے جذام کے خاتمے کا سہرا ڈاکٹر رتھ فاؤ کی کاوشوں کے سرہے۔

    سردار عثمان بزدار نے کہا کہ ڈاکٹر رتھ فاؤ نے بلا رنگ و نسل دکھی انسانیت کی خدمت کی،  ڈاکٹر رتھ فاؤ کی ٹی بی اور جذام کے خاتمے کے لیے خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

    جذام کے مریضوں کی مسیحا ڈاکٹر رتھ فاؤ کو ہم سے بچھڑے دو برس بیت گئے

    پاکستان میں جذام کے مریضوں کے لیے مسیحا ڈاکٹر رتھ فاؤ کی آج دوسری برسی منائی جارہی ہے۔ جرمنی میں پیدا ہونے والی یہ عظیم خاتون 57 سال پاکستان میں مقیم رہیں اور جذام کا مرض مملکت خداد سے ختم کرنے میں سب سے کلیدی کردار ادا کیا۔

    انسانیت کی اس عظیم خادمہ کو 1998 میں اعزازی پاکستانی شہریت دی گئی جبکہ انہیں ہلال امتیاز، ستارہ قائد اعظم، ہلال پاکستان اور لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔

    لاکھوں مریضوں کے چہروں پر مسکراہٹ بکھیرنے والی ڈاکٹر رتھ فاؤ 10 اگست 2017 کو طویل علالت کے بعد انتقال کر گئی۔

    ان کی تدفین ان کی وصیت کے مطابق سرخ جوڑے میں قومی اعزاز کے ساتھ کراچی کے مسیحی قبرستان میں کی گئی۔

  • مادرملت فاطمہ جناح ایک بہادر،محب وطن بے مثال خاتون تھیں، فردوس شمیم نقوی

    مادرملت فاطمہ جناح ایک بہادر،محب وطن بے مثال خاتون تھیں، فردوس شمیم نقوی

    کراچی: سندھ اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر فردوس شمیم نقوی نے محترمہ فاطمہ جناح کی برسی کےموقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ مادرملت کی جدوجہدآزادی کے لیے خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔

    تفصیلات کے مطابق سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف فردوس شمیم نقوی نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی برسی پر انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ فاطمہ جناح نے قائداعظم کے قدم سے قدم ملا کرجدوجہد میں حصہ لیا۔

    فردوس شمیم نقوی نے کہا کہ مادرملت فاطمہ جناح ایک بہادر، محب وطن بے مثال خاتون تھیں، مادرملت کی جدوجہد آزادی کے لیے خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔

    مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کو ہم سے جدا ہوئے 52 سال ہوگئے

    واضح رہے کہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کی 52 ویں برسی آج ملک بھر میں انتہائی عقیدت واحترام اور قومی جذبے کے ساتھ منائی جا رہی ہے۔

    فاطمہ جناح قائد اعظم محمد علی جناح سے 17 سال چھوٹی تھیں لیکن قائد کی دیکھ بھال اور اُن کے سیاسی مشن کو پورا کرنے کے لیے قدم قدم پر قائد کے ساتھ ہمراہ رہیں۔

    محترمہ فاطمہ جناح نے اپنے بھائی کے شانہ بشانہ چلتے ہوئے مسلم لیگ کے خواتین ونگ کو منظم کیا اور مسلم لیگ کا پیغام خواتین کے ذریعے گھر گھر پہنچایا۔